الم : سورۃ البقرة : آیت 47
فرعون نے کہا کہ تم میری اجازت سے پہلے موسیٰ پر ایمان لے آئے بےشبہ یہ مکر ہے جو تم نے اس شہر میں شہر والوں کے نکالنے کو کیا پھر جلد تم اس کا انجام جانو گے موسیٰ ہی تمہارا اگر وہ ہے جس نے تم کو یہ سکھایا ہے ضرور میں تمہارے ہاتھ ایک طرف کے اور تمہارے پاؤں دوسری طرف کے کاٹوں گا اور تم کو کھجوروں کے درختوں کی ٹہنوں کی سولی پر چڑھا دونگا اور بلاشبہ تم جانو گے کہ کہ کون سب سے زیادہ عذاب دینے میں سخت ہے اور کس کا عذاب زیادہ پائیدار ہے ، وہ بولے کہ جو چیزیں علانیہ ہمارے سامنے ہوئی ہیں ان پر اور اس پر جس نے ہم کو پیدا کیا ہے تجھ کو ہم ترجیح نہیں دے سکتے پھر جو تو حکم دینا چاہتا ہے حکم دے ، تو ہم پر بجز اس کے کہ ہم اپنے پروردگار کی نشانیوں پر ایمان لائے ہیں اور کوئی گناہ نہیں ٹھہراتا، اے ہمارے پروردگار جب (یہ مصیبتیں) ہم پر اویں تو ہمارے (دل میں) صبر ڈال دے اور ہم کو مسلمان مار۔
اور بلاشبہ ہم نے فرعون والوں کو قحطوں میں اور پھلوں کی کم پیداوار میں گرفتار کیا شاید کہ وہ نصیحت پکڑیں پھر جب ان کو فراخی ہوتی تھی تو کہتے تھے کہ یہ تو ہمارے لیے ہے، اور جب ان پر سختی پڑتی تھی تو مموسیٰ کی اور اس کے ساتھ کے لوگوں کی نحوست بتلاتے تھے ، سمجھو کہ اس کے سوا کوئی بات نہیں کہ جو نحوست اس کے لیے تھی وہ خدا کے پاس سے تھی مگر ان میں کے بہت سے لوگ نہیں جانتے، فرعون والوں نے موسیٰ سے کہا کہ جو نشانیاں تم لاؤ گے تاکہ ہم پر تم جادو کرو تو ہم تجھ پر ایمان نہیں لانے کے، پھر ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی دل اور جوئیں اور مینڈک اور خون کا (مینہ) نازل کیا جدا جدا نشانیاں پھر انھوں نے تکبر کیا اور وہ گناہ گار قوم تھی۔ جب ان کے پاس دکھائی دیتی ہوئی ہماری نشانیاں آئیں تو بولے کہ یہ کھلا ہوا جادو ہے اور ان نشانیوں کا انکار کیا، اور البتہ ہم نے فرعون کو اپنی تمام نشانیاں دکھلائیں پھر اس نے جھٹلایا اور انکار کیا، اور جب موسیٰ ان کے پاس ہماری نشانیاں لے کر آیا تو بولے کہ یہ بجز بٹنگر بنائے ہوئے جادو کے اور کچھ نہیں ہے اور ہم نے اپنے اگلے پر کبھی ایسی بات نہیں سنی، موسیٰ نے کہا کہ میرا پروردگار جانتا ہے کہ کون اس کے پاس سے ہدایت لے کر آیا ہے اور کس کے لیے پیچھے کو اس گھرز یعنی عاقبت کی بھلائی ہوگی ، فرعون والے بولے کہ کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم کو اس بالتے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ہٹادی اور تم دونوں کو دنیا میں بڑائی ہو اور ہم تم دونوں کو نہیں مانتے ہیں فرعون نے کہا کہ میں تمہارے لیے سو اسے اپنے کوئی خدا نہیں جانتا پھر اسے ہامان میرے لیے مٹی کی اینٹیں آگ میں پکا اور میرے لیے اونچا محل بنا تاکہ میں موسیٰ کے خدا کے پاس چڑھ جاؤں اور میں تو اس کو جھوٹوں میں سمجھتا ہوں۔ اور آیا فرعون کی قوم کے پاس ایک بزرگ پیغمبر (یعنی موسیٰ ) یہ کہتا ہوا کہ میرے حوالے کردو خدا کے بندوں کو بیشک میں تمہارے لیے خدا کا بھیجا ہوا امانت دار پیغمبر ہوں اور تم خدا پر سرکشی مت کرو ۔ میں ضرور تمہارے سامنے کھلی دلیلیں لاتا ہوں اور بےشبہ مینے اپنے پروردگار اور تمہارے پروردگار کی اس بات سے کہ تم مجھ کو سنگسار کرو پناہ مانگی ہے اور اگر تم مجھ کو نہیں مانتے تو مجھ سے جدا ہوجاؤ، پھر جب موسیٰ ان کے پاس ہمارے پاس سے حق بات لے کر آیا تو بولے کہ ان لوگوں کے بیٹوں کو مار ڈالو جو اس پر ایمان لائے ہیں اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دو حالانکہ کافروں کی مکاری بجز گمراہی کے اور کچھ نہیں اور فرعون نے کہا مجھ کو چھوڑوں یعنی اجازت دو کہ میں موسیٰ کو مار ڈالوں اور وہ اپنے پروردگار کو پکارا ہی کرے بلاشبہ مجھے خوف ہے کہ تمہارا دین بدل دے اور ملک میں فساد برپا کرے اور فرعون والوں میں سے ایک مسلمان شخص نے جو اپنی ایمان کو چھپاتا تھا کہا کہ کیا تم ایسے شخص کو مار ڈالو گے جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی نشانیاں لایا ہے اور اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اس پر ہے اور اگر وہ سچا ہو تو تم کو بعضی وہ مصیبتیں پہنچی جن کا وہ وعدہ کرتا ہے ہرگز خدا اس شخص کو جو حد سے تجاوز کرنے والا دردغگو ہو ہدایت نہیں کرتا، اے میری قوم آج کے دن تمہاری بادشاہت ہے دنیا پر غالب ہو پھر خدا کے عذاب سے اگر وہ ہم پر آجاوے کون ہم کو مدد دے گا فرعون نے کہا کہ میں تم کو بجزگ اس کے جو میں دیکھتا یا سمجھتا ہوں اور کچھ نہیں سمجھاتا اور میں تم کو بجز راہ راست کے اور کچھ نہیں بتاتا، اس شخص نے جو ایمان لے آیا تھا کہا کہ اے میری قوم بیشک میں تم پر ایسے دن کا جو اگلے گروہوں پر گزرا ہے خوف کرتا ہوں جیسی قوم نوح اور عاد اور ثمود اور ان کی جو ان کے بعد ہوئیں حالت ہوئی اور خدا بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ نہیں کرتا اے میری قوم بیشک میں تم پر چل چلا ہٹ پڑنے کے دن کا خوف کرتا ہوں۔ اس دن کہ تم اوندھے منہ پیٹھ پھیر کر پھروگے کوئی تم کو خدا سے بچانے والا نہ ہوگا۔ اور جس کو خدا گمراہ کرتا ہے اس کو کوئی راہ بتانے والا نہیں ہوتا البتہ تمہارے پاس اس سے پہلے کھلی ہوئی نشانیاں لے کر یوسف آیا پھر تم ہمیشہ اس بات میں جو وہ تمہارے پاس لایا تھا شبہ میں ہے یہاں تک کہ جب وہ مرگیا تو تم نے کہا کہ ہرگز نہیں بھیجنے کا اللہ اس کے بعد کسی کو پیغمبر کو۔
فرعون نے کہا اے ہامان میرے لیے ایک محل بنا تاکہ میں رستوں تک آسمانوں کے رستوں تک پہنچ جاؤں پھر موسیٰ کے خدا کے پاس چڑھ جاؤں اور میں تو اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں اور اسی طرح فرعون کے لیے اس کے بدعمل بھڑکے کیے گئے تھے اور سیدھے رستہ روک دیا گیا تھا اور فرعون کے بجز تباہی کے اور کچھ نہ تھے۔
قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا پھر ان سے پھر گیا اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیئے تھے کہ اس کی کنجیاں ایک قوی گروہ پر بھی بھاری تھیں، جب اس کی قوم نے اس سے کہا کہ مت اترا کہ خدا اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور جو کچھ خدا نے تجھ کو دیا ہے اس میں آخرت کو ڈھونڈ اور اپنے حصہ کو دنیا میں سے مت بھول اور احسان کر جس طرح کہ خدا نے تجھ پر احسان کیا ہے اور دنیا میں فساد مت مچا کہ اللہ تعالیٰ مفسدوں کو دوست نہیں رکھتا۔ اس نے کہا کہ مجھ کو یہ دولت صرف میری دانائی کے سبب دی گئی ہے۔ کیا وہ یہ نہ سمجھا کہ بےشبہ خدا نے کسی زمانہ میں اس سے پہلے ان کو ہلاک کردیا جو اس سے بھی زیادہ قوی اور زیادہ دولت والے تھے اور کیا گناہ گار اپنے گناہوں پر پوچھے نہ جاوینگے پھر قارون اپنی قوم کے سامنے تحمل سے نکلا جو لوگ دنیا ہی کی زندگی کو چاہتے تھے انھوں نے کہا کہ کاش ہمارے پاس بھی وہ کچھ ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے بیشک وہی بڑا صاحب نصیب ہے، اور جن لوگوں کو دانش دی گئی تھی انھوں نے کہا کہ افسوس تم پر، خدا کا ثواب ان کے لیے جو ایمان لائے ہیں اور اچھے کام کیے ہیں بہت اچھا ہے اور وہ بجز صبر کرنے والوں کے اور کسی کو نہیں ملتا، پھر ہم نے قارون کو اس کے گھر سمیت زمین میں دھنسا دیا پھر کوئی گروہ خدا کے سوا اس کے لیے تھی جو اس کی مدد کرے اور نہ وہ اپنی آپ مدد کرسکتا تھا اور جن لوگوں نے کل اس کے مرتبہ کی تمنا کی تھی انھوں نے یہ کہتے ہوئے صبح کی اوہو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کو فراخ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کرتا ہے اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو ہم کو دھنسا دیتا، اوہو، وہ نہیں فلاح پہنچاتا کافروں کو۔
اور فرعون نے اپنے لوگوں میں پکارکر کہا کہ اے لوگو کیا میرے پاس مصر کا ملک نہیں ہے اور یہ نہریں جو میرے ملک کے نیچے بہتی ہیں پھر کیا تم نہیں دیکھتے ہو آیا میں اچھا ہوں اس شخص سے جو ذلیل ہے اور نہیں بیان کرسکتا کہ کیوں نہ اس پر ڈالے گئے سونے کے کنگن اور کیوں اس کے ساتھ فرشتے ساتھ رہنے کو آئے۔ اور جب فرعون والوں پر آفت پڑی تو بولے اسے موسیٰ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے جس طرح اس نے تجھ کو بتایا ہے دعا مانگ اگر ہم پر سے آفت جاتی رہی تو ہم تجھ پر ضرور ایمان لاوینگے اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دینگے، پھر جب ہم نے ان پر سے ایک مدت تک آفت کو دور کردیا جس آفت تک وہ پہنچنے کو تھے تو وہ پھرگئے، اور ہم نے ان کو عذاب میں گرفتار کیا کہ شاید وہ (بدراہ سے) پھر جاویں۔ فرعون والوں نے کہا اے جادو گر ہمارے لیے اپنے پروردگار سے جس طرح کہ اس نے تجھ کو بتایا ہے دعا مانگ بیشک ہم ہدایت پاگئے ہیں موسیٰ نے کہا اے ہمارے پروردگار تونے فرعون کو اور اس کے درباریوں کو تحمل اور دولت دینا کی زندگی میں دی ہے ، اے ہمارے پروردگار کیا اس لیے کہ تیرے رستہ سے گمراہ کریں، اے پروردگار ہمارے ستیاناسی ڈال ان کے مالوں پر اور سختی ڈال ان کے دلوں پر پھر وہ نہیں ایمان لاوینگے جب تک کہ دکھ دینے والا عذاب نہ دیکھے گے ، خدا نے کہا کہ تم دونوں کی دعا قبول کی گئی پھر مستصل رہو اور ان کی راہ مت چلو جو نہیں جانتے۔ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا سے مددمانگو اور صبر کرو بیشک یہ زمین خدا کی ہے اس کو اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور آخر کو بھلائی پرہیزگاروں کے لیے ہے ، انھوں نے کہا کہ ہم کو تو تیرے آنے سے پہلے اور تیرے آنے کے بعد اذیت ہی دی گئی ہے موسیٰ نے کہا کہ قریب ہی خدا تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور عنقریب تم کو زمین پر خلیفہ کردے گا پھر دیکھے گا کہ تم کس طرح کرو گے۔
ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ رات کو لے چل میرے بندوں کو چل ان کے لیے سمندر کے سوکھے رستہ میں مت خوف کر پکڑ لیے جانے سے اور ند اور کسی طرح کا ذکر، لے چل میرے بندوں کو رات کو تم (دشمن سے) تعاقب کیے جاؤ گے اور چھوڑ چل سمندر کو ایسی حالت میں کہ اترا ہوا ہے بیشک فرعون کے لوگ ایک لشکر ہے کہ ڈبویا جاویگا۔ چل اپنی لاٹھی کے سہارے سے سمندر میں کہ وہ پھٹا ہوا ہے پھر تھا ہر ایک ٹکڑا بڑی پہاڑ کی مانند اور جب کہ ہم نے تمہارے سبب سے سمندر کو جدا کردیا پھر ہم نے تم کو بچایا اور ہم نے فرعون والوں کو ڈبودیا اور تم دیکھتے تھے۔
” رھوا “ کا ترجمہ شاہ عبدالقادر صاحب نے ” تھم رہا “ کیا ہے اور شاہ رفیع الدین صاحب نے ” خشک “ کیا ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب نے ” آرمیدہ “ اور قاموس میں اس کے معنی لکھے ہیں ” المرتفع والمنخفض مند لبکون “
پھر سورج کے نکلتے ہی فرعون والوں نے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا پھر جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے لوگوں نے کہا کہ اب ہم پکڑے گئے موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں بیشک میرے ساتھ میرا خدا ہے جو ٹھیک رستہ بتاویگا۔ پھر فرعون نے اپنے لشکر سمیت ان کا پیچھا کیا پھر ڈھانک دیا ان کو سمندر میں سے جس نے ان کو ڈھانک لیا اور غلط راہ پر لے گیا فرعون اپنی قوم کو اور ٹھیک رستہ نہ بتایا۔ اور ہم نے پچھلوں کو قریب کردیا اور ہم نے موسیٰ کو اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو بچا دیا پھر ہم نے پچھلوں کو ڈبودیا۔ پھر ہم نے بدلا لیا ان سے اور ہم نے ان کو سمندر میں ڈبودیا اس لیے کہ بےشبہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور اس سے غافل تھے پھر پکڑا ہم نے فرعون کو اور اس کے لشکر کو اور ان کو ہم نے سمندر میں ڈال دیا۔ فرعون چاہتا تھا کہ ان کو زمین سے نکال دے پھر ہم نے اس کو ڈبو دیا اور سب کو جو اس کے ساتھ تھے اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کو کہا کہ رہو اس زمین پر پھر جب آویگا آخرت کا وعدہ تو ہم تم کو لادینگے ملوان۔
ہم نے تم پر چھانوں کی بسر کی اور تم من وسلوٰی اتارا کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تم کو دیں اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا مگر انھوں نے آپ اپنے پر ظلم کیا تھا۔ اور ہم نے تم پر من وسلویٰ اتارا کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تم کو دی ہیں اور اس میں زیادتی مت کرو تاکہ میرا غصہ تم پر نازل ہو اور جس پر میرا غصہ نازل ہو وہ ہلاک ہوا۔ اور جدا کردیئے ہم نے بنی اسرائیل کے اسباط کے بارہ گروہ اور ہم نے موسیٰ پر وحی کی جبکہ اس کی قوم نے پانی مانگا کہ چل اپنی لاٹھی کے سہارے اس چٹان پر اس سے بہتے ہیں ، پھوٹ نکلے ہیں بارہ چشمے ان میں ہر ایک نے اپنا گھاٹ جان لیا کھاؤ اور پیو خدا کے دیئے ہوئے رزق سے اور زمین پر مفسد ہو کرنا فرمانی مت کرو جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کرسکتے پھر اپنے پروردگار سے دعا مانگ کہ ہمارے لیے دو چیزیں نکالے جو زمین اگاتی ہے مکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز اور لہسن موسیٰ نے کہا کیا تم بدلنا چاہتے ہو برے کو بھلے سے جا اترو شہر میں کہ تم ملے گا جو تم مانگتے ہو۔
اور ہم بنی اسرائیل کو دریا سے نکال لے گئے پھر وہ ایک ایسی قوم کے پاس آئے جو اپنے بتوں کی سیوا کرتے تھے بنی اسرائیل نے کہا کہ اے موسیٰ ہمارے لیے بھی ایسے معبود بنا جیسے ان کے معبود ہیں موسیٰ نے کہا کہ بیشک تم جاہل قوم ہو، یہ خراب حالت ہے جس میں یہ لوگ ہیں اور غلط ہے جو یہ کرتے ہیں اور جب ہم نے تم سے کہا کہ داخل ہو اس شہر میں پھر کھاؤ اس میں سے جو چاہو پیٹ بھر کر اور داخل ہو دروازوں میں سجدہ کرتے ہوئے اور کہو کہ ہم معافی چاہتے ہیں بخش دینگے ہم تمہاری سب خطائیں اور نیکی کرنے والوں کو زیادہ دینگے پھر ظالموں نے بات بدل دی اس کے سوا جو ان سے کہی گئی پھر ہم نے ان کی بدکاری کے سبب ان پر آسمان سے آفت بھیجی اور جب موسیٰ ہمارے وقت مقررہ پر آیا اور اس کے پروردگار نے اس سے بات کی تو اس نے کہا کہ تو مجھ پر اپنے تئیں دکھادے تاکہ میں تجھ کو دیکھوں خدا نے کہا کہ تو مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکے گا لیکن تو اس پہاڑ کو دیکھ پھر اگر یہ پہاڑ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو تو مجھ کو دیکھ سکے گا ، پھر جب اس کے پروردگار نے پہاڑ پر تجلی کی تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور موسیٰ بےہوش ہو کر گرا پھر جب ہوش میں آیا تو کہا کہ تو پاک ہے اے اللہ میں توبہ کرتا ہوں تیرے سامنے اور میں پہلا ایمان لانے والا ہوں خدا نے کہا اے موسیٰ میں نے تجھ کو اور لوگوں پر اپنا رسول کرنے اور خود کلام کرنے سے برگزیدہ کیا ہے پھر جو میں تجھ کو دیتا ہوں اس کو لے اور شکر کرنے والوں میں ہو۔ اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم تجھ پر ایمان نہ لاویں گے جب تک کہ علانیہ خدا کو نہ دیکھیں۔ اور موسیٰ نے ہمارے وقت مقررہ پر حاضر ہونے کے لیے اپنی قوم میں سے ستر آدمی چھانٹے پھر تم کو بجلی کی کڑک نے پکڑ لیا اور یہ سب باتیں تم دیکھتے تھے پھر ہم نے تم کو تمہارے مرجانے (بیہوش ہوجانے) کے بعد اٹھایا کہ شاید تم شکر کرو۔ پھر جب ان کو کپکپاہٹ نے پکڑا تو موسیٰ نے کہا اے پروردگار اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان کو اور مجھ کو بھی مارڈالتا۔ اور جب ہم نے تم سے قول لیا اور ہم نے تمہارے اوپر پہاڑ کو بلند کیا کہ مضبوط پکڑو جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اور یاد رکھو جو کچھ اس میں ہے۔۔۔ شاید کہ تم بچ جاؤ۔
اور جب ہم نے ان پر پہاڑ کو اٹھایا گویا کہ وہ سایبان تھا اور انھوں نے گمان کیا کہ وہ ان پر گرے گا مضبوطی سے پکڑو جو ہم نے تم کو دیا ہے۔ ہم نے موسیٰ سے کہا کہ کیوں تو جلدی کرکے چلاآیا اپنی قوم کے پاس سے کہا وہ بھی میرے پیچھے ہیں اور میں تیرے پاس جلدی چلا آیا ہوں تاکہ اے پروردگار تو راضی ہو، اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس رات کا اور ہم نے پورا کیا اس کو دس سے پھر تمام ہوگئی میعاد اس کے پروردگار کی چالیس رات ، اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری قوم میں میرا خلیفہ ہو اور اصلاح کر اور مفسدوں کے طریق کی پیروی مت کر موسیٰ کی قوم نے اس کے بعد اپنے زیور سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں سے آواز نکلتی تھی۔ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ ہم نے تیرے بعد تیری قوم کو فتنہ میں ڈالا اور سامری نے ان کو گمراہ کردیا ۔ پھر سامری نے ان کے لیے بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں آواز نکلتی تھی پھر وہ بولے کہ یہ ہے ہمارا خدا اور موسیٰ کا خدا موسیٰ تو بھول گیا۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ان کی بات کا الٹ کر جواب نہیں دیتا اور نہ ان کے لیے ضرر اور نہ نفع پہنچانے کا مالک ہے، اور پہلے ہی سے ہارون نے ان سے کہا تھا کہ اے قوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ تم اس سے فتنہ میں ڈالے گئے ہو اور بیشک تمہارا پروردگار رحم والا ہے میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو انھوں نے کہا کہ ہم اسی کے سیوا کیا کرینگے جب تک کہ موسیٰ لوٹ کر نہ آوے پھر موسیٰ اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آیا غصہ میں بھرا ہوا افسوس کرتا ہوا موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم نے اس بچھڑے بنانے میں اپنی جانوں پر ظلم کیا توبہ کرو اللہ کے سامنے اور مار ڈالو اپنی جانوں کو یہی تمہارے حق میں تمہارے خدا کے نزدیک بہتر ہے جن لوگوں نے بچھڑا بنایا قریب ہے کہ ان کے پروردگار کا غصہ ان تک پہنچے گا اور ذلت دنیا کی اس زندگی میں۔
موسیٰ نے کہا کہ اے میری قوم کیا تم سے خدا نے وعدہ نہیں کیا تھا اچھا وعدہ اور کیا ایک لمبا زمانہ تم پر گزر گیا تھا بلکہ تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غصہ اترے اس لیے تم نے میرے وعدے کے برخلاف کیا ۔ موسیٰ نے کہا کہ بہت برا کیا تم نے میرے بعد کیا جلدی کی تم نے اپنے پروردگار کے حکم میں اور پھینک دیا الواح توراۃ کو اور اپنے بھائی کے سرکے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اس نے کہا کہ اے میرے ما جائے ان لوگوں نے مجھ کو کمزور جانا تھا اور مجھ کو مارے ڈالتے تھے پھر میرے دشمنوں کو مت خوش کرو اور مت کرو مجھ کو ان ظالم لوگوں کے ساتھ مجھ کو یہ ڈر تھا کہ تو یہ کہے گا تونے تفریق ڈال دی بنی اسرائیل میں اور نہ انتظار کیا تونے میری بات کا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے تو اپنے اختیار سے تیرے وعدہ کے خلاف نہیں کیا بلکہ ہم قوم قبطی کے زیور کا بوجھ اٹھا رہی تھے پھر ہم نے اس کو پھینک دیا اور اس طرح پھینک دیا سامری نے پھر سامری نے بچھڑے کی سورت بنائی جس میں سے آواز نکلتی تھی۔ موسیٰ نے کہا کہ اے سامری تیرا کیا حال ہے اس نے کہا کہ مجھے وہ بات سوجھائے جو ان کو نہیں سوجھائی پھر میں نے پیغمبر کے پاؤں تلے کے نشان کی مٹی لی پھر میں نے بچھڑے میں ڈال دی اور اسی طرح کرتا میرے دل نے مجھے اچھا بتایا موسیٰ نے کہا کہ دور ہو تجھ کو اس دنیا میں یہی سزا ہے کہ تو کہتا رہیگا کہ میرے پاس مت آؤ۔ پھر جب موسیٰ کا غصہ تھما تو اس نے الواح کو اٹھا لیا اور اس میں ان کے لیے ہدایت اور رحمت تھی جو ڈرتے ہیں۔ پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جو لوگ نیکی کرنے والے ہیں ان پر نعمت پوری کرنے کو اور ہر چیز کی تفصیل بتانے کو اور ہدایت اور رحمت کرنے کو کہ شاید وہ اپنی پروردگار سے ملنے پر ایمان لادین اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا اور ان میں سے بارہ سردار کھڑے ہوگئے اور خدا نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم قائم کرتے رہو گے نماز اور تم دیتے رہوگے زکوٰۃ اور تم ایمان لاتے رہو گے میرے رسولوں پر اور تم مدد کرتے رہو گے ان کی اور تم قرض دیتے رہوگے اللہ کو قرض حسنہ۔
جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا تم کو یہ حکم کرتا ہے کہ ذبح کرو بیل کو انھوں نے کہا کہ کیا تو ہم سے ہنسی کرتا ہے موسیٰ نے کہا کہ میں تو اللہ سے پناہ مانگتا ہوں جاہل قوم سے انھوں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے پوچھو کہ ہم کو بتلادے کہ وہ کیسا بیل ہو کہا کہ وہ بیل نہ بوڑھا ہو اور نہ بچہ میانہ سال ان دونوں کے بیچ میں کرو جو تم کو حکم دیا جاتا ہے انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے پوچھ کر بتلادے کیا ہو اس کا رنگ موسیٰ نے کہا کہ خدا کہتا ہے کہ وہ بیل ڈہ ڈہاتے زرد رنگ کا ہو اس کا رنگ خوش کرتا ہو دیکھنے والوں کو انھوں نے کہا کہ پوچھ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے کہ بتلادے وہ کیسا ہے کہ ہم پر بیل مستھ ہوگئے ہیں اور اگر خدا نے چاہا تو ہم ہدایت پاویں گے۔ موسیٰ نے کہا کہ خدا کہتا ہے وہ ایسا بیل ہو جو نہ جوتا ہو کہ زمین کو پھاڑے یا کھیتی کو پانی دے اس کے تمام اعضا مسلم ہوں اور اس میں کوئی دھبہ نہ ہو انھوں نے کہا اب تونے ٹھیک بات بتائی پھر انھوں نے ذبح کیا اور کرتے نہیں لگتے تھے۔
اے لوگو تم اس پاک زمین میں داخل ہو جو خدا نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور مت پھر اپنے پیٹ کے بل پیچھے پھر پلٹو گے نقصان اٹھانے والے انھوں نے کہا اے موسیٰ اس میں تو بہت زبردست قوم رہتی ہے ہم ہرگز اس میں نہیں جائینگے جب تک کہ وہ اس میں سے نہ نکل جاویں جب وہ اس میں سے نکل جاویں گے تب ہم اس میں داخل ہوں گے ان میں سے دو آدمیوں نے کہا جو خدا سے ڈرتے تھے جن پر خدا نے نعمت کی تھی کہ اے لوگو جاگھسو اس قوم کے دروازہ میں جب تم جاگھسو گے تو تم ہی غالب ہوگے اور خدا ہی پر بھروسا کرو اگر تم ایمان والے ہو انھوں نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز اس میں نہیں گھسے گے جب تک کہ وہ اس میں ہیں توجا اور تیرا پروردگار تم دونوں لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں موسیٰ نے کا اے میرے پروردگار مجھ کو اختیار نہیں مگر اپنی جان پر اور اپنے بھائی پر پھر ہم میں اور اس بدکار قوم میں فرق کر خدا نے فرمایا کہ وہ حرام کردی گئی ہے ان پر چالیس برس تک وہ ٹکراتے پھرینگے زمین میں اور تو رنج مت کر اس بدکار قوم پر۔ یہ غلطی کی ہے جو یہ سمجھے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے دریائے نیل سے عبور کیا تھا یہ بالکل غلط ہے، بلکہ انھوں نے بحراحمد کی ایک شاخ سے عبور کیا تھا۔ تمام مفسرین حضرت موسیٰ کے عبور اور فرعون کے غرق ہونے کو بطور ایک ایسے معجزے کے قرار دیتے ہیں جو خلاف قانون قدرت واقع ہوا ہو جس کو انگریزی میں، سپر نیچرل، کہتے ہیں
اور یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سمندر پر اپنی لاٹھی ماری وہ پھٹ گیا اور پانی مثل دیوار یا پہاڑ کے ادھر ادھر کھڑا ہوگیا اور پانی نے بیچ میں خشک رستہ چھوڑ دیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تمام بنی اسرائیل اس رستہ سے پار اتر گئے فرعون بھی اسی رستہ میں دوڑ پڑا اور پھر سمندر مل گیا اور سب ڈوب گئے، اگر درحقیقت یہ واقع خلاف قانون قدرت واقع ہوا تھا تو خدا تعالیٰ سمندر کے پانی ہی کو ایسا سخت کردیتا کہ مثل زمین کے اس پر سے چلے جاتے، خشک رستہ نکالنے ہی سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ یہ واقعہ یا معجزہ جو اس کو تعبیر کرو مطابق قانون قدرت کے واقعہ ہوا تھا ۔ جو مطلب مفسرین نے بیان کیا ہے وہ مطلب قرآن مجید کے لفظوں سے بھی نہیں نکلتا۔
سمندر میں راستہ ہوجانے کی نسبت قرآن مجید میں تین جگہ ذکر آیا ہے اول سورة بقرہ میں جہاں فرمایا ہے کہ ” اذفرقنا بکم البحر “ دوم۔ سورة شعرا میں
جہاں فرمایا کہ ” اوحینا الی موسیٰ ان اضرب بعصاک البحر نا نفلق فکان کل فرق کالطودالعظیم “ تیسرے ۔ سورة طہ میں جہا فرمایا ہے کہ فاوحینا الی موسیٰ ان اسر بعبادی فاضرب لھم طریقاً فی البحر بیسبا لا تخف در کا دلا تخشی فاتبعہم فرعون بجنودہ فغشیہم من الیم ما غشیہم، پہلی آیت میں تو کوئی لفظ ایسا نہیں ہے۔ جس سے سمندر کے جدا ہوجانے یا پھٹ جانے کو خلاف قانون قدرت قرار دیا جاسکے۔ دوسری آیت میں جو الفاظ ہیں انہی پر تمام مفسرین کا رارومدار ہے وہ ” ان اضرب بعصاک البحر “ کے یہ معنی لیتے ہیں کہ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ سمندر کو اپنی لاٹھی سے مار چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے لاٹھی ماری اور سمندر ہٹ گیا یا پھٹ گیا یا سمندر کی تہ زمین کھل گئی وہ اس جملہ کو اس طرح پر بطور شرط و جزا کے قرار دیتے ہیں کہ شرط گویا علت ہے اور جزا اس کا معلول یعنی لاٹھی مارنے کے سبب سے سمندر پھٹ گیا اور زمین نکل آئی، مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے ” انفلق “ ماضی کا صیغہ ہے اور عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ جب ماضی جزاء میں واقع ہوتی ہے تو اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں اگر ماضی اپنے معنوں پر نہیں رہے
بلکہ شرط کی معلول ہوتی ہے تو اس وقت اس پر ” ف “ لاتے ہیں جیسے کہ اس مثال میں ہے ” ان اکرمتنی فاکرمتک امس “ یعنی اگر تعظیم کرے گا تو میری تو میں تیری تعظیم کل کرچکا ہوں ” اس مثال میں جز (یعنی گزشتہ کل میں تعظیم کا کرنا) شرط کی معلول نہیں ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے ہوچکی تھی، اسی طرح اس آیت میں سمندر کا پھٹ جانا یا زمین کا کھل جانا ضرب کا معلول نہیں ہوسکتا۔
فرعون نے کہا کہ تم میری اجازت سے پہلے موسیٰ پر ایمان لے آئے بےشبہ یہ مکر ہے جو تم نے اس شہر میں شہر والوں کے نکالنے کو کیا پھر جلد تم اس کا انجام جانو گے موسیٰ ہی تمہارا اگر وہ ہے جس نے تم کو یہ سکھایا ہے ضرور میں تمہارے ہاتھ ایک طرف کے اور تمہارے پاؤں دوسری طرف کے کاٹوں گا اور تم کو کھجوروں کے درختوں کی ٹہنوں کی سولی پر چڑھا دونگا اور بلاشبہ تم جانو گے کہ کہ کون سب سے زیادہ عذاب دینے میں سخت ہے اور کس کا عذاب زیادہ پائیدار ہے ، وہ بولے کہ جو چیزیں علانیہ ہمارے سامنے ہوئی ہیں ان پر اور اس پر جس نے ہم کو پیدا کیا ہے تجھ کو ہم ترجیح نہیں دے سکتے پھر جو تو حکم دینا چاہتا ہے حکم دے ، تو ہم پر بجز اس کے کہ ہم اپنے پروردگار کی نشانیوں پر ایمان لائے ہیں اور کوئی گناہ نہیں ٹھہراتا، اے ہمارے پروردگار جب (یہ مصیبتیں) ہم پر اویں تو ہمارے (دل میں) صبر ڈال دے اور ہم کو مسلمان مار۔
اور بلاشبہ ہم نے فرعون والوں کو قحطوں میں اور پھلوں کی کم پیداوار میں گرفتار کیا شاید کہ وہ نصیحت پکڑیں پھر جب ان کو فراخی ہوتی تھی تو کہتے تھے کہ یہ تو ہمارے لیے ہے، اور جب ان پر سختی پڑتی تھی تو مموسیٰ کی اور اس کے ساتھ کے لوگوں کی نحوست بتلاتے تھے ، سمجھو کہ اس کے سوا کوئی بات نہیں کہ جو نحوست اس کے لیے تھی وہ خدا کے پاس سے تھی مگر ان میں کے بہت سے لوگ نہیں جانتے، فرعون والوں نے موسیٰ سے کہا کہ جو نشانیاں تم لاؤ گے تاکہ ہم پر تم جادو کرو تو ہم تجھ پر ایمان نہیں لانے کے، پھر ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی دل اور جوئیں اور مینڈک اور خون کا (مینہ) نازل کیا جدا جدا نشانیاں پھر انھوں نے تکبر کیا اور وہ گناہ گار قوم تھی۔ جب ان کے پاس دکھائی دیتی ہوئی ہماری نشانیاں آئیں تو بولے کہ یہ کھلا ہوا جادو ہے اور ان نشانیوں کا انکار کیا، اور البتہ ہم نے فرعون کو اپنی تمام نشانیاں دکھلائیں پھر اس نے جھٹلایا اور انکار کیا، اور جب موسیٰ ان کے پاس ہماری نشانیاں لے کر آیا تو بولے کہ یہ بجز بٹنگر بنائے ہوئے جادو کے اور کچھ نہیں ہے اور ہم نے اپنے اگلے پر کبھی ایسی بات نہیں سنی، موسیٰ نے کہا کہ میرا پروردگار جانتا ہے کہ کون اس کے پاس سے ہدایت لے کر آیا ہے اور کس کے لیے پیچھے کو اس گھرز یعنی عاقبت کی بھلائی ہوگی ، فرعون والے بولے کہ کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم کو اس بالتے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ہٹادی اور تم دونوں کو دنیا میں بڑائی ہو اور ہم تم دونوں کو نہیں مانتے ہیں فرعون نے کہا کہ میں تمہارے لیے سو اسے اپنے کوئی خدا نہیں جانتا پھر اسے ہامان میرے لیے مٹی کی اینٹیں آگ میں پکا اور میرے لیے اونچا محل بنا تاکہ میں موسیٰ کے خدا کے پاس چڑھ جاؤں اور میں تو اس کو جھوٹوں میں سمجھتا ہوں۔ اور آیا فرعون کی قوم کے پاس ایک بزرگ پیغمبر (یعنی موسیٰ ) یہ کہتا ہوا کہ میرے حوالے کردو خدا کے بندوں کو بیشک میں تمہارے لیے خدا کا بھیجا ہوا امانت دار پیغمبر ہوں اور تم خدا پر سرکشی مت کرو ۔ میں ضرور تمہارے سامنے کھلی دلیلیں لاتا ہوں اور بےشبہ مینے اپنے پروردگار اور تمہارے پروردگار کی اس بات سے کہ تم مجھ کو سنگسار کرو پناہ مانگی ہے اور اگر تم مجھ کو نہیں مانتے تو مجھ سے جدا ہوجاؤ، پھر جب موسیٰ ان کے پاس ہمارے پاس سے حق بات لے کر آیا تو بولے کہ ان لوگوں کے بیٹوں کو مار ڈالو جو اس پر ایمان لائے ہیں اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دو حالانکہ کافروں کی مکاری بجز گمراہی کے اور کچھ نہیں اور فرعون نے کہا مجھ کو چھوڑوں یعنی اجازت دو کہ میں موسیٰ کو مار ڈالوں اور وہ اپنے پروردگار کو پکارا ہی کرے بلاشبہ مجھے خوف ہے کہ تمہارا دین بدل دے اور ملک میں فساد برپا کرے اور فرعون والوں میں سے ایک مسلمان شخص نے جو اپنی ایمان کو چھپاتا تھا کہا کہ کیا تم ایسے شخص کو مار ڈالو گے جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی نشانیاں لایا ہے اور اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اس پر ہے اور اگر وہ سچا ہو تو تم کو بعضی وہ مصیبتیں پہنچی جن کا وہ وعدہ کرتا ہے ہرگز خدا اس شخص کو جو حد سے تجاوز کرنے والا دردغگو ہو ہدایت نہیں کرتا، اے میری قوم آج کے دن تمہاری بادشاہت ہے دنیا پر غالب ہو پھر خدا کے عذاب سے اگر وہ ہم پر آجاوے کون ہم کو مدد دے گا فرعون نے کہا کہ میں تم کو بجزگ اس کے جو میں دیکھتا یا سمجھتا ہوں اور کچھ نہیں سمجھاتا اور میں تم کو بجز راہ راست کے اور کچھ نہیں بتاتا، اس شخص نے جو ایمان لے آیا تھا کہا کہ اے میری قوم بیشک میں تم پر ایسے دن کا جو اگلے گروہوں پر گزرا ہے خوف کرتا ہوں جیسی قوم نوح اور عاد اور ثمود اور ان کی جو ان کے بعد ہوئیں حالت ہوئی اور خدا بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ نہیں کرتا اے میری قوم بیشک میں تم پر چل چلا ہٹ پڑنے کے دن کا خوف کرتا ہوں۔ اس دن کہ تم اوندھے منہ پیٹھ پھیر کر پھروگے کوئی تم کو خدا سے بچانے والا نہ ہوگا۔ اور جس کو خدا گمراہ کرتا ہے اس کو کوئی راہ بتانے والا نہیں ہوتا البتہ تمہارے پاس اس سے پہلے کھلی ہوئی نشانیاں لے کر یوسف آیا پھر تم ہمیشہ اس بات میں جو وہ تمہارے پاس لایا تھا شبہ میں ہے یہاں تک کہ جب وہ مرگیا تو تم نے کہا کہ ہرگز نہیں بھیجنے کا اللہ اس کے بعد کسی کو پیغمبر کو۔
فرعون نے کہا اے ہامان میرے لیے ایک محل بنا تاکہ میں رستوں تک آسمانوں کے رستوں تک پہنچ جاؤں پھر موسیٰ کے خدا کے پاس چڑھ جاؤں اور میں تو اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں اور اسی طرح فرعون کے لیے اس کے بدعمل بھڑکے کیے گئے تھے اور سیدھے رستہ روک دیا گیا تھا اور فرعون کے بجز تباہی کے اور کچھ نہ تھے۔
قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا پھر ان سے پھر گیا اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیئے تھے کہ اس کی کنجیاں ایک قوی گروہ پر بھی بھاری تھیں، جب اس کی قوم نے اس سے کہا کہ مت اترا کہ خدا اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور جو کچھ خدا نے تجھ کو دیا ہے اس میں آخرت کو ڈھونڈ اور اپنے حصہ کو دنیا میں سے مت بھول اور احسان کر جس طرح کہ خدا نے تجھ پر احسان کیا ہے اور دنیا میں فساد مت مچا کہ اللہ تعالیٰ مفسدوں کو دوست نہیں رکھتا۔ اس نے کہا کہ مجھ کو یہ دولت صرف میری دانائی کے سبب دی گئی ہے۔ کیا وہ یہ نہ سمجھا کہ بےشبہ خدا نے کسی زمانہ میں اس سے پہلے ان کو ہلاک کردیا جو اس سے بھی زیادہ قوی اور زیادہ دولت والے تھے اور کیا گناہ گار اپنے گناہوں پر پوچھے نہ جاوینگے پھر قارون اپنی قوم کے سامنے تحمل سے نکلا جو لوگ دنیا ہی کی زندگی کو چاہتے تھے انھوں نے کہا کہ کاش ہمارے پاس بھی وہ کچھ ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے بیشک وہی بڑا صاحب نصیب ہے، اور جن لوگوں کو دانش دی گئی تھی انھوں نے کہا کہ افسوس تم پر، خدا کا ثواب ان کے لیے جو ایمان لائے ہیں اور اچھے کام کیے ہیں بہت اچھا ہے اور وہ بجز صبر کرنے والوں کے اور کسی کو نہیں ملتا، پھر ہم نے قارون کو اس کے گھر سمیت زمین میں دھنسا دیا پھر کوئی گروہ خدا کے سوا اس کے لیے تھی جو اس کی مدد کرے اور نہ وہ اپنی آپ مدد کرسکتا تھا اور جن لوگوں نے کل اس کے مرتبہ کی تمنا کی تھی انھوں نے یہ کہتے ہوئے صبح کی اوہو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کو فراخ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کرتا ہے اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو ہم کو دھنسا دیتا، اوہو، وہ نہیں فلاح پہنچاتا کافروں کو۔
اور فرعون نے اپنے لوگوں میں پکارکر کہا کہ اے لوگو کیا میرے پاس مصر کا ملک نہیں ہے اور یہ نہریں جو میرے ملک کے نیچے بہتی ہیں پھر کیا تم نہیں دیکھتے ہو آیا میں اچھا ہوں اس شخص سے جو ذلیل ہے اور نہیں بیان کرسکتا کہ کیوں نہ اس پر ڈالے گئے سونے کے کنگن اور کیوں اس کے ساتھ فرشتے ساتھ رہنے کو آئے۔ اور جب فرعون والوں پر آفت پڑی تو بولے اسے موسیٰ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے جس طرح اس نے تجھ کو بتایا ہے دعا مانگ اگر ہم پر سے آفت جاتی رہی تو ہم تجھ پر ضرور ایمان لاوینگے اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دینگے، پھر جب ہم نے ان پر سے ایک مدت تک آفت کو دور کردیا جس آفت تک وہ پہنچنے کو تھے تو وہ پھرگئے، اور ہم نے ان کو عذاب میں گرفتار کیا کہ شاید وہ (بدراہ سے) پھر جاویں۔ فرعون والوں نے کہا اے جادو گر ہمارے لیے اپنے پروردگار سے جس طرح کہ اس نے تجھ کو بتایا ہے دعا مانگ بیشک ہم ہدایت پاگئے ہیں موسیٰ نے کہا اے ہمارے پروردگار تونے فرعون کو اور اس کے درباریوں کو تحمل اور دولت دینا کی زندگی میں دی ہے ، اے ہمارے پروردگار کیا اس لیے کہ تیرے رستہ سے گمراہ کریں، اے پروردگار ہمارے ستیاناسی ڈال ان کے مالوں پر اور سختی ڈال ان کے دلوں پر پھر وہ نہیں ایمان لاوینگے جب تک کہ دکھ دینے والا عذاب نہ دیکھے گے ، خدا نے کہا کہ تم دونوں کی دعا قبول کی گئی پھر مستصل رہو اور ان کی راہ مت چلو جو نہیں جانتے۔ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا سے مددمانگو اور صبر کرو بیشک یہ زمین خدا کی ہے اس کو اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور آخر کو بھلائی پرہیزگاروں کے لیے ہے ، انھوں نے کہا کہ ہم کو تو تیرے آنے سے پہلے اور تیرے آنے کے بعد اذیت ہی دی گئی ہے موسیٰ نے کہا کہ قریب ہی خدا تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور عنقریب تم کو زمین پر خلیفہ کردے گا پھر دیکھے گا کہ تم کس طرح کرو گے۔
ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ رات کو لے چل میرے بندوں کو چل ان کے لیے سمندر کے سوکھے رستہ میں مت خوف کر پکڑ لیے جانے سے اور ند اور کسی طرح کا ذکر، لے چل میرے بندوں کو رات کو تم (دشمن سے) تعاقب کیے جاؤ گے اور چھوڑ چل سمندر کو ایسی حالت میں کہ اترا ہوا ہے بیشک فرعون کے لوگ ایک لشکر ہے کہ ڈبویا جاویگا۔ چل اپنی لاٹھی کے سہارے سے سمندر میں کہ وہ پھٹا ہوا ہے پھر تھا ہر ایک ٹکڑا بڑی پہاڑ کی مانند اور جب کہ ہم نے تمہارے سبب سے سمندر کو جدا کردیا پھر ہم نے تم کو بچایا اور ہم نے فرعون والوں کو ڈبودیا اور تم دیکھتے تھے۔
” رھوا “ کا ترجمہ شاہ عبدالقادر صاحب نے ” تھم رہا “ کیا ہے اور شاہ رفیع الدین صاحب نے ” خشک “ کیا ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب نے ” آرمیدہ “ اور قاموس میں اس کے معنی لکھے ہیں ” المرتفع والمنخفض مند لبکون “
پھر سورج کے نکلتے ہی فرعون والوں نے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا پھر جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے لوگوں نے کہا کہ اب ہم پکڑے گئے موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں بیشک میرے ساتھ میرا خدا ہے جو ٹھیک رستہ بتاویگا۔ پھر فرعون نے اپنے لشکر سمیت ان کا پیچھا کیا پھر ڈھانک دیا ان کو سمندر میں سے جس نے ان کو ڈھانک لیا اور غلط راہ پر لے گیا فرعون اپنی قوم کو اور ٹھیک رستہ نہ بتایا۔ اور ہم نے پچھلوں کو قریب کردیا اور ہم نے موسیٰ کو اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو بچا دیا پھر ہم نے پچھلوں کو ڈبودیا۔ پھر ہم نے بدلا لیا ان سے اور ہم نے ان کو سمندر میں ڈبودیا اس لیے کہ بےشبہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور اس سے غافل تھے پھر پکڑا ہم نے فرعون کو اور اس کے لشکر کو اور ان کو ہم نے سمندر میں ڈال دیا۔ فرعون چاہتا تھا کہ ان کو زمین سے نکال دے پھر ہم نے اس کو ڈبو دیا اور سب کو جو اس کے ساتھ تھے اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کو کہا کہ رہو اس زمین پر پھر جب آویگا آخرت کا وعدہ تو ہم تم کو لادینگے ملوان۔
ہم نے تم پر چھانوں کی بسر کی اور تم من وسلوٰی اتارا کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تم کو دیں اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا مگر انھوں نے آپ اپنے پر ظلم کیا تھا۔ اور ہم نے تم پر من وسلویٰ اتارا کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تم کو دی ہیں اور اس میں زیادتی مت کرو تاکہ میرا غصہ تم پر نازل ہو اور جس پر میرا غصہ نازل ہو وہ ہلاک ہوا۔ اور جدا کردیئے ہم نے بنی اسرائیل کے اسباط کے بارہ گروہ اور ہم نے موسیٰ پر وحی کی جبکہ اس کی قوم نے پانی مانگا کہ چل اپنی لاٹھی کے سہارے اس چٹان پر اس سے بہتے ہیں ، پھوٹ نکلے ہیں بارہ چشمے ان میں ہر ایک نے اپنا گھاٹ جان لیا کھاؤ اور پیو خدا کے دیئے ہوئے رزق سے اور زمین پر مفسد ہو کرنا فرمانی مت کرو جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کرسکتے پھر اپنے پروردگار سے دعا مانگ کہ ہمارے لیے دو چیزیں نکالے جو زمین اگاتی ہے مکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز اور لہسن موسیٰ نے کہا کیا تم بدلنا چاہتے ہو برے کو بھلے سے جا اترو شہر میں کہ تم ملے گا جو تم مانگتے ہو۔
اور ہم بنی اسرائیل کو دریا سے نکال لے گئے پھر وہ ایک ایسی قوم کے پاس آئے جو اپنے بتوں کی سیوا کرتے تھے بنی اسرائیل نے کہا کہ اے موسیٰ ہمارے لیے بھی ایسے معبود بنا جیسے ان کے معبود ہیں موسیٰ نے کہا کہ بیشک تم جاہل قوم ہو، یہ خراب حالت ہے جس میں یہ لوگ ہیں اور غلط ہے جو یہ کرتے ہیں اور جب ہم نے تم سے کہا کہ داخل ہو اس شہر میں پھر کھاؤ اس میں سے جو چاہو پیٹ بھر کر اور داخل ہو دروازوں میں سجدہ کرتے ہوئے اور کہو کہ ہم معافی چاہتے ہیں بخش دینگے ہم تمہاری سب خطائیں اور نیکی کرنے والوں کو زیادہ دینگے پھر ظالموں نے بات بدل دی اس کے سوا جو ان سے کہی گئی پھر ہم نے ان کی بدکاری کے سبب ان پر آسمان سے آفت بھیجی اور جب موسیٰ ہمارے وقت مقررہ پر آیا اور اس کے پروردگار نے اس سے بات کی تو اس نے کہا کہ تو مجھ پر اپنے تئیں دکھادے تاکہ میں تجھ کو دیکھوں خدا نے کہا کہ تو مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکے گا لیکن تو اس پہاڑ کو دیکھ پھر اگر یہ پہاڑ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو تو مجھ کو دیکھ سکے گا ، پھر جب اس کے پروردگار نے پہاڑ پر تجلی کی تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور موسیٰ بےہوش ہو کر گرا پھر جب ہوش میں آیا تو کہا کہ تو پاک ہے اے اللہ میں توبہ کرتا ہوں تیرے سامنے اور میں پہلا ایمان لانے والا ہوں خدا نے کہا اے موسیٰ میں نے تجھ کو اور لوگوں پر اپنا رسول کرنے اور خود کلام کرنے سے برگزیدہ کیا ہے پھر جو میں تجھ کو دیتا ہوں اس کو لے اور شکر کرنے والوں میں ہو۔ اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم تجھ پر ایمان نہ لاویں گے جب تک کہ علانیہ خدا کو نہ دیکھیں۔ اور موسیٰ نے ہمارے وقت مقررہ پر حاضر ہونے کے لیے اپنی قوم میں سے ستر آدمی چھانٹے پھر تم کو بجلی کی کڑک نے پکڑ لیا اور یہ سب باتیں تم دیکھتے تھے پھر ہم نے تم کو تمہارے مرجانے (بیہوش ہوجانے) کے بعد اٹھایا کہ شاید تم شکر کرو۔ پھر جب ان کو کپکپاہٹ نے پکڑا تو موسیٰ نے کہا اے پروردگار اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان کو اور مجھ کو بھی مارڈالتا۔ اور جب ہم نے تم سے قول لیا اور ہم نے تمہارے اوپر پہاڑ کو بلند کیا کہ مضبوط پکڑو جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اور یاد رکھو جو کچھ اس میں ہے۔۔۔ شاید کہ تم بچ جاؤ۔
اور جب ہم نے ان پر پہاڑ کو اٹھایا گویا کہ وہ سایبان تھا اور انھوں نے گمان کیا کہ وہ ان پر گرے گا مضبوطی سے پکڑو جو ہم نے تم کو دیا ہے۔ ہم نے موسیٰ سے کہا کہ کیوں تو جلدی کرکے چلاآیا اپنی قوم کے پاس سے کہا وہ بھی میرے پیچھے ہیں اور میں تیرے پاس جلدی چلا آیا ہوں تاکہ اے پروردگار تو راضی ہو، اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس رات کا اور ہم نے پورا کیا اس کو دس سے پھر تمام ہوگئی میعاد اس کے پروردگار کی چالیس رات ، اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری قوم میں میرا خلیفہ ہو اور اصلاح کر اور مفسدوں کے طریق کی پیروی مت کر موسیٰ کی قوم نے اس کے بعد اپنے زیور سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں سے آواز نکلتی تھی۔ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ ہم نے تیرے بعد تیری قوم کو فتنہ میں ڈالا اور سامری نے ان کو گمراہ کردیا ۔ پھر سامری نے ان کے لیے بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں آواز نکلتی تھی پھر وہ بولے کہ یہ ہے ہمارا خدا اور موسیٰ کا خدا موسیٰ تو بھول گیا۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ان کی بات کا الٹ کر جواب نہیں دیتا اور نہ ان کے لیے ضرر اور نہ نفع پہنچانے کا مالک ہے، اور پہلے ہی سے ہارون نے ان سے کہا تھا کہ اے قوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ تم اس سے فتنہ میں ڈالے گئے ہو اور بیشک تمہارا پروردگار رحم والا ہے میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو انھوں نے کہا کہ ہم اسی کے سیوا کیا کرینگے جب تک کہ موسیٰ لوٹ کر نہ آوے پھر موسیٰ اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آیا غصہ میں بھرا ہوا افسوس کرتا ہوا موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم نے اس بچھڑے بنانے میں اپنی جانوں پر ظلم کیا توبہ کرو اللہ کے سامنے اور مار ڈالو اپنی جانوں کو یہی تمہارے حق میں تمہارے خدا کے نزدیک بہتر ہے جن لوگوں نے بچھڑا بنایا قریب ہے کہ ان کے پروردگار کا غصہ ان تک پہنچے گا اور ذلت دنیا کی اس زندگی میں۔
موسیٰ نے کہا کہ اے میری قوم کیا تم سے خدا نے وعدہ نہیں کیا تھا اچھا وعدہ اور کیا ایک لمبا زمانہ تم پر گزر گیا تھا بلکہ تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غصہ اترے اس لیے تم نے میرے وعدے کے برخلاف کیا ۔ موسیٰ نے کہا کہ بہت برا کیا تم نے میرے بعد کیا جلدی کی تم نے اپنے پروردگار کے حکم میں اور پھینک دیا الواح توراۃ کو اور اپنے بھائی کے سرکے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اس نے کہا کہ اے میرے ما جائے ان لوگوں نے مجھ کو کمزور جانا تھا اور مجھ کو مارے ڈالتے تھے پھر میرے دشمنوں کو مت خوش کرو اور مت کرو مجھ کو ان ظالم لوگوں کے ساتھ مجھ کو یہ ڈر تھا کہ تو یہ کہے گا تونے تفریق ڈال دی بنی اسرائیل میں اور نہ انتظار کیا تونے میری بات کا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے تو اپنے اختیار سے تیرے وعدہ کے خلاف نہیں کیا بلکہ ہم قوم قبطی کے زیور کا بوجھ اٹھا رہی تھے پھر ہم نے اس کو پھینک دیا اور اس طرح پھینک دیا سامری نے پھر سامری نے بچھڑے کی سورت بنائی جس میں سے آواز نکلتی تھی۔ موسیٰ نے کہا کہ اے سامری تیرا کیا حال ہے اس نے کہا کہ مجھے وہ بات سوجھائے جو ان کو نہیں سوجھائی پھر میں نے پیغمبر کے پاؤں تلے کے نشان کی مٹی لی پھر میں نے بچھڑے میں ڈال دی اور اسی طرح کرتا میرے دل نے مجھے اچھا بتایا موسیٰ نے کہا کہ دور ہو تجھ کو اس دنیا میں یہی سزا ہے کہ تو کہتا رہیگا کہ میرے پاس مت آؤ۔ پھر جب موسیٰ کا غصہ تھما تو اس نے الواح کو اٹھا لیا اور اس میں ان کے لیے ہدایت اور رحمت تھی جو ڈرتے ہیں۔ پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جو لوگ نیکی کرنے والے ہیں ان پر نعمت پوری کرنے کو اور ہر چیز کی تفصیل بتانے کو اور ہدایت اور رحمت کرنے کو کہ شاید وہ اپنی پروردگار سے ملنے پر ایمان لادین اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا اور ان میں سے بارہ سردار کھڑے ہوگئے اور خدا نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم قائم کرتے رہو گے نماز اور تم دیتے رہوگے زکوٰۃ اور تم ایمان لاتے رہو گے میرے رسولوں پر اور تم مدد کرتے رہو گے ان کی اور تم قرض دیتے رہوگے اللہ کو قرض حسنہ۔
جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا تم کو یہ حکم کرتا ہے کہ ذبح کرو بیل کو انھوں نے کہا کہ کیا تو ہم سے ہنسی کرتا ہے موسیٰ نے کہا کہ میں تو اللہ سے پناہ مانگتا ہوں جاہل قوم سے انھوں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے پوچھو کہ ہم کو بتلادے کہ وہ کیسا بیل ہو کہا کہ وہ بیل نہ بوڑھا ہو اور نہ بچہ میانہ سال ان دونوں کے بیچ میں کرو جو تم کو حکم دیا جاتا ہے انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے پوچھ کر بتلادے کیا ہو اس کا رنگ موسیٰ نے کہا کہ خدا کہتا ہے کہ وہ بیل ڈہ ڈہاتے زرد رنگ کا ہو اس کا رنگ خوش کرتا ہو دیکھنے والوں کو انھوں نے کہا کہ پوچھ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے کہ بتلادے وہ کیسا ہے کہ ہم پر بیل مستھ ہوگئے ہیں اور اگر خدا نے چاہا تو ہم ہدایت پاویں گے۔ موسیٰ نے کہا کہ خدا کہتا ہے وہ ایسا بیل ہو جو نہ جوتا ہو کہ زمین کو پھاڑے یا کھیتی کو پانی دے اس کے تمام اعضا مسلم ہوں اور اس میں کوئی دھبہ نہ ہو انھوں نے کہا اب تونے ٹھیک بات بتائی پھر انھوں نے ذبح کیا اور کرتے نہیں لگتے تھے۔
اے لوگو تم اس پاک زمین میں داخل ہو جو خدا نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور مت پھر اپنے پیٹ کے بل پیچھے پھر پلٹو گے نقصان اٹھانے والے انھوں نے کہا اے موسیٰ اس میں تو بہت زبردست قوم رہتی ہے ہم ہرگز اس میں نہیں جائینگے جب تک کہ وہ اس میں سے نہ نکل جاویں جب وہ اس میں سے نکل جاویں گے تب ہم اس میں داخل ہوں گے ان میں سے دو آدمیوں نے کہا جو خدا سے ڈرتے تھے جن پر خدا نے نعمت کی تھی کہ اے لوگو جاگھسو اس قوم کے دروازہ میں جب تم جاگھسو گے تو تم ہی غالب ہوگے اور خدا ہی پر بھروسا کرو اگر تم ایمان والے ہو انھوں نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز اس میں نہیں گھسے گے جب تک کہ وہ اس میں ہیں توجا اور تیرا پروردگار تم دونوں لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں موسیٰ نے کا اے میرے پروردگار مجھ کو اختیار نہیں مگر اپنی جان پر اور اپنے بھائی پر پھر ہم میں اور اس بدکار قوم میں فرق کر خدا نے فرمایا کہ وہ حرام کردی گئی ہے ان پر چالیس برس تک وہ ٹکراتے پھرینگے زمین میں اور تو رنج مت کر اس بدکار قوم پر۔ یہ غلطی کی ہے جو یہ سمجھے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے دریائے نیل سے عبور کیا تھا یہ بالکل غلط ہے، بلکہ انھوں نے بحراحمد کی ایک شاخ سے عبور کیا تھا۔ تمام مفسرین حضرت موسیٰ کے عبور اور فرعون کے غرق ہونے کو بطور ایک ایسے معجزے کے قرار دیتے ہیں جو خلاف قانون قدرت واقع ہوا ہو جس کو انگریزی میں، سپر نیچرل، کہتے ہیں
اور یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سمندر پر اپنی لاٹھی ماری وہ پھٹ گیا اور پانی مثل دیوار یا پہاڑ کے ادھر ادھر کھڑا ہوگیا اور پانی نے بیچ میں خشک رستہ چھوڑ دیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تمام بنی اسرائیل اس رستہ سے پار اتر گئے فرعون بھی اسی رستہ میں دوڑ پڑا اور پھر سمندر مل گیا اور سب ڈوب گئے، اگر درحقیقت یہ واقع خلاف قانون قدرت واقع ہوا تھا تو خدا تعالیٰ سمندر کے پانی ہی کو ایسا سخت کردیتا کہ مثل زمین کے اس پر سے چلے جاتے، خشک رستہ نکالنے ہی سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ یہ واقعہ یا معجزہ جو اس کو تعبیر کرو مطابق قانون قدرت کے واقعہ ہوا تھا ۔ جو مطلب مفسرین نے بیان کیا ہے وہ مطلب قرآن مجید کے لفظوں سے بھی نہیں نکلتا۔
سمندر میں راستہ ہوجانے کی نسبت قرآن مجید میں تین جگہ ذکر آیا ہے اول سورة بقرہ میں جہاں فرمایا ہے کہ ” اذفرقنا بکم البحر “ دوم۔ سورة شعرا میں
جہاں فرمایا کہ ” اوحینا الی موسیٰ ان اضرب بعصاک البحر نا نفلق فکان کل فرق کالطودالعظیم “ تیسرے ۔ سورة طہ میں جہا فرمایا ہے کہ فاوحینا الی موسیٰ ان اسر بعبادی فاضرب لھم طریقاً فی البحر بیسبا لا تخف در کا دلا تخشی فاتبعہم فرعون بجنودہ فغشیہم من الیم ما غشیہم، پہلی آیت میں تو کوئی لفظ ایسا نہیں ہے۔ جس سے سمندر کے جدا ہوجانے یا پھٹ جانے کو خلاف قانون قدرت قرار دیا جاسکے۔ دوسری آیت میں جو الفاظ ہیں انہی پر تمام مفسرین کا رارومدار ہے وہ ” ان اضرب بعصاک البحر “ کے یہ معنی لیتے ہیں کہ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ سمندر کو اپنی لاٹھی سے مار چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے لاٹھی ماری اور سمندر ہٹ گیا یا پھٹ گیا یا سمندر کی تہ زمین کھل گئی وہ اس جملہ کو اس طرح پر بطور شرط و جزا کے قرار دیتے ہیں کہ شرط گویا علت ہے اور جزا اس کا معلول یعنی لاٹھی مارنے کے سبب سے سمندر پھٹ گیا اور زمین نکل آئی، مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے ” انفلق “ ماضی کا صیغہ ہے اور عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ جب ماضی جزاء میں واقع ہوتی ہے تو اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں اگر ماضی اپنے معنوں پر نہیں رہے
بلکہ شرط کی معلول ہوتی ہے تو اس وقت اس پر ” ف “ لاتے ہیں جیسے کہ اس مثال میں ہے ” ان اکرمتنی فاکرمتک امس “ یعنی اگر تعظیم کرے گا تو میری تو میں تیری تعظیم کل کرچکا ہوں ” اس مثال میں جز (یعنی گزشتہ کل میں تعظیم کا کرنا) شرط کی معلول نہیں ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے ہوچکی تھی، اسی طرح اس آیت میں سمندر کا پھٹ جانا یا زمین کا کھل جانا ضرب کا معلول نہیں ہوسکتا۔