• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 47
فرعون نے کہا کہ تم میری اجازت سے پہلے موسیٰ پر ایمان لے آئے بےشبہ یہ مکر ہے جو تم نے اس شہر میں شہر والوں کے نکالنے کو کیا پھر جلد تم اس کا انجام جانو گے موسیٰ ہی تمہارا اگر وہ ہے جس نے تم کو یہ سکھایا ہے ضرور میں تمہارے ہاتھ ایک طرف کے اور تمہارے پاؤں دوسری طرف کے کاٹوں گا اور تم کو کھجوروں کے درختوں کی ٹہنوں کی سولی پر چڑھا دونگا اور بلاشبہ تم جانو گے کہ کہ کون سب سے زیادہ عذاب دینے میں سخت ہے اور کس کا عذاب زیادہ پائیدار ہے ، وہ بولے کہ جو چیزیں علانیہ ہمارے سامنے ہوئی ہیں ان پر اور اس پر جس نے ہم کو پیدا کیا ہے تجھ کو ہم ترجیح نہیں دے سکتے پھر جو تو حکم دینا چاہتا ہے حکم دے ، تو ہم پر بجز اس کے کہ ہم اپنے پروردگار کی نشانیوں پر ایمان لائے ہیں اور کوئی گناہ نہیں ٹھہراتا، اے ہمارے پروردگار جب (یہ مصیبتیں) ہم پر اویں تو ہمارے (دل میں) صبر ڈال دے اور ہم کو مسلمان مار۔
اور بلاشبہ ہم نے فرعون والوں کو قحطوں میں اور پھلوں کی کم پیداوار میں گرفتار کیا شاید کہ وہ نصیحت پکڑیں پھر جب ان کو فراخی ہوتی تھی تو کہتے تھے کہ یہ تو ہمارے لیے ہے، اور جب ان پر سختی پڑتی تھی تو مموسیٰ کی اور اس کے ساتھ کے لوگوں کی نحوست بتلاتے تھے ، سمجھو کہ اس کے سوا کوئی بات نہیں کہ جو نحوست اس کے لیے تھی وہ خدا کے پاس سے تھی مگر ان میں کے بہت سے لوگ نہیں جانتے، فرعون والوں نے موسیٰ سے کہا کہ جو نشانیاں تم لاؤ گے تاکہ ہم پر تم جادو کرو تو ہم تجھ پر ایمان نہیں لانے کے، پھر ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی دل اور جوئیں اور مینڈک اور خون کا (مینہ) نازل کیا جدا جدا نشانیاں پھر انھوں نے تکبر کیا اور وہ گناہ گار قوم تھی۔ جب ان کے پاس دکھائی دیتی ہوئی ہماری نشانیاں آئیں تو بولے کہ یہ کھلا ہوا جادو ہے اور ان نشانیوں کا انکار کیا، اور البتہ ہم نے فرعون کو اپنی تمام نشانیاں دکھلائیں پھر اس نے جھٹلایا اور انکار کیا، اور جب موسیٰ ان کے پاس ہماری نشانیاں لے کر آیا تو بولے کہ یہ بجز بٹنگر بنائے ہوئے جادو کے اور کچھ نہیں ہے اور ہم نے اپنے اگلے پر کبھی ایسی بات نہیں سنی، موسیٰ نے کہا کہ میرا پروردگار جانتا ہے کہ کون اس کے پاس سے ہدایت لے کر آیا ہے اور کس کے لیے پیچھے کو اس گھرز یعنی عاقبت کی بھلائی ہوگی ، فرعون والے بولے کہ کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم کو اس بالتے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ہٹادی اور تم دونوں کو دنیا میں بڑائی ہو اور ہم تم دونوں کو نہیں مانتے ہیں فرعون نے کہا کہ میں تمہارے لیے سو اسے اپنے کوئی خدا نہیں جانتا پھر اسے ہامان میرے لیے مٹی کی اینٹیں آگ میں پکا اور میرے لیے اونچا محل بنا تاکہ میں موسیٰ کے خدا کے پاس چڑھ جاؤں اور میں تو اس کو جھوٹوں میں سمجھتا ہوں۔ اور آیا فرعون کی قوم کے پاس ایک بزرگ پیغمبر (یعنی موسیٰ ) یہ کہتا ہوا کہ میرے حوالے کردو خدا کے بندوں کو بیشک میں تمہارے لیے خدا کا بھیجا ہوا امانت دار پیغمبر ہوں اور تم خدا پر سرکشی مت کرو ۔ میں ضرور تمہارے سامنے کھلی دلیلیں لاتا ہوں اور بےشبہ مینے اپنے پروردگار اور تمہارے پروردگار کی اس بات سے کہ تم مجھ کو سنگسار کرو پناہ مانگی ہے اور اگر تم مجھ کو نہیں مانتے تو مجھ سے جدا ہوجاؤ، پھر جب موسیٰ ان کے پاس ہمارے پاس سے حق بات لے کر آیا تو بولے کہ ان لوگوں کے بیٹوں کو مار ڈالو جو اس پر ایمان لائے ہیں اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دو حالانکہ کافروں کی مکاری بجز گمراہی کے اور کچھ نہیں اور فرعون نے کہا مجھ کو چھوڑوں یعنی اجازت دو کہ میں موسیٰ کو مار ڈالوں اور وہ اپنے پروردگار کو پکارا ہی کرے بلاشبہ مجھے خوف ہے کہ تمہارا دین بدل دے اور ملک میں فساد برپا کرے اور فرعون والوں میں سے ایک مسلمان شخص نے جو اپنی ایمان کو چھپاتا تھا کہا کہ کیا تم ایسے شخص کو مار ڈالو گے جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی نشانیاں لایا ہے اور اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اس پر ہے اور اگر وہ سچا ہو تو تم کو بعضی وہ مصیبتیں پہنچی جن کا وہ وعدہ کرتا ہے ہرگز خدا اس شخص کو جو حد سے تجاوز کرنے والا دردغگو ہو ہدایت نہیں کرتا، اے میری قوم آج کے دن تمہاری بادشاہت ہے دنیا پر غالب ہو پھر خدا کے عذاب سے اگر وہ ہم پر آجاوے کون ہم کو مدد دے گا فرعون نے کہا کہ میں تم کو بجزگ اس کے جو میں دیکھتا یا سمجھتا ہوں اور کچھ نہیں سمجھاتا اور میں تم کو بجز راہ راست کے اور کچھ نہیں بتاتا، اس شخص نے جو ایمان لے آیا تھا کہا کہ اے میری قوم بیشک میں تم پر ایسے دن کا جو اگلے گروہوں پر گزرا ہے خوف کرتا ہوں جیسی قوم نوح اور عاد اور ثمود اور ان کی جو ان کے بعد ہوئیں حالت ہوئی اور خدا بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ نہیں کرتا اے میری قوم بیشک میں تم پر چل چلا ہٹ پڑنے کے دن کا خوف کرتا ہوں۔ اس دن کہ تم اوندھے منہ پیٹھ پھیر کر پھروگے کوئی تم کو خدا سے بچانے والا نہ ہوگا۔ اور جس کو خدا گمراہ کرتا ہے اس کو کوئی راہ بتانے والا نہیں ہوتا البتہ تمہارے پاس اس سے پہلے کھلی ہوئی نشانیاں لے کر یوسف آیا پھر تم ہمیشہ اس بات میں جو وہ تمہارے پاس لایا تھا شبہ میں ہے یہاں تک کہ جب وہ مرگیا تو تم نے کہا کہ ہرگز نہیں بھیجنے کا اللہ اس کے بعد کسی کو پیغمبر کو۔
فرعون نے کہا اے ہامان میرے لیے ایک محل بنا تاکہ میں رستوں تک آسمانوں کے رستوں تک پہنچ جاؤں پھر موسیٰ کے خدا کے پاس چڑھ جاؤں اور میں تو اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں اور اسی طرح فرعون کے لیے اس کے بدعمل بھڑکے کیے گئے تھے اور سیدھے رستہ روک دیا گیا تھا اور فرعون کے بجز تباہی کے اور کچھ نہ تھے۔
قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا پھر ان سے پھر گیا اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیئے تھے کہ اس کی کنجیاں ایک قوی گروہ پر بھی بھاری تھیں، جب اس کی قوم نے اس سے کہا کہ مت اترا کہ خدا اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور جو کچھ خدا نے تجھ کو دیا ہے اس میں آخرت کو ڈھونڈ اور اپنے حصہ کو دنیا میں سے مت بھول اور احسان کر جس طرح کہ خدا نے تجھ پر احسان کیا ہے اور دنیا میں فساد مت مچا کہ اللہ تعالیٰ مفسدوں کو دوست نہیں رکھتا۔ اس نے کہا کہ مجھ کو یہ دولت صرف میری دانائی کے سبب دی گئی ہے۔ کیا وہ یہ نہ سمجھا کہ بےشبہ خدا نے کسی زمانہ میں اس سے پہلے ان کو ہلاک کردیا جو اس سے بھی زیادہ قوی اور زیادہ دولت والے تھے اور کیا گناہ گار اپنے گناہوں پر پوچھے نہ جاوینگے پھر قارون اپنی قوم کے سامنے تحمل سے نکلا جو لوگ دنیا ہی کی زندگی کو چاہتے تھے انھوں نے کہا کہ کاش ہمارے پاس بھی وہ کچھ ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے بیشک وہی بڑا صاحب نصیب ہے، اور جن لوگوں کو دانش دی گئی تھی انھوں نے کہا کہ افسوس تم پر، خدا کا ثواب ان کے لیے جو ایمان لائے ہیں اور اچھے کام کیے ہیں بہت اچھا ہے اور وہ بجز صبر کرنے والوں کے اور کسی کو نہیں ملتا، پھر ہم نے قارون کو اس کے گھر سمیت زمین میں دھنسا دیا پھر کوئی گروہ خدا کے سوا اس کے لیے تھی جو اس کی مدد کرے اور نہ وہ اپنی آپ مدد کرسکتا تھا اور جن لوگوں نے کل اس کے مرتبہ کی تمنا کی تھی انھوں نے یہ کہتے ہوئے صبح کی اوہو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کو فراخ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کرتا ہے اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو ہم کو دھنسا دیتا، اوہو، وہ نہیں فلاح پہنچاتا کافروں کو۔
اور فرعون نے اپنے لوگوں میں پکارکر کہا کہ اے لوگو کیا میرے پاس مصر کا ملک نہیں ہے اور یہ نہریں جو میرے ملک کے نیچے بہتی ہیں پھر کیا تم نہیں دیکھتے ہو آیا میں اچھا ہوں اس شخص سے جو ذلیل ہے اور نہیں بیان کرسکتا کہ کیوں نہ اس پر ڈالے گئے سونے کے کنگن اور کیوں اس کے ساتھ فرشتے ساتھ رہنے کو آئے۔ اور جب فرعون والوں پر آفت پڑی تو بولے اسے موسیٰ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے جس طرح اس نے تجھ کو بتایا ہے دعا مانگ اگر ہم پر سے آفت جاتی رہی تو ہم تجھ پر ضرور ایمان لاوینگے اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دینگے، پھر جب ہم نے ان پر سے ایک مدت تک آفت کو دور کردیا جس آفت تک وہ پہنچنے کو تھے تو وہ پھرگئے، اور ہم نے ان کو عذاب میں گرفتار کیا کہ شاید وہ (بدراہ سے) پھر جاویں۔ فرعون والوں نے کہا اے جادو گر ہمارے لیے اپنے پروردگار سے جس طرح کہ اس نے تجھ کو بتایا ہے دعا مانگ بیشک ہم ہدایت پاگئے ہیں موسیٰ نے کہا اے ہمارے پروردگار تونے فرعون کو اور اس کے درباریوں کو تحمل اور دولت دینا کی زندگی میں دی ہے ، اے ہمارے پروردگار کیا اس لیے کہ تیرے رستہ سے گمراہ کریں، اے پروردگار ہمارے ستیاناسی ڈال ان کے مالوں پر اور سختی ڈال ان کے دلوں پر پھر وہ نہیں ایمان لاوینگے جب تک کہ دکھ دینے والا عذاب نہ دیکھے گے ، خدا نے کہا کہ تم دونوں کی دعا قبول کی گئی پھر مستصل رہو اور ان کی راہ مت چلو جو نہیں جانتے۔ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا سے مددمانگو اور صبر کرو بیشک یہ زمین خدا کی ہے اس کو اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور آخر کو بھلائی پرہیزگاروں کے لیے ہے ، انھوں نے کہا کہ ہم کو تو تیرے آنے سے پہلے اور تیرے آنے کے بعد اذیت ہی دی گئی ہے موسیٰ نے کہا کہ قریب ہی خدا تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور عنقریب تم کو زمین پر خلیفہ کردے گا پھر دیکھے گا کہ تم کس طرح کرو گے۔
ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ رات کو لے چل میرے بندوں کو چل ان کے لیے سمندر کے سوکھے رستہ میں مت خوف کر پکڑ لیے جانے سے اور ند اور کسی طرح کا ذکر، لے چل میرے بندوں کو رات کو تم (دشمن سے) تعاقب کیے جاؤ گے اور چھوڑ چل سمندر کو ایسی حالت میں کہ اترا ہوا ہے بیشک فرعون کے لوگ ایک لشکر ہے کہ ڈبویا جاویگا۔ چل اپنی لاٹھی کے سہارے سے سمندر میں کہ وہ پھٹا ہوا ہے پھر تھا ہر ایک ٹکڑا بڑی پہاڑ کی مانند اور جب کہ ہم نے تمہارے سبب سے سمندر کو جدا کردیا پھر ہم نے تم کو بچایا اور ہم نے فرعون والوں کو ڈبودیا اور تم دیکھتے تھے۔
” رھوا “ کا ترجمہ شاہ عبدالقادر صاحب نے ” تھم رہا “ کیا ہے اور شاہ رفیع الدین صاحب نے ” خشک “ کیا ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب نے ” آرمیدہ “ اور قاموس میں اس کے معنی لکھے ہیں ” المرتفع والمنخفض مند لبکون “
پھر سورج کے نکلتے ہی فرعون والوں نے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا پھر جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے لوگوں نے کہا کہ اب ہم پکڑے گئے موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں بیشک میرے ساتھ میرا خدا ہے جو ٹھیک رستہ بتاویگا۔ پھر فرعون نے اپنے لشکر سمیت ان کا پیچھا کیا پھر ڈھانک دیا ان کو سمندر میں سے جس نے ان کو ڈھانک لیا اور غلط راہ پر لے گیا فرعون اپنی قوم کو اور ٹھیک رستہ نہ بتایا۔ اور ہم نے پچھلوں کو قریب کردیا اور ہم نے موسیٰ کو اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو بچا دیا پھر ہم نے پچھلوں کو ڈبودیا۔ پھر ہم نے بدلا لیا ان سے اور ہم نے ان کو سمندر میں ڈبودیا اس لیے کہ بےشبہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور اس سے غافل تھے پھر پکڑا ہم نے فرعون کو اور اس کے لشکر کو اور ان کو ہم نے سمندر میں ڈال دیا۔ فرعون چاہتا تھا کہ ان کو زمین سے نکال دے پھر ہم نے اس کو ڈبو دیا اور سب کو جو اس کے ساتھ تھے اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کو کہا کہ رہو اس زمین پر پھر جب آویگا آخرت کا وعدہ تو ہم تم کو لادینگے ملوان۔
ہم نے تم پر چھانوں کی بسر کی اور تم من وسلوٰی اتارا کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تم کو دیں اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا مگر انھوں نے آپ اپنے پر ظلم کیا تھا۔ اور ہم نے تم پر من وسلویٰ اتارا کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تم کو دی ہیں اور اس میں زیادتی مت کرو تاکہ میرا غصہ تم پر نازل ہو اور جس پر میرا غصہ نازل ہو وہ ہلاک ہوا۔ اور جدا کردیئے ہم نے بنی اسرائیل کے اسباط کے بارہ گروہ اور ہم نے موسیٰ پر وحی کی جبکہ اس کی قوم نے پانی مانگا کہ چل اپنی لاٹھی کے سہارے اس چٹان پر اس سے بہتے ہیں ، پھوٹ نکلے ہیں بارہ چشمے ان میں ہر ایک نے اپنا گھاٹ جان لیا کھاؤ اور پیو خدا کے دیئے ہوئے رزق سے اور زمین پر مفسد ہو کرنا فرمانی مت کرو جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کرسکتے پھر اپنے پروردگار سے دعا مانگ کہ ہمارے لیے دو چیزیں نکالے جو زمین اگاتی ہے مکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز اور لہسن موسیٰ نے کہا کیا تم بدلنا چاہتے ہو برے کو بھلے سے جا اترو شہر میں کہ تم ملے گا جو تم مانگتے ہو۔
اور ہم بنی اسرائیل کو دریا سے نکال لے گئے پھر وہ ایک ایسی قوم کے پاس آئے جو اپنے بتوں کی سیوا کرتے تھے بنی اسرائیل نے کہا کہ اے موسیٰ ہمارے لیے بھی ایسے معبود بنا جیسے ان کے معبود ہیں موسیٰ نے کہا کہ بیشک تم جاہل قوم ہو، یہ خراب حالت ہے جس میں یہ لوگ ہیں اور غلط ہے جو یہ کرتے ہیں اور جب ہم نے تم سے کہا کہ داخل ہو اس شہر میں پھر کھاؤ اس میں سے جو چاہو پیٹ بھر کر اور داخل ہو دروازوں میں سجدہ کرتے ہوئے اور کہو کہ ہم معافی چاہتے ہیں بخش دینگے ہم تمہاری سب خطائیں اور نیکی کرنے والوں کو زیادہ دینگے پھر ظالموں نے بات بدل دی اس کے سوا جو ان سے کہی گئی پھر ہم نے ان کی بدکاری کے سبب ان پر آسمان سے آفت بھیجی اور جب موسیٰ ہمارے وقت مقررہ پر آیا اور اس کے پروردگار نے اس سے بات کی تو اس نے کہا کہ تو مجھ پر اپنے تئیں دکھادے تاکہ میں تجھ کو دیکھوں خدا نے کہا کہ تو مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکے گا لیکن تو اس پہاڑ کو دیکھ پھر اگر یہ پہاڑ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو تو مجھ کو دیکھ سکے گا ، پھر جب اس کے پروردگار نے پہاڑ پر تجلی کی تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور موسیٰ بےہوش ہو کر گرا پھر جب ہوش میں آیا تو کہا کہ تو پاک ہے اے اللہ میں توبہ کرتا ہوں تیرے سامنے اور میں پہلا ایمان لانے والا ہوں خدا نے کہا اے موسیٰ میں نے تجھ کو اور لوگوں پر اپنا رسول کرنے اور خود کلام کرنے سے برگزیدہ کیا ہے پھر جو میں تجھ کو دیتا ہوں اس کو لے اور شکر کرنے والوں میں ہو۔ اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم تجھ پر ایمان نہ لاویں گے جب تک کہ علانیہ خدا کو نہ دیکھیں۔ اور موسیٰ نے ہمارے وقت مقررہ پر حاضر ہونے کے لیے اپنی قوم میں سے ستر آدمی چھانٹے پھر تم کو بجلی کی کڑک نے پکڑ لیا اور یہ سب باتیں تم دیکھتے تھے پھر ہم نے تم کو تمہارے مرجانے (بیہوش ہوجانے) کے بعد اٹھایا کہ شاید تم شکر کرو۔ پھر جب ان کو کپکپاہٹ نے پکڑا تو موسیٰ نے کہا اے پروردگار اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان کو اور مجھ کو بھی مارڈالتا۔ اور جب ہم نے تم سے قول لیا اور ہم نے تمہارے اوپر پہاڑ کو بلند کیا کہ مضبوط پکڑو جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اور یاد رکھو جو کچھ اس میں ہے۔۔۔ شاید کہ تم بچ جاؤ۔
اور جب ہم نے ان پر پہاڑ کو اٹھایا گویا کہ وہ سایبان تھا اور انھوں نے گمان کیا کہ وہ ان پر گرے گا مضبوطی سے پکڑو جو ہم نے تم کو دیا ہے۔ ہم نے موسیٰ سے کہا کہ کیوں تو جلدی کرکے چلاآیا اپنی قوم کے پاس سے کہا وہ بھی میرے پیچھے ہیں اور میں تیرے پاس جلدی چلا آیا ہوں تاکہ اے پروردگار تو راضی ہو، اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس رات کا اور ہم نے پورا کیا اس کو دس سے پھر تمام ہوگئی میعاد اس کے پروردگار کی چالیس رات ، اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری قوم میں میرا خلیفہ ہو اور اصلاح کر اور مفسدوں کے طریق کی پیروی مت کر موسیٰ کی قوم نے اس کے بعد اپنے زیور سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں سے آواز نکلتی تھی۔ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ ہم نے تیرے بعد تیری قوم کو فتنہ میں ڈالا اور سامری نے ان کو گمراہ کردیا ۔ پھر سامری نے ان کے لیے بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں آواز نکلتی تھی پھر وہ بولے کہ یہ ہے ہمارا خدا اور موسیٰ کا خدا موسیٰ تو بھول گیا۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ان کی بات کا الٹ کر جواب نہیں دیتا اور نہ ان کے لیے ضرر اور نہ نفع پہنچانے کا مالک ہے، اور پہلے ہی سے ہارون نے ان سے کہا تھا کہ اے قوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ تم اس سے فتنہ میں ڈالے گئے ہو اور بیشک تمہارا پروردگار رحم والا ہے میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو انھوں نے کہا کہ ہم اسی کے سیوا کیا کرینگے جب تک کہ موسیٰ لوٹ کر نہ آوے پھر موسیٰ اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آیا غصہ میں بھرا ہوا افسوس کرتا ہوا موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم نے اس بچھڑے بنانے میں اپنی جانوں پر ظلم کیا توبہ کرو اللہ کے سامنے اور مار ڈالو اپنی جانوں کو یہی تمہارے حق میں تمہارے خدا کے نزدیک بہتر ہے جن لوگوں نے بچھڑا بنایا قریب ہے کہ ان کے پروردگار کا غصہ ان تک پہنچے گا اور ذلت دنیا کی اس زندگی میں۔
موسیٰ نے کہا کہ اے میری قوم کیا تم سے خدا نے وعدہ نہیں کیا تھا اچھا وعدہ اور کیا ایک لمبا زمانہ تم پر گزر گیا تھا بلکہ تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غصہ اترے اس لیے تم نے میرے وعدے کے برخلاف کیا ۔ موسیٰ نے کہا کہ بہت برا کیا تم نے میرے بعد کیا جلدی کی تم نے اپنے پروردگار کے حکم میں اور پھینک دیا الواح توراۃ کو اور اپنے بھائی کے سرکے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اس نے کہا کہ اے میرے ما جائے ان لوگوں نے مجھ کو کمزور جانا تھا اور مجھ کو مارے ڈالتے تھے پھر میرے دشمنوں کو مت خوش کرو اور مت کرو مجھ کو ان ظالم لوگوں کے ساتھ مجھ کو یہ ڈر تھا کہ تو یہ کہے گا تونے تفریق ڈال دی بنی اسرائیل میں اور نہ انتظار کیا تونے میری بات کا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے تو اپنے اختیار سے تیرے وعدہ کے خلاف نہیں کیا بلکہ ہم قوم قبطی کے زیور کا بوجھ اٹھا رہی تھے پھر ہم نے اس کو پھینک دیا اور اس طرح پھینک دیا سامری نے پھر سامری نے بچھڑے کی سورت بنائی جس میں سے آواز نکلتی تھی۔ موسیٰ نے کہا کہ اے سامری تیرا کیا حال ہے اس نے کہا کہ مجھے وہ بات سوجھائے جو ان کو نہیں سوجھائی پھر میں نے پیغمبر کے پاؤں تلے کے نشان کی مٹی لی پھر میں نے بچھڑے میں ڈال دی اور اسی طرح کرتا میرے دل نے مجھے اچھا بتایا موسیٰ نے کہا کہ دور ہو تجھ کو اس دنیا میں یہی سزا ہے کہ تو کہتا رہیگا کہ میرے پاس مت آؤ۔ پھر جب موسیٰ کا غصہ تھما تو اس نے الواح کو اٹھا لیا اور اس میں ان کے لیے ہدایت اور رحمت تھی جو ڈرتے ہیں۔ پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جو لوگ نیکی کرنے والے ہیں ان پر نعمت پوری کرنے کو اور ہر چیز کی تفصیل بتانے کو اور ہدایت اور رحمت کرنے کو کہ شاید وہ اپنی پروردگار سے ملنے پر ایمان لادین اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا اور ان میں سے بارہ سردار کھڑے ہوگئے اور خدا نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم قائم کرتے رہو گے نماز اور تم دیتے رہوگے زکوٰۃ اور تم ایمان لاتے رہو گے میرے رسولوں پر اور تم مدد کرتے رہو گے ان کی اور تم قرض دیتے رہوگے اللہ کو قرض حسنہ۔
جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا تم کو یہ حکم کرتا ہے کہ ذبح کرو بیل کو انھوں نے کہا کہ کیا تو ہم سے ہنسی کرتا ہے موسیٰ نے کہا کہ میں تو اللہ سے پناہ مانگتا ہوں جاہل قوم سے انھوں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے پوچھو کہ ہم کو بتلادے کہ وہ کیسا بیل ہو کہا کہ وہ بیل نہ بوڑھا ہو اور نہ بچہ میانہ سال ان دونوں کے بیچ میں کرو جو تم کو حکم دیا جاتا ہے انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے پوچھ کر بتلادے کیا ہو اس کا رنگ موسیٰ نے کہا کہ خدا کہتا ہے کہ وہ بیل ڈہ ڈہاتے زرد رنگ کا ہو اس کا رنگ خوش کرتا ہو دیکھنے والوں کو انھوں نے کہا کہ پوچھ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے کہ بتلادے وہ کیسا ہے کہ ہم پر بیل مستھ ہوگئے ہیں اور اگر خدا نے چاہا تو ہم ہدایت پاویں گے۔ موسیٰ نے کہا کہ خدا کہتا ہے وہ ایسا بیل ہو جو نہ جوتا ہو کہ زمین کو پھاڑے یا کھیتی کو پانی دے اس کے تمام اعضا مسلم ہوں اور اس میں کوئی دھبہ نہ ہو انھوں نے کہا اب تونے ٹھیک بات بتائی پھر انھوں نے ذبح کیا اور کرتے نہیں لگتے تھے۔
اے لوگو تم اس پاک زمین میں داخل ہو جو خدا نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور مت پھر اپنے پیٹ کے بل پیچھے پھر پلٹو گے نقصان اٹھانے والے انھوں نے کہا اے موسیٰ اس میں تو بہت زبردست قوم رہتی ہے ہم ہرگز اس میں نہیں جائینگے جب تک کہ وہ اس میں سے نہ نکل جاویں جب وہ اس میں سے نکل جاویں گے تب ہم اس میں داخل ہوں گے ان میں سے دو آدمیوں نے کہا جو خدا سے ڈرتے تھے جن پر خدا نے نعمت کی تھی کہ اے لوگو جاگھسو اس قوم کے دروازہ میں جب تم جاگھسو گے تو تم ہی غالب ہوگے اور خدا ہی پر بھروسا کرو اگر تم ایمان والے ہو انھوں نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز اس میں نہیں گھسے گے جب تک کہ وہ اس میں ہیں توجا اور تیرا پروردگار تم دونوں لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں موسیٰ نے کا اے میرے پروردگار مجھ کو اختیار نہیں مگر اپنی جان پر اور اپنے بھائی پر پھر ہم میں اور اس بدکار قوم میں فرق کر خدا نے فرمایا کہ وہ حرام کردی گئی ہے ان پر چالیس برس تک وہ ٹکراتے پھرینگے زمین میں اور تو رنج مت کر اس بدکار قوم پر۔ یہ غلطی کی ہے جو یہ سمجھے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے دریائے نیل سے عبور کیا تھا یہ بالکل غلط ہے، بلکہ انھوں نے بحراحمد کی ایک شاخ سے عبور کیا تھا۔ تمام مفسرین حضرت موسیٰ کے عبور اور فرعون کے غرق ہونے کو بطور ایک ایسے معجزے کے قرار دیتے ہیں جو خلاف قانون قدرت واقع ہوا ہو جس کو انگریزی میں، سپر نیچرل، کہتے ہیں
اور یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سمندر پر اپنی لاٹھی ماری وہ پھٹ گیا اور پانی مثل دیوار یا پہاڑ کے ادھر ادھر کھڑا ہوگیا اور پانی نے بیچ میں خشک رستہ چھوڑ دیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تمام بنی اسرائیل اس رستہ سے پار اتر گئے فرعون بھی اسی رستہ میں دوڑ پڑا اور پھر سمندر مل گیا اور سب ڈوب گئے، اگر درحقیقت یہ واقع خلاف قانون قدرت واقع ہوا تھا تو خدا تعالیٰ سمندر کے پانی ہی کو ایسا سخت کردیتا کہ مثل زمین کے اس پر سے چلے جاتے، خشک رستہ نکالنے ہی سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ یہ واقعہ یا معجزہ جو اس کو تعبیر کرو مطابق قانون قدرت کے واقعہ ہوا تھا ۔ جو مطلب مفسرین نے بیان کیا ہے وہ مطلب قرآن مجید کے لفظوں سے بھی نہیں نکلتا۔
سمندر میں راستہ ہوجانے کی نسبت قرآن مجید میں تین جگہ ذکر آیا ہے اول سورة بقرہ میں جہاں فرمایا ہے کہ ” اذفرقنا بکم البحر “ دوم۔ سورة شعرا میں
جہاں فرمایا کہ ” اوحینا الی موسیٰ ان اضرب بعصاک البحر نا نفلق فکان کل فرق کالطودالعظیم “ تیسرے ۔ سورة طہ میں جہا فرمایا ہے کہ فاوحینا الی موسیٰ ان اسر بعبادی فاضرب لھم طریقاً فی البحر بیسبا لا تخف در کا دلا تخشی فاتبعہم فرعون بجنودہ فغشیہم من الیم ما غشیہم، پہلی آیت میں تو کوئی لفظ ایسا نہیں ہے۔ جس سے سمندر کے جدا ہوجانے یا پھٹ جانے کو خلاف قانون قدرت قرار دیا جاسکے۔ دوسری آیت میں جو الفاظ ہیں انہی پر تمام مفسرین کا رارومدار ہے وہ ” ان اضرب بعصاک البحر “ کے یہ معنی لیتے ہیں کہ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ سمندر کو اپنی لاٹھی سے مار چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے لاٹھی ماری اور سمندر ہٹ گیا یا پھٹ گیا یا سمندر کی تہ زمین کھل گئی وہ اس جملہ کو اس طرح پر بطور شرط و جزا کے قرار دیتے ہیں کہ شرط گویا علت ہے اور جزا اس کا معلول یعنی لاٹھی مارنے کے سبب سے سمندر پھٹ گیا اور زمین نکل آئی، مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے ” انفلق “ ماضی کا صیغہ ہے اور عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ جب ماضی جزاء میں واقع ہوتی ہے تو اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں اگر ماضی اپنے معنوں پر نہیں رہے
بلکہ شرط کی معلول ہوتی ہے تو اس وقت اس پر ” ف “ لاتے ہیں جیسے کہ اس مثال میں ہے ” ان اکرمتنی فاکرمتک امس “ یعنی اگر تعظیم کرے گا تو میری تو میں تیری تعظیم کل کرچکا ہوں ” اس مثال میں جز (یعنی گزشتہ کل میں تعظیم کا کرنا) شرط کی معلول نہیں ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے ہوچکی تھی، اسی طرح اس آیت میں سمندر کا پھٹ جانا یا زمین کا کھل جانا ضرب کا معلول نہیں ہوسکتا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 54

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اِنَّکُمۡ ظَلَمۡتُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ بِاتِّخَاذِکُمُ الۡعِجۡلَ فَتُوۡبُوۡۤا اِلٰی بَارِئِکُمۡ فَاقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ عِنۡدَ بَارِئِکُمۡ ؕ فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۵۴﴾

تفسیر سرسید :

( عجل) بچھڑا بنانے کا واقعہ اس وقت ہوا تھا، جبکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن رات پہاڑ پر جاکر رہے تھے ، بنی اسرائیل نے بچپن سے مصریوں میں پرورش پائی تھی، اور دیکھا کرتے تھے کہ وہ ساری قوم بتوں کی اور جانوروں کی پرستش کرتی تھی ، مصری بندر اور سانپ اور بیل اور بہت قسم کے جانوروں کی پوجا کیا کرتے تھے، جب بنی اسرائیل سمندر کے پار ہوئے تو وہاں بھی انھوں نے بتوں کی پرستش کرتے ہوئے لوگوں کو پایا، اور موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم کو بھی ایسے ہی معبود بنادے (یہ قصہ سورة اعراف میں ہے) گمان غالب ہوتا ہے کہ وہ لوگ بچھڑے ہی کی مورت کی پوجا کیا کرتے ہوں گے ، اور اسی کی نقل پر بنی اسرائیل نے بھی بچھڑے کی مورت بنائی تھی ، جس کے سبب خدا کی خفگی ہوئی۔
(رفاقتلوا) اس آیت سے یہ بات نہیں پائی جاتی کہ بنی اسرائیل میں سے کسی ایک نے بھی اپنے آپ کو مار ڈالا تھا کیونکہ یہ کہنا ” مارڈالو اپنے آپ کو “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قول ہے اور یہ کہنا ایسی طرح کا کہنا ہے، جیسے کوئی بزرگ کسی کو نفرین کرتے وقت کہے کہ ” ڈوب مر ایسا کرنے سے تو تیرا مرجانا بہتر ہے “ پس بنی اسرائیل پر خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے غصہ کے یہ الفاظ ہیں خدا نے ان کو اپنے تئیں آپ مار ڈالنے کا حکم نہیں دیا تھا نہ ان میں سے کسی نے اپنے تئیں آپ مار ڈالا تھا۔ یہ مطلب اس آیت کے پچھلے حصہ سے جس میں معاف کردینے کا ذکر ہے زیادہ تر صاف ہوجاتا ہے ، کیونکہ جن لوگوں نے گوسالہ پرستی کی تھی انہی کی نسبت خدا نے فرمایا ہے کہ ” پھر خدا نے تم کو معاف کیا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 55

وَ اِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ ﴿۵۵﴾

تفسیر سرسید :

( نری اللہ جہرۃ) انسان کے دل میں کسی چیز کے دیکھنے کی خواہش تین طرح پر پیدا ہوتی ہے اس کا حال اور اوصاف سننے سے، یا دل میں کسی خاص قسم کا ذوق و شوق پیدا ہوجانے سے ، یا اس کا حال کہنے والے کی بات پر یقین کرنے سے، موسیٰ کو بھی خدا کے دیکھنے کا شوق ہوا مگر وہ شوق دوسری قسم کا تھا جس کے غلبہ میں انسان کی عقل پر پردہ پڑجاتا ہے، اور ہونی اور انہونی بات کہہ اٹھتا ہے، بنی اسرائیل نے بھی خدا کا دیکھنا چاہا مگر یہ ان کا سوال تیسری قسم کا تھا، وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی اس بات پر کہ خداے پروردگار عالم موجود ہے اور اس نے موسیٰ کو اپنا پیغمبر کیا ہے یقین نہیں لاتے تھے اور اس بنا پر انھوں نے کہا تھا کہ ہمیں خدا کو دکھادے، جب تک ہم علانیہ خدا کو نہ دیکھ لیوینگے تجھ پر ایمان نہ لاوینگے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے شوق کے سبب جس میں انسان کو ذہول ہوجاتا ہے پھول گئے کہ خدا ان آنکھوں سے دکھائی نہیں دے سکتا اور بنی اسرائیل نے اپنی حماقت سے یہ چاہا کہ علانیہ خدا کو ہم دیکھ لیں، اور یہ نہ سمجھے کہ خدا اپنے تئیں کسی کو دکھا سکتا ہے، اور نہ کوئی خدا کو دیکھ سکتا ہے، ہر کوئی اس کی قدرت کا کرشمہ دیکھتا ہے، اور اسی سے اس کی ذات کے موجود ہونے پر یقین لاتا ہے۔
(صاعقۃ) صاعقہ کے معنی لغت میں، موت، کے بھی ہیں اور عذاب مہلک کے بھی ہیں، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس عذاب سے کوئی ہلاک ہوئے بغیر رہے ہی نہیں، اور عذاب یا بلا آنے کی سنسناہٹ اور گڑگڑاہٹ اور کڑک کے معنی بھی آئے ہیں اور بجلی اور آسمان پر سے گرنے والی آگ کے معنی بھی ہیں اور ” صعق “ بکسرالعین کے معنی ہیں ” غشی علیہ “ یعنی بہوش کیا گیا۔
اب دیکھنا چاہیے کہ اس جگہ ” فاخذتکم الضاعقۃ “ کے کیا معنی ہیں ” موت “ کے معنی تو یہاں ہو نہیں سکتے اس لیے کہ ” وانتم تنظرون “ کا مطلب غلط ہوجاتا ہے کیونکہ موت کی نسبت ” وانتم تنظرون “ کا مطلب بھی غلط ہوجاتا ہے کیونکہ موت کی نسبت وانتم تنظرون نہیں کہہ سکتے۔ امام فخرالدین رازی بھی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ یہاں ” صاعقہ “ کے معنی موت کے نہیں ہیں کیونکہ موت کی نسبت ” تنظرون “ نہیں آسکتا اور اس کے سوا خدا نے سورة اعراف میں فرمایا ہے کہ ” وختر موسیٰ صعقا “ اور پھر فرمایا ہے کہ ” فلما افاق “ اور افاقہ موت سے نہیں ہوتا بلکہ غشی سے ہوتا ہے۔ سورة اعراف میں ” صاعقہ “ کی جگہ ” رجفہ “ فرمایا ہے جس کے معنی کپکپاہٹ کے ہیں غرضیکہ اس جگہ ” صاعقہ “ کے معنی موت کے نہیں ہیں بلکہ ٹھیک معنی، گرج ، اور گرگراہٹ کے ہیں خواہ وہ گرج بجلی کی ہو خواہ وہ گرگڑاہٹ بادل کی ہو یا کسی آتشیں پہاڑ کی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جبکہ اسی آیت میں ہے کہ ” ثم بعثنا کم من بعد موتکم “ تو یہ ایک قوی ثبوت اس بات کا ہے کہ یہاں ” صاعقہ “ کے معنی موت کے ہیں۔ مگر مفسرین اور خصوصاً امام فخرالدین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کبھی ” بعث “ کا اطلاق لابعد الموت پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ خدا نے فرمایا ہے کہ ” بعثناوبنا علی اذانھم فی الکھف سنین عدداثم بعثنا کم “ پس ” بعثنا “ کے لفظ سے تو ” صاعقہ “ کے معنی موت کے لینے پر استدلال نہیں ہوسکتا رہا لفظ ” موت “ کا اس کی نسبت مفسرین نے نہایت سہل رستہ اختیار کیا ہے ، جو ہم کو نہایت ہی مشکل اور پیچیدہ معلوم ہوتا ہے انھوں نے فرمایا کہ محققین کا یہ قول ہے کہ ” صاعقہ “ سے مراد تو سبب موت ہے اور موت کے معنی موت ہی کے ہیں، خدا نے ان لوگوں کو جو خدا کو دیکھنے گئے تھے صاعقہ سے جو سبب ان کی موت کا ہوا مار ڈالا ، اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے اور گڑگڑا کر یہ کہنے سے ، کہ یہ تو ستر کے ستر مرگئے اب بنی اسرائیل کو میں کیا جواب دونگا، اور میری نبوت کی گواہی کون دے گا، خدا نے ان کو پھر زندہ کردیا۔
مگر میری سمجھ میں خدا سے پاک کا کلام ایسا بودا نہیں ہے ، بلکہ جیسا اس کا قانون قدرت مستحکم اور مضبوط ہے، ویسا ہی اس کا کام بھی مضبوط ہے جب کہ ہم کو یہ ثابت ہوگیا کہ ” صاعقہ “ کے معنی ” موت “ کے نہیں ہیں، بلکہ اس مقام پر ہو بھی نہیں سکتے، اور ” بعث “ کا اطلاق ” لابعدالموت “ پر بھی آتا ہے تو ہم لفظ ” موت “ کو اس کے حقیقی معنوں پر یعنی بدن سے جان نکل جانے پر اطلاق نہیں کرسکتے، بلکہ مردے کے مانند ہوجانے پر اطلاق کرتے ہیں اور اس کی دلیل خود قرآن مجید میں موجود ہے، اس لیے کہ جو واقعہ اس مقام پر بیان ہوا ہے، وہی واقعہ سورة اعراف میں بھی آیا ہے، اور وہاں یہ فرمایا ہے کہ ” فلما اخذتھم الرجفۃ قال رب لوشئت اھلکتھم من قبل وایای “ یعنی بنی اسرائیل میں سے ستر آدمی جو خدا کے دیکھنے کے لیے گئے تھے ڈر کے مارے کانپنے لگے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اے پروردگار اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان کو اور مجھ کو بھی مار ڈالتا۔
اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ ان کے مرنے تک نوبت نہ پہنچی تھی یا بیہوش ہوگئے تھے یا ان کی حالت مردے جیسی ہوگئی تھی، اور اسی سبب سے یہاں ان پر مردہ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ علاوہ اس کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر بھی پروردگار کی تجلی ہوئی تھی، جس کے سبب پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا، وہاں یہ لفظ ہیں کہ ” فخر موسیٰ صعقا “ یعنی موسیٰ بیہوش ہو کر گرپڑا، سورة احزاب۔
میں خود خدا تعالیٰ نے خوف کی حالت کو موت کی بیہوشی کی حالت سے تشبیہ (فاناجاء الحق فرایتہم ینظرون الیک شور اعنیم کالذی یغشی علیہ من الموت (احزاب) دی ہے ، پس ان سب آیتوں کے ملانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل پر بھی یہی حالت گزری تھی۔
” موت “ کے لفظ کا نہایت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے امام فخرالدین رازی اور صاحب تفسیر ابن عباس نے سورة زمر کی تینتالیسویں آیت میں ” لفظ “ موت کو بمعنی ” نوم “ قرار دیا ہے اور ” حین موتھا “ کی تفسیر ” حین مثلھا “ کی ہے اور قرآن مجید میں رنج میں پڑے رہنے پر بھی موت کے لفظ کا استعمال ہوا ہے جہاں سورة آل عمران میں فرمایا ہے کہ ” قل موتوابغیضکم “ یعنی اپنے غصہ سے مرجاؤ یعنی اس میں مبتلا رہو۔ ڈھے ہوئے شہر ، غیر آباد یا فصل گذری ہوئی زمین پر بھی موت کا استعمال ہوتا ہے، بےجان یا معدوم شے پر بھی موت کا لفظ بولا جاتا ہے، جہاں فرمایا ہے کہ ” کنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم “ اور جگہ فرمایا ہے کہ ” یخج الحی من المیت یخرج المیت من الحی “ غرضیکہ جہاں تک غور کیا جاتا ہے اس مقام پر لفظ ” موتکم “ سے جو قرآن مجید میں آیا ہے ان لوگوں کے فی الحقیقت مرجانے پر استدلال نہیں ہوسکتا۔
یہ تمام واقعات موسیٰ و بنی اسرائیل پر سینا کے مقام پر گزرے تھے، وہاں ایک سلسلہ پہاڑوں کا ہے جس کو، طور سینا، یا طور سینین کہتے ہیں، اور کبھی صرف ’ طور ‘ ہی اس کا نام لیتے ہیں، کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں وہ کوہ آتش فشاں تھا، جب بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم علانیہ خدا کو دیکھنا چاہتے ہیں، تو وہ بجز اس کی قدرت کاملہ کے ایک عظیم الشان کرشمہ کے اور کچھ ان کو نہیں دکھا سکتے تھے، پس وہ ان کو اس پہاڑ کے قریب لے گئے جس کی آتش فشانی اور گرگڑاہٹ اور زور شور کی آواز اور پتھروں کے اڑنے کے خوف سے وہ بیہوش یا مردے کی مانند ہوگئے ، خدا تعالیٰ ان تمام کاموں کو جو اس کے قانون قدرت سے ہوتے ہیں خود اپنی طرف منسوب کرتا ہے، جن کے منسوب کرنے کا بلاشبہ وہ مستحق ہے، اسی طرح ان واقعات عجیبہ کو بھی اس نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔
اس بات کے آثار کہ وہ کوہ سینا درحقیقت آتش فشاں تھا، اب تک پائے جاتے ہیں، اور ہر شخص اب بھی جاکر دیکھ سکتا ہے، ایک بہت بڑا عالم شخص یعنی کینن اسٹینلی حال میں بطور سیاحت اس وادی میں گئے تھے جہاں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل نے گزر کیا تھا، انھوں نے اس پہاڑ کا حال اس طرح پر لکھا ہے کہ ” چٹانوں کی راہ سے جو بطور زینہ کے بنی ہوئی تھیں ہم ایک وادی میں پہنچے جو سرخ پتھر کے پہاڑوں کے درمیان تھا یہاں پر عجیب و غریب پہاڑ دیکھنے میں آئے جن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ گویا سرخ و سیاہ مادہ کی گرم نہریں ان پر بہتی ہیں۔ درحقیقت آتشی مادہ اوپر بہہ آیا تھا جبکہ وہ زمین سے اٹھے تھے، یہ راستہ ایسی جگہ ہو کر گزرتا تھا جہاں بجز جلے ہوئے مادوں اور خاکستر کے اور کچھ نہ تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی ہتھیار ڈھالنے کے کارخانہ میں ڈھیر ہوتے ہیں، یہاں اکثر ایسی چیزیں دیکھنے میں آئیں جن کو کوئی نیا آدمی آتش فشاں پہاڑ کے آثارتصور کرے، لیکن یہ غلط فہمی ہے، جلے پہاڑوں کی مانند جو بڑے بڑے ڈھیر معلوم ہوتے ہیں وہ صرف لوہے کے ریزے ہیں جو بھر بھرے پتھروں کی بناوٹ میں ملے ہوئے ہیں ، سرخی مائل پتھر کی چٹانوں میں جو آتشی عمل کے آثار پائے جاتے ہیں، وہ ان کے ابتدائی اٹھان سے متعلق ہیں، نہ کسی بعد کے انقلاب سے، ہر جگہ پانی کے عمل کے آثار ہیں آگ کے کہیں نہیں ہیں۔
کینن اسٹینلی بہت بڑے پادری اور عیسائی مذہب کے پیشوا ہیں، عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ درحقیقت خدا ہی آگ کی صورت میں پہاڑ پر اترا تھا، اس لیے انھوں نے اپنی تحریر میں اس پہاڑ کو آتشیں پہاڑ کہنے سے بہت بچایا ہے، مگر جو شے کہ موجود ہے اس کو کوئی شخص ہیرپھیر کر بیان کرنے سے معدوم نہیں کرسکتا، خود توراۃ میں جو کچھ اس پہاڑ کی نسبت بیان ہوا ہے (اگر صحیح تسلیم کیا جاوے) تو کچھ شبہ نہیں رہتا کہ وہ آتش فشاں پہاڑ تھا، کتاب خروج باب نوزد ہم میں لکھا ہے “ کہ بوقت طلوع صبح رعد ہاوبر قہا وغمامہ مظلمہ بالائے کوہ نمایاں شدو آواز کرنا بجدے شدید شد کہ تمامی قومی کہ درار ہو بودند لرزیدند وتمامی کوہ سینی رادود فراگرفت، وودوش مثل دودتنور متصاعدبودوتمامی کو ، بغایت متزلزل شد یہ تمام حالتیں وہ ہیں جو کوہ آتش فشاں میں واقع ہوتی ہیں، اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں وہ آتش فشاں تھا اور کینن اسٹنیلی یہ تاویل کہ وہ نشانیاں اس پہاڑ کی بناوٹ ہی کی ہیں صحیح نہیں ہوسکتی۔
خدا کی تجلی ہر چیز میں ہے جس کو اس نے اپنی قدرت کاملہ سے بنایا اور پیدا کیا، ہم بلاشبہ کہہ سکتے ہیں کہ ” فلما تجلی ربنا علی الجبل ، فلما تجلی ربنا علی البحر ، فلما تجلی ربنا علی الانسان، فلما تجلی ربنا علی الحمار، فلما تجلی ربنا علی البعوضۃ، ومانوقھا فقد وقع کذا، مگر کسی مادی یافانی صورت میں نہ خدا آسکتا ہے نہ سما سکتا ہے پس ہم توراۃ کے الفاظ پر کہ ” خداوند اور آتش براں نزول نمود “ یقین نہیں لاسکتے گو کینن اسٹینلی کو یقین ہو ہاں اگر ان لفظوں کے معنی بھی تجلی اور ظہور قدرت کے لیے جاویں۔ تو پھر مقام انکار نہیں رہتا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 57

وَ ظَلَّلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡغَمَامَ وَ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمُ الۡمَنَّ وَ السَّلۡوٰی ؕ کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ ؕ وَ مَا ظَلَمُوۡنَا وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ ﴿۵۷﴾

تفسیر سرسید :

( وظللنا علیکم الغمام) توراۃ میں بنی اسرائیل پر بادلوں کی چھانوں ہونے کا واقعہ عجیب طرح سے لکھا ہے، کہ بادل تمام دن بنی اسرائیل کو راہ بتانے کے لیے ان کے آگے آگے چلتا تھا، اور جہاں ٹھہر جاتا تھا، وہاں بنی اسرائیل مقام کرتے تھے، اور رات کو وہی بادل روشنی کا ستون ہوجاتا تھا۔ مگر اس پر کیونکر یقین ہوسکتا ہے جبکہ چالیس برس تک بنی اسرائیل کو منزل مقصود تک پہنچنے کا رستہ نہیں ملا۔ ہمارے علماء مفسرین نے بھی اپنی عادت کے موافق یہودیوں کی پیروی کی ہے اور اس آیت کی (دیکھو کتاب خروج باب درس - باب، درس۔ ) تفسیر میں ایسی قسم کی باتیں جن کا اشارہ تک اس آیت میں نہیں ہے بیان کی ہیں۔
قرآن مجید سے بنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ بادل کا پھرنا نہیں معلوم ہوتا، اس آیت سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ کسی وقت دھوپ اور گرمی کی سختی میں بادل آجانے سے خدا نے ان کی تکلیف کو دور کردیا ، جس کا بطور ایک احسان کے ذکر کیا ہے۔ بڑی غلطی لوگوں کے خیال میں یہ ہے کہ جو امور موافق قانون قدرت کے ظہور میں آتے ہیں، ان کو نہ معجزہ سمجھتے ہیں، نہ احسان جتلانے یا ماننے کے قابل جانتے ہیں، اور اس لیے اس میں بالطبع ایسی باتیں شامل کرلیتے ہیں، جو قانون قدرت سے خارج ہوں، حالانکہ خدا تعالیٰ نے تمام قرآن مجید میں جا بجا بندوں پر انہی باتوں سے اپنا احسان جتلایا ہے، اور انہی کو بطور معجزہ کے بتلایا ہے، جس کو اس نے اپنی قدرت کاملہ سے، موافق قانون قدرت کے پیدا کیا ہے۔
جب بنی اسرائیل بحراحمر کی شاخ کو پار کر گئے، جس کا پانی بسبب جوار بھاٹے کے اترتا چڑھتا تھا، تو اس پار پتھر اور ریگستان کا ایک مسطح بیابان ہے ، وہاں اکثر ریگ کا طوفان رہتا ہے، جو اس ملک کے ساتھ مخصوص ہے، اور حال کے سیاحوں نے بھی اس کو دیکھا ہے، اس ریت کے میدان میں دھوپ کی شدت سے بنی اسرائیل کو بڑی تکلیف ہوئی ہوگی، خصوصاً اس وجہ سے کہ ریت یہی بھوبل کی مانند گرم ہوگی جس پر چلنا اور بیٹھنا نہایت مشکل ہوگا، ایسے وقت میں ابرکا آجانا بلاشبہ بنی اسرائیل کے حق میں بہت بڑی قسمت تھی، ہم کو اس مقام پر بطور احسان کے خدا نے یاد دلایا ہے۔
(من وسلوی) من ایک چیز ہے جو بطور ترنجیبین کے ایک خاص قسم کی جھاڑیوں پر جم جاتی ہے، اور سلویٰ ، بٹیر کی قسم کا جانور ہے جو اس جنگل میں جہاں بنی اسرائیل گئے تھے بکثرت پایا جاتا تھا، اور وہاں وہی ان کی غذا تھی، پس اسی کا ذکر قرآن مجید میں ہے ، باقی عجائبات ، من کے جو توراۃ میں بیان ہوئے ہیں اور جن پر یقین کرنا، ایسا ہی مشکل ہے جیسے کہ قانون قدرت سے انکار کرنا، ان کا کچھ ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے، گو مفسرین نے اور انبیاء کے قصے لکھنے والوں نے یہودیوں کی پیروی سے اپنی تصنیفات میں ان کا ذکر کیا ہے۔
حال کے سیاحوں نے بھی اس جنگل میں ’ من ‘ کو پایا ہے، کینن اسٹینلی لکھتے ہیں ” کہ چشمہ مرہ سے گزر کر دو وادیاں دیکھیں جس میں سے ایک یقیناً ابلم ہوگی عام صورت اس وسیع میدان کی یہ تھی کہ ایک ریگستان تھا اور جا بجا پانی کے سے راستے جیسے کوئی دریا خشک ہوجاتا ہے بنے ہوئے تھے ، ان وادیوں کے راستہ راستہ جاکر عجیب سیاہ و سفید پہاڑ ملتے ہیں۔ یہ بیابان بغیر درخت اور گھاس کے تھا لیکن ان دو وادیوں میں جن پر اینم کا شبہ ہوتا ہے ، درخت اور جھاڑیاں موجود تھیں۔ یہاں کے کھجور کے درخت چھوٹے چھوٹے تھے، اور یہاں پر تمرسک، کے درخت بھی تھے جن کے پتوں پر وہ شے پائی جاتی ہے جس کو اہل عرب ” من کہتے ہیں “۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 58

وَ اِذۡ قُلۡنَا ادۡخُلُوۡا ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃَ فَکُلُوۡا مِنۡہَا حَیۡثُ شِئۡتُمۡ رَغَدًا وَّ ادۡخُلُوا الۡبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغۡفِرۡ لَکُمۡ خَطٰیٰکُمۡ ؕ وَ سَنَزِیۡدُ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۵۸﴾

تفسیر سرسید :

( واذقلنا ادخلوا ) اس آیت میں جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ حضرت موسیٰ کے وقت کا قصہ نہیں ہے، بلکہ بنی اسرائیل کا حال ہے ، جبکہ وہ حضرت یوشع کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے تھے اس شہر کا نام قرآن مجید میں مذکور نہیں ہے مگر قدیم نام اس کا ’ یریحو ‘ ہے جس کو یونانی میں ” جبریکو “ کہتے ہیں اور مسلمان مفسروں نے اس کو ’ اریحا ‘ لکھا ہے۔
(وادخلوا الباب سجدا) سجدہ سے مراد حقیقی سجدہ کرنا نہیں ہے جس میں ماتھا زمین پر ٹیکنا ہوتا ہے، بلکہ خشوع و خضوع سے خدا کا شکر کرتے ہوئے داخل ہونا مراد ہے، تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ” ارادبہ الخضوع وھوا لاقرب “ یعنی سجدہ سے مراد عاجزی ہے اور یہی معنی اس جگہ زیادہ اچھے ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 59

فَبَدَّلَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا قَوۡلًا غَیۡرَ الَّذِیۡ قِیۡلَ لَہُمۡ فَاَنۡزَلۡنَا عَلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ ﴿٪۵۹﴾

تفسیر سرسید :

( فبدل) اس تبدیل سے کسی لفظ کا بدل دینا مراد نہیں ہے، کیونکہ ان کو الفاظ نہیں بتائے گئے، بلکہ استغفار یعنی لناہوں سے معافی چاہنے کا حکم تھا، مگر انھوں نے اس حکم کو بدل ڈالا، اور توبہ و استغفار کی کچھ پروا نہ کی ، بلکہ فتح کے سبب مغرور و متکبر ہوگئے، امام فخر الدین رازی نے بھی یہ معنی اختیار کیے ہیں، چنانچہ انھوں نے لکھا ہے کہ ” لما امرواباالتواضع رسولالمغفرۃ لم یمتثلوا امن اللہ ولم یلتفتوا الیہ “ یعنی جبکہ ان کو تواضع اور استغفار کرنے کا حکم دیا گیا تھا تو انھوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل نہ کی ، اور اس پر التفات نہ کیا اور بیضاوی میں بھی یہی مطلب تسلیم کیا گیا ہے کہ ” بدلوا بما امروابہ من التوبۃ والاستغفارطلب ما یشتھون من اعراض الدنیا “ یعنی انھوں نے بدل دیا حکم توبہ و استغفار کا جو ان کو دیا گیا تھا دنیاوی چیزوں کے چاہنے سے جس کے وہ خواہشمند تھے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 60

وَ اِذِ اسۡتَسۡقٰی مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ فَقُلۡنَا اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡحَجَرَ ؕ فَانۡفَجَرَتۡ مِنۡہُ اثۡنَتَاعَشۡرَۃَ عَیۡنًا ؕ قَدۡ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشۡرَبَہُمۡ ؕ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا مِنۡ رِّزۡقِ اللّٰہِ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ ﴿۶۰﴾

تفسیر سرسید :

اصل یہ ہے کہ یہودی اس بات کے قائل تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لاٹھی مارنے سے سمندر پھٹ گیا تھا اور زمین نکل آئی تھی اور لاٹھی مارنے سے پتھر میں سے پانی بہہ نکلا تھا، علماء اسلام تفسیروں میں اور خصوصاً بنی اسرائیل کے قصوں میں یہودیوں کی پیروی کرنے کے عادی تھے اور قرآن مجید کے مطالب کو خواہ مخواہ کھینچ تان کر یہودیوں کی روایتوں کے موافق کرتے تھے اس لیے انھوں نے اس جگہ بھی اور وہاں بھی جہاں قرآن میں آیا ہے ” فضرب یعصاک الحجر فانفجرت منہ اثنتا عشرۃ عینا “ ضرب کے معنی زون کے لیے اور اس سیدھے سادھے معجزہ کو ایک معجزہ کو ایک معجزہ خارج از قانون قدرت بنادیا۔
اس مقام پر ضرب کے معنی، زدن، کے نہیں ہیں بلکہ چلنے کے یا جلد چلنے کے ہیں جیسے کہ عرب بولتے ہیں ” ضرب فی الارض “ چلایا دوڑا زمین پر خود
قرآن مجید میں آیا ہے واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوٰۃ (نساء) یعنی جب تم چلو زمین پر یعنی سفر کرو تو کچھ جرح نہیں ہے کہ نماز میں کمی کرو، پس صاف معنی یہ ہیں کہ خدا نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا کہ ” اپنی لاٹھی کے سہارے سے سمندر میں چل دو پھٹا ہوا یا کھلا ہوا یعنی پا یاب ہورہا ہے، سورة طہ میں جو آیت ہے اس میں صاف بیان ہوا ہے کہ میرے بندوں کو رات کو سمندر میں سوکھے رستہ سے لے کر نکل چل پس جو معجزہ تھا وہ یہی تھا کہ ایسی مشکل کے وقت میں سمندر کے پایاب ہونے سے خدا تعالیٰ نے موسیٰ کو اور تمام بنی اسرائیل کو فرعون کے پنجے سے بچا دیا اور جب فرعون نے پایاب اترنا چاہا تو پانی بڑھ گیا تھا وہ معہ اپنے لشکر کے ڈوب گیا۔ اس مقام پر یہ بحث پیش آویگی کہ جب ” ضرب “ کے معنی چلنے کے آتے ہیں اور اس کے صلہ میں ” نی “ کا لفظ آتا ہے جیسا کہ ” نا ضربتم فی الارض “ میں ہے حالانکہ ” ناضرب بعصاک البحر “ اور ” فاضرب بعصاک الحجر “ میں ” انی “ نہیں ہے مگر نی کے نہ ہونے سے کچھ جرح نہیں ہے اس لیے کہ جب ” ضرب “ کے معنی چلنے کے لیے جاتے ہیں توب واسطہ رف جز یعنی ” فی “ کے متعدی کیا جاتا ہے اور جو افعال کو بواسطہ حرف جر کے متعدی ہوتے ہیں ان میں حرف جز کو مخذوف کرنا اور فعل کو بلاواسطہ مفعول کی طرف متعدی کرنا جائز ہے۔ اور اس مفعول کو منصوب علی نزع الخافض کہتے ہیں۔ اس مقام پر فعل ” اضرب “ کے “ اعصاء کے ساتھ ربط دینے کو ایک حرف جز یعنی ” ب “ عصا “ پر آچکی تھی پھر اسی فعل کو مفعول کی جانب متعدی کرنے کے لیے دوسرے حرف جز یعنی ” فی “ کا لانا کس قدر فصاحت کلام کے مناسب نہ تھا اور اس لیے اس کا حذف اولی تھا پس تقدیر کلام کی یہ ہے کہ ” فاضرب بعصاک فی البحر “ اور قرینہ حذف ” فی “ کا خود قرآن مجید سے پایا جاتا ہے کیونکہ یہی قصہ انہی الفاظ سے سورة طہ میں بھی آیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ ” فاضرب ھم طریقافی البحر “ پس ایک جگہ لفظ ” فی “ مذکور ہے تو یہی قرینہ باقی مقامات میں اس کے مخذوف ہونے کا ہے۔ اسی آیت میں فعل ” اضرب “ کے بلاواسطہ حرف خبر متعدی الے المفعول ہونے کی مثال بھی موجود ہے، شاہ ولی اللہ صاحب نے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ” پس بروبراے ایشاں درراہ خشک “ یعنی شاہ صاحب نے ” ضرب “ کے معنی زدن کے نہیں لیے رفتن کے لیے ہیں جو لازمی ہے اور لفظ ” طریقا “ اس آیت میں ” اضرب “ کا مفعول ہے اور بلاواسطہ حرف جز متعدی سی الی المفعول ہوا ہے۔
جغرافیہ کے نقشوں کے دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ خلیج عرب اور بحراحمر عدن کے پاس مل گئے ہیں دونوں طرف پہاڑ ہیں اور ان کے بیچ میں نہایت
تنگ رستہ ہی ، جو جہاز خلیج عرب سے بحر احمر میں جاتے ہیں وہ اسی تنگ رستہ میں ہو کر گزرتے ہیں اس رستہ کو طے کرنے کے بعد بحراحمر ملتا ہے جو نہایت بڑا اور وسیع سمندر ہے جب اس کے شمال کی طرف چلے جاؤ تو اخیر کو اس کی دو شاخیں ہوگئی ہیں، اگر تم اپنے دائیں ہاتھ کو چت کر کے سب انگلیاں بند کرو اور صرف بیچ کی انگلی اور کلمے کی انگلی کھول دو اور دونوں کو پھیلا کرتا نو تو بحراحمر کی شاخوں کی بالکل صورت بن جاویگی کلمہ کی انگلی دائیں طرف رہے گی اور بیچ کی انگلی بائیں طرف اور ان دونوں کے بیچ میں ایک مثلث کی صورت دکھائی دیگی بحرا حمر کی دائیں شاخ جو جانب مشرق ہی چھوٹی ہے جیسا کہ کلمہ کی انگلی چھوٹی ہے اور بائیں شاخ جو جانب مغرب ہے کس قدر بڑی ہے۔ جیسا کہ بیچ کی انگلی بڑی ہے اور یہ سمجھو کہ بیچ کی انگلی یعنی بڑی شاخ کے بائیں طرف مصر ہے اور ان دونوں انگلیوں کے بیچ میں جو مثلث جگہ ہے وہ جگہ ان جنگلوں اور پہاڑوں کی ہے جہاں بنی اسرائیل چالیس برس تک ٹکراتے پڑے پھرے اور اسی جگہ کوہ سینا یا کوہ طور ہے جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تجلی ہوئی اور توراۃ ملی۔
جس زمانہ میں بنی اسرائیل مصر میں رہتے تھے اور فرعون مشہور بادشا تھا اس زمانہ میں اس کا وارالسلطنت شہر رامیس تھا اس کے بائیں طرف تھوڑے فاصلہ پر دریائے نیل تھا اور دائیں طرف یعنی جانب مشرق تین منزل کے فاصلہ پر بحراحمر کی بڑی شاخ تھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو ہر رامیس سے لے کر نکلے پہلی منزل ” سکوت “ میں ہوئی دوسری منزل ” ایثام “ میں تیسری منزل ” فہاحیردت “ میں یہ مقام بحراحمر کی بڑی شاخ کے بائیں کنارہ پر یعنی جانب مغفرب، اس شاخ کی نوک کے پاس واقع تھا، جب فرعون نے معہ اپنے لشکر کے بنی اسرائیل کا تعاقب کیا تو راتوں رات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل سمیت بحراحمر کی بڑی شاخ کی نوک میں سے جہاں ہم نے نقشہ میں نقطوں کا نشان کردیا ہے پار اتر گئے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بسبب جوار بھاٹے کے جو سمندر میں آتا رہتا ہے اس مقام پر کہیں خشک زمین نکل آتی تھی اور کہیں پایاب رہ جاتی تھی بنی اسرائیل پایاب و خشک راستہ سے راتوں رات بائن اتر گئے۔ یہی مطلب صاف اس آیت سے پایا جاتا ہے سورة دخان میں ہے کہ ” واترک البحر رھوا “ جس کا ٹھیک مطلب یہ ہے کہ چھوڑ چل مسندر کو ایسی حالت میں کہ اترا ہوا ہے۔ صبح ہوتے فرعون نے جو دیکھا کہ بنی اسرائیل پار اتر گئے اس نے بھی ان کا تعاقب کیا اور لڑائی کی گاڑیاں اور سوار و پیادے غلط رستے پر سب دریا میں ڈال دیئے اور وہ وقت پانی کے بڑھنے کا تھا لمحہ لمحہ میں پانی پڑھ گیا جیسا کہ اپنی عادت کے موافق بڑھتا ہے اور ڈبو دیا گیا جس میں فرعون اور اس کا لشکر ڈوب گیا۔
علماء اسلام کا زمانہ گیارہ بارہ سو برس سے سمجھنا چاہیے ان بزرگوں نے جو اپنے ہوش میں بحراحمر اور اس کی شاخ کو جس میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل نے عبور کیا تھا نہایت عمیق اور ایک قہار سمندر دیکھا ہے اور ان کے خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ کیسا ہی بڑا جوار بھاٹا آوے وہ جگہ کسی پایاب نہیں ہوسکتی اس لیے انھوں نے قرآن مجید کی صاف صاف عبارت اور الفاظ کو جو صریح جوار بھاٹے اور خشک زمین کے نکل آنے پر دلالت کرتے تھے الٹ پلٹ کر اس واقعہ کو بطور ایک عجیب واقعہ بنایا اور ایسا معجزہ جو قانون قدرت کو بھی توڑ دے ٹھہرالیا۔ مگر حقیقت حال یہ نہیں ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جب بنی اسرائیل نے عبور کیا بحراحمر ایسا قہار سمندر نہ تھا جیسا کہ اب ہے گو اس زمانہ کا صحیح جغرافیہ ہم نہ ملے مگر بہت پرانا جغرافیہ جو بطلیموس نے بنایا تھا معہ اس کے نقشہ جات کے جو بطلیموس کے جغرافیہ کے مطابق بنائے گئے ہیں خوش قسمتی سے ہمارے پاس موجود ہے اور اس میں بحراحمر کا بھی نقشہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بطلیموس کے زمانہ تک بحراحمر میں تیس چھوٹے بڑے جزیرے موجود تھے اور یہ صاف دلیل اس بات کی ہے کہ اس زمانہ میں بحراحمر ایسا قہار سمندر نہ تھا جیسا کہ اب ہے یا جیسا کہ ہمارے علماء اسلام بارہ سو برس سے اس کو دیکھتے آئے ہیں۔ بحراحمر کی اس حالت پر خیال کرنے سے بالکل یقین ہوجاتا ہے کہ وہ مقام جہاں سے بنی اسرائیل اتری بلاشبہ جوار بھاٹے کے سبب رات کو پایاب اور دن کو عمیق ہوجاتا ہوگا مزید توضیح کے لیے بطلیموس کے جغرافیہ میں سے بعینہ بحر احمر کے نقشہ کو ہم اس مقام پر نقل کرتے ہیں یہ جغرافیہ ہمارے پاس اصل یونانی زبان میں جس میں بطلیموس نے لکھا تھا معہ لیئن ترجمہ کے موجود ہے جوء میں لوئیس سیزدہم شہنشاہ فرانس کے عہد میں چھپا تھا اس میں وہ تمام جزیرے جو بحراحمر میں موجود تھے مندرج ہیں۔ مورخین کے قول کے بموجب بنی اسرائیل سنہ عیسوی سے دو ہزار پانسو تیرو برس قبل بحراحمر کی شاخ سے اترے تھے اور بطلیموس جس نے جغرافیہ لکھا اور جس کو گلاڈیس ٹالمی کہتے ہیں سنہ عیسوی کی دوسری صدی میں تھا پس بنی اسرائیل کے عبور کرنے کے دو ہزار سات سو برس بعد تک وہ جزیرے موجود تھے ۔ یہ بطلیموس یونانی تھا مگر مصر میں رہتا تھا اور اس لیے بحراحمر کا جو حال اس نے لکھا ہے زیادہ اعتبار کے لائق ہے۔ سمندر کے جزیرے مدت تک نکلے رہتے ہیں اور پھر کسی زمانہ میں ان اسباب کے جن کا ذکر علم جو الجی میں ہے دفعۃً زمین میں بیٹھ جاتے ہیں اور جہاں لوگ بستے تھے اور جن پایاب مقامات پر لوگ چلتے تھے وہاں دفعۃً میلوں گہرا پانی ہوجاتا ہے اسی طرح بطلیموس کے زمانہ کے بعد کسی وقت میں یہ جزیرے بھی جو بحراحمر میں تھے غائب ہوگئے ہیں اور اب ہم کو اتنا بڑا قہار سمندر دکھائی دیتا ہے مگر موسیٰ کے عہد میں ایسا نہ تھا اور اس بات پر یقین کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس مقام پر سمندر کے پایاب ہوجانے کا حال معلوم تھا اور اسی سبب سے یہ رستہ انھوں نے اختیار کیا تھا کیونکہ سمندر کے پار ایسے جنگل و پہاڑ تھے کہ جس میں فرعون کو لشکر لیجانا اور بنی اسرائیل کا تعاقب کرنا غیر ممکن تھا۔
( فانفجرت) اس آیت میں بھی ایک امر بحث کے لائق تھا کہ پانی کے بارہ چشمے کیونکر پیدا ہوئے تھے اور اس بحث کو ہم نے سینتالیسویں آیت ، کی تفسیر میں بالاستیعاب بیان کیا ہے۔ پہاڑی ملک کو اہل عرب حجر کہتے ہیں جیسے کہ عرب الحجر یعنی عرب کا پہاڑی حصہ ” فاضرب بعصاک الحجر “ میں لفظ حجر کا استعمال ہوا ہے، بحراحمر کی شاغ کو عبور کرنے کے بعد ایک وادی ملتا ہے جس کا قدیم نام ” ایثام “ ہے وہاں پانی نہیں ملتا توراۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ایک چشمہ تھا جس کا پانی نہایت تلخ تھا اور پی نہیں سکتے تھے اس لیے اس کا نام ” مرہ “ خیال کرتے ہیں، یہی مقام ہے جہاں بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے پانی مانگا تھا اس مقام کے پاس پہاڑیاں ہیں جن کی نسبت خدا نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ ” فاضرب بعصاک الحجر “ یعنی اپنی لاٹھی کے سہارے سے اس پہاڑی پر چڑھ چل، اس پہاڑی کے پرے ایک مقام (دیکھو صفحہ توراۃ )
ہے جس کو توراۃ میں ” ایلم “ لکھا ہے وہاں بارہ چشمے پانی کے جاری تھے جس طرح پہاڑی مسلک میں پہاڑوں کی جڑ یا چٹانوں کی دراروں میں سے جاری ہوتے ہیں جن کی نسبت خدا نے فرمایا ہے کہ ” فانفجرت منہ اثناتا عشرۃ عینا “ یعنی اس سے پھوٹ نکلے ہیں بارہ چشمے، اگر ہم توراۃ کی عبارت پر یقین کریں تو اس سے بھی پایا جاتا ہے اور اس کی یہ عبارت ہے کہ ” بعدازاں بہ ایلم آمدندودرانجا دواز وہ چشمہ آب یا فتند و ہفتا د درخت خرما بود دور آنجا بہ پہلو سے آب اردوزوند “
یہ مقام اب بھی موجود ہے، اور سیاحوں نے دیکھا ہے، مگر اب وہاں پانی کے چشمے نہیں بہتے ، کیونکہ پہاڑی چشمے انقلاب زمانہ سے سوکھ جاتے ہیں، جیسے کہ مکہ معظمہ میں زمزم کا چشمہ خشک ہوگیا ہے، مگر ایسے مقاموں کو ہمیشہ لوگ مقدس سمجھتے ہیں، اور اس کے یادگار یا نشان قائم رکھنے کو وہاں کنوئیں کھود دیتے ہیں، جس طرح کہ مکہ معظمہ میں چاہ زمزم کھودا گیا ہے، اس مقام پر بھی جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بارہ چشمہ پانی کو ملے تھے، لوگوں نے کسی زمانہ میں کنوئیں کھودے ہیں، اور اب وہاں سترہ کنوئیں موجود ہیں، اور وہ مقام عیون موسیٰ کے نام سے مشہور ہے، اس مقام پر بھی، نمرسک، کے درخت ہوتے ہیں جن کے پتوں پر ” من “ جم جاتا ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 61

وَ اِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نَّصۡبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُخۡرِجۡ لَنَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ مِنۡۢ بَقۡلِہَا وَ قِثَّآئِہَا وَ فُوۡمِہَا وَ عَدَسِہَا وَ بَصَلِہَا ؕ قَالَ اَتَسۡتَبۡدِلُوۡنَ الَّذِیۡ ہُوَ اَدۡنٰی بِالَّذِیۡ ہُوَ خَیۡرٌ ؕ اِہۡبِطُوۡا مِصۡرًا فَاِنَّ لَکُمۡ مَّا سَاَلۡتُمۡ ؕ وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ ﴿٪۶۱﴾

تفسیر سرسید :

( واذ قلتم یا موسیٰ ) اس آیت کی تفسیر میں مفسروں نے دو زمانے کی جدا جدا باتوں کو غلط ملط کردیا ہے، یہ بہت یعنی آیت ہے اور اس کے جداگانہ دو حصے ہیں، ایک حصہ اس سوال و جواب کا ہے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کیا تھا، اور دوسرا حصہ ان واقعات کا ہے جو بعدحضرت موسیٰ (علیہ السلام) بلکہ اس سے بھی بہت زمانہ کے بعد بنی اسرائیل پر واقع ہوئے تھے۔
جن جنگلوں اور میدانوں میں بنی اسرائیل پڑے پھرتے تھے، وہاں بجز جنگل کے جانوروں کے شکار کے یا اس مویشی کے گوشت کے جو بنی اسرائیل کے ساتھ تھے اور کوئی چیز کھانے کو میسر نہ ہوتی تھی، اور ایک ہی قسم کا کھانا کھاتے کھاتے بنی اسرائیل دق ہوگئے تھے، جس کی شکایت انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کی، اور زمین کی پیداوار کھانے کو مانگی، جو شکار کے گوشت سے اولیٰ درجہ کی تھی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اصل مقصد فلسطین میں جانا اور وہاں کے شہروں پر قبقہ کرنے کا تھا، مگر بنی اسرائیل عمالیقیوں اور کنعانیوں سے ڈرتے تھے، اور لڑنے پر اور ملک کے فتح کرنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے، پس جب بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے زمین کی پیداوار کا کھانا ملنے کی خواہش کی، تو انھوں نے جواب دیا کہ کسی شہر میں چل پڑو اور جا اترو وہاں سب کچھ ملے گا، پس اس سے یہ سمجھنا کہ ان کے سفر میں کوئی شہر پڑا تھا، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یا خدا نے اس میں اترنے کا حکم دیا تھا ایک صریح غلط فہمی ہے۔
دوسرا حصہ آیت کا ان واقعات کے بیان میں ہے، جبکہ بنی اسرائیل فلسطین میں پہنچ گئے اور شہروں کو فتح کرلیا اور اس میں آباد ہوگئے، اور پھر ان کی بدیوں اور برائیوں اور انبیاء کے قتل کے سبب ان پر آفت پڑی، اور ذلیل و خوار اور مسکین بےیارو ودیار ہوگئے اور باوجودیکہ انھیں سے بادشاہان ذیشان پیدا ہوئے، مگر تمام قوم میں سے وہ شان و شوکت یکلخت جاتی رہی اور اس وقت تک ان کا (ورفعنا) یہ مضمون دو مقام میں آیا ہے ایک تو اسی آیت میں ہے کہ ہم نے تمہارے اوپر پہاڑ کو اونچا کیا، اور سورة اعراف میں یہ لفظ ہیں ” واذنتقنا الجبل فوقھم کانہ ظلۃ وظنوا انۃ واقع بھم “ ان دونوں مقاموں میں چارلفظ ہیں جن کے معنی حل ہونے سے مطلب سمجھ میں آویگا۔ رفع۔ فوق۔ نتق۔ ظلہ
” رفع “ کے معنی اونچا کرنے کے ہیں، مگر اس لفظ سے یہ بات کہ جو چیز اونچی کی گئی ہے وہ زمین سے بھی معلق ہوگئی ہو لازم نہیں آتی دیوار اونچا کرنے کو بھی ” رفعنا “ کہہ سکتے ہیں حالانکہ وہ زمین سے معلق نہیں ہوتی۔
” فوق “ کے لفظ کو بھی اس شے کا زمین سے معلق ہونا لازم نہیں ہے۔
” نتق “ کا لفظ البتہ بحث طلب ہے جس کے معنی مفسرین نے مذہبی عجائبات بنانے کو ” قلع “ کے بھی لیے ہیں، جس کو زمین سے یا جگہ سے علیحدہ کرلینا لازم ہے، اور رفع کے بھی لیے ہیں جس کو علیحدہ کرلینا لازم نہیں ہے، بیضاوی میں لجھا ہے ” واذنتقنا الجبل فوقھم “ اسی قلعناہ ورفعناہ “ مگر قاموس میں اس کے معنی ہلا دینے کے لکھے ہیں ” نتقہ زعزعہ “ اور ” زعزع “ کے معنی ہلا دینے کے ہیں ” الزعزعۃ تحریک الریح الشجرۃ ونحوھا اوکل تحریک شدید “ یعنی زعزعہ کے معنی ہوا کا درخت کو ہلانے کے ہیں اور ہر جنبش شدید کو بھی، زعزعہ، کہتے ہیں، پس صاف طور سے ، نتقنا، کے معنی ہلا دینے کے ہیں یعنی ہم نے پہاڑ کو ہلادیا اور الفاظ ” وظنوا انہ واقع بھم “ زیادہ تر پہاڑ کے ہلا دینے کے جس سے ان کو اس کے گر پڑنے کا گمان ہوا مناسب ہیں۔
” ظلہ “ کے معنی سائبان کے بھی ہوسکتے ہیں، چھتری کے بھی ہوسکتے ہیں اور جو چیز کو ہم پر سایہ ڈالے اس کے بھی ہوسکتے ہیں، اور اس چیز کا زمین سے معلق ہمارے سر پر ہونا ضروری نہیں ہے، تفسیر کبیر میں لکھا ہے ” الظلۃ کل ما اظلک من سقف بیت اوسحابۃ اوجناح حایطۃ “ یعنی ظلہ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو سایہ ڈالے گھر کی چھت ہو یا ابر کا ٹکڑا یا احاطہ کا بازو یعنی دیوار پس ، ظلہ، کے لفظ سے بھی ، یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہ معلق سر کے اوپر ہو۔
اب غور کرنا چاہیے کہ واقعہ کیا تھا، بنی اسرائیل جو خدا کے دیکھنے کو گئے تھے طور یا طور سینین کے نیچے کھڑے ہوئے تھے، پہاڑ ان کے سر پر نہایت اونچا اٹھا ہوا تھا، اور اس کے سایہ کے تلے تھے، اور طور بسبب آتش فسانی کے شدید حرکت اور زلزلہ میں تھا، جس کے سبب وہ گمان کرتے تھے کہ ان کے اوپر گر پڑے گا، پس اس حالت کو خدا تعالیٰ نے ان لفظوں میں یاد دلایا ہے کہ ” ورفعنا فوقکم الطور “ نتقنا الجبل فوقھم کانہ ظلۃ وظنوا انہ واقع بھم “ پس ان الفاظ میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو عجیب ہو یا مطابق واقع اور موافق قانون قدرت نہ ہو، ہاں مفسرین نے اپنی تفسیروں میں اس واقعہ کو عجیب و غریب واقعہ بنادیا ہے اور ہمارے مسلمان مفسر (خدا ان پر رحمت کرے) عجائبات دور ازکار کا ہوتا مذہب کا فخر اور اس کی عمدگی سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے تفسیروں میں لغوا در بیہودہ عجائبات بھردی ہیں، بعضوں نے لکھا ہے کہ کوہ سینا کو خدا ان کے سر پر اٹھا لایا تھا کہ مجھ سے اقرار کرو نہیں تو اسی پہاڑ کے تلے کچل دیتا ہوں، اور بعضوں نے کہا کہ نہیں بیت المقدس کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ کو اکھاڑ کر ہوا میں اڑایا تھا، اور پانچ میل کا چوڑا اور پانچ میل کا لمبا تھا، اتنی بڑائی اس کی اس لیے تھی کہ کل لشکر بنی اسرائیل کا اس کے تلے ایک ہی دفعہ میں کچل جاوے یہ تمام خرافاتیں لغو و بیہودہ ہیں اور خدا ہی پاک کا کلام پاک ایسی بیہودہ باتوں سے پاک ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 65

وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ الَّذِیۡنَ اعۡتَدَوۡا مِنۡکُمۡ فِی السَّبۡتِ فَقُلۡنَا لَہُمۡ کُوۡنُوۡا قِرَدَۃً خٰسِئِیۡنَ ﴿ۚ۶۵﴾

تفسیر سرسید :

( کو نواقردۃ ) ہوجاؤ بندر، اس کی تفسیر میں بھی ہمارے علماء مفسرین نے عجیب و غریب باتیں بیان کی ہیں ، اور لکھا کہ وہ لوگ سچ مچ صورت و شکل اور حقیقت میں بھی بندر ہوگئے تھے، بعضوں کا قول ہے کہ وہ سب تیسرے دن مرگئے، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ بندر جواب درختوں پر چڑھتے اور ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پر چھلتے پھرتے ہیں انہی بندروں کی نسل میں سے ہیں۔
مگر یہ تمام باتیں لغو و خرافات ہیں ، خداے پاک کے کلام پاک کا یہ مطلب نہیں ہے۔ یہودیوں کی شریعت میں سبت کا دن عبادت کا تھا ، اور اس میں کوئی کام کرنا یا شکار کھیلنا منع تھا، مگر ایک گروہ یہودیوں کا دو دریا کے کنارہ پر رہتا تھا فریب سے سبت کے دن بھی شکار کھیلتا تھا، ان کی قوم کے مشایخوں نے منع کیا ، جب نہ مانا تو ان کو قوم سے منقطع برادری سے خارج کھانے پینے سے الگ میل جول سے علیحدہ کردیا، اور ورہ توراۃ پر نہ چلنے والوں کو ایسا ہی کیا کرتے تھے، اور اسی لیے ان کی حالت بندروں کی حالت ہوگئی تھی، جس کی نسبت خدا نے فرمایا کہ ” کونوا تردۃ خاسئین “ یعنی جس طرح بندر بلا پابندی شریعت حرکتیں کرتے ہیں جس طرح انسانوں میں بندر ذلیل و خوار ہیں، اسی طرح تم بھی انسانوں سے علیحدہ اور ذلیل و خوار ورسوا رہو، جس کے سبب اس زمانے کے لوگوں کو عبرت ہو، اور آئندہ آنے والے ان کی ذلت و رسوائی کا حال سن کر عبدرت پکڑیں۔
یہ کہنا کہ وہ لوگ سچ مچ کے بندر ہوگئے تھے، بجزاہل الجنہ کے اور کوئی تسلیم نہیں کرسکتا تھا، اسی سبب سے بعض مفسرین نے بھی ان سچ مچ کے بندر ہوجانے سے انکار کیا ہے، جس کو ہم بطور تاییدا اپنی کلام کے اس مقام پر نکل کرتے ہیں، بیضاوی میں لکھا ہے ” وقال مجاہد مامسخت صورتھم ولکن قلوبھم فمثلوا بالقردۃ کما مثلوا بالحمار فی قولہ کمثل الحمار بحمل اسفارا “ یعنی مجاہد کا قول ہے کہ ان کی صورتیں بندر کی سی نہیں ہوگئی تھیں بلکہ ان دل بندروں کے سے ہوگئے تھے، اور اسی لیے بندروں کے ساتھ ان کو تشبیہ دی ہے، جیسا کہ خدا نے گدھے کے ساتھ اپنے اس قول میں، کہ ان کی مثال گدھے کی ہی جس پر کتابیں لادی ہوں، تشبیہ دی ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 67

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖۤ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تَذۡبَحُوۡا بَقَرَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَتَّخِذُنَا ہُزُوًا ؕ قَالَ اَعُوۡذُ بِاللّٰہِ اَنۡ اَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۶۷﴾

تفسیر سرسید :

(تذبحوابقرہ) یہ قصہ توراۃ میں بھی ہے، مگر اس میں بنی اسرائیل کا موسیٰ (علیہ السلام) سے اس کا اتاپتا پوچھنا مذکور نہیں ہے اور اس کے ذبح کے بعد جو قصہ توراۃ میں ہے وہ قرآن مجید میں نہیں ہے بہرحال اتنی بات کو خدا نے ایک بیل کے ذبح کرنے کا حکم دیا قرآن اور توراۃ دونوں میں موجود ہے ” بقرہ “ بالتحریک وسع التا گائے اور بیل دونوں پر بولا جاتا ہے، اور قرآن مجید کے یہ الفاظ کہ ” لاذلول تثیرا لارض ولا تسقی الحرث “ صاف اس کے بیل ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ قرآن کے تمام الفاظ سے اور ان پتوں اور نشانیوں سے جو بتائے گئے ہیں صاف پایا جاتا ہے، (دیکھو کتاب اعداد باب ) کہ وہ بیل بت پرستوں یا کافروں کے طریقہ پر بطور سانڈھ کے چھوڑا ہوا تھا تفسیر کبیر میں بھی مسلمۃ کی تفسیر ” ای وحشیۃ مرسلۃ من الحبس “ لکھی ہے، جو ٹھیک چھوڑے ہوئے سانڈ کی ہے، اور اسی کے ذبح کر ڈالنے کا موسیٰ نے حکم دیا تھا، اور بنی اسرائیل چاہتے تھے کہ وہ ذبح ہونے سے بچ جاوے، اسی لیے اس کے اتے پتے پوچھتے تھے، پس اس قصہ میں کوئی اعجوبہ بات نہیں ہے، جس بچھڑ کو بنی اسرائیل نے پوجا تھا اس کا معدوم کرنا اور جس بیل کو بطور سانڈھ کے چھوڑا تھا کہ وہ بھی ایک قسم کی پرستش ہے، اس کو ذبح کر ڈالنا اس شرک و کفر کے مٹانے کے لیے تھا، ہمارے علماء مفسرین نے بلاشبہ غلطی کی ہے جو یہ سمجھا ہے کہ یہ قصہ اگلی آیت ” واذقتلتم نفسا “ سے متعلق ہے اور پہلی آیت کو خدا نے پیچھے کردیا ہے۔
 
Top