ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اِنۡ یَّمۡسَسۡکُمۡ قَرۡحٌ فَقَدۡ مَسَّ الۡقَوۡمَ قَرۡحٌ مِّثۡلُہٗ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ ۚ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۴۰﴾ۙ اصل میں لفظ ’
الْقَوْم
‘ استعمال ہوا ہے۔ اہل عرب کے عرف میں یہ اس طرح کے موقعوں پر حریف اور دشمن کے لیے آتا ہے۔ یعنی بدر کے موقع پر۔ اصل میں لفظ ’
الْاَیَّامُ
‘ آیا ہے۔ یہ جب اس طریقے سے جمع کی صورت میں آئے تو اس سے مراد تاریخ کے وہ دن ہوتے ہیں جن میں بڑے بڑے حوادث اور واقعات پیش آئے ہوں۔ یہ ’
وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
‘ کا معطوف علیہ ہے جو عربیت کے اسلوب پر اصل میں حذف ہوگیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ احد کے موقع پر جو افتاد پیش آئی، اس میں دوسری مصلحتوں کے ساتھ ایک مصلحت یہ بھی تھی کہ جو لوگ راہ حق میں شہادت کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کی یہ آرزو بھی اس موقع پر پوری ہوجائے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں شہادت کی طلب مسلمانوں کے اندر کتنی شدید تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جذبے کی تسکین کے لیے یہ موقع فراہم کرنا ضروری سمجھا۔ یعنی اس نقصان سے یہ خیال نہ کرو کہ اللہ اب ان منکروں ہی سے محبت کرنے لگا ہے، نہیں، وہ ان ظالموں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اس کے پیش نظر کچھ مصالح تھے جن کی وجہ سے اس نے مسلمانوں کا یہ نقصان گوارا کیا ہے۔
وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَمۡحَقَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۴۱﴾ جملہ معترضہ کے بعد یہاں سے کلام پھر اوپر کے بیان سے مربوط ہوگیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ منکروں کو مٹانا بھی اسی وقت ممکن تھا، جب وہ بالکل ممیز ہوگئے ہوں۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ لوگوں کو امتحان کی بھٹی سے گزارا جائے تاکہ ہر قسم کا کھوٹ ان کے اندر سے نکل کر علیحدہ ہو۔ چنانچہ مسلمانوں کا نقصان، درحقیقت انھی منکروں کو مٹانے کی ایک تدبیر تھی۔
اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَعۡلَمِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا مِنۡکُمۡ وَ یَعۡلَمَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۴۲﴾ یہ پھر ایک جملہ معترضہ ہے جس سے مخاطبین کو ان کے اس خیال پر برسرموقع تنبیہ کی گئی ہے جو اوپر کی بات سے ان کے ذہن میں پیدا ہوا ہے کہ مومنین اور منکرین کو الگ الگ کرنے کے لیے ہمارے ایمان ہی کو کافی کیوں نہیں سمجھا گیا ؟ اس کے لیے یہ کیوں ضروری ہوا کہ لوگوں کو اس طرح کے امتحان سے گزارا جائے ؟ اصل الفاظ ہیں : ’
وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ
‘۔ اس کا عطف بھی، صاف واضح ہے کہ ’
وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
‘ پر ہے اور اس کے اور ’
یَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ
‘ کے درمیان کا جملہ جملہ معترضہ ہے جو مخاطبین کے ایک خیال پر، جیسا کہ بیان ہوا، برسرموقع تنبیہ کے لیے آگیا ہے۔
وَ لَقَدۡ کُنۡتُمۡ تَمَنَّوۡنَ الۡمَوۡتَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَلۡقَوۡہُ ۪ فَقَدۡ رَاَیۡتُمُوۡہُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ ﴿۱۴۳﴾٪ یہ مخاطبین کی طرف سے شوق جہاد کے اظہار اور اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کردینے کے ان دعوؤں پر تعریض ہے جو وہ احد کے معرکے میں اترنے سے پہلے کر رہے تھے۔
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۱۴۴﴾ مطلب یہ ہے کہ دوسرے رسولوں کو جو آزمائشیں پیش آئی ہیں، وہ سب انھیں بھی پیش آسکتی ہیں اور جس طرح انھیں موت کے مرحلے سے گزرنا پڑا، اسی طرح انھیں بھی ایک دن اس مرحلے سے گزرنا ہے۔ ان کے رسول ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انھیں موت نہیں آئے گی یا یہ کسی آزمائش سے دوچار نہیں ہوں گے۔ یعنی اسلام کو چھوڑ کر ایک بار پھر جاہلیت کی طرف لوٹ جاؤگے۔ یعنی جاہلیت کی طرف لوٹنے کا خیال بھی ان کے ذہن میں نہیں گزرا اور وہ اس بات پر ہمیشہ اپنے پروردگار کے شکرگزار رہے کہ اس نے انھیں اسلام کی نعمت سے بہرہ یاب کیا ہے۔
وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تَمُوۡتَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا ؕ وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ۚ وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الۡاٰخِرَۃِ نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ؕ وَ سَنَجۡزِی الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۱۴۵﴾ یہ مخاطبین کو ان کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی ہے جن کی وجہ سے وہ اللہ و رسول کے بارے میں ایسے گمانوں میں مبتلا ہوئے جن کا ذکر یہاں ہو رہا ہے۔ ان میں سے خاص طور پر دو چیزوں کو نمایاں کیا ہے : ایک یہ کہ وہ اس بات پر عقیدہ نہیں رکھتے کہ ہر شخص کی موت کا ایک دن مقرر ہے، اس کو نہ کوئی شخص پہلے لاسکتا ہے اور نہ آجانے کے بعد ایک لمحے کے لیے ٹال سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ان کی سعی وجہد کا مقصود یہی دنیا ہے۔ اپنے دنیوی مفادات سے آگے وہ کسی چیز کو بھی دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، لہٰذا انھیں باور نہیں آتا کہ دنیا کی محرومیوں کا ازالہ آخرت میں ہوجائے گا اور جو لوگ یہاں کھو رہے ہیں، وہ فی الواقع اپنے ایثار کا بھر پور صلہ وہاں پالیں گے۔
وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ نَّبِیٍّ قٰتَلَ ۙ مَعَہٗ رِبِّیُّوۡنَ کَثِیۡرٌ ۚ فَمَا وَہَنُوۡا لِمَاۤ اَصَابَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوۡا وَ مَا اسۡتَکَانُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۴۶﴾ اس مفہوم کے لیے اصل میں ’
وَھْن ‘، ’ ضُعْف
‘ اور ’
اِسْتِکَانَۃ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اگرچہ کمزوری کے معنی میں کچھ مشترک سے ہیں، لیکن ان میں باریک سا فرق بھی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس فرق کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :”۔۔ موت سے خوف اور زندگی کی محبت سے دل میں جو بزدلی پیدا ہوتی ہے، یہ وہن ہے۔ اس وہن سے ارادے اور عمل میں جو تعطل پیدا ہوتا ہے، وہ ضعف ہے۔ اس ضعف سے حریف کے آگے گھٹنے ٹیک دینے کا جو نتیجہ ظہور میں آتا ہے، وہ استکانت ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١٨٧) آیت کا مدعا یہ ہے کہ جنگ وجدال کا پیش آنا اور اس کے نتیجے میں مصائب و شدائد سے گزرنا انبیاء (علیہم السلام) کے لیے کوئی انوکھا معاملہ نہیں ہے کہ اسے دیکھ کر یہ لوگ بد دل ہو رہے ہیں۔ اس طرح کے معاملات اس سے پہلے بھی بہت سے پیغمبروں کو پیش آچکے ہیں۔ داؤد و سلیمان اور موسیٰ (علیہم السلام) کی جنگوں کا ذکر بائیبل میں جگہ جگہ ہوا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قانون ابتلا کا لازمی تقاضا ہے، اس سے کسی صاحب ایمان کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران :
آیت 147-148
تفسیر موجود نہیں۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تُطِیۡعُوا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یَرُدُّوۡکُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِیۡنَ ﴿۱۴۹﴾ یہ اس پروپیگنڈے کی طرف اشارہ ہے جو احد میں نقصان کے بعد کیا گیا اور جس سے مکہ کے ائمہ کفر نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ محمد اگر خدا کے فرستادہ ہوتے تو انھیں نقصان نہ اٹھانا پڑتا، اس لیے یقین رکھو کہ یہ محض تدبیر اور وسائل کا کھیل ہے جس میں ایک مرتبہ انھیں فتح ہوئی اور اب ہم جیت گئے ہیں، اس کا خدا اور فرشتوں کی مدد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران :
آیت 150-151
تفسیر موجود نہیں۔
وَ لَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَ تَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَ عَصَیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰىکُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الدُّنۡیَا وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ۚ ثُمَّ صَرَفَکُمۡ عَنۡہُمۡ لِیَبۡتَلِیَکُمۡ ۚ وَ لَقَدۡ عَفَا عَنۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۵۲﴾ اصل میں ’
بِاِذْنِہٖ
‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جنگ کا جو غیر معمولی نتیجہ پہلے مرحلے میں سامنے آیا، وہ محض تمہاری قوت و تدبیر سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت سے آیا تھا۔ یہ اس ابتلا کی طرف اشارہ ہے جو احد کے موقع پر مسلمانوں کو پیش آیا۔ استاذ امام لکھتے ہیں ”۔۔ تمام ارباب سیر متفق ہیں کہ اس جنگ میں مسلمانوں کا ابتدائی حملہ بہت کامیاب رہا۔ انھوں نے دشمن پر غلبہ پالیا تھا ، لیکن ایک دستہ جو ایک اہم درے کی حفاظت پر مامور تھا اور جس کو حضور کی طرف سے ہدایت تھی کہ وہ کسی حال میں بھی اپنی جگہ کو نہ چھوڑے، قبل ازوقت اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت سمیٹنے میں مصروف ہوگیا۔ صرف تھوڑے سے آدمی اس دستے کے اپنی جگہ پر قائم رہے۔ اس چیز سے دشمن کے ایک دستے نے فائدہ اٹھایا اور کا وا لگا کر اس نے پشت سے مسلمانوں پر حملہ کردیا اور یہ حملہ ایسا اچانک اور کامیاب ہوا کہ مسلمان اوسان کھو بیٹھے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١٩٣) یعنی غلطی تو تم نے ایسی کی تھی کہ اس پر تمہیں سزا ملتی، لیکن اللہ کی عنایت ہے کہ اس نے تم کو معاف کردیا اور دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے محض ایک ابتلا سے گزارنے کے بعد سلامتی سے گھروں کو واپس آجانے کا موقع فراہم کردیا۔
اِذۡ تُصۡعِدُوۡنَ وَ لَا تَلۡوٗنَ عَلٰۤی اَحَدٍ وَّ الرَّسُوۡلُ یَدۡعُوۡکُمۡ فِیۡۤ اُخۡرٰىکُمۡ فَاَثَابَکُمۡ غَمًّۢا بِغَمٍّ لِّکَیۡلَا تَحۡزَنُوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ وَ لَا مَاۤ اَصَابَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۵۳﴾ اصل میں لفظ ’
اِصْعَاد
‘ آیا ہے۔ اس کے معنی کسی چڑھائی کی سمت میں جانے کے ہیں۔ اسی سے ’
اصعد فی العدو
‘ کا محاورہ نکلا ہے، جس میں کسی سمت میں منہ اٹھا کر بھاگ کھڑے ہونے کے معنی پیدا ہوگئے ہیں۔ اصل میں ’
غَمًّا بِغَمٍّ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ ب ‘ تلبس کے مفہوم میں ہے، یعنی پہلے پسپائی کا غم پیش آیا، پھر اس کے ساتھ ہی لپٹا ہوا ایک دوسرا غم بھی سامنے آگیا۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے : ”۔۔ ہمارے نزدیک اس غم سے مراد وہ غم ہے جو اس دوران میں مسلمانوں کو کفار کی اڑائی ہوئی اس افواہ سے پہنچا کہ نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) بھی شہید کردیے گئے۔ اس افواہ کا ذکر تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں بھی ہے اور قرآن کی اس آیت سے بھی اس کا اشارہ نکلتا ہے۔ اس لیے کہ فرمایا ہے کہ تم اس طرح بگ ٹٹ بھاگے چلے جارہے تھے کہ تمہیں اپنے دہنے بائیں کا بھی ہوش نہیں رہا تھا کہ تم ذرا مڑ کے دیکھ سکتے کہ کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے، یہاں تک کہ اس رسول کی طرف بھی تم نے توجہ نہیں کی جو تمہارے پیچھے سے تمہیں برابر پکار تا رہا کہ اللہ کے بندو، میری طرف آؤ۔ اس کے بعد ’ ف ‘ کے ساتھ، جو عربی میں نتیجہ کے بیان کے لیے آتی ہے، اس غم کا ذکر کیا ہے۔ اس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ یہ غم پیغمبر کی ذات ہی سے متعلق ہوگا تاکہ پیغمبر کی جو ناقدری ان سے صادر ہوئی ہے، اس پر ان کو تنبیہ کی جائے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١٩٣) مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے ابتلا اور مصیبتوں سے گزر کر یہ حقیقت تم پر واضح ہوجائے کہ دنیا اصلاً کھونے اور پانے کی نہیں، بلکہ امتحان کی جگہ ہے، لہٰذا اس میں پیش آنے والے ہر حادثے کو اسی زاویہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ اس کے بعد توقع ہے کہ تمہارے اندر وہ مایوسی اور دل شکستگی کبھی پیدانہ ہوگی جو انسان کے عزم و حوصلہ کو ختم کردیتی ہے اور تم ہمیشہ پابرجا رہو گے۔