• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

2036مرزاغلام احمد اور مرزائیوں کی تبلیغی خدمات کی حقیقت

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2036مرزاغلام احمد اور مرزائیوں کی تبلیغی خدمات کی حقیقت
افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک میں قادیانیوں کے تبلیغ کے نام پر استعماری سرگرمیوں سے ان کے تبلیغ اسلام کی خدمات کی قلعی تو کھل جاتی ہے، مگر بہت سے لوگ مرزاصاحب کی خدمات کے سلسلہ میں ان کے مدافعت اسلام میں مناظرانہ بحث ومباحثہ اور علمی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے آریہ سماج اور عیسائیوں سے اسلام کے دفاع میں بڑے معرکے سر کئے اور اب بھی قادیانی دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں۔ اس لئے ان کے ساتھ غیرمسلموں جیسا سلوک نہیں کرنا چاہئے۔ اس لئے ہم اس غلط فہمی کو جس میں بالعموم تعلیم یافتہ افراد بھی مبتلا ہوتے ہیں۔ مرزاصاحب کی ایک دو عبارتوں ہی سے دور کرنا چاہتے ہیں جو بانی قادیانیت کے تبلیغی مقاصد اور نیت کو خود ہی بڑی خوبی سے عیاں کر رہی ہیں کہ انہوں نے عیسائی مشزیوں کی اشتعال انگیز تحریروں اور اسلام پر ان کے جارحانہ حملوں سے مسلمانوں کے اندر انگریزوں کے خلاف پرجوش ردعمل کا خطرہ محسوس کیا تو اس عام جوش کو دبانے کے لئے حکمت عملی کی بناء پر عیسائیوں کا کسی قدر سختی سے جواب دیا اور سخت کتابیں عیسائیوں کے خلاف لکھیں۔
تریاق القلوب مطبوعہ ضیاء الاسلام قادیان ۲۸؍اکتوبر ۱۹۰۲ء ضمیمہ ۳ بعنوان گورنمنٹ عالیہ میں ایک عاجزانہ درخواست میں مرزاغلام احمد اپنے بیس برس کی تمام علمی اور تصنیفی کاوش کا خلاصہ مسلمانوں کے دل سے جہاد اور خونی مہدی وغیرہ کے معتقدات کا ازالہ اور انگریز کی وفاداری پیدا کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’اب میں اپنی گورنمنٹ محسنہ کی خدمت میں جرأت سے کہہ سکتاہوں کہ یہ وہ بست سالہ میری خدمت ہے جس کی نظیر برٹش انڈیا میں ایک بھی اسلامی خاندان پیش 2037نہیں کر سکتا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اس قدر لمبے زمانے تک جوبیس برس کا زمانہ ہے۔ ایک مسلسل طور پر تعلیم مذکورہ بالا پر زور دیتے جانا کسی منافق اور خود غرض کا کام نہیں ہے۔ بلکہ ایسے شخص کا کام ہے۔ جس کے دل میں اس گورنمنٹ کی سچی خیرخواہی ہے۔ ہاں میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں نیک نیتی سے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے مباحث بھی کیا کرتا ہوں… جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہوگئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ نور افشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں اور ان مؤلفین نے ہمارے نبیa کی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا، زناکار تھا اور صدہا پرچوں میں یہ شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور باایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو، تب میں نے ان جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کو دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے۔ تاکہ سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بدامنی پیدا نہ ہو تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی۔ چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں بالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے کانشنس نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش رکھنے والے آدمی موجود ہیں۔ ان کے غیظ وغضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہوگا۔‘‘

(تریاق القلوب ضمیمہ نمبر۳ ص ب، ج، خزائن ج۱۵ ص۴۸۹،۴۹۰)
2038چند سطور کے بعد لکھتے ہیں:
’’سومجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوںکو خوش کیاگیا اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں سے اوّل درجے کا خیرخواہ گورنمنٹ انگریز کا ہوں۔ کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیرخواہی میں اوّل درجے پر بنادیا ہے۔ (۱)اوّل والد مرحوم کے اثر نے، (۲)دوسرا اس گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے، (۳)تیسرے خداتعالیٰ کے الہام نے۔‘‘

(تریاق القلوب ضمیمہ نمبر۳ ص ج، خزائن ج۱۵ ص۴۹۱)
دوسری بڑی وجہ مرزاصاحب کے ایسے علمی تحریرات اور مناظروں کی یہ تھی کہ وہ ابتداً اس طرح عام مسلمانوں کی عقیدت اور توجہات اپنی طرف مبذول کراتے چلے گئے اور ساتھ ہی ساتھ اسلام کے دفاع میں جن مسائل پر بحث کا بازار گرم کرتے۔ اسی میں آئندہ اپنے دعویٰ نبوت ورسالت کے لئے فضا بھی ہموار کرتے چلے گئے اور اسلام کی تبلیغ کے نام پر شکر میں لپٹی ہوئی زہر کی ایک مثال آریہ سماج سے معجزات انبیاء کے اثبات پر مرزاصاحب کا مناظرہ ہے۔ جس میں اثبات معجزات کے ضمن میں انہوں نے یہ بھی ثابت کرنا چاہا ہے کہ ہر دور اور ہرزمانہ میں معجزات کا صدور متوقع ہے۔ ظاہر ہے کہ معجزہ بنیادی طور پر نبوت ورسالت کا لازمہ ہے اور جب نبوت ورسالت حضور نبی کریمﷺ پر ختم ہوچکی تھی تو اس کے لوازمات، معجزات، وحی وغیرہ کا ہردور میں متوقع ہونا بحث ومناظروں کے پردہ میں اپنی جھوٹی نبوت کے پیش بندی نہ تھی… تو اور کیا چیز تھی؟
----------
 
Top