2025اسلام کے ایک قطعی عقیدہ جہاد کی تنسیخ
انگریز کی ان وفاشعاریوں کا نتیجہ تھا کہ مرزاقادیانی نے کھلم کھلا جہاد کے منسوخ ہونے کا اعلان کر دیا۔ جہاد اسلام کا ایک مقدس دینی فریضہ ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی بقاء کا دارومدار اسی پر ہے۔ شریعت محمدی نے اسے قیامت تک اسلام اور عالم اسلام کی حفاظت اور اعلاء کلمتہ اﷲ کا ذریعہ بنایا ہے۔ قرآن کریم کی بے شمار آیات اور حضور اقدسﷺ نے بے شمار احادیث اور خود حضور اقدسﷺ اور صحابہ کرامؓ کی عملی زندگی ان کا جذبہ جہاد وشہادت یہ سب باتیں جہاد کو ہر دور میں مسلمانوں کے لئے ایک ولولہ انگیز عبادت بناتی رہیں۔ اﷲتعالیٰ کا واضح ارشاد ہے۔
’’ وقاتلوہم حتٰی لا تکون فتنۃ ویکون الدین ﷲ (بقرہ:۱۹۳) ‘‘ {اور ان کے ساتھ اس حد تک لڑو کہ فتنہ کفر وشرارت باقی نہ رہے اور دین اﷲ کا ہو جائے۔}
حضورﷺ نے ایک حدیث میں فریضہ جہاد کی تاقیامت ابدیت اس طرح ظاہر فرمائی ہے۔ ’’ لن یبرح ہذا الدین قائماً یقاتل علیہ عصابۃ من المسلمین حتی تقوم الساعۃ ‘‘
(مسلم ج۲ ص۱۴۳، باب قول لا تزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق، مشکوٰۃ ص۳۳۰، کتاب الجہاد)
’’حضورﷺ نے فرمایا ہمیشہ یہ دین قائم رہے گا اور مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت تک جہاد کرتی رہے گی۔‘‘
لیکن مرزاغلام احمد نے انگریز کے بچاؤ اور تحفظ اور عالم اسلام کو ہمیشہ ان کی طوق غلامی میں باندھنے اور کافر حکومتوں کے زیرسایہ مسلمانوں کو اپنی سیاسی اور مذہبی سازشوں کا شکار بنانے کی خاطر نہایت شدومد سے عقیدۂ جہاد کی مخالفت کی اور نہ صرف برصغیر میں بلکہ پورے عالم اسلام میں جہاں جہاں بھی اس کو ظاہر اور خفیہ سرگرمیوں کا موقعہ مل سکا جہاد کے خلاف نہایت شدت سے پروپیگنڈہ کیا گیا۔ مرزاصاحب کو جہاد حرام کرانے کی ضرورت کیا تھی۔ اس کا جواب 2026ہمیں لارڈ ریڈنگ وائسرائے ہند کے نام قادیانی جماعت کے ایڈریس مندرجہ اخبار الفضل قادیان مورخہ ۴؍جولائی ۱۹۲۱ء سے نہایت واضح طو پر مل سکتا ہے جس میں کہاگیا: ’’جس وقت آپ (مرزاغلام احمد) نے دعویٰ کیا اس وقت تمام عالم اسلام جہاد کے خیالات سے گونج رہا تھا اور عالم اسلامی کی ایسی حالت تھی کہ وہ پٹرول کے پیپہ کی طرح بھڑکنے کے لئے صرف ایک دیا سلائی کا محتاج تھا۔ مگر بانی سلسلہ نے اس خیال کی لغویت اور خلاف اسلام اور خلاف امن ہونے کے خلاف اس قدر زور سے تحریک شروع کی کہ ابھی چند سال نہیں گزرے تھے کہ گورنمنٹ کو اپنے دل میں اقرار کرنا پڑا کہ وہ سلسلہ جسے وہ امن کے لئے خطرہ کا موجب خیال کر رہی تھی اس کے لئے غیرمعمولی اعانت کا موجب تھا۔‘‘
(حوالہ بالا)
جہاد منسوخ ہونے اور دنیا سے جہاد کا حکم تاقیامت اٹھ جانے پر مرزاصاحب کس شدومد سے زور دیتے ہیں۔ ان کا اندازہ ان کی حسب ذیل عبارات سے لگایا جاسکتا ہے۔
اپنی کتاب اربعین نمبر۴ میں مرزاصاحب لکھتے ہیں: ’’جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خداتعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت۱؎ میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی اس سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیرخوار بچے بھی قتل کئے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبیﷺ کے وقت میں بچوں اور بوڑھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیاگیا اور پھر بعض قوموں کے لئے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے نجات پانا قبول کیاگیا اور پھر مسیح موعود (یعنی بزعم خود مرزاصاحب) کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا۔‘‘
(کتاب اربعین نمبر۴ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳ حاشیہ)
2027’’آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریمﷺ کی نافرمانی کرتا ہے۔ جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرمادیا ہے۔ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔ ہماری طرف سے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ نعوذ باﷲ! یہ ایک برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کتنا صریح بہتان ہے۔ مومنوں اور شیرخوار بچوں کو اگر قتل کرنا تھا تو فرعون اور اس کا لشکر۔ مرزاصاحب نے اس انداز میں یہ بات پیش کی گویا ایمان لانے کے باوجود ان شیرخوار بچوں کی بھی شریعت موسوی میں بچنے کی گنجائش نہیں تھی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا۔‘‘
(ضمیمہ خطبہ الہامیہ اشتہار چندہ منارۃ المسیح ص ذ، خزائن ج۱۶ ص۲۸،۲۹)
ضمیمہ تحفہ گولڑویہ میں مرزاصاحب کا یہ اعلان درج ہے کہ:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دین کا امام ہے
دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
اب آسماں سے نور خدا کا نزول ہے
اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۶،۲۷، خزائن ج۱۷ ص۷۷،۷۸)
نیز انگریزی حکومت کے نام ایک معروضہ میں جو ریویو آف ریلیجنز میں مرزاصاحب لکھتے ہیں: ’’یہی وہ فرقہ (یعنی مرزاصاحب کا اپنا فرقہ) ہے جو دن رات کوشش کر رہا ہے کہ مسلمانوں کے خیالات میں سے جہاد کی بیہودہ رسم کو اٹھا دے۔‘‘
(ریویو آف ریلیجنز ج۱ ص۴۹۵)
رسالہ گورنمنٹ انگریز اور جہاد میں مرزاصاحب لکھتے ہیں: ’’دیکھو میں (غلام احمد قادیانی) ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں، وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۳۲)
2028ان تمام عبارات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مرزاصاحب کے نزدیک جہاد کی مخالفت کا حکم خاص حالات سے مجبوریوں کا تقاضا نہیں بلکہ اب اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منسوخ، حرام اور ختم سمجھا جائے۔ نہ اس کے لئے شرائط پوری ہونے کا انتظار رہے، اور کسی پوشیدہ طور پر بھی اس کی تعلیم جائز نہیں۔
تریاق القلوب میں لکھتے ہیں کہ: ’’اس فرقہ (مرزائیت) میں تلوار کا جہاد بالکل نہیں۔ نہ اس کا انتظار ہے۔ بلکہ یہ مبارک فرقہ نہ ظاہر طور پر نہ پوشیدہ طور جہاد کی تعلیم ہرگز ہرگز جائز نہیں سمجھتا اور قطعاً اس بات کو حرام جانتا ہے کہ دین کی اشاعت کے لئے لڑائیاں کی جائیں۔‘‘
(تریاق القلوب اشتہار واجب الاظہار ص۱، خزائن ج۱۵ ص۵۱۸)
’’اب سے زمینی جہاد بند کئے گئے اور لڑائیوں کا خاتمہ ہوگیا۔‘‘
(ضمیمہ خطبہ الہامیہ ص ت، خزائن ج۱۶ ص۱۷)
’’سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیا گیا۔‘‘
(ضمیمہ خطبہ الہامیہ ص ت، خزائن ج۱۶ ص۱۷)