ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
ثُمَّ اَنۡزَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ الۡغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا یَّغۡشٰی طَآئِفَۃً مِّنۡکُمۡ ۙ وَ طَآئِفَۃٌ قَدۡ اَہَمَّتۡہُمۡ اَنۡفُسُہُمۡ یَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ ظَنَّ الۡجَاہِلِیَّۃِ ؕ یَقُوۡلُوۡنَ ہَلۡ لَّنَا مِنَ الۡاَمۡرِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡاَمۡرَ کُلَّہٗ لِلّٰہِ ؕ یُخۡفُوۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ مَّا لَا یُبۡدُوۡنَ لَکَ ؕ یَقُوۡلُوۡنَ لَوۡ کَانَ لَنَا مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ مَّا قُتِلۡنَا ہٰہُنَا ؕ قُلۡ لَّوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ لَبَرَزَ الَّذِیۡنَ کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقَتۡلُ اِلٰی مَضَاجِعِہِمۡ ۚ وَ لِیَبۡتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیۡ صُدُوۡرِکُمۡ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۱۵۴﴾ یعنی اگرچہ دشمن جاچکا تھا، لیکن جیسا کہ روایتوں میں بیان ہوا ہے، اپنے خوف اور بزدلی کی وجہ سے وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ معلوم نہیں کس وقت وہ دوبارہ ان پر آپڑے۔ اصل الفاظ ہیں : ’
یَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاھِلِیَّۃِ
‘۔ ان میں ’
ظَنَّ الْجَاھِلِیَّۃِ ‘ ’ غَیْرَالْحَقِّ
‘ کی وضاحت ہے اور اس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ ان کی بزدلی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سوچنے کا انداز اب تک وہی ہے جو اسلام کی نعمت سے بہرہ یاب ہونے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ اس جنگ کے بارے میں پیغمبر استبداد اور خود رائی سے کام نہ لیتے اور مدینہ کے اندر محصور رہ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کی جو تجویز پیش کی گئی تھی، اسے مان لیتے تو یہ افسوس ناک صورت حال پیش نہ آتی جو اس وقت آئی ہے۔ اصل میں ’
وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ
‘ کے جو الفاظ آگے آئے ہیں، ان میں عطف کی واؤ دلیل ہے کہ یہ پوری بات یہاں عربیت کے اسلوب پر حذف ہے۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَلَّوۡا مِنۡکُمۡ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ ۙ اِنَّمَا اسۡتَزَلَّہُمُ الشَّیۡطٰنُ بِبَعۡضِ مَا کَسَبُوۡا ۚ وَ لَقَدۡ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿۱۵۵﴾٪ یعنی احد کے دن، جب بعض کمزور قسم کے مسلمان عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کی شرارتوں سے متاثر ہوگئے تھے۔ یہ قرآن نے واضح کردیا ہے کہ ان کی کچھ پچھلی غلطیاں تھیں جن کے سبب سے شیطان انھیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ گناہ سے گناہ جنم لیتا ہے اور شیطان کے داؤں اُنھی لوگوں پر زیادہ آسانی سے کارگر ہوتے ہیں جن کے اندر گناہ کی کوئی جڑ موجود ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ جب آدمی سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس کو دل میں جگہ نہ پکڑنے دے، بلکہ استغفار اور توبہ نصوح کے ذریعے سے اس کا استیصال کردے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١٩٧)
آیت کی تفسیر اور الفاظ کی وضاحت ۔ جاوید احمد غامدی۔ اصل میں ’
قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ ل ‘ اسی طرح کا ہے، جس طرح سورة احقاف کی آیت ’
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ‘
میں آیا ہے۔ اور اس طرح ان کے اس وہم کی سزا انھیں دنیا ہی میں دے دے کہ اپنی تدبیروں سے وہ موت کو ٹال سکتے ہیں۔ ٤٦: ١١۔
وَ لَئِنۡ مُّتُّمۡ اَوۡ قُتِلۡتُمۡ لَاِالَی اللّٰہِ تُحۡشَرُوۡنَ ﴿۱۵۸﴾ یہ آیات جس رویے کو اختیار کرنے کی تلقین کرتی ہیں، اس کی وضاحت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس طرح فرمائی ہے :”۔۔ یہ آیت تہوّر کی دعوت نہیں دے رہی ہے، بلکہ اس حقیقت سے آگاہ کر رہی ہے کہ فرائض سے فرار زندگی بچانے کی کوئی تدبیر نہیں ہے۔ آدمی کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ جو فرض جب عائد ہوجائے، پورے عزم وجزم کے ساتھ اس کو ادا کرے اور یہ یقین رکھے کہ موت اس وقت آئے گی، جب اس کا وقت مقرر ہے اور ساتھ ہی یہ بھی یقین رکھے کہ اداے فرض کی راہ میں مرنا اس دنیا کی زندگی اور اس زندگی کے تمام اندوختوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٠٧)
فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ ﴿۱۵۹﴾ اصل میں ’
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’
مَا
‘ ہمارے نزدیک جملے کے آہنگ کو قائم رکھنے کے لیے آگیا ہے۔ اِس سے پہلے منافقین پر جو تنقید کی گئی ہے، اس کا اثر حضور (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) اور آپ کے ساتھیوں پر یہ پڑ سکتا تھا کہ سب کا رویہ ان کے بارے میں سخت ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مرحلے میں یہ پسند نہیں کیا۔ چنانچہ بطور التفات فرمایا ہے کہ اس سے پہلے بھی جو کریمانہ طرز عمل آپ نے اختیار کیے رکھا ہے، وہی صحیح تھا اور اب بھی آپ کی یہ روش قائم رہنی چاہیے تاکہ جن کے ان دراصل اح پذیری کی ادنیٰ گنجایش بھی باقی ہے، وہ اپنے آپ کو درست کرلیں۔ اس کے ساتھ ایک مزید ہدایت یہ فرمائی ہے کہ حسب سابق ان سے مشورہ بھی کرتے رہیے، اس لیے کہ مسلمانوں کی جماعت سے ان کو الگ کردینے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ ان کی مہلت باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے بارے میں کوئی فیصلہ آجانے تک ان کے معاشرتی حقوق اسی طرح قائم رہنے چاہئیں، جس طرح ہمیشہ سے قائم ہیں۔ اِس ہدایت کا موقع یہی ہے، لیکن اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ارباب حل وعقد کے لیے عام حالات میں پسندیدہ طریقہ نرمی، چشم پوشی اور عفو و درگذر ہی کا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ اسی سے افراد میں حسن ظن اور اعتماد پیدا ہوتا ہے جس سے اجتماعی نظام میں وحدت، قوت اور استحکام کی برکتیں ظہور میں آتی ہیں۔ سختی اور سخت گیری اس کی فطرت میں نہیں، بلکہ اس کے عوارض میں سے ہے۔ جس طرح صحت کے لیے اصل شے غذا ہے، لیکن کبھی کبھی کسی مرض کے علاج کے لیے دوا کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے، اسی طرح اجتماعی نظام میں اصل چیز نرمی ہے، سختی کبھی کبھی ضرورت کے تحت اختیار کرنی پڑتی ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢١٠) یعنی مشورے کے بعد جب فیصلہ کر لوتو اس کی پروا نہ کرو کہ ان میں سے کون تمہارا ساتھ دیتا ہے اور کون نہیں دیتا۔ ان کی بات مانی جائے یا نہ مانی جائے، دونوں صورتوں میں یہ نازک سے نازک موقع پر تمہیں چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔ اس کی فکر نہ کرو، تمہارے لیے اللہ اور سچے ایمان والے ہی کافی ہیں۔
اِنۡ یَّنۡصُرۡکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ یَّخۡذُلۡکُمۡ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۶۰﴾ یعنی اصلی چیز اللہ پر بھروسا ہے۔ یہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ اسباب و وسائل کی حیثیت بندہ مومن کے لیے ہمیشہ ثانوی ہوتی ہے۔
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران :
آیت 161-162
تفسیر موجود نہیں۔
ہُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۶۳﴾ یہ منافقین کے اس الزام کی تردید ہے جو انھوں نے احد میں نقصان کے بعد رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) پر لگایا اور جس کے ذریعے سے مسلمانوں کے اندر بددلی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ الزام یہ تھا کہ ہم نے تو اس شخص پر اعتماد کیا، اس کے ہاتھ پر بیعت کی، اپنے نیک وبد کا اس کو مالک بنایا، لیکن یہ اس اعتماد سے بالکل غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمارے جان ومال کو اپنے ذاتی حوصلوں اور امنگوں کے لیے تباہ کر رہے ہیں۔ ہم نے تو واضح طور پر یہ مشورہ دیا تھا کہ شہر کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے، لیکن انھوں نے ہمارے مشوروں کی اور ہمارے بھائیوں کی جانوں کی کوئی قدر و قیمت نہ سمجھی اور ان کو ایک بالکل نامناسب مقام میں لے جا کر دشمن سے تہ تیغ کرادیا، یہ صریحاً قوم کی بدخواہی اور اس کے ساتھ غداری وبے وفائی ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢١١)
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۱۶۴﴾ یعنی یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے یہ رسول انھی کے اندر سے اٹھایا ہے تاکہ کسی نوعیت کی کوئی اجنبیت ان کے اور اس رسول کی دعوت کے مابین رکاوٹ نہ بنے اور اس کی آواز کو وہ خود اپنے ضمیر کی آواز کی طرح پہچانیں اور سنیں۔ یہ اسی احسان کا دوسرا پہلو ہے کہ اس رسول کے ذریعے سے جو دعوت پیش کی جارہی ہے، وہ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو پاکیزہ بنانے کی دعوت ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر ان کے حق میں نصح وخیر خواہی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے ؟ اس مفہوم کے لیے عربی زبان کا جو لفظ قرآن نے اختیار کیا ہے، وہ تزکیہ ہے۔ اس کے معنی کسی چیز کو آلایشوں سے پاک کرنے کے بھی ہیں اور نشوونما دینے کے بھی۔ انبیاء (علیہم السلام) انسانوں کو جس قانون و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اس سے یہ دونوں ہی چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ اصل میں ’
یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ
‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ’ الکتاب ‘ قرآن کی زبان میں جس طرح خط اور کتاب کے معنی میں آتا ہے، اسی طرح قانون کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ قرآن کے نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اور ’
الحکمۃ
‘ جب اس طرح عطف ہو کر آتے ہیں تو ’
الکتاب
‘ سے شریعت اور ’
الحکمۃ
‘ سے ایمان و اخلاق کے مباحث مراد ہوتے ہیں۔ یہ احسان کا تیسرا پہلو ہے کہ جن لوگوں میں اس پیغمبر کی بعثت ہوئی ہے، وہ گمراہیوں میں بھٹک رہے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم فرمایا اور گمراہی سے نکال کر ہدایت کی سیدھی راہ پر گامزن کردیا۔ اِس مفہوم کے لیے اصل میں ’
وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’
اِنْ ‘ درحقیقت ’ اِنَّ
‘ ہے جس پر ’ ل ‘ دلالت کر رہا ہے۔
اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتۡکُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ قَدۡ اَصَبۡتُمۡ مِّثۡلَیۡہَا ۙ قُلۡتُمۡ اَنّٰی ہٰذَا ؕ قُلۡ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۶۵﴾ یہ اعتراض جن لوگوں نے کیا، وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ خدا کے رسول تو اللہ کی حفاظت میں ہوتے ہیں اور فرشتے ہر موقع پر ان کی مدد کرتے ہیں، اس لیے یہ کس طرح باور کیا جاسکتا ہے کہ انھیں اور ان کے ساتھیوں کو کسی معرکے میں نقصان اٹھانا پڑے۔ اس خیال کے لوگ احد کے نقصان سے سخت پریشان ہوئے اور رسول اللہ (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کی حقانیت کے متعلق بھی ان کے دل میں طرح طرح کے شبہات پیدا ہونے لگے۔ چنانچہ منافقین نے ان کی اس ذہنی کیفیت سے فائدہ اٹھایا اور اس نقصان کو آپ کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا۔ قرآن نے اس آیت میں اور اس کے بعد کی آیات میں اسی غلط فہمی کو دور کیا ہے اور اس موقع پر جو آزمائش پیش آئی، اس کی حکمت واضح فرمائی ہے۔ یہ اس غلطی کی طرف اشارہ ہے جو احد کی جنگ میں درے کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوئے لوگوں سے ہوئی۔ انھوں نے حکم کی خلاف ورزی کی اور مال غنیمت کی طمع میں اپنی جگہ چھوڑ دی جس کے نتیجے میں مسلمان اس مصیبت سے دوچار ہوئے جس کا ذکر ان آیتوں میں ہوا ہے۔
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران :
آیت 166-167
تفسیر موجود نہیں۔
اَلَّذِیۡنَ قَالُوۡا لِاِخۡوَانِہِمۡ وَ قَعَدُوۡا لَوۡ اَطَاعُوۡنَا مَا قُتِلُوۡا ؕ قُلۡ فَادۡرَءُوۡا عَنۡ اَنۡفُسِکُمُ الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۶۸﴾ یہ قرآن نے ایک گفتگو جنگ سے پہلے اور ایک اس کے بعد کی نقل کر کے گویا آئینہ فراہم کردیا ہے، جس میں ان منافقین کے چہرے دیکھ لیے جاسکتے تھے۔
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران :
آیت169-170
تفسیر موجود نہیں۔