2039تصنیفی ذخیرہ
درحقیقت جب ہم مرزاغلام احمد کی ربع صدی کی تصنیفی وعلمی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی تمام تحریری اورتقریری سرگرمیوں کا محور صرف یہی ملتا ہے کہ انہوں نے چودہ سوسال کا ایک متفقہ، طے شدہ اجماعی ’’مسئلہ حیات ونزول مسیح‘‘ کو نشانہ تحقیق بنا کر اپنی ساری جدوجہد وفات مسیح اور مسیح موعود ہونے کے دعویٰ پر مبذول کر دی۔ مسلمانوں کو عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث اور ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ کی طرح ظلی وبروزی اور مجازی گورکھ دھندوں میں الجھانا چاہا۔ جدلیات اور سفسطوں کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر۔ یہ مرزاصاحب کے علمی وتبلیغی خدمات کا دوسرا نام ہے۔ اگر ان کی تصنیفات سے ان کے متضاد دعویٰ اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل ومباحث نکال لئے جائیں تو جو کچھ بچتا ہے وہ جہاد کی حرمت اور حکومت انگلشیہ کی اطاعت دلی وفاداری اور اخلاص کی دعوت ہے۔ جب کہ ہندوستان پہلے سے ذہنی وفکری اور سیاسی انتشار کا مرکز بنا ہوا تھا اور عالم اسلام مغرب مادہ پرست تہذیب اور خود فراموش تمدن کی لپیٹ میں تھا۔ مگر ہمیں مرزاصاحب کی تصانیف اور ’’علمی خدمات‘‘ میں انبیاء کرام کے طریق دعوت کے مطابق کوئی بھی وقیع اور کام کی بات نہیں ملتی۔ سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنے قلم اور زبان کے ذریعہ مذہبی اختلافات اور دینی جھگڑوں کے شکار ہندوستانی مسلمانوں کو مزید ذہنی انتشار اور غیرضروری مذہبی کشمکش میں ڈال کر ان کا شیرازۂ اتحاد پاش پاش کرنے کی کوشش کی۔
2040
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
(اقبال: ضرب کلیم)