7ستمبر کا دن پاکستان کے مسلمانوں کے لئے خصوصی طور پر اور دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے عمومی طور پر ایک یاد گار اور تاریخی دن ہے ۔یہ دن جب ہر سال ستمبر کے مہینے میں لوٹ کر آتا ہے تو ہمیں اس تاریخ ساز فیصلے کی یاد دلاتا ہے جو پاکستان کی قومی اسمبلی نے عقیدۂ ختمِ نبوّت کی حقانیت کا بر ملا اور متفقہ اعلان کرتے ہوئے جاری کیا تھا ۔اسی عظیم اور تاریخ ساز فیصلے کی رو سے قادیانی نبوّت اور اس کے ماننے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا تھا ۔قومی اسمبلی نے جمہوری طریقے کے مطابق متفقہ طور پر یہ بل پاس کیا ۔عقیدۂ ختمِ نبوّت مسلمانوں کے ایمان کی اصل اور اساس ہے ۔ختمِ نبوّت کا منکر بالاتفاق دائرۂ اسلام سے خارج ہے ۔حضور اکرم ﷺ پر نبوّت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔آپ ﷺآخر الزماں ہیں ۔قرآن پاک اور احادیث میں اس کا واضح اعلان موجود ہے ۔جھوٹے مدّعیان نبوّت کا سلسلہ حضور اکرم ﷺ کے آخری دور سے شروع ہوتا ہے ۔
مگررحمن وشیطان کی جنگ تو ازل سے جاری ہے، بلکہ اس دن سے جاری ہے کہ جس روز سے ابلیس ملعون نے رب کعبہ کے حکم پر انسان کو سجدہ کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا او رحضرت انسان کو گمراہ کرنے کے عزم صمیم کا اظہار کیا۔ شیطان نے اپنے رب سے انسان کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرنے کا دعوی کیا اور اعلان کیا کہ روز قیامت اپنی تباہی و بربادی سے قبل آدم کی زیادہ سے زیادہ اولاد کو واصل جہنم کروانا چاہتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے اس نے انسانوں میں سے اپنے نمائندے چنے، جنہوں نے مختلف طریقوں سے دین حنیف پر چلنے والوں کو گمراہ کیا۔ا نہیں میں سے ایک طریقہ نبوّت کے جھوٹے دعوے کا تھا۔
یہ دعویٰ نبوّت نبی کریم ﷺکی آمد کے بعد بھی دنیا کے مختلف حصوں اور کوچوں میں جاری رہا۔ اب تلک 72کے قریب سیاہ بختوں نے نبوّت کی عظیم دیوار میں نقب لگانے کی کوشش کی۔ ان میں سے چند بدبختوں کے نام یہ ہیں : اسود، طلحہ اسدی، مسیلمہ کذّاب ، سجاح بنت حارث تمیمیہ، مختار ابن ابوعبید ثقفی، حارث کذّاب دمشقی ، مغیرہ بن سعید عجلی، بیان بن سمعان تمیمی، صالح بن ظریف برغواطی، بہاد نرید زوزانی نیشاپوری، اسحق اخرس مغربی، استاد میس خراسانی، یحییٰ بن فارس ساباطی، علی بن محمد خارجی ، یحییٰ بن زکریا ،علی بن فضل، یحییٰ ابو الطیب احمد بن حسین متنبی، حسین بن حمدان خصیمی یادورِ جدید کا محمدیوسف کذّاب۔ ان تمام کو امت مسلمہ نے بالاتفاق مسترد کردیا۔ بعض کے خلاف تو جہاد کیا ،بعض کو دیس نکالا دے ڈالا اور بعض کے خلاف تردیدی مہم چلائی ۔حضور اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق نبوّت کے ہر مدّعی کو کذّاب اور دجال قرار دے کر اسلام کی مہکتی ہوئی بستی سے کوسوں دور پھینک دیا۔ ان میں سے کئی تو اہل ایمان کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے اور گزشتہ زمانے کی ایک کہانی بن گئے۔
اسی تناظر میں ہم مرزا غلام قادیانی کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے بپا کردہ اس صدی کی عظیم تحریک کا جائزہ لیتے ہیں ۔مرزا قادیانی کسی گمنام خاندان کے فرد نہیں ؟بلکہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کا تذکرہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہے ۔ مرزا قادیانی کا خاندان سکھوں کے دور اقتدار میں بھی سکھوں کے ساتھ مل کر پنجاب کے مختلف علاقوں میں مسلمان حریت پسندوں کے خلاف شمشیر بکف رہا ۔ جب انگریز پنجاب میں آئے اور سکھ دور حکومت زوال پذیر ہوا تو مرزا قادیانی کے اسلاف انگریزوں کے ساتھ مل کر ان حریت پسندوں کے خلاف بھی نبرد آزما ہوگئے جو انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لئے مصروف جہاد تھے ۔مرزاقادیانی کے والد مرزا غلام مرتضیٰ نے رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازم رہ کر مہاراجہ کی ہر فوجی مہم میں قابل قدر خدمات سر انجام دیں ۔رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں سید احمد شہید کے حریت پسند وں کا جہاد در اصل اسی سکھ حکومت کے خلاف تھا ، اس لئے کشمیر پشاور اور ہزارہ پر سکھوں نے جتنے بھی حملے کئے ‘وہ صرف مسلمانوں کے خلاف تھے ۔ ان حملوں میں مرزا قادیانی کے والد اور بھائی غلام مرتضیٰ اور مرزا غلام قادر سکھ فوج میں ملازم ہو کر مسلمانوں کے خلاف مصروف پیکار رہے ۔مرزا غلام مرتضیٰ نے اپنی فوجی زندگی کا بیشتر حصہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کی ملازمت میں بسر کیا اور یہ وہی شیر سنگھ ہے جس کی قیادت میں بالا کوٹ کے مقام پر سید احمد شہید کے مجاہدوں کی آخری جھڑپ ہوئی ،جس میں جذبۂجہاد سے سرشار اسلام کی عظیم تحریک اسلام کے نام پر قربان ہوگئی۔
حضوراکرم ﷺ کے تاج وتخت ختمِ نبوّت پرڈاکاڈالنے کی کوشش کرنے والے طالع آزماؤں میں مرزاغلام احمدقادیانی ملعون بھی شامل تھا، جس نے سلطنت برطانیہ کے ایماپرجھوٹی نبوّت کااعلان کیااوراسلام کے عقائدپرتیشے چلانے شروع کیے،مرزا قادیانی1939یا1940میں قادیان ضلع گورداسپور میں پیدا ہوا ۔خاندانی نمک خواری کے اثرات کا اظہار بعد میں اس طرح ہوا کہ مرزاقادیانی نے بدیسی انگریزوں کے خلاف جہاد کو حرام قرار دے دیا اور انگریز کی حکومت کو اللہ کا سایہ اور خود کو اس کا خود کاشتہ پودا قرار دیا :
بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد درست ہے یا نہیں ؟سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے ،کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین واجب ہے ، اس سے جہاد کیسا ؟سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بد خواہی کرنا ایک حرامی اور بد کار آدمی کا کام ہے ۔ (شہاد ت القرآن ،ص45)
وہ تو خود 26 مئی 1908میں قضائے حاجت کے دوران طبّی موت کاشکارہوکرنشان عبرت بن گیا،مگرحکومتی سرپرستی میں یہ فتنہ نہ صرف موجود رہا، بلکہ مسلمانوں کے ایمان پرڈاکے بھی ڈالتا رہا۔ قیام پاکستان کے بعدوطن عزیز کو ہائی جیک کرنے کی بھی کوشش کی گئی، بلکہ اعلیٰ حکومتی عہدوں پربراجمان قادیانیوں نے اس ملک کواس کے اصل مقصدقیام معنی یہاں احیائے اسلام کی منزل سے دورکرنے کی بھی سعی نامشکوربرابرجاری رکھی اور انگریز کاحق نمک اداکرتے ہوئے ‘اُن کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے سرگرم ہوگئے ۔انگریزوں کے ایماء پر پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ سرظفر اللہ خان قادیانی کو بنایا گیا۔جس نے تمام ریاستی وسائل کوقادیانی ارتداد کی تبلیغ اور اقتدار پر شب خون مارنے کی سازشوں کوپروان چڑھانے پر صرف کیا۔ملک پر عملاً قادیانیوں کی حکومت تھی ۔مرزا بشیرالدین 1952میں بلوچستان کو ’’احمدی سٹیٹ ‘‘ بنانے کی پیش گوئیاں کررہا تھا۔سفاک وظالم جنرل اعظم خان نے مارشل لاء لگادیا۔بدترین ریاستی تشدد کے ذریعے ہزاروں فدائیانِ ختمِ نبوّت کو گولیوں کانشانہ بنا کر شہید کیاگیا،تمام رہنما قید کرلیے گئے۔ ان کوتشدد کے ذریعے کچل دیا گیا ۔مختلف تحریکیں جو ختمِ نبوّت کوخلافِ قانون قراردے کر ملک بھر میں ان تنظیموں کے تمام دفاتر سربمہر اور ریکارڈ قبضہ میں لے کر تلف کردیاگیا۔
اس کی ایک جھلک ان سطورمیں ملاحظہ فرمایئے
قادیانی منتخب ارکان نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان اور عوام کو نقصان پہنچانے کی کوششیں شروع کردی، وزیر خارجہ ظفر اللہ قادیانی نے 7سال کے عرصہ وزارت میں پاکستان کے اندر اور باہر قادیانیوں کی جڑوں کو خوب مضبوط کیا، پاکستان کے بیرون ملک سفارت خانوں میں چن چن کر قادیانی بھیجے گئے۔ پاکستان میں ایک نیا قادیان بسانے کے لئے ایک علیحدہ خطہ ربوہکے نام سے الاٹ کیاگیا،یوں پاکستان کے قلب میں ایک وسیع خطہ قادیانی ریاست کے لیے مخصوص ہوگیا۔ مشرقی و افریقی ممالک میں وسیع پیمانے پر مرزائی مبلغ بھیجے گئے، اورباوجوداس کے کہاگرچہ اسرائیل کی یہودی حکومت سے حکومت پاکستان کا کوئی تعلق اور رابطہ نہیں تھا، مگر تل ابیب اور حیفہ میں مرزائیوں کے مراکزقائم کیے گئے، یوں برطانیہ کا خودکاشتہ پودا نہ صرف پاکستان بلکہ تمام ممالک میں ایک تن آور درخت بنتا جارہا تھا۔ سکندر مرزا اور ایوب خاں کی غفلتوں یا چشم پوشی کی وجہ سے پاکستان کے کلیدی مناصب پرمرزائی چھا ئے ہوئے تھے۔ حکومت نے محکمۂ اوقاف کے ذریعے مسلمانوں کی تمام املاک وقف ایکٹکے تحت قبضے میں لے رکھی تھیں اور قادیانی معاشی طور پرپاکستا ن میں مضبوط ہی نہیں ہورہے تھے، مٹھی بھر مرزائی، پاکستان پر حکومت کرنے کے خواب دیکھنے لگے تھے، ساتھ ہی مسلم اکثریت کے خلاف سازشوں اوربدمعاشیوں کاسلسلہ بھی جاری تھا۔
اس عظیم فتنے کے خلاف پہلی باقاعدہ تحریک 1953میں چلائی گئی، مگرحکومتی سرپرستی میں اس تحریک کو کچلنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا اور بے دریغ خون بہا کراور ہمہ قسم ریاستی مظالم کے پہاڑ توڑکراس تحریک کواگرچہ بظاہر منزل پرنہ پہنچنے دیا گیا، لیکن ان قربانیوں نے قادیانیت اوراس کے بہی خواہوں پریہ ضرورواضح کردیاکہ حق کے قافلے کویوں بازنہیں رکھا جاسکتا، جدوجہدجاری رہی، علمائے کرام نے اپنے فرض منصبی کے تحت بلاتفریق مسلک وفرقہ عقیدۂ ختمِ نبوّت کا پرچار جاری رکھا اور رائے عامہ کواس قدر ہموار کردیا کہ ایک کال پرپوری قوم لبیک کی صدائیں لگاتی علماکے شانہ بشانہ کھڑی ہوجائے۔ دوسری طرف قادیانی بدمعاشیاں بھی روزبروزبڑھ رہی تھیں ، مگراہل اسلام کوامن کادرس دیا گیا تھا، تاکہ کسی جذباتی فیصلے یااقدام کی وجہ سے یہ دوررس محنت رائیگاں نہ چلی جائے۔ دوسری تحریک، جوبظاہرایک حادثے کاردعمل تھی، الحمدللہ منزل سے ہم کنارہوئی اورقادیانی باقاعدہ طورپرغیرمسلم اقلیت قراردیے گیے، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ:
مئی 1974کو نشتر میڈیکل کالج کے اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ طالب علموں نے ایک ٹور پر جاتے ہوئے چناب نگر ریلوے اسٹیشن پر ختمِ نبوّت زندہ باد کے نعرے لگائے واپسی میں قادیانیوں کی جانب سے چناب نگر ریلوے اسٹیشن پر ان طالب علموں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 30کے قریب طلبہ زخمی ہو ئے، ان کا قصورصرف یہ تھا کہ انہوں نے گزرتے ہوئےختمِ نبوّت زندہ بادکا نعرہ لگایاور قادیانی لٹریچر لینے سے انکار کیا تھا، جس کی پاداش میں اسٹیشن پر روک کر انہیں شدیدانسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے سے قادیانی عزائم کھل کرسامنے آگئے، یہاں تک کہ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوبھی یہ کہنے پرمجبورہوگئے:واقعہ ربوہ سنگین قومی مسئلہ ہے۔ یہ واقعہ ملک کی سا لمیت سے تعلق رکھتاہے اور در پردہ مقاصد کے کسی منصوبے کا حصہ نظر آتاہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا:قادیانی کتنے خطرناک ہیں ؟ اس کا احساس مجھے ان دنوں میں ہوا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ قادیانی مذہب کے لوگ اس قدر خوفناک ارادے رکھتے ہیں ( روززنامہ جسارت کراچی 5جون 1974ءومقالہ مولانا تاج محمود ،علوم الاسلامیہ پنجاب یونیورسٹی 1991)
کسی بھی مذہب کی شناخت کیلئے اس مذہب کے بانی کی راہنمائی، اس مذہب کی سب سے بڑی شناخت ہے۔ اس بناء پر ہر مذہب کے پیرو کار ان تعلیمات کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جو اس مذہب کے بانی کی طرف سے براہ راست دی جاتی ہیں ۔ حضرت آدم علیہ السلام کی زندگی سے ہمیں انکے مذہب کی تعلیمات ملے گی ۔
یہی وجہ ہے کہ یہودی اپنی تعلیمات کو حضرت موسٰی کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ اگر آج ان مذہب والوں سے کہے کہ آپ کی تعلیمات حضرت محمد رسول ﷺ کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہیں تو فوری طور پریہ عذر پیش کردیتے ہیں کہ ہمارے مذہب کا ان سے کیا واسطہ ہمارے لیے تو حق اور صیح بات وہ ہے جو حضرت موسٰی علیہ السلام یا حضرت عیسی علیہ السلام سے ملے اور ساری دنیا یہ عذر قبول کرتی ہے۔
اگرچہ حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام سے جو تعلیمات منسوب ہیں وہ ہزاروں واسطوں سے منسوب ہونے کی بناء پر حقانیت کے ترازو پر پورا نہیں اترتیں اور مختلف فرقوں میں بٹے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کیلئے قابل قبول نہیں ہیں ۔
اس اصول اور ضابطے کے مطابق پوری دنیا کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنا چائیے۔
کہ اس کی حقیقت اور سچائی کو پرکھنے کے لئے اسلام کے بانی شارح نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تعلیما ت کی طرف رجوع کرنا چاہیئے مگر بد قسمتی سے جس طرح دیگر تمام معاملات میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح اس معاملے میں بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کے تعین اور تشخص کے سلسلے میں حضور اکرم ﷺ کی تعلیما ت کی طرف رجوع کرنے کی بجائے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تو امریکہ اور مسلم ممالک نے اس کو امتیازی قانون قرار دیتے ہوئے اس کو واپس لینے کا مطالبہ کیا کہ جب قادیانی خود کو مسلمان کہتے ہیں تو ان کو مسلمان کہنے کیوں نہیں دیا جاتا۔
جب کہ ان کے کفر عقائد کی وجہ سے مسلم ممالک کے 140 مذہبی سکالروں اور علمائے کرام نے دلائل کی روشنی میں ان کو کافر قرار دیا تھا کوئی ان سے پوچھے کہ مسلمان کی تعر یف خاتمِ النبیّین محمد ﷺ کی تعلیمات سے ملیں گی یا مغربی ممالک اور اقوام متحد کے چارٹر سے ؟ تواس کا کوئی جواب نہیں ہے
تعصب کی آنکھ سے مسلمان کے معاملات کو دیکھ کر اس کے بارے میں فیصلہ اپنے مفادات کی روشنی میں کیا جاتا ہے کہ وہ اقوام متحد ہ کے قانون کے مطابق اپنے لوگو ں کو حقوق دیں۔
بدھ مت کے پیروکاروں کومجبور نہیں کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کو اقوام متحد کے منشو رکے مطابق ڈھالیں ۔
جاپان میں خود کشی کو مذہبی رسوم کے تحت ادا کرنے والوں کو مغرب کا کوئی قانون یا اقوام متحد کا چارٹر روکنے کی کوشش نہیں کرتا۔ مگر مسلمان پر پابندی ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تشریح اقوام متحد ہ کے مطابق کریں ورنہ افغانستان حکو مت کی طرح ان کی حکو مت کا خا تمہ کر دیا جائے گا ۔
پاکستان کی امداد روک لی جائے گی یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی امداد کو قادینوں سے متعلق قوانین کو ختم کرنے سے اور ناموس رسالت ﷺ کے قانون کو تبدیل کرنے سے مشروط کیا مندرجہ ذیل بالااصول کی روشنی میں جب ہم قادینوں کے عقائد پرنگاہ ڈالتے ہے تو وہ قرآن کریم کی دوسوآیات، نبی آخرالزمان ﷺ کی 400حادیث اور 1400سالہ اجتماعات اور عقلی دلائل کے اعتبار سے دائرہ اسلام سے خارج اور ایک الگ ملت کی حیثت سے رکھتے ہیں ۔
1-عدالت 2-عوامی رائے اور3-اسمبلی ۔
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے سلسلے میں ہم سب سے پہلے عدلیہ کے فیصلوں کو ملاحظہ کرتے ہیں :
اس سلسلے میں سب سے پہلا مقدمہ ماریش کی عدالت میں اس وقت دائر کیا گیا جب قادیانیوں نے ”روز ہل” مسجد پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روک دیا۔ اس آبادی میں 12 قادیانی جب کہ 500 مسلمان آباد تھے۔ مسلمانوں نے 26 فروری 1919کو سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ کئی سال مقدمہ چلتا رہا۔ 21 شہادتیں پیش کی گئیں ۔ دوسرے ممالک سے فریقین نے مشہور وکلاء بلائے مقدمہ میں دعوٰی کیا گیا کہ :
روز ہل کی مسجد جہاں مسلمان لوگ نماز پڑھتے تھے، یہ مسجد انہوں نے تعمیر کی تھی اور مسلسل قابض چلے آ رہے تھے، اس پر قادیانیوں نے قبضہ کر لیا، جن کا تعلق امت اسلامیہ سے نہیں ہے۔
قادیانی ہم مسلمان کو مسلمان نہیں سمجھتے، ہمارے پیچھے ان کی نماز نہیں ہوتی، ایسی صورت میں ان کو مسجد سے نکال دیا جائے۔ تفصیلی بحث کے بعد19 نومبر 1927کو چیف جج سرائے ہر چیز ووڈ نے یہ فیصلہ سنایا۔
عدالت عالیہ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ مدّعہ علیہ(قادیانی) کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ”روز ہل” مسجد میں اپنی پسند کے امام کے پیچھے نماز ادا کریں ، اس مسجد میں صرف مدّعی(مسلمان) نماز ادا کر سکیں گے، اپنے اعتقادات الگ” اس عدالت کے ایک دوسرے جج ٹی اے روز نے بھی اس فیصلے سے اتفاق کیا۔
برصغیر میں قادیانی کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے سلسلے میں پہلا مقدمہ1925میں ڈسٹرکٹ جج بہاولنگر ریاست بہاولپور میں غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش کا تینسخ نکاح کے سلسلے میں دائر ہوا، جو عبدالرازاق قادیانی کے ساتھ لاعلمی میں ہو گیا تھا،
ابتدائی فیصلے کے بعد 1932میں یہ مقدمہ دوبارہ دائر کیا گیا، اس مقدمہ میں مولانا انور شاہ کشمیری شدید علالت اور ضیعف کے باوجود آئے اور عدالت میں اپنا بیان دیا۔
7فروری1935کو عدالت نے تاریخی فیصلہ دیا” چونکہ مدّعا علیہ مرتد ہو چکا ہے، اس لئے ارتداد کی وجہ سے نکاح تنسخ ہو گیا۔
قیام پاکستان کے بعد مختلف عدالتوں کی جانب سے ابتداء ہی سے اس قسم کی عدالتوں کی جانب سے ابتداء ہی سے اس قسم کے مقدمات میں قادیونیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا، بعد ازاں بلوچستان ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ، سرحد ہائی کورٹ، سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ کی طرف سے بھی قادیانیوں کو دلائل کی بنیاد پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
اسی طرح افریقہ کی کورٹ کی جانب سے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ان کی اپیل خارج کی گئی۔ یہ تو موجودہ کے مروجہ طریقے میں عدلیہ کے جائزے کا مختصر سا فیصلہ تھا، عوامی رائے کے مطابق دنیا بھر کے ایک عرب سے زائد مسلمانوں کی متفقہ آراء اور دنیا بھر کے تمام دینی اداروں کی جانب سے متفقہ فتاوٰی کے مطابق قادیانی غیر مسلم اقلیت میں داخل ہیں ۔
مکہ مکرمہ میں ربیع الاول1974میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت ایک کانفرنس ہوئی جس میں مسلم و غیر مسلم ممالک کی 144 مسلم تنظیموں کے سکالرز اور علامئے کرام شریک ہوئے۔ جس میں قادیانی عقائد کو واضح کرکے مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا کہ ان کے ساتھ غیر مسلموں والا معاملہ کرتے ہوئے، ان کی سرگرمیوں سے مسلمانوں کو بچانے کیلئے اقدامات کریں ۔ گویا دنیا بھر کی عوامی رائے کی روشنی میں قادیانیوں کو ساتھ غیر مسلموں والا ہونا چاہئے۔
مروجہ طریقوں میں تیسرا طریقہ قومی اسمبلی کے ذریعہ فیصلہ کرنے کا ہے۔ اس سلسلے میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔ بعد ازاں قومی اسمبلی نے 7 ستمبر1974کو متفقہ طور پر آئینی بل کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت دیکر پوری دنیا کے سامنے مسئلہ کو واضح کر دیا۔ اب ان تینوں مروجہ طریقوں سے قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت ہونے کے بعد نہ قادیانیوں کیلئے یہ مناسب ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کریں ۔اور نہ ہی غیر مسلم ممالک کے این جی اوز کے نمائندوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے مسلمانوں پو ٹھونسنے کی کوشش کریں ۔
پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ قادیانی جماعت کے جھوٹے مدّعی نبوّت مرزا غلام قادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیاءکرام کی ذات پر کیچڑ اچھالی ہے ۔ اگر کوئی عیسائی یا یہودی اپنے مذہب پر صحیح معنوں میں عقیدہ کھتا ہو تو وہ کسی صورت میں قادیانیوں کی حمایت کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ یہ تو مسلمان ہی ہیں کہ اپنے پیغمبر کے تقدس کے ساتھ دیگر انبیائے کرام علیہ السلام کے تقدس اور اس عظمت کے تحفظ کے لئے سر گرم ہیں ۔
پاکستان کا استحکامِ اور قادیانیوں کےکردارکے حوالے سے چندواقعات آپ کے سامنے ہیں :
قادیانیوں کے علاقے ر بوہ میں بہشتی مقبرہ قبرستان واقعہ ہے اس قبرستان میں بڑے نامی گرامی قادیانی آنجہانی دفن ہیں ۔ مرزا بشیرالدین محمود جو سلسلہ احمدیہ میں دوسرے خلیفے کے طور پر مشہور ہے ، وہ بھی اسی جگہ دفن ہے ۔قادیانیوں نے پاکستان توڑنے کے لیے ہمیشہ اپنی کوششیں جاری رکھیں اور تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح کہہ لیں کہ انہوں نے پاکستان کے قیام کو دل سے آج تک تسلیم ہی نہیں کیا ۔ پاکستان کی سالمیت مرزائیوں کے نزدیک کیسی رہی اس کے متعلق ان کے مقبرہ ربوہ میں مدفون مرزا بشیر الدین محمود کی قبر پر نصب کتبہ دیکھ لیا جائے تو آپ اس پر یہ تحریر کندہ دیکھیں گے ۔ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ذہن میں محفوظ رہ سکا ہے کہ ایک دن پاکستان کو دوبارہ ہندوستان میں ضم ہو جانا ہے اور ایسا ہو جائے تو میرا تابوت اس مقبرے سے اکھاڑ کر قادیان میں دفن کر دیا جائے ۔
دوسرا واقعہ جو استحکامِ پاکستان کے خلاف مرزائیوں کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں جب مرزائی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو اس کی بعض منفی سرگرمیوں کی وجہ سے بھٹو صاحب نے سائنسی ریسرچ کے ادارے سے اخراج کا نوٹس بھجوایا تھا تو اس نے اپنی سرگرمیاں مزید تیز کر دی تھیں اور اسرائیل و امریکہ کے پاس اپنے ادارے کے راز برابر بھجواتا رہا ۔ جب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا تو اس وقت بھٹو کی حکومت تھی ۔ اس وقت عبدالسلام قادیانی نے اپنی نفرت کا اس طرح اظہار کیا اور یہ کہتے ہوئے میں اس سرزمین پر تھوکتا ہوں پھر خود ہی جلاوطن ہو کر ملک سے باہر چلا گیا ۔ بدقسمتی سمجھئے ایسے لوگوں کو ائمہ کفر کی آشیر باد سے پھر وطن پاکستان کی دھرتی پر آنا پڑا ۔ ایک سازش کے تحت جب اسی سائنس دان کو نوبل پرائز سے نوازا گیا تو پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق مرحوم نے بھی پاکستان کا نشانِ پاکستان اس قادیانی کے سینے پر سجا دیا ۔ اتفاق دیکھئے یہ وہی دھرتی تھی جس پر اس سائنس دان نے تھوک کر جلاوطنی اختیار کر لی تھی اور اسی دھرتی پر اس کی قوم کو غیرمسلم قرار دیا گیا تھا ، پھر اسی دھرتی پر اس کے سینے کو نشانِ پاکستان جیسے پاک تمغے سے نوازا گیا ۔
تیسرا واقعہ نوٹ فرمالیں کہ بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات پر پورا عالم اسلام اپنے افسوس و غم کا اظہار کر رہا تھا ۔ پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ سر ظفراللہ خان قادیانی تھا ۔ اس وزیر خارجہ نے بانی پاکستان کے جنازے میں شرکت نہ کی تھی ۔ 1979 میں 28 دسمبر کو چنیوٹ میں مجلس تحفظ ختمِ نبوّت کی سالانہ کانفرنس ہوئی تھی ۔ اس وقت ربوہ میں بھی قادیانی حضرات اپنا تین روزہ سالانہ جلسہ منعقد کر رہے تھے ۔ وہاں بڑے اشتہاروں پر اس وزیر خارجہ ظفراللہ خان کی تصویر چھپی ہوئی تھی اور نیچے اقرار تھا کہ :
ہاں میں نے قائداعظم کے جنازے میں شرکت نہیں کی تھی ۔ اس سے آپ سمجھیں کہ ایک کافر نے مسلمان کا جنازہ یا کافر کا جنازہ ایک مسلمان نے نہیں پڑھا ۔
گویا مرزائی حضرات اپنے زعم میں خود کو مسلمان تصور کرتے ہیں اور ان کے نزدیک باقی سب کافر ہیں ۔ دوسرے یہ کہ باقی تو مسلمان ہیں اور اپنے آپ کو ان کے مقابل دوسری قوم قرار دیتے ہیں ۔
7ستمبر 1974 کو پارلیمنٹ میں قادیانیوں کی شکست
30جون 1974کو قومی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے کی قرارداد پیش کی جس پر مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالمصطفی الازھری، پروفیسر غفور احمد، مولانا عبدالحق، چوہدری ظہور الٰہی، شیر باز خان مزاری، مولانا محمد ظفر احمد انصاری، احمد رضا قصوری، مولانا نعمت اللہ، سردار شوکت حیات، علی احمد تالپور اور رئیس عطاءمحمد خاں مری سمیت چالیس کے قریب ممبرانِ اسمبلی نے دستخط کیے۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ قادیان کے آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی نے حضور نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے بعد اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا۔ قرآنی آیات کا تمسخر اڑایا۔ جہاد کو ختم کرنے کی مذموم کوششیں کیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیانیت سامراج کی پیداوار ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اور اسلام کو جھٹلانا ہے۔ قادیانی مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اور اسلام کا ایک فرقہ ہونے کا بہانہ کرکے اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔ لہٰذا اسمبلی مرزا قادیانی کے پیروکار قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر آئینِ پاکستان میں ضروری ترمیم کرے۔
5اگست 1974کو صبح دس بجے سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خاں کی صدارت میں اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ جس میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مولانا کوثر نیازی سمیت پوری کابینہ نے شرکت کی۔ تلاوتِ قرآن مجید کے بعد قادیانی جماعت کے وفد کو جس کی سربراہی قادیانی خلیفہ مرزا ناصر کر رہا تھا، بلایا گیا۔ اسمبلی میں طے پایا گیا کہ کوئی رکن قومی اسمبلی براہِ راست مرزا ناصر سے سوال نہ کرے بلکہ وہ اپنا سوال لکھ کر اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کو دے دے جو خود مرزا ناصر سے اس بارے میں دریافت کریں گے۔ دنیا کی تاریخ میں جمہوری نظامِ حکومت کا یہ واحد واقعہ ہے کہ اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے بجائے قادیانی مذہب کے دونوں فرقوں (ربوی و لاہوری) کے سربراہوں کو اپنا اپنا موقف پیش کرنے کے لیے بلایا گیا۔ تعارفی کلمات کے بعد اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے مرزا ناصر سے قادیانی عقائد پر بحث شروع کی تو مرزا ناصر نے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 20 کے تحت ہر شہری کو مذہبی طورپر آزادی اظہار حاصل ہے۔ آپ کسی پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک شخص خود کو مسلمان بھی کہتا ہے اور اسلام کے بنیادی ارکان اور قرآنِ مجید کی متعدد آیات کا بھی منکر ہے تو کیا اس پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ اس پر مرزا ناصر مختصر خاموشی کے بعد بولا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہمیں غیرمسلم اقلیت قرار دے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ آپ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کافر، دائرہ اسلام سے خارج اور جہنمی قرار دیں ؟ مرزا ناصر نے کہا کہ ہم کسی کافر قرار نہیں دیتے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے مرزا ناصر کو اس کے دادا (آنجہانی مرزا قادیانی) اس کے والد (قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود) اور اس کے چچا (مرزا بشیر احمد ایم اے) کی اپنی تحریریں پڑھ کر سنائیں :
اور (جو) ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ۔(انوارِ اسلام صفحہ30مندرجہ روحانی خزائن جلد9 صفحہ 31 از مرزا قادیانی)
جو میرے مخالف تھے، ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا۔ (نزول المسیح (حاشیہ) صفحہ4 مندرجہ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 382 از مرزا قادیانی)
تلک کتب ینظر الیھا کل مسلم بعین المحبة والمودة وینفع من معارفھا ویقبلنی و یصدق دعوتی۔ الا ذریة البغایا
میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے مگر کنجریوں (بدکار عورتوں ) کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی۔ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ547،548 مندرجہ روحانی خزائن جلد5 صفحہ547،548 از مرزا قادیانی)
العدا صاردا خنازیر الفلا
و نساءھم من دونھن الاکلب
دشمن ہمارے بیانوں کے خنزیر ہوگئے۔ اور ان کی عورتیں کُتیوں سے بڑھ گئی ہیں ۔ (نجم الہدیٰ صفحہ53 مندرجہ روحانی خزائن جلد14صفحہ 53 از مرزا قادیانی)
ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ ؑ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰؑ کو نہیں مانتا یا عیسیٰؑ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا اور یا محمد کو مانتا ہے پر مسیح موعودؑ کو نہیں مانتاوہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ (کلمة الفصل صفحہ110 از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی)
اب معاملہ صاف ہے، اگر نبی کریم کا انکار کفر ہے تو مسیح موعودؑ کا انکار بھی کفر ہونا چاہیے۔ کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے اور اگر مسیح موعودؑ کا منکر کافر نہیں تو نعوذ باللہ نبی کریم کا منکر بھی کافر نہیں کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پہلی بعثت میں تو آپ کا انکار کفر ہو مگر دوسری بعثت میں جس میں بقول حضرت مسیح موعودؑ آپ کی روحانیت اقویٰ اور اکمل اور اشد ہے، آپ کا انکار کفر نہ ہو۔ (کلمة الفصل صفحہ146،147 از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی)
خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا، وہ مسلمان نہیں ہے۔(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 519 طبع چہارم از مرزا قادیانی)
کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ (آئینہ صداقت صفحہ35 مندرجہ انوارالعلوم جلد 6 صفحہ 110 از مرزا بشیر الدین محمود ابن مرزا قادیانی)
جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا۔ وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔ (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 280 طبع چہارم از مرزا قادیانی)
ان حوالہ جات پر مرزا ناصر نہایت شرمندہ ہوا۔ پھر اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے مرزا ناصر سے پوچھا کہ جب آپ کا نبی الگ، قرآن الگ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰة الگ ہے تو پھر آپ خود کو مسلمان کہلوانے اور شعائر اسلامی استعمال کرنے پر بضد کیوں ہیں ؟ اس پر مرزا ناصر نے کہا کہ ہماری کوئی چیز الگ نہیں ہے، ہم مسلمانوں کا ہی ایک حصہ ہیں ۔ اس پر اٹارنی جنرل نے مندرجہ ذیل حوالے پڑھ کر سنائے تو مرزا ناصر بے حد پریشان ہوا۔
کل میں نے سنا تھا کہ ایک شخص نے کہا کہ اس (قادیانی) فرقہ میں اور دوسرے لوگوں (مسلمانوں ) میں سوائے اس کے اور کچھ فرق نہیں کہ یہ لوگ وفاتِ مسیح کے قائل ہیں اور وہ لوگ وفاتِ مسیح کے قائل نہیں ۔ باقی سب عملی حالت مثلاً نماز، روزہ اور زکوٰة اور حج وہی ہیں ۔ سو سمجھنا چاہیے کہ یہ بات صحیح نہیں کہ میرا دنیا میں آنا صرف حیاتِ مسیح کی غلطی کودورکرنے کے واسطے ہے۔ اگر مسلمانوں کے درمیان صرف یہی ایک غلطی ہوتی تو اتنے کے واسطے ضرورت نہ تھی کہ ایک شخص خاص مبعوث کیا جاتا اور الگ جماعت بنائی جاتی اور ایک بڑا شور بپا کیا جاتا۔ (احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟ از مرزا قادیانی صفحہ 2)
قادیانی جماعت کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود کا کہنا ہے:
حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں (مسلمانوں ) سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے آپ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات، رسول کریم، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰة، غرض کہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ہمیں ان (مسلمانوں ) سے اختلاف ہے۔(خطبہ جمعہ مرزا بشیر الدین خلیفہ قادیان، مندرجہ اخبار الفضل قادیان، ج 19، نمبر 13، مورخہ 30 جولائی 1931)
حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے تو فرمایا ہے کہ ان (مسلمانوں ) کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور، ان کا خدا اور ہے اور ہمارا خدا اور ہے، ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور۔ اسی طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے۔ (روزنامہ الفضل قادیان 21 اگست 1917ءجلد 5 نمبر 15 ص 8)
مگررحمن وشیطان کی جنگ تو ازل سے جاری ہے، بلکہ اس دن سے جاری ہے کہ جس روز سے ابلیس ملعون نے رب کعبہ کے حکم پر انسان کو سجدہ کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا او رحضرت انسان کو گمراہ کرنے کے عزم صمیم کا اظہار کیا۔ شیطان نے اپنے رب سے انسان کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرنے کا دعوی کیا اور اعلان کیا کہ روز قیامت اپنی تباہی و بربادی سے قبل آدم کی زیادہ سے زیادہ اولاد کو واصل جہنم کروانا چاہتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے اس نے انسانوں میں سے اپنے نمائندے چنے، جنہوں نے مختلف طریقوں سے دین حنیف پر چلنے والوں کو گمراہ کیا۔ا نہیں میں سے ایک طریقہ نبوّت کے جھوٹے دعوے کا تھا۔
یہ دعویٰ نبوّت نبی کریم ﷺکی آمد کے بعد بھی دنیا کے مختلف حصوں اور کوچوں میں جاری رہا۔ اب تلک 72کے قریب سیاہ بختوں نے نبوّت کی عظیم دیوار میں نقب لگانے کی کوشش کی۔ ان میں سے چند بدبختوں کے نام یہ ہیں : اسود، طلحہ اسدی، مسیلمہ کذّاب ، سجاح بنت حارث تمیمیہ، مختار ابن ابوعبید ثقفی، حارث کذّاب دمشقی ، مغیرہ بن سعید عجلی، بیان بن سمعان تمیمی، صالح بن ظریف برغواطی، بہاد نرید زوزانی نیشاپوری، اسحق اخرس مغربی، استاد میس خراسانی، یحییٰ بن فارس ساباطی، علی بن محمد خارجی ، یحییٰ بن زکریا ،علی بن فضل، یحییٰ ابو الطیب احمد بن حسین متنبی، حسین بن حمدان خصیمی یادورِ جدید کا محمدیوسف کذّاب۔ ان تمام کو امت مسلمہ نے بالاتفاق مسترد کردیا۔ بعض کے خلاف تو جہاد کیا ،بعض کو دیس نکالا دے ڈالا اور بعض کے خلاف تردیدی مہم چلائی ۔حضور اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق نبوّت کے ہر مدّعی کو کذّاب اور دجال قرار دے کر اسلام کی مہکتی ہوئی بستی سے کوسوں دور پھینک دیا۔ ان میں سے کئی تو اہل ایمان کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے اور گزشتہ زمانے کی ایک کہانی بن گئے۔
اسی تناظر میں ہم مرزا غلام قادیانی کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے بپا کردہ اس صدی کی عظیم تحریک کا جائزہ لیتے ہیں ۔مرزا قادیانی کسی گمنام خاندان کے فرد نہیں ؟بلکہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کا تذکرہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہے ۔ مرزا قادیانی کا خاندان سکھوں کے دور اقتدار میں بھی سکھوں کے ساتھ مل کر پنجاب کے مختلف علاقوں میں مسلمان حریت پسندوں کے خلاف شمشیر بکف رہا ۔ جب انگریز پنجاب میں آئے اور سکھ دور حکومت زوال پذیر ہوا تو مرزا قادیانی کے اسلاف انگریزوں کے ساتھ مل کر ان حریت پسندوں کے خلاف بھی نبرد آزما ہوگئے جو انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لئے مصروف جہاد تھے ۔مرزاقادیانی کے والد مرزا غلام مرتضیٰ نے رنجیت سنگھ کی فوج میں ملازم رہ کر مہاراجہ کی ہر فوجی مہم میں قابل قدر خدمات سر انجام دیں ۔رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں سید احمد شہید کے حریت پسند وں کا جہاد در اصل اسی سکھ حکومت کے خلاف تھا ، اس لئے کشمیر پشاور اور ہزارہ پر سکھوں نے جتنے بھی حملے کئے ‘وہ صرف مسلمانوں کے خلاف تھے ۔ ان حملوں میں مرزا قادیانی کے والد اور بھائی غلام مرتضیٰ اور مرزا غلام قادر سکھ فوج میں ملازم ہو کر مسلمانوں کے خلاف مصروف پیکار رہے ۔مرزا غلام مرتضیٰ نے اپنی فوجی زندگی کا بیشتر حصہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کی ملازمت میں بسر کیا اور یہ وہی شیر سنگھ ہے جس کی قیادت میں بالا کوٹ کے مقام پر سید احمد شہید کے مجاہدوں کی آخری جھڑپ ہوئی ،جس میں جذبۂجہاد سے سرشار اسلام کی عظیم تحریک اسلام کے نام پر قربان ہوگئی۔
حضوراکرم ﷺ کے تاج وتخت ختمِ نبوّت پرڈاکاڈالنے کی کوشش کرنے والے طالع آزماؤں میں مرزاغلام احمدقادیانی ملعون بھی شامل تھا، جس نے سلطنت برطانیہ کے ایماپرجھوٹی نبوّت کااعلان کیااوراسلام کے عقائدپرتیشے چلانے شروع کیے،مرزا قادیانی1939یا1940میں قادیان ضلع گورداسپور میں پیدا ہوا ۔خاندانی نمک خواری کے اثرات کا اظہار بعد میں اس طرح ہوا کہ مرزاقادیانی نے بدیسی انگریزوں کے خلاف جہاد کو حرام قرار دے دیا اور انگریز کی حکومت کو اللہ کا سایہ اور خود کو اس کا خود کاشتہ پودا قرار دیا :
بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد درست ہے یا نہیں ؟سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے ،کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین واجب ہے ، اس سے جہاد کیسا ؟سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بد خواہی کرنا ایک حرامی اور بد کار آدمی کا کام ہے ۔ (شہاد ت القرآن ،ص45)
وہ تو خود 26 مئی 1908میں قضائے حاجت کے دوران طبّی موت کاشکارہوکرنشان عبرت بن گیا،مگرحکومتی سرپرستی میں یہ فتنہ نہ صرف موجود رہا، بلکہ مسلمانوں کے ایمان پرڈاکے بھی ڈالتا رہا۔ قیام پاکستان کے بعدوطن عزیز کو ہائی جیک کرنے کی بھی کوشش کی گئی، بلکہ اعلیٰ حکومتی عہدوں پربراجمان قادیانیوں نے اس ملک کواس کے اصل مقصدقیام معنی یہاں احیائے اسلام کی منزل سے دورکرنے کی بھی سعی نامشکوربرابرجاری رکھی اور انگریز کاحق نمک اداکرتے ہوئے ‘اُن کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے سرگرم ہوگئے ۔انگریزوں کے ایماء پر پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ سرظفر اللہ خان قادیانی کو بنایا گیا۔جس نے تمام ریاستی وسائل کوقادیانی ارتداد کی تبلیغ اور اقتدار پر شب خون مارنے کی سازشوں کوپروان چڑھانے پر صرف کیا۔ملک پر عملاً قادیانیوں کی حکومت تھی ۔مرزا بشیرالدین 1952میں بلوچستان کو ’’احمدی سٹیٹ ‘‘ بنانے کی پیش گوئیاں کررہا تھا۔سفاک وظالم جنرل اعظم خان نے مارشل لاء لگادیا۔بدترین ریاستی تشدد کے ذریعے ہزاروں فدائیانِ ختمِ نبوّت کو گولیوں کانشانہ بنا کر شہید کیاگیا،تمام رہنما قید کرلیے گئے۔ ان کوتشدد کے ذریعے کچل دیا گیا ۔مختلف تحریکیں جو ختمِ نبوّت کوخلافِ قانون قراردے کر ملک بھر میں ان تنظیموں کے تمام دفاتر سربمہر اور ریکارڈ قبضہ میں لے کر تلف کردیاگیا۔
اس کی ایک جھلک ان سطورمیں ملاحظہ فرمایئے
قادیانی منتخب ارکان نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان اور عوام کو نقصان پہنچانے کی کوششیں شروع کردی، وزیر خارجہ ظفر اللہ قادیانی نے 7سال کے عرصہ وزارت میں پاکستان کے اندر اور باہر قادیانیوں کی جڑوں کو خوب مضبوط کیا، پاکستان کے بیرون ملک سفارت خانوں میں چن چن کر قادیانی بھیجے گئے۔ پاکستان میں ایک نیا قادیان بسانے کے لئے ایک علیحدہ خطہ ربوہکے نام سے الاٹ کیاگیا،یوں پاکستان کے قلب میں ایک وسیع خطہ قادیانی ریاست کے لیے مخصوص ہوگیا۔ مشرقی و افریقی ممالک میں وسیع پیمانے پر مرزائی مبلغ بھیجے گئے، اورباوجوداس کے کہاگرچہ اسرائیل کی یہودی حکومت سے حکومت پاکستان کا کوئی تعلق اور رابطہ نہیں تھا، مگر تل ابیب اور حیفہ میں مرزائیوں کے مراکزقائم کیے گئے، یوں برطانیہ کا خودکاشتہ پودا نہ صرف پاکستان بلکہ تمام ممالک میں ایک تن آور درخت بنتا جارہا تھا۔ سکندر مرزا اور ایوب خاں کی غفلتوں یا چشم پوشی کی وجہ سے پاکستان کے کلیدی مناصب پرمرزائی چھا ئے ہوئے تھے۔ حکومت نے محکمۂ اوقاف کے ذریعے مسلمانوں کی تمام املاک وقف ایکٹکے تحت قبضے میں لے رکھی تھیں اور قادیانی معاشی طور پرپاکستا ن میں مضبوط ہی نہیں ہورہے تھے، مٹھی بھر مرزائی، پاکستان پر حکومت کرنے کے خواب دیکھنے لگے تھے، ساتھ ہی مسلم اکثریت کے خلاف سازشوں اوربدمعاشیوں کاسلسلہ بھی جاری تھا۔
اس عظیم فتنے کے خلاف پہلی باقاعدہ تحریک 1953میں چلائی گئی، مگرحکومتی سرپرستی میں اس تحریک کو کچلنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا اور بے دریغ خون بہا کراور ہمہ قسم ریاستی مظالم کے پہاڑ توڑکراس تحریک کواگرچہ بظاہر منزل پرنہ پہنچنے دیا گیا، لیکن ان قربانیوں نے قادیانیت اوراس کے بہی خواہوں پریہ ضرورواضح کردیاکہ حق کے قافلے کویوں بازنہیں رکھا جاسکتا، جدوجہدجاری رہی، علمائے کرام نے اپنے فرض منصبی کے تحت بلاتفریق مسلک وفرقہ عقیدۂ ختمِ نبوّت کا پرچار جاری رکھا اور رائے عامہ کواس قدر ہموار کردیا کہ ایک کال پرپوری قوم لبیک کی صدائیں لگاتی علماکے شانہ بشانہ کھڑی ہوجائے۔ دوسری طرف قادیانی بدمعاشیاں بھی روزبروزبڑھ رہی تھیں ، مگراہل اسلام کوامن کادرس دیا گیا تھا، تاکہ کسی جذباتی فیصلے یااقدام کی وجہ سے یہ دوررس محنت رائیگاں نہ چلی جائے۔ دوسری تحریک، جوبظاہرایک حادثے کاردعمل تھی، الحمدللہ منزل سے ہم کنارہوئی اورقادیانی باقاعدہ طورپرغیرمسلم اقلیت قراردیے گیے، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ:
مئی 1974کو نشتر میڈیکل کالج کے اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ طالب علموں نے ایک ٹور پر جاتے ہوئے چناب نگر ریلوے اسٹیشن پر ختمِ نبوّت زندہ باد کے نعرے لگائے واپسی میں قادیانیوں کی جانب سے چناب نگر ریلوے اسٹیشن پر ان طالب علموں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 30کے قریب طلبہ زخمی ہو ئے، ان کا قصورصرف یہ تھا کہ انہوں نے گزرتے ہوئےختمِ نبوّت زندہ بادکا نعرہ لگایاور قادیانی لٹریچر لینے سے انکار کیا تھا، جس کی پاداش میں اسٹیشن پر روک کر انہیں شدیدانسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے سے قادیانی عزائم کھل کرسامنے آگئے، یہاں تک کہ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوبھی یہ کہنے پرمجبورہوگئے:واقعہ ربوہ سنگین قومی مسئلہ ہے۔ یہ واقعہ ملک کی سا لمیت سے تعلق رکھتاہے اور در پردہ مقاصد کے کسی منصوبے کا حصہ نظر آتاہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا:قادیانی کتنے خطرناک ہیں ؟ اس کا احساس مجھے ان دنوں میں ہوا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ قادیانی مذہب کے لوگ اس قدر خوفناک ارادے رکھتے ہیں ( روززنامہ جسارت کراچی 5جون 1974ءومقالہ مولانا تاج محمود ،علوم الاسلامیہ پنجاب یونیورسٹی 1991)
کسی بھی مذہب کی شناخت کیلئے اس مذہب کے بانی کی راہنمائی، اس مذہب کی سب سے بڑی شناخت ہے۔ اس بناء پر ہر مذہب کے پیرو کار ان تعلیمات کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جو اس مذہب کے بانی کی طرف سے براہ راست دی جاتی ہیں ۔ حضرت آدم علیہ السلام کی زندگی سے ہمیں انکے مذہب کی تعلیمات ملے گی ۔
یہی وجہ ہے کہ یہودی اپنی تعلیمات کو حضرت موسٰی کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ اگر آج ان مذہب والوں سے کہے کہ آپ کی تعلیمات حضرت محمد رسول ﷺ کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہیں تو فوری طور پریہ عذر پیش کردیتے ہیں کہ ہمارے مذہب کا ان سے کیا واسطہ ہمارے لیے تو حق اور صیح بات وہ ہے جو حضرت موسٰی علیہ السلام یا حضرت عیسی علیہ السلام سے ملے اور ساری دنیا یہ عذر قبول کرتی ہے۔
اگرچہ حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام سے جو تعلیمات منسوب ہیں وہ ہزاروں واسطوں سے منسوب ہونے کی بناء پر حقانیت کے ترازو پر پورا نہیں اترتیں اور مختلف فرقوں میں بٹے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کیلئے قابل قبول نہیں ہیں ۔
اس اصول اور ضابطے کے مطابق پوری دنیا کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنا چائیے۔
کہ اس کی حقیقت اور سچائی کو پرکھنے کے لئے اسلام کے بانی شارح نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تعلیما ت کی طرف رجوع کرنا چاہیئے مگر بد قسمتی سے جس طرح دیگر تمام معاملات میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح اس معاملے میں بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کے تعین اور تشخص کے سلسلے میں حضور اکرم ﷺ کی تعلیما ت کی طرف رجوع کرنے کی بجائے اپنے مفادات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تو امریکہ اور مسلم ممالک نے اس کو امتیازی قانون قرار دیتے ہوئے اس کو واپس لینے کا مطالبہ کیا کہ جب قادیانی خود کو مسلمان کہتے ہیں تو ان کو مسلمان کہنے کیوں نہیں دیا جاتا۔
جب کہ ان کے کفر عقائد کی وجہ سے مسلم ممالک کے 140 مذہبی سکالروں اور علمائے کرام نے دلائل کی روشنی میں ان کو کافر قرار دیا تھا کوئی ان سے پوچھے کہ مسلمان کی تعر یف خاتمِ النبیّین محمد ﷺ کی تعلیمات سے ملیں گی یا مغربی ممالک اور اقوام متحد کے چارٹر سے ؟ تواس کا کوئی جواب نہیں ہے
تعصب کی آنکھ سے مسلمان کے معاملات کو دیکھ کر اس کے بارے میں فیصلہ اپنے مفادات کی روشنی میں کیا جاتا ہے کہ وہ اقوام متحد ہ کے قانون کے مطابق اپنے لوگو ں کو حقوق دیں۔
بدھ مت کے پیروکاروں کومجبور نہیں کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کو اقوام متحد کے منشو رکے مطابق ڈھالیں ۔
جاپان میں خود کشی کو مذہبی رسوم کے تحت ادا کرنے والوں کو مغرب کا کوئی قانون یا اقوام متحد کا چارٹر روکنے کی کوشش نہیں کرتا۔ مگر مسلمان پر پابندی ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تشریح اقوام متحد ہ کے مطابق کریں ورنہ افغانستان حکو مت کی طرح ان کی حکو مت کا خا تمہ کر دیا جائے گا ۔
پاکستان کی امداد روک لی جائے گی یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی امداد کو قادینوں سے متعلق قوانین کو ختم کرنے سے اور ناموس رسالت ﷺ کے قانون کو تبدیل کرنے سے مشروط کیا مندرجہ ذیل بالااصول کی روشنی میں جب ہم قادینوں کے عقائد پرنگاہ ڈالتے ہے تو وہ قرآن کریم کی دوسوآیات، نبی آخرالزمان ﷺ کی 400حادیث اور 1400سالہ اجتماعات اور عقلی دلائل کے اعتبار سے دائرہ اسلام سے خارج اور ایک الگ ملت کی حیثت سے رکھتے ہیں ۔
1-عدالت 2-عوامی رائے اور3-اسمبلی ۔
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے سلسلے میں ہم سب سے پہلے عدلیہ کے فیصلوں کو ملاحظہ کرتے ہیں :
اس سلسلے میں سب سے پہلا مقدمہ ماریش کی عدالت میں اس وقت دائر کیا گیا جب قادیانیوں نے ”روز ہل” مسجد پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روک دیا۔ اس آبادی میں 12 قادیانی جب کہ 500 مسلمان آباد تھے۔ مسلمانوں نے 26 فروری 1919کو سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ کئی سال مقدمہ چلتا رہا۔ 21 شہادتیں پیش کی گئیں ۔ دوسرے ممالک سے فریقین نے مشہور وکلاء بلائے مقدمہ میں دعوٰی کیا گیا کہ :
روز ہل کی مسجد جہاں مسلمان لوگ نماز پڑھتے تھے، یہ مسجد انہوں نے تعمیر کی تھی اور مسلسل قابض چلے آ رہے تھے، اس پر قادیانیوں نے قبضہ کر لیا، جن کا تعلق امت اسلامیہ سے نہیں ہے۔
قادیانی ہم مسلمان کو مسلمان نہیں سمجھتے، ہمارے پیچھے ان کی نماز نہیں ہوتی، ایسی صورت میں ان کو مسجد سے نکال دیا جائے۔ تفصیلی بحث کے بعد19 نومبر 1927کو چیف جج سرائے ہر چیز ووڈ نے یہ فیصلہ سنایا۔
عدالت عالیہ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ مدّعہ علیہ(قادیانی) کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ”روز ہل” مسجد میں اپنی پسند کے امام کے پیچھے نماز ادا کریں ، اس مسجد میں صرف مدّعی(مسلمان) نماز ادا کر سکیں گے، اپنے اعتقادات الگ” اس عدالت کے ایک دوسرے جج ٹی اے روز نے بھی اس فیصلے سے اتفاق کیا۔
برصغیر میں قادیانی کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے سلسلے میں پہلا مقدمہ1925میں ڈسٹرکٹ جج بہاولنگر ریاست بہاولپور میں غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش کا تینسخ نکاح کے سلسلے میں دائر ہوا، جو عبدالرازاق قادیانی کے ساتھ لاعلمی میں ہو گیا تھا،
ابتدائی فیصلے کے بعد 1932میں یہ مقدمہ دوبارہ دائر کیا گیا، اس مقدمہ میں مولانا انور شاہ کشمیری شدید علالت اور ضیعف کے باوجود آئے اور عدالت میں اپنا بیان دیا۔
7فروری1935کو عدالت نے تاریخی فیصلہ دیا” چونکہ مدّعا علیہ مرتد ہو چکا ہے، اس لئے ارتداد کی وجہ سے نکاح تنسخ ہو گیا۔
قیام پاکستان کے بعد مختلف عدالتوں کی جانب سے ابتداء ہی سے اس قسم کی عدالتوں کی جانب سے ابتداء ہی سے اس قسم کے مقدمات میں قادیونیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا، بعد ازاں بلوچستان ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ، سرحد ہائی کورٹ، سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ کی طرف سے بھی قادیانیوں کو دلائل کی بنیاد پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
اسی طرح افریقہ کی کورٹ کی جانب سے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ان کی اپیل خارج کی گئی۔ یہ تو موجودہ کے مروجہ طریقے میں عدلیہ کے جائزے کا مختصر سا فیصلہ تھا، عوامی رائے کے مطابق دنیا بھر کے ایک عرب سے زائد مسلمانوں کی متفقہ آراء اور دنیا بھر کے تمام دینی اداروں کی جانب سے متفقہ فتاوٰی کے مطابق قادیانی غیر مسلم اقلیت میں داخل ہیں ۔
مکہ مکرمہ میں ربیع الاول1974میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت ایک کانفرنس ہوئی جس میں مسلم و غیر مسلم ممالک کی 144 مسلم تنظیموں کے سکالرز اور علامئے کرام شریک ہوئے۔ جس میں قادیانی عقائد کو واضح کرکے مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا کہ ان کے ساتھ غیر مسلموں والا معاملہ کرتے ہوئے، ان کی سرگرمیوں سے مسلمانوں کو بچانے کیلئے اقدامات کریں ۔ گویا دنیا بھر کی عوامی رائے کی روشنی میں قادیانیوں کو ساتھ غیر مسلموں والا ہونا چاہئے۔
مروجہ طریقوں میں تیسرا طریقہ قومی اسمبلی کے ذریعہ فیصلہ کرنے کا ہے۔ اس سلسلے میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔ بعد ازاں قومی اسمبلی نے 7 ستمبر1974کو متفقہ طور پر آئینی بل کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت دیکر پوری دنیا کے سامنے مسئلہ کو واضح کر دیا۔ اب ان تینوں مروجہ طریقوں سے قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت ہونے کے بعد نہ قادیانیوں کیلئے یہ مناسب ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کریں ۔اور نہ ہی غیر مسلم ممالک کے این جی اوز کے نمائندوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے مسلمانوں پو ٹھونسنے کی کوشش کریں ۔
پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ قادیانی جماعت کے جھوٹے مدّعی نبوّت مرزا غلام قادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیاءکرام کی ذات پر کیچڑ اچھالی ہے ۔ اگر کوئی عیسائی یا یہودی اپنے مذہب پر صحیح معنوں میں عقیدہ کھتا ہو تو وہ کسی صورت میں قادیانیوں کی حمایت کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ یہ تو مسلمان ہی ہیں کہ اپنے پیغمبر کے تقدس کے ساتھ دیگر انبیائے کرام علیہ السلام کے تقدس اور اس عظمت کے تحفظ کے لئے سر گرم ہیں ۔
پاکستان کا استحکامِ اور قادیانیوں کےکردارکے حوالے سے چندواقعات آپ کے سامنے ہیں :
قادیانیوں کے علاقے ر بوہ میں بہشتی مقبرہ قبرستان واقعہ ہے اس قبرستان میں بڑے نامی گرامی قادیانی آنجہانی دفن ہیں ۔ مرزا بشیرالدین محمود جو سلسلہ احمدیہ میں دوسرے خلیفے کے طور پر مشہور ہے ، وہ بھی اسی جگہ دفن ہے ۔قادیانیوں نے پاکستان توڑنے کے لیے ہمیشہ اپنی کوششیں جاری رکھیں اور تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح کہہ لیں کہ انہوں نے پاکستان کے قیام کو دل سے آج تک تسلیم ہی نہیں کیا ۔ پاکستان کی سالمیت مرزائیوں کے نزدیک کیسی رہی اس کے متعلق ان کے مقبرہ ربوہ میں مدفون مرزا بشیر الدین محمود کی قبر پر نصب کتبہ دیکھ لیا جائے تو آپ اس پر یہ تحریر کندہ دیکھیں گے ۔ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ذہن میں محفوظ رہ سکا ہے کہ ایک دن پاکستان کو دوبارہ ہندوستان میں ضم ہو جانا ہے اور ایسا ہو جائے تو میرا تابوت اس مقبرے سے اکھاڑ کر قادیان میں دفن کر دیا جائے ۔
دوسرا واقعہ جو استحکامِ پاکستان کے خلاف مرزائیوں کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں جب مرزائی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو اس کی بعض منفی سرگرمیوں کی وجہ سے بھٹو صاحب نے سائنسی ریسرچ کے ادارے سے اخراج کا نوٹس بھجوایا تھا تو اس نے اپنی سرگرمیاں مزید تیز کر دی تھیں اور اسرائیل و امریکہ کے پاس اپنے ادارے کے راز برابر بھجواتا رہا ۔ جب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا تو اس وقت بھٹو کی حکومت تھی ۔ اس وقت عبدالسلام قادیانی نے اپنی نفرت کا اس طرح اظہار کیا اور یہ کہتے ہوئے میں اس سرزمین پر تھوکتا ہوں پھر خود ہی جلاوطن ہو کر ملک سے باہر چلا گیا ۔ بدقسمتی سمجھئے ایسے لوگوں کو ائمہ کفر کی آشیر باد سے پھر وطن پاکستان کی دھرتی پر آنا پڑا ۔ ایک سازش کے تحت جب اسی سائنس دان کو نوبل پرائز سے نوازا گیا تو پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق مرحوم نے بھی پاکستان کا نشانِ پاکستان اس قادیانی کے سینے پر سجا دیا ۔ اتفاق دیکھئے یہ وہی دھرتی تھی جس پر اس سائنس دان نے تھوک کر جلاوطنی اختیار کر لی تھی اور اسی دھرتی پر اس کی قوم کو غیرمسلم قرار دیا گیا تھا ، پھر اسی دھرتی پر اس کے سینے کو نشانِ پاکستان جیسے پاک تمغے سے نوازا گیا ۔
تیسرا واقعہ نوٹ فرمالیں کہ بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات پر پورا عالم اسلام اپنے افسوس و غم کا اظہار کر رہا تھا ۔ پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ سر ظفراللہ خان قادیانی تھا ۔ اس وزیر خارجہ نے بانی پاکستان کے جنازے میں شرکت نہ کی تھی ۔ 1979 میں 28 دسمبر کو چنیوٹ میں مجلس تحفظ ختمِ نبوّت کی سالانہ کانفرنس ہوئی تھی ۔ اس وقت ربوہ میں بھی قادیانی حضرات اپنا تین روزہ سالانہ جلسہ منعقد کر رہے تھے ۔ وہاں بڑے اشتہاروں پر اس وزیر خارجہ ظفراللہ خان کی تصویر چھپی ہوئی تھی اور نیچے اقرار تھا کہ :
ہاں میں نے قائداعظم کے جنازے میں شرکت نہیں کی تھی ۔ اس سے آپ سمجھیں کہ ایک کافر نے مسلمان کا جنازہ یا کافر کا جنازہ ایک مسلمان نے نہیں پڑھا ۔
گویا مرزائی حضرات اپنے زعم میں خود کو مسلمان تصور کرتے ہیں اور ان کے نزدیک باقی سب کافر ہیں ۔ دوسرے یہ کہ باقی تو مسلمان ہیں اور اپنے آپ کو ان کے مقابل دوسری قوم قرار دیتے ہیں ۔
7ستمبر 1974 کو پارلیمنٹ میں قادیانیوں کی شکست
30جون 1974کو قومی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے کی قرارداد پیش کی جس پر مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالمصطفی الازھری، پروفیسر غفور احمد، مولانا عبدالحق، چوہدری ظہور الٰہی، شیر باز خان مزاری، مولانا محمد ظفر احمد انصاری، احمد رضا قصوری، مولانا نعمت اللہ، سردار شوکت حیات، علی احمد تالپور اور رئیس عطاءمحمد خاں مری سمیت چالیس کے قریب ممبرانِ اسمبلی نے دستخط کیے۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ قادیان کے آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی نے حضور نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے بعد اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا۔ قرآنی آیات کا تمسخر اڑایا۔ جہاد کو ختم کرنے کی مذموم کوششیں کیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیانیت سامراج کی پیداوار ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اور اسلام کو جھٹلانا ہے۔ قادیانی مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اور اسلام کا ایک فرقہ ہونے کا بہانہ کرکے اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔ لہٰذا اسمبلی مرزا قادیانی کے پیروکار قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر آئینِ پاکستان میں ضروری ترمیم کرے۔
5اگست 1974کو صبح دس بجے سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خاں کی صدارت میں اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ جس میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مولانا کوثر نیازی سمیت پوری کابینہ نے شرکت کی۔ تلاوتِ قرآن مجید کے بعد قادیانی جماعت کے وفد کو جس کی سربراہی قادیانی خلیفہ مرزا ناصر کر رہا تھا، بلایا گیا۔ اسمبلی میں طے پایا گیا کہ کوئی رکن قومی اسمبلی براہِ راست مرزا ناصر سے سوال نہ کرے بلکہ وہ اپنا سوال لکھ کر اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کو دے دے جو خود مرزا ناصر سے اس بارے میں دریافت کریں گے۔ دنیا کی تاریخ میں جمہوری نظامِ حکومت کا یہ واحد واقعہ ہے کہ اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے بجائے قادیانی مذہب کے دونوں فرقوں (ربوی و لاہوری) کے سربراہوں کو اپنا اپنا موقف پیش کرنے کے لیے بلایا گیا۔ تعارفی کلمات کے بعد اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے مرزا ناصر سے قادیانی عقائد پر بحث شروع کی تو مرزا ناصر نے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 20 کے تحت ہر شہری کو مذہبی طورپر آزادی اظہار حاصل ہے۔ آپ کسی پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک شخص خود کو مسلمان بھی کہتا ہے اور اسلام کے بنیادی ارکان اور قرآنِ مجید کی متعدد آیات کا بھی منکر ہے تو کیا اس پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ اس پر مرزا ناصر مختصر خاموشی کے بعد بولا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہمیں غیرمسلم اقلیت قرار دے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ آپ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کافر، دائرہ اسلام سے خارج اور جہنمی قرار دیں ؟ مرزا ناصر نے کہا کہ ہم کسی کافر قرار نہیں دیتے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے مرزا ناصر کو اس کے دادا (آنجہانی مرزا قادیانی) اس کے والد (قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود) اور اس کے چچا (مرزا بشیر احمد ایم اے) کی اپنی تحریریں پڑھ کر سنائیں :
اور (جو) ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ۔(انوارِ اسلام صفحہ30مندرجہ روحانی خزائن جلد9 صفحہ 31 از مرزا قادیانی)
جو میرے مخالف تھے، ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا۔ (نزول المسیح (حاشیہ) صفحہ4 مندرجہ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 382 از مرزا قادیانی)
تلک کتب ینظر الیھا کل مسلم بعین المحبة والمودة وینفع من معارفھا ویقبلنی و یصدق دعوتی۔ الا ذریة البغایا
میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے مگر کنجریوں (بدکار عورتوں ) کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی۔ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ547،548 مندرجہ روحانی خزائن جلد5 صفحہ547،548 از مرزا قادیانی)
العدا صاردا خنازیر الفلا
و نساءھم من دونھن الاکلب
دشمن ہمارے بیانوں کے خنزیر ہوگئے۔ اور ان کی عورتیں کُتیوں سے بڑھ گئی ہیں ۔ (نجم الہدیٰ صفحہ53 مندرجہ روحانی خزائن جلد14صفحہ 53 از مرزا قادیانی)
ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ ؑ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰؑ کو نہیں مانتا یا عیسیٰؑ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا اور یا محمد کو مانتا ہے پر مسیح موعودؑ کو نہیں مانتاوہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ (کلمة الفصل صفحہ110 از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی)
اب معاملہ صاف ہے، اگر نبی کریم کا انکار کفر ہے تو مسیح موعودؑ کا انکار بھی کفر ہونا چاہیے۔ کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ وہی ہے اور اگر مسیح موعودؑ کا منکر کافر نہیں تو نعوذ باللہ نبی کریم کا منکر بھی کافر نہیں کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پہلی بعثت میں تو آپ کا انکار کفر ہو مگر دوسری بعثت میں جس میں بقول حضرت مسیح موعودؑ آپ کی روحانیت اقویٰ اور اکمل اور اشد ہے، آپ کا انکار کفر نہ ہو۔ (کلمة الفصل صفحہ146،147 از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی)
خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا، وہ مسلمان نہیں ہے۔(تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 519 طبع چہارم از مرزا قادیانی)
کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ (آئینہ صداقت صفحہ35 مندرجہ انوارالعلوم جلد 6 صفحہ 110 از مرزا بشیر الدین محمود ابن مرزا قادیانی)
جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا۔ وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔ (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ 280 طبع چہارم از مرزا قادیانی)
ان حوالہ جات پر مرزا ناصر نہایت شرمندہ ہوا۔ پھر اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے مرزا ناصر سے پوچھا کہ جب آپ کا نبی الگ، قرآن الگ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰة الگ ہے تو پھر آپ خود کو مسلمان کہلوانے اور شعائر اسلامی استعمال کرنے پر بضد کیوں ہیں ؟ اس پر مرزا ناصر نے کہا کہ ہماری کوئی چیز الگ نہیں ہے، ہم مسلمانوں کا ہی ایک حصہ ہیں ۔ اس پر اٹارنی جنرل نے مندرجہ ذیل حوالے پڑھ کر سنائے تو مرزا ناصر بے حد پریشان ہوا۔
کل میں نے سنا تھا کہ ایک شخص نے کہا کہ اس (قادیانی) فرقہ میں اور دوسرے لوگوں (مسلمانوں ) میں سوائے اس کے اور کچھ فرق نہیں کہ یہ لوگ وفاتِ مسیح کے قائل ہیں اور وہ لوگ وفاتِ مسیح کے قائل نہیں ۔ باقی سب عملی حالت مثلاً نماز، روزہ اور زکوٰة اور حج وہی ہیں ۔ سو سمجھنا چاہیے کہ یہ بات صحیح نہیں کہ میرا دنیا میں آنا صرف حیاتِ مسیح کی غلطی کودورکرنے کے واسطے ہے۔ اگر مسلمانوں کے درمیان صرف یہی ایک غلطی ہوتی تو اتنے کے واسطے ضرورت نہ تھی کہ ایک شخص خاص مبعوث کیا جاتا اور الگ جماعت بنائی جاتی اور ایک بڑا شور بپا کیا جاتا۔ (احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟ از مرزا قادیانی صفحہ 2)
قادیانی جماعت کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود کا کہنا ہے:
حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں (مسلمانوں ) سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے آپ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات، رسول کریم، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰة، غرض کہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ہمیں ان (مسلمانوں ) سے اختلاف ہے۔(خطبہ جمعہ مرزا بشیر الدین خلیفہ قادیان، مندرجہ اخبار الفضل قادیان، ج 19، نمبر 13، مورخہ 30 جولائی 1931)
حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے تو فرمایا ہے کہ ان (مسلمانوں ) کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور، ان کا خدا اور ہے اور ہمارا خدا اور ہے، ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور۔ اسی طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے۔ (روزنامہ الفضل قادیان 21 اگست 1917ءجلد 5 نمبر 15 ص 8)