محمد اویس پارس
رکن ختم نبوت فورم
تلک الرسل : سورۃ البقرة : آیت 265
وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۲۶۵﴾
اصل میں ’ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ مِنْ ‘ گویا ’ تَثْبِیْتًا ‘ کے مفعول پر داخل ہے، یعنی اللہ کی خوشنودی کے ساتھ وہ اس لیے بھی خرچ کرتے ہیں کہ اس سے انھیں نفس کی خواہشات پر قابو پانے اور اسے حق پر جمائے رکھنے کی تربیت حاصل ہو۔ اصل میں لفظ ’ رَبْوَۃ ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی بلند اور مرتفع زمین کے ہیں۔ یہ لفظ یہاں جس مقصد سے آیا ہے ، استاذ امام نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ”۔۔ بلند اور ہموار زمین کے لیے آب و ہوا کی خوش گواری ایک مسلم شے ہے۔ اگر ایسی زمین پر باغ ہو تو اس کی بلندی ایک طرف تو اس کی خوش منظری کا باعث ہوتی ہے ، دوسری طرف اس کو سیلاب وغیرہ سے محفوظ کرتی ہے۔ نیز ہموار زمین پر ہونے کے سبب سے اس کے لیے اس طرح پھسل کر فنا ہوجانے کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا جو ڈھلوان زمینوں کے باغوں اور فصلوں کے لیے ہوتا ہے۔ پھر آب و ہوا کی خوبی اس کی بار آوری کی ضامن ہوتی ہے۔ اگر موسم سازگار رہا تو پوچھنا ہی کیا ہے، اگر ساز گار نہ ہوا، جب بھی وہ پھل دے جاتا ہے۔ “ (تدبر قرآن ١/ ٦١٧)