CROSS-EXAMINATION OF THE QADIANI GROUP DELEGATION
(قادیانی وفد پر جرح)
(سوالات کے جوابات کی طرف توجہ)
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! آپ نے کافی سے زیادہ جواب دینے ہیں۔(قادیانی وفد پر جرح)
(سوالات کے جوابات کی طرف توجہ)
مرزا ناصر احمد (گواہ، سربراہ جماعت احمدیہ، ربوہ): جی، وہ تیار ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اب ایک گزارش یہ کرنا تھی کہ وہ کچھ ’’الفضل‘‘ کے حوالے، میں نے ذِکر کیا تھا پرسوں، ان کی ہمیں ریکارڈ میں ضرورت ہوگی۔ اگر آپ کے پاس ان کی اوریجنل کاپی نہیں تو ان میں سے Extract ہمیں دے دیں۔ وہ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے بارے میں اپریل، مئی اور جون ۱۹۴۷ء کے ہیں، کیونکہ ہمارے پاس جو باقی جگہ سے نوٹ کئے ہیں یا فوٹواسٹیٹ ہیں، وہ ٹھیک نہیں ہیں۔
مرزا ناصر احمد: یہ ایک دفعہ تاریخ پڑھ دیں تاکہ میں تسلی سے۔۔۔۔۔۔ وہ میں دیکھ لاؤں گا۔ اگر Spare (فالتو) ہوئے تو اخبار دے دیں گے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، اگر نہیں ہوئے تو۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ فوٹواسٹیٹ کاپی دے دیں گے۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ فوٹواسٹیٹ دے دیں۔ ریکارڈ میں ایسی چیز۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: ہاں ، جی ٹھیک ہے۔
1347جناب یحییٰ بختیار: وہ ہم آپ کو دے دیتے ہیں جی تاریخیں تمام۔
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں ٹھیک ہے۔ یہ ’’محضرنامہ‘‘ واپس کر رہے ہیں جو ہمیں ملا تھا۔
(محضرنامہ واپس)
جناب یحییٰ بختیار: ’’جی، جی یہ دے دیں۔مرزا ناصر احمد: ایک فارسی، دو فارسی کے شعر پڑھے گئے تھے کل، کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ معاف کریں، عینک میری ذرا خراب ہوگئی، صاف کرلوں اسے۔
(اشعار کا مطلب)
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! میں دراصل آپ کو یہ عرض کر رہا تھا کہ یہ Different Stage (مختلف مرحلے) معلوم ہو رہی ہیں، تو وہ آپ Clarify (واضح) کردیں۔ باقی وہ شعر بھی پہلے پڑھے جاچکے ہیں۔مرزا ناصر احمد: شعر میں نے صرف تین پڑھنے ہیں اور ان کا مطلب۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، بے شک۔ میں ایسے ہی کہہ رہا ہوں کہ جو میرا مطلب تھا اس میں، یہ ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرزاصاحب نے Opinion Change (نظریہ تبدیل) کیا۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: جی، جی۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔۔ یا بعد میں انہوں نے نبی کہا۔ پھر وہ کہتے ہیں، نہیں ہے۔ تو اس واسطے وہ چیزیں جو ہیں، ان کی Clarification (وضاحت) کی ضرورت ہے۔ باقی ہر ایک Extract (اِقتباس) کی وہ Detail (تفصیل) -مطلب تو وہ پہلے بھی آپ سناچکے ہیں- ضرورت نہیں۔
مرزا ناصر احمد: جی، جی۔ میں یہ۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! فرمائیے آپ۔
مرزا ناصر احمد: آپ کام میں مشغول تھے، میں نے کہا میں Interfere (مداخلت) نہ کروں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، وہ انصاری صاحب مجھے کچھ حوالے دے رہے تھے۔
مرزا ناصر احمد: کل دو شعر پڑھے گئے تھے اور میں اس سے اگلا تیسرا ایک شعر پڑھ دُوں گا 1348اور مطلب واضح ہوجائے گا۔ کل جو پڑھے گئے ان میں سے پہلا ’’درثمین‘‘ کی نظم میں اپنے یعنی پہلے آیا ہے:
’’
آں چہ داد است ہر نبی را جام
داد آں جام را مرا بہ تمام‘‘
دُوسرا یہ پڑھا گیا تھا:
’’انبیاء گرچہ بودہ اند بسے
من بہ عرفاں نہ کمترم زکسے ‘‘
(نزول المسیح ص:۹۹، خزائن ج:۸۱ ص:۷۷۴)
اور جواب میں شعر میں یہ پڑھ رہا ہوں:
’’
لیک آئینہ ام بہ ربّ غنی
از پئے صورت مہ مدنی ‘‘
میں ترجمہ کردیتا ہوں، واضح ہوجائے گا۔ صرف ترجمہ کافی ہے جواب میں: ’’جو جام اللہ نے ہر نبی کو عطا کیا تھا وہی جام اس نے کامل طور پر مجھے بھی دیا۔‘‘
’’اگرچہ انبیاء بہت ہوئے ہیں، مگر میں معرفت میں کسی سے کم نہیں ہوں۔‘‘
یہ وہ جو شعر کل پڑھے گئے تھے، ان کا ترجمہ ہے اور جو اس کا جواب آگے اسی جگہ ہے، وہ یہ ہے: لیکن۔۔۔۔۔۔۔ وہ سارا لکھنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’لیکن میں ربّ غنی کی طرف سے بطور آئینہ کے ہوں اس مدینہ کے چاند کی صورت دُنیا کو دِکھانے کے لئے… محمدﷺ۔‘‘
ایک کل پوچھا گیا تھا عدالت میں کوئی معاہدہ کیا ۔۔۔۔۔۔ عدالت میں کوئی معاہدہ کیا گیا اور وہ معاہدہ عدالت نے پابند کیا کہ کوئی اپنا اِلہام کسی کے متعلق شائع نہ کریں، اور اس پر دستخط کردئیے اور یہ تو نبی کی شان کے نہیں ہے موافق۔ کوئی اس قسم کا تھا، مجھے صحیح یاد نہیں رہا۔ بہرحال اس 1349کے اُوپر یہ اِعتراض کیا گیا تھا۔ یہ بتاریخ، بتاریخ ۲۴؍فروری۱۸۹۹ء یعنی ایک کم سو، ۱۸۹۹ء بروز جمعہ اس طرح پر اس کا فیصلہ ہوا۔ وہ سارا مضمون آیا ہے۔۔۔۔۔۔