• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 4 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 109


وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ ﴿۱۰۹﴾٪
اس پیرے کی آیتوں پر غور کیا جائے تو اس سے جو حقائق سامنے آتے ہیں، وہ استاذ امام کے الفاظ میں یہ ہیں : ” اول یہ کہ اعتصام بحبل اللہ سے محروم ہوجانے کے بعداہل کتاب اختلاف و انتشار میں مبتلا ہوئے اور یہ انتشار و اختلاف درحقیقت ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹ جانے کے ہم معنی ہے۔ دوم یہ کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ یہ سرفرازی و سرخ روئی بخشتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں خود اپنی رسی پکڑاتا ہے، اگر وہ اپنی شامت اعمال سے اس رسی کو چھوڑ کر دوسرے پھندے اپنی گردنوں میں ڈال لیتے ہیں تو قیامت کے دن ان کو اسی درجے کی روسیاہی بھی حاصل ہوگی جس درجے کی ان کو سرخ روئی بخشی گئی تھی۔ چہرے روشن ان کے ہوں گے جو ہر طرح کے حالات میں اس رسی کو تھامے رہیں گے۔ یہ لوگ، بیشک اللہ کے فضل و رحمت کے حق دار ہوں گے۔ سوم یہ کہ یہ ساری تنبیہات بالحق ہیں یعنی ہر بات شدنی ہے۔ ان کو محض خالی خولی دھمکی سمجھ کر جو لوگ نظر انداز کریں گے، وہ اپنی روسیاہی کا سامان خود کریں گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری انھی پر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آگاہی پہلے سے اسی لیے سنا دی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ کسی کو سزا اس پر حجت تمام کیے بغیر دے۔ چہارم یہ کہ آسمان و زمین میں سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ سارے امور اسی کے حضور پیش ہوں گے اور اسی کا فیصلہ ناطق و نافذ ہوگا۔ اگر کسی نے کسی اور سے امید باندھ رکھی ہو تو اس کی یہ امید محض ایک واہمہ ہے جو حقیقت کے ظہور کے بعد بالکل سراب ثابت ہوگی۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١٥٥)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 110


کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اٰمَنَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ مِنۡہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ اَکۡثَرُہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۱۱۰﴾
یہ بنی اسماعیل کے لیے تسلی اور بشارت ہے کہ ایمان و عمل کے لحاظ سے اس وقت وہ خیرامت ہیں، لہٰذا ان کا کوئی دشمن بھی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ کا یہی قانون بنی اسرائیل کے لیے بھی تھا، لیکن افسوس کہ ان کی نافرمانیوں نے انھیں ہمیشہ کے لیے اللہ کے غضب کا مستحق بنادیا ہے۔ اس میں، ظاہر ہے کہ بنی اسماعیل کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ دنیا کی امامت کا جو منصب انھیں حاصل ہوا ہے، اس پر وہ محض نسل ونسب کی بنا پر نہیں، بلکہ علم و عمل میں نیکی اور خیر کے علم بردار ہونے کی وجہ سے سرفراز ہوئے ہیں۔ لہٰذا ان کا یہ منصب صفات اور ذمہ داریوں کے ساتھ مشروط ہے۔ وہ ان ذمہ داریوں کے پورا کرنے والے ہوں گے تو یہ سرفرازی انھیں حاصل رہے گی اور ان سے گریز کریں گے تو لازماً اسی انجام کو پہنچیں گے جس کو یہ اہل کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے باربار کی تنبیہ کے باوجود پہنچ چکے ہیں۔ اِس جملے کے اندر جو ابہام و اجمال ہے، وہ استاذ امام کے الفاظ میں متکلم کے اس غضب کا غماز ہے جس کے الفاظ متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 111


لَنۡ یَّضُرُّوۡکُمۡ اِلَّاۤ اَذًی ؕ وَ اِنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمۡ یُوَلُّوۡکُمُ الۡاَدۡبَارَ ۟ ثُمَّ لَا یُنۡصَرُوۡنَ ﴿۱۱۱﴾
یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور سرزمین عرب میں ان کے تمام قبائل ایسے ذلیل و خوار ہوئے کہ ہر طرف سے بالکل بے یارو مددگار ہو کر رہ گئے اور ذلت کے ساتھ وہاں سے نکال دیے گئے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 112


ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ اَیۡنَ مَا ثُقِفُوۡۤا اِلَّا بِحَبۡلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ حَبۡلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡمَسۡکَنَۃُ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ ﴿۱۱۲﴾٭
یعنی ایمان لائیں اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھیوں میں شامل ہو کر پوری طرح آپ سے وابستہ ہوجائیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے جرائم کا باعث ان کی یہ عادت ہے۔ چنانچہ اس سے پہلے بھی یہ قانون الٰہی کی زد میں تھے، اس لیے کہ ان کے بارے میں اللہ کا وعدہ ہے کہ یہ حق سے انحراف کریں تو اس کی سزا انھیں دنیا ہی میں مل جاتی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ یہ یہود کی شامت اعمال اور ان کی بدبختی کا بیان ہے کہ جہاں سے ان کو عزت و سرفرازی کی دولت دو جہاں لے کے لوٹنا تھا، یہ اپنی دوں ہمتی کی وجہ سے وہاں سے خدا کا غضب لے کر لوٹے، جس کے نتیجے میں ان پر ذلت مسلط کردی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو منصب امامت و شہادت پر مامور فرمایا تھا۔ اگر یہ اس کی ذمہ داریاں ادا کرتے اور اپنے عہد پر استوار رہتے تو دنیا اور آخرت، دونوں میں ان کا مقام بہت اونچا تھا، لیکن یہ اپنی دنیا پرستی اور پست ہمتی کی وجہ سے اس کی ذمہ داریاں نہ سنبھال سکے اور خدا کے غضب کے مستحق ٹھہرے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ١٦٢)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 113


لَیۡسُوۡا سَوَآءً ؕ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَّتۡلُوۡنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیۡلِ وَ ہُمۡ یَسۡجُدُوۡنَ ﴿۱۱۳﴾
یعنی انبیاء (علیہم السلام) کی تصدیق اور ان کی لائی ہوئی شریعت کی پابندی کا جو عہد انھوں نے اپنے پروردگار کے ساتھ باندھا تھا، اس پر پوری طرح قائم ہیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 115


وَ مَا یَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلَنۡ یُّکۡفَرُوۡہُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۱۵﴾
اصل میں ’ فَلَنْ یُّکْفَرُوْہُ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں فعل ’ کُفْر ‘ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں یہ ’ حرمان ‘ کے مفہوم پر متضمن ہے۔ مدعا یہ ہے کہ یہ اہل کتاب اگرچہ ابھی اسلام نہیں لائے ہیں، لیکن اندر سے بالکل مومن صادق ہیں، لہٰذا ان کی کوئی نیکی بھی اجر سے محروم نہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ جانتے بوجھتے حق سے انکار کرنے والوں کے سوا کسی کو بھی اس کی نیکیوں کے صلے سے محروم نہیں کرتے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 116


اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَنۡ تُغۡنِیَ عَنۡہُمۡ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡـًٔا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۱۶﴾
یعنی وہ مال و اولاد جو خدا اور اس کے پیغمبروں کی تعلیمات سے بے پروائی کا باعث ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 117


مَثَلُ مَا یُنۡفِقُوۡنَ فِیۡ ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَثَلِ رِیۡحٍ فِیۡہَا صِرٌّ اَصَابَتۡ حَرۡثَ قَوۡمٍ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَاَہۡلَکَتۡہُ ؕ وَ مَا ظَلَمَہُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنۡ اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ ﴿۱۱۷﴾
اوپر جس طرح یہ بیان کیا ہے کہ حق کے سچے طالبوں کی کوئی نیکی بھی صلے سے محروم نہ ہوگی، اسی طرح یہاں بیان فرمایا ہے کہ جانتے بوجھتے حق کا انکار کردینے والوں کی کوئی نیکی بھی ان کے کام نہ آئے گی۔ صدقہ اور خیرات ایک بڑی نیکی ہے، لیکن اس کی مثال بھی قیامت میں اس کھیتی کی ہوگی جس پر پالے والی ہوا چل جائے اور اس کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے۔

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 118


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ لَا یَاۡلُوۡنَکُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ۚۖ وَ مَا تُخۡفِیۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَکۡبَرُ ؕ قَدۡ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۱۸﴾
یہ اب ان مسلمانوں کو تنبیہ کی جارہی ہے جو یا تو اپنی سادگی کی وجہ سے اہل کتاب کی چالوں کو اچھی طرح سمجھتے نہیں تھے یا ان سے جو تعلقات و روابط پہلے سے چلے آ رہے تھے، انھیں اپنی کمزوری کے باعث توڑنا نہیں چاہتے تھے۔ اصل میں لفظ ’ بِطَانَۃً ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس سے آدمی کے خواص و احباب اور محرمان راز مراد ہوتے ہیں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
لن تنالوالبر : سورۃ آل عمران : آیت 119


ہٰۤاَنۡتُمۡ اُولَآءِ تُحِبُّوۡنَہُمۡ وَ لَا یُحِبُّوۡنَکُمۡ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡکِتٰبِ کُلِّہٖ ۚ وَ اِذَا لَقُوۡکُمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚ٭ۖ وَ اِذَا خَلَوۡا عَضُّوۡا عَلَیۡکُمُ الۡاَنَامِلَ مِنَ الۡغَیۡظِ ؕ قُلۡ مُوۡتُوۡا بِغَیۡظِکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۱۱۹﴾
مطلب یہ ہے کہ تم ان کی کتاب کو مانتے اور ان کے دین کو اپنا دین سمجھتے ہو۔ بظاہر دشمنی کے لیے کوئی وجہ نظر نہیں آتی، لیکن اس کے باوجود وہ تم سے دشمنی رکھتے ہیں۔ پھر تعجب ہے کہ تم ان سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہو ؟ یہ بات وہ اس مفہوم میں کہتے تھے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) عربوں کے لیے تو بےشک، خدا کے پیغمبر ہیں اور اس حیثیت سے وہ آپ کو مانتے ہیں، لیکن خود ان کے لیے آپ کی پیروی ضروری نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے ان کے اپنے پیغمبر ہی کافی ہیں۔
 
Top