الْاعلام بمعنی الکشف و الوحی و الالہام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کشف
عالم غیب کی کسی چیز سے پردہ اٹھا کر دکھلا دینے کا نام کشف٭ ہے۔ کشف سے پہلے جو چیز مستور تھی، اب وہ مکشوف یعنی ظاہر اور آشکار ہو گئی۔ قاضی محمد اعلیٰ تھانویؒ کشاف اصطلاحات الفنون صفحہ؍1254 میں لکھتے ہیں:
” الکشف عند اہل السلوک ہو المکاشقہ رفع حجاب راگویند کہ میاں روح جسمانی است کہ ادراک آں بحواس ظاہری نتواں کرد...الخ “۔
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ حجابات کا مرتفع ہونا قلب کی صفائی اور نورانیت پر موقوف ہے۔ جس قدر قلب صاف اور منور ہو گا اسی قدر حجابات مرتفع ہوں گے۔ جاننا چاہیے کہ حجابات کا مرتفع ہونا قلب کا نورانیت پر موقوف تو ہے مگر لازم نہیں۔(احیا العلوم جلد سوم صفحہ16)
الہام
کسی خیر اور اچھی بات کا بِلا نظر و فکر اور بِلا کسی سبب ظاہر کے من جانب اللہ قلب میں القاء ہونے کا نام الہام ہے۔ جو علم بطریق حواس حاصل ہو وہ ادراک حسی ہے اور جو علم بغیر حس اور طور عقل، من جانب اللہ بِلا کسی سبب کے دل میں ڈالا جائے وہ الہام ہے۔ الہام محض مواہبت ربانی اور فراست ایمانی جس کا حدیث میں ذکر آیا ہے وہ من وجہ کسب ہے اور من وجہ وہب ہیں۔
کشف اگرچہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے الہام سے عام ہے، لیکن کشف کا زیادہ تعلق امور حسیہ سے اور الہام کا تعلق قلبیہ سے ہے۔
وحی
وحی لغت میں مخفی طور پر کسی چیز کے خبر دینے کا نام ہے، خواہ وہ بطریق اشارہ و کنایہ ہو یا بطریق خواب ہو یا بطریق الہام ہو یا بطریق کلام ہو۔ لیکن اصطلاح شریعت میں وحی اس کلام الٰہی کو کہتے ہیں کہ جو اﷲ کی طرف سے بذریعہ فرشتہ نبی کو بھیجا ہو۔ اس کو وحی نبوت بھی کہتے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے اور اگر بذریعہ القاء فی القلب ہو تو اس کو وحی الہام کہتے ہیں، جو اولیاء پر ہوتی ہے۔ اور اگر بذریعہ خواب ہو تو اصطلاح شریعت میں اس کو رویائے صالحہ کہتے ہیں جو عام مومنین اور صالحین کو ہوتا ہے۔ کشف اور الہام اور رویائے صالحہ پر لغتاً وحی کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ مگر عرف شرع میں جب لفظ ”وحی“ کا بولا جاتا ہے تو اس سے وحی نبوت ہی مراد ہوتی ہے۔ یہ ایسا کہ جیسے قرآن کریم باعتبار لغت کے شیطانی وسوسوں پر بھی وحی کا اطلاق آیا ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ:
وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ (الانعام 121)
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا (الانعام 112)
لیکن عرف عام میں شیطانی وسوسوں پر ”وحی“ کا اطلاق نہیں ہوتا۔
وحی اور الہام میں فرق
وحی نبوت قطعی ہوتی ہے اور معصوم عن الخطاء ہوتی ہے اور امت پر اس کا اتباع لازم ہوتا ہے اور نبی پر اس کی تبلیغ فرض ہوتی ہے۔ الہام ظنی ہوتا ہے اور معصوم عن الخطاء نہیں ہوتا، کیونکہ انبیاء حضرات معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں اور اولیاء معصوم نہیں۔ اسی وجہ سے الہام دوسروں پر حجت نہیں اور نہ الہام سے کوئی حکم شرعی ثابت ہو سکتا ہے۔ ختیٰ کہ استحباب بھی الہام سے ثابت نہیں ہو سکتا۔
نیز علم احکام شرعیہ بذریعہ وحی انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے اور غیر انبیاء پر جو الہام ہوتا ہے۔ سو وہ از قسم بشارت یا از قسم تفہیم ہوتا ہے۔ احکام پر مشتمل نہیں ہوتا۔ جیسے حضرت مریم علیہا السلام کو جو وحی الہام ہوئی وہ از قسم بشارت تھی نہ کہ از قسم احکام۔ اور بعض مرتبہ وحی الہام کسی حکم شرعی کی تفہیم اور افہام کے لئے ہوتی ہے۔
جو نسبت رویائے صالحہ کو الہام سے ہے، وہی نسبت الہام کو وحی نبوت سے ہے۔ یعنی جس طرح رویائے صالحہ الہام سے درجہ میں کمتر ہے، اسی طرح الہام درجہ میں وحی نبوت سے فر وتر ہے اور جس طرح رویائے صالحہ میں ایک درجہ کا ابہام اور اخفاء ہوتا ہے، الہام اس سے زیادہ واضح ہوتا ہے۔ اسی طرح الہام بھی باعتبار وحی کے خفی اور مبہم ہوتا ہے اور وحی صاف اور واضح ہوتی ہے۔
اور جس طرح رویائے صالحہ میں مراتب اور درجات ہیں یعنی جو شخص جس درجہ صالح اور جس قدر صادق ہے اسی درجہ اس کا رویا بھی صالحہ اور صادقہ ہو گا۔ اسی طرح الہام میں بھی مراتب ہیں، جس درجہ کا ایمان اور جس درجہ کی ولایت ہو گی اسی درجہ کا الہام ہو گا۔ حدیث میں ہے کہ:
اگر میری امت میں کوئی محدَّث من اللہ ہے تو وہ عمر ہے۔(صحیح بخاری رقم الحدیث: 3689)
سو جاننا چاہیے کہ یہ تحدیث من اللہ الہام کا ایک خاص مرتبہ ہے جو خواص اولیاء کو حاصل ہوتا ہے، جو ان کی زبان سے نکلتا ہے وہ حق ہوتا ہے اور صدق اور وحی خداوندی اس کی تصدیق کرتی ہے۔ بلکہ حق جلّشانہ کی مشیت یہ ہوتی ہے کہ حق کا ظہور اور صدور اسی محدَّث من اللہ کی زبان ہو۔ کما قال اللہ تعالیٰ فی قصة موسی علیه السلام :
حَقِيقٌ عَلَىٰ أَن لَّا أَقُولَ عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ (الأعراف 105)
یہ تحدیث الہٰی مرتبہ فاروقیہ ہے۔ اس کے اوپر مرتبہ صدیقیت ہے اور اس سے اوپر مرتبہ نبوت و رسالت ہے۔
وحی رحمانی اور شیطانی میں فرق
اگر وا روات قلبیہ کسی امر خیر اور امر آخرت یعنی حق جلشانہ کی اطاعت کی طرف داعی ہوں تو وہ رحمانی ہے اور اگر شہوتوں اور نفساتی لذتوں کی طرف داعی ہوں تو وہ وحی شیطانی ہے۔(کذافی خواتم الحکم صفحہ 156 و مدارج السالکین جلد اول صفحہ 67)
................................................................................................................................................................................................................................................................................
٭مرزا صاحب کشف کی تعریف یوں کرتے ہیں: ”کشف کیا ہےاسی بیداری کے ساتھ کسی عالم اور عالم کا تداخل ہو جاتا ہے اس میں حواس کے معطل ہونے کی ضرورت نہیں دنیا کی بیداری بھی ہوتی ہے اور ایک عالم غیوبت بھی ہوتا ہے یعنی حالت بیداری ہوتی ہے اور اسرارِ غیبی بھی نظر آتے ہیں“۔ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 261 پانچ جلدوں والا ایڈیشن)