• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

الْاعلام بمعنی الکشف و الوحی و الالہام

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الْاعلام بمعنی الکشف و الوحی و الالہام


بسم اللہ الرحمن الرحیم

کشف

عالم غیب کی کسی چیز سے پردہ اٹھا کر دکھلا دینے کا نام کشف٭ ہے۔ کشف سے پہلے جو چیز مستور تھی، اب وہ مکشوف یعنی ظاہر اور آشکار ہو گئی۔ قاضی محمد اعلیٰ تھانویؒ کشاف اصطلاحات الفنون صفحہ؍1254 میں لکھتے ہیں:

الکشف عند اہل السلوک ہو المکاشقہ رفع حجاب راگویند کہ میاں روح جسمانی است کہ ادراک آں بحواس ظاہری نتواں کرد...الخ “۔

اس کے بعد فرماتے ہیں کہ حجابات کا مرتفع ہونا قلب کی صفائی اور نورانیت پر موقوف ہے۔ جس قدر قلب صاف اور منور ہو گا اسی قدر حجابات مرتفع ہوں گے۔ جاننا چاہیے کہ حجابات کا مرتفع ہونا قلب کا نورانیت پر موقوف تو ہے مگر لازم نہیں۔(احیا العلوم جلد سوم صفحہ16)

الہام

کسی خیر اور اچھی بات کا بِلا نظر و فکر اور بِلا کسی سبب ظاہر کے من جانب اللہ قلب میں القاء ہونے کا نام الہام ہے۔ جو علم بطریق حواس حاصل ہو وہ ادراک حسی ہے اور جو علم بغیر حس اور طور عقل، من جانب اللہ بِلا کسی سبب کے دل میں ڈالا جائے وہ الہام ہے۔ الہام محض مواہبت ربانی اور فراست ایمانی جس کا حدیث میں ذکر آیا ہے وہ من وجہ کسب ہے اور من وجہ وہب ہیں۔

کشف اگرچہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے الہام سے عام ہے، لیکن کشف کا زیادہ تعلق امور حسیہ سے اور الہام کا تعلق قلبیہ سے ہے۔

وحی

وحی لغت میں مخفی طور پر کسی چیز کے خبر دینے کا نام ہے، خواہ وہ بطریق اشارہ و کنایہ ہو یا بطریق خواب ہو یا بطریق الہام ہو یا بطریق کلام ہو۔ لیکن اصطلاح شریعت میں وحی اس کلام الٰہی کو کہتے ہیں کہ جو اﷲ کی طرف سے بذریعہ فرشتہ نبی کو بھیجا ہو۔ اس کو وحی نبوت بھی کہتے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے اور اگر بذریعہ القاء فی القلب ہو تو اس کو وحی الہام کہتے ہیں، جو اولیاء پر ہوتی ہے۔ اور اگر بذریعہ خواب ہو تو اصطلاح شریعت میں اس کو رویائے صالحہ کہتے ہیں جو عام مومنین اور صالحین کو ہوتا ہے۔ کشف اور الہام اور رویائے صالحہ پر لغتاً وحی کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ مگر عرف شرع میں جب لفظ ”وحی“ کا بولا جاتا ہے تو اس سے وحی نبوت ہی مراد ہوتی ہے۔ یہ ایسا کہ جیسے قرآن کریم باعتبار لغت کے شیطانی وسوسوں پر بھی وحی کا اطلاق آیا ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ:

وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ (الانعام 121)

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا (الانعام 112)

لیکن عرف عام میں شیطانی وسوسوں پر ”وحی“ کا اطلاق نہیں ہوتا۔

وحی اور الہام میں فرق

وحی نبوت قطعی ہوتی ہے اور معصوم عن الخطاء ہوتی ہے اور امت پر اس کا اتباع لازم ہوتا ہے اور نبی پر اس کی تبلیغ فرض ہوتی ہے۔ الہام ظنی ہوتا ہے اور معصوم عن الخطاء نہیں ہوتا، کیونکہ انبیاء حضرات معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں اور اولیاء معصوم نہیں۔ اسی وجہ سے الہام دوسروں پر حجت نہیں اور نہ الہام سے کوئی حکم شرعی ثابت ہو سکتا ہے۔ ختیٰ کہ استحباب بھی الہام سے ثابت نہیں ہو سکتا۔

نیز علم احکام شرعیہ بذریعہ وحی انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے اور غیر انبیاء پر جو الہام ہوتا ہے۔ سو وہ از قسم بشارت یا از قسم تفہیم ہوتا ہے۔ احکام پر مشتمل نہیں ہوتا۔ جیسے حضرت مریم علیہا السلام کو جو وحی الہام ہوئی وہ از قسم بشارت تھی نہ کہ از قسم احکام۔ اور بعض مرتبہ وحی الہام کسی حکم شرعی کی تفہیم اور افہام کے لئے ہوتی ہے۔

جو نسبت رویائے صالحہ کو الہام سے ہے، وہی نسبت الہام کو وحی نبوت سے ہے۔ یعنی جس طرح رویائے صالحہ الہام سے درجہ میں کمتر ہے، اسی طرح الہام درجہ میں وحی نبوت سے فر وتر ہے اور جس طرح رویائے صالحہ میں ایک درجہ کا ابہام اور اخفاء ہوتا ہے، الہام اس سے زیادہ واضح ہوتا ہے۔ اسی طرح الہام بھی باعتبار وحی کے خفی اور مبہم ہوتا ہے اور وحی صاف اور واضح ہوتی ہے۔

اور جس طرح رویائے صالحہ میں مراتب اور درجات ہیں یعنی جو شخص جس درجہ صالح اور جس قدر صادق ہے اسی درجہ اس کا رویا بھی صالحہ اور صادقہ ہو گا۔ اسی طرح الہام میں بھی مراتب ہیں، جس درجہ کا ایمان اور جس درجہ کی ولایت ہو گی اسی درجہ کا الہام ہو گا۔ حدیث میں ہے کہ:
اگر میری امت میں کوئی محدَّث من اللہ ہے تو وہ عمر ہے۔(صحیح بخاری رقم الحدیث: 3689)

سو جاننا چاہیے کہ یہ تحدیث من اللہ الہام کا ایک خاص مرتبہ ہے جو خواص اولیاء کو حاصل ہوتا ہے، جو ان کی زبان سے نکلتا ہے وہ حق ہوتا ہے اور صدق اور وحی خداوندی اس کی تصدیق کرتی ہے۔ بلکہ حق جلّشانہ کی مشیت یہ ہوتی ہے کہ حق کا ظہور اور صدور اسی محدَّث من اللہ کی زبان ہو۔ کما قال اللہ تعالیٰ فی قصة موسی علیه السلام :

حَقِيقٌ عَلَىٰ أَن لَّا أَقُولَ عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ (الأعراف 105)

یہ تحدیث الہٰی مرتبہ فاروقیہ ہے۔ اس کے اوپر مرتبہ صدیقیت ہے اور اس سے اوپر مرتبہ نبوت و رسالت ہے۔

وحی رحمانی اور شیطانی میں فرق

اگر وا روات قلبیہ کسی امر خیر اور امر آخرت یعنی حق جلشانہ کی اطاعت کی طرف داعی ہوں تو وہ رحمانی ہے اور اگر شہوتوں اور نفساتی لذتوں کی طرف داعی ہوں تو وہ وحی شیطانی ہے۔(کذافی خواتم الحکم صفحہ 156 و مدارج السالکین جلد اول صفحہ 67)


................................................................................................................................................................................................................................................................................
٭مرزا صاحب کشف کی تعریف یوں کرتے ہیں: ”کشف کیا ہےاسی بیداری کے ساتھ کسی عالم اور عالم کا تداخل ہو جاتا ہے اس میں حواس کے معطل ہونے کی ضرورت نہیں دنیا کی بیداری بھی ہوتی ہے اور ایک عالم غیوبت بھی ہوتا ہے یعنی حالت بیداری ہوتی ہے اور اسرارِ غیبی بھی نظر آتے ہیں“۔ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 261 پانچ جلدوں والا ایڈیشن)
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
حضرات صوفیائے کرام کا مطلب

جس طرح حق جلشانہ نے وحی کو معنی لغوی کے اعتبار سے مقسم قرار دے کر اس کے تحت وحی نبوت اور الہام اور شیطانی وسوسوں کو داخل فرمایا اور الہام کو معنی لغوی کے اعتبار سے الہام فجور اور الہام تقویٰ کے طرف تقسیم فرمایا: فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا اور لفظ ارسال معنی لغوی کے اعتبار سے شیطان لعین کے لیے آیا ہے: أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّيَاطِينَ عَلَى الْكَافِرِينَ ۔

اسی طرح حضرات صوفیاء نے نبوت کو معنیٰ لغوی لیکر مقسم بنایا۔ یعنی خدا تعالیٰ سے اطلاع پانا اور دوسروں کو اطلاع دینا۔ اس معنی لغوی کو مقسم بنایا اور حضرات انبیاء کی نبوت اور وحی شریعت اور اولیاء کی ولایت اور الہام معرفت کو نبوت بمعنی لغوی کے تحت میں داخل فرمایا اور نبوت کے لیے چونکہ تشریع احکام ضروری ہے اور ولایت میں کوئی حکم شرعی نہیں ہوتا۔ اس لیے حضرات صوفیاء نے نبوت و رسالت کا نام نبوت تشریعیہ رکھا اور ولایت کا نام نبوت غیر تشریعی رکھا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ شریعت میں نبوت کی دو قسمیں ہیں: ایک نبوت تشریعیہ اور ایک نبوت غیر تشریعی، بلکہ نبوت بمعنی لغوی کی دو قسمیں ہیں: ایک اصطلاحی نبوت جس کے لیے تشریعی احکام لازم ہیں اور نبوت بمعنی لغوی کی دوسری قسم ولایت اور الہام ہے جس صرف حقائق اور معارف کا انکشاف ہوتا ہے۔ مگر اس سے کوئی حکم شرعی ثابت نہیں ہوتا ختیٰ کہ کشف اور الہام سے مستحب کا درجہ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ اور حضرات صوفیاء نے نہایت واضح طور پر اس کی تصریح کر دی ہے کہ حضور پر نُور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور جس قسم کی وحی حضرات انبیاء پر اترتی تھی وہ بالکل مسدود ہو گئی۔ اب نہ یہ منصب باقی اور نہ کسی کے لیے جائز ہے کہ اپنے اوپر نبی اور رسول کے لفظ کا طلاق کرے۔ نبوت بالکل ختم ہو گئی۔ اولیاء کے لیے نبوت میں صرف وحی الہام باقی ہے اور حفاظ قرآن کے لیے قرآن باقی ہے۔ حدیث میں ہے:

من حفظ القرآن فقد استجمع النبوة بين جنبيه (تفسیر ابن کثیر جلد اول صفحہ 323 البقرہ269 طبع دارلفکر)
ترجمہ: جس نے قرآن کو حفظ کر لیا تو اس کے دونوں پہلوؤں کے درمیان نبوت داخل کر دی گئی۔

اور علماء اور خواص امت کو منصب رسالت میں یہ حصہ ملا کہ وہ احکام شریعت کی تبلیغ کریں اور فقہاء اور مجتہدین کو منصب رسالت سے یہ حصہ ملا کہ وہ کتاب و سنت اور شریعت کی روشنی میں اجتہاد و استنباط کریں اور غیر منصوص امور کا حکم اصول شریعت کے ماتحت رہ کر خدا داد نور فہم اور نور تقویٰ سے قرآن اور حدیث سے نکال کر امت کو فتویٰ دیں۔ اس طرح مجتہدین کو تشریع احکام کا ایک حصہ عطا ہوا اور یہ بھی تصریح فرمائی کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ مجھ پر اللہ کے یہ احکام اور یہ اوامر اور نواہی نازل ہوئے ہیں، وہ مدعی شریعت ہے، ہم اس کی گردن اڑا دیں گے۔

تو کیا مرزا صاحب کے نزدیک تمام اولیاء اور علماء اور حفاظ قرآن نبی ہو سکتے ہیں اور ان پر ایمان لانا ضروری ہے؟۔ حضرات صوفیاء کی اس تحقیق سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ اگر اولیاء کو نبوت غیر تشریعیہ سے حصہ ملا ہے تو فقہا اور مجتہدین کو تو نبوت تشریعیہ سے حصہ ملا ہے۔ لہٰذا مرزائیوں کے نزدیک ائمہ اجتہاد تو تشریعی نبی ہونے چاہیں۔

بلکہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے نبوت بمعنی لغوی یعنی خدا سے خبر پانا اور دینا کو اس قدر عام فرمایا کہ کسی موجود کو اس سے خالی نہیں چھوڑا۔ چنانچہ فتوحات کے ایک سو پچیسویں باب میں فرماتے ہیں:

اعلم ان النبوۃ التی ھی الاخبار من شی ساریة فی کل موجود عند اہل الکشف و الوجود لکنہ لا یطلق علی احد منھم اسم نبی و لا رسول الا علی الملائکة الذی ھم رسل ۔(کبریت احمر جلد اول صفحہ 118)

ترجمہ: جانا چاہیے کہ نبوت جس کے معنی لغت میں خبر دینے کے ہیں وہ اہل کشف کے نزدیک تمام موجودات میں سرایت کیے ہوئے ہیں لیکن معنی شرعی کے اعتبار سے نبی اور رسول کا اطلاق بجز فرشتوں کے اور موجودات پر نہیں کیا جائے گا۔

اب دیکھئے کہ اس عبارت میں تمام مخلوقات اور تمام مجودات کے لیے ثابت فرما دیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتلا دیا کہ نبوت بمعنی لغوی اخبار عن الشی تمام موجودات میں جاری و ساری ہے مگر معنی شرعی کے اعتبار سے کسی پر نبی اور رسول کا اطلاق درست نہیں۔ شہد کی مکھیوں کے لیے وحی اور ہر نفس کے لیے الہام کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے: وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ (النحل68)اور فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ۔(الشمس 8)
معلوم ہوا کہ وحی اور الہام کے فیض سے حیوانات بھی محروم نہیں۔ خداوند ذوالجلال کی وحی اور الہام کی تار برقی ہر ایک مخلوق کے دل میں لگی ہوئی ہے۔؎

سب سے ربط آشنائی ہے تجھے
دل میں ہر ایک کے رسائی ہے تجھے

اس مسئلہ کی تحقیق اور تفصیل درکار ہو تو بو اور النو اور صفحہ 660 تا 636 مصنفہ حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی قدس سرہ اور مسک الختام مصنفہ نا چیز اور الشہاب مصنفہ حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کی مراجعت کریں۔ واللہ اعلم و علمہ اتم و احکم۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صوفیاء کی شطحیات

صوفیاء کران کے یہاں ایک باب ہے جس کو شطحیات کہتے ہیں۔ شطحیات شطحی یا شطح کی جمع ہے۔ اصطلاح صوفیاء میں شطح کی تعریف یہ ہے کہ جو بات غلبہ حال اور غلبہ وارد کی وجہ سے بے اختیار زبان سے نکل جائے اور بظاہر قواعد شریعت کے خلاف معلوم ہوتی ہو اس کو شطح کہتے ہیں۔ ایسے شخص پر نہ کوئی گناہ ہے اور نہ دوسروں کو اس کی تقلید جائز ہے۔

خود حضرات صوفیاء نے اس کی تصریح فرما دی ہے کہ ان شطحیات پر کسی کو عمل پیرا ہونا جائز نہیں بلکہ جس شخص پر یہ احوال نہ گزرے ہوں وہ ہماری کتابوں کا مطالعہ بھی نہ کرے تاکہ فتنہ میں مبتلا نہ ہو۔

الہام کا حکم شرعی

حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی وحی اور الہام کی حجیت میں تو کیا کلام ہو سکتا ہے، حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا تو خواب بھی حجت قطعیہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محض خواب کی بناء پر اپنے بیٹے کے ذبح کا ارادہ فرمایا جس کی حق جلشانہ قرآن میں مدح اور توصیف فرمائی۔

البتہ اولیاء اللہ کے الہام میں کلام ہے کہ اس کا شرعی حکم کیا ہے۔ الہام کا حکم یہ ہے کہ اگر الہام کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور قواعد شریعت کے خلاف نہ ہو تو اس پر عمل کرنا جائز ہے، واجب نہیں۔ اور جو الہام کتاب و سنت اور شریعت کے خلاف ہو اس پر عمل کرنا بالاجماع جائز نہیں۔ جو الہام قرآن و شریعت کے خلاف ہو وہ الہام رحمانی نہیں بلکہ شیطانی ہے بلکہ الہام کے صادق اور کاذ ہونے کا معیار ہی کتاب و سنت کی موافقت اور مخالفت ہے۔

صدیق اکبر رضی اللہ عنہما اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے کبھی اپنے الہام پر عمل نہ فرماتے تھے جب تک کہ کتاب و سنت سے اس کی تصدیق و تائید نہ ہو جائے۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ ابو سلیمان وارانی رحمۃ اللہ علیہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ الہام پر اس وقت تک عمل نہ کرو جب تک آثار سے اس کی تصدیق نہ ہو جائے۔

شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فتوح الغیب میں فرماتے ہیں کہ الہام اور کشف پر عمل کرنا جائز ہے بشرطیکہ وہ قرآن اور حدیث اور اجماع اور قیاس صحیح کے مخالف نہ ہو۔

قاضی ثناء اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ارشاد الطالبین میں فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ کا الہام علم ظنی کا موجب ہے، اگر کسی ولی کا کشف اور الہام کسی حدیث کے خلاف ہو اگرچہ وہ حدیث خبر آحاد میں سے ہو بلکہ اگر ایسے قیاس صحیح کے بھی خلاف ہو کہ جو شرائط قیاس کو جامع ہو تو اس جگہ بمقابلہ کشف و الہام، قیاس کو ترجیح دینے چاہیے اور یہ مسئلہ سلف اور خلف میں متفق علیہ ہے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اب مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ایک عبارت مع ترجمہ نقل کی جاتی ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بداں، ارشدک اللہ تعالیٰ و الھمک سواء الصراط کہ از جملہ ضروریات طریق سلوک اعتقاد صحیح است کہ علمائے اہل سنت آں رااز کتاب و سنت و آثار سلف استنباط فرمودہ اند و کتاب و سنت را محمول داشنن بر معانی کہ جمہور علمائے اہل سنت و جماعت آن معنی راز کتاب و سنت فہمیدہ اند نیز ضروری است و اگر بالفرض خلاف آں معانی مفہومہ بکشف و الہام امرے ظاہر شوو آں را اعتبار نیاید کردد ازاں استعاذہ باید نمود۔ مثلاً آیات و احادیث کہ از ظواہر آ نہا توحید وجود مفہوم میشود و ہمچنین احاطہ و سریان و قرب و معیت ذاتیہ معلوم میگردو چون علماء اہل حق ازان آیات و احادیث این معانی نہ فہمیدہ اند اگر دراثنائے راہ بر سالِک این معانی منکشِف شودو موجود جزیکے نیابد یا اور ابالذات محیط د اند و قریب ذاتا بیابد ہر چند او دریں وقت بواسط غلبہ حال سکر معذور راست اما باید کہ ہمیشہ بحق سبحانہ تعالیٰ ملتجی و متضرع باشد کہ اور را ازیں و رطہ بر آوردہ ُاموریکہ مطابِقِ آرائے سائبہ علمائے اہلِ حق است بروئے منکشف گرداند و سرِ موئے از خلاف معتقدات حقہ ایشان ظاہر نساز د بالجملہ معانی مفہومہ علماءِ اہل حق را مصداق کشفِ خوو باید ساخت و محک الہام خود راجزں نباید واشت معانی کے خلاف مفہومہ ایشان است از چیز اعتبار ساقط است زیرا کہ ہر مبتدع و ضال معتقدات مقتدائے خوو را کتاب و سنت می واند و باندازہ افہام رکیکہ خود ازاں معانی غیر مطابِقہ میفہمد ”یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًا وَّ یَھْدِیْ بِهٖ کَثِیْرً“ا و آنکہ گفتم کہ معانی مفہومہ اہل حق معتبر است۔ وخلاف آں معتبر نیست بنا بر آن است کہ آں معانی را از تتبع آثار صحابہ و سلف صالحین رضوان اللہِ تعالیٰ علیہم اجمعین احذ کردہ اندواز انوارِ نجوم ہدایت شان اقتباس فرمودہ اند لہذا نجاتِ ابدی مخصوص ایشان گشت و فلاح سرمدمی نصیب شاں آمد ” أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَo“و اگر بعضے علماء باوجودِ حقیَّتِ اِعتِقاد و فرعیات مداہنت نمایند و مرتکب تقصیرات باشد در عملیات انکار از مطلقِ علما نمودن وہمہ رامطعون ساختین بے انصافی محض است و مکابرہ صرف بلکہ انکار است از اکثر ضروریات دین چہ ناقلاں آن ضروریات ایشا نند و ناقدان جیدہ آں را از رویہ ایشانند۔ لَوْ لَا نُوْرُ ھِدَایَتِہِمْ لما اھتدینا و لو لا تمیزھم الصواب عن الخطإِ لغوینا و ھم الذین بذلوجھد ھم فی اعلإ کلمۃ الذین القویم و اسلکو اطوائف کثیرۃ من الناس علی صراط مستقیم فمن تابعھم نجی و من خلفھم ضل و اضل ۔(مکتوبات ام ربانی حصہ پنجم دفتر اول صفحہ 47تا48 مکتوب نمبر 286 )

ترجمہ: اے عزیز! جان لے(خدا تجھے سمجھ عطا کرے اور سیدھے راستہ کی ہدایت کرے) کہ طریق سلوک کے ضرور امور میں صحیح عقیدہ رکھنا ہے جو علمائے اہل سنت نے قرآن و حدیث اور آثار سلف سے اخذ کیا ہے اور قرآن و حدیث کو انہی معانی پر محمول کرنا بھی ضروری ہے جو علمائے حق یعنی اہل سنت و الجماعت نے قرآن و حدیث سے سمجھے ہیں۔ اور اگر بالفرض ان اہل سنت کے سمجھے ہوئے معانی کے خلاف کشف و الہام کے ذریعہ کوئی بات ظاہر ہو تو اس کا اعتبار نہ کرنا چاہیے۔ مثلاً وہ آیتیں اور حدیثیں جن کے ظاہر پہلوؤں سے وحدۃ الوجود سمجھ آتی ہے یا اسی طرح باری تعالیٰ کا ذاتی لحاظ سے ہر جگہ حاوی و ساری ہونا اور ذاتی قرب و معیت معلوم ہوتی ہے۔ چونکہ علمائے حق نے ان آیات و احادیث سے یہ معنی نہیں سمجھے ہیں تو اگر راہ سلوک کے دوران میں یہ باتیں منکشف ہوں اور ایک خدا کے سوا کسی کو موجود نہ پائے یا خدا کو بالذات محیط سمجھے اور بالذات قریب پائے تو اگرچہ وہ سالک بوجہ سکر کی حالت کے غلبہ کے اس وقت معذور ہے لیکن اسے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے التجا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس چکر سے نکال کر اہل حق علماء کی درست رائے کے موافق امور اس پر ظاہر فرما دے اور ان سچے عقیدوں کے خلاف بال برابر بھی ظاہر نہ ہونے دے۔ غرض اہل حق کے سمجھے ہوئے معانی کو اپنے کشف کا معیار بنانا چاہیے اور اس کے علاوہ اور کسی چیز کو اپنے الہام کی کسوٹی نہیں بنانا چاہیے۔ کیونکہ جو معانی اہل حق کے سمجھے ہوئے معانی کے خلاف ہیں وہ درجہ اعتبار سے گرے ہوئے ہیں۔ اس لیے کہ(یوں تو) ہر مبتدع اور گمراہ اپنے پیشوا کے معتقدات کو قرآن و حدیث سمجھتا ہے اور اپنی ناقص اور سوچ سمجھ کے مطابق قرآن و حدیث سے حقیقت کے خلاف معانی سمجھتا ہے۔ ”اور قرآن سے بہت سے گمراہ ہو جاتے ہیں اور بہت راہ پاتے ہیں“۔ اور یہ جو میں نے کہا کہ اہل حق کے سمجھے ہوئے معانی معتبر ہیں اور اس کے خلاف معتبر نہیں یہ اس بنا پر ہے کہ انہوں ان معانی کو صحابہ اور سلف صالحینرضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے اخذ کیا ہے اور ان کے ستارہ ہدایت سے نور حاصل کیا ہے اسی لیے ابدی نجات اور دائمی فلاح ان کے لیے مخصوص ہو گئی۔ ”یہ لوگ ہیں اللہ کی جماعت اور سن لو کہ اللہ جماعت ہی فلاح پانے والی ہے“۔

اگر بعض علماء باوجود صحیح عقائد جاننے کے جزئیات و فروعیات میں حق کو چھپائیں اور اعمال میں تقصیر کریں تو اس سے مطلقاً تمام علماء کا انکار کرنا اور سب کو ملامت کرنا کھلی بے انصافی ہے اور ہٹ دھرمی ہے۔ بلکہ یہ چیز دوسرے لفظوں میں اکثر ضروریات دین سے انکار کر دینا ہے، کیونکہ ضروریات دین کے روایت کرنے والے اور ان میں کھوٹے کھرے کی تمیز کرنے والے علماء ہیں کہ اگر ان کا نور ہدایت نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پا سکتے اور اگر ان کی طرف سے حق و باطل میں تمیز نہ کی جاتی تو ہم بھٹک جاتے۔ یہی وہ حضرات ہیں جنہوں نے اپنی آخری کوشش تک دین کا بول بالا کرنے کے لیے صرف کر دی اور انسانوں کے بہت سے گروہوں کو سیدھے راستہ پر چلایا ہے پس جس نے ان کا اتباع کی اس نے نجات و فلاح پائی اور جس نے ان کی مخالفت کی وہ خود بھی گمراہ ہوا اور دوسروں کے لیے بھی گمراہی کا ذریعہ بنا۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا صاحب کو اپنے الہام پر خود بھی یقین نہ تھا

مرزا صاحب کے الہامات چونکہ القاء شیطانی تھے اس لیے خود مرزا صاحب کو بھی اپنے الہامات پر یقین نہ تھا۔ چنانچہ مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں:
میں نے ایک عرصہ تک الہامات کی پیروی نہیں کی جب تک کہ ان الہامات کو قرآن و حدیث کے موافق جانچ نہ لیا۔

جانچنے کی وجہ یہ تھی کہ مرزا صاحب کو شبہ تھا کہ یہ الہامات خدا کی طرف سے ہیں یا شیطان کی طرف سے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ مرزا صاحب کو یقین تھا کہ یہ الہامات من جانب اللہ نہیں بلکہ ان کے نفس کے من گھڑت ہیں اور قرآن اور حدیث کے بھی خلاف ہیں۔ مگر اندیشہ یہ تھا کہ لوگ اس الہام کو سن کو متوحش ہوں گے۔ اس لیے سوچتے تھے کہ قرآن اور حدیث میں کس طرح تاویل کرکے الہام کو اس کے مطابق بنا دوں۔

و اخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا و مولانا محمد و علی الہ و صحبہ اجمعین و علینا معھم یا ارھم الراحمین۔

محمد ادریس کان اللہ لہ و کان ہو للہ آمین
20 جمادی الثانیہ 1373ھ یوم چہار شنبہ
 
Top