• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

2312احمدیت کی تاریخ

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
2312احمدیت کی تاریخ
اس فرقے کو سمجھنے کے لئے اس دور کا جائزہ لینا پڑے گا۔ جس میں یہ فرقہ معرض وجود میں آیا تھا۔ مرزاغلام احمد اس تحریک کے بانی تھے۔ ان کے والد مرزاغلام مرتضیٰ سکھ دربار میں تھے۔ مرزاغلام احمد ۱۳؍فروری ۱۸۳۵ء کو ضلع گورداسپور۱؎ کے ایک گاؤں (قادیان) میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم گھر پر ہی ہوئی اور وہ صرف عربی، فارسی اور اردو پڑھ سکتے تھے۔ ۱۸۶۴ء میں وہ کلرک کی حیثیت سے ڈسٹرکٹ کورٹ سیالکوٹ میں ملازم ہوئے۔ جہاں وہ چار سال کام کرتے رہے۔ بعد ازاں انہوں نے ملازمت چھوڑ دی اور اپنا وقت تصنیف وتالیف اور مذہبیات کے مطالعے میں صرف کرنے لگے، مارچ ۱۸۸۲ء میں مرزاغلام احمد نے دعویٰ کیا کہ خدا کی طرف سے انہیں الہام ہوا ہے۔ ۱۹۰۱ء میں انہوں نے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کر دیا۔
یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ اس سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے برصغیر غیرملکیوں کی محکومی میں آگیا تھا۔ مسلمانوں نے اس خطہ زمین پر آٹھ سو سال سے زائد مدت تک حکمرانی کی تھی اور معاشرے پر ان کے اثرات، کلچر پر ان کی چھاپ اور نظم ونسق میں ان کی اصلاحات ابھی تک تازہ تھیں۔ اب وہ وقت آگیا تھا کہ انحطاط کے اندرونی عمل کے علاوہ جو ان کے اقتدار کی جڑیں کھوکھلی کر رہا تھا بعض ایسی طاقتیں بھی ان کے درپے ہوگئی تھیں۔ جن پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ جو عالمی سطح پر کام کر رہی تھیں۔ مغرب میں عیسائیت اسلام کے خلاف سرگرم عمل تھیں۔ مشرق وسطیٰ میں عرب معاشرہ جو کسی زمانہ مین اپنی خوش بختی سے اسلام کا گہوارہ بنا۔ مکہ میں پیدا ہوا، مدینہ میں پروان چڑھا۔ دمشق میں روبہ زوال ہوا اور بغداد میں اس کی قبر کھد گئی۔ یہاں نظرئیے اور عمل کا ایک ایسا ملغوبہ تیار ہواجس کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ مسلمانوں کا نظریاتی انتشار شروع ہوچکا تھا اور اس سے برصغیر ہندوستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ غیرملکی جو یہاں تجارت کے لئے تھے، یہیں رہ پڑے۔ انہوں نے حصول اقتدار کے لئے سازشیں اور ریشہ دوانیاں شروع کر دیں اور بالآخر 2314اپنی حکومت قائم کر لی۔ مسلمان اس ملک کی دوسری قوموں پر اب بھی فوقیت رکھتے تھے اور وہ اس ملک پر دوبارہ حکمرانی کرنے کے خواہش مند تھے۔ اس صورتحال نے غیرملکیوں کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور انہوں نے سوچا کہ جب تک مسلمانوں کو بالکل قلاش نہ کر دیا جائے ان غیرملکیوں کے اقتدار کو دوام نہ مل سکے گا۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱؎ مدعا علیہ قادیانی کا یہ بیان قادیانی کذب کا شاہکار ہے کہ مرزا ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوا۔ قادیانی گروہ اپنے چیف گرو مرزاقادیانی کی ’’اسی سال عمر پاؤں گا‘‘ کی پیش گوئی کو سچا ثابت کرنے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوا۔ ورنہ خود مرزاقادیانی نے کتاب البریہ میں صاف طور سے لکھا ہے کہ میں ۱۸۳۹ئ،۱۸۴۰ء میں پیدا ہوا تھا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اپنی عالمگیر سلطنت اور صنعتی اعتبار سے انتہائی ترقی یافتہ معیشت کے تمام وسائل استعمال کرنے شروع کر دئیے اور دغا فریب کاکوئی حربہ باقی نہ رہنے دیا۔ ہندو آبادی نے بھی اپنے مفادات غیرملکیوں سے وابستہ کر لئے اور ان ہی مسلمانوں میں کچھ میر جعفر اور میر صادق میسر آگئے۔ مسلمانوں نے غیرملکی تسلط کے خلاف سرفروشانہ جدوجہد کی لیکن وہ اس سیلاب کے آگے بند نہ باندھ سکے۔ انیسویں صدی کے وسط میں سارا برصغیر برطانیہ کے زیرنگین آچکا تھا۔ غیرملکی حکومت کے جلو میں عیسائی مشزی بھی برصغیر میں پہنچے اور اس کے بعد مسلمانوں کے لئے ابتلاء کا ایک طویل اور صبر آزما دور شروع ہوگیا۔
 
Top