2074تقسیم ہند کے مسلمان مخالف
اس میں شک نہیں کہ احمدیوں کے علاوہ کچھ مسلمان بھی تحریک پاکستان سے متفق نہ تھے۔ مگر مذکورہ عبارات سے بخوبی واضح ہوگیا کہ مرزائیوں کی مخالفت اور بعض مسلمان عناصر کی مخالفت میں زمین وآسمان کا فرق تھا۔ مؤخر الذکر یعنی کچھ مسلمانوں کی انفرادی مخالفت ان کے صوابدید میں مسلمانوں کے مفاد ہی کی وجہ سے تھی۔ وہ اپنی مخالفت کے اسباب اور وجوہات بیان کرتے ہوئے تقسیم کو مسلم مفاد کے حق میں نقصان رساں اور دوسرا فریق یعنی قیام پاکستان کے داعی حضرات اسے مفید سمجھتے تھے۔ گویا دونوں کو مسلمانوں کے مفاد سے اتفاق تھا۔ طریق کار کا فرق تھا یہ ایک سیاسی اختلاف تھا جو سیاسی بصیرت پر مبنی تھا۔
جنہوں نے مخالفت کی نہ تو وہ الہام کے مدعی تھے نہ کسی وحی کے۔ نہ انہوں نے اسے مشیت الٰہی اور کسی نام نہاد نبی کی بعثت کا تقاضا سمجھ کر ایسا کیا۔ ان میں سے مذہباً اور عقیدتاً دونوں کو اسلامی نظام عدل وانصاف اور اسلامی خلافت راشدہ پرایمان تھا۔ دونوں مسلمانوں ہی کی خاطر اپنے اپنے میدانوں میں سرگرم کار رہے اور بالآخر جب پاکستان بن گیا تو مخالفت کرنے والے مسلمان زعماء نے اس وقت سے لے کر اب تک اپنی ساری جدوجہد اس نوزائیدہ ریاست کے استحکام وسالمیت میں لگادی۔ مگر جہاں تک احمدیوں کا تعلق ہے ان کا تصور اکھنڈ بھارت نہ صرف سیاسی بلکہ مذہبی عقیدہ بھی تھا۔ مرزامحمود کہا کرتے کہ اﷲتعالیٰ کی مشیت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے اور یہ مرزاغلام احمد کی بعثت کا تقاضا ہے۔ اس طرح اکھنڈ بھارت کے تصور کو الہام اور مشیت ربانی کا درجہ دے کر ہر قادیانی کو مشیت الٰہی کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد کا پابند کر دیا گیا اور جن لوگوں نے (اب تک) پاکستان کی سالمیت کی خاطر اکھنڈ بھارت نہ بننے دیا خواہ وہ قائداعظم تھے یا سیاسی زعماء عوام اور خواص مرزائیوں کے عقیدہ میں گویا سب نے مشیت الٰہی کے خلاف کام کیا۔
2075احمدیوں کے ہاں اکھنڈ بھارت اس لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ سمجھتے ہوئے کسی بھی مسلمان ریاست کے مقابلہ میں غیرمسلم اسٹیٹ کو مفید مقصد سمجھتے تھے۔ آج بھی وہ پاکستان کی شکل میں ایک مسلم ریاست جس کا جغرافیائی حدود اربعہ بھی محدود ہے کے مقابلہ میں سیکولر اکھنڈ بھارت کو اپنے لئے مضبوط اور مفید سمجھتے ہیں۔ جب کہ ان کے لئے مرزاغلام احمد کی بعض پیشین گوئیوں نے اس تصور کو تقدس کا جامہ بھی پہنا دیا ہے۔