• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

CROSS- EXAMINATION OF THE QADIANI GROUP DELEGATION (قادیانی وفد پر جرح)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
CROSS- EXAMINATION OF THE QADIANI GROUP DELEGATION
(قادیانی وفد پر جرح)

Mr. Yahya Bakhtiar: Mirza Sahib, you will continue to reply to that question?
(جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب! اسی سوال کا جواب جاری رکھیں گے)
مرزاناصر احمد: جی ہاں، میں ابھی شروع کر رہا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: جو آپ پہلے سنا رہے تھے۔
مرزاناصر احمد: اور ایک فقرہ پہلے کہوں گا۔ میں آپ کا بڑا ممنون ہوں کہ ایک عظیم Landmark رہ گیا تھا، وہ آپ نے مجھے یاد کروادیا…۱۹۰۶ء والا۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ تو مرزاصاحب میری ڈیوٹی ہے۔
مرزاناصر احمد: ہاں، یہ میں نے نوٹ کر لیا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: وہ میں نے پڑھا اس پر۔
مرزاناصر احمد: جی شکریہ!
۱۵…عالمگیر لجنڈ اسلامیہ کے قیام کا مشہورہ، ۱۹۲۰ء
ترکی اور حجاز کے حقوق کی حفاظت ۱۹۲۱ئ۔
تحریک شدھی اور مجاہدین احمدیت کے کارنامے، ۱۹۳۳ئ۔
خدمات ملک شام کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ ۱۹۲۵ئ۔
’’رنگیلا رسول‘‘ اور ورتمان کا فتنہ اور اس کے تدارک کے لئے جہاد ۱۹۲۷ئ۔
1215سیرۃ النبیﷺ کے جلسوں کی تحریک اور ابتداء ۱۹۲۸ئ۔
مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ ۱۹۲۸ئ۔
سائمن کمیشن رپورٹ پر تبصرہ اور ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل ۱۹۳۰ئ۔
قفیہ فلسطین اور جماعت احمدیہ کی مساعی ۴۸۔۱۹۳۹ئ۔
آزادی ہند اور قیام پاکستان کے لئے جماعت احمدیہ کی مساعی ۴۷۔۱۹۴۰ئ۔
۲۵۔انڈونیشیا کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ ۱۹۴۴ئ۔ پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے امام جماعت احمدیہ کے چھ لیکچر ۱۹۴۷ئ۔
فرمان بٹالین ۱۹۴۸ئ۔
چوہدری سرمحمد ظفر اﷲ خان صاحب کی اسلامی خدمات ۱۹۴۷ء اور ۱۹۵۲ئ۔
یہ عنوان ہیں۔ یہ ایک طائرانہ نظر جو ہوتی ہے کہ کس طرح ہر موقع پر جماعت احمدیہ کے افراد اور دوسرے جو تھے مختلف فرقوں کے افراد انہوں نے ایک جان ہوکر اسلام کی، اسلام کے جو مسائل تھے ان کو حل کرنے کی کوشش کی۔ میں… ایک وہ کشمیر کا مسئلہ یہاں لکھنے سے رہ گیا ہے۔ ویسے وہ نوٹ تیار ہیں۔ جو کشمیر کی، تحریک کشمیر جو ہے وہ ۳۳۔۳۲۔۱۹۳۱ء کی ہے۔ وہ بھی ایک مسلمان کے خلاف ایک عظیم ظالمانہ رویہ کے خلاف جہاد تھا اور اس میں سب کے ساتھ مل کر جماعت احمدیہ نے بھی ایسا کام کیا جو سب کی نظر میں پسندیدہ تھا اس وقت، اور وہ حوالے یہاں موجود ہیں۔
’’براہین احمدیہ‘‘… ’’براہین احمدیہ‘‘ بانی سلسلہ احمدیہ نے اس وقت لکھی جب ابھی مہدی اور مسیح ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ جس کے چار حصے ہیں۔ ۸۸۔۱۸۸۴ء میں یہ شائع ہوئی۔ اس پر صرف ایک اقتباس میں پڑھوں گا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی، ایڈووکیٹ اہل حدیث، نے ’’براہین احمدیہ‘‘ کے متعلق لکھا: 1216’’ہماری رائے میںیہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی وجانی وقلمی ولسانی، حالی وقالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم کوئی ایک ایسی کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ وبرہمو سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہے، ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشاندہی کرے۔ جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی وجانی وقلمی ولسانی کے علاوہ خالی نصرت کا بیڑہ اٹھا لیا ہو اور مخالفین اسلام اور منکرین الہام کے مقابلہ میں مردانہ تہدی کے ساتھ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آکر تجربہ مشاہدہ کر لے اور اس تجربہ مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزہ بھی چکھا دیا گیا ہو۔‘‘ (رسالہ اشاعت السنہ ج۷ نمبر۶ اور ۱۱)
یہ اس کے بعد اور دو تین ہی حوالے ہم نے لئے تھے۔ لیکن میں نہیں پڑھوں گا وہ، چونکہ وقت نہیں رہا۔ ایک ہی حوالہ صرف یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ بعد میں مولوی صاحب، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی علیحدہ ہو گئے، دوستی ہٹ گئی اور مخالف ہو گئے۔ لیکن اپنی ساری زندگی میں، جہاں تک مجھے یاد ہے اور میں دوستوں سے مشورہ کر لوں، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے اس بیان کی تردید نہیں کی کہ یہ کتاب واقعی ایسی ہے (اپنے وفد کے اراکین سے) کی ہے کبھی؟ اٹارنی جنرل سے نہیں، کبھی تردید نہیں کی۔ یہ لمبے ہیں۔ میں بالکل ایک ہی حوالہ پڑھ کے، تاکہ وقت نہ ضائع ہو…
1217جناب یحییٰ بختیار: فائل کرنے کے لئے ہیں ناں جی؟
مرزاناصر احمد: ہاں، ہاں۔ یہ میں نے وہی کہا ناں، صرف ورقے اٹھنے کی اجازت دے دیں۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، نہیں وہ صرف آپ Gist (خلاصہ) سنادیجئے۔ Gist اس پر…
مرزاناصر احمد: بالکل، ایک ایک حوالہ کر دیتے ہیں ہم اس پر۔ دوسرے مسلمانوں میں وحدت کا قیام: ’’خداتعالیٰ چاہتا ہے…‘‘
یہ بانی سلسلہ کے الفاظ ہیں: ’’خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں، کیا یورپ اور کیا ایشیائ، ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔‘‘
اس کے اوپر، یہ تو دعویٰ تھا ناں، جو اس کے حق میں ایک چھوٹا سا تین سطرں کا حوالہ یہ ہے، یہ مولانا ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر ’’زمیندار‘‘ ہیں۔ ایک وقت میں ’’زمیندار‘‘ بند ہوگیا تھا تو انہوں نے ’’ستارہ صبح‘‘ کے نام سے اخبار ’’زمیندار‘‘ کی بجائے نکالا تھا۔ ۸؍دسمبر ۱۹۱۶ء میں… یہ ویسے بحوالہ ’’کان کابلی‘‘ مارچ ۱۹۳۷ء ہے… اخبار کا حوالہ ۸؍دسمبر ۱۹۱۶ء ہے: ’’جناب مرزاغلام احمد صاحب قادیانی کی زندگی کا ایک بڑا مقصد آپ کے متعدد دعاوی کے لحاظ سے جو احاطہ تحریر میں آچکے ہیں مسلمانوں میں وحدت قائم کرنا تھا۔‘‘
باقی میں حوالے چھوڑ رہا ہوں۔
1218یہ ایک اور عنوان کے ماتحت وہی ایک ۱۹۰۶ء آگیا تھا۔ وہ ہماری غلطی تھی۔ تیسرے نمبر پر آیا ہوا ہے…
جناب یحییٰ بختیار: ایک فقرہ تو آپ نے پڑھ دیا تھا۔
مرزاناصر احمد: نہیں، نہیں، وہ تو… یہ میں یہاں سے نکال کے تو دوسری جگہ ملا دیں گے۔
۱۸۹۳ء میں یہ ایک عجیب واقعہ ہوا اور وہ یہ کہ جنڈیالہ ضلع امرتسر میں عیسائیوں کا ایک سنٹر تھا اور کافی بڑا، بہت کام کرنے والا تھا۔ ان کے وہاں کے مقامی مسلمانوں کے ساتھ… احمدی نہیں ہیں وہ… ان کے ساتھ ہر وقت بحث رہتی تھی۔ آخیر ایک دفعہ عیسائیوں کی طرف سے وہاں کے مقامی مسلمانوں کو یہ کہاگیا کہ روز ہم ایک دوسرے کے متعلق باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ایک مناظرہ ہو جائے۔ چنانچہ یہ مسیحان جنڈیالہ ضلع امرتسر نے مسلمانوں کو مندرجہ ذیل خط لکھا:
’’بخدمت شریف میاں محمد بخش صاحب وجملہ شرکاء اہل اسلام جنڈیالہ۔
جناب من! بعد سلام کے واضح روئے شریف ہو کہ چونکہ ان دنوں میں قصبہ جنڈیالہ میں مسیحیوں اور اہل اسلام کے دریان دینی چرچے بہت ہوتے ہیں اور چند صاحبان آپ کے ہم مذہب دین عیسوی پر حرف لاتے ہیں اور کئی ایک سوال وجواب کرتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں اور نیز اسی طرح سے مسیحیوں نے بھی دین محمدیؐ کے حق میں کئی تحقیقاتیں کر لی ہیں اور مبالغہ از حد ہو چلا ہے۔ لہٰذا راقم رقعہ ہذا کی دانست میں طریقہ بہتر اور مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک جلسہ عام کیا جائے جس میں صاحبان اہل اسلام مع علماء ودیگر بزرگان دین کے جن پر کہ ان کی تسلی ہو، موجود ہوں اور اس طرح سے مسیحیوں کی طرف سے بھی کوئی صاحب اعتبار پیش کئے جاویں۔ 1219تاکہ جو باہمی تنازعے ان دنوں میں ہورہے ہیں، خوب فیصل کئے جاویں، نیکی اور بدی،حق اور خلاف ثابت ہوویں۔ لہٰذا چونکہ اہل اسلام جنڈیالہ کے درمیان آپ صاحب ہمت گنے جاتے ہیں(جن کو مخاطب کیا) ہم آپ کی خدمت میں ازطرف مسیحان جنڈیالہ التماس کرتے ہیں کہ آپ خواہ خود یا اپنے ہم مذہبوں سے مصلحت کر کے ایک وقت مقرر کریں اور جس کسی بزرگ پر آپ کی تسلی ہو، اسے طلب کریں اور ہم بھی وقت متعین پر محفل شریف میں کسی اپنے کو پیش کریں گے۔‘‘
الراقم: مسیحان جنڈیالہ

دستخط: مارٹن کلارک، امرتسر
مسلمانان جنڈیالہ کی طرف سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی خدمت میں عیسائیوں کے ساتھ مباحثہ کرنے کی درخواست:
’’ الحمدﷲ ونحمدہ ونستعینہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم !
حضرت جناب فیض مآب مجدد الوقت فاضل اجل حامی دین رسول، حضرت غلام احمد صاحب!
از طرف محمد بخش
السلام علیکم! گذارش یہ ہے کہ کچھ عرصے سے قصبہ جنڈیالہ کے عیسائیوں نے بہت شور وشر مچایا ہوا ہے۔ بلکہ آج بتاریخ ۱۱؍اپریل ۱۸۹۳ئ، عیسائیان جنڈیالہ نے معرفت ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب امرتسر، بنام فدوی بذریعہ رجسٹری ایک خط ارسال کیا ہے۔ جس کی نقل خط ہذا کی دوسری طرف واسطے ملاحظہ 1220کے پیش خدمت ہے۔ عیسائیوں نے بڑے زور شور سے لکھا ہے کہ اہل اسلام جنڈیالہ اپنے علماء اور دیگر بزرگان دین کو موجود کر کے ایک جلسہ کریں اور دین حق کی تحقیقات کی جائے۔ ورنہ آئندہ سوال کرنے سے خاموشی اختیار کریں۔ اس لئے خدمت بابرکت میں عرض ہے کہ چونکہ اہل اسلام جنڈیالہ اکثر کمزور اور مسکین ہیں، اس لئے خدمت شریف عالی میں ملتمس ہوں کہ آنجناب ﷲ اہل اسلام جنڈیالہ کو امداد فرماؤ ورنہ اہل اسلام پر دھبہ آجائے گا۔ نیز عیسائیوں کے خط کو ملاحظہ فرماکر یہ تحریر فرمادیں کہ ان کو جواب خط کا کیا لکھا جاوے۔ جیسا آنجناب ارشاد فرماویں، ویسا عمل کیا جاوے فقط!
اس عرصے میں، جب یہ خط وکتابت ہورہی تھی، بعض علماء کی طرف سے مارٹن کلارک کو یہ کہاگیا کہ یہ شخص جو جنڈیالہ کے مسلمان تمہارے مقابلے میں، عیسائیوں کے مقابلے میں لارہے ہیں، ان کو تو مولوی کافر کہتے ہیں یہ اسلام کی نمائندگی نہیں کر سکتے…‘‘
جناب یحییٰ بختیار: وہاں سے وہ…
مرزاناصر احمد: نہیں، وہ…
جناب یحییٰ بختیار: … آتھم آگیا، وہاں عبداﷲ آتھم آگیا تھا اور جہاں سے مرزاصاحب چلے گئے تھے… یہ وہی تھا ناں جی؟
مرزاناصر احمد: نہیں، یہاں اس سے پہلے بہت کچھ تھا جو مخفی ہے۔ وہ ذرا سامنے آئے تو مزا آتا ہے دونوں مذاہب کے مقابلے کا۔ یہ پاندہ صاحب نے مولویوں کو خط لکھنے شروع کئے کہ پادریوں سے اسلام کی صداقت پر بحث کے لئے جنڈیالہ تشریف لائیں۔ میاں پاندہ صاحب مولویوں کے جواب کے منتظر تھے کہ دیکھیں مولوی صاحبان کیا جواب دیتے ہیں۔ اس میں دو ہفتہ گزر 1221گئے۔ مولوی صاحبان نے پاندہ صاحب کو جواب دیا کہ ہمارے واسطے رہائش، سفرخرچ، آمدورفت، کھانے پینے کا کیا انتظام کیا ہے اور بعد جلسہ ہمیں رخصتانہ کیا ملے گا، وغیرہ، وغیرہ۔ اس کو میں چھوڑ رہا ہوں۔ اس وقت یہ ڈر گیا، مارٹن کلارک، کہ ہمارے سامنے ان کو پیش کیا جارہا ہے، بانی سلسلہ احمدیہ کو۔ اس پر یہ محمد بخش صاحب نے یہ لکھا… یہ اس کی فوٹوسٹیٹ کاپی ہے ان کی… اس میں یہ لکھتے ہیں ڈاکٹر ہنری کلارک کو:
’’بخدمت شریف جناب ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک، میڈیکل مشن امرتسر۔
بعد سلام کے واضح ہوکہ خط آنجناب کا بذریعہ رجسٹری پہنچا۔ تمام کیفیت معلوم ہوئی۔ بموجب لکھنے آپ کے اہل اسلام جنڈیالہ نے اپنی طرف سے حضرت مرزاغلام احمد صاحب کو واسطے مباحثے کے پیش کیا ہے جن کو آپ نے بخوشی منظور کر کے مباحثہ کے شرائط بھی میرے روبرو قرار پاچکے ہیں۔ اب بعد چند روز کے آپ نے ایک حجت نکال کر اس جنگ مقدس سے دل چرا کر دفع الوقتی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن آپ کے حق میں کیا تصور کیا جاوے جو آپ نے بلاسمجھے بوجھے ان مسائل فروعی کو حجتاً پیش کیا ہے جو ہر ایک مذاہب میں ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔ آپ صاحب کن خیالوں میں مبتلا ہورہے ہیں اور اسلام سے آپ کی محض ناواقفی ثابت ہوتی ہے۔ اگر کچھ واقفی ہوتی تو ایسا کچھ ہر گز تحریر نہ کرتے۔ آپ نے اسلامی فتویٰ کی آڑ لے کر مباحثہ سے دل چرانا چاہا۔ لیکن اب وہ وقت گزر گیا اور علماء اسلام اور دیگر علماء مذاہب میں ہمیشہ اختلاف رہا کرتا ہے۔ دیکھو اوّلاً مقلد غیر مقلدوں کو بے دین کہتے ہیں اور غیرمقلد…‘‘
خیر! اور یہ آگے انہوں نے لکھا ہے کہ… انہوں نے لکھا ہے کہ… ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ… اپنے کہ تم نے اپنے ان کو نہیں لکھا… آگے انہوں نے لکھا ہے جی… میں خط ہی فائل 1222کروا دوں گا… کہ اپنے مذہب کو دیکھو۔ تمہارے اندر اتنے فرقے ہیں۔
Inquistion ہوئی… یعنی الفاظ میرے ہیںِ مفہوم میں لے رہا ہوں، بعد میں داخل کروادوں گا… تم آپس میں لڑتے رہے ہو، اور اب بھاگنا چاہتے ہو۔ ہمارے فرقوں اور آپس کے اختلافات کا تو ذکر نہیں کر دیا یہاں:
’’سنو! اوّل… کافر وہ ہوتا ہے جو خدا کو نہ مانتا ہو۔ دوئم… اس کے نبی اور اس کے کلام کا منکر ہو، بلکہ اس کے نبی سے دشمنی کرے اور کلمہ اور نماز اور روزہ سے نفرت کرے۔ حضرت مرزاغلام احمد کلمہ نبی کا پڑھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور روزہ بھی رکھتے ہیں۔ بلکہ بڑے بھاری عابد اور پرہیزگار بزرگ ہیں۔ سنو اور غور کرو۔ دیکھو جناب ہی کافر پروٹسٹنٹ اور فرقہ کتھولک میں کتنا بھاری اختلاف ہے۔‘‘
خیر یہ انہوں نے یہ کہا اور اس کے بعد ایک حافظ غلام قادر صاحب کا خط جس کی فوٹوسٹیٹ کاپی ہے: ’’…چنانچہ فی الحال ایک قطعیہ اشتہار ڈاکٹر ہنری کلارک نے مشتہر کیا ہے جس میں مباحثہ مقرر شدہ سے صاف گریز کیا ہے۔ ہم پادری صاحب کی اس اعلیٰ لیاقت وذہانت پر خوش ہوکر تہ دل سے مبارکباد دیتے ہیں۔ اگر پہلے مرزا غلام احمد صاحب جیسی بلائے عظیم (یعنی عیسائیوں کے لئے) اگر پہلے مرزاغلام احمد صاحب جیسی بلائے عظیم کو چھیڑا اور اب پیچھا چھڑانے کے لئے تدبیریں سوچنے لگے۔‘‘
اس میں یہی انہوں نے کہا کہ پیچھا کیوں چھڑاتے ہو…
جناب یحییٰ بختیار: یہ اس کے ساتھ…
1223مرزاناصر احمد: یہ اس کے ساتھ لگ کے اور…
جناب یحییٰ بختیار: … اور وہ آجائیں گے۔
مرزاناصر احمد: چنانچہ ہنری مارٹن کلارک جنڈیالہ کے ان مسلمانوں کی طرف سے، جن کا احمدی فرقہ مسلمان سے کوئی تعلق نہیں تھا، ان سے پہلے بچنے کی کوشش کی، پھر مجبور ہو کے وہ مباحثہ ہوا اور جو مباحثہ ہوا اس کے متعلق مباحثہ کروانے والے اور وہ لوگ امرتسر کے جو اس وقت موجود تھے، انہوں نے خوشی کا مظاہرہ کیا اور مبارکباد دی۔ اس وقت جو اس کا اثر ہوا وہ بہت اچھا اثر ہوا۔ اسلام کے حق میں اور عیسائیوں کے دلائل کے بودا پن میں۔ خواجہ یوسف شاہ صاحب آنریری مجسٹریٹ، جو برابر مباحثے میں آتے رہے تھے، مختصر سی تقریب میں وہیں جب اکٹھے ہوئے، نہایت عمدگی سے ختم ہونے پر شکریہ ادا کیا اور ضمناً انہوں نے کہا کہ: ’’اس مباحثے سے اسلام کی حقیقت اور عیسائیت کے عقائد پر غور کرنے کا موقع ملے گا۔ مرزاصاحب نے اگرچہ اپنے فرض منصبی کو ادا کیا ہے۔ مگر میں مسلمانوں کی طرف سے خاص طور پر ان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے تمام مسلمانوں کی طرف سے اسلام پر حملوں کا ڈیفنس کیا۔‘‘ یہ دراصل متعلق ہے اس کے۔ اس کے بعد ہم آتے ہیں، پھر ۱۸۹۳ء کا واقعہ ہے۔ پنڈت لیکھ رام، پنڈت لکھ رام نے ’’کلّیات آریہ‘‘ میں اس کی طرف منسوب کیا ہے: ’’محمد صاحب(ﷺ) عرب کے جاہل اور وحشی بدوؤں کے پیشوا تھے…‘‘
جناب یحییٰ بختیار: یہ نہ پڑھیں، اس کی ضرورت نہیں۔
مرزاناصر احمد: اچھا ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ یعنی اس نے بہت بیہودہ بات کی۔ میرا آپ نہیں دل کرتا ان کو… اس کی اس گندہ دہنی کے مقابلے میں بانی سلسلہ احمدیہ نے 1224دعائیں کرنے کے بعد اس کو یہ کہا کہ ’’اﷲتعالیٰ نے مجھے یہ خبر دی ہے اس کے مطابق تجھے میں یہ کہتا ہوں…‘‘ فارسی کے شعر میں:

الا اے دشمن نادان و بے راہ
بترس از تیغ بران محمدؐ

الا اے منکر از شان محمدؐ
ہم از نور نمایان محمدؐ

کرامت گرچہ بے نام ونشان است
بیا بنگرز غلمان محمدؐ

اور آپ نے… ’’سراج منیر‘‘ کی یہ عبارت ہے آج کی… لکھا اس کو: ’’آج کی تاریخ سے (۲۰؍فروری ۱۸۹۳ء ہے) چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں، یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اﷲﷺ کے حق میں کی ہیں، عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا۔‘‘ اور جیسا کہ یہ پیش گوئی کی گئی تھی… میں باقی حوالے وہ میں چھوڑ رہا ہوں۔ کیونکہ اس وقت…
جناب یحییٰ بختیار: سب کو معلوم ہیں جی۔
مرزاناصر احمد: ہاں جی۔
پھر ہم آتے ہیں ۱۸۹۰ء میں۔ اس وقت مباحثات میں ایک دوسرے کے خلاف جو چیز پیدا ہوگئی تھی اسے دیکھتے ہوئے بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ اعلان کیا کہ اس قسم کی گندہ دہانی چھوڑ کے اصل چیز یہ ہے کہ تبادلہ خیال کر کے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ تو کچھ اصول مذہبی دنیا کے ان مناظرین کے سامنے رکھے۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ناموس رسولؐ کے تحفظ اور مذہبی مناظرات کی اصلاح کے لئے ایک آئینی تحریک کا آغاز فرمایا۔ جس کی نامی گرامی علماء سرکاری افسران، وکلاء اور تجار حضرات نے تائید کی (یعنی جو جماعت کے نہیں تھے) اور یہ ’’آریہ دھرم‘‘ کا حوالہ ہے۔ اس موقع پر نواب محسن الملک نے حضرات بانی سلسلہ کی اسلامی خدمات کو سراہتے مکتوب میں لکھا: 1225’’جناب مولانا ومخدومنا:
بعد سلام مسنون عرض یہ ہے کہ آپ کا چھپا ہوا خط مع مسودہ درخواست کے پہنچا۔ میں نے اسے غور سے پڑھا اور اس کے تمام مألہ، ماعلیہ پر غور کیا۔ درحقیقت دینی مباحثات ومناظرات میں جو دل شکن اور درد انگیز باتیں لکھیں اور کہی جاتی ہیں وہ دل کو نہایت بے چین کرتی ہیں اور اس سے ہر شخص کو جسے ذرا بھی اسلام کا خیال ہوگا روحانی تکلیف پہنچتی ہے۔ خدا آپ کو اجر دے کہ آپ نے دلی جوش سے مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہا ہے۔ یہ کام بھی آپ کا منجملہ اور بہت سے کاموں کے ہے جو آپ مسلمانوں کے بلکہ اسلام کے لئے کرتے ہیں۔‘‘
۱۸۹۶ء میں… میں ایک ایک کو پڑھتا ہوں، جہاں زیادہ ہیں وہ چھوڑ دیتا ہوں… تعطیل جمعہ کی تعریف۔ اس کا ذکر میں نے پہلے بھی کیا تھا۔ یہ اشتہار ایک دیا اور اس کا آغاز کیا بانی سلسلہ نے، یعنی ایک میموریل وائسرائے ہند کے نام دیا۔ اس میں یہ لکھا: ’’یہ روز جمعہ جس کی تعطیل کے لئے ہم مسلمانان رعایا یہ عرضداشت بھیجتے ہیں۔ اگرچہ بہت اہم کام اس میں عبادات کا خاص طور پر ادا کرنا اور اسلامی ہدایات کو اپنے علماء سے سننا ہے۔ لیکن اور کئی رسوم مذہبی بھی اسی دن میں ادا ہوتی ہیں اور خدا نے ہمیں قرآن میں اس دن کے انتظار کی اس قدر تاکید کی ہے کہ خاص اسی کے انتظام کے لئے ایک سورت قرآن میں ہے۔ اس کا نام ’’سورۃ الجمعہ‘‘ ہے اور حکم ہے کہ سب کام چھوڑ کر جمعہ کے لئے مسجد میں حاضر ہو جاؤ۔ تو ہر ایک دیندار کو یہی غم ہے کہ ہم ہمیشہ کے لئے خدا کے نافرمان نہ ٹھہریں۔‘‘
اخبار ’’ملت‘‘ نے یہ لکھا کہ مولانا مولوی نورالدین یہ ۱۹۱۱ء کا ہے۔ میں نے بتایا ناں طائرانہ نظر ڈال رہا ہوں: 1226’’مولانا مولوی نورالدین صاحب سے کلی اتفاق کر کے جملہ انجمن ہائے وشاخ ہائے مسلم لیگ ومعزز اہل اسلام اور اسلامی پبلک اور معاصرین کرام کی خدمت میں نہایت زور مگر ادب کے ساتھ درخواست کرتے ہیں کہ مولانا ممدوح کی خواہش کے مطابق اس میموریل کی پرزور تائید کی جائے۔‘‘
لیکن وہ یہاں نہیں تھا ناں تو ۱۹۰۶ء سے جمپ (Jump) کر کے میں پہنچ گیا ۱۱ء پر۔ اب ۱۹۰۶ء پر واپس جاتا ہوں… ۱۹۰۶ئ…
جناب یحییٰ بختیار: یہ Important (اہم) نہیں، چھوٹی بات ہے۔
مرزاناصر احمد: نہیں، بڑی اہم بات ہے، بڑی عجیب بات ہے۔ بات یہ ہے کہ ۱۹۰۶ء میں جیسا کہ آپ نے فرمایا، فنانشل کمشنر صاحب بہادر وہاں آئے قادیان، اور باتیں کیں۔ باتیں یہ تھیں کہ کمشنر بہادر صاحب جو تھے، وہ زور دے رہے تھے بانی سلسلہ احمدیہ پر… انگریزی حکومت کا آدمی… کہ یہ جو مسلم لیگ بنی ہے، آپ اس کی تائید کریں اور جماعت کی دو تین آدمی بھی یہ زور دے رہے تھے۔ حکومت کی طرف سے زور تھا اور… لیکن آپ نہیں مانے… آپ نے فرمایا… یہ ۱۹۰۶ء کی بات ہے… آپ نے فرمایا: ’’میرے نزدیک یہ راہ خطرناک ہے…‘‘
لمبا حوالہ ہے، میں یہاں سناتا نہیں اور آپ نے فرمایا کہ ’’اس سے مجھے بو آتی ہے کہ یہ بھی ایک دن کانگریس کا رنگ اختیار کرے گی۔‘‘
جناب یحییٰ بختیار: حکومت کے خلاف ہو جائے گی۔
مرزاناصر احمد: ہاں! یہ ۱۹۰۶ء کی بات ہے اور ہے ۱۹۰۷ئ۔ آپ کی زندگی میں ہی، انگریز کے کہنے پر مسلم لیگ کو نہیں مانا۔ لیکن جب بنگلہ دیش میں وہاں کے مسلمانوں 1227کو ہندوؤں کی طرف سے دکھ پہنچا تو آپ نے اس کے حق میں اعلان کر دیا۔ یہ ہے اصل بات جو میں بتانا چاہتا تھا کہ ۱۹۰۶ء میں انکار کیا، اور ۱۹۰۷ء میں… اس کی تفصیل ’’پیسہ اخبار‘‘ لاہور میں چھپ چکی ہے، ۳؍دسمبر ۱۹۰۷ئ: ’’ان کے خیالات وحرکات سے ہمیں قطعی نفرت ہے۔‘‘
ہندوؤں کا ذکر ہے بنگال میں وہ ہوا تھا…
جناب یحییٰ بختیار: وہ بنگال کی بات تھی؟
مرزاناصر احمد: ہاں۔ ’’ہماری جماعت کو ان سے الگ رہنا چاہئے۔ تعجب کی بات ہے کہ جو قوم حیوان کو انسان پر ترجیح دیتی ہو اور ایک گائے کے ذبح سے انسان کا خون کر دینا کچھ بات نہ سمجھتی ہو، وہ حاکم ہوکر کیا انصاف کرے گی اور (چند سطریں ہیں) یہ بات ہر ایک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ مسلمان اس بات سے کیوں ڈرتے ہیں کہ اپنے جائز حقوق کے مطالبات میں ہندوؤں کے ساتھ شامل ہو جائیں اور کیوں آج تک ان کا کانگریس کی شمولیت سے انکار کر رہے ہیں۔ (یعنی یہ اس کی تائید میں ہے، انکار کی) اور کیوں آخر کار ہندوؤں کی درستی رائے کو محسوس کر کے ان کے قدم پر قدم رکھا۔ مگر الگ ہوکر ان کے مقابلے پر ایک مسلم انجمن قائم کر دی اور ان کی شراکت کو قبول نہ کیا اور اس کے سائے کو… اس کا باعث دراصل مذہب ہی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ اور ساتھ میں اس کی تائید کی، بڑے زور سے تائید کی اور اس وقت ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کے حق میں اور بھی بولے ہوں گے۔ میرا تو مؤقف ہی یہ ہے کہ سب کے ساتھ مل کر اسلام اور مسلمانوں کی تائید کی۔
۱۸۹۶ئ…
1228جناب یحییٰ بختیار: یہ وہی لاہور کا لیکچر آگیا ہے؟
----------
At this stage Mr. Chairman vacated the Chair which was occupied by Madam Deputy Speaker (Dr. Mrs Ashraf Khatoon Abbasi)
(اس مرحلہ پر چیئرمین صاحب نے کرسی صدارت چھوڑ دی اور ڈپٹی چیئرمین (ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی) نے کرسی صدارت سنبھالی)
----------
مرزاناصر احمد: ہاں، جلسہ ہے مذاہب والا۔ اخبار ’’چودھویں صدی‘‘ راولپنڈی یکم؍فروری ۱۸۹۷ئ۔ یہ اس کی فوٹوسٹیٹ بھی ہے۔ میں ساتھ لگا دوں گا: ’’ہم مرزاصاحب کے مرید نہیں ہیں اور نہ ہم کو ان سے کوئی تعلق ہے۔ لیکن بے انصافی ہم کبھی نہیں کر سکتے اور نہ کوئی سلیم فطرت اور صحیح Conscience اس کو روا رکھ سکتا ہے۔ مرزاصاحب نے کل سوالوں کے جواب جیسا کہ مناسب تھا قرآن شریف سے دئیے اور تمام بڑے بڑے اصول وفروع اسلام کو دلائل عقلیہ وبراہن فلسفہ کے ساتھ مبرہن اور مزین کیا۔ بہرحال اس کا شکریہ ہے کہ اس جلسہ میں اسلام کا بول بالا ہوا اور تمام غیرمذاہب کے دلوں پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا۔‘‘
اور بھی ہیں حوالے جنہیں میں چھوڑ رہا ہوں۔
اب آتے ہیں ہم ۱۹۰۰ء بشپ جارج ایلفریڈ لفرائے سے مقابلہ اور اس کا صلہ جارج ایلفریڈ لفرالے، ۱۸۵۴۔ ۱۹۱۹ء ہندوستان کے افق پر مسلمانوں کے لئے ایک چیلنج بن کر ابھرا۔ اس نے ہندوستان کی مذہبی فضاء میںتہلکہ مچا دیا۔ چنانچہ لکھا ہے: ’’انہوں نے عربی اور اردو میں کافی مہارت پیدا کر لی۔ مسلمانوں سے بحث کرتے رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے دہلی کا نابینا مولوی احمد مسیح خدا کے پاس کھینچا چلا آیا۔ ان کی محنت، جان نثاری اور حقیقی تبلیغی جوش کو دیکھ کر جس 1229کے لارڈ کچنر اور لارڈ کرزن تک مداح تھے انہیں ۱۸۹۹ء کو لاہور کابشپ مقرر کیا گیا۔ بشپ ہوتے ہی انہوں نے اپنے انگریز بھائیوں پر اس بات کو واضح کر دیا کہ خداوند نے ہندوستان کو بطور امانت ہمارے سپرد کیا ہے۔ اس لئے تن دہی سے ہمیں خدمت کرنا لازم ہے۔ ورنہ خداوند اس امانت کا حساب ضرور لے گا۔‘‘
یہ ان کی Religious Book Society کی کتاب کا حوالہ ہے۔ بانی سلسلہ احمدیہ نے اس بشپ کو، جس کے متعلق پادریوں نے یہ لکھا تھا، چیلنج دیا اور وہ بھاگ گیا۔ اس کے متعلق مولوی اشرف علی صاحب تھانوی… میں ان اپنے بھائیوں کے حوالوں میں سے ایک لوں گا… مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے ایک ترجمہ قرآن کیا ہے۔ اس کا دیباچہ جو مولوی نور محمد صاحب نقشبندی انہی کے ہم مذہب نے لکھا ہے، یہ دیباچے کا ہے اقتباس جو میں پڑھوں گا:
’’اسی زمانے میں پادری لفرائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا۔ ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہوکر بڑا تلاطم برپا کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا۔ مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہوگئے اور لفرائے اور اس کی جماعت سے کہا ’’عیسیٰ جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرف سے فوت ہوکر دفن ہوچکے ہیں اور جس عیسیٰ کے آنے کی خبر ہے وہ 1230میں ہوں۔ پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو۔‘‘ اس ترکیب سے ان نیلفرائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کا اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہوگیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی۔‘‘
اب ظاہر ہے اس کے الفاظ، کہ یہ دوست کا نہیں ویسے مخالف ہے، لیکن سچی بات کہنے سے دریغ بھی نہیں کرتا۔ "Indian Spectator", "Indian Daily Telegraph" (انڈین سیکٹر ڈیلی ٹیلی گراف) ان کے یہ حوالے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں ۱۹۰۰ء سے ۱۹۰۲ء ڈاکٹر ڈوئی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کا پادری تھا۔ وہ شروع ہی سے اسلام اور بانی اسلام کا معاند تھا۔ یہ اس کا ہے: ’’حال ہی میں ملک امریکہ میں (وہ میں نے حوالہ وہ میں نے عبارت چھوڑ دی ہے) یسوع مسیح کا ایک رسول پیداہوا جس کا نام ڈوئی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یسوع مسیح نے بحیثیت خدائی دنیا میں اس کو بھیجا ہے۔ تاکہ سب کو اس بات کی طرف کھینچے کہ بجز مسیح کے اور کوئی خدا نہیں اور یہ کہ تمام مسلمان تباہ اور ہلاک ہو جائیں گے۔ (یہ اعلان کیااس شخص نے) تو ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں باادب عرض کرتے ہیں کہ اگر ڈوئی اپنے دعوے میں سچا ہے اور درحقیقت یسوع مسیح خدا ہے تو یہ فیصلہ (سارے مسلمان ہلاک کرنے کی کیا ضرورت ہے) یہ فیصلہ ایک ہی آدمی کے مرنے سے ہو جائے گا۔ کیا حاجت ہے کہ تمام ملکوں کے مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے۔‘‘
لیکن ڈوئی بجائے باز آنے کے تکبر اور شرارتوں میں اور بڑھ گیا اور اسلام کے خلاف پہلے سے زیادہ بدزبانی شروع کر دی۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے کچھ انتظار کے 1231بعد اپنا چیلنج طبع کروا کے اس کو وہاں بھجوایا اور امریکہ کے وسیع الاشاعت اخبار میں وہ چھپا اور اس کے ردعمل پر جب ایک سال گزر گیا تو بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ لکھا: ’’مسٹر ڈوئی اگر میری درخواست پر مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتاً یا اشارتاً میرے مقابلے پر کھڑا ہو گا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا۔ پس یقین سمجھو کہ اس کے سہیون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
CROSS- EXAMINATION OF THE QADIANI GROUP DELEGATION
(قادیانی وفد پر جرح) (بقیہ)

یہ مشرق ۲۲؍ستمبر ۱۹۲۷ئ۔ 1237اور بس میں یہ ایک ہی پڑھوں گا۔ یہ رئیس الاحرار مولانا محمد علی صاحب جوہر، جو پرانے احرار ہیں، ان کا بھی حوالہ ہے۔ یہ بہت سے ورق الٹنے میں اتنی دیر لگی۔ بڑی جلد ختم ہورہا ہے۔ بس اب تھوڑا سا رہ گیا ہے…
جناب یحییٰ بختیار: اگر لمبا بہت زیادہ ہے تو کل پھر کر دیتے۔
مرزاناصر احمد: نہیں، ابھی کل چلے گا؟
جناب یحییٰ بختیار: کل تو کچھ رہ گیا ہے۔
مرزاناصر احمد: اچھا! تو… نہیں، اگر ویسے آپ کی مرضی۔ لیکن میں، میرا خیال ہے، پانچ سات منٹ میں ختم کر دیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: بس ٹھیک ہے جی۔
مرزاناصر احمد: ۱۹۲۸ء میں سیرت النبیﷺ کے جلسوں کی تحریک ہوئی اور یہ تھا کہ میں اس کا جو اصل مغز تھا وہ یہ تھا کہ نبی اکرمﷺ کی سیرت پر جلسے اور ہندوؤں اور عیسائیوں اور ان کو بلاؤ کہ وہ بھی تقریر کریں۔ آنحضرتﷺ کی سیرت پر اور جو عملاً ہوا وہ یہ ہے کہ ان کے پاس تو اپنا نہ مواد تھا اور نہ انہوں نے اس کو سوچا تھا تو وہ مسلمانوں سے مواد لے کر اور بڑے اچھے رنگ میں وہاں آکر تقریر کر دیتے تھے اور اس طرح پر نبی اکرمﷺ کی شان اور جلالیت، وہ جو ان کی وجہ سے ان کے ساتھی عیسائی یا ہندو وغیرہ آتے تھے، ان کے سامنے آپ کی سیرت کا ایک چمکتا ہوا بیان آجاتا تھا۔ اس واسطے اس کے کہنے کے بعد میں سارا اس طرح کر دیتا ہوں۔ نہرو رپورٹ ایک شائع ہوئی۔ تو یہ بڑی عیار قوم ہے اور بڑی ہوشیاری سے چکر دے کر انہوں نے ایک ایسی رپورٹ کی تھی جو…
جناب یحییٰ بختیار: سب کو علم ہے جی اس کا۔
1238مرزاناصر احمد: ہاں… اس کے اوپر ایک تبصرہ کیا ہے، جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک بڑا تبصرا ہوا ہے اور اس کا دو سطری خلاصہ یہ تھا، اس تبصرے کا، کہ یہ مشورہ دیا کہ ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہو اور اس میں یہ یہ تجویزیں ہوں۔ نہ صرف اسلامی حقوق کی حفاظت کر لی گئی ہو بلکہ دوسرے تمام امور کے متعلق بھی ایک مکمل قانون یہ پیش کرے۔ یہ دو آئٹمز رہ گئی ہیں، وہ پھر کل کر لیں گے؟
جناب یحییٰ بختیار: اور کیا رہ گیا ہے؟
مرزاناصر احمد: ایک تو کشمیر۔ وہ تو بڑا اہم ہے۔ ہاں، ایک تو… ہاں، تین چار رہ گئے ہیں۔ کچھ تو سائمن کمیشن رپورٹ پر۔ یہ میں اس طرح داخل کروادیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھئے ناں، مرزاصاحب! یہ تو جنرل باتیں ہیں۔
مرزاناصر احمد: قضیہ فلسطین اور جماعت احمدیہ کی مساعی… یہ بڑا اہم ہے۔ کیونکہ اعتراض ہو جاتے ہیں ناں کہ پہلے فلسطین تھا، اسرائیل بن گیا اور اکثر کو پتہ ہی نہیں کہ کس تاریخ کو بن گیا۔
جناب یحییٰ بختیار: پھر کل Afternoon (بعد دوپہر) کو ہوگا۔ کل صبح تو کہتے ہیں کہ نہیں ہورہا جی۔ 6 O'clock tomorrow? (کل چھ بجے؟)
محترمہ چیئرمین: اور آپ کو کوئی Question (سوال) تو نہیں پوچھنا ہے؟
Mr. Yahya Bakhtiar: نہیں Unless... Not now, because he has not concluded.
(جناب یحییٰ بختیار: ابھی نہیں، کیونکہ ابھی انہوں نے ختم نہیں کیا)
Madam Chairman: So, we meet again tomorrow at 5:30 pm.
(محترمہ چیئرمین: تو ہم کل ساڑھے پانچ بجے دوبارہ اجلاس کریں گے)
Mr. Yahya Bakhtiar: 5:30 pm tomorrow?
(جناب یحییٰ بختیار: کل ساڑھے پانچ بجے؟)
Madam Chairman: 5:30 pm tomorrow.
(محترمہ چیئرمین: ساڑھے پانچ بجے)
Mr. Yahya Bakhtiar: Because there is Senate Session, those journalists come and security arrangements....
1239مرزاناصر احمد: تو؟
Madam Chairman: 5:30 pm tomorrow.
(محترمہ چیئرمین: کل ساڑھے پانچ بجے)
مرزاناصر احمد: میرا حق نہیں ہے، مگر کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کے خیال میں کیا اندازہ ہے، کل ختم ہو جائے گا؟
جناب یحییٰ بختیار: یعنی یہ تو آپ پر Depend (انحصار) کر رہا ہے۔
مرزاناصر احمد: میں تو پانچ دس منٹ سے زیادہ نہیں لوں گا جی۔
جناب یحییٰ بختیار: تو ایک دو آئٹمز رہ گئے ہیں۔ میرے خیال کچھ زیادہ ٹائم نہیں، کوشش یہی ہے…
مرزاناصر احمد: … کہ کل شام کو ہو جائے ختم…
جناب یحییٰ بختیار: … کیونکہ سوال تو ابھی اتنے زیادہ رہ گئے ہیں۔ میں ممبر صاحبان سے Request (گزارش) کرتا ہوں کہ وہ Give up کر دیں تاکہ وہ…
مرزاناصر احمد: ہاں!
محترمہ چیئرمین: اچھا جی!
The Delegation is allowed to leave.
(وفد کو جانے کی اجازت ہے)
(The Delegation left the Chamber)
(وفد ہال سے باہر چلاگیا)
محترمہ چیئرمین: وہ جو فائل کرنے تھے، وہ لے لئے سب آپ نے؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی! اچھا ہے تاکہ وہ ختم ہو جائیں۔
----------
[The Special Committee adjourned to meet at half past five of the clock, in the afternoon, on Friday, the 23rd August, 1974.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس بروز جمعہ ۲۳؍اگست ۱۹۷۴ء بعد دوپہر ساڑھے پانچ بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے)
----------
مرزاناصر احمد: ہاں، جلسہ ہے مذاہب والا۔ اخبار ’’چودھویں صدی‘‘ راولپنڈی یکم؍فروری ۱۸۹۷ئ۔ یہ اس کی فوٹوسٹیٹ بھی ہے۔ میں ساتھ لگا دوں گا: ’’ہم مرزاصاحب کے مرید نہیں ہیں اور نہ ہم کو ان سے کوئی تعلق ہے۔ لیکن بے انصافی ہم کبھی نہیں کر سکتے اور نہ کوئی سلیم فطرت اور صحیح Conscience اس کو روا رکھ سکتا ہے۔ مرزاصاحب نے کل سوالوں کے جواب جیسا کہ مناسب تھا قرآن شریف سے دئیے اور تمام بڑے بڑے اصول وفروع اسلام کو دلائل عقلیہ وبراہن فلسفہ کے ساتھ مبرہن اور مزین کیا۔ بہرحال اس کا شکریہ ہے کہ اس جلسہ میں اسلام کا بول بالا ہوا اور تمام غیرمذاہب کے دلوں پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا۔‘‘
اور بھی ہیں حوالے جنہیں میں چھوڑ رہا ہوں۔
اب آتے ہیں ہم ۱۹۰۰ء بشپ جارج ایلفریڈ لفرائے سے مقابلہ اور اس کا صلہ جارج ایلفریڈ لفرالے، ۱۸۵۴۔ ۱۹۱۹ء ہندوستان کے افق پر مسلمانوں کے لئے ایک چیلنج بن کر ابھرا۔ اس نے ہندوستان کی مذہبی فضاء میںتہلکہ مچا دیا۔ چنانچہ لکھا ہے: ’’انہوں نے عربی اور اردو میں کافی مہارت پیدا کر لی۔ مسلمانوں سے بحث کرتے رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے دہلی کا نابینا مولوی احمد مسیح خدا کے پاس کھینچا چلا آیا۔ ان کی محنت، جان نثاری اور حقیقی تبلیغی جوش کو دیکھ کر جس 1229کے لارڈ کچنر اور لارڈ کرزن تک مداح تھے انہیں ۱۸۹۹ء کو لاہور کابشپ مقرر کیا گیا۔ بشپ ہوتے ہی انہوں نے اپنے انگریز بھائیوں پر اس بات کو واضح کر دیا کہ خداوند نے ہندوستان کو بطور امانت ہمارے سپرد کیا ہے۔ اس لئے تن دہی سے ہمیں خدمت کرنا لازم ہے۔ ورنہ خداوند اس امانت کا حساب ضرور لے گا۔‘‘
یہ ان کی Religious Book Society کی کتاب کا حوالہ ہے۔ بانی سلسلہ احمدیہ نے اس بشپ کو، جس کے متعلق پادریوں نے یہ لکھا تھا، چیلنج دیا اور وہ بھاگ گیا۔ اس کے متعلق مولوی اشرف علی صاحب تھانوی… میں ان اپنے بھائیوں کے حوالوں میں سے ایک لوں گا… مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے ایک ترجمہ قرآن کیا ہے۔ اس کا دیباچہ جو مولوی نور محمد صاحب نقشبندی انہی کے ہم مذہب نے لکھا ہے، یہ دیباچے کا ہے اقتباس جو میں پڑھوں گا:
’’اسی زمانے میں پادری لفرائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا۔ ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہوکر بڑا تلاطم برپا کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا۔ مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہوگئے اور لفرائے اور اس کی جماعت سے کہا ’’عیسیٰ جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرف سے فوت ہوکر دفن ہوچکے ہیں اور جس عیسیٰ کے آنے کی خبر ہے وہ 1230میں ہوں۔ پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو۔‘‘ اس ترکیب سے ان نیلفرائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کا اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہوگیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی۔‘‘
اب ظاہر ہے اس کے الفاظ، کہ یہ دوست کا نہیں ویسے مخالف ہے، لیکن سچی بات کہنے سے دریغ بھی نہیں کرتا۔ "Indian Spectator", "Indian Daily Telegraph" (انڈین سیکٹر ڈیلی ٹیلی گراف) ان کے یہ حوالے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں ۱۹۰۰ء سے ۱۹۰۲ء ڈاکٹر ڈوئی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کا پادری تھا۔ وہ شروع ہی سے اسلام اور بانی اسلام کا معاند تھا۔ یہ اس کا ہے: ’’حال ہی میں ملک امریکہ میں (وہ میں نے حوالہ وہ میں نے عبارت چھوڑ دی ہے) یسوع مسیح کا ایک رسول پیداہوا جس کا نام ڈوئی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یسوع مسیح نے بحیثیت خدائی دنیا میں اس کو بھیجا ہے۔ تاکہ سب کو اس بات کی طرف کھینچے کہ بجز مسیح کے اور کوئی خدا نہیں اور یہ کہ تمام مسلمان تباہ اور ہلاک ہو جائیں گے۔ (یہ اعلان کیااس شخص نے) تو ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں باادب عرض کرتے ہیں کہ اگر ڈوئی اپنے دعوے میں سچا ہے اور درحقیقت یسوع مسیح خدا ہے تو یہ فیصلہ (سارے مسلمان ہلاک کرنے کی کیا ضرورت ہے) یہ فیصلہ ایک ہی آدمی کے مرنے سے ہو جائے گا۔ کیا حاجت ہے کہ تمام ملکوں کے مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے۔‘‘
لیکن ڈوئی بجائے باز آنے کے تکبر اور شرارتوں میں اور بڑھ گیا اور اسلام کے خلاف پہلے سے زیادہ بدزبانی شروع کر دی۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے کچھ انتظار کے 1231بعد اپنا چیلنج طبع کروا کے اس کو وہاں بھجوایا اور امریکہ کے وسیع الاشاعت اخبار میں وہ چھپا اور اس کے ردعمل پر جب ایک سال گزر گیا تو بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ لکھا: ’’مسٹر ڈوئی اگر میری درخواست پر مباہلہ قبول کرے گا اور صراحتاً یا اشارتاً میرے مقابلے پر کھڑا ہو گا تو میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا۔ پس یقین سمجھو کہ اس کے سہیون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے۔‘‘
پہلے ڈوئی کی اخلاقی موت، اس کے… اخبار ’’نیویارک ورلڈ‘‘ اس وقت تھا۔ ڈوئی کے ساتھ خطوط اس اخبار نے شائع کئے کہ ’’میں ولد الحرام ہوں، اپنے باپ کا بیٹانہیں۔‘‘ یہ پہلی موت اس کی ہوئی۔ پھر یکم؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو اس پر فالج ہوا۔ پھر ۱۹؍دسمبر۱۹۰۵ء کو دوسرا فالج ہوا، اور ۹؍مارچ ۱۹۰۷ء کو بڑے دکھ اور حسرت سے مرا بڑی لمبی کہانی ہے، بڑی دردناک کہانی ہے۔ میں اس کو چھوڑ رہا ہوں۔ میں بڑا مختصر کر رہا ہوں اور پڑھ بھی تیز رہا ہوں، جیسا کہ آپ سن رہے ہیں۔
۱۹۱۰ئ… مسلم پریس ایسوسی ایشن کے قیام کی تاریخ ۱۰؍فروری ۱۹۱۰ء کو ’’الحکم‘‘ کے ذریعے ہندوستان کے تمام مسلم اخبارات کو باہم متحد ہونے اور ایک مسلم پریس ایسوسی ایشن کے قیام کی تحریک کی۔ تو یہ اس وقت کا تقاضا تھا اور سارے مسلمان یکجان ہوکر اس کام کو کریں، ہماری طرف سے نہیں۔ بہرحال ایک تحریک ہوئی اور وہ ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ نہایت مفید تحریک تھی اور کوئی کسی اختلاف کا نہ کوئی شائبہ تھا نہ اس کا اظہار کیا، نہ ہماری طرف سے، نہ کسی اور کی طرف سے۔ اس پر بعض حوالے ہیں یہاں جو دوسروں کے وہ میں چھوڑ دیتا ہوں۔
ایک مدرسہ الٰہیات کے لئے امداد کا سوال تھا۔ اس کی تحریک کی گئی وہ بھی جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتا۔
1232اب ہم پہنچے ہیں ۱۹۱۸ء پر۔ ۱۹۱۸ء میں ملت اسلامیہ ہندوستان نے خوشی کے دن منائے اور کروڑوں چراغ جلائے گئے اور جلسے ہوئے اور اس کے متعلق میں ایک حوالہ پڑھ دوں گا۔ ایک تو اس پر علامہ اقبال نے جو اشعار سنائے اور چھپ چکے ہیں، وہ بڑے دلچسپ ہیں۔ پڑھنے کے قابل ہیں۔ میں یہاں چھوڑتا ہوں اور غلام بھیک بی۔اے نیرنگ، صدر انجمن دعوت وتبلیغ اسلام انبالہ نے ایک نظم لکھی اس کو بھی میں چھوڑتا ہوں۔ یہ وہ ایک مقبول عام نظم ہے، خان احمد حسین خان صاحب، مشہور مصنف ہیں، ان کی، اس کو میں چھوڑتا ہوں۔ یہ ہے ’’حق‘‘ ایک اخبار، اس کی بھی فوٹوسٹیٹ کاپی یہاں ہم دے دیں گے۔ شیخ عبدالقادر صاحب، بی۔اے، بیرسٹر ایٹ لائ، خادم اسلام، معروف ہستی ہیں۔ انہوں نے ۲۳؍نومبر ۱۹۱۸ء کو ایک مضمون لکھا لمبا ہے ناں جی، یہ مضمون جی۔ اس میں سے چار سطریں میں نے لی ہیں چھوٹی سی:
’’ماہ نومبر کی بارھویں تاریخ جو خوشیاں سارے ملک میں منائی گئی ہیں، وہ مدتوں تک یاد رہیں گی اور اس ایک دن کی خوشی نے لڑائی کے زمانے کی بہت کلفتوں کو دھو ڈالا۔‘‘
تو یہ Vein ہے جس میں اس وقت کا مسلمان بات کر رہا تھا۔ تو ان کروڑوں دیوں میں ان چراغوں… چراغاں دیوں سے ہوتی تھی، بلب ابھی نہیں آئے تھے… اگر چند سو دئیے تو وہ قابل اعتراض نہیں ہونے چائیں ہمارے نزدیک۔ میں، یہ سارا مسالہ ہے، اس کو میں چھوڑ دیتا ہوں۔ وقت بڑا تنگ ہے۔
معاہدہ ترکیہ پر مسلمانوں کو عالمگیر الجنۂ اسلامیہ کے قیام کا مشورہ۔ ایک بڑا دکھ دہ واقعہ ہوا تھا، جس رنگ میں ترکی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تھا، Allies (اتحادیوں) کا اور ترکی کا، یعنی 1233ترکی مجبور ہوا۔ اس کے متعلق ’’الفضل‘‘ ۳؍جون ۱۹۲۰ء کے صفحہ ایک پر ہے:
’’فاتح اتحادی ملکوں نے ترکی سے جو شرائط صلح طے کیں وہ انتہا درجے کی ذلت آمیز تھیں۔ اس معاہدہ کو سلسلے میں آئندہ طریق عمل سوچنے کے لئے یکم اور۲؍جون ۱۹۲۰ء کو الہ آباد میں خلافت کمیٹی کے تحت کانفرنس منعقد کی گئی۔ جمعیت العلمائے ہند کے مشہور لیڈر جناب مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محل کی دعوت پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک مضمون بعنوان ’’معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ‘‘ ایک دن میں رقم فرمایا اور اسے راتوں رات چھپوا کر بھیجوایا جس میں علاوہ اور تجاویز کے، ایک یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی اور بہبود کے لئے بلاتاخیر ایک عالمگیر لجنۂ اسلامیہ قائم ہونی چاہئے۔‘‘
بڑی زبردست یہ اس وقت تحریک کی گئی تھی۔ اپنے وقت پر سارے کام ہوتے ہیں۔
۱۹۲۱ئ… ترکی اور حجاز کے حقوق کی حفاظت، ۲۳؍جون ۱۹۲۱ء کو جماعت احمدیہ کا ایک وفد وائسرائے ہند کو ملا اور ان کی توجہ اس امر کی طرف دلائی کہ ترکی کی حکومت کے ساتھ ہمیں ہمدردی ہے۔ اگر پچاس سال کے بعد برطانوی حکومت کی مدد سے لورین فرانس کو واپس مل سکتے ہیں، ایک اور ہے، مجھ سے پڑھا نہیں گیا… تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ سمرنا اور سائپرس ترکوں کو واپس نہ دلائے جائیں۔ یہیں انہوں نے توجہ خاص اس بات کی طرف دلائی گئی کہ وزیر نو آبادیات نے حجاز کی بابت جو تجاویز پیش کی ہیں، وہ حجاز کی آزادی کے منافی ہیں اور ان سے کہا گیا کہ ترکوں سے علیحدگی کے بعد حجاز کی آزادی میں کوئی خلل نہیں آنا چاہئے۔ وہ پورا ایک آزاد ملک ہونا چاہئے۔
1234’’تحریک شدھی اور مجاہدین احمدیت کی خدمات‘‘ کے… عنوان جو کسی اور نے لکھی ہیں… اگر اجازت ہو تو میں یہاں ٹانک لوں؟
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، مرزاصاحب! یہ تو…
مرزاناصر احمد: نہیں، یہ تو کیا، ہم تو عاجز بندے ہیں، خادم ہیں۔ یہ ایک لمبا عرصہ گزرا ہے اس کو دوستوں کے ذہن میں اس کی تفصیل کم ازکم نہیں ہوگی۔ بڑا اندوہناک واقعہ ہوا۔ یو۔پی کے اضلاع آگرہ متھرا، وغیرہ، وغیرہ۔ شاہجہان پور، فرخ آباد، بدایوں اور تلوہ میں ایسے ملکانہ راجپوت آباد تھے جو اپنے آپ کو مسلمان، خیال کرتے تھے۔ لیکن ان کا رہنا سہنا، کھانا پینا، بول چال، رسم ورواج سب ہندوانہ تھے، حتیٰ کہ بعض کے نام بھی ہندوانہ تھے اور ناواقفی کی وجہ سے وہ اپنی غیراسلامی حالت کو اسلامی حالت سمجھ کر مطمئن تھے اور لمبے عرصے تک ان کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی۔ آریوں نے میدان خالی پاکر انہیں ہندو قوم میں ضم کرنے کے لئے بڑے زور شور سے شدھی کی تحریک شروع کر دی اور تمام اضلاع میں انہوں نے اپنے پرچارک بھجوائے اور اسلام کے خلاف نہایت زہریلا پیراپیگنڈا شروع کیا۔ جس سے سارے ملک میں شور پڑ گیا۔ اس موقع پر ۷؍مارچ ۱۹۳۰ء کو امام جماعت احمدیہ نے مسلمانوں کو ارتداد کے فتنے سے بچانے کے لئے جہاد کبیر کا علم بلند کیا اور ایک سو پچاس احمدی رضا کار فوری طور پر ایک نظام کے ماتحت مختلف علاقوں میں بھجوادئیے اور اس کام میں ایک لمبا تسلسل پیدا کیا۔ چنانچہ ان مجاہدین کی مساعی رنگ لائیں اور دوسرے دوست بھی پہنچے اور یہ فتنہ جو تھا روک دیا۔ بڑا سیلاب آیا تھا۔ مسلم اخبارات نے اس سلسلہ میں جو لکھا… مثلاً ’’زمیندار‘‘ ہے مولانا ظفر علی خان صاحب کا… ۱۸؍اپریل …۱۹۳۰ء کو لکھا: ’’احمدی بھائیوں نے جس خلوص، جس ایثار، جوش اور ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے۔‘‘
1235اخبار ’’ہمدم‘‘ لکھنؤ، ۶؍اپریل ۱۹۳۰ء نے لکھا: ’’قادیانی جماعت کی مساعی حسنہ اس معاملے میں بے حد قابل تحسین ہیں اور دوسری اسلامی جماعتوں کو انہی کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔‘‘
یہ اخباروں کے حوالے بہت سارے، یہ میں ورق الٹا رہا ہوں، اپنا وعدہ پورا کر رہا ہوں۔ اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر۔ ’’نجات‘‘ بجنور، سارے ہندوستان کے اخبار تھے جنہوں نے … ’’نور‘‘ علی گڑھ اور پھر ہندو اخبارات نے کہا، اعتراف کیا۔
اب آگے ہم ’’ملک شام کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ کا اس میں کردار۔‘‘
جنگ عظیم کے بعد شام پر فرانس نے قبضہ کیا، جیسا کہ سب جانتے ہیں تو دروس کا علاقہ ہے۔ مسلمانوں نے تحریک آزادی کا علم بلند کیا۔ شام کی فرانسیسی حکومت نے دمشق پر گولہ باری کی۔ اس پر حضرت امام جماعت احمدیہ نے ۱۳؍نومبر ۱۹۲۵ء کو خطبہ جمعہ میں تحریک آزادی کی تائید میں فرمایا: ’’میں اس اظہار سے نہیں رک سکتا کہ دمشق میں ان لوگوں پر، جو پہلے ہی بے کس اور بے بس تھے، یہ بھاری ظلم کیاگیا ہے۔ ان لوگوں کی بے کسی اور بے بسی کا یہ حال ہے کہ باوجود اپنے ملک کے آپ مالک ہونے کے دوسروں کے محتاج بلکہ دست نگر ہیں۔ میرے نزدیک شامیوں کا حق ہے کہ وہ آزادی حاصل کریں۔ ملک ان کا ہے، حکمران بھی وہی ہونے چاہئیں۔ ان پر کسی اور کی حکومت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ ظلم اس لحاظ سے اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ پچھلی جنگ میں اہل شام نے اتحادیوں کی مدد کی اور اس غرض سے مدد کی کہ انہیں اپنے ملک میں حکومت کرنے کی آزادی دی جائے گی۔ پھر کتنا ظلم ہے کہ اب ان کو غلام بنایا جاتا ہے۔‘‘
1236چنانچہ یہ میں… حوالہ بھی لمبا ہے… چھوڑتا ہوں۔ تو آگے حوالوں سے ظاہر ہے کہ اپنی طرف سے پورا زور باقیوں کے ساتھ مل کے لگایا کہ ان کو جو حق ہے ان کو ملے۔
اب ہم آتے ہیں ۱۹۲۷ء ’’رنگیلا رسول‘‘ اور ’’ورتمان‘‘ اسلام کے افق میں نمودار ہوئے۔ آگ کے شعلے تھے۔ بڑا اس کا ردعمل تھا۔ ہونا چاہئے تھا۔ ’’ورتمان‘‘ آریہ راج پال کی ناپاک کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ اور امرتسر کے رسالہ ’’ورتمان‘‘ میں سید المعصومین آنحضرتa کے خلاف جو دل آزار مضمون شائع ہوا اس کے اوپر ہے ایک حوالہ میں ’’مشرق‘‘ ۲۲؍ستمبر ۱۹۲۷ء کا اس کے متعلق میں پڑھ دیتا ہوں۔ کام کیا، بڑی سخت جنگ یہ لڑی گئی اور یہ رنگیلا رسول کے متعلق:
’’جناب امام صاحب (جماعت احمدیہ) کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں۔ آپ ہی کی تحریک سے ’’ورتمان‘‘ پر مقدمہ چلایا گیا۔ آپ ہی کی جماعت نے ’’رنگیلا رسول‘‘ کے معاملے کو آگے بڑھایا، سرفروشی کی اور جیل خانے سے خوف نہیں کھایا۔ آپ ہی کے پمفلٹ نے جناب گورنر صاحب بہادر پنجاب کو عدل وانصاف کی طرف مائل کیا۔ آپ کا پمفلٹ ضبط کر لیا۔ مگر اس کے اثرات کو زائل نہیں ہونے دیا اور لکھ دیا کہ اس پوسٹر کی ضبطی محض اس وجہ سے ہے کہ اشتعال نہ بڑھے (انگریزی حکومت نے) اور اس کا تدارک نہایت عادلانہ فیصلے سے کر دیا اور اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے ہیں، سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہورہے ہیں۔ صرف ایک جماعت (احمدی جماعت) ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمعیت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام سرانجام دے رہی ہے۔‘‘
یہ مشرق ۲۲؍ستمبر ۱۹۲۷ئ۔ 1237اور بس میں یہ ایک ہی پڑھوں گا۔ یہ رئیس الاحرار مولانا محمد علی صاحب جوہر، جو پرانے احرار ہیں، ان کا بھی حوالہ ہے۔ یہ بہت سے ورق الٹنے میں اتنی دیر لگی۔ بڑی جلد ختم ہورہا ہے۔ بس اب تھوڑا سا رہ گیا ہے…
جناب یحییٰ بختیار: اگر لمبا بہت زیادہ ہے تو کل پھر کر دیتے۔
مرزاناصر احمد: نہیں، ابھی کل چلے گا؟
جناب یحییٰ بختیار: کل تو کچھ رہ گیا ہے۔
مرزاناصر احمد: اچھا! تو… نہیں، اگر ویسے آپ کی مرضی۔ لیکن میں، میرا خیال ہے، پانچ سات منٹ میں ختم کر دیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: بس ٹھیک ہے جی۔
مرزاناصر احمد: ۱۹۲۸ء میں سیرت النبیﷺ کے جلسوں کی تحریک ہوئی اور یہ تھا کہ میں اس کا جو اصل مغز تھا وہ یہ تھا کہ نبی اکرمﷺ کی سیرت پر جلسے اور ہندوؤں اور عیسائیوں اور ان کو بلاؤ کہ وہ بھی تقریر کریں۔ آنحضرتﷺ کی سیرت پر اور جو عملاً ہوا وہ یہ ہے کہ ان کے پاس تو اپنا نہ مواد تھا اور نہ انہوں نے اس کو سوچا تھا تو وہ مسلمانوں سے مواد لے کر اور بڑے اچھے رنگ میں وہاں آکر تقریر کر دیتے تھے اور اس طرح پر نبی اکرمﷺ کی شان اور جلالیت، وہ جو ان کی وجہ سے ان کے ساتھی عیسائی یا ہندو وغیرہ آتے تھے، ان کے سامنے آپ کی سیرت کا ایک چمکتا ہوا بیان آجاتا تھا۔ اس واسطے اس کے کہنے کے بعد میں سارا اس طرح کر دیتا ہوں۔ نہرو رپورٹ ایک شائع ہوئی۔ تو یہ بڑی عیار قوم ہے اور بڑی ہوشیاری سے چکر دے کر انہوں نے ایک ایسی رپورٹ کی تھی جو…
جناب یحییٰ بختیار: سب کو علم ہے جی اس کا۔
1238مرزاناصر احمد: ہاں… اس کے اوپر ایک تبصرہ کیا ہے، جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک بڑا تبصرا ہوا ہے اور اس کا دو سطری خلاصہ یہ تھا، اس تبصرے کا، کہ یہ مشورہ دیا کہ ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہو اور اس میں یہ یہ تجویزیں ہوں۔ نہ صرف اسلامی حقوق کی حفاظت کر لی گئی ہو بلکہ دوسرے تمام امور کے متعلق بھی ایک مکمل قانون یہ پیش کرے۔ یہ دو آئٹمز رہ گئی ہیں، وہ پھر کل کر لیں گے؟
جناب یحییٰ بختیار: اور کیا رہ گیا ہے؟
مرزاناصر احمد: ایک تو کشمیر۔ وہ تو بڑا اہم ہے۔ ہاں، ایک تو… ہاں، تین چار رہ گئے ہیں۔ کچھ تو سائمن کمیشن رپورٹ پر۔ یہ میں اس طرح داخل کروادیتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھئے ناں، مرزاصاحب! یہ تو جنرل باتیں ہیں۔
مرزاناصر احمد: قضیہ فلسطین اور جماعت احمدیہ کی مساعی… یہ بڑا اہم ہے۔ کیونکہ اعتراض ہو جاتے ہیں ناں کہ پہلے فلسطین تھا، اسرائیل بن گیا اور اکثر کو پتہ ہی نہیں کہ کس تاریخ کو بن گیا۔
جناب یحییٰ بختیار: پھر کل Afternoon (بعد دوپہر) کو ہوگا۔ کل صبح تو کہتے ہیں کہ نہیں ہورہا جی۔ 6 O'clock tomorrow? (کل چھ بجے؟)
محترمہ چیئرمین: اور آپ کو کوئی Question (سوال) تو نہیں پوچھنا ہے؟
Mr. Yahya Bakhtiar: نہیں Unless... Not now, because he has not concluded.
(جناب یحییٰ بختیار: ابھی نہیں، کیونکہ ابھی انہوں نے ختم نہیں کیا)
Madam Chairman: So, we meet again tomorrow at 5:30 pm.
(محترمہ چیئرمین: تو ہم کل ساڑھے پانچ بجے دوبارہ اجلاس کریں گے)
Mr. Yahya Bakhtiar: 5:30 pm tomorrow?
(جناب یحییٰ بختیار: کل ساڑھے پانچ بجے؟)
Madam Chairman: 5:30 pm tomorrow.
(محترمہ چیئرمین: ساڑھے پانچ بجے)
Mr. Yahya Bakhtiar: Because there is Senate Session, those journalists come and security arrangements....
1239مرزاناصر احمد: تو؟
Madam Chairman: 5:30 pm tomorrow.
(محترمہ چیئرمین: کل ساڑھے پانچ بجے)
مرزاناصر احمد: میرا حق نہیں ہے، مگر کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کے خیال میں کیا اندازہ ہے، کل ختم ہو جائے گا؟
جناب یحییٰ بختیار: یعنی یہ تو آپ پر Depend (انحصار) کر رہا ہے۔
مرزاناصر احمد: میں تو پانچ دس منٹ سے زیادہ نہیں لوں گا جی۔
جناب یحییٰ بختیار: تو ایک دو آئٹمز رہ گئے ہیں۔ میرے خیال کچھ زیادہ ٹائم نہیں، کوشش یہی ہے…
مرزاناصر احمد: … کہ کل شام کو ہو جائے ختم…
جناب یحییٰ بختیار: … کیونکہ سوال تو ابھی اتنے زیادہ رہ گئے ہیں۔ میں ممبر صاحبان سے Request (گزارش) کرتا ہوں کہ وہ Give up کر دیں تاکہ وہ…
مرزاناصر احمد: ہاں!
محترمہ چیئرمین: اچھا جی!
The Delegation is allowed to leave.
(وفد کو جانے کی اجازت ہے)
(The Delegation left the Chamber)
(وفد ہال سے باہر چلاگیا)
محترمہ چیئرمین: وہ جو فائل کرنے تھے، وہ لے لئے سب آپ نے؟
جناب یحییٰ بختیار: ہاں جی! اچھا ہے تاکہ وہ ختم ہو جائیں۔
----------
[The Special Committee adjourned to meet at half past five of the clock, in the afternoon, on Friday, the 23rd August, 1974.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس بروز جمعہ ۲۳؍اگست ۱۹۷۴ء بعد دوپہر ساڑھے پانچ بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے)
----------
 
Top