ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَکۡتُمُوۡنَہٗ ۫ فَنَبَذُوۡہُ وَرَآءَ ظُہُوۡرِہِمۡ وَ اشۡتَرَوۡا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ فَبِئۡسَ مَا یَشۡتَرُوۡنَ ﴿۱۸۷﴾ یعنی اس طرح کی باتیں تو انھیں یاد ہیں کہ بعض پیغمبروں نے ایسی قربانی کی تھی جسے آگ نے آسمان سے اتر کر کھالیا تھا، مگر اللہ نے اپنی کتاب ان کے سپرد کرتے وقت جو عہد ان سے لیا تھا، وہ انھیں یاد نہیں رہا۔ اُنھیں یاد دلاؤ کہ ان کا یہ عہد اب بھی ان کی کتابوں میں لکھا ہوا موجود ہے۔ چنانچہ استثنا میں ہے :” اس لیے میری ان باتوں کو تم اپنے دل اور اپنی جان میں محفوظ رکھنا اور نشان کے طور پر ان کو اپنے ہاتھوں پر باندھنا اور وہ تمہاری پیشانی پر ٹیکوں کی مانند ہوں۔ اور تم ان کو اپنے لڑکوں کو سکھانا اور تو گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اٹھتے وقت ان ہی کا ذکر کیا کرنا۔ اور تو ان کو اپنے گھر کی چوکھٹوں پر اور اپنے پھاٹکوں پر لکھا کرنا۔ “ (١١: ١٨۔ ٢٠) اِسی طرح انجیلوں میں بھی یہ نہایت موثر اسلوبوں میں بیان ہوا ہے۔ متی میں ہے : ” جو کچھ میں تم سے اندھیرے میں کہتا ہوں، اجالے میں کہو اور جو کچھ تم کان میں سنتے ہو، کوٹھوں پر اس کی منادی کرو۔ “ (١٠: ٢٧)
لَا
تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡرَحُوۡنَ بِمَاۤ اَتَوۡا وَّ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ یُّحۡمَدُوۡا بِمَا لَمۡ یَفۡعَلُوۡا فَلَا تَحۡسَبَنَّہُمۡ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الۡعَذَابِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۸۸﴾
یعنی اللہ کے عہد کو اپنے دنیوی اغراض کے لیے حقیر داموں بیچ دینے کے باوجود جن کی خواہش ہے کہ انھیں حامل کتاب سمجھا جائے، انھیں خدا کی برگزیدہ امت قرار دیا جائے اور دنیا اور آخرت، دونوں میں خدا کی تمام عنایتوں اور تمام لطف و کرم کا تنہا حق دار مانا جائے۔
لَ
ا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡرَحُوۡنَ بِمَاۤ اَتَوۡا وَّ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ یُّحۡمَدُوۡا بِمَا لَمۡ یَفۡعَلُوۡا فَلَا تَحۡسَبَنَّہُمۡ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الۡعَذَابِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۸۸﴾
یعنی اللہ کے عہد کو اپنے دنیوی اغراض کے لیے حقیر داموں بیچ دینے کے باوجود جن کی خواہش ہے کہ انھیں حامل کتاب سمجھا جائے، انھیں خدا کی برگزیدہ امت قرار دیا جائے اور دنیا اور آخرت، دونوں میں خدا کی تمام عنایتوں اور تمام لطف و کرم کا تنہا حق دار مانا جائے۔
اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۰﴾ۚۙ سورة کی آخری فصل ختم ہوئی۔ یہاں سے اب خاتمہ سورة کی آیات شروع ہوتی ہیں۔
الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۱۹۱﴾ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک اہل عقل اور ارباب بصیرت وہی ہیں جو اس کارخانہ ہستی پر غور کر کے خدا اور آخرت کے ذکر و فکر تک رہنمائی حاصل کریں۔ نیز یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اللہ کا ذکر ہر حال میں مطلوب ہے اور جس طرح یہ ذکر مطلوب ہے، اسی طرح فکر بھی مطلوب ہے، اس لیے کہ آخرت کا یقین اسی فکر سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ نہ ہو تو ذکر محض زبان کا ایک شغل بن کر رہ جاتا ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
رَبَّنَاۤ اِنَّکَ مَنۡ تُدۡخِلِ النَّارَ فَقَدۡ اَخۡزَیۡتَہٗ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ ﴿۱۹۲﴾ اِن آیتوں میں قرآن نے کمال بلاغت کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ جو سچے ارباب بصیرت خدا کو یاد رکھتے اور زمین و آسمان کی خلقت میں غور کرتے رہتے ہیں، ان کا یہ ذکروفکر کس طرح انھیں صحیح نتائج تک پہنچا دیتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ یہ ذکروفکر خودبخود ان کو اس نتیجے تک پہنچا دیتا ہے کہ یہ عظیم کارخانہ بےغایت وبے مقصد نہیں ہوسکتا اور جب بےغایت وبے مقصد نہیں ہوسکتا تو لازم ہے کہ یہ محض اتنے ہی پر تمام نہ ہوجائے، جتنا ظاہر ہورہا ہے، بلکہ ضروری ہے کہ ایک دن ایسا آئے جس میں گناہ گار اور نیکوکار، دونوں اپنے اپنے اعمال کا بدلہ پائیں اور اس دنیا کی خلقت میں جو عظیم حکمت پوشیدہ ہے، وہ ظاہر ہو۔ آسمان و زمین کی خلقت اور رات اور دن کی آمدوشد میں جو نشانیاں ہیں، ان کی طرف یہاں صرف اجمالی اشارہ ہے۔ ان کی تفصیل پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہے۔ قرآن نے بڑی وضاحت کے ساتھ گوناگوں پہلوؤں سے آفاق کی ان نشانیوں کو نمایاں کیا ہے جو شہادت دیتی ہیں کہ اس کائنات کے پیچھے صرف ایک عظیم طاقت ہی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ عظیم حکمت بھی ہے۔ صرف بےپناہ قدرت ہی نہیں ہے، بلکہ بےپایاں رافت ورحمت بھی ہے۔ صرف بےاندازہ کثرت ہی نہیں ہے، بلکہ اس کثرت کے اندر نہایت حیرت انگیز توافق و توازن بھی ہے۔ یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ اس دنیا کا پیدا ہونا نہ تو کوئی اتفاقی سانحہ ہے، نہ کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے، بلکہ یہ ایک قدیر و حکیم، عزیز و غفور اور سمیع وعلیم کی بنائی ہوئی دنیا ہے۔ اس وجہ سے یہ بات اس کی فطرت کے خلاف ہے کہ یہ خیر و شر اور نیک و بد کے درمیان امتیاز کے بغیر یوں ہی چلتی رہے یا یوں ہی تمام ہوجائے۔ اگر ایسا ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یا تو اس کا کوئی خالق ومالک ہی نہیں ہے، یہ آپ سے آپ کہیں سے آ دھمکی ہے اور اسی طرح چلتی رہے گی یا یہ کہ نعوذباللہ اس کا خالق کوئی کھلنڈرے مزاج کا ہے جو کسی کو گداگر، کسی کو تونگر، کسی کو ظالم اور کسی کو مظلوم بنا کر اس کا تماشا دیکھ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں اس قدرت اور اس حکمت کے بالکل منافی ہیں جن کی شہادت اس کائنات کے گوشے گوشے سے مل رہی ہے۔ ایسی علیم و حکیم ہستی کی شان علم و حکمت کے یہ بات بالکل منافی ہے کہ وہ کوئی بےحکمت کام کرے۔ اِس طرح اس کائنات کی قدرت و حکمت پر غور کرنے والا شخص نہ صرف خدا تک، بلکہ اقرار آخرت تک خود پہنچ جاتا ہے اور جس کا ذہن اس حقیقت تک پہنچ جائے گا، ظاہر ہے کہ جزاوسزا کے تصور سے اس کا دل کانپ اٹھے گا اور اس کے اندر شدید داعیہ اس بات کے لیے پیدا ہوگا کہ وہ اس عذاب اور اس رسوائی سے پناہ مانگے جو ان لوگوں کے لیے مقدر ہے جو اس دنیا کو بس ایک کھلنڈرے کا کھیل سمجھتے رہے اور اس طرح انھوں نے اپنی ساری زندگی بالکل بطالت میں گزار دی۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٢٧) اِن آیتوں کے آخری جملے پر غور کیجیے تو یہ بات بھی ان میں واضح کردی گئی ہے کہ قیامت کے دن اس رسوائی سے زیادہ تر وہ لوگ دوچار ہوں گے جو جھوٹی شفاعتوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اس دن ان کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ ہوگا۔
رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ کَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ ﴿۱۹۳﴾ۚ یعنی معجزات اور خوارق نہیں مانگے اور نہ کٹ حجتیاں کی ہیں، بلکہ پیغمبر کی آواز اور اس کا چہرہ ہی ہمارے لیے معجزہ بن گیا۔ چنانچہ ہم نے جب یہ دیکھا کہ خدا اور آخرت پر ایمان کی یہ دعوت ہمارے دل کی آواز ہے، ہمارا باطن اس کی شہادت دیتا ہے اور علم وعقل بھی اسی کا تقاضا کرتے ہیں تو بغیر کسی تردد کے ہم نے اسے مان لیا ہے۔
رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدۡتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخۡزِنَا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّکَ لَا تُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ ﴿۱۹۴﴾ اصل میں ’
مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ایک مضاف عربیت کے قاعدے کے مطابق حذف ہوگیا ہے، یعنی ’
عَلٰی اَلْسِنَۃِ رُسُلِکَ
‘۔ اپنے ایمان پر اظہار فخر کے بجائے یہ ان ارباب بصیرت نے نہایت عاجزی اور فروتنی کے ساتھ اپنے آپ کو اپنے رب کے آگے ڈال دیا ہے کہ جس طرح اس نے قبول حق کی توفیق عطا فرمائی ہے، اسی طرح وہ ان کی کوتاہیوں سے بھی درگذر فرمائے اور اس راہ کی مشکلات ان کے لیے آسان کردے۔
فَاسۡتَجَابَ لَہُمۡ رَبُّہُمۡ اَنِّیۡ لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی ۚ بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ ۚ فَالَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا وَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ اُوۡذُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِیۡ وَ قٰتَلُوۡا وَ قُتِلُوۡا لَاُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَاُدۡخِلَنَّہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ ثَوَابًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الثَّوَابِ ﴿۱۹۵﴾ یہ نہایت بلیغ اسلوب میں دعا کی قبولیت کا اظہار ہے۔ گویا ادھر یہ دعا زبان پر آئی اور ادھر جواب آگیا کہ پروردگار نے اسے قبول کرلیا ہے۔ یہ ان تمام اہل ایمان کی حوصلہ افزائی ہے جو خدا کی راہ میں ہجرت اور جہاد جیسے مراحل سے گزرے اور معاندین اسلام کے ہاتھوں لرزہ خیز مظالم کا ہدف بنے رہے۔ ’ مرد ہو یا عورت ‘ کے الفاظ اس جملے میں خاص طور پر اس لیے بڑھائے گئے ہیں کہ اس زمانے میں خواتین پر جو ستم توڑے جارہے تھے، وہ ایسے سخت تھے کہ ان کو سن کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں : ”۔۔ اس ٹکڑے نے کلام کو بالکل مطابق حال کردیا۔ اور کون اندازہ کرسکتا ہے کہ ان دو لفظوں نے ان مظلوم خواتین کی کتنی ڈھارس بندھائی ہوگی جو محض اسلام کی خاطر طرح طرح کے مظالم کا نشانہ بنی ہوئی تھیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٣١) یہ اس بات کی دلیل بیان فرمائی ہے کہ مردو عورت، دونوں کا عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک کیوں ایک ہی حیثیت رکھتا ہے ؟ اس سے اگر غور کیجیے تو قرآن نے ان تمام جاہلی نظریات کی تردید کردی ہے جو عورت کو ایک فروتر مخلوق اور مرد کو اس کے مقابل میں برترقرار دیتے تھے۔ اصل میں ’
ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’
ثَوَابًا
‘ مصدر کے محل میں ہے اور اس کے معنی اس ثمرے اور نتیجے کے ہیں جو کسی عمل کے ردعمل میں اس عمل کے کرنے والے کو حاصل ہوتا ہے۔ اس تعبیر کی بلاغت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس طرح واضح فرمائی ہے :”۔۔ بندوں کے حقیر اعمال پر اللہ تعالیٰ جو ابدی اور لازوال انعامات عطا فرمائے گا، ان کو ثواب کے لفظ سے تعبیر کرکے رب کریم نے بندوں کے اعمال کی قدروقیمت بڑھائی ہے۔ ورنہ ذرے اور پہاڑ میں کیا نسبت ہے۔ ’
مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ، وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ
‘ کے الفاظ سے اسی بعد کو رفع فرمایا گیا ہے۔ یعنی ہے تو تمہارے ہی عمل کا بدلہ، لیکن ہے اللہ کے پاس سے، جس کے پاس حسن ثواب کے خزانے ہیں۔ وہ داتا جس کو جتنا چاہے دے دے۔ اس کے پاس کیا کمی ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٣١)
لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِی الۡبِلَادِ ﴿۱۹۶﴾ؕ
اصل میں لفظ ’
تَقَلُّب
‘ استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ آزادی و خود مختاری اور ایک نوعیت کا غلبہ اور زور ہے جو پیغمبر کے منکروں کو مسلمانوں کے مقابل میں اس وقت سرزمین عرب میں حاصل تھا۔