PROCEDURE FOR GENERAL DISCUSSION ON THE QADIANI ISSUE
(قادیانی مسئلہ پر عمومی بحث کا طریقہ کار)
ملک محمد اختر: تو پھر ہم کیوں وقت ضائع کریں؟ کام سٹارٹ کر لیں، طریقہ کار طے کر لیں۔ آج نئی بات کرنی ہے تو دس منٹ بعد بریک کر لیں گے۔کیونکہ بلاوجہ ہم…(قادیانی مسئلہ پر عمومی بحث کا طریقہ کار)
جناب چیئرمین: ویسے بھی مغرب کا ٹائم ہوگیا ہے۔
ملک محمد اختر: اگر ٹائم ہی ہوگیا ہے تو ٹھیک ہے۔
جناب چیئرمین: ان گھڑیوں میں بھی فرق ہے، وہ دو منٹ پیچھے ہے۔
ملک محمد اختر: چلئے جی! اگر ٹائم ہوگیا ہے تو پھر ٹھیک ہے۔
Mr. Chairman: Then we will meet at 7:30 pm. in the meantime, I will discuss procedure, Maulana Sahib.
(جناب چیئرمین: پھر ساڑھے سات بجے شام دوبارہ ملیں گے۔ عین اس وقت میں طریقہ پر بحث کروں گا۔ مولانا صاحب!) کہ کس طرح سے سٹارٹ کرنا ہے۔
ملک محمد اختر: تو ملتوی کرنے سے پہلے آپ اس چیز پر غور کر لیں کہ کسی نے شاید آپ سے بات کرنی ہو کہ یہ کتاب ہے سیکنڈ ریزولیوشن کے متعلق اس کا مطلب ہے۔ پہلے ریزولیوشن کو ڈسکس کئے بغیر ہم سیکنڈ پر جائیں گے یا سیکنڈ کو پہلے لے کر یا دونوں کو ہم اکٹھا لیں گے؟
Mr. Chairman: This is open. Both can be taken up together. This is open for the members to settle whatever they like.
(جناب چیئرمین: یہ اوپن ہے۔ دونوں پر اکھٹے حصہ لیا جاسکتا ہے۔ یہ ممبران کے لئے اوپن ہے کہ وہ جیسے چاہیں اس کو حل کریں)
ملک محمد اختر: یہ آپ فیصلہ کر لیں جیسے آپ نے کرنا ہے۔
1862جناب چیئرمین: کیونکہ اس پررولز نہیں اپلائی کریں گے اپنا پروسیجر Adopt (اختیار) کریں گے۔
مولوی مفتی محمود: میرا خیال یہ ہے اس سلسلے میں کہ اس وقت دو تحریکیں آئی تھیں۔ پہلی تحریک جو جناب پیرزادہ صاحب نے پیش کی تھی وہ قرارداد کی صورت میں نہیں تھی۔ اس میں صرف یہ تھا کہ ختم نبوت پر یقین نہ رکھنے والوں کی اسلام میں کیا حیثیت ہے، اس پر بحث کی جائے اور دوسری جو ہے وہ قرارداد کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ تو میرے خیال میں یہ ساری ایک ہی بات ہے اور اکٹھے سارے اس پر بحث کر سکتے ہیں۔
جناب چیئرمین: اکٹھی بحث ہو جائے گی۔
ملک محمد اختر: جناب! دونوں اکٹھی زیربحث آجائیں تو ہمیں اعتراض نہیں، تحریکیں دونوں ہی چلیں گی۔
جناب چیئرمین: ابھی ہم نے Put to vote (رائے دہی کے لئے پیش) تو نہیں کیں۔
مولانا غلام غوث ہزاروی: جناب چیئرمین صاحب! پہلے ایک قراداد پیرزادہ صاحب نے پیش کی، پھر اپوزیشن ممبران نے پیش کی ایک قرارداد اور وہاں تو تجویز یا عبارت تھی۔ کوئی ایک تجویز ہم نے پیش کی تھی۔ وہ تجویز نہیں تھی بلکہ بل تھا۔ ہم نے تین ممبران کی طرف سے ایک تجویز پیش کی۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ وہاں داخل ہوئی تو اس چیز کے بارے میں ہمیں بحث کرنے کی باقاعدہ اجازت ہونی چاہئے۔
جناب چیئرمین: باقاعدہ ہوگی۔
مولانا غلام غوث ہزاروی: اور اجازت ایسی ہو کہ جس طرح انہوں نے اپنا بیان سنایا ہے۔ اسی طرح ہم بھی سنائیں۔
جناب چیئرمین: مغرب کے بعدمولانا! ہم یہاں بیٹھیں گے۔ سب سے پہلے طریقہ کار پر بحث کریں گے۔ اس میں جو پہلے طریقہ کار ہم نے ڈسکس کیا تھا۔ اس پر ہم پھر ڈسکس کریں گے جو ممبران زبانی بیان دینا چاہیں، پڑھنا چاہیں یا بحث میں حصہ لینا چاہیں، یہاں آکر بحیثیت گواہ پیش ہو جائیں۔ جو آپ مناسب سمجھیں گے آپ کو پورا حق ہے۔
1863مولوی مفتی محمود: میں اس میں اتنی پوزیشن واضح کر دوں کہ پوزیشن یہ ہے کہ ہم یہاں پر بحیثیت گواہ کے، جیسے کہ وہ دو فریق پیش ہوئے تھے اس طرح ہم پیش نہیں ہوں گے اور ہم اس مسئلے میں ان کے مقابلے میں ایک فریق کی حیثیت اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا مؤقف تمام مسلمانوںکا مؤقف ہے۔ اس میں ہم ان کے فریق بننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں یہ صورتحال ہے کہ ہم ایک ممبر کی حیثیت سے ہیں اور ممبران کو حقائق واضح کرنے کے لئے اس پر بحث کرنے کا حق ہے اور ایک ممبر کی حیثیت میں ہم بحث کر سکتے ہیں۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے۔
مولوی مفتی محمود: دلائل دیتے ہیں۔ اس لئے ہم نے وہ دلائل اکٹھے کر لئے ہیں۔ ایک تحریک کی صورت میں تو آپ سے اجازت لے لیں گے۔ وہ ہم پڑھ لیں گے۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے۔
مولوی مفتی محمود: اور ہماری حیثیت یہ ہوگی کہ اگر ہم بطور گواہ کے پیش ہوتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم جج نہیں رہ سکتے اور ہم اس میں فیصلہ نہیں کر سکتے۔
جناب چیئرمین: کیونکہ وہ گواہ کی حیثیت سے پیش ہوگئے تو پھر وہ ووٹ نہیں دے سکتے۔
مولوی مفتی محمود: ہاں! پھر ووٹ نہیں دے سکتے۔
جناب چیئرمین: لازمی بات ہے۔
مولانا غلام غوث ہزاروی: یہ مسئلہ شاید رہبر کمیٹی میں پیش ہو۔ اس میں فیصلہ ہو جائے گا طریقہ کار کے متعلق۔
جناب چیئرمین: ہاں جی! یہ ڈسکس ہوگا۔ ہم جب دوبارہ نماز کے بعد شروع کریں گے تو ڈسکس کر لیں گے۔ میری ایک عرض ہوگی کہ آپ لوگ جب بحث میں حصہ لیں تو ساتھ تجاویز بھی دیتے جائیں کہ یہ تجویز صحیح ہے، یہ غلط ہے۔
1864مولانا غلام غوث ہزاروی: وضاحت اس کی ہم یوں کر سکتے ہیں کہ یا تو بحیثیت ممبر کے ہم کوئی بات کریں۔ یہ اسمبلی فیصلہ کرنے والی ہے، یہ جج کی حیثیت میں ہے۔ یہ ملک کا قانون پاس کرنے کے لئے ہے یا تو اس حیثیت میں بحث کریں اور یہی حیثیت صحیح ہے کہ نہ ہم حلف اٹھائیں۔
جناب چیئرمین: ٹھیک ہے۔ جیسے آپ مناسب سمجھیں۔
مولانا غلام غوث ہزاروی: آگے یہ طریقہ کار رہبر کمیٹی…
جناب چیئرمین: اس کے بعد جتنی آپ کی پروسیڈنگ ہوگی اس پر سٹیرنگ کمیٹی بیٹھ جائے گی اور فائنل کرلیں گے۔
مولوی مفتی محمود: میری گذارش یہ ہے کہ ہم نے یہ بات رہبر کمیٹی میں طے کر لی تھی کہ ہم کس طریقے سے پیش ہوں گے۔ اگر ہم گواہ کی حیثیت سے پیش ہوجاتے ہیں تواس کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ ہم جج کی حیثیت میں اپنا ووٹ استعمال نہیں کر سکتے۔
جناب چیئرمین: ہاں! پھر ووٹ نہیں ہو سکے گا۔ نیچرل جسٹس بھی یہی ہے، جیسا کہ مولانا صاحب نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب وہ گواہ کی حیثیت میں پیش ہوں گے تو پھر ان…
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: میں، جناب! ایک چھوٹی سی گذارش کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جیسے مولانا صاحب نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب وہ گواہ کی حیثیت میں پیش ہوں گے تو پھر ان کی جج کی حیثیت مجروح ہو جائے گی۔ لیکن ایک مسئلہ ہے، اس میں میں چاہتا ہوں کہ اس کی کسی نہ کسی طریقے سے وضاحت ہو جائے۔ وہ یہ ہے، جناب والا! کہ انہوں نے ایک فریق کی حیثیت سے بہت سی باتیں ایسی کی ہیں کہ جن میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہاؤس کے ان اراکین میں سے میں بھی ایک ہوں جن کا علم اس ضمن میں محدود ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے ایسے فتوے پیش کئے ہیں جن میں ایک خیال کے علماء کی طرف سے دوسرے خیال کے علماء کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف بہت سارے نازیبا اور ناروا الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ اس لئے میں 1865آپ کی وساطت سے جناب مولانا صاحب سے گزارش کروں گا کہ آپ جج بے شک رہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ اگر ایسے دو یا تین علماء صاحبان یہاں جو بیٹھے ہوئے ہیں ان کو اگر یہ موقع فراہم کریں کہ کم ازکم ان کے اعتراض اور Charges (الزامات) کا وہ جواب دیں۔
جناب چیئرمین: یہ پرائیویٹ طور پر مشورہ دے دیں ان کو۔
سردار عنایت الرحمن خان عباسی: نہیں جی! مشورے کی بات تو نہیں ہے۔ میں تو چاہتا ہوں، جناب! مجھے تو ایسا فریق چاہئے جو اس ضمن میں تردید کرے یا پھر ہمیں خود اجازت دیں۔ ہم پھر جو کچھ اس ضمن میں درست ہے وہ کہہ دیں۔
مولوی مفتی محمود: میں اس سلسلے میں یہ عرض کروں…
جناب چیئرمین: نہیں جی! یہ ڈسکس کر لیں گے۔
The House is adjourned to meet at 7:30 pm.
(ہاؤس کو ساڑھے سات بجے شام تک کے لئے ملتوی کیا جاتا ہے)
----------
[The Special Committee adjourned for Maghrib prayers to meet at 7: 30 pm.]
(خصوصی کمیٹی کو مغرب کی نماز کے لئے ساڑھے سات بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے)
----------
[The Special Committee re-assembled after Maghrib Prayers, Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali) in the Chair.]
(خصوصی کمیٹی کا اجلاس مغرب کے بعد دوبارہ شروع ہوا مسٹر چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) کرسی صدارت پر موجود ہیں)
Mr. Chairman: I will request the honourable members to be attentive.
(جناب چیئرمین: میری معزز ممبران سے درخواست ہے کہ وہ متوجہ ہو جائیں)
مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری: تقریریں بعد میں کریں گے۔ جو پچھلی پروسیڈنگز ہیں، میں آپ کو اس میں سے کچھ پورشن پڑھ کر سنادیتا ہوں تاکہ یاد دہانی ہو جائے۔ اس کے مطابق اپنا طریق کار طے کر لیں گے سٹیرنگ کمیٹی نے فیصلے کئے تھے تیرہ جولائی کو۔ اس میں پہلا جو Operative Portion (قابل عمل حصہ) ہے، اس میں پہلے تو کوئسچنز کا پورشن ہے۔
1866Before the resolutions moved by the various members are considered in the Special Committee, the movers may make statement and explain thir view- point before the Steering committee.
(خصوصی کمیٹی میں شامل ممبران کی جانب سے پیش کی گئی قراردادوں سے پہلے محرکین اپنا بیان دے سکتے ہیں اور سٹیئرنگ کمیٹی کے سامنے اپنا نقطہ نظر واضح کر سکتے ہیں)
In the House, it was decided that after the statement of Ahmadia Community (this was on 12th July, 1974) has been recorded, and questions have been answered, members of the House will have the right to have their observations and views recorded before the Special Committee in the light of the material that has come before the Special Committee.
(ہاؤس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ احمدیوں کی جانب سے بیان دینے کے بعد (جو کہ ۱۲؍جولائی ۱۹۷۴ء کو دیا گیا) جسے ریکارڈ کیاگیا اور سوالات کے جوابات دئیے گئے تھے۔ ممبران کو حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنے مشاہدات اور خیالات خصوصی کمیٹی کے سامنے موجود مواد کی روشنی میں پیش کر سکیں)
Mian Mohammad Attaullah: Lahori Jamaat Also. (میاں محمد عطاء اﷲ: لاہوری جماعت بھی)
Mr. Chairman: Yes. (جناب چیئرمین: جی ہاں!)
Mlik Mohammad Akhtar: It will be a sort of written statement. (ملک محمد اختر: یہ ایک طرح کا تحریری بیان ہوگا)
Mr. Chairman: Yes. They should submit their views in writing and also have liberty to have their written statements recorded on oath.
(جناب چیئرمین: ہاں! انہیں اپنے خیالات تحریری شکل میں جمع کروانے چاہئیں اور انہیں آزادی ہوگی اپنے تحریری بیانات کو حلف نامہ کے ساتھ جمع کروانے کی)