CROSS- EXAMINATION OF THE QADIANI GROUP DELEGATION
جناب یحییٰ بختیار (اٹارنی جنرل پاکستان): مرزاصاحب…
مرزاناصر احمد (گواہ، سربراہ جماعت احمدیہ ربوہ): کچھ سوالات جو آپ نے لکھوائے تھے، وہ رہ گئے ہوں گے۔
515جناب یحییٰ بختیار: ہاں! وہ آپ بیشک پڑھ لیں۔
مرزاناصر احمد: ہاں! وہ پڑھ دیتا ہوں۔
فارسی کی ’’درثمین‘‘ چاہئے لائبریرین صاحب!
ایک سوال ایک کشف کے متعلق پوچھا گیا تھا جس کا تعلق حضرت فاطمہؓ سے ہے۔ اس سلسلے میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ امت محمدیہ میں تعبیر رؤیا کا ایک علم مدون ہوا بڑا زبردست، اور اس کے اماموں میں امام جعفر صادقؒ اور ابن سیرینؒ مشہور امام ہیں۔ اس علم کے اور علم کی حیثیت سے یہ مدون ہوا اور امت مسلمہ کی تاریخ میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ کشوف ورؤیا کی تعبیر کی جاتی ہے۔کشوف یہ اعتراض نہیں کیا جاتا۔ اس نکتہ کو سمجھانے کے لئے میں چند رؤیا جو پہلے آئی ہیں وہ بتانا چاہتا ہوں۔ اس کے بغیر جس کے متعلق سوال کیاگیا ہے اس کی سمجھ نہیں آسکتی۔
پہلی مثال ہے امام ابوحنیفہؒ کی ’’تذکرہ الاولیائ‘‘ فارسی میں ہے۔ جس کا ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ اس میں یہ لکھا ہے کہ: ’’حضرت امام ابوحنیفہؒ نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ پیغمبرؑ کی ہڈیاں لحد سے جمع کیں اور بعض کو چھوڑ کر بعض کو پسند کر لیا اور اس ہیبت سے آپ بیدار ہو گئے۔ ابن سیرینؒ کے اصحاب میں سے ایک نے پوچھا تو اس نے کہا کہ تو پیغمبرؑ کے علم میں اور ان کی سنت کی حفاظت میں ایسا درجہ پائے گا کہ اس میں متعارف ہو جائے گا۔ صحیح کو سقیم سے جدا کرے گا۔‘‘
تو اتنا بھیانک خواب کے اپنے خواب، رؤیا میں یہ دیکھتے ہیں کہ روضہ مطہرہ میں سے آپa کے جسم مطہر کی ہڈیاں لیں اور بعض کو پسند کیا۔ بعض کو ناپسند کیا۔ اس صالح انسان پر کپکپی طاری ہوگئی۔ وہ کانپ اٹھے کہ یہ میں نے کیا دیکھ لیا اور اصحاب ابن سیرینؒ کے، جو ان کے شاگرد516 وغیرہ تھے۔ ان کے پاس گئے اور کہا کہ میں نے یہ خواب دیکھی ہے۔ گھبرائے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا کہ گھبرانے کی بات نہیں۔ آپ نے جو خواب دیکھی، جو رؤیا دیکھی، اس کی تعبیر ہے اور تعبیر یہ ہے کہ آپ سنت نبویؐ میں جو غلط باتیں شامل ہوچکی ہیں ان کو صحیح سے علیحدہ کر دیں گے اور خالص سنت نبویؐ کے قیام کا ذریعہ بنیں گے۔
دوسری رؤیا جو یہاں میں مثال کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ’’گلدستہ کرامات‘‘ سے ہے اور سوانح حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ ہے۔ ہمارے ایک مشہور بزرگ ہیں جن کا نام تعارف کا محتاج نہیں۔ سید شیخ عبدالقادرؒ… میں شروع سے… کتاب ’’جواہر القلائد‘‘ میں لکھا ہے کہ: ’’فرمایا جناب محبوب سبحانی، قطب ربانی، سید شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے کہ ایک روز ہم نے یہ عالم طفولیت (یعنی عمر تو بڑی تھی لیکن اپنے آپ کو ایک بچے کی شکل میں دیکھا) ایک ہم یہ عالم طفولیت خواب راحت میں تھے۔ کیا دیکھا کہ فرشتگان آسمان بحکم ربانی ہم کو اٹھا کر حضرت عائشہ صدیقہؓ کی خدمت میں لے گئے۔ انہوں نے ہم کو گود میں اٹھایا۔ چھاتی سے لگایا اور اتنا پیار کیا تھا کہ پستان مبارک میں دودھ بھر آیا اور سرپستان ہمارے منہ میں رکھ کر (سرپستان ہمارے منہ میں رکھ کر) دودھ پلایا۔ اتنے میں جناب رسالت مآبﷺ بھی وہاں رونق افروز ہوئے اور فرمایا کہ: یا عائشہ ہذا ولدنا حق قرۃ عینا وجیہا والدنیا ولآخرۃ من المقربین۔‘‘
اس کی بھی اس کشف، اس رؤیا کی بھی تعبیر کی گئی ہے۔ سید عبدالقادر جیلانیؒ پر اعتراض نہیں کیاگیا۔ تیسری517 مثال اس وقت جو میں دینا چاہتا ہوں، وہ حضرت مولانا سید احمد بریلویؒ کے ایک خواب کی ہے۔
’’ایک دن حضرت علی کرم اﷲ وجہہ اور جناب سیدۃ النساء فاطمتہ الزہرہؓ کو سید صاحب نے خواب میں دیکھا۔ اس رات کو حضرت علیؓ نے اپنے دست مبارک سے آپ کو نہلایا اور حضرت فاطمہؓ نے ایک لباس اپنے ہاتھ سے آپ کو پہنایا۔ بعد ان وقوعات کے کمالات طریقہ نبوت کے نہایت آب وتاب کے ساتھ آپ پر جلوہ گر ہونے لگے۔ (یہ خواب کی تعبیر بتائی گئی ہے اس میں) اور وہ عنایات ازلی جو مکنون اور محجوب تھیں۔ ظاہر ہوگئیں اور تربیت یزدانی، بلاواسطہ کسی کے، متکفل حال آپ کے ہوگئی۔‘‘
اور ایک چھوٹی سی مثال اور ہے۔ حضرت مولوی اشرف علی صاحب تھانویؒ فرماتے ہیں: ’’ہم نے خواب میں حضرت فاطمہؓ کو دیکھا۔ انہوں نے ہم کو اپنے سے چمٹا لیا۔ ہم اچھے ہوگئے۔‘‘
(افادات الیومیہ جلد۶، بحوالہ ’’دیوبندی مذہب‘‘ ص۱۵۶)
اور بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک کشف دیکھا، رؤیا دیکھا، اسی طرح اور اس کی طرف ریفرنس کیا۔ اپنی کتاب ’’نزول المسیح‘‘ کے صفحہ ۴۲۶ کے حاشیہ میں۔ جس کی دو سطریں جو ہیں وہ سوال کے اندر لی گئی ہیں اور اس میں آپ نے یہ شروع میں لکھا ہے کہ یہ کشف جو ’’براہین احمدیہ‘‘ میں مندرج ہے۔ اس کی طرف ریفرنس ہے۔ اس واسطے ہم ’’براہین احمدیہ‘‘ لیتے ہیں کہ اس میں کشف کیا درج ہے۔ ’’براہین احمدیہ‘‘ کی یہ عبارت ہے: ’’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل وجان اس سے معطر ہوگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پرنور کی مشکیں518 اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمدﷺ کی طرف بھیجی تھیں۔‘‘
’’اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنی یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ حضومت میں ہیں۔ یعنی ارادۂ الٰہی احیائے دین کے لئے جوش میں ہے۔ لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ ہر شخص محیی کے تعین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا: ہذا رجل یحب رسول اﷲ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اﷲﷺ سے محبت رکھتا ہے اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسولﷺ ہے۔ سو وہ اس شخص میں متحقق ہے اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسولﷺ پر درود بھیجنے کا حکم ہے تو اس میں یہی سر ہے کہ افادہ انوار الٰہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے۔ وہ (انہیں اہل بیت) وہ انہیں طیبین، طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم ومعارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔
اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غیبت حس سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یک دفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی۔ جیسے سرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور519 موزہ کی آواز آتی ہے۔ پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے۔ یعنی جناب پیغمبر خداﷺ اور حضرت علیؓ اور حسنینؓ وفاطمتہ الزہراؓ (میں غلط پڑھ گیا ہوں) (پیغمبر خداﷺ وحضرت علیؓ وحسنینؓ وفاطمتہ الزہراؓ) رضی اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۵۰۳،۵۰۴، خزائن ج۱ ص۵۹۸،۵۹۹)
تو یہ وہ کشف ہے جس کی طرف ’’نزول مسیح‘‘ میں اشارہ کیاگیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ کشف ہے۔ جس طرح دوسرے کشوف میں اولیائے امت نے حضرت فاطمتہ الزہراؓ کے متعلق کشوف دیکھے یا جیسے حضرت امام ابوحنیفہؒ نے نہایت بظاہر بھیانک کشف دیکھا۔ لیکن اس کی تعبیر کی گئی تو جیسا کہ امت محمدیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ کشوف ورؤیا کی تعبیر کی جاتی ہے۔ ان پر اعتراض نہیں کیا جاتا۔ اس کشف کی بھی تعبیر ہونی چاہئے اور تعبیر اس کی اس کے اندر واضح ہے۔ کیونکہ جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ہے۔ اس کشف میں پانچ وجود آپ کے سامنے آئے اور ان کی موجودگی میں، جن میں نبی اکرمa اور سارے کھڑے ہوئے تھے۔ ’’مادر مہربان کی طرح میرا سر اپنی ران کے ساتھ لگایا۱؎۔‘‘ کا مطلب ہے کہ کشف میں خود کو بہت چھوٹے بچے کی طرح دیکھا کہ آپ کا سر صرف ران تک پہنچتا تھا۔
اور اس قسم کے اس سے زیادہ واضح حوالے اور بھی ہیں جن کو میں نے چھوڑ دیا ہے۔ لیکن جو میں نے بیان کئے وہ بھی بڑے واضح ہیں تو یہ ایک کشف ہے جس کی تعبیر ہونی چاہئے۔ جو پہلوؤں نے کی اور یہاں بھی واضح ہے۔ آگے اور بھی میں کچھ…
520جناب یحییٰ بختیار: آپ نے، مرزاصاحب، خواب اور کشف کا ذکر کیا۔ دونوں میں فرق کیا ہے؟
مرزاناصر احمد: جو خواب ہے اس کے لئے حالت خواب ضروری ہے۔ یعنی نیند میں وہ نظارہ نظر آتا ہے اور کشف عام طور پر حالت بیداری یا حالت نیم بیداری میں نظر آتا ہے۔ مثلاً ہمارے شہنشاہ ایران کی بائیو گرافی میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ جوانی کی حالت میں وہ اپنے باغ میں ٹہل رہے تھے۔ اپنے اتالیق کے ساتھ۔ تو وہاں ان کو کشفی نظارہ دکھایا گیا اور مہدی ان کے سامنے آگئے تو یہ ان کی کتاب میں ہے۔ یعنی اس لئے خواب کی نہیں… کشف میں عام طور پر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ قارئین! باالخصوص قادیانی حضرات توجہ کریں اور خوب غور سے ملاحظہ کریں۔ مرزاناصر احمد کے دجل کو کہ اصل عبارت جو مرزاقادیانی کی پڑھی۔ اس میں ’’اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔‘‘ لیکن دومنٹ بعد مرزاناصر نے اس عبارت کو بدل کر ’’سرران کے ساتھ لگالیا‘‘ کردیا۔ یعنی ان کا سر ران تک آیا۔ گویا مرزاقادیانی بچہ تھا۔ پورے ہاؤس کے سامنے بات کو اپنے دجل سے کہاں تک لے گیا؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حالت بیداری، حالت نیم بیداری…
جناب یحییٰ بختیار: یہ جو وحی آتی ہے کسی نبی پر…
مرزاناصر احمد: یہ پھر نئے سوال شروع! ایک درخواست ہے…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ وحی کشف کی حالت میں آسکتی ہے۔ خواب کی حالت میں آسکتی ہے یا بالکل بیداری کی حالت میں آتی ہے؟
مرزاناصر احمد: جس حالت میں ہو وہ دیکھنے والا بیان کر دیتاہے کہ میں نے یہ کس طرح دیکھا۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی ہر حالت میں آسکتی ہے، وحی جو ہے؟
مرزاناصر احمد: وحی کے متعلق میں…
جناب یحییٰ بختیار: کیونکہ وحی تو صرف نبیوں کو آتی ہے ناں جی! یہ تو…
مرزاناصر احمد: نہیں وحی شہد کی مکھی کو بھی آتی ہے: اوحیٰ ربک الیٰ النحل
جناب یحییٰ بختیار: اور جو وحی نبیوں کو آتی ہے…
521مرزاناصر احمد: یہ میں قرآن کریم کی آیت پڑھ رہا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں جی! میں آپ سے اسی واسطے Clarification (وضاحت) پوچھ رہا ہوں۔
مرزاناصر احمد: اوحیٰ الیٰ ام موسیٰ
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر وحی نازل ہوئی۔ میرا مطلب ہے، میں نے ایک مثال دی ہے۔ بس! مثالیں زیادہ دینے کی ضرورت نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اور جو وحی نازل ہوتی ہے نبی پر، اس پر تو کسی تعبیر کی ضرورت نہیں ہوتی؟ جیسے خواب کی تعبیر کی ضرورت ہوتی ہے۔
مرزاناصر احمد: جو وحی ہے، ہمارے اسلامی محاورہ میں، اسلامی اصطلاح میں، اس کی تفسیر کی جاتی ہے۔ تعبیر نہیں کی جاتی۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں! میں یہی کہتا ہوں۔
مرزاناصر احمد: ہاں! یعنی وہ فرق آگیا ناں، تفسیر کی جاتی ہے تعبیر نہیں کی جاتی۔
جناب یحییٰ بختیار: اور جو خواب ہوتا ہے کشف ہوتا ہے، اس کی تعبیر کی جاتی ہے؟
مرزاناصر احمد: اس کی تعبیر کی جاتی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: تفسیر کی ضرورت نہیں؟
مرزاناصر احمد: ہاں! اس کی تفسیر کی ضرورت نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اور جو نبی ہوتے ہیں، ان کو کشف…
مرزاناصر احمد: ان کو کشوف بھی ہیں، بڑی کثرت سے، احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔ کشوف بھی ہیں۔ رؤیا بھی ہیں۔ وحی بھی ہے۔ وہ تو خزانہ رکھتے ہیں خدا کا۔
جناب یحییٰ بختیار: اور جو نبی کا کشف ہوتا ہے، اس کی بھی…
522مرزاناصر احمد: اس کی بھی تعبیر ہوتی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: تعبیر یا قیاس؟
مرزاناصر احمد: نہیں، تعبیر ہوتی ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: کشف اور خواب میں، جہاں تک تعبیر کا تعلق ہے، کوئی فرق نہیں؟
مرزاناصر احمد: ہاں! کوئی فرق نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اب آپ جو دوسرے سوال ہیں، مرزاصاحب! ان کا جواب دیں۔ پھر میں ان کی طرف آتا ہوں۔
مرزاناصر احمد: ایک یہ سوال کیاگیا تھا کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے فارسی منظوم کلام میں یہ فرمایا: عیسیٰ کجاست تابنہد پابمنبرم
یہ دو باتیں پہلے تمہید کی ضروری ہیں تمہید میں ایک یہ کہ شعراء نے ایک محاورہ بنایا ہے۔ ’’قطعہ بند‘‘ جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ دو شعر مل کے صحیح مفہوم اور پورے مفہوم ادا کر رہے ہیں۔ قطعہ بند کے یہ (معنی) ہیں۔ یہ قطعہ بند ہے۔ اس میں دو شعر ’’اینک منم‘‘ اور ’’آں را‘‘ جو اگلا شعر ہے۔ یہ دونوں مل کے مفہوم کو پورا ادا کر رہے ہیں۔ اس میں تو نہیں، ایک دوسرے ایڈیشن میں یہ لکھا بھی ہوا ہے۔ ’’قطعہ بند‘‘ اور اس سے پہلے جو ہیں اشعار، وہ اس کا معنی ادا کر رہے ہیں، اور وہ یہ ہیں:
موعودم وبحلیہ ماثور آمدم
حیف است گر بدیدہ نہ بینند منظرم
رنگم چوں گندم است برمفرق بین است
بر523آساں کہ آمدست در اخبار سرورم
ایں مقدمم نہ جائے شکوک است والتباس
سید جدا کندز مسیحائے احمرم
اور اس میں آپ نے یہ مضمون بیان کیا ہے کہ نبی اکرمa نے مسیح ناصری کا اور حلیہ بیان کیا اور میرا حلیہ اور بیان کیا۔ آپ کو کشف میں دونوں شبیہ دکھائے گئے اور آپ کی بشارات ’’اینک منم کہ حسب بشارات آمدم‘‘ (میرا دعویٰ صرف یہ ہے کہ نبی اکرمa کی بشارات نے جو مقام مجھے دیا، ان بشارات کے مطابق میں اس مقام کا دعویٰ کرتا ہوں اور جو آنحضرتa کی بشارات کے نتیجہ میں میرا مقام ہے اس پر مسیح ناصری کا دعویٰ نہیں ہوسکتا)
یہ جو ہے ناں، ’’پابمنبرم‘‘ یہ پہلا یہ: ’’اینک منم کہ حسب بشارات آمدم‘‘ (جس مقام کا میں دعویٰ کر رہا ہوں۔ وہ مقام نبی اکرمa نے میرے لئے متعین کیا ہے)
جب آنحضرتa نے وہ مقام مسیح ناصری کے لئے نہیں، بلکہ مسیح محمدی کے لئے مقرر کیا ہے تو مسیح ناصری اس پر دعویٰ ہی نہیں کر سکتا۔
اور آگے اس کی دوسری دلیل یہ دی: ’’آں را کہ حق بہ جنت خلد مقام داد‘‘ (وہ فرد، وہ شخص جس کو اﷲتعالیٰ نے جنت میں جگہ دے دی)
’’چوں برخلاف وعد بیروں آرد از ارم‘‘ (وہ جنت سے اﷲتعالیٰ کے وعدہ کے برخلاف کیسے نکل کے باہر آجائے گا)
524تو یہ دعویٰ تھا کہ میرا مقام یہ ہے اور اس کے لئے دو دلیلیں دیں: ایک تو یہ کہ اس مقام کی تعیّن محمدa نے مسیح محمدی کے لئے کی ہے۔ مسیح موسوی کے لئے نہیں کی اور دوسرے یہ کہ جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تعلیم ہے اسلام کی کہ جو شخص ایک دفعہ جنت میں چلا جائے وہ پھر واپس نہیں آیا کرتا۔ تو دوسری دلیل یہ دی کہ وہ تو جنت میں چلا گیا۔ وہ کیسے واپس آکے اس مقام کا دعویٰ کریں گے تو یہ اس کا مطلب ہے۔ یہ ایک اور تھا وہ تو صرف دینا ہے…
جناب یحییٰ بختیار: مرزاصاحب! نہیں، اس پر تاکہ میں ایک دو اور سوال پوچھ سکوں…
مرزاناصر احمد: اچھا! ہاں، ہاں۔ ٹھیک ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ نے جب یہاں یہ ذکر کیا کہ: ’’عیسیٰ کجا است تابنہد پابمنبرم‘‘ یہ یسوع کی طرف اشارہ ہے؟ یا عیسیٰ کی طرف۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے؟ دو شخصیتیں اس وقت ہیں ہمارے سامنے۔