• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

2053مرزائیت اور یہودیت کا باہمی اشتراک

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2053مرزائیت اور یہودیت کا باہمی اشتراک
یہ باہمی ربط وتعلق کن مشترکہ مقاصد پر مبنی ہے۔ اس کے لئے ہمیں زیادہ غور وفکر کی ضرورت نہیں۔ انگریزی سامراج کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور صیہونی استعمار بھی مغرب کا آلہ کار بن کر مسلمان بالخصوص عربوں کے لئے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ دونوں کے مقاصد اور وفاداریاں اسلام سے عداوت پاکستان دشمنی کامنطقی نتیجہ قادیانیوں اور اسرائیل کے باہمی گہرے دوستانہ تعلقات کی شکل میں برآمد ہوا۔ عالم عرب کے بعد اگر اسرائیل اپنا سب سے بڑا دشمن کسی ملک کو سمجھتا تھا تو وہ پاکستان ہی تھا۔ اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بن گوریان نے اگست ۱۹۶۷ء میں سارابوں یونیورسٹی پیرس میں جو تقریر کی وہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ بن گوریان نے کہا: ’’پاکستان دراصل ہمارا آئیڈیالوجیکل چیلنج ہے۔ بین الاقوامی، صیہونی تحریک کو کسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں رہنا چاہئے اور نہ ہی پاکستان کے خطرہ سے غفلت کرنی چاہئے۔‘‘
(آگے چل کر پاکستان اور عربوں کے باہمی رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا) کہ:
’’لہٰذا ہمیں پاکستان کے خلاف جلد سے جلد قدم اٹھانا چاہئے۔ پاکستان کا فکری سرمایہ اور جنگی قوت ہمارے لئے آگے چل کر سخت مصیبت کا باعث بن سکتا ہے۔ لہٰذا ہندوستان سے گہری دوستی ضروری ہے۔ بلکہ ہمیں اس تاریخی عناد ونفرت سے فائدہ اٹھانا چاہئے جو ہندوستان، پاکستان کے خلاف رکھتا ہے۔ یہ تایخی عناد ہمارا سرمایہ ہے۔ ہمیں پوری قوت سے بین الاقوامی دائروں کے ذریعہ سے اور بڑی طاقتوں میں اپنے نفوذ سے کام لے کر ہندوستان کی مدد کرنی اور پاکستان پر بھرپور ضرب لگانے کا انتظام کرنا چاہئے۔ یہ کام نہایت رازداری کے ساتھ اور خفیہ منصوبوں کے تحت انجام دینا چاہئے۔‘‘

(یروشلم پوسٹ ۱۹؍اگست ۱۹۶۷ئ، از روزنامہ نوائے وقت لاہور ص۱، مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۷۲ئ، ۳؍ستمبر ۱۹۷۳ئ)
2054بن گوریان نے پاکستان کے جس فکری سرمایہ اور جنگی قوت کا ذکر کیا ہے۔ وہ کون سی چیز ہے اس کا جواب ہمیں مشہور یہودی فوجی ماہر پروفیسر ہرٹر سے مل جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’پاکستانی فوج اپنے رسول محمدﷺ سے غیرمعمولی عشق رکھتی ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس نے پاکستان اور عربوں کے باہمی رشتے مستحکم کر رکھے ہیں۔ یہ صورتحال عالمی یہودیت کے لئے شدید خطرہ رکھتی ہے اور اسرائیل کی توسیع میں حائل ہورہی ہے۔ لہٰذا یہودیوں کو چاہئے کہ وہ ہر ممکن طریقے سے پاکستانیوں کے اندر سے حب رسول کا خاتمہ کریں۔‘‘
(نوائے وقت ص۶، مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۷۲ئ، نیز جزائر برطانیہ میں صیہونی تنظیموں کا آرگن جیوئش کرائیگل ۱۹؍اگست ۱۹۶۷ئ)
بن گوریان کے بیان کے پس منظر میں یہ بات تعجب خیز ہو جاتی ہے کہ پاکستان سے اس شدت سے نفرت کرنے والے اسرائیل نے ایسی جماعت کو سینے سے کیوں لگائے رکھا۔ جن کاہیڈ کوارٹر یعنی پاکستان ہی ان کے لئے نظریاتی چیلنج ہے۔ ظاہر ہے پاکستانی فوج کے فکری اساس رسول عربیﷺ سے غیرمعمولی عشق اور جنگی قوت کا راز جذبہ جہاد ختم کرنے کے لئے جو جماعت نظریہ انکار ختم نبوت اور ممانعت جہاد کی علمبردار بن کر اٹھی تھی وہی پورے عالم اسلام اور پاکستان میں ان کی منظور نظر بن سکتی تھی۔ واضح رہے کہ بہت جلد جب سامراجی طاقتوں اور صیہونیوں کو مشرقی پاکستان کی شکل میں اپنے جذبات عناد نکالنے کا موقعہ ہاتھ آیا تو اسرائیل وزیرخارجہ ابا ایبان نے نہ صرف اس تحریکِ علیحدگی کو سراہا۔ بلکہ بروقت ضروری ہتھیار بھی فراہم کرنے کی پیش کش کی۔
(ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک ج۷ ش۹ ص۸، بحوالہ ماہنامہ فلسطین بیروت جنوری ۱۹۷۲ئ)
اس تاثر کو موجودہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اس بیان سے اور زیادہ تقویت ملتی ہے۔ جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان کے عام انتخابات ۱۹۷۰ء میں اسرائیلی روپیہ پاکستان 2055آیا اور انتخابی مہم میں اس کا استعمال ہوا۔ آخر وہ روپیہ مرزائیوں کے ذریعے نہیں تو کس ذریعے سے آیا اور پاکستان کے وجود کے خلاف تل ابیب میں تیار کی گئی سازش جس کا انکشاف بھٹو صاحب نے الاہرام مصر کے ایڈیٹر حسنین ہیکل کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ کیسے پروان چڑھی جب کہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سوائے قادیانی مشنوں کے اور کوئی رابطہ نہیں تھا؟
اگر قادیانی جماعت بین الاقوامی صہیونت کی آلہ کار نہ ہوتی اور عالم اسلام اور پاکستان کے خلاف اس کا کردار نہایت گھناؤنا نہ ہوتا تو کبھی بھی اسرائیل کے دروازے ان پر نہ کھل سکتے۔ قادیانی اس بارہ میں ہزار مرتبہ تبلیغ ودعوت اسلام کے پردہ میں پناہ لینا چاہیں۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ قائم رہے گا کہ اسرائیل میں کیا یہ تبلیغ ان یہودیوں پر کی جارہی ہے جنہوں نے صیہونیت کی خاطر اپنے بلاد اور اوطان کو خیرباد کہا اور تمام عصبیتوں کے تحت اسرائیل میں اکٹھے ہوئے یا ان بچے کھچے مسلمان عربوں پر مشق تبلیغ کی جارہی ہے جو پہلے سے محمد عربیﷺ کے حلقہ بگوش ہیں اور صیہونیت کے مظالم سہ رہے ہیں۔
اسرائیل نے ۱۹۶۵ء اور پھر ۱۹۷۳ء میں عربوں پر مغربی حلیفوں کی مدد سے بھرپور جارحانہ حملہ کیا۔ جنگ چھڑی تو قادیانیوں کو اسرائیل سے باہمی روابط وتعلقات کے تقاضے پورا کرنے اور حق دوستی ادا کرنے کا موقعہ ملا اور دونوں نے عالم اسلام کے خلاف جی بھر کر اپنی تمنائیں نکالیں۔ قادیانیوں کی وساطت سے عرب گوریلا اور چھاپہ مار تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کی جاتی رہیں۔ ان تنظیموں میں مسلمان ہونے کے پردہ میں قادیانی اثر ورسوخ حاصل کر کے داخلی طور پر سبوثاژ کرتے رہے اور حالیہ عرب اسرائیل جنگوں میں وہ صیہونیوں کے ایسے وفادار بنے جیسے کہ برطانوی دور میں انگریز کے اور یہ اس لئے بھی کہ عربوں کی زبردست تباہی کے بارے میں مرزاغلام احمد کا وہ خود ساختہ الہام بھی پورا ہو جس میں عربوں کی تباہی کے بعد سلسلہ احمدیہ کی ترقی وعروج کی خبر ان الفاظ میں دی گئی جو درحقیقت الہام نہیں بلکہ الہام کے پردہ میں اپنے بیٹے کو 2056آئندہ اسلام اور عرب دشمن سازشوں کی راہ دکھائی گئی تھی۔
’’خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ… ایک عالمگیر تباہی آوے گی اور اس تمام واقعات کا مرکز ملک شام ہوگا۔ صاحبزادہ صاحب (یعنی ان کے مخاطب پیر سراج الحق قادیانی) اس وقت میرا لڑکا موعود ہوگا۔ خدا نے اس کے ساتھ ان حالات کو مقدر کر رکھا ہے۔ ان واقعات کے بعد ہمارے سلسلہ کو ترقی ہوگی اور سلاطین ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں گے تم اس موعود کو پہچان لینا۔‘‘

(تذکرہ مرزا کا مجموعہ وحی والہام مطبوعہ ربوہ ص۷۹۹، طبع سوم)
علامہ اقبال نے ایسے ہی الہامات کے بارے میں کہا تھا ؎
محکوم کے الہام سے اﷲ بچائے
غارتگر اقوام ہے وہ صورت چنگیز
مولوی مفتی محمود: جناب والا! مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا ہے۔
جناب چیئرمین: 7:20 پر دوبارہ کارروائی شروع ہوگی۔ آدھے گھنٹے کے لئے ملتوی کیا جاتا ہے۔
----------
[The Special Committee adjourned for Maghrib Prayers to re-assemble at 7:20 pm.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس مغرب کی نماز کے لئے شام سات بج کر بیس منٹ تک ملتوی کر دیا گیا)
----------
[The Special Committee re-assembled after Maghrib Prayers, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس مغرب کی نماز کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔ مسٹر چیئرمین صاحبزادہ فاروق علی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں)
----------
جناب چیئرمین: مولانا مفتی محمود!
2057مولوی مفتی محمود:
 
Top