• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 23

وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ ۪ وَ ادۡعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۳﴾

تفسیر سرسید :

( ممانزلنا) سے مراد قرآن ہے، جو نبی پر بذریعہ وحی کے خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے، پس اس مقام پر جب تک کہ وحی و نبوت کی حقیقت نہ بیان ہو اس وقت تک اس آیت کا مطلب سمجھ میں نہیں آسکتا۔
وحی تو وہی ہوتی ہے جو خدا سے پیغمبر کو دی جاتی ہے، مگر اگلے مفسرین نے لٹکا بیان کہ وہ کیونکر دی جاتی ہے ٹھیک طور پر نہیں کیا، انھوں نے خدا ورسول کو دنیا کے بادشاہ اور وزیر کی مانند اور وحی کو بادشاہ کے کلام یا حکم یا پیغام کی مانند سمجھا ہے، اور جبرائیل کو ایک مجسم فرشتہ بادشاہ و وزیر میں ایلچی پیغام لے جانے والا قرار دیا ہے۔
امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں ارقام فرماتے ہیں کہ آسمان پر جبرائیل خدا کا کلام سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترتے تھے اور وہ پیغام کہہ دیتے تھے۔ پھر اس تقریر پر ان کو یہ مشکل پیش آئی علی عبدنا اپنے بندے پر کہ خدا کے کلام میں تو حروف اور آواز نہیں ہے، پھر جبرائیل نے وہ کیونکر سنا ہوگا، پھر اس کا جواب یہ دیا ہے کہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ نے جبرائیل میں ایسی سماعت پیدا کی ہو جو خدا کا کلام سن لیتا ہو، پھر اس میں یہ قدرت رکھی ہو کہ وہ عبارت میں اس کی تعبیر کرسکے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہو کہ خدا نے لوح محفوظ میں اسی ترتیب سے قرآن پیدا کردیا ہو، اور جبرائیل نے اس کو پڑھ کر یاد کرلیا ہو۔ یا یہ ہوا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز جسم دار میں سے خاص طرح کی آوازیں ٹھہر ٹھہر کر نکالی ہوں اور جبرائیل نے بھی اسی کے ساتھ آواز ملا لی ہو، پھر اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو بتادیا کہ یہی وہ عبارت ہے ، جو ہمارے کلام قدیم کو پورا ادا کردیتی ہے۔
یہ تقریریں ہمارے علماء قدیم کی اسی قسم کی تقریریں ہیں جن پر آج لوگ ہنستے ہیں، اور قرآن مجید اور مذہب اسلام کو مثل اس تقریر کے لغو سمجھتے ہیں۔ امام صاحب نے اس بات پر غور نہیں فرمایا ہے، کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی میں ایسی سماعت یا لوح محفوظ میں سے پڑھنے کی قدرت یا جس جسم میں سے وہ اونچی نیچی آوازیں نکلتی تھیں ان سے کلام سمجھ لینے کی طاقت کیوں نہیں پیدا کی جو خدا کا کلام سن لیتے اور سمجھ لیتے تاکہ اس تکلیف کی کہ جبرائیل سنیں پھر اس کی عبارت بنائیں پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آکر سنائیں حاجت نہ رہتی۔ اس کی بھی تشریح امام صاحب نے نہیں فرمائی کہ ان اونچی نیچی آوازوں سے آواز ملا لینے کے بعد جبرائیل کو خدا نے کیونکر بتایا کہ یہ وہی عبارت ہے، آیا انہی اونچی نیچی آوازوں سے ، ان سے تو جاننا محال تھا کیونکہ دور لازم آتا ہے، پھر اور کسی طرح بتایا ہوگا، مگر پہلے ہی اسی طرح بتادیا ہوتا، ” ولا شک ان ھذہ طفوات لیس لھا فی الاسلام نصیب “ نبوت کو بھی علماء متقدمین نے ایک عہدہ سمجھا ہے کہ خدا جس کو چاہتا ہے یا جس کو منتخب کرتا ہے وزیر بنا ہے، جیسے بادشاہ اپنے بندوں میں سے کسی کو وزیر کسی کو دیوان کسی کو بخشی کردیتا ہے، اور وہ کسی منصب کو لے کر وہ کام شروع کرتا ہے، اور مبعوث ہونے کے ٹھیک یہی معنی انھوں نے سمجھے ہیں۔
فاتوا تو تم لاؤمگر میری سمجھ یہ نہیں ہے، میں نبوت کو ایک فطری چیز سمجھتا ہوں۔ نبی گو اپنی ماں کے پیٹ ہی میں کیوں نہ ہو نبی ہوتا ہے، النبی نبی ولوکان فی بطن امہ، جب پیدا ہوتا ہے تو نبی ہی پیدا ہوتا ہے، جب مرتا ہے تو نبی ہی مرتا ہے۔
نبی کا لفظ یہودیوں میں زیادہ تر مستعمل تھا، وہ اس کو لفظ بنانے سے مشتق کرتے تھے، جس کے معنی خبر دینے کے ہیں۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ انبیاء مثل نجومیوں کے دنیا کی باتوں میں سے غیب کی بات یا آئندہ ہونے والی باتیں بتا دیتے ہیں، شاید اتنا فرق سمجھتے ہوں کہ نجومی ستاروں کے حساب یا شیطانوں کے اسرار سے بتاتے تھے، اور انبیاء ربانی کرشمہ سے، پس جو شخص کہ کوئی پیشین گوئی نہیں کرتا تھا، اس کو نبی یا پیغمبر نہیں کہتے تھے، مگر اسلام میں اور مسلمانوں میں یہ خیال نہیں ہے، وہ ان سب کو جن پر خدا نے وحی نازل کی ہے نبی جانتے ہیں، اور پیغمبر مانتے ہیں، گو کہ اس نے کوئی بھی پیشینگوئی نہ کی ہو، بلکہ مذہب اسلام تو یہ بتاتا ہے کہ ” لا یعلم الغیب الا ھو “ یہی سبب ہے کہ قرآن مجید میں ہر ایک صاحب وحی کو نبی یا پیغمبر کہا گیا ہے جن میں سے اکثر کو جیسے داؤد سلیمان کو یہودی نبی نہیں کہتے۔
بہرحال اس لفظی بحث کو جانے دو، نبوت درحقیقت ایک فطری چیز ہے جو انبیاء میں بمقتضائے اپنی فطرت کے مثل دیگر قواے انسانی کے ہوتی ہے۔ جس انسان میں وہ قوت ہوتی ہے وہ نبی ہوتا ہے، اور جو نبی ہوتا ہے اس میں وہ قوت ہوتی ہے جس طرح کہ تمام ملکات انسانی اس کی ترکیب اعضا، دل و دماغ و خلقت کی مناسبت سے علاقہ رکھتے ہیں، اسی طرح ملکہ نبوت بھی اس سے علاقہ رکھتا ہے، یہ بات کچھ ملکہ نبوت پر ہی موقوف نہیں ہے، ہزاروں قسم کے جو ملکات انسانی ہیں بعض دفعہ کوئی خاص ملکہ کسی خاص انسان میں زروئے خلقت و فطرت کے ایسا قوی ہوتا ہے کہ وہ اس کا امام یا پیغمبر کہلاتا ہے، لوہار بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے،
نبورۃ من مثلہ اس کی مانند کوئی سورت
شاعر بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے ، ایک طبیب بھی فن طب کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے، مگر جو شخص روحانی امراض کا طبیب ہوتا ہے، اور جس میں اخلاق انسانی کی تعلیم و تربیت کا ملکہ بمقتضائے اس کی فطرت کے خدا سے عنایت ہوتا ہے، وہ پیغمبر کہلاتا ہے۔ اور جس طرح کہ اور قواے انسانی بمناسبت اس کے اعضا کے قوی ہوتے جاتے ہیں اسی طرح یہ ملکہ بھی قوی ہوتا جاتا ہے، اور جب اپنی پوری قوت پر پہنچ جاتا ہے، تو اس سے وہ ظہور میں آتا ہے جو اس کا مقتضی ہوتا ہے، جس کو عرف عام میں بعثت سے تعبیر کرتے ہیں۔
خدا اور پیغمبر میں بجز اس ملکہ نبوت کے جس کو ناموس اکبر اور زبان شرع میں جبرائیل کہتے ہیں اور کوئی ایلچی پیغام پہنچانے والا نہیں ہوتا، اس کا دل ہی وہ آئینہ ہوتا ہے جس میں تجلیات ربانی کا جلوہ دکھائی دیتا ہے، اس کا دل ہی وہ ایلچی ہوتا ہے جو خدا کے پاس پیغام لے جاتا ہے اور خدا کا پیغام لے کر آتا ہے، وہ خود ہی وہ مجسم چیز ہوتا ہے جس میں سے اللہ کے کلام کی آوازیں نکلتی ہیں، وہ خود ہی وہ کان ہوتا ہے جو خدا کے بےحرف بےصورت کلام کو سنتا ہے، خود اسی کے دل سے فوارہ کی مانند وحی اٹھتی ہے، اور خود اسی پر نازل ہوتی ہے، اسی کا عکس اس کے دل پر پڑتا ہے، جس کو وہ خود ہی الٰہام کہتا ہے، اس کو کوئی نہیں بلواتا بلکہ وہ خود بولتا ہے اور خود ہی کہتا ہے، وما ینطق عن الھویٰ ان ھوالا وحی یوحی۔
جو حالات و واردات ایسے دل پر گزرتے ہیں، وہ بھی بمقتضائے فطرت انسانی اور سب کے سب قانوکن فطرت کے پابند ہوتے ہیں، وہ خود اپنا کلام نفسی ان ظاہری کانوں سے اس طرح پر سنتا ہے جیسے کوئی دوسرا شخص اس سے کہہ رہا ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو ان ظاہری آنکھوں سے اس طرح دیکھتا ہے جیسے دوسرا شخص اس کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔
ان واقعات کے بتلانے کو اگرچہ یہ قول یاد آتا ہے کہ ” قدرایں با دہ ندانی بخدا تا۔۔ مگر ہم بطور تمثیل کے گو وہ کیسی ہی کم رتبہ ہو اس کا ثبوت دیتے ہیں، ہزاروں شخص ہیں جنہوں نے مجنونوں کی حالت دیکھی ہوگی، وہ بغیر بولنے والے کے اپنے کانوں سے آوازیں سنتے ہیں تنہا ہوتے ہیں مگر اپنی آنکھوں سے اپنے پاس کسی کو کھڑا ہوا باتیں کرتا ہوا دیکھتے ہیں، وہ سب انہی کے خیالات ہیں جو سب طرف سے بیخبر ہو کر ایک طرف معروف اور اس میں مستفرق ہیں، اور باتیں سنتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں پس ایسے دل کو جو فطرت کی رو سے تمام چیزوں سے بےتعلق، اور روحانی تربیت پر مصرف اور اس میں مستغرق ہو ایسی واردات کا پیش آنا کچھ بھی خلاف فطرت انسانی نہیں ہے، ہاں ان دونوں میں اتنا فرق ہے کہ پہلا مجنون ہے اور پچھلا پیغمبر، گو کہ کافر پچھلے کو بھی مجنون بتاتے تھے۔
پس وحی وہ چیز ہے جس کو قلب نبوت پر بسبب اسی فطرت نبوت کے مبداء فیاض نے نقش کیا ہے۔ وہی انتقاش قلبی کبھی مثل ایک بولنے والی آواز کے انہی ظاہر کانوں سے سنائی دیتا ہے، اور کبھی وہی نقش قلبی دوسرے بولنے والے کی صورت میں دکھائی دیتا ہے، مگر بجز اپنے آپ کے نہ وہاں کوئی آواز ہے نہ بولنے والا، خدا نے بہت سی جگہ قرآن میں جبرائیل کا نام لیا ہے، مگر سورة بقرہ میں اس کی ماہیت بتائی ہے، جہاں فرمایا ہے کہ ” جبرائیل نے تیرے دل میں قرآن کو خدا کے حکم سے ڈالا ہے “ دل پر اتارنے والی، یا دل میں ڈالنے والی، وہی چیز ہوتی ہے جو خود انسان کی فطرت میں ہو، نہ کوئی دوسری چیز جو فطرت سے خارج اور خود اس کی خلقت سے جس کے دل پر ڈالی گئی ہے جداگانہ ہو، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسی ملکہ نبوت کا جو خدا نے انبیاء میں پیدا کیا ہے جبرائیل نام ہے۔ یہی مطلب قرآن کی بہت سی آیتوں سے پایا جاتا ہے جیسا کہ سورة قیامۃ میں فرمایا ہے کہ ” ان علینا جمعہ وقراٰنہ “ یعنی ہمارا ذمہ ہے وحی کو تیرے دل میں اکٹھا کردینے اور اس کے پڑھ دینے کا ” فاذا اقراناہ فاتبع قراٰنہ “ پھر جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو اس پڑھنے کی پیروی کر ” ثم ان علینا بیانہ “ پھر ہمارا ذمہ ہے اس کا مطلب بتانا، ان آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا اور پیغمبر میں کوئی واسطہ نہیں ہے، خود خدا ہی پیغمبر کے دل میں وحی جمع کرتا ہے وہی پڑھتا ہے وہی مطلب بتاتا ہے، اور یہ سب کام اسی فطری قوت نبوت کے ہیں جو خدا تعالیٰ نے مثل دے کر تو اسی انسانی کے انبیاء میں بمقتضائے ان کی فطرت کے پیدا کی ہے۔ اور وہی قوت ناموس اکبر ہے، اور وہی قوت جبرائیل پیغمبر۔
اسی طرح خدا تعالیٰ سورة النجم میں فرماتا ہے ” وما ینطق عن للھویٰ ان ھو الا وحی یوحی “ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی خواہش نفس سے نہیں کہتا مگر یہ تو وہ بات ہے جو اس کے دل میں ڈالی گئی ہے۔ ” علمہ شدید القوی ذوہوۃ “ اس کو سکھایا ہے بڑی قوت والے صاحب دانش نے ” فاستوی وھوبالافق الا علی “ پھر ٹھہرا اور وہ بہت بلند کنارہ پر تھا ” ثم دلی فتدل “ پھر پاس ہوا اور ادھر کھڑا ہوا ” فکان قاب قوسین اوادنی “ پھر دو کمانوں یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا ” فاوحی الی عبدہ مااوحی “ پھر اپنے بندہ کے دل میں ڈالی وہ بات جو ڈالی۔ یہ تمام مشاہدہ اگر انہی ظاہری آنکھوں سے تھا، تو وہ عکس خود اپنے دل کی تجلیات ربانی کا تھا، جو بمقتضائے فطرت انسانی و فطرت نبوت دکھائی دیتا تھا، اور دراصل بجز ملکہ نبوت کے جس کو جبرائیل کہو یا اور کچھ، کچھ نہ تھا۔
علماء اسلام نے انبیاء اور عام انسانوں میں بجز اس کے کہ ان کو ایک عہدہ مل گیا ہے، جو ممکن تھا کہ ان میں سے بھی کسی کو مل جاتا، اور کچھ فرق نہیں سمجھا، اور اسی لیے شاعرہ دماتریدیہ نے نبی اور امت کی مثال سلطان ورعیت کی سمجھی ہے۔ مگر میری سمجھ میں یہ مثال ٹھیک نہیں ہے،
نبی اور امت کی مثال راعی و غنم کیسی ہے ، گو نبی و امت انسانیت میں شریک ہیں، جیسا کہ راعی و غلام حیوانیت میں، مگر نبی و امت میں فطرت نبوکت کی ایسی ہی فصل ہے، جیسا کہ راعی و غنم میں ناطقیت کی۔
قرآن مجید کا نجما نجما نازل ہونا بھی بری دلیل اس بات کی ہے کہ وہ بمقتضائے اسی فطرت کے نازل ہوا ہے، ہم بمقتضائے فطرت انسانی یہ بات دیکھتے ہیں ، کہ تمام ملکات انسانی کسی متحرک یعنی کسی امر کے پیش آنے پر اپنا کام کرتے ہیں، اسی طرح ملکہ نبوت بھی حبیی اپنا کام کرتا ہے جبکہ کوئی امر پیش آتا ہے۔ ہمارے دل میں سینکڑوں مضمون ہوتے ہیں، سینکڑوں نصیحتیں ہوتی ہیں، اشعار یاد ہوتے ہیں ، دوستوں کی صورتیں، اور مکانوں کی باغوں اور جنگلوں کی تصویریں دماغ میں موجود ہوتی ہیں، مگر جب تک ان پر متوجہ ہونے کا کوئی سبب نہ ہو وہ سب بےمعلوم رہتی ہیں، یہی حال ملکہ نبوت کا ہے، نبی معہ اپنے ملکہ نبوت کے موجود ہوتا ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، سوتا ہے، جاگتا ہے، دنیوی باتیں جن کو نبوت سے کچھ تعلق نہیں ہیں اسی طرح پر کرتا ہے جس طرح کہ اور تمام انسان کرتے ہیں، مگر جب کوئی ایسا امر پیش ہوتا ہے جو اس ملکہ نبوت کی تحریک کا باعث ہو، اس وقت وہ ملکہ نبوت اپنا کام کرتا ہے، اسی باریک دقیقہ کی حرف خدا نے اشارہ کرنے کو اپنی نبی کی زبان سے یہ کہلوایا کہ ” انا بشر مثلکم یوحی الی انما الھکم الہ واحد “ اور خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” انما انا بشرا اذا امن لکم بشیء من امر دینکم فخذ وابروانا من تکم بشیء من رابی فانما انا بشر “ (رواہ مسلم) یعنی میں بھی تو انسان ہی ہوں جب تم کو تمہارے دین کی کسی بات کا حکم دوں تو اس کو مان لو اور جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو بیشک میں بھی انسان ہوں۔ (فاتوا بسورۃ من مثلہ) ہم نے شروع تفسیر میں سورة کے لفظ کی تحقیق میں بتایا تھا، کہ جہاں قرآن میں لفظ سورة کا آیا ہے اس سے کوئی سورة جو سورتوں کے نام سے مشہور ہیں مراد نہیں ہے، بلکہ کوئی حصہ قرآن کا مراد ہے۔
جو لوگ کہ قرآن پر خدا کی وحی سے ہونے میں شک کرتے تھے ان کا شبہ مٹانے کو خدا نے ان سے فرمایا کہ اگر تم اس کو خدا سے نہیں سمجھتے تو تم بھی اس کی مانند لاؤ۔
یہ مضمون کئی طرح پر قرآن میں آیا ہے، اس مقام پر تو یہ فرمایا ہے کہ قرآن کے کسی ٹکڑے یا حصہ کے مانند تم بھی لاؤ۔
اسی طرح سورة یونس میں فرمایا ہے کہ ” کیا کافر قرآن کو کہتے ہیں کہ یوں ہی بنالیا ہے تو تو ان سے کہہ کہ اس کے ٹکڑے یا حصہ کی مانند تم بھی بنا لاؤ۔
اور سورة ہود میں فرمایا ہے کہ ” کیا کافر قرآن کو کہتے ہیں کہ یوں ہی بنالیا ہے تو تو ان سے کہہ کہ اس کے دس ہی ٹکڑوں یا حصوں کی مانند تم بھی یوں ہی بنا لاؤ “۔
اور سورة اسریٰ میں فرمایا ہے کہ ” تو کہہ دے کہ اگر جن وانس اس بات پر جمع ہوں کہ اس قرآن کی مانند بنا لاویں تو اس کی مانند نہ بنا لاسکے گے “۔
اور سورة قصص میں فرمایا ہے کہ ” تو ان سے کہہ دے کہ خدا کے پاس سے کوئی کتاب لاؤ جو توراۃ و قرآن سے زیادہ ہدایت کرنے والی ہو “۔
ان سب آیتوں پر غور کرنے کے بعد اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ قرآن کی مانند سے کیا مراد ہے، ہمارے تمام علما و مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ قرآن نہایت اعلیٰ فصاحت و بلاغت پر واقع ہوا ہے، فصاحت و بلاغت پر واقع ہوا ہے،
ام یقولون افتراہ قل فاتوا بسورۃ مثلہ وادعوامن استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین (یونس :)
ام یقولون افتراہ قل فاتوا بعشرسو مثلہ مفریات وادھو امر استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین (ھود : )
قل لئن اجتعت الانس والجن علے ان یا تو ایمثل ھذا القرآن یا تون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا (اسری)
قل فاتوا بکتاب من عنداللہ ھواتد منھا اتبعہ ان کنتم صدقین (قصص : )
اور اس زمانہ میں اہل عرب کو فصاحت و بلاغت کا بڑا ہی دعویٰ تھا، پس خدا نے قرآن کے من اللہ ثابت کرنے کو یہ معجزہ قرآن میں رکھا کہ ویسا فصیح کلام کوئی بشر نہیں کہہ سکتا اور نہیں کہہ سکا، پس انھوں نے قرآن کی مانند سے فصاحت و بلاغت میں مانند ہونامراد لیا ہے۔
مگر میری سمجھ میں ان آیتوں کا یہ مطلب نہیں ہے، اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ قرآن مجید نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ فصاحت و بلاغت پر واقع ہے اور جو کہ وہ ایسی وحی ہے، جو پیغمبر کے قلب نبوت پر، نہ بطور معنی و مضمون کے بلکہ بلفظہ ڈالی گئی تھی، جس کے سبب سے ہم اس کو وحی متلو یا قرآن یا کلام خدا کہتے اور یقین کرتے ہیں، اس لیے ضروری تھا کہ وہ ایسے اعلیٰ درجہ فصاحت پر ہو، جو بےمثل و بےنظیر ہو، مگر یہ بات کہ اس کی مثال کوئی نہیں کہہ سکا یا کہہ سکتا، اس کے من اللہ ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی۔ کسی کلام کی نظیر نہ ہونا اس بات کی تو بلاشبہ دلیل ہے، کہ اس کی مانند کوئی دوسرا کلام موجود نہیں ہے، مگر اس کی دلیل نہیں ہے، کہ وہ خدا کی طرف سے ہے ، بہت سے کلام انسانوں کے دنیا میں ایسے موجود ہیں، کہ ان کے مثل فصاحت و بلاغت میں آج تک دوسرا کلام نہیں ہوا، مگر وہ من اللہ تسلیم نہیں ہوتے، نہ ان آیتوں میں کوئی ایسا اشارہ ہے جس سے فصاحت و بلاغت میں معارضہ چاہا گیا ہو، بلکہ صاف پایا جاتا ہے، کہ جو ہدایت قرآن سے ہوتی ہے اس میں معارضہ چاہا گیا ہے، کہ اگر قرآن کے خدا سے ہونے میں شبہ ہے، تو کوئی ایک سورة یا دس سورتیں یا کوئی کتاب مثل قرآن کے بنا لاؤ جو ایسی ہادی ہو۔ سورة قصص میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاف حکم دیا گیا ہے کہ ” تو کافروں سے کہہ دے کہ کوئی کتاب جو توراۃ و قرآن سے زیادہ ہدایت کرنے والی ہو اسے لاؤ، توراۃ فصیح نہیں ہے، بلکہ عام طور کی عبارت ہے، اس لیے کہ علاوہ قومی دس توراۃ و تاریخانہ مضامین کے جو اس کے جامع نے اس میں شامل کیے ہیں، جس قدر مضامین وحی کے اس میں ہیں، ان کا القاء بھی بلفظہ شاید بجز احکام عشرہ توراۃ کے جن کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پہاڑ میں بیٹھ کر پتھر کی تختیوں پر کھود لیا تھا، پایا نہیں جاتا، پس ظاہر ہے کہ قرآن گو کیسا ہی فصیح ہو، مگر جو معارضہ ہے، وہ اس کی فصاحت و بلاغت یا اس کی عبارت کے بےنظیر ہونے پر نہیں ہے، بلکہ اس کے بےمثل ہادی ہونے میں ہے، جو بالتصریح سورة قصص کی آیت میں بیان ہوا ہے، وہاں اس کی فصاحت و بلاغت اس کے بےنظیر ہادی ہونے کو زیادہ تر روشن و مستحکم کرتی ہے۔
ان آیتوں کے مخاطب اہل عرب تھے، پس جب قرآن نازل ہوا تو اس وقت جو عرب کا حال تھا اس کو ذرا اس طرح پر خیال میں لانا چاہیے کہ اس کا نقشہ آنکھوں کے سامنے جم جاوے۔ وہ تمام قوم ایک لٹیرے، چور، وقراق، خانہ بدوش قوم تھی جو مثل کجروں کے اپنا ڈیرہ گدھوں و خچروں پر لادے پڑی پھرتی تھی، غیر قوموں نے، ” سارشبین ” جو لفظ “ سارقین “ کا محرف ہے خطاب دیا تھا، بغض و عداوت و کینہ جو بدترین خصائص انسانی سے ہیں ان کے رگ و ریشہ میں پڑا ہوا تھا یہاں تک کہ وہاں کے جانور بھی کینہ میں ضرب المثل ہیں (شترکینہ) خوں ریزی، بےرحمی، قتل اولاد، ان میں ایسے درجہ پر تھی جس کی نظیر کسی قوم کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی، کنواری اور بیاہی عورتیں زنا کو اپنا فخر سمجھتی تھیں، جس طرح مرد کسی بھی عورت یا مشہور خاندان کی عورت سے زنا کرنا فخریہ اپنی قوم میں بیان کرتا تھا، اسی طرح عورتیں کسی نامی یا مشہور خاندانی مرد سے زنا کرنا فخریہ بیان کرتی تھیں، قوم کی قوم جاہل و امی تھی، بجز شراب خواری و بت پرستی کے کچھ کام نہ تھا، اور قوموں سے ایسے کونے میں پڑی ہوئی تھیں کہ کچھ روشن تعلیم و تربیت کی ان تک نہیں پہنچی تھی،
اسی قوم میں ایک شخص جس نے چالیس برس اپنی عمر کے انہی کے ساتھ صرف کیے تھے، ربانی روشنی جو خدا نے بمقتضائے فطرت اس میں رکھی تھی منور ہوا، اور روحانی تربیت کے حقائق ودقائق ایسے الفاظ میں جو عالم اور حکیم اور فلسفی اور نیچر لسٹ دوہریہ سے لے کر عام جاہلوں بدؤں صحرانشینوں کی ہدایت کے لیے بھی یکساں مفید تھے علانیہ بیان کئے، جو ممکن نہ تھا کہ بغیر اس کے کہ وہ خدا کی طرف سے ہوں بیان کئے جاسکتے، فطرت کے قاعدہ کے مطابق ممکن نہ تھا کہ بغیر اس فطرت نبوت کے جو خدا اپنے انبیاء میں ودیعت کرتا ہے ایسی قوم کے کسی شخص کے اس طرح کے خیالات اور اقوال و نصایح ہوں، جیسے کہ قرآن میں ہیں، یا ایسی تاریک و خراب حالت کی قوم کا کوئی شخص بغیر اس نور کے جو خدا نے اس کو دیا ایسی ہدایتیں بتادے، جیسی کہ قرآن میں ہیں، یہ بجز خدا سے ہونے کے اور کسی طرح ہو ہی نہیں سکتیں، اسی امر کی نسبت خدا نے فرمایا کہ اگر تم کو اس کے خدا سے ہونے میں شک ہے تو فاتوا بسورۃ من مثلہ۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 24

فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَ لَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ ۚۖ اُعِدَّتۡ لِلۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۴﴾

تفسیر سرسید :

(فان لم تفعلوا) اور پھر فرمایا کہ اگر تم کرسکے اور پھر بطور یقین کے فرمایا کہ نہ کرسکو گے (کیونکہ ایسی قوم کے ایسے خیالات ہونے جیسا کہ قرآن میں ہیں ممکن ہی نہ تھے) تو اس کو خدا کی طرف سے سمجھ لو اور عذاب سے بچو۔
ان آیتوں میں خدا تعالیٰ نے جنت و نار یا دوزخ و بہشت کا ذکر کیا ہے، جنت و نار کی نسبت لفظ ” اعدت “ جس کے معنی طیار یا آمادہ کے ہیں چار جگہ قرآن مجید میں آیا ہے اول تو اسی آیت میں ہے ” اعدت للکفرین “ اور پھر سورة آل عمران میں ہے ” واتقو النار والتی اعدت للکفرین “ اور پھر اسی سورة میں جنت کی نسبت دوسری جگہ ہے ” اعدت المتقین “ اور پھر سورة حدید میں ہے ” اعدت للذین امنوا باللہ ورسلہ “ اس لفظ پر علماء اسلام نے استدلال کر کے یہ عقیدہ قائم کیا ہے کہ ” الجنۃ والنار مخلوقتین “
یعنی بہشت اور دوزخ دونوں پیدا ہوچکی ہیں، یعنی بالفعل موجود ہیں ، مگر غور کرنے سے پایا جاتا ہے کہ ان آیتوں سے یا ” اعدت “ کے لفظ سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا۔
تمام قرآن کا طرز بیان اس طرح پر ہے کہ آئندہ کی باتوں کا جو یقینی ہونے والی ہیں ماضی کے صیغوں سے بیان کیا جاتا ہے ، جو ان کے قطعی ہونے پر دلالت کرتے ہیں، اسی طرح ان آیتوں میں جو باتیں ہونے والی ہیں ان کو بطور ہوچکی، یعنی ماضی کے صیغہ سے بیان کیا ہے، مثلاً پہلی آیت میں فرمایا ہے، ” بچو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جو تیار ہے کافروں کے لیے “ آدمیوں پر ایندھن کا اطلاق اس وقت ہوسکتا ہے ، جب وہ آگ بھڑکانے کے لیے آگ میں ڈالے جاوینگے، اور ان علمائے اسلام کے نزدیک اگر یہ ہوگا تو قیامت میں حساب وکتاب کے بعد ہوگا ، پس اس وقت نہ کوئی آدمی جہنم کی آگ کا ایندھن ہے، اور نہ کوئی ایسی آگ موجود ہے جس کا ایندھن آدمی ہوں، ممکن ہے کہ کہا جاوے کہ ایسا ہوگا، پس اگر ہوگا تو بالفعل موجود ہونا قائم ہونا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 25

وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡہَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا ؕ وَ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ ٭ۙ وَّ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۵﴾

تفسیر سرسید :

دوسری آیت میں بہشتیوں کی نسبت پھل کا ملنا اور ایک سے پھل کا ملنا اور ان کا کہنا کہ یہ تو وہی ہے جو پہلے ملا تھا، سب ماضی کے صیغوں سے بیان ہوا ہے، حالانکہ اگر یہ ہوگا تو قیامت کے بعد ہوگا ، جب لوگ حساب و کتاب دے کر بہشت میں جاوینگے۔ علاوہ اس کے اگر کسی کام کا بدلا یا کسی جرم کی سزا یقینی ہو تو اس کہنے سے کہ اگر تم یہ بات کرو گے تو اس کا یہ صلہ اور یہ جرم کرو گے تو اس کی یہ سزا تمہارے لیے تیار ہے، یہ لازم نہیں آتا کہ وہ صلہ یا ذریعہ سزا بالفعل موجود بھی ہو، بلکہ اس طرز کلام کا صرف یہ مفاد ہے کہ وہ بدلا یا سزا ملنی یقینی ہے۔ پس یہ مسئلہ کہ بہشت اور دوزخ دونوں بالفعل مخلوق و موجود ہیں قرآن سے ثابت نہیں۔
جنت یا بہشت کی ماہیت جو خود خدا تعالیٰ نے بتائی ہے وہ تو یہ ہے ” فلا تعلم نفس ما اخغی لھم من قرۃ اعین جزاء بما کانوا یعملون “
یعنی کوئی نہیں جانتا کہ کیا ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک (یعنی راحت) چھپا رکھی گئی ہے اس کے بدلے میں جو وہ کرتے تھے۔
پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو حقیقت بہشت کی فرمائی ، جیسا کہ بخاری و مسلم نے ابوہریرہ (رض) کی سند پر بیان کیا ہے وہ یہ ہے ” قال اللہ تعالیٰ اعدت لعبادی الصالحین مالا عین راءت ولا اذن حمعت ولا خطر علی قلب بشر “ یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیار کی ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیز جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے اور نہ کسی کان نے سنی ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے۔ پس اگر حقیقت بہشت کی یہی باغ اور نہریں اور موتی کے اور چاندی سونے کی اینٹوں کے مکان اور دودھ ، شراب اور شہد کے سمندر اور لذیذ میوے اور خوبصورت عورتیں اور لونڈے ہوں، تو یہ تو قرآن کی آیت اور خدا کے فرمودو کے بالکل مخالف ہے، کیونکہ ان چیزوں کو تو انسان جان سکتا ہے، اور اگر فرض کیا جاوے کہ ویسی عمدہ چیزیں، آنکھوں نے دیکھیں اور نہ کانوں نے سنیں تو بھی ” ولا خطرعلی قلب بشر “ سے خارج نہیں ہوسکتیں، عمدہ ہونا ایک اضافی صفت ہے اور جبکہ ان سب چیزوں کا نمونہ دنیا میں موجود ہے، تو اس کی صنعت اضافی کو جہاں تک کہ ترقی دیتے جاؤ انسان کے دل میں اس کا خیال گزر سکتا ہے، حالانکہ بہشت کی ایسی حقیقت بیان ہونی ہے کہ ” ولا خطر علی قلب بشر “ پس بہشت کی جو یہ تمام چیزیں بیان ہوئی ہیں درحقیقت بہشت میں جو ” قرۃ اعین “ ہوگا اس کے سمجھانے کو بقدر طاقت بشری کی مثلیں ہیں، نہ بہشت کی حقیقتیں۔ (سورة الم سجدہ آیت )
انسان مطابق اپنی فطرت کے انہی چیزوں کو سمجھ سکتا ہے اور انہی کا خیال اس کے دل میں آسکتا ہے، جو اس نے دیکھی یا چھوئی یا چکھی یا سونگھی یا قوت سامعہ سے محسوس کی ہوں، اور بہشت کی جو ” قرۃ اعین “ یعنی راحت یا لذت ہے، اس کو نہ انسان نے دیکھا ہے، نہ چھوا ہے، نہ چکھا ہے، نہ سونگھا ہے، نہ قوت سامعہ نے اس کا حس کیا ہے، پس فطرت انسانی کے مطابق انسان کو اس کا بتلانا ناممکن ہے، اس کے سوا ایک اور مشکل درپیش ہے، کہ جو کچھ انسان کو بتایا جاتا ہے وہ ان الفاظ سے تعبیر ہوتا ہے جو انسان کی بول چال میں ہیں، اور جو چیز کہ انسان نے نہ دیکھی نہ چھوئی نہ چکھی نہ سونگھی نہ قوت سامعہ سے حس کی، اس کے لیے کوئی لفظ انسان کی زبان میں نہیں ہوتا ، اور اس لیے اس کا تعبیر کرنا گو کہ خدا ہی تعبیر کرنا چاہے محالات سے ہے۔ الس کے سوا ایک اور سخت مشکل یہ ہے ، کہ کوئی انسان ان کیفیات کو بھی جو اس دنیا میں ہے تعبیر نہیں کرسکتا، کوئی شخص کھٹاس، مٹھاس، درد، دکھ، رنج و راحت، کی کچھ بھی کیفیت نہیں بتاسکتا، یا اس کے لیے دوسرا لفظ بدل دیتا ہے، یا کوئی مشابہت اور نظیر اس کی لاتا ہے، جو وہ بھی مثل پہلی کے محتاج بیان ہوتی ہے، پس بہشت کی کیفیت یا لذت کا جس کو ” قراۃ اعین “ سے تعبیر کیا ہے بیان کرنا گو کو خدا ہی اس کا بیان کرنا چاہے محال سے بھی بڑھ کر محال ہے۔
” قراۃ اعین “ کی ماہیت یا حقیقت یا کیفیت یا اصلیت کا بتانا تو محالات سے ہے ۔
اس لیے انبیاء نے ان راحتوں اور لذتوں یا رنج اور تکلیفوں کو جو انسان کے خیال میں ایسی ہیں جو ان سے زیادہ نہیں ہوسکتیں، بطور جزا و سزا ان افعال کے بیان کیا ہے، اور غرض ان سے بعینہ وہی اشیاء نہیں ہیں، بلکہ جو رنج و راحت ، لذت و کلفت، ان سے حاصل ہوتی ہے اس کیفیت کو ” قراۃ اعین “ سے تشبیہا بیان کرنا مقصود ہوتا ہے، گو وہ تشبیہ کیسی ہی اونے اور ناچیز ہو۔
موسیٰ (علیہ السلام) نے اس ” قراۃ اعین “ کو اولاد پیدا ہونے مینہ برسنے رزق کے فراغ ہونے دشمنوں پر غلبہ پانے ، اور اس کلفت کو اولاد کے مرنے قحط پڑنے وبا پھیلنے شکست کھانے کی کیفیت کی تشبیہ میں بیان کیا۔ یہ تشبیہیں اگرچہ بنی اسرائیل کے دل پر بہت موثر تھیں، مگر درحقیقت ایسی نہ تھیں کہ جو تمام انسانوں کی طبیعت پر حاوی ہوں، محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ایسی تشبیہیوں میں بیان کیا ہے، کہ تمام انسانوں کی طبیعتوں پر حاوی ہیں، اور کل انسانوں کی خلقت اور جبلت کے نہایت ہی مناسب ہیں۔
تمام انسانوں کی خواہ وہ سرد ملک کے رہنے والے ہوں خواہ گرم ملک کے، مکان کی آراستگی، مکان کی خوبی، باغ کی خوشنمائی ، بہتے پانی کی دلربائی، میوؤں کی تروتازگی، سب کے دل پر ایک عجیب کیفیت پیدا کرتی ہے، اس کے سوا حسن یعنی خوبصورتی سب سے زیادہ دل پر اثر کرنے والی ہے، خصوصاً جبکہ وہ انسان میں ہو، اور اس سے بھی زیادہ جبکہ عورت میں ہو، پس بہشت کی ” قراۃ اعین “ کو ان فطری راحتوں کی کیفیات کی تشبیہ میں، اور دوزخ کی مصائب کو آگ میں جلنے ، اور لہو پیپ پلائے جانے، اور تھور کھلائے جانے کی تمثیل میں بیان کیا ہے تاکہ انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ، بڑی سے بڑی راحت و لذت ، یا سخت سے سخت عذاب وہاں موجود ہے،
اور درحقیقت جو لذت و راحت یا رنج و کلفت وہاں ہے، ان کو اس سے کچھ بھی مناسبت نہیں، یہ تو صرف ایک اعلیٰ راحت و احتظاظ ، یا رنج و کلفت کا خیال، پیدا کرنے کو اس پیرایہ میں جس میں انسان اعلیٰ سے اعلیٰ احتظاظ ورنج کو خیال کرسکتا تھا بیان کیا ہے۔
یہ سمجھنا کہ جنت مثل ایک باغ کے پیدا کی ہوئی ہے، اس میں سنگ مر مر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں باغ میں شاداب و سرسبز درخت ہیں، دودھ و شراب و شہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں، ہر قسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے، ساقی و ساقنیں نہایت خوبصورت ، چاندی کے کنگن پہنے ہوئے، جو ہماری ہاں کی گھوسنیں پہنتی ہیں، شراب پلارہی ہیں، ایک جنتی ایک حور کے گلے میں ہاتھ ڈالے پڑا ہے، ایک نے ران پر سر دھرا ہے، ایک چھاتی سے لپٹا رہا ہے، ایک نے لب جاں بخش کا بوسہ لیا ہے، کوئی کسی کونہ میں کچھ کررہا ہے، کوئی کسی کونہ میں کچھ، ایسا بیہودہ پن ہے جس پر تعجب ہوتا ہے، اگر بہشت یہی ہے تو بےمبالغہ ہمارے خرابات اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔
علماء سے اسلام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے بسبب اپنی رقت قلبی اور توجہ الی اللہ اور خوف و رجا کے غلبہ کے، جو آدمی کے دل پر زیادہ اثر کرنے سے ایسے درجہ پر پہنچا دیتا ہے کہ اصل حقیقت کے بیان کرنے کی جرات نہیں رہتی ، یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جو امر الفاظ سے مستفاو ہوتا ہے، اسی کو تسلیم کرلیں، اور اس کی حقیقت اور اس کے مقصد کو خدا کے علم پر چھوڑ دیں، اس واسطے وہ بزرگ تمام ان باتوں کو تسلیم کرتے ہیں جن کو کوئی بھی نہیں مان سکتا، اور وہ باتیں جیسا کہ عقل اور اصلی مقصد بانی مذہب کے برخلاف ہیں، ویسی ہی مذہب کی سچائی اور بزرگی اور تقدس کے مخالف ہیں۔
اس امر کے ثبوت کے لیے بانی مذہب کا ان چیزوں کے بیان کرنے سے صرف اعلیٰ درجہ کی راحت کا بقدر فہم انسانی خیال پیدا کرنا مقصود تھا، نہ واقعی ان چیزوں کا دو زخ و بہشت میں موجود ہونا، ایک حدیث کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو ترمذی نے بریدہ سے روایت کی ہے اس میں بیان ہے کہ ” ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ بہشت میں گھوڑا بھی ہوگا آپ نے فرمایا کہ تو سرخ یاقوت کے گھوڑے پر سوار ہو کر جہاں چاہیے گا اڑتا پھرے گا۔ پھر ایک شخص نے پوچھا کہ حضرت وہاں اونٹ بھی ہوگا، آپ نے فرمایا کہ وہاں جو کچھ چاہو گے سب کچھ ہوگا، پس اس جواب سے مقصود یہ نہیں ہے کہ درحقیقت بہشت میں گھوڑے اور اونٹ موجود ہوں گے ، بلکہ صرف ان لوگوں کے خیال میں، اس اعلیٰ درجہ کی راحت کے خیال کا پیدا کرنا ہے، جو ان کے خیال اور ان کی عقل و فہم و طبیعت کے مطابق اعلیٰ درجہ کی ہوسکتی تھی۔ اسی کی مانند اور بہت سی حدیثیں ہیں، اور اگر ان سب کو صحیح بھی مان لیا جاوے ، تب بھی کسی کا مقصود ان اشیاء کا بعینہ بہشت میں موجود ہونا نہیں ہے، بجز اس کے کہ جہاں تک انسان کی عقل و طبیعت کے موافق اعلیٰ درجہ کی راحت کا خیال پیدا ہوسکے وہ پیدا ہو۔
حکماء الٰہی اور انبیاء ربانی دونوں ایک سا کام کرتے ہیں، فرق یہ ہے کہ حکماء (عن بریدۃ ان وجلاتال یارسول اللہ ھل فی الجنۃ خیل قال ان اللہ ادخلک الجنۃ فلا تشاء ان یحمل فیھا علی فرس من یاقوت و حراء یطیریک فی الجنۃ حیث شئت الا فعلت و سکہ رجل فقال یارسول اللہھی فی الجنۃ من اہل قال قلم بمثل لہ ما قال ف صاحبہ فاقل ان ید خلک ھذا الجنۃ یکن لک یناما اشہت نفسک لذت عینک (راوہ الترمذی، مشکوۃ)
صرف ان چند لوگوں کو تربیت کرسکتے ہیں جن کا دل و دماغ تربیت پاچکا ہے، برخلاف اس کے انبیاء تمام کافہ انام کو تربیت کرتے ہیں، جن کا بہت بڑا حصہ قریب کل کے محض نا تربیت یافتہ جال وحشی جنگلی بدوی بےعقل و بددماغ ہوتا ہے، اور اسی لیے انبیاء کو یہ مشکل پیش آتی ہے، کہ ان حقائق و معارف کو، جن کو تربیت یافتہ عقل بھی مناسب غور و فکر و تامل سے سمجھ سکتی ہے، ایسے الفاظ میں بیان کریں کہ تربیت یافتہ دماغ اور کوڑ مغز دونوں برابر فائدہ اٹھاویں۔ قرآن مجید میں جو بمثل چیز ہے وہ یہی ہے کہ اس کا طرز بیان ہر ایک کے مذاق اور دماغ کے موافق ہے، اور باوجود اس قدر اختلاف کے دونوں نتیجہ پانے میں برابر ہیں۔ انہی آیات کی نسبت دو مختلف دماغوں کے خیالات پر غور کرو ، ایک تربیت یافتہ دماغ خیال کرتا ہے کہ وعدہ و وعید دوزخ و بہشت کے، جن الفاظ سے بیان ہوئے ہیں ان سے بعینہ وہی اشیاء مقصود نہیں، بلکہ اس کا بیان کرنا صرف اعلیٰ درجہ کی خوشی و راحت کو فہم انسانی کے لائق تشبیہ میں لانا ہے، اس خیال سے اس کے دل میں ایک بےانتہا عمدگی نعیم جنت کی، اور ایک ترغیب اوامر کے بجا لانے، اور نواہی سے بچنے کی پیدا ہوتی ہے۔ (قال القفال وھوکفرلہ تعالیٰ ” ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورافین سبحانہ و تعالیٰ ان الانسان کان لاشی یذکر فجعلہ سمیعا بصیرا و مجادہ من قولھم فلان میت الذکروھذا امرمیت وھذا اسلعۃ میتہ اذالم یکن لھا طالب و لاذاکر قال النحفل اسعد واحییت لذکری وما کنت خاملا، ولکن بعض الذکر اتیۃ من بعض فکرزامعنی الایۃ وکنتم اموانا ای خاملین ولاذکر لکم لا نکم لم تکونوا شیئا فاحیاکم ای جعلکم سمیعاً بصیرا (تفسیر کبیر) کنتم امواتا خاملی الذکر فاحیاکم بالظھور، العرب لسعی کل خامل میتا وکل امر مشہور حیا (تفسیر مجمع البیان)
اور ایک کوڑ مغز ملا یا شہوت پرست زاہد یہ سمجھتا ہے ، کہ درحقیقت بہشت میں نہایت خوبصورت ان کنت حوریں ملینگی، شرابیں پیئے گے، میوئے کھاوینگے، دودھ و شہد کی ندیوں میں نہاوینگے، اور جو دل چاہیگا وہ مزے اڑاوین گے، اور اس لغو و بیہودہ خیال سے دن رات اوامر کے بجا لانے اور نواہی سے بچنے میں کوشش کرتا ہے، اور جس نتیجہ پر پہلا پہنچا تھا اس پر یہ بھی پہنچ جاتا ہے، اور کافہ انام کی تربیت کا کام بخوبی تکمیل پاتا ہے، پس جس شخص نے ان حقائق قرآن مجید پر جو فطرت انسانی کے مطابق ہیں غور نہیں کی، اس نے درحقیقت قرآن کو مطلق نہیں سمجھا، اور اس نعمت عظمیٰ سے بالکل محروم رہا۔
(متشابھا) جو مطلب قرآن مجید کا ہم نے بیان کیا ہے اس کے مطابق ہم کو نہ کچھ (ثمرہ) کے لفظ پر بحث کرنی ضروری ہے اور نہ ” متشابہا “ کے لفظ پر ، کیونکہ اس لفظ سے پھل کی عمدگی پر اسی مقصود سے زیادہ تعجب دلاتا ہے، مگر تعجب یہ ہے کہ بعض ہمارے علماء اسلام فے بھی ” متشابہا “ کی تفسیر میں ثمر سے درختوں کے میوئے مراد نہیں لئے۔ بیضاوی میں لکھا ہے کہ ” اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ جو لذت دنیا میں خدا کی معرفت اور اس کی طاعت میں چکھی تھی تو جنت میں وہ لذت بڑھ کر ہوگی اس لیے ان الفاظ سے کہ ” یہ وہی ہے جو ہم کو پہلے ملا تھا “ ثواب مراد ہوسکتا ہے اور ” ایک ہی سی ہونے سے “ بزرگی اور علو مدارج میں ایک سا ہونا، یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہ کافروں کے حق میں کہا گیا ہے (وان لا یہ محمد اخر وھوان مستلذات اھل الجنۃ فی مقابلۃ ما رزقوا فی الدنیا نیا من المعارف والطاعات متفاوتۃ فی اللذۃ بحسب تفاو تھا فیحتمل ان یکون المراد من ھذا الذی رزقنا انہ ثوابہ رھن تشابھما تماثلھما فی الشرف والمزیۃ وعلوانطبقۃ فیکون ھذا فی الرعد نظیر قرا ھذوقوا ما کنتم تعلمون فی الرعید (بیضاوی)
کہ چکھو جو تم جانتے تھے “۔
تفسیر کشف الاسرار میں بھی لکھا ہے کہ جنت و نار کی جو چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ سب تمثلیں ہیں نہ حقیقتیں تاکہ جو چیز ہمارے پاس ہے اس سے اس چیز کا جو ہم سے پوشیدہ ہے کچھ خیال ہو۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 26

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسۡتَحۡیٖۤ اَنۡ یَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَیَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَیَقُوۡلُوۡنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰہُ بِہٰذَا مَثَلًا ۘ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

تفسیر سرسید :

(ان اللہ لا یستحیی) تمام مفسرین اس آیت کی نسبت لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے قرآن میں مکھی و مکڑی و چیونٹی کا ذکر کیا ہے، اس پر کافر ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ ایسی حقیر چیزوں کا ذکر کرنا خدا کی شان کے لائق نہیں ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ، مچھر یا اس سے زیادہ حقیر چیز کی مثل کہنے میں خدا شرماتا نہیں ، مگر اس صورت میں اس آیت کو پہلی پچھلی آیتوں سے کچھ تعلق نہیں رہتا، بلکہ اس آیت سے اس بات پر اشارہ پایا جاتا ہے کہ، اوپر کی آیتوں میں جو بیان جنت و نار کا ہوا ہے وہ صرف بطور ایک حقیر مثل کے ہے، مگر اللہ حقیر سے حقیر مثل کہنے میں بھی نہیں شرماتا ، جو سعید ہیں وہ اس کا مقصد سمجھتے ہیں اور ہدایت پاتے ہیں، اور جو شقی ہیں وہ اس کے مقصود پر غور نہیں کرتے بلکہ حقارت سے دیکھتے ہیں اور گمراہ ہوتے ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 27

الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ ۪ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۲۷﴾

تفسیر سرسید :

(عہد اللہ) عہد آپس میں دو شخصوں کے ایک قول ہے، جس کا منشاء یہ ہے کہ اس کی رعایت رکھی جاوے اور پورا کیا جاوے، اور ایجاب و قبول سے وہ موثق ہوجاتا ہے، کبھی یہ عہد بذریعہ قول کے ہوتا اور کبھی بغیر قول کے ، مثلاً یہ عہد کرنا کہ میں دس من گیہوں دونگا ایک قولی عہد ہے، مگر من کی مقدار بھی جو مروج ہو ایک عہد ہے بغیر قول کے، (واعلم ان اللہ تعالیٰ خاطبنا بالا مثال لیدلنا علی الحاضر عندہ بالغائب عندنا نا لا سماء متفقد للدلا لۃ والمعانی مختلفۃ ولو لا ذلک لما بقی فی النارھی من شجر قالز قوم و السلام سل وغیرلک بل کانت تاکل النارومافی الجنۃ من فرشہا وا تھا وھا کذلک خبر مثل فقط (تفسیر کشف الاسرار)
جو اس قول عہد کے ضمن میں داخل ہے، پس عہد بالقول اور بالحال دونوں طرح پر ہوتا ہے، خدا کا عہد جو مخلوق سے ہے، یا مخلوق کا عہد جو خدا سے ہے، وہ قولی نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کی ذات لفظوں کے بولنے اور آواز کے نکلنے سے جو انسان سے متعلق ہے بری ہے، پس خدا کا قول وہ انسانی فطرت ہے، جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے، اس کی قدرت کی نشانیاں جو دنیا میں اور خود انسان میں ہیں، اور جو عقل و تمیز انسان میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کے سمجھنے کی موجود ہے، اس کے خدا ہونے پر موثق عہد ہے، جس کا دونوں طرف سے ایجاب و قبول ہوا ہے، خود انسان کی فطرت اور جو قواے متحرک اور قوت مانع یا معتدل کرنے والی ان قوی کی اس میں رکھی ہے وہ ٹھیک اس کے دین یا شریعت کے بجا لانے کا جو عین فطرت ہے پکا عہد ہے، پس جو لوگ اس عہد کو توڑتے ہیں وہی بدکار ہیں اور وہی ان مثلوں سے گمراہ ہوتے ہیں۔
اس آیت میں تین لفظ غور کرنے کے قابل تھے۔ کنتم امواتا، فاحیا ثم یحییکم، اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ پہلے دو لفظوں کا حل اس سے ہوجاتا ہے، پچھلے لفظ پر ہم وہاں بحث کرینگے جہاں بعث و نشر کی حقیقت بیان کرینگے، یہ مسئلہ اس قابل ہے کہ ایک مناسب مقام پر پوری تقریر اس پر لکھی جاوے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 29

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ٭ ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰىہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ ؕ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿٪۲۹﴾

تفسیر سرسید :

( سبع سموات) سات کے لفظ سے یہ لازم نہیں آتا کہ سات سے زیادہ آسمان نہ ہوں، بلکہ اس زمانہ کے لوگ جو بلحاظ سبع سیارات یہ سمجھتے تھے کہ آسمان سات ہیں، انہی لوگوں کے خیال کے مطابق سات کا لفظ اطلاق ہوا ہے،
یہ کچھ میری ہی رائے نہیں ہے بلکہ اگلے مفسروں کی بھی یہی رائے ہے۔
” سموات “ جمع ہے سماء کی جس کے معنی اونچے کے ہیں، یہ لفظ عرب کی زبان اور یہودیوں کی زبان میں اس زمانہ سے بولا جاتا ہے جبکہ یونانی علم ہیئت کا وجود بھی نہ تھا، قرآن مجید میں بھی اس لفظ کا اطلاق اسی محاورہ میں ہوا ہے جو اس زمانہ میں تھا، مگر قرآن مجید کے نازل ہونے کے زمانہ میں اور اس کے بعد بالتخصیص مسلمانوں میں یونانی علم ہیئت کا بڑا رواج ہوگیا تھا۔ یونانیوں نے آسمان کو ایک جسم شفاف صلب کردی الشکل مقعرو محدب کا محیط زمین کے جس میں ستارے جڑے ہوئے ہیں تسلیم کیا تھا، یونانی مسئلے مسلمانوں میں بہت رائج ہوگئے تھے اور سب (الا شاذونادر) بطور سچے مسئلوں کے تسلیم کیے جاتے تھے، یہاں تک کہ قرآن کے بیانات کو بھی ان کے مطابق کیا جاتا تھا، البتہ علماء علم کلام نے یونانیوں کے چند مسائل میں ترمیم اور بعض میں اختلاف کیا تھا جن کو وہ صریح مذہب کے برخلاف سمجھتے تھے، اور اس کے سوا باقی مسائل کو بطور سچ کے تسلیم کرتے تھے۔ آسمانوں کا مسئلہ بھی ایسا ہی تھا۔ جس میں علماء اسلام نے کچھ تھوڑی ترمیم کی تھی ، اور اس کے جسم کردی محیط ارض کے ہونے اور ستاروں کے اس میں جڑے ہوئے ہونے اور آسمانوں کے زمین کے گرد چکر کھانے کو ویسا ہی تسلیم کیا تھا جیسا کہ یونانیوں نے بیان کیا تھا۔ اس لیے تفسیروں میں اور مذہبی کتابوں میں آسمان کئے وہی معنی یا اس کے قریب قریب مروج ہوگئے جو یونانی حکیموں نے بیان کیے تھے، اور بہت بڑی غلطی یہ پڑگئی کہ لفظ تو لیا قرآن کا اور اس کے معنی لیے یونانی حکیموں (نان قال قائل فھل یدل التخصیص علی سبع سموات علی نفی العدد فوائد قلنا الحق ان تخصیص العہ دبا لذکر لا یدل علی نفی الزائد (تفسیر کبیر ) کے، اور رفتہ رفتہ وہ معنی ذہن میں ایسے راسخ ہوگئے کہ ان کا انکار کرنا گویا قرآن کا انکار کرنا ٹھہر گیا، مگر ایسا سمجھنا بناء فاسد علی الفاسد ہے۔
اس لیے میں ان معنوں سے جو اکثر مفسرین سمجھتے ہیں، انکار کرتا ہوں، اور میں کہتا ہوں کہ جن جن چیزوں پر قرآن مجید میں سماء یا سموت کا اطلاق آیا ہے، وہی معنی سماء و سموات ہم قرار دینگے، نہ وہ معنی جو علماء اسلام نے یونانی حکیموں کی پیروی سے قرار دیئے ہیں۔
قرآن مجید میں جس کا بیان اس کے ہر ایک موقعہ پر آویگا، اس وسعت پر بھی سماء کا اطلاق ہوا ہے جو ہر شخص اپنے سر کے اوپر دیکھتا ہے اور اس نیلی نیلی چیز پر بھی ہوا ہے جو گنبدی چھت کے مانند ہر شخص کو اس کے سر کے اوپر دکھائی دیتی ہے۔ اور ان چمکتے چمکتے جسموں پر بھی ہوا ہے جن کو ہم ستارے یا کواکب کہتے تھے۔ بادلوں پر بھی ہوا ہے جو مینہ برساتے ہیں، مگر قرآن نے آسمان کے وہ معنی جو یونانی حکیموں نے بیان کیے ہیں کہیں نہیں بتلائے ، اس لیے ہم ان سے انکار کرتے ہیں، اور جو معنی قرآن نے بتائے ہیں انہی معنوں میں سے کوئی معنی سماء کے لفظ کے سمجھتے ہیں۔
اس مقام پر سماء کے لفظ سے وہ وسعت مراد ہے جو ہر شخص اپنے سر کے اوضر دیکھتا ہے، پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس وسعت کی طرف متوجہ ہوا جو انسان کے سر بلند دکھائی دیتی ہے، اور ٹھیک اس کو سات بلندیاں کردیں، سات سیارہ کواکب کو ہر کوئی جانتا تھا، عرب کے بدو بھی ان سے بخوبی واقف تھے، وہ ستارے اوپر تلے دکھائی دیتے ہیں، یعنی ایک سب سے نیچا، دوسرا اس سے اونچا، اور تیسرا اس سے اونچا، اور علیٰ ہذا القیاس، اور ان کواکب کے سبب جو بطور روشن نشانوں کے اس وسعت مرتفع میں دکھائی دیتے ہیں اس وسعت کے ساتھ جدا جدا حصے یا درجے یا طبقے ہوجاتے ہیں، پس اسی کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کو ٹھیک سات آسمان کردیئے۔
یہ معنی جو ہم نے بیان کیے اگرچہ لوگوں کو ایک نئی بات معلوم ہوتی ہوگی، مگر یہی معنی بعض معتبر مفسروں نے بھی سمجھی ہیں، تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ ” سماء سے یہ اجرام علوی (جن میں کواکب بھی داخل ہیں) مراد ہیں یا اوپر کی طرف ہیں “ پس انہی مجمل لفظوں کی یہ تفصیل ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 30

وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ ۚ وَ نَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۰﴾

تفسیر سرسید :

( واذ قال ربک) اس آیت سے وہ ذکر شروع ہوا ہے جو آدم کا قصہ کہلاتا ہے، تمام مفسرین اس کو ایک واقعی جھگڑا یا مباحثہ سمجھتے ہیں جو خدا اور فرشتوں میں ہوا، تعالیٰ شانہ عما یقولون۔
” ملک “ کے معنی ایلچی یا پیغامچی کے ہیں اعبرانی ، یونانی، اور فارسی میں جو لفظ ملک کے لیے ہے ان سب کے معنی بھی ایلچی کے ہیں۔ جو خدا کا پیغام نبیوں کو پہنچاتا ہے، توراۃ میں بعض جگہ عام ایلچی کے لیے بھی بولا گیا ہے، اور بعض جگہ مذہبی پیشواؤں اور ابرا ور ہوا اور وبا کے لئے، مگر فرشتوں کے وجود کی نسبت لوگوں کے عجیب عجیب خیالات ہیں۔ انسان کی یہ ایک طبعی بات ہے کہ جب کسی ایسی مخلوق کا ذکر ہو جس کو وہ نہیں جانتا ، تو خواہ مخواہ اس کے دل میں اس مخلوق کے ایک جسمانی جسم متحیز کا جس کے رہنے کی کوئی جگہ بھی ہو خیال جاتا ہے، پھر ان کے اوصاف پر خیال کرتے کرتے ان کی ایک صورت جو ان اوصاف کی مقتضی ہوتی ہے اس کے خیال میں قرار پاتی ہے، اور پھر وہ اس بات کو تو بھول جاتا ہے کہ میں اس مخلوق کو نہیں جانتا، نہ میں نے اس کو کبھی دیکھا ہے اور یوں جاننے لگتا ہے کہ وہ مخلوق وہی ہے، جو میرے خیال میں ہے، اور جب وہ خیال لوگوں میں (والمراد بالسماء ھذہ الاجرام العنویۃ اجھات العلو (بیضاوی)
نسل در نسل چلا آیا ہے، تو ایسا مستحکم ہوجاتا ہے کہ گویا اس میں شک و شبہ مطلق ہے ہی نہیں، یہی حال فرشتوں کی نسبت ہوا ہے، ان کو نوری سمجھ کر گورا گورا سفید برف کا رنگ، نوری شمع کی مانند با ہیں، بلور کیسی پنڈلیاں، ہیرے کیسی پاؤں، ایک خوبصورت انسان کی شکل، مگر نہ مرد نہ عورت تصور کیا ہے، آسمان ان کے رہنے کی جگہ قرار دی ہے، آسمان سے زمین پر آنے اور زمین سے آسمان پر جانے کے لیے ان کے پر لگائے ہیں، کسی کو شان دار، اور کسی کو غصہ ور و غضبناک، کسی کو کم شان کا کسی کو صور پھونکتا، کسی کو آتشیں کوڑے سے مینہ برساتا ، خیال کیا ہے، بعض اقوام نے جو زیادہ غور وفکر کی ہے ، تو ان کے لیے نہ جسم مانا ہے، اور نہ ان کا متحیز ہونا تسلیم کیا ہے، اور اس لیے فرشتوں کی نسبت انسانوں کے دو فرقے ہوگئے ہیں، ایک وہ جو فرشتوں کے وجود اور ان کے متحیز ہونے دونوں باتوں کے قائل ہیں، اور ایک وہ کہ ان کے متحیز ہونے کے قائل نہیں، بعض بت پرست سمجھتے تھے کہ فرشتے سعد اور نحس کواکب کی روحیں ہیں مجوسی اور بعض بت پرستوں کا یہ خیال تھا کہ عالم کی ترکیب نور و ظلمت سے ہے، اور نور و ظلمت دونوں موجود و حقیقتیں ہیں، مگر آپس میں مختلف، اور ایک دوسرے کی ضد ، نور کے بھی بال بچے پیدا ہوتے ہیں اور ظلمت کے بھی بال بچے پیدا ہوتے ہیں، مگر نہ اس طرح جیسے کہ انسان اور حیوان جنتے جناتے ہیں، بلکہ اس طرح جیسا کہ حکیم سے حکمت اور روشن چیز سے روشنی اور احمق سے حماقت انور کی اولاد تو فرشتے ہیں، اور ظلمت کی اولاد شیطان، حکماء عقول ہی پر جن کو انھوں نے تسلیم کیا ہے فرشتہ کا اطلاق کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ فرشتے حقیقت موجودہ غیر متحیز ہیں اور ان کی حقیقت نفوس انسانی کی حقیقت سے زیادہ تر قوی ہے ، اور انسان کی بہ نسبت ان کو علم بھی زیادہ ہے، ان میں سے کچھ تو آسمانوں سے اس قسم کا علاقہ رکھتے ہیں جیسا کہ ہمارے بدن سے ہماری روح اور کچھ بجز استغراق کے ذات باری میں کسی چیز سے علاقہ نہیں رکھتے اور ورہی ملائکہ متذبین ہیں ، اور بعض فلاسفہ کہتے ہیں کہ ان کے سوا دو قسمیں اور ہیں ، اور وہ زمین کے فرشتہ ہیں اور دنیا کے امورات کو درست کرتے ہیں، جو نیک کام کرنے والے ہیں وہ تو فرشتے ہیں اور جو بدکام کرنے والے ہیں وہ شیطان ہیں۔
یہودی فرشتوں کو آدمی کی صورت پر مجسم مانتے تھے، اور ان کو اجسام حقیقی سمجھتے تھے، البتہ ان کے جسم کے مادہ کو مثل انسان کے جسم کے مادہ کے نہیں مانتے تھے، بلکہ یہ کہتے تھے کہ ان کا جسم مادہ غلیظ سے مرکب نہیں ہے ، وہ اپنے تئیں انسانوں کو دکھلا بھی دیتے ہیں ان سے بات چیت بھی کرتے ہیں ان کے ساتھ کھانا بھی کھاتے ہیں اور غائب بھی ہوجاتے ہیں، پھر کوئی ان کو نہیں دیکھ سکتا۔ ان کے کھانا کھانے کے باب میں کہتے ہیں، کہ ظاہر میں کھاتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں، مگر انسانوں کی خوراک نہیں کھاتے، بلکہ ان کا کھانا اور ہی کچھ ہے، یہودیوں میں جو ایک صدوقی فرقہ تھا وہ فرشتوں کا قائل نہ تھا، عیسائیوں کا بھی یہی خیال تھا کہ فرشتے جسم رکھتے ہیں، اور مقدس ہیں، انجیل میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو فرشتوں سے برتر کہا گیا ہے، اور بہشتیوں کی نسبت کہا ہے کہ وہ فرشتوں کے مانند ہوں گے ۔
عرب کے بت پرست فرشتوں کو ایک مجسم اور متحیز چیز سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ کھاتے پیتے نہیں، اور نہ کچھ بشری ضرورت ان کو ہے، وہ آسمانوں پر رہتے ہیں اور زمین پر آتے جاتے ہیں، وہ یہ سمجھتے تھے کہ انسان بھی فرشتوں کو زمین پر رہتے چلتے پھرتے دیکھ سکتا ہے، اسی خیال سے وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت کہا کرتے تھے، کہ اگر وہ پیغمبر ہیں تو ان کے ساتھ فرشتے کیوں نہیں ہیں، عام مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے جو عرب کے بت پرستوں کا تھا، وہ فرشتوں کو ہوا کی مانند لطیف اجسام سمجھتے ہیں، اور مختلف شکلوں میں نجانے کی ان میں قدرت جانتے ہیں، اور خیال کرتے ہیں کہ وہ آسمانوں پر رہتے ہیں اور پروا ہیں کہ اڑ کر زمین پر اترتے ہیں، اور زمین پر سے آڑ کر آسمان پر چلے جاتے ہیں اور چیلوں کی طرح آسمان اور زمین کے بیچ میں مڈلاتے ہیں، غرضیکہ تمام اقوام میں فرشتوں کی نسبت انسانی نقائص سے پاک ہونے کا اور ایک اعلیٰ تقدس کا خیال تھا ، اسی خیال کی وجہ سے نیک اور اچھی آدمی کو بھی مجازاً فرشتے کہتے تھے، جیسا کہ حضرت یوسف کو زلیخا کی سہیلیوں نے کہا ” ماھذا بشراً ان ھذا الا ، لک کریم۔
میں کہتا ہوں کہ جس طرح انسان سے فروتر مخلوق کا ایک سلسلہ ہم دیکھتے ہیں اسی طرح انسان سے برتر مخلوق ہونے سے انکار کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، شاید کہ ہو، گو وہ کیسی ہی عجیب اور ناقابل یقین ہو۔ مگر ایسی خلقت کے درحقیقت موجود ہونے کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ اس بات کا ثبوت کہ ایسی خلقت ہے، نہیں ہے، قرآن مجید سے فرشتوں کا ایسا وجود جیسا کہ مسلمانوں نے اعتقاد کر رکھا ہے ثابت نہیں ہوتا، بلکہ برخلاف اس کے پایا جاتا ہے، خدا فرماتا ہے : ” وقالوا لولا انزل علیہ ملک ولو انزلنا ملکا لقضی الا مرتم لا ینظرون۔ ولو جعلنا ھملکا لجعلنا، رجلا و للجسنا علیھم ما یلبسون “ یعنی کافروں نے کہا کہ کیوں نہیں بھیجا پیغمبر کے ساتھ فرشتہ، اور اگر ہم فرشتہ بھیجتے تو بات پوری ہوجاتی اور ڈھیل میں نہ ڈالے جاتے، اور اگر ہم فرشتہ ہی پیغمبر کرتے تو اس کو آدمی ہی بناتے اور بلاشبہ ان کو ایسے ہی شبہ میں ڈالتے جیسا کہ اب شعبہ میں پڑے ہیں۔ اس آیت سے پایا جاتا ہے کہ فرشتے نہ کوئی جسم رکھتے ہیں اور نہ دکھائی دے سکتے ہیں، ان کا ظہور بلا شمول مخلوق موجود کے نہیں ہوسکتا
” لجعلنا رجلا ً “ قید احترازی نہیں ہے، اس جگہ انسان بحث میں تھا اس لیے ”‘ لجعلنا رجلا ً “ فرمایا اور نہ اس سے مراد عالم موجود مخلوق ہے۔
ان باریک باتوں پر غور کرنے سے اور اس بات کے سمجھنے سے کہ خدا تعالیٰ جو اپنے جاہ و جلال اور اپنی قدرت اور اپنے افعال کو فرشتوں سے نسبت کرتا ہے تو جن فرشتوں کا قرآن میں ذکر ہے ان کا کوئی اصلی وجود نہیں ہوسکتا بلکہ خدا کی بےانتہا قدرتوں کے ظہور کو اور ان قوے کو جو خدا نے اپنی تمام مخلوق میں مختلف قسم کے پیدا کیے ہیں۔ ملک یا ملائکہ کہا ہے جن میں سے ایک شیطان یا ابلیس بھی ہے۔ پہاڑوں کی صلابت ، پانی کی رقت ، درختوں کی قوت نمو، برق کی قوت جذب و دفع ، غرضیکہ تمام قوی جنسی مخلوقات موجود ہوئی ہیں اور جو مخلوقات میں ہیں، وہی ملائک و ملائکہ میں جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے ، انسان ایک مجموعہ قواے ملکوتی اور قواے بہیمی کا ہے، اور ان دونوں قوتوں کی بےانتہا ذریات ہیں، جو ہر ایک قسم کی نیکی و بدی میں ظاہر ہوتی ہیں، اور وہی انسان کے فرشتے اور ان کی ذریات، اور وہی انسان کے شیطان اور اس کی ذریات ہیں۔
بعض اکابر اہل اسلام کا بھی یہی مذہب ہے جو میں کہتا ہوں، اور امام محی الدین ابن عربی نے فصوص الحکم میں یہی مسلک اختیار کیا ہے، شیخ عارف باللہ مویدالدین ابن محمود المعروف بالجندی نے، جو مریدان خاص شیخ صدر الدین قونوی، مرید امام محی الدین ابن عربی سے ہیں، شرح فصوص الحکم میں فرشتوں کی نسبت بہت بڑی بحث لکھی ہے۔
شیخ (رح) اپنی اصطلاح میں تمام عالم کو مجموع (قال الشیخ (رض) فی فصوص الحکم ” وکانت الملئکۃ من بعض قوی شک الصورۃ التیھی صورۃ العالم المعبر عنہ فی اصطلاح القوم بالانسان الکبیر “ قال الشیخ موید الدین ابن محمود الجندی الذی اخذ الطریق من الشیخ صدوالذین تھانوی وھو عن الشیخ محی الدین ابن العربی صاحب الفصوص۔ اعلم ان الملئکۃ ھی ارواح القوی القائمۃ بالصرر الحسیۃ والارواح النفسیۃ والعقلیۃ القدسیۃ و تسمی تھا ملیئکۃ لکنھار وابطہ و موصلاث الاحکام الرباینۃ والاثارالھیۃ الی العوالم الجسمانیۃ نان الملک فی اللغۃ ھوالقوۃ والشدۃ فلما قویت ھذء الارواح بالا نوار الربانی متایدت واھتدت بھا و قریت النس الربانیۃ والا سماء الا لھیۃ ایضاً علی لیستاع احکاء بار اٰثار ھاوایصال انوارھا واظھارھا سمیت ملئکۃ وھم ینقسمون الی علوی روحانی وسفلی طبیعی و عنصری و مثالی و نورانی فمنھم الہتمعون منھم للسخرون ومنھم المرادۃ من الا عمال بالا قوال والانفاس والصافون والحانون والعالون الی اخرما قال “ قال الشیخ (رض) ” فکانت الملئکۃ کالقوی الروحانبۃ والحسیۃ التی فی نشاعت الانسان وکل قوۃ منہا محجوبہ بنفسہا لاری افضل من ذاتہا “ قال الشارح “ القوی الحسیۃ التی فی نشات الانسانھی التی متعلقا تھا المحسوسات کالا بصار والسماع والشم واذوق والمس وما تحت ھذہ الکلمات من الانواع والشخصیات واما القوی الرجاینۃ فکا المتحبلۃ والمتفکرۃ و الحافظۃ والذاکرۃ وللھاقادر حمالنا طقاترھذہ القوی الکلیاقت وشخصہاتھانی حیطۃ الرواح النفسانی ومنشاء ھا ومجاری تصرفاتہا واحکامہا واثرھا الدماغوکالقوی الطبیعیۃ مثل الجاذبۃ والماسکۃ والطضمۃ والغانیۃ والمنمیۃ و الربیۃ والصیرۃ و شخصیا تھا راجعۃ الی الروح الطبعی وکا علم والعلم والرقلر والعناۃ والشجاعۃ والعدالتر والسیاسہ والنخرۃ والریاسۃ وغیرھا مما تحتہا من الشخصیات والانواع بالمما تدرذالمشاکل و المسائنۃ والمناترۃ عائدۃ الی روح الحیوانی والنفسانی و کما ان ھذہ لقوی منبثۃ فی اقطار نشاۃ الانسان وانکان لکل جنس وصنہف ونوع من ھذہ القوی مجلا خصیصا بہا ھو محل ظہور احکامہ واثارہ ومنشا حقائقہ واسرارہ ولکن حکم جمعیۃ الانسان سارفی الکل بالکل ذلذلک العالم الذی ھوالانسان الکبیر فی زعمہم کلیات ھذہ القوی وامھا تھا بجزئیا تھا وانوعھا وشخصیا تھا منتشرۃ و منبثۃ فی فضاء السموات والارضین و ما بینھما وما فہ قہعا امین الحوالہ وتعینات ھذہ القوی والارواح فی کل حال بما ینا سبہ ویواختہ علی الرجہ الذی یار ویطابقہ و بہا ملاک الامرالنازل من حضرات الریرببۃ )
من حیث المجموع انسان کبیر کہتے ہیں، اور انسان کو انسان صغیر، مقصود ان کا اس اصطلاح سے یہ ہے کہ انسان عالم کی ایک فرد ہے، اور جس قدر قوی انسان میں ہیں وہ جزئیات ہیں، اور جو اس کے کلیات ہیں وہ انسان کبیر ہے، اور فرماتے ہیں، کہ اس عالم یعنی انسان کبیر کے جو قوے ہیں انہی میں سے بعض کا نام ملائک ہے۔
شیخ (رح) ارقام فرماتے ہیں کہ وہ قوے جن کو ملائک کہتے ہیں انسان کبیر یعنی عالم کے لیے ایسے ہیں جیسے انسان کے لیے قوی ہیں، شارح کہتے ہیں کہ دیکھنا اور سننا اور سونگھنا اور چکھنا اور چھونا جو انسان میں ہے، وہ سب انہی قوے سے ملکوتی حسیہ کے ماتحت ہیں اور قوت متخیلہ اور متفکرہ اور حافظہ اور ذاکرہ اور عاقلہ و ناطقہ انہی قواے ملکوتی روحانیہ کے تابع ہیں، اور جاذبہ اور ما سکہ اور ہاضمہ اور غاذیہ اور منمیہ اور مربیہ اور مصورہ انہی قواے ملکوتی طبعیہ میں داخل ہیں، اور حلم اور علم اور وقار اور سمجھ اور شجاعت اور عدالت اور سیاست اور ریاست انہی قوای ملکوتی حیوانیہ میں شامل ہیں، اور یہ تمام قویٰ آسمان و زمین اور ان کی فضا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
پس شیخ اور ان کے متبع بھی ملائکہ کا اطلاق صرف قواے عالم پر کرتے ہیں ، ہمارے استنباط اور شیخ (رح) کے استنباط میں صرف اتنا فرق ہے ، کہ شیخ کے نزدیک تمام قواے جو اجسام مرثیہ وغیر مرئیہ اور اشیاء محسوسہ وغیر محسوسہ میں ہیں وہ جزئیات ہیں اور جو ان کے کلیات ہیں وہ ملائک ہیں، اور یہ جزئیات ان کے ذریات ، شیخ (رح) نے اپنے مکاشفہ سے ان جزئیات کے کلیات کو جانا ہوگا، مگر جو کہ ہم کو وہ مکاشفہ حاصل نہیں ہے، اس لیے ہم انھیں قویٰ کو جن کو شیخ اور ان کے متبع ذریات ملائکہ قرار دیتے ہیں ملائکہ کہتے ہیں، مطلب ایک ہی صرف لفظوں یا جاننے نا جاننے کا پھیر ہے۔
شیطان کی نسبت تو قیصری شرح فصوص میں نہایت صاف صاف وہی (فی القیصری شرح الفصوص فی ذیل بیان ابلیس ” قیل ابلیس ھو قو قالو ھمیۃ ال کہ تمالتی فی العاط الکبیر والفوی الرھمیۃ التی فی الاشخصاص الا نسانیۃ والحیونیۃ افوادھا لمعارض تھا مع العقل الھادی طریق الحق دفیہ نظر لان نفس المنطبعۃ ھی الامادم یا لس روالرھم من سدن تھا تحت حمھا الا نھا من قواھا فھی اولیٰ بذلک کما قال تعالیٰ و تعلم ما تو مسوس بہ نفسہ وقال ان النفس لامارۃ بالسرء وقال (علیہ السلام) اعدا عبادک فنسنف التھابین جنبیک وقال (علیہ السلام) الشیطن یجرے من نبی اٰدم مجرتے الدم وھذا شان النفس (سورة انبیاء آیت - ) بات لکھی ہے جو ہم نے کہی ہے، اس میں لکھا ہے کہ ” بعضوں نے یہ بات کہی ہے کہ انسان کبیر یعنی عالم میں جو قوت و ہم یہ کلیہ ہے وہی ابلیس ہے، اور ہر ایک انسان میں جو قوت و ہم یہ ہے وہی ابلیس کی ذریات ہیں، مگر شارح کہتا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے، وہم نہیں، بلکہ نفس امارہ جو انسان میں ہے وہی ذریات ابلیس ہے، خدا نے بھی فرمایا ہے ” کہ جو وسوسے دل میں آتے ہیں ان کو ہم جانتے ہیں “ اور فرمایا ہے کہ نفس ہی برائی کرنے کو کہتا ہے “ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے کہ ” سب دشمنوں سے زیادہ دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے پہلوؤں میں ہے “ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ ” شیطان انسان میں خون کی طرح چلتا ہے، اور ٹھیک یہ حالت نفس کی ہے “ غرضیکہ تمام محققین اس بات کے قائل ہیں کہ انہی قواے کو جو انسان میں ہیں اور جن کو نفس امارہ یا قوائی بہیمیہ تعبیر کرتے ہیں یہی شیطان ہے۔
اگر فرض کریں کہ فرشتے اور شیطان ایک علیحدہ وجود رکھتے ہیں جیسا کہ عموماً مسلمانوں کا عقیدہ ہے تو بھی یہ بات بحث طلب ہے کہ کیا نی الواقع یہ مباحثہ خدا اور فرشتوں میں ہوا تھا ؟ کیونکہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ فرشتے خدا سے مباحثہ نہیں کرسکتے، بلکہ اس کے حکم کو بجا لاتے ہیں ، خدا نے فرمایا ہے ” وقالو اتخذ الرحمن ولد سبحانہ بل عباد مکرمون لا یسبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون ، یعنی کافروں نے کہا کہ خدا نے بیٹا بیٹی بنائے ہیں حالانکہ وہ اس سے پاک ہے بلکہ (جن کو وہ بیٹا بیٹی کہتے ہیں وہ ) معزز بندے (یعنی عمدہ مخلوق) ہیں خدا کے آگے بڑھ کر بات نہیں کرتے اور جو وہ کہتا ہے وہی کرتے ہیں، اس آیت سے فرشتوں کو مجال مباحثہ خدا سے نہیں معلوم ہوتی، پھر کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ فی الواقع فرشتوں نے خدا سے مباحثہ یا جھگڑا کیا تھا۔
اصل یہ ہے کہ ان آیتوں میں خدا تعالیٰ انسان کی فطرت کو اور اس کے جذبات کو بتلاتا ہے، اور جو قواے بہیمیہ اس میں ہیں ان کی برائی یا ان کی دشمنی سے اس کو آگاہ کرتا ہے، مگر یہ ایک نہایت دقیق راز تھا جو عام لوگوں کی اور اونٹ چرانے والوں کی فہم سے بہت دور تھا، اس لیے خدا نے انسانی فطرت کی زبان حال سے ، آدم و شیطان کے قصے یا خدا اور فرشتوں کے مباحثہ کی طور پر اس فطرت کو بیان کیا ہے، تاکہ ہر کوئی خواہ اس کو فطرت کا راز سمجھے ، خواہ فرشتوں اور خدا کا مباحثہ، خواہ شیطان و خدا کا جھگڑا، اصلی مقصد حاصل کرنے سے محروم نہ ہے اس طرح پر عام و خاص سمجھدار ناسمجھ عالم و جاہل کا یکساں قرآن مجید سے مقصد پانا درحقیقت بہت بڑا معجزہ قرآن کا ہے۔ توراۃ میں لکھا ہے کہ ، خدا نے فرشتوں سے کہا کہ ، آؤ ہم آدمی کو اپنی صورت پر بنادیں ” یہ مضمون مسلمان مفسروں کے دل میں تھا ، اور وہ اس کو مثل یہودیوں کے ایسا ہی سمجھ رہے تھے جیسا کہ ایک آدمی سے ایک آدمی بات کرتا ہے “ اذقال ربک للملئکۃ “ کو بھی انھوں نے ویسا ہی سمجھا، اور آدم و شیطان کا قصہ بنالیا ورنہ وہ صرف انسان کی فطرت کا زبان حال سے بیان ہو۔
اس طرح مخلوق کی زبان حال سے سوال و جواب میں مطالب کا بیان اور جگہ بھی قرآن مجید میں آیا ہے، خدا نے زمین کی زبان حال سے حکایتاً فرمایا کہ ” جب ہم نے ” آسمان و زمین سے کہا کہ تم دونوں خواہ نخواہ حاضر ہو دونوں نے کہا کہ ہم دونوں بخوشی حاضر ہیں۔ اور جہنم کی نسبت فرمایا : کہ جس دن ہم جہنم کو کہینگے تو بھر گئی ؟ تو وہ کہہ گی کہ ہے اس سے زیادہ اور بھی ؟ پس ان آیتوں میں خدا تعالیٰ نے ایسی چیزوں کی زبان حال سے جو گویا نہیں ہیں، سوال و جواب کے طور پر ان کی فطرت کو جس طرح کہ انسان کے خیال میں آسکتی ہے بیان کیا ہے۔
قصہ یا حکایت کئی طرح پر بیان کی جاتی ہے، اور وہ بیان بالکل سچ ہوتا ہے، کبھی ایک واقعہ کا بیان کیا جاتا ہے جو درحقیقت واقع ہوچکا ہے، مثلاً زید نے عمرو سے تکرار کی اور آخر کار زید نے عمرو کو مار ڈالا، پس اس واقعہ کا بیان کرنا ایک ایسے قصہ اور واقعہ کا بیان کرنا ہے جو واقع ہوچکا ہے، اور وہ بیان بالکل سچ ہے اور کبھی ان واقعات کا بیان کیا جاتا ہے جو انسان خواب میں دیکھتا ہے، جس میں عجیب واقعات پیش آتے ہیں، ان واقعات کا بیان کرنا بھی باوجودیکہ ان میں سے ایک بھی بجز خیال کے ظاہر میں واقع نہیں ہوا، بالکل سچا بیان ہے، بشرطیکہ صراحتاً یا اسارتاً یا کنایہ یا قرینہ سے یا کسی کلام ماسبق سے یا طرز کلام سے پایا جاوے ، کہ یہ بیان ان واقعات کا ہے جو خواب میں دیکھے ہیں۔ اور کبھی کسی کی حالت سے جو امور مترشح ہوتے ہیں، اس حالت کو بطور ایک متکلم کے قرار دے کر اس کی زبان سے قصہ بیان کیا جاتا ہے۔ یہ بیان، اگر خلاف اس حالت کے ہو جس کو بطور متکلم کے قرار دیا ہے (ثم لستوی الی السماء وھی دخان فقال لھا ر الارض انتیا طوعا اوکرھاقالتا اتینا طائعین، (سورة حم سجدہ ) یوم نقول لجھنم ھل امتلئت نقول ھل من مزید (سورة ق آیت ) تو وہ قصہ جھوٹا ہے، اور قرآن مجید میں اس قسم کا کوئی قصہ نہیں ہے، اور اگر وہ حالت اس چیز میں فرض کرلی گئی ہے، اور اس حالت مفروضہ کو متکلم قرار دے کر قصہ بیان کیا گیا ہے، تو وہ صرف ایک شاعرانہ مضمون ہے، اور اگر وہ حالت واقعی اور صحیح ہے، اور بیان بھی اس حالت کے مطابق ہے، تو وہ بیان بھی بالکل سچ اور درست ہے، کیونکہ اس بیان کا منشاء یہ نہیں ہوتا، کہ زمین بولی تھی اور آسمان پکارا تھا اور دوزخ چلائی تھی، بلکہ کسی فائدہ کے لیے صرف اس حالت کی کیفیت کا اظہار مطلوب ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تمام حکایتیں جو کسی کی زبان حال سے تعبیر کی گئی ہیں سب ایسی ہی ہیں اور اس لیے بالکل سچ ہیں۔
امثال کا بھی یہی حال ہے کہ کبھی ایک ایسی بات کی مثال دی جاتی ہے جو درحقیقت واقع ہوچکی ہے، اور کبھی ایک ایسی بات کی بھی مثال دی جاتی ہے جو صرف فرضی ہے، اور کبھی واقع نہیں ہوئی، مگر اس کی مثال دینی نہ غلط ہوتی ہے نہ جھوٹ، قرآن مجید جو انسان کی زبان میں، اور انسان کے محاورہ بول چال میں، نازل ہوا ہے، اور جس میں بہت سی ایسی بھی باتیں ہیں جو ہمارے تجربہ و مشاہدہ سے بالاتر ہیں، اس لیے ان مطالب کو طرح طرح کی مثالوں اور حکایتوں سے بیان کیا ہے، قرآن مجید پر غور کرتے وقت ان چیزوں کا خیال رکھنا، اور تمام تمثیلوں اور حکایتوں کو یوں قرار دینا، کہک یہ یوں ہی واقع ہوچکی ہیں، تفسیر القرآن بمالا یرضی قائلہ میں داخل ہے، صاحب تفسیر کشف الاسرار نے اسی آیت کی بحث میں جس کی ہم تفسیر کررہے ہیں اسی مطلب کی طرف اپنی تفسیر میں اشارہ کیا ہے (قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء ونحن یسبح بحمدک و تقدس لک المعنے ان اللہ تعالیٰ اخبر تانی کتابہ العزیز بما یحب ان یتطع بہ من الاخباو من اول العالم الی لفرہ دلما لم یکن لنا علم ما دلوان یعلمنا سبھیل الاضرب الامثال والا مثال منقسم الی قسمین احدھما دفرضاء لتکاوان یکن وقع فی الرجود الاخر قداکان فی الرجردوجری نالاولیٰ ان یضرب الامثال واقع فی الوجودلنعلم من ذلک مثلہ لا ھجردا الحکایۃ مانقع۔ لھذا کتاب یشتمن اعلی الامثال التی یحتاج بالا مثال فی النفوس من الھیات وھذا قال لقد صرینا للناس فی ھذا القراٰن من کل مثل فاقم (تفسیر کشف ) رالمعنی اللہ تعالیٰ خلقہ من اجن مختلفۃ رقوی مبتاثنۃ مستعد الا دمراک انواع المددکات من المعقولات والمیحہ میات والمتخیلات والمرھومات والھمہ معرفتذوات الاشیاء وخواصہ واسثھا و اصول العنم و قوانین اعنہا عترو کیفید الا تھا (بیضاوی)
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 31

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ ۙ فَقَالَ اَنۡۢبِـُٔوۡنِیۡ بِاَسۡمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۳۱﴾

تفسیر سرسید :

(وعلم اٰدم الاسماء) ” علم “ کے لفظ سے علماء محققین نے پڑھانا یا سکھانا یعنی تعلیم کرنا مراد نہیں لیا ہے، بلکہ انسان میں ان قوے کا مخلوق کرنا مراگد لیا، جن سے انسان تمام چیزوں کو جانتا اور سمجھتا اور خیال کرتا اور سوچتا اور نئی باتیں ظاہر کرتا اور چند باتوں کے ملانے سے ایک نتیجہ نکالتا ہے بیضاوی میں لکھا ہے کہ اس آیت کے معنی یہ ہیں ، کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مختلف اجزا اور متبائن قوتوں سے پیدا کیا تھا جو طرح طرح کے معقولات اور محسوسات اور متخیلات اور متوہمات کے جاننے کے لائق تھیں، اور حقائق اشیاء اور ان کے خواص اور ان کے اسماء اور علوم کے اصول اور صنایع کے قواعد اور ان کے آلات کی کیفیت اس کے دل میں ڈالی تھی، پس جو چیزیں کہ فطرت انسانی میں ہیں انھیں کو خدا تعالیٰ نے تعلیم کرنے کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔” آدم “ کے لفظ سے وہ ذات خاص مراد نہیں ہے، جس کو عوام الناس اور مسجد کے ملاباوا آدم کہتے ہیں، بلکہ اس سے نوع انسانی مراد ہے، جیسا کہ تفسیر کشف الاسرار و ہتک الاستار میں لکھا ہے “ وما المقصود وباٰدم اٰدم وحد “ اور خود خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” لقد خلقنا کم ثم صور ناکم تم قلنا للملئکۃ اسجدوا لاٰدم “ پس ” کم ‘ کا خطاب کل انسانوں کی طرف ہے اور آدم سے بنی آدم یعنی نوع انسان مراد ہیں۔
” اسماء کے لفظ کے معنی اکثر مفسرین نے وہ سمجھے ہیں جس کو ہم نام کہتے ہیں، جیسے گھوڑا، گدھا، ٹٹو یا کلو نتھو بدھو، مگر یہ ٹھیک نہیں ہے بیضاوی نے اسماء کی تفسیر میں اس کے اشتقاقی معنی مراد لیے ہیں پس ” علم اٰدم الاسماء “ سے یہ مراد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو سب چیزوں کے نام بتا دیئے تھے جو درحقیقت اس وقت خارج میں موجود بھی نہ تھیں، بلکہ جو قوی اس میں پیدا کیے ہیں، اور جن کے سبب اس کا ذہن ایک نشان یا دلیل سے دوسری طرف منتقل ہوتا ہے، اور نتیجہ پیدا کرتا ہے، اس کو اسماء کے لفظ سے بیان کیا ہے، اور جو کہ یہ قوی ایسے تھے جن سے انسان تمام چیزوں، محسوسات و معقولات کو جان سکتا ہے، اسی لیے ۔۔۔ کلھا۔۔۔ کے لفظ سے اس کی تاکید کی ہے، جس سے اس بات کا اشارہ ہے کہ تمام چیزوں کے جاننے کا مادہ انسان میں ودیعت کیا گیا ہے، ان قوے کو جو اسماء کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اس میں بڑا دقیقہ یہ ہے، کہ انسان کسی چیز کی حقیقت و ماہیت کو نہیں جانتا جو کچھ وہ جانتا ہے وہ صرف اسماء ہی اسماء ہیں پس ” علم اٰدم الا سماء کلھا “ کہنا بالکل انسان کی فطرت کے مطابق اور اس کے بیان کے نہایت ہی مناسب ہے۔
تفسیر کشف الاسرار میں اس سے بھی زیادہ وضاحت اور عمدگی سے بیان کیا ہے کہ ہر شے کا علم بالقوہ جو انسان کی فطرت میں ہے اسی کو ” علم اٰدم الاسماء “ سے تعبیر کیا ہے۔ پس آیت کے معنی یہ ہوئے، کہ خدا تعالیٰ نے انسان میں ایسے قوی پیدا کئے ہیں، جن سے ہر ایک چیز کو سمجھ سکتا ہے، اور دلیل سے نتیجہ کو حاصل کرسکتا ہے۔ (والاقسم باعتبارا الا ستقانی سافکون علامۃ نشیء وولیلا یرفعرالی کلما ھن من الالفاظ والصقات والا ناعلم ان ملہ جل اسمہ وجدنی اٰدم مایحتاج الید من کون خلقہ علی ماھو علیہ من التقوۃ النا طفہ وھدا مابنور العقل واشھد وبان للشالتور مایحب نکل مسمی من اسم وقد علمت ان کل منطوق باماسم فعلمہ عل الا جھل معہ وھذا لا لعلم فی حیل ذریتا موجودہ علم کل شیء بالقوۃ وکانہ بزراذ اجیدت فلاتسصار کل شیء بالفعل ، علم الانسان مالم یعلم من تذا العلم فی کل رمن رقوم یحسیب ماارادا اللہ (تفسیر کشف الاسرار)
” عرضھم “ میں جو ضمیر جمع مذکر کی ہے اس کا مرجع اوپر مذکور نہیں ہے، اس لیے تمام مفسرین نے اسماء کے لفظ سے جو ضمناً اس کے مسمیات سمجھ میں آتے ہیں، اس طرف اس ضمیر کو راجع کیا ہے، پھر یہ شکل پیش آئی ہے کہ اس کے لیے ضمیر مونث کا ہونا چاہیے تھا، نہ ضمیر جمع مذکر کا۔ اس کا حل صاحب تفسیر بیضاوی نے یہ کیا ہے، کہ مسمیات میں ذوی العقول وغیر ذوی العقول سب شامل تھے، اس لیے تنلیبا ضمیر جمع مذکر کی جو ذوی العقول کے لیے مخصوص ہی لائی گئی ہے۔
مگر میرے نزدیک ” ھم “ کی ضمیر انسانوں کی طرف راجع ہے جو ضمناً لفظ آدم سے سمجھے جاتے ہیں، ہم نے ابھی بتایا ہے کہ آدم سے شخص خاص مراد نہیں ہے، بلکہ انسان مراد ہے، اور اس مقام پر افراد انسانی کا موجود ہونا بھی تسلیم نہیں کیا گیا ہے، بلکہ صرف اس کی فطرت کا بیان کرنا تسلیم ہوا ہے، اور اس لیے ضمیر جمع مذکر غائب کا اس کے لیے لانا بالکل صحیح تھا، گویا خدا تعالیٰ نے تمام چیزوں کے جاننے کی قوت انسان میں اور اس کی ذریات میں ودیعت کیا گیا ہے اسی کو بتلا دو، جب وہ عاجز آئے تو خدا نے انسان سے کہا کہ تو ان حقائق و معارف کو جو فرشتوں میں ہیں بتلا دے اس آیت میں جو ” ھم “ کی ضمیر ہے وہ انسان کی طرف راجع ہے اور ” انبعہم “ اور اسمائھم “ میں جو ” ھم “ کی ضمیر ہے وہ فرشتوں کی طرف راجع ہے۔
اس قصہ میں جو سجدہ کا لفظ آیا ہے اس کے معنی زمین پر سر ٹیکنے کے نہیں ہیں، بلکہ اطاعت و فرمان برداری یا تذلل کے ہیں، سجدہ کے لفظ کو ان معنوں میں مستعل ہونے کے ثبوت میں بیضاوی نے دو شعر نقل کیے ہیں، پہلا شعر یہ ہے :
یجمع تضل البلق فی مجراتہ
تری الا کم فیہ سنجد اللحوافر
یہ شعر زید الخیلی الطائی کا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے ، کہ ٹیلے وجنگل اس کے گھوڑوں کی ٹاپوں کو سجدہ کرتے ہیں، یعنی ٹاپوں کے نیچے ذلیل ہوتے ہیں اور روندے جاتے ہیں، دوسرا شعر یہ ہے :
فقدن لھاوھما ابیا خطامیہ
وتلن لہ اسجد للیلی ناسجد
یہ شعر حمید ابن ثور الہلالی کا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کیسا ہی وحشی و شریر اونٹ لیلیٰ کے سامنے لے جاویں اور لیلیٰ کی سہیلیاں اس کو کہیں کہ لیلیٰ کو سجدہ کر تو سجدہ کرتا ہے، یعنی گردن ڈال کر تابعداری کرتا ہے۔
تین لفظ اس قصہ میں اور ہیں، جنت، شجر، ھبوط، علماء اسلام نے اس کے بیان میں عجیب باتیں کی ہیں ، جو لوگ کو صرف لفظوں ہی پر چلتے ہیں انھوں نے تو جنت کو ایک خیالی بہشت عالم بالا پر مان لیا، اور درخت سے بھی سچ مچ کا کوئی درخت (گیہوں کا یا انور کا یا انجیر کا) اور ” ھبڑ “ سے عالم بالا سے زمین پر گرنا۔
توریت میں بھی یہ قصہ نہایت عمدگی و لطافت سے بیان کیا گیا ہے، اس میں جنت ہے ایک باغ کا دنیا میں آدم کے لیے لگانا، اور اس میں دو درختوں کا ہونا، جن کے کھانے سے آدم کو منع کیا تھا، ایک درخت ، علم خیر وشر، اور دوسرا درخت ، حیات، بیان ہوا ہے۔ یہودی اور عیسائیوں نے بھی توراۃ کے بیان لطیف کو نہایت ابتر و خراب طرح پر بیان کیا ہے، اور یہ سمجھے ہیں کہ درحقیقت خدا نے عدن میں ایک باغ اگایا تھا، اور اس میں سچ مچ کے دو درخت تھے، ایک کی یہ تاثیر تھی کہ اس کے کھانے سے علم خیر و شر آجاتا ہے، جیسے سقمونیا کے کھانے سے دست آجاتے ہیں، اور دوسرے کا پھل امرت پھل ہے، جس کے کھانے سے آدمی کبھی نہیں مرتا۔
پس بہت سے علماء اسلام نے جن کو اس قسم کے تصص میں یہودیوں کی پیروی کرنے کی عادت پڑگئی ہے، ان کی پیروی کی انھوں نے کہا کہ یہ جنت زمین پر تھی اور ہبوط سے انھوں نے جنت سے باہر نکال دینے کے معنی لئے، معتزلہ نے اس کی جگہ بھی بتادی کہ فلسطین میں یا فارس و کرمان کے بیچ میں تھی، اور بعضوں نے کہا کہ سدرۃ المنتہیٰ بھی زمین ہی پر تھا۔
مگر ہم ان معنوں میں سے کسی کو تسلیم نہیں کرتے ہم شروع ہی سے اس قصہ کو ایک واقعہ نہیں سمجھتے بلکہ صرف انسانی فطرت کا اس فطرت کی زبان حال سے بیان قرار دیتے ہیں، پس انسان کا جنت میں رہنا اس کی فطرت کی ایک حالت کا بیان ہی جب تک کہ وہ مکلف کسی امرونہی کا نہ تھا، وللہ درمن قال، طفلی دوامانم اور خوش بہشتی بودہ است چوں بپای خود رواں گشتیم سرگرداں شدیم اور اس کا شجر منوعہ کے پاس جانا یا اس کا پھل کھانا اس کی فطرت کی اس حالت کا بیاں ہے جبکہ وہ اوامرونواہی کا مکلف ہوا ، اور ہبوط سے اس کی فطرت کے اس حالت کا تبدیل ہونا مراد ہے جبکہ وہ غیر مکلف سے مکلف ہوا، ہبوط کے لفظ کا استعمال صرف انتقال مکان ہی پر مختص نہیں ہے۔
اس بات کا ذکر کہ خدا نے کس چیز سے آدم کو یا تمام زمین پر چلنے والے جانداروں کو پیدا کیا، متعدد لفظوں سے قرآن میں آیا ہے، ایک جگہ فرمایا ہے،” انی خالق بشرا من طین “ ایک جگہ فرمایا ہے ” ھوالذی خلق من الماء بشراً “ ایک جگہ فرمایا ہے ” خلق کل دابۃ من الماء “ ایک جگہ فرمایا ہے ” وجعلنا من الماء کل شیء حی “
قال ابوالقاسم البلغی وایرمسلم الا صفہانی ھذہ انجنۃ فی الارض وحمل الا ھباط علی الانتقال من بقعۃ الی نفعۃ کمافی تولد تعالیٰ اھبطوا مضراً (تفسیر کبیر، سورة بقرہ آیت )
وقال المعتزلۃ انھا بستان کان ہارض فلسطین اوبین الناس والکرمان خلقہ اللہ تعالیٰ امتحانا لاٰدم قال القاضی ان سدرۃ الت تھی فی الارض سمیت بھا لا ان علم الملئکۃ بینتی الیھا زمرعاۃ ھبا ثمن السلعۃ ھبوطا، نقص وھبط الا وھبطا (قاموس)
” طثراب “ کے معنی مٹی کے ہیں ” طین “ کے معنی گارے کے ہیں، ” صلصال “ کے معنی ریتلے گارے کے ہیں، اور ” حمامسنون “ اس بدبو کیچڑ کو کہتے ہیں جو پانی کی نیچے بیٹھی ہوئی ہوتی ہے، ” الماء “ کا لفظ تین جگہ آیا ہے ” خلق کل دابۃ من الماء اور ” جعلنا من الماء کل شیء حی “ ان دونوں مقام میں جو لفظ ” ثاء “ ہے اس سے تو نطفہ مراد ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ دابر کے پہلے جو لفظ ” کل “ ہے اس میں تمام وابہ جو زمین پرچلتے ہیں داخل ہیں ، چنانچہ خود قرآن میں اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے کہ ” منہم من یمشی علی بطنہ ومنہم من یمشی علی رجلین و منہم من یمشی علی اربع “ اور بہت سے وابہ ایسے ہیں جو نطفے سے پیدا نہیں ہوتے اور ” من الماء بشراً “ میں جو لفظ ” ماء “ ہے اس سے بھی نطفہ مراد نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ یہاں بیان انسان کی اول خلقت کا ہے : اور خلقت اول انسان کی نطفہ سے نہیں ہوسکتی بلکہ اس سے دریا یا سمندر کا پانی مراد ہے ، اور دلیل اس کی یہ ہے کہ اسی آیت کے اوپر خدا نے فرمایا ہے ” ھوالذی مرج البحرین ھذا عذب فرات وھذا ملح اجاج وجعل بینما برزخاوحجرا محجورا “ اس کے بعد فرماتا ہے ” وھوالذی خلق من الماء بشرا “ پس الماء میں جو الف لام ہے وہ صاف اسی پانی کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کا اوپر بیان ہے، بیضاوی نے بھی بطور قول مرجح اسی بات کو اختیار کیا ہے، اور پانی سے وہی پانی مراد لیا ہے، پس ان تمام آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں کی ترکیب کیمیاوی سے جو نتیجہ پیدا ہوتا ہے اس سے انسان مخلوق ہوا ہے۔
دو چیزوں کا آپس میں مرکب ہونا دو طرح پر ہوتا ہے، ایک اس طرح پر کہ ظاہر میں ان خلق من الماء بشرا یعنی الذی خمریہ طینۃ اٰدم ادجعلہ جزعامن مادہ البشر لتجتمح وتسلسل وتقبل الا شکال والحیات بھولۃ (بیضاوی)
دونوں کے اجسام مل گئے اور دیر کے بعد پھر جدا ہوگئے، مثلاً ہم ایک بوتل میں پانی اور نہایت باریک ریت ڈالیں اور بوتل کو خوب ہلادیں تو ریت اور پانی بالکل مل جاویگا، مگر جب تھوڑی دیر رکھ دیں تو ریت الگ اور پانی الگ ہوجاویگا۔ یا ہم مٹی میں پانی ڈال کر اس کو گارا بنادیں تو مٹی اور پانی مل جاویگا، مگر جب رہنے دیں تو پانی ہوا ہو کر نکل جاویگا اور نری مٹی رہے جاویگی، اس طرح پر دو چیزوں کا مرکب ہونا درحقیقت حقیقی ترکیب نہیں ہے۔
اور ترکیب کیمیاوی یہ ہے کہ دو چیزیں آپس میں اس طرح پر ملیں کہ از خود وجدا نہ ہوسکیں، بلکہ وہ دونوں مل کر ایک تیسری چیز بن جاوے۔ پس ، تراب، اور ، طین، اور صلصاں اور حمامسنوں، اور ماء کی ترکیب کیمیاوی سے جو چیز پیدا ہوتی ہے، اس سے انسان پیدا ہوا ہے، وہ چیز غالباً وہ ہے جو سطح آب پر جمع ہوجاتی ہے، اور نہ وہ مٹی ہوتی ہے نہ ریت نہ گارا نہ کیچڑ بلکہ ان سب کی ترکیب کیمیاوی سے ایک اور ہی چیز بن جاتی ہے ، اور معلوم ہوتا ہے کہ اسی سے تمام جاندار، انسان و حیوان، مخلوق ہوتے ہیں، اور یہی بات قرآن سے پائی جاتی ہے۔
قرآن مجید میں آدم کا قصہ آٹھ جگہ آیا ہے، سورة بقر، سورة آل عمران، سورة اعراف ، سورة حجر، سورة بنی اسرائیل، سورة کہف، سورة طہ، سورة ص، میں کسی جگہ کوئی مضمون بیان ہوا ہے، کسی جگہ کوئی، کسی جگہ اجمال ہے، کسی جگہ تفصیل ، کسی جگہ ایک مضمون کو کسی لفظ سے ظاہر کیا ہے، دوسری جگہ کسی لفظ سے، مگر سب کا نتیجہ یا مقصد متحد ہے، ہم حاشیہ پر ان آٹھوں جگہ کی آیتوں کو اس طرح پر جمع کرتے ہیں :(واذقال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ قالوا اتجھل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء ونحن نسبح بحمد ونقدس لک قال انی اعلم مالاتعلمون (سورة بقر) انی خالق بشرا من شین (ص) من تراب (آل عمران) من صلصال من حماء مسنون (الحجر) وعلم اٰدم الا مساء کلھا اثم عرضہم علی الملئکۃ فقال النبونی باسماء ھوہء ان کنتم صدقین قالوا سبحنک لا علم لنا الا مما علمتنا انک انت العلیم الحکیم قال یاٰدم انبئھم باسماہ م فلما اشیاء ھم باسمائھم قال الم اقل الکم انی علم غیب السموات والارض واعلم منید دن وما کنتم تکتمون (بقر) و لقد خلقتنا کم ثم صورنا کم ثم قلنا اللملئکۃ اسجدہ الاٰدم (سورة اعراف) ناذا سویتہ ونفخت فیہ من ووحی فقعوالہ سجدین (الحجر) الہ ابلیس لم یکن من الشجدین (اعراف) کان من الجن ففسق عن مروبہ (الکہف) ابی ان یکرن مع السجدین (الحجر) واستکبروکان من الکفرین (بقر) قال یا بلیس مالک الا تکون مع السجدین (الحجر) ما متعک انتسجد لما خلقت بی دیتی استکبر قام کنت من العالین (ص) ما منعک لا تسجد اذ مرتک (اعراف) قال اسجد من خلقت طینا (بنی اسرائیل) لم اکن لا سجد البشر خلقتہ من صلصال من حماء مسنوت (الحجر) انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلت من طین (اعراف) قال فاھبط منہا فما یکون لک ان تتکبر فیھا فاصح منھا مدومامدحورا (اعراف) فانک رجیم۔ ان علیک اللعنۃ الی یوم الدین (الحجر) انک من الصغرین قال انظرنی انی یوم مریبعثون قال انک من المنظرین (اعراف) الی یوم الوقت المعلوم قال رب بما اغویتنی لازینن لھم فی الارض (الحجر) فبعزتک لا غوینہم اجمعین (ص) لا قعدن لھم صراطک المستقیم ثم لا ینتھم من بین ایدیھم ومن خلفہم وعن ایمانہم وعن مثائلھم ولا تجداکثرھم شاکرین (اعراف) وال اوینک ھذا الذی کر مت علی لئن اخرتن الحریوم القیمۃ لا ممتکن ذریتہ الا قلیلا (بنی اسرائیل) الا عباد منہم المخلصین قال ھذا صراط علی مستقیم (الحجر) قال فالحق والحق اقول (ص) لمن تبعک منہم لا ملئن جھنم (اعراف) منک وممن تبعک منھم اجمعین (ص) اذھب فمن تبعک منہم فان جھنم جزاء کم جزاء موفورا فاستفزز من استطعت منہم بصوئک واجلب علیہم بخیلک ووجلک و مثاکھم فی الاموال والا رلا دو عدھم وما یعد ھو الشیطان الا غرورا (بنی اسرائیل) ان عبادی لیس لک علیہم سلطان الا من اتبعک من الغادین (الحجر) وکفی بربک وکیلا (بنی اسرائیل) وقلنا (بقر) یا اٰدم اسکن انت وزوجک الجنۃ فلا (اعراف) منھا رغدا (پھر) حیث شئتما ولا تقربا ھذہ الشجرۃ فتکوبا من الظلمین (اعراف) فقلنا یاٰدم ان ھذا عدولک ولزوجک فلا یخرجنکم من الجنۃ فنشقی ان لک لا تجرع فیھا ولا تعری وانک لا تظما ینھا ولا تضحی (طہ) فوسوس ھم الشیطن لیبدی لھما مادو ہے عنھا من سواتھما (اعراف) قال یاٰدم ھن اولک علی شجرۃ الخلد وملک لا یلی (طہ) وقال مانھا کما ربکما عن ھذہ الشجرۃ الا ان تکون ملکین اوتکونا من الخلدون وقاسمھما انی لکما لمن الناصحین فد لھما بغرورفلتما ذاتا الشکرۃ بدت لھما سواٰتھما وطفعا یخصغان علیما من ورزق الجنۃ (اعراف) وناداھماربما الم انہکما عن تلکما الشجرۃ واقل لکما ان الشیطن لکما عدو مبین (اعراف) فازلھما الشیطن عنھا فاخرجہا مما کا نافیہ وقلنا اھبطرا بعضکم لبعض عدو ولکم فی الارض مستقرو متاع الی حین (بقر قال فیہا تحیون) وفیھا تموتون ومنھا تخرجون (الاعراف) وعصیٰ اٰدم ربہ فقوے (طہ) فتلقے اٰدم من ربہ بکلمات فتاب علیہ انہ ھو التواب الرحیم (بقر) قالا ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخسرین (اعراف) ثم اجتباہ ربہ فتاب علیہ وھدی (طہ) قلنا اھبطوا منھا جمیعا فاما یاتینکم من ھدے فمن تبع ھدے افلاخوف علیہم ولا ھم یحزنون (بقر) فلا یضل ولا یشقے (طہ) اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں بولے کیا تو اس میں ایسے خلیفہ کرے گا جو اس میں فساد کرے اور خون بہائے اور ہم تیری تعریف جپتے ہیں اور تجھ پاک کو یاد کرتے ہیں کہاں جانتا ہوں وہ کچھ جو تم نہیں جانتے۔ میں پیدا کرنے والا ہوں ایک آدمی گارے، مٹی ریتلے گارے، بدبوکیچڑ سے، اللہ نے آدم کو سب نام سکھا دیئے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ مجھ کو ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو بولے تو ہی برگزیدہ ہے تونے جو کچھ ہم کو سکھایا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے بیشک تو ہی جاننے والا حکمت والا ہے کہا اے آدم ان کے نام ان کو بتادے پھر جب آدم نے ان کے نام ان کو بتا دیئے خدا نے کہا کہ میں نہ تم کہتا تھا کہ میں آسمانوں کی اور زمین کی چھپی ہوئی باتوں کو جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو اس کو بھی جانتا ہوں۔ بیشک ہم نے تم کو پیدا کیا اور تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ جب میں اس کو ٹھیک کرچکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کو سجدہ کرتے ہوئے جھک پڑو، پھر سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر شیطان نے نہیں کیا وہ سجدہ کرنے والوں میں نہ تھا وہ جن میں سے تھا پس نافرمانی کی اس نے اپنے پروردگار کی سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کیا، اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے تھا خدا نے کہا اے ابلیس کیوں تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا کس چیز نے تجھ کو منع کیا کہ سجدہ کرے اس کو حسی میں نے اپنے ہاتھ سے بنایا تکبر کیا تونے یا تو بڑوں میں ہے کس بات نے تجھ کو روکا میرے حکم کرنے پر بھی تو سجدہ کرے۔ ابلیس نے کہا کہ کیا میں ایسے کو سجدہ کروں جسے تونے گارے سے پیدا کیا ہے میں ایسا نہیں ہوں کہ اس کو سجدہ کروں جسے تونے سڑی مٹی سے بنایا ہے میں اس سے بہتر ہوں، مجھ کو تونے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو گارے اور بدبو کیچڑ سے پیدا کیا ہے میں اس سے بہتر ہوں مجھ کو تونے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو گارے سے خدا نے کہہ دیا یہاں تجھ کو نہیں چاہیے تھا کہ یہاں تکبر کرتا یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا بیشک تو مردود ہے اور بیشک تجھ پر قیامت تک لعنت رہیگی بیشک تو ذلیلوں میں ہے ابلیس نے کہا کہ قیامت تک مواخذہ نہ ہونے کی مجھے مہلت دے خدا نے کہا تجھ کو مہلت دی گئی وقت معین تک ابلیس نے کہا کہ اے پروردگار مجھ کو تیرے بہکانے ہی کی شیم کہ میں دنیا میں بری باتوں کو انھیں اچھی کر دکھاؤنگا اور قسم ہے تیری عزت کی ان سب کو بہکاؤنگا اور ان کے لیے تیرے سیدھے رستہ کی راہ ماری کرنے کو گھات میں بیٹھونگا پھر ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان پر آن پڑونگا اور تو ان میں سے بہتوں کو شکر کرنے والا نہ پاویگا ابلیس نے کہا کہ مجھے بتا کہ کیوں اس شخص کو مجھ پر بزرگی دی ہے اگر تو نے مجھے قیامت تک مہلت دی تو اس شخص کی اولاد کو بجز چند کے جڑ پیر سے اکھاڑدونگا بجز تیرے خالص بندوں کے جو ان میں ہوں خدا نے کہا کہ خالص بندہ ہونا ہی میرے تک پہنچنے کا سیدھا رستہ ہے خدا نے کہا کہ سچ بات یہ ہے اور سچ ہی کہتا ہوں جو لوگ ان میں سے تیری پیروی کرینگے بیشک بھڑونگا جہنم کو تجھ سے اور ان سب سے جنہوں نے ان میں سے تیری پیروی کی جا پھر جو کوئی ان میں سے تیری پیروی کرے گا تو بیشک جہنم تمہاری سزا ہوگی پوری سزا بہکا ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے اور چڑھ جا ان پر اپنے سوار و پیدل لے کر اور حصہ بانٹ لے ان کے مال میں اور اولاد میں اور ان سے وعدہ کرلے اور کوئی وعدہ ان سے شیطان نہیں کرنے کا بجز دھوکے کے بیشک میرے بندوں پر تجھ کو کچھ غلبہ نہیں ہے بجز ان گمراہوں کے جنہوں نے تیری پیروی کی اور اے پیغمبر تیرا خدا ان کی کارسازی کے لیے کافی ہے خدا نے کہا اے آدم تو اور تیرا جوڑا جنت میں رہ اور کھاؤ اس میں سے پیٹ بھر کر جہاں سے تم چاہو اور اس درخت کے پاس مت جاؤ اگر جاؤ گے تو ظالموں میں سے ہوگے۔ خدا نے کہا اے آدم یا بلیس بیشک تیرا اور تیرے جوڑے کا دشمن ہے یہ تم کو جنت میں سے نہ نکال دے کہ تم بدبخت ہوجاؤ یہاں تو تم نہ بھوکے ہوگے نہ ننگے ہوگے نہ یہاں پیاسے ہوگے اور نہ دھوپ میں جلو گے۔ پھر وسوسے میں ڈال دیا ان کو شیطان نے تاکہ جو پوشیدہ برئیاں ان میں تھیں ان کو ظاہر کردے شیطان نے کہا اے آدم کیا بتلا دوں میں تجھ کو ہمیشہ رہنے کا درخت اور پرانی نہ ہونے والی سلطنت اور کہا کہ خدا نے تم کو بجز اس کے اور کس لیے اس درخت سے منع نہیں کیا کہ تم فرشتے ہوجاؤ گے یا ہمیشہ رہو گے اور ان سے قسم کھا کر کہا کہ بےشبہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں پھر ان کو دھوکے میں ڈال دیا پھر جب انھوں نے اس درخت کو چکھا تو ان دونوں کی شرمگاہیں ظاہر ہوگئیں اور انھوں نے بہشت کے درخت کے پتوں سے ان کو چھپانا شروع کیا خدا نے ان دونوں کو للکارا کہ کیا میں نے تم اس درخت کے کھانے سے منع نہیں کیا تھا اور تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان تمہارا اعلانیہ دشمن ہے پس ان کو شیطان نے اس سے ڈگمگا دیا اور جس میں تھے اس میں سے نکال دیا خدا نے کہا دور ہو تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن چلو اور تمہارے لیے ایک مدت تک زمین میں رہنا اور اس سے منفعت اٹھانی ہو اس میں تم جیو گے اس میں مرو گے اس میں سے اٹھو گے نافرمانی کی آدم نے اپنے پروردگار کی اور بہک گیا پھر آدم کے دل میں ڈالیں اس کے پروردگار نے چند باتیں پھر اس کو خدا نے معاف کیا وہ بیشک بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے آدم اور اس کی جورو نے کہا اے پروردگار ہمارے ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم کو نہ بخشے گا اور نہ مہربانی کری گا تو بیشک ہم نقصان والوں میں ہوں گے پھر اس کے پروردگار نے اس کو پسند کیا اور اس کو معاف کیا اور سیدھی راہ بتائی خدا نے کہا کہ تم سب یہاں سے دور ہو پھر میرے پاس سے تمہارے پاس ہدایت پہنچے گی پھر جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا تو اس پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوگا اور نہ بہکے گا اور نہ بدبخت ہوگا۔ )
جس میں تمام مضمون اور الفاظ ایک جگہ سلسلہ وار جمع ہوجاویں اور اس کے مقابل میں ان کا ترجمہ بھی اسی سلسلہ سے لکھتے ہیں تاکہ کل قصہ انہی الفاظ میں جو قرآن میں آئے ہیں ایک جگہ ہوجاوے، اور پھر اپنی سمجھ کے موافق جو ہم نے قرآن کا مطلب سمجھا ہے اسی قصہ کو بیان کرتے ہیں تاکہ پڑھنے والے بخوبی دونوں بیانوں کا مقابلہ کرسکیں۔
اس قصہ میں چار فریق بیان ہوئے ہیں، ایک خدا، دوسرے فرشتے، (یعنی قواے ملکوتی) تیسرے ابلیس یا شیطان ، (یعنی قواے بہیمی) چوتھے آدم، (یعنی انسان جو مجموعہ ان قواے کا ہی اور جس میں عورت ، و مرد دونوں شامل ہیں) مقصود قصہ کا انسانی فطرت کی زبان حال سے انسان کی فطرت کا بیان کرنا ہے۔ خدا جو سب کا پیدا کرنے والا ہے ، گویا قواے ملکوتی کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ میں ایک مخلوق یعنی انسان کثیف مادہ سے پیدا کرنے کو ہوں، مگر وہی میرا نائب ہونے کے لائق ہے،
جب میں اس کو پیدا کرچکوں تو تم سب اس کو سجدہ کرنا، اس مقام پر مخاطبین کو اس بات کا کہ اس مخلوق میں قوائے بہیمیہ ہوں گے عالم قرار دیا گیا، اور بمقتضائے فطرت ان قواے کے ، انھوں نے کہا کہ کیا تو ایسے کو خلیفہ کرے گا جو زمین پر فساد مچاوے اور خون بہاوے ، اور قواے ملکوتی نے اپنی فطرت اس طرح بیان کی، کہ ہم تو تیری ہی تعریف کرتے ہیں اور تجھ پاک کو یاد کرتے ہیں۔
پچھلا فقرہ قوے کی فطرت کو بھی بتاتا ہے، جو قوے جس کام کے لیے ہیں وہی کام کرتے رہتے ہیں، کہ وہی ان کی تسبیح اور تقدیس ہے ، قوت نامیہ، انماء اور قوت ناطقہ نطق ، قوت احراق، حرق، قوت سیالہ، سیلان، قوت جامدہ، انجماد کے روا اور کچھ نہیں کرسکتی، انسان باوجودیکہ قواے متضاوہ ملکوتیہ و بہیمیہ سے مرکب ہے، مگر اس میں ایسی قدرت ہے کہ ایک قوت پر دوسری قوت کو غلبہ ہوسکتا ہے، اور جس قوت سے چاہے کام لے سکتا ہے، غیر معلوم چیزوں کو جان جاتا ہے عالم کے اجزا میں ترکیب دے کر ایک نئی چیز ایجاد کرلیتا ہے۔ اور عالم کے تبدل میں ایک بڑی مداخلت رکھتا ہے، اور ٹھیک خدا کا نائب کہلانے کا مستحق ہے۔
انسان کی فطرت کا مخاطبین پر فطرتی تفوق ظاہر کرنے کو، تمام کمالات نفسانی و روحانی و حقائق و معارف کو انسان کی فطرت میں ودیعت کر کے، جس کو تعلیم اسماء سے تعبیر کیا ہے، انسان کو مخاطبین کے سامنے کیا، کہ جو حقائق و معارف ان میں ہیں ان کو بتلاؤ، قواے بسیط کی فطرت میں اس کا علم نہ تھا، پس گویا وہ بولے کہ ہم تو ان کمالات کو نہیں جانتے، ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا بونے بتایا ہے، یعنی جس محدود فطرت پر پیدا کیا ہے اس کے سوا کچھ نہیں کرسکتے، مگر انسان کی زبان حال نے جس کی فطرت میں اور ایک کلیات و جزئیات تھا مخاطبین کی حقیقت کو بتادیا اور گویا مخاطبین نے زک پائی، اب خدا اپنی قدرت و کمال کے اظہار کے لیے انسانی محاورہ کے موافق جیسا کہ انسان کسی کو زک دے کر دھراتا ہے فرمایا ہے، کہ کیوں میں نہ کہتا تھا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔
اس کے بعد خدا تعالیٰ نے ان قواے متضادہ کی جن سے انسان مرکب ہے اس طرح فطرت بتائی ہے، کہ قواے ملکوتی اطاعت پذیر و فرمان بردار ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں، الاقوائے بہمییہ نہایت سرکش اور نا فرمان بردار ہیں انہی کو قابو میں لانا اور فرمان برداری کرنا انسان کا انسان ہونا ہے۔
ان کے سرکش ہونے کو کبھی تو ان لفظوں سے بیان کیا ہے کہ ابلیس نے سجدہ نہیں کیا، کہیں یوں فرمایا ہے کہ اس نے اپنے خدا کے حکم کی نافرمانی کی اور سجدہ کرنے سے انکار کیا، کہیں فرمایا ہے کہ اس کافر نے غرور کیا اور کہا کہ کیا میں ایسی مخلوق کو سجدہ کروں جو سڑی مٹی سے بنی ہے، میں تو اس سے افضل ہوں وہ تو مٹی کا پتلا ہے اور میں آگ کا پوت ہوں۔ قواے بہیمیہ کو جن کا مبدا حرارت عزیز و حرارت خارجی ہے آگ سے مخلوق ہونا بیان کرنا ٹھیک ٹھیک ان کی فطرت کا بتلا دینا ہے پھر جو فطرتی تضاد ان دونوں قسم کے قوی میں ہے ، اس کے اظہار کے لیے قواے بہیمیہ کو بطور ایک سخت دشمن کے قرار دیا ہے، اور اس کی زبان حال سے اس کی فطرت بیان کی ہے، کہ میں ہمیشہ جب تک انسان زندہ ہے یا قیامت تک یعنی جب تک اس کی اولاد رہیگی اس کو بہکاتا اور راہ راست پر سے بھٹکاتا رہونگا۔ یہ الفاظ کہ میں انسان کو دائیں بائیں آگے پیچھے غرضیکہ ہر چار طرف سے گھیرونگا صاف صاف ان قواے بہیمیہ کی فطرت کا اظہار کرتے ہیں جو انسان میں ہے، اور ہر ذی عقل وہوش غور کرنے پر خود اپنے میں یہ سب باتیں پاتا ہے، اور جان سکتا ہے کہ کس طرح ان قواے بہیمیہ نے چاروں طرف سے ان کو گھیر رکھا ہے۔
درمیان قعروریا تختہ بندم کر وہ۔۔ بازمی گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش پھر خدا تعالیٰ نے نیک آدمیوں کی فطرت کو، اور اس دشمن کے فریب میں آنے والوں، اور نہ آنے والوں کے فطری نتیجہ کو بتایا ہے اور فرماتا ہے کہ تو جتنی چاہو دشمنی کر، اور جس طرح چاہے اپنے لشکر سے ان پر چڑھائی کر ، مگر نیک آدمیوں پر تیرا کچھ قابو نہ ہوگا، وہی بہکے گے جو تیرے یعنی قواے بہیمیہ کے تابع ہونے والے ہیں، اور دونوں کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ پہلے بہشت میں چین کرینگے اور پچھلے دوزخ میں بھرے جاوینگے۔
اس کے بعد خدا تعالیٰ نے انسان کی زندگی کے دونوں حصوں کو بتایا ہے پہلے حصہ کو یعنی جبکہ انسان غیر مکلف اور تمام قیود سے مبرا ہوتا ہے بہشت میں رہنے اور چین کرنے اور میوؤں کے کھاتے رہنے سے تعبیر کیا ہے، اور جب دوسرا حصہ اس کی زندگی کا شروع ہونے والا ہے تو اس کے قدیم دشمن کو پھر بلایا ہے جس نے اس کو بہکا کر درخت ممنوعہ کو کھلایا ہے۔
یہ وہ حصہ انسان کی زندگی کا ہے جبکہ اس کو رشد ہوتا ہے ، اور عقل و تمیز کے درخت کا پھل کھا کر مکلف اور اپنے تمام افعال و اقوال و حرکات کا ذمہ دار ہوتا ہے، زندگی کے ضروری سامان کے لیے خود محنت کرتا ہے، اور نیک و بد کو خود سمجھتا ہے، اپنی بدی سے واقف ہوتا ہے، اور اس کو چھپاتا ہے، یہ فطرت انسانی خدا تعالیٰ نے باغ کے استعارہ میں بیان کی ہے، اس لیے تمام فطرت کو باغ ہی کے استعارہ میں بیان فرمایا ہے، سن رشدو تمیز کے پہنچنے کو درخت معرفت خیر و شر کے پھل کھانے سے، اور انسان کا اپنے بدیوں کے چھپانے کو درخت کے پتوں سے ڈھانکنے سے تعبیر کیا ہے، مگر شجرۃ الخلد کے پھل تک اس کو نہیں پہنچایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک فانی وجود ہے اور اس کو دائمی بقا نہیں۔
اخیر کو نہایت عمدگی سے اس کا خاتمہ بیان کیا ہے، کہ تم سب نکل جاؤ اور جاکر زمین پر رہو وہی تمہارے ٹھہرنے کی جگہ ہے، اس میں تم رہو گے، اس میں مرو گے، اس میں سے اٹھو گے ، تمہاری بدیوں کا علاج بھی وہیں ہے، جو نیک بندے ہوں ان کی ہدایت پر چلنا اور اپنی بدیوں سے شرمندہ ہو کر ان کے کرنے سے باز آنا اور خدا سے پکا اقرار کرنا کہ پھر نہ کرینگے اور پھر مت کرنا، تم اپنے دشمن پر فتح پاؤ گے پھر تم کو کچھ ڈر اور خوف نہ ہوگا اچھے خاصے مقبول بندے ہوگے۔
یہ ایک نہایت عمدہ اور دلچسپ بیان فطرت انسانی کا ہے، مگر عام لوگ اس راز فطرت کے سمجھنے کے قابل نہ تھے، اس لیے خدا نے ابتدا سے اس راز کو ایک دلچسپ قصہ کے پیرایہ میں بیان کیا ہے، جس کو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے، اور جو نتیجہ ، راز فطرت ہے انسان کو حاصل ہونا چاہیے، وہ ہر شخص کو حاصل ہوتا ہے۔ خواہ تم یہ سمجھو کہ خدا نہ فرشتوں میں مباحثہ ہوا، اور شیطان نے خدا سے نافرمانی کی، اور آدم بھی گیہوں کا درخت کھا کر خدا کا نا فرمان بردار ہوا، خواہ میں یوں سمجھوں کہ اس بڑے تماشا کرنے والے نے جو بھانمتی کا ایک تماشا بنایا ہے اس کے راز کو اس بھانمت کی اصطلاح میں بتایا ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 47

یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۷﴾

تفسیر سرسید :

(بنی اسرائیل ) اس مقام پر خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا قصہ بیان کیا ہے اور ان کی نافرمانی کو دو ھرایا ہے اور جو مہربانیاں ان پر کیں ان کو یاد دلایا ہے تاکہ اس رحمت کو جو نبی آخرالزمان کے پیدا کرنے اور قرآن کے نازل ہونے سے دنیا پر ہے اس کی قدر کریں اور اس کی ہدایت پر چلیں اور جو خرابیاں انھوں نے اپنے سچے مذہب میں ملادی تھیں ان کو چھوڑ دیں اور نجات پاویں۔
بنی اسرائیل کا قصہ قرآن میں بہت جگہ مذکور ہے مگر اکثر لوگوں کو اس میں یہ دھوکا ہوتا ہے کہ وہ تمام واقعات کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی کے وقت میں ہونا سمجھتے ہیں حالانکہ ان میں ایسے بھی واقعات ہیں جو حضرت موسیٰ سے پہلے اور ان کے بعد بھی ہوئے ہیں۔
حضرت موسیٰ سے جو واقعات متعلق ہیں وہ سورة بقر، نساء، مائدہ، انعام، اعراف، یونس، ہود، بنی اسرائیل، کہف، مریم، طہ ، مومنین، شعرا، نمل، قصص ، صافات، مومن، زخرف، دخان، نازعات، بیس سورتوں میں آئے ہیں ان میں بھی مضامین بیان ہوئے ہیں اور کسی میں کسی جگہ کا وقاعہ بیان ہوا ہے کسی میں کسی کا ہم ان تمام آیات اور الفاظ کو منتخب کر کے بہ ترتیب موسیٰ کے قصہ کو معہ ترجمہ حاشیہ پر لکھ دیتے ہیں
کہ تمام قصہ جس قدر کہ قرآن مجید میں ہی بلفظہ بہ ترتیب معلوم ہوجاوے اور پھر ہر ایک آیت کے مطلب کو اس کے مناسب مقام پر بیان کرینگے ۔
سورة بقرہ میں اس مقام پر جو واقعات حضرت موسیٰ کے بیان ہوئے ہیں ان میں سے واقعہ عبور بحرا اور غرق فرعون قابل غور کے ہے اول تو بہت لوگوں نے
نتلو علیک من بتاء موسیٰ و فرعون بالحق لقوم یومنون لن فرعون علانی الارض وجعل لمحلھا شیعایتضعف طائفۃ منھم یذبح بناء ھم ویستحیی نبیاء ھم اتہ کان من المفسدین (قصص) یسومونکم (آل فرعون) سوء العذاب (بقر) یقتلون (اعراف) یذبحون ابناء کم ویستحیون نساء کرونی ذالکم بلاء من ربکم عظیم (بقر) نریدان نمن علے الذین استضعفوانی الارس ونجعلھم ائمۃ ونجعلھم الوارثین و تمکن لھم فے الارض و تری فرعون وھامان و جنود سمامنھم ماکانوا یحذرون (قصص) واوجینا الی ام موسیٰ ان ارضعیہ فاذلخفت علیہ (قصص) اقذفیہ فی التابوت (طہ) فالقیہ (قصص) قاقذ فیہ فی الیم فلیقہ التم یاک حزیاخذہ عدقہ لی وعدولہ (طہ) ولا تخافی ولا تحربے انا رادہ الیک رجاعلوہ من لمرسلین فالتقطہ ال فرعون (قصص) فبصرت رای اخت موسیٰ بہ عن جنب وھم لا یشعرون (قصص)
قالت امراۃ فرعون قرۃ عین لی ولک لا تقبلو عسی ان یضفعنا او نتخذہ (قصص) وحرمنا علیہ الرسنع من قبل فقالت ھل ادلکم علی اھل بیت یکفلونہ لکم وھم لہ ناصحون فرددنہ الی امہ کی تقرعینھا ولا تحزن (قصص) ولمام بلغ اشدہ واستوی (قصص) دخل المدینۃ علی حین غفحۃ من اھلھا فوجد فیھا رجلین یقتتلان ھذا من شیعتہ وھذا من عدوۃ فاستغفۃ الذی من شیعتہ علی الذی من عدوہ فوکزہ موسیٰ فقضی علیہ (قصص) فاصبح فی المدینۃ خانفایترقب فاذا الذی استنصرہ بالامس لیتصوخہ قال لہ موسیٰ انک لغوی مبین فلما ان ارادن یبطش بالذی ھو عدولھما قال یا موسیٰ اترید ان تقتلنی کما قتلت نفسیا بالا مس (قصص) وجاء رجل من اقطی المدینۃ یسعیٰ قال یا موسیٰ ان الملاء یا تمرون بک لیقتلوک فاخرج انی لک من النا صحین فخرج منھا خائفا یترقب قال رب نجنی من القوم الظلمین (قصص) قال موسیٰ نصتاہ لاابرح حتی ابلغ مجمع البجرین اوا مضیٰ حتبافلما بلغا مجمع بحیھما نسیا حو تھنمافاتخذ سبیلہ فی البحرسریا فلما جاوزا قال لفتاہ اتنا غدائنا لقد لقینا من سفر ناھذا فعبا قال ارایت اذ اویتا الی الصخرہ فانی نسیت الحوت وما انسائیہ الا الشیطن ان اذکرہ واتخذ سبیل فی البحر عجبا قال ذلک ما کنا تبغ فارتدا علی اثار ھما قصصا فوجد اعبدا من عبادنا اتیناہ رحمۃ من عند ناف ھمناہ من لدنا علما قال لہ موسیٰ ھل اتبعک علی ان تعلمن مما علت رشدا قال انک لن تستطیع معی صبرا وکیف تصبر علی مالم تحت بہ خبرا قال ستجدنی ان شاء اللہ صابرا ولا اعصی لک امرا قال فان تبعتتی فلا تسلنی عن شیء حتیٰ احدیث لک منہ ذکرا فانطلقا حتی اذاکیانی السفینہ خرقھا قال اخرقتہا لتغرق اھلھا لقد جئت شیئا امرا قال الم اقل انک لن تستطیع معی صبرا قال لا نزاخذنی بما نسیت ولا ترھقنی سن امری عسرانا قطلقا حتی اذا القیا غلاما فقتلہ قال اقتلت نفسازکیۃ بغیر نفس لقد جنت شیئا نکرا قال الم اقل لک انک لن تستطیع معی صبرا قال ان سالتک عن شیء بعدھا فلا تصاحبنی قد بلغت من لدنی عذرا فانطلقا حتی اذا ایتا اھل قریۃ استطعمھا اھھا فابوا ان یضیو ھما فوجدا فیھا جداوا یرید ان ینقض فاقا مہ قال لو شئت لتخذت علیہ اجرا قال ھذا فراق بحینی اور بینک سانجئک ب تاویل مالم تستطع علیہ صبرا ما السفینۃ فکانت لمساکین یعملون فی البحر فاردت ان اعیبھا وکان وراء ھم ملک یاخذ کل سفینۃ غضیبا واما الغلام فکان ابواہ مومنین فخشینا ان یرھقھما طغیانا وکفرا فاردنا ان یبدلھما ربھما خیرا منہ زکرۃ و اثرت رحما واما اتجدار فکان لغلامین یتیمین فی المدینۃ و مکان تحتہ کنزلھما وکان ابوھما صالحا فاراد ربک ان یبلغا الشدھما ویستخرجا کنز لھما رحمۃ من ربک وما فعلت عن امری ذلک تھا ویل مالم تستطع علیہ صبرا (کہف) ولما نوجہ تلقاء مدین قال عیسیٰ ربی ان یہدینی سواء السبیل و لم اور دماء مدین وجد علیہ امۃ من الناس سیقون ووجدمن دونھم امراتین تذودان قال ما خطبکما قالتا لا تسقی حتی یصدزالرعاء وایونا شیخ سیر فسقی لھما ثم تولی الی الظل قال رب انی لما انزلت ابی من خیر ففیر فجاء تہ احدبھما تمشی علی استحیاء قالت ان ابی یدعوک لیجزیک تجر ماسفہت انا نلما جاء وقص علیہ القصص قال لا تخف نجوت من القوم الظالمین قالت اھدا ھما یا ابت استاجرہ ان خیر من استاجرت القوی الا میں قال انی اریدان انکحک اجدی ابنتی ھاتین علی ان تاجرنے شی ححج فان اتممت عشرا فمن عندک وما اریدان شق علیک ستجدنی انشاء اللہ من الصلحین قال ذلک بینی وبینک ایما الا جلین فضیت فلا عدوان علی واللہ علی مانقول وکیل (قصص) فلبثت سنین فی اھل مدین ثم جئت علی قدر یا موسیٰ فلما مضی موسیٰ الاجل و سارباھل انس من جانب الطور نارا قال لاھلہ امکثوا انی انست نارالعلی اتیکم منہا بخبر (قصص) وایتکم بشہاب قبس (نمل) جذوۃ من النار لعلکم تصطلون (قصص) واجد علی النار مدے (طہ) فلما اتا ھانودی من شاطی الزری الایمن (قصص من جانب الطور الایمن مریم) فی البقعہ المبارکۃ من الشجرا (قصص) ان یررک مننی النارو من حولھا و سبحان اللہ رب العلمین یا موسین انہ انا اونہ العزیز الحکیم (نمل) انی انا للہ رب العالمین (قصص) انی انا ربک فاخلع نعلیک انک بالواد المقدس طویٰ (طہ) ما تلک بیمینک یا موسیٰ قالھی عصای اترکاء علیھا واھش بہا علی غنمی ولی منہا مارب احزی (طہ) الق عصاک فلماو لما تھتز کانھا جان ولی مدبرا ولم یعقب یا موسیٰ اقبل (قصص) خدھا ولا تخف سنعید ھاسیر تھا الاولیٰ (طہ) اسلک یدک فی جیبک (قصص) واذھم یدک الی جناحک تخرج بیضاء من غیرسوء ایۃ اخری (طہ) واضمم الیک جناحک من الرھب فذلک برھان من ربک (قصص) فی تسع ایات (نمل) الی فرعون وملاہ انھم کانوا قوما فاسقین (قصص) وتربناہ مخیا (مریم) ثم ارسلنا موسیٰ واخاہ ہارون با یاتنا رسلطان مبین الی فرعون وملاہ (ہود) ھامان وقارون (مومن) ان اخرج قومک من الظلمت الی النور (ہود) ان ائت القوم الظالمین قوم فرعون (شعرا) اذھب الی فرعون انہ طغیٰ (تازعات) قال رب انی اخان ان یکذبون (شعرا) رب انی قتلت منھم نفسا (قصص) وھم علی نسب فاخاف ان یقتلون (شعرا) ویضیق صدری ولا ینطلق لسانی (شعرا) رب اشرح لی صدری ویسرلی امریواجعلل عقدۃ من لسانی یفھوا قولی (طہ) واخی ہارون ھوا فصح منی لسانا (قصص) اجعل لی وزیرا من اھلی ہارون اخی (طہ) فارسل الی ہارون (شعرا) فارسلہ معی دا (قصص) قال سنشدعند لشبا خیک ونجعل لکما سلطانا (قصص) قال قد اویعت سئرلک یا موسیٰ (طہ) اذھب انت واخوک باباتی ولا تنیا فی ذکری اذھبا الی فرعون انہ طغی (طہ) قال کلاناھبا بایاتنا انا معکم مستمعون فاتیا فرعون فقرلا انا رسول رب العالمین ان ارسل معنا بنی اسرائیل (شعرا) نقولا لہ حولا لینا لعلہ یتذکرار یخشی قال ربنا اتنا نخاف ان یفرط علینا اوان یطغی قال لا تجافا اننی معکما اسمع واری فایتاہ (طہ) فقال ھل لک الی ان تزکی و اھدیک الی ربک تخشی (نازعات) فقولا انا رسولا ربک فارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبھم قدجئناک یایۃ من ربک (طہ)
قال فمن ربکما یا موسیٰ قال ربنا الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی قال فما بال القرون یا ولی قال علمھا عند ربی (طہ) قال فرعون یارب العالمین قال رب السموت والارض وما بینھا الکنتم موقنین قال المرحواہ الا تستمعون قال ربکم ورب ابائکما لا ولین قال ان رسولکم الذی ارسل الیکم مجنون قال رب المشرق والمغرب وما بینھما انکنتم تعقلون قال لئن اتخذت الھا غیری لا جعلنک من المسجونین (شعرا) قال الم خبک فینا ولید ارلبثت فینا من عمرک سنین وفعلت فعلتک التی فعلت وانت من الکافرین قال فعلتھا اذا وانا من الضالین ففروت منکم لما خقتکم فوھب لی وبی حکما وجعلنی من المرسلین بتلک نعمۃ تمنھا علی ان عبدت بنی اسرائیل (شعرا) قال ان کنت جئت بایۃ فات بھا (اعراف) ان کنت من الصدقین فالقی عصاہ فاذاھی ثعبان مبین و نزع یدہ فاذاھی بیضاء للناظرین (شعرا) قال موسیٰ یا فرعون لابانی رسول من رب العالمین حقیق علی ان لا اقواعلی اللہ الا الحق قد جئتکم ببینۃ من ربکم فارسل معی بنی اسرائیل (اعراف) فاستکبر ھم و جنودہ فی الارض بغیر الحق وظنوا انھم الینا لا یرجعون (ھود) فاستکبروا اوکانو قوما عالین (مومن) مجرمین (یونس) قالوا امومن لبشرین مثلنا و قومھما لنا عابدون (مومن) فقلموا (اعراف) فکذبوھما (مومن) فقالی ساحرکذاب (مومن) قال للملاء حولہ ان ھذا الساحر علیم یریدان یخرجکم من ارضکم بسحرہ نماز اتامرون قالوا وجہ واجاہ وابعث (شعرا) الرسل فی المدائن حاشرین یا توک بکل ساحر علیم (اعراف) قال اجئتنا التخرجنا من ارضنا بسحرک یا موسین فلنا تینک بسحر مثلہ فاجعل بیننا وبینک موعد الا نخلفہ نحن ولا انت مکانا ہوی قامل موعد، کم یوم الزینۃ وان یحشرالناس حنحیی قتولی فرعون مجمع کیدہ ثم اتی (طہ) قال فرعون ائتونی بکل ساحرہ علیم (یونس) مجمع السحرۃ لمیقات یوم معلوم وقیل فلناس ھل انعم مجمعون لعلنا نتبع السحرۃ ان کانوھم الغالبین (شعرا) فلما جاء السحرۃ فرعون قالوا ائن لنا لا جرا این کنا نحن الغالبین قال نعم وانکم اذا لمن المعزبین (شعرا) فتنازعوامرھم نبی نھم علمرو النجوی قالوا ان ھذان لساحران یرید ان انہ یخرجاکم من ارضکم بسحر ھما ویذھبا بطریقنتکم المثلی فاجمعوا کیدکم ثم اثقا اصفاوقد افلح الیوم من استعلی (طہ) اما ان یکون نحن الملقین قال القوا فلما اقوا سحروا اعین الناس یسترھبوھم و جاء وابسحر عظیم (اعراف) فالقو لحبالھم و عظیبم وقالو انعزۃ فرعون انا لنحن الغلبون (شعرا) قافاحیالھم و عصیھم یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعی (طہ) فلما القوا قال موسیٰ ماجئتم بہ السحران اللہ سیبطلہ (یونس) فاوجس فی نفسہ خفیفۃ موسیٰ قلنا لا تخف انک انت الا علی (طہ) واوحینا الی موسیٰ ان الق عصاک فاذاھی تلقف ما یافکون (اعراف) فالقی عصاہ فاذاھی تلقف مایافکون (شعرا) ماصنعوا انما صنعوا کید ساحرو لا یفلح الساحر حیث اتی (طہ) فوقع الحق وبطل ماکانوا یعملون فغلبوا ھنالک وانقلبوا اصاغرین والقی السحرۃ ساجدین (اعراف) سجدا (طہ) قالوا منا رب العلمین رب موسیٰ وھرون قال فرعون امنتم بہ قبل ان اذن لکم ان ھذا المکر مکرتمرہ فی المدینۃ لتخرجوا منھا اھلھا نموف تعلمون (اعراف) انا لکیبر کم الذی علمکوالسحر لا قطعن ایدیکم و رجلکم من خلاف ولا صلبنکم فی جذوع النخل ولتعلمن اینا اشد عذابا وابقی قالوالن نوثرک علی ماجاء نا من البینات والذی فطرنا فافض ماانت قاض (طہ) وما تنقم منا الا ان امنا بایات ربنا لما جاوتنا ربنا افرغ علینا صبرا وتوقنا مسلمین (اعراف) ولقد اخذنا ال فرعون بالسنین ونقص من الثمرات لعلھم یذکرون فاذا جاء تھم الحسنۃ قالوا لنا ھذہ وان تصبھم شیئۃ یطیروا یموسیٰ ومن معہ الا انما طائر ھم عنداللہ ولکن اکثرھم لا یعلمون وقالوا مھما ناتنابہ من ایۃ للتسحرنا بھا فما نحن لک بمومنین فارسلنا علیھم الطوفان والجراد والقمل والففادع والدمایات مفصلات فاستکبروا وکانوا قوما مجرمین (اعراف) فلما جاء تھم ایتنا مبصرۃ قالیٰ ھذا سحرمین وجحد وابھا (نمل) ولقد اریناہ ایاتنا کلھا کفذب وابی (طہ) فلما جاء ھم موسیٰ یا اتنا قالوا ما ھذا الا سحر مفتری وما سمعنا بھذانی ایائنا الاولین وقال موسیٰ ربی اعلم یمن جاء بالھدی من عندہ ومن تکون لہ عاقبۃ الدار (قصص) قالوا اجئتنا لتلفتنا عما وجد ناعلیہ اباء نا وتکون لکما الکبریاء فی الارض وما نحن لکما بمومنین (یونس) قال فرعون یا ایھا الملاء۔۔۔ ما علمت لکم من الہ غیری فاوتد لی یاھا مان علی الطین فاجعل لی (قصص) ابن لی (مومن) صرحا لعلی اطلع الی الہ موسیٰ (قصص) لعلی بلغ الاسباب اسباب بالسموات (مومن) لانی لا ظنہ من الکذبین (قصص) وجاء ھم ای قوم فرعون رسول کریم ان ادوا ابی عباد اللہ انی لکم رسول امین وان لا تعلوا علی اللہ انی اتکم بسلطان مبین وانی عدت بربی وربکم ترجعون ران لم تومنوا الی فاعتزلونا (دخان) فلما جاء ھم بالحق من عندنا قالوا اففلوا ابنا الذین امنوا مع واسحرا نساء ھم و ما کیدالکفرین الا فی ضلل وقال فرعون درونی اقتلوا موسیٰ ولیدع ربہ انی اخاف ان یبدل دینکم وان یظھرنی الارض الفساد (مومن) وقال رجل مومن من ال فرعون ربکم ایمانہ اتقلون رجلا ان بقول ربی اللہ وقد جاء کم بالبینت من ربکم وان یک کاذبا فعلیہ کذبہ وان یک صادق ایصبکم بعض الذی یعدکم ان اللہ لا یھدی من ھو مسرف کذاب یقوم لکم الملک الیوم ظاھرین فی الارض فمن ینصرنا من باس اللہ ان جازنا قال فرعون ماریکم الا ماوی وما اھدیکم الا سبیل الوشاد (مومن) وقال الذی امن یا قوم انی اخاف علیکم مثل یوم الاحزاب مثل داب قوم۔۔۔ نوح وعاد ز ثموددو والذین من بعدھم وما اللہ یرید ظلما اللعبادیا قوم الی اخاف علیکم یوم التنادیوام تولون مدبرین مالکم من اللہ من عاصم ومن یضلل اللہ فمالہ من ھاد (مومن) ولقد جاء کم یوسف من قبل بالبینات نماز لتم فی شک مماجاء کم بہ حتی اذاھلک قلتم لن یبعث اللہ من بعد رسولا (مومن) وقال فرعون یا ھامان بن لی صرحا العلی ابلغ الاسباب اسباب السموت فاطلع الی الہ موسیٰ وانی لا ظنہ کا ذباوکداب زین لفرعون سوء عملہ وصد عن السبیل وما کیدفرعون الا فی ثیاب (مومن) ان قارون کان من قوم موسیٰ لبغی علیھم وایتنا من الکنوز ما ان مفاتحہ لتنوء بالعصبۃ اولی القوۃ اذ قال لہ قومہ لا تغرح ان اللہ لا یحب الفرحین وابتغ فیما اتاک اللہ الدار الاخرۃ ولا تنس نصیبک من الدنیا واحسن کما احسن اللہ الیک ولاتبغ الفساد فی الارض ان اللہ یا یحب المفسدین قال انما اوتیتہ علی علم عندی اولم یعلم ان اللہ کذاھلک من قبلۃ من القرون من ھواشنہ منہ قوۃ و اکثر جمیعا ولا یسئل عن ذنوبھم المجرمون فخرج علی تو مدنی زینتہ قال الذین یریدون الحیوۃ الدنیا یالیت لنا مثل ماوتی قارون انہ لذوحظہ عظیم وقال الذین اوتوالعلم ویلکم ثواب اللہ خیر لن امن و عمل صالحاً ولا یلقاھا الاالصایرون فخسفنا بہ وبدارہ الارض فما کان لہ من فہ ینصرونہ من دون اللہ وما کان من المنتصرین واصبح الذین تمنوا مکانہ بالامس یقولون تری کان اللہ یبسط الرزق لمن یشاء من عبادہ ویعتدر لو لا ان من اللہ علینا الخسف بناؤ یکلم لا یفلح الکافرون (قصص) وناوی فرعون فی قومہ قال یقوم الیس لی ملک مصر وھذہ الانہار تجری من تحتی افلا تبصرون لم انا خیر من ھذا الذی ھو مھین ولا یکاد یین تلولا القی علیہ اسورہ من ذھب اوجاء معہ الملائکۃ مقرتین (زخرف) ولما وقع علیھم الرجز قالوا یا موسیٰ الدع لنا ربک بما عھد عندک لئن کشفت عما الرجز لنومنن لک ولنرسلن معک بنی اسرائیل فلما کشفنا عنھم الرجز الی اجل ھم بالغواذاھم ینکثون (اعراف) و اخذناھم بالعذاب لعلھم رجعون وقالو ایایھا الساحر ادع لنا ربک بما عہد عندک اننا لمھتدون (زخرف) قال موسیٰ ربنا انک اتیت فرعون وملا ئزینۃ واموالا فی الحیوۃ الدنیا ربنا لیصلوبحن سبیلک ربنا اطمس علی اموالھم واشدد علی قلوبھم فلایق منوا حتی یعد العذاب الالیم قال قد اجیبت دعوتکما فاستقیم ولا تتبعان سبیل الذین لا یعلمون (یونس) قال موسیٰ لقومہ استعینوا باللہ واصبر وان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ وہ العاقبۃ للمتقین قالوا وذینا من قبل ان تاتینا ومن بعد ماجئتنا قال عسیٰ ربکمان بہلک عدوکم ویستخلفکم فی الارض فلینظر کیف تعملون (اعراف) ولقد اوحینا الی موسیٰ ان اسی بعبادی فاضرب لھم طریقانی البحر نیسالا تخاف درکاولا تخشی (ط) فاسربعبادی لیلاانکم متبعون وائزک البحر رھوانھم جند مغرتوقن (دخان) ن اضرب تعبصاک البحر فانقلق فکان کل فوق کالطودالعظیم (شعرا) وانغرقتا بکم البحر فانجینکم واغرقنا ال فرعون ویتیم منتظرون (بقرہ) فاتبعوھم مشرقین فلما تراء الجمعان قال اصحاب موسیٰ انا لمدرکون قال کلا ان معی ربی سیدبن (شعرا) فاتبعھم فرعون بجنودہ فغشیھم من الیم ما غشیھم واصل فرعون تومہ وما ھدی وازلفنا ثم الا خرین وانجینا موسیٰ وسن معہ اجمعین ثم اغرقنا الاخرین (شعرا) فانتقمنا منھم فاغرقنا حم فی الیم بانھم کذبوا بایاتنا وکانوا عنھا غافلین فاخذناہ و جنودہ فنبذ ناھم فی الیم (قصص) فارادان یستفزھم من الارض فاغرقنا ومن معہ جمیعا وقلنا من بعدہ لبنی اسرائیل اسکنوا الارض فاذا جاء وعدالاخرۃ جئنا بکم لفیفا (بنی اسرائیل)
و ظلمنا علیکم الغمام وانزلنا علیکم للن والسلویٰ کلوا من طیبات مارزقنکم وما ظلمونا ولکن کانوا انفسھم یظلمون (بقرہ) ونزلنا علیکم المن والسلویٰ کلو من طیبات ما رزقنکم ولا تطغوافیہ نجل علیکم غضبی ومن یحلل علیہ غضبی فقد ھوی وتطعنا ھم اثنتی عشرۃ اسباطا ایاو اوحینا لی موسیٰ اذا ستسقاء قومہ ان اضرب بعصاک الحجر فابنجست (اعراف) فانفجرت منہ اثنتا عشتی عینا قد علم کل اناس مشربھم کلوا راشربوا من رزق اللہ ولا تعثوافی الارض مفسدین (بقر) واذ قلتم یا موسیٰ لن نصبر علی طعام واحد فادع لنا ربک مخرج لنا مما تنبت الارض من بقلھا وقئا ئھا وقومھا وعد سہا وبصلھا قال استیدلون الذی ھوادنی بالذی ھو یرا ھبطوا مصرا فان لکم ما سالتم (بقر) وجاوزنا بجنی اسرائیل البحر فاتوا علی قوم یعکفون علی اصنام لھم قالوا یا موسیٰ اجعل لنا الھا کمالھم الھۃ قال لکم قوم تجھلون ان ھؤلاء متیرماھم فیہ و باطل ماکانو یعملون (اعراف) واذقلنا ادخلوا ھذہ القریۃ فکلوا منھا حیث شئتیم رغدا ادخلوالباب سجدا وقولو احطۃ نغفرلکم خطایاکم وسنزید المحسنین فبدل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لھم نار سلنا علیھم رجزا من السماء بما کانوا یفسقون یظلمون ولما جاء موسیٰ لمیقتنا کلمہ ربہ قال رب ارنی انظر الیک قال لن ترانی ولکن انظرانی الجبل فان استقر مکانہ فسوف ترانی فلما تجلی ربہ الجس جعلہ دکا و خرموسیٰ صعقہ فلما قاق قال سبحانک تبت الیک وانا اول المومنین قال یموسیٰ انی اصطفیتک و علی الناس برسالاق نہ بکارومی فخذ ماتیتک رکن من الشاکرین (اعراف) واذ قلتم یا موسیٰ لن نومن لک حتی نری اللہ جھرۃ الترواختار موسیٰ قومہ سبعین رجلا لمیقاتنا (اعراف) فاخذتکم الصعقۃ وانتم تنظرون ثم بعثنا کم من بعد موتکم لعلکم تشکرون (بقر) فلما اخذنھم الرجفۃ قال رب لوشئت اھلکتھم من قبل رایای (اعراف) واخذنا میثاقکم ورفعنا فی قکم الطور خذواما اتینا کم بقوۃ و اذکروامانیہ لعلکم تتقون (بقر) واذ نتقنا الجبل قوقھم کانہ ظلۃ وظنوا انہ واقع بھم خذواما اتینا کم بقوۃ (اعراف) وما اعجلک عن قومک یموسیٰ قال ھم ھولاء علی اثری وعجلت الیات رب ایرضی وواعدنا موسین ثلثین لیۃ واتممہا بعشر فتم میقات ربہ اربعین لیلۃ وقال موسیٰ لاخیہ ہارون اخلفنی فی قومی واصلح ولا تتبع سبیل المفسدین (اعراف) واتخذ قوم موسیٰ من بعدہ من حلیھم عجلا جسد الہ خوار (اعراف) قال ناقاقد فتنا قومک من بعدک واضلھم السامری (طہ) فاخرج لھم عجلا جسدالہ حزار فقالوا ھذا الھکم والہ موسیٰ فنسی افلایرون ان لایرجع الیھم قولا ولا ملک لھم ضرار لا نفعھا ولقد قال لھم ہارون من قبل یا قوم انما فتنتم بہ وان ربکم الرحمن فاتبعونی واطعیوا امری قالوا لن نبرح علیہ عاکفین حتی یرجع الینا موسیٰ (طہ) خرجع موسیٰ الی قمہ غضبان اسفا (طہ) قال موسیٰ لقومہ یا قوم انکم ظلمتم انفسکم باتحاذکم العجل فتوبوا الی بارئکم فافتلوا انفسکم ذلکم خیرلکم عند بارئکم (بقر) ان الذین اتخذ والعجل سینالھم غضب مردھم نزذلۃ فی الحیوۃ الدنیا (اعراب)
قال یا قوم الم یعد کم ربکم وعدا حسنا افطال علیکم العھد امرار تم ان یحل علیکم غضب من ربکم فاخلفتم موعدی (طہ) قال بئسما خلضتمونی من بعد اعجلتم امر ربکم والقی لالواح واخذ براس احیہ یحرہ الیہ قالا بن لم ان القوم استضعفونی وکادوا یقتلوننی فلا تشمت بی الا عداء و لا تجعلنی مع القوم الظالمین (اعراف) انی خشیت ان تقول فرقت بین بنی اسرائیل ولم ترقب قولی (طہ) قالواما اخلقنا من عدک بملکنا ولکنا حملنا وازار امن زینۃ القوم فقد فناھا فکذلک القی السامری (طہ) قال فما خطبک یا سامری قال بصرت بما لم بصروا بہ فقبضت قبضۃ من اثرالرسول فنبذتھا وکذبلک سولت لی نفسی قال ناذھب فان لک فی الحیوۃ ان تقول لا مساس (طہ) ولما سکت عن موسیٰ الغضب اخذ الا لواح وفی نسختھا ھدی ورحمۃ للذین ھم لوبھم یرھبون (اعراف) ثم اتینا موسیٰ الکتاب تماما علی الذی احسن وتفصیلا لکل شیء وھدی ورحمۃ لعلھم بلقاء ربھم یومنون (انعام) ولقد اخذاللہ میثاق بنی اسرائیل و بعثنا منھم اثنی عشیر بقیبا وقال اللہ انی معکم لان اقمتم الصلوۃ اتیتم الزکوۃ و امنتم برسلی و عزرتموھم واقرضتم اللہ قرضا حسنا (مائدہ) اذ قال موسیٰ لقومہ ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرہ قالواتتخذما ھزواقال اعوذ باللہ ان اکون من الجاھلین قالوا ادع لنا ربک یبین لنا ماھی قال انہ یقول انھا بصرۃ لا فارض ولا بکرعوان بین ذلک فافعلوا ما تومرون قالوا ادع لنا ربک یبین لنا مالوئھا قال انہ یقول انھا بقرۃ صفراء فاقع لونھا بشترالناظرین قالوادع لنا ربک یبین لنا ماھی ان البقر تشابہ علینا وانا ان شاء اللہ المھتدون قال انہ یقول انھا بقرۃ ۔۔۔ لا ذلول تثیر الارض ولا شقے الحرث مسلمۃ لا شبۃ فیھا قالوا لان جنت بالحق فذبحوھا وما کادوا یفعلون (بقر) یا قوم ادخلوا الارض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم ولا ترتد واعلی ادبار کم فتنقلبو اخرین قالوا یا موسیٰ ان فیھا قوما جبارین رانا لن ندخلھا حتی یخرجوا منھا اذان یخرجوا منھانا نار داخلون قال رجلات من الذین بخافون انعم اللہ علیھا ادخلوا علیھم الباب نازاد خلتموہ فانکم غالبون وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مومنین قالوا یا موسیٰ انا لن تدخلھا ابداماداموا فیھا ذاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قاعدون قال رب انی لا املک الا نفسی واخی فافرق بنیار بین القوم الفاسقین قال فانھا محرمۃ علیہم اربعین سنۃ یتہوں والارض ذلا تاش علق القوم الفاسامعین۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 47
ہم ٹھیک تجھ کو سنا دیں ، ایمان والوں کے لیے موسیٰ و فرعون کی کچھ خبریں فرعون دنیا میں بہت بڑھ گیا تھا اور مصر کے رہنے والوں کو گروہ گروہ بنادیا تھا اور ان میں سے ایک گروہ کو زبون حالت میں پہنچا دیا تھا رنج کر ڈالتا تھا ان کے بیٹوں کو اور جیتا رہنے دیتا تھا ان کی بیٹیوں کو اور وہ مفسدوں میں سے تھا، فرعون والے بنی اسرائیل کو بری طرح کے عذاب پہنچائے تھے، بنی اسرائیل کے بیٹوں کو مار ڈالتے تھے ذبح کر ڈالتے تھے اور ان کی بیٹیوں کو جیتا رہنے دیتے تھے اور اس میں بنی اسرائیل پر ان کے پروردگار کی طرف سے بڑی بلا تھی، ہم نے ان پر جو دنیا میں کمزور ہوگئے تھے مہربانی کرنی چاہی اور ان کو سردار بنانا اور ان کو وارث بنانا اور زمین پر قدرت والا ٹھہرانا اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو جس بات پر وہ ڈرتے تھے ان کے ہاتھ سے دکھلانا چاہا۔ ہم نے موسیٰ کی ماں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ موسیٰ کو دودھ پلاوے جب اس کو موسیٰ کے بارے جانے کا خوف ہو تو اس کو ایک صندوق میں مجھ دے پھر اس کو ڈال دے پھینک دے دریا میں پھر دریا اس کو کنارہ پر ڈال دے گا اس کو اٹھائے گا میرا دشمن اور اس کا دشمن اور تو مت ڈر اور نہ غمگین ہو ہم اس کو پھر تیرے پاس لوٹا دیں گے اور اس کو رسولوں میں سے کرینگے (جب موسیٰ کی ماں نے ان کو دریا میں ڈال دیا اور وہ صندوق کنارہ پر آلگا) تو فرعون کے لوگوں میں سے کسی نے اس کو اٹھا لیا موسیٰ کی بہن نے دور سے اس کو دیکھا اور فرعون والے نہیں جانتے تھے۔ فرعون کی عورت بولی کہ یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس کو مت مارو۔ شاید اس سے ہم کو نفع ہو اور ہم اس کو بیٹا بنالیں۔ ہم نے پہلے ہی پلائیوں کا دودھ اس پر حرام کردیا تھا موسیٰ کی بہن بولی کہ کیا میں تم کو ایسے گھر والی بتادوں جو تمہارے لیے اس کو پالیں اور اس کو اچھی طرح رکھیں اس نے موسیٰ کی ماں ہی کو بتایا پھر ہم نے موسیٰ کو اس کی ماں ہی کے پاس لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک رہے اور غمگین نہ ہو ۔ جب موسیٰ چاک چوبند ہوا تو شہر والوں کی بیخبری میں شہر میں گیا وہاں اس نے دو آدمیوں کو مارتے مرتے پایا ایک تو موسیٰ کی قوم کا تھا اور ایک اس کے دشمنوں میں تھا موسیٰ کی قوم والے اس کے دشمن کی فریاد کی موسیٰ نے اس کو ایک گھونسا مارا۔۔۔ کہ وہ مرگیا پھر شہر ہی میں ڈرتے ہوئے اور کسی خرابی کے آنے کی توقع میں صیح کی جس کی مدد موسیٰ نے کل کی تھی اس نے موسیٰ کو پکارا موسیٰ نے اسے کہا کہ تو ہی علانیہ جھگڑالو ہے پھر موسیٰ نے اس کی جو اس کا اور موسیٰ کا بھی دشمن تھا پکڑنے کا ارادہ کیا (جو چلایا تھا وہ یہ سمجھا کہ موسیٰ مجھی کو پکڑیگا) کہا کہ اے موسیٰ کہا تو میرے مار ڈمالنے کا بھی ارادہ کرتا ہے جس طرح کہ کل تو نے ایک آدمی کو مار ڈالا ہے اتنے میں ایک آدمی شہر کے پرلے کنارے سے دوڑتا آیا کہا اے موسیٰ فرعون کے درباری تیری نسبت مشورہ کرتے ہیں کہ تجھ کو مار ڈالیں بس یہاں سے نکل جا میں تیرا خیر خواہ ہوں پھر موسیٰ ڈرتا ہوا اور کسی آفت کی توقع کرتا ہوا وہاں سے نکلا اور کہا اے پروردگار اس ظالم قوم سے مجھے بچا۔
موسیٰ نے اپنے ساتھی جوان سے (غالباً ) اسی شخص سے جس نے آکر قتل کے مشورہ کی خبر دی تھی کہا کہ میں ٹھہرنے کا ہی نہیں جب تک میں دو دریاؤں کے ملنے کے مقام تک نہ پہناچ جاؤں یا چلا جاؤں بہت دور تک (یعنی اس سے پرے) پھر جب وہ دونوں دریاؤں کے ملنے کے مقام تک پہنچے تو اپنی مچھلی وہاں رکھ کر بھول گئے پھر مچھلی نے خشک جگہ میں سے دریا کا رستہ لیا پھر جب وہ اس سے آگے بڑھے تو موسیٰ نے اپنے ساتھی جوان سے کہا کہ ہمارا صبح کا کھانا لاؤ ہم نے اپنے اس سفر میں بڑی مصیبت اٹھائی اس جوان نے کہا کہ تم نے دیکھا ہوگا کہ جب ہم اس پتھر سے تکیہ لگا کر بیٹھے تو میں اس مچھلی کو بھول گیا (یعنی اس کا خیال نہ رہا اور اس قصہ کا ذکر کرنا (یعنی موسیٰ سے) بجز شیطان کے کسی نے مجھ کو نہیں بھلایا اور مچھلی نے عجب طرح سے دریا میں اپنا رستہ لیا موسیٰ نے کہا یہی ہے جو ہم چاہتے تھے (یعنی دونوں دریاؤں کے ملنے ہی تک ہم آنا چاہتے تھے اب آگے کیوں جاویں) پھر وہ دونوں اپنے قدموں کا نشان دیکھتے ہوئے الٹے پھرے، پھر ان دونوں کو میرے بندوں میں سے ایک بندہ ملا جس پر میں نے اپنی مہربانی کی تھی اور اس کو میں نے دانشمندی سکھادی تھی موسیٰ نے ان سے کہا کہ کیا میں تمہارے ساتھ ہولوں، اگر مجھ کو بھی ان دانشمندیوں میں سے جو تم نے سیکھی ہیں سکھا دو اس بندے نے کہا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکوگے اور تم کس طرح اس بات پر صبر کر ئینگے جو تمہاری دانش کے احاطہ میں نہیں ہے موسیٰ نے کہا انشاء اللہ تم مجھ کو صبر کرنے والا پاؤ گے اور میں تمہارے کسی کام میں برخلافی نہ کرونگا اس بندے نے کہا کہ تم میری تابعداری کرنی چاہتے ہو تو جب تک میں خود ہی نہ کہہ دوں مجھے کسی بات کو مت پوچھنا پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب ایک کشتی پر سوار ہوئے تو اس بندے نے کشتی میں شگاف کردیا موسیٰ نے کہا کہ کیا تم نے کشتی کے لوگوں کو ڈبونے کے لیے اس میں شگاف کیا ہے اس بندے نے کہا تم نے کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے موسیٰ نے کہا کہ جو بات یعنی بھول کر کہی اس پر مواخذہ مت کریں اور میرے کام میں سختی مت ڈالو۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب ایک نوجوان سے ملے تو اس بندے نے اس نوجوان کو مار ڈالا موسیٰ نے کہا کہ کیا تم نے ایک شخص بےگناہ کو بغیر جان کے بدلے مار ڈالا دیکھو تم نے برا کام کیا اس بندے نے کہا کہ میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے موسیٰ نے کہا کہ اگر اس کے بعد میں تم سے کوئی بات پوچھوں تو پھر مجھ کو اپنے ساتھ مت رکھنا میں اپنا عذر تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں۔ پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ جب ایک گاؤں کے لوگوں کے پاس پہنچے تو ان سے کھانا مانگا انھوں نے ان کو کھانا کھلانے سے انکار کیا وہاں ان دونوں نے ایک دیوار دیکھی کہ گرپڑنا چاہتی ہے ان دونوں نے اس کو سیدھا بنادیا حضرت موسیٰ کو بھوک لگی ہوئی تھی کسی نے کھانے کو دیا نہ تھا ٹکا پیسہ پاس نہ تھا انھوں نے اس بندے سے کہا کہ اگر تم چاہتے تو اس پر مزدوری لے لیتے اس بندے نے کہا کہ بس اب مجھ میں اور تم میں جدائی ہے میں ان باتوں کی تاویل جن پر تم صبر نہ کرسکے بتا دیتا ہوں وہ کشتی تو غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں کھیواکھسیا کرتے تھے میں نے اس کو عیب دار کردینا چاہا ان کے پر سے ایک بادشاہ ہی جو زبردستی سے ہر ایک کشتی کو پکڑ لیتا ہے۔ اور وہ نوجوان اس کے ماں باپ ایمان والے ہیں مجھ کو خوف ہوا کہ یہ ان کو سرکشی و کفر میں تنگ کرے لگا پس میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس کا نعم البدل پاکیزگی اور محبت میں ان کو دے گا اور وہ دیوار شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کے لیے خزنہ تھا اور ان کا باپ اچھا آدمی تھا پس میرے پروردگار نے چاہا کہ جب وہ دونوں جوانی میں بھربھورہوں وہ اپنا خزانہ نکال لیں میرے پروردگار کی مہربانی سے اور میں نے یہ کام اپنی طرف سے نہیں کیے یہ بیان ان باتوں کا ہے جن پر تو صبر نہ کرسکا۔
اور جب موسیٰ شہر مدین کی طرف چلے تو کہا کہ امید ہے کہ میرا پروردگار مجھ کو سیدھا رستہ بتادے اور جبکہ شہر مدین کے پانی کے پاس پہنچے تو وہاں لوگوں کے گروہ کو (مویشی کو) پانی پلاتے پایا اور اس کے پرے دو عورتوں کو پایا کہ اپنے مویشی کو روکے کھڑی ہیں موسیٰ نے کہا کہ تمہارا کیا حال ہے انھوں نے کہا کہ جب تک چرواہے پانی پلا کر نہ لیجاویں ہم نہیں پلاسکتیں اور ہمارا باپ بڑا بڈھا ہے پھر موسیٰ نے ان دونوں کے مویشی کو پانی پلا دیا پھر چھاؤں میں جا کھڑے ہوئے پھر کہا کہ اے میرے پروردگار تونے میری ایسی حالت کردی ہے کہ تھوڑی ہی بھلائی کا بھی محتاج ہوں پھر ان دونوں میں سے ایک شرمیلی چلتی ہوئی موسیٰ کے پاس آگئی، کہا میرے باپ نے تجھ کو بلایا ہے تاکہ ہمارے (مویشی کو ) جو پانی تونے پلایا ہے اس کی اجرت دے پھر جب موسیٰ اس کے پاس (یعنی اس عورت کے باپ کے پاس) آئے اور اپنا قصہ اس سے کہا تو اس نے کہا کہ مت ڈرو تم نے ظالم قوم سے نجات پائی اس کی بیٹیوں میں سے ایک نے کہا کہ اے باپ اس کو مزدوری پر رکھ لے اچھا مزدور جس کو تو مزدوری پر لگا دے طاقت ور اور دیانت دار ہونا چاہیے اس شخص نے موسیٰ سے کہا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تجھ سے کردوں اس بات پر کہ تو آٹھ برس تک میرے ہاں مزدوری کرے پھر اگر تو دس برس پورے کرے تو یہ تیری طرف سے ہوگا میں تجھ پر مشقت ڈالنا نہیں چاہتا تو مجھ کو انشاء اللہ اقرار پورا کرنے والوں میں پاویگا موسیٰ نے کہا کہ مجھ میں اور تجھ میں یہ اقرار ہوچکا ان دونوں مدتوں میں سے جو تسی میں پوری کرلوں تو پھر مجھ پر زیادتی نہ ہو اور جو میں کہتا ہوں خدا اس پر مددگار ہے۔ پھر موسیٰ اہل مدین میں چند سال رہا پھر تو اسے موسیٰ وقت پر آگیا۔
پھر جب موسیٰ نے میعاد مقررہ پوری کی اور اپنی بی بی کو لے کر چلا تو اس کو پہاڑ کی جانب سے آگ معلوم ہوئی موسیٰ نے اپنی بی بی سے کہا کہ ٹھہرو مجھے آگ معلوم ہوئی ہے شاید میں وہاں سے کچھ خبر لے آؤں یا ایک بھڑکتی لکڑی اٹھا لاؤں یا آگ کا انگارہ لے آؤں تاکہ تم تاپو یا آگ کے پاس کوئی راہ بتانے والا پاؤں۔ پھر جب موسیٰ آگ کے پاس آیا تو جنگل کے بائیں کنارے سے پہاڑ کی دھائیں طرف سے اس مبارک جگہ میں داخل میں ہوتے کسی نے اس کو آواز دی کہ جو آگ میں ہے اور جو اس کے گرد ہے اس کو برکت دے گئی ہے اور اللہ پاک ہے اور تمام عالموں کا پالنے والا ہے اے موسیٰ بیشک میں خدا ہوں سب پر غالب اور بڑی حکمت والا بیشک میں ہی خدا ہوں تمام عالموں کا پالنے والا بیشک میں تیرا خدا ہوں پھر جوتیاں اتار ڈال ہے شبہ تو پاک جنگل میں پھرتا ہے اے موسیٰ یہ کیا تیرے دائیں ہاتھ میں ہے موسیٰ نے کہا کہ یہ میری لاٹھی ہے اس کو میں ٹیک لیتا ہوں اور اس سے اپنے ریوڑ پر پتے جھاڑ لیتا ہوں اور وہ میرے اور کام میں بھی آتی ہے خدا نے کہا کہ اپنی لاٹھی ڈال دے جب ڈال دی تو لاٹھی کو ہلتے ہوئے دیکھا گویا کہ وہ سانپ ہے تو موسیٰ پیٹھ پھیر کر پلٹا اور پیچھے پھر کر بھی نہ دیکھا خدا نے کہا اے موسیٰ آگے بڑھ اس کو پکڑلے اور مت ڈر وہ جیسی پہلی تھی ویسی ہی ہوجاویگی ڈال اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں اور اپنے ہاتھ کو اپنے بازو سے ملادے تیرا ہاتھ بےعیب سفید نکلے گا بطور ایک دوسری نشانی کے جو ڈر تکھ کو ہوا ہے اس سے اپنے کو دونوں بازو ملا کر تمام پھر یہ دونوں نشانیاں ہیں تیرے پروردگار کی نو نشانیوں میں کی فرعون اور اس کے درباریوں کے لیے بیشک وہ بدکار قوم ہے اور ہم نے موسیٰ کو باتیں کرنے سے مقرب کیا۔
پھر ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور علانیۃ غلبہ کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں ہامان اور قارون کے پاس بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیرے میں سے روشنی میں نکال لاوے، جاؤ ظالم قوم کے پاس جو فرعون کی قوم ہے جا فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہے موسیٰ نے کہا کہ اے پروردگار میں نے ان میں کا ایک آدمی مار ڈالا ہے میں نے ان کا قصور کیا ہے پھر میں ڈرتا ہوں کہ وہ مار ڈالے گے میرے سینہ میں دم گہٹ جاتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی اے پروردگار میرے سینہ کو کھول دے اور میرا کام مجھ پر آسان کردے اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھیں اور میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے میرے کنبہ میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر کر پھر ہارون کو میرے پاس بھیج پھر اس کو میرے ساتھ بطور مددگار کے بھیج خدا نے کہا کہ میں تیرے بازو کو تیرے بھائی سے مضبوط کروں گا۔ اور تم دونوں کو غلبہ دونگا خدا نے کہا اے موسیٰ جو تونے مانگا تجھ کو دیا گیا جاتو اور تیرا بھائی میری نشانیوں سمیت اور سستی نہ کرو میری نصیحت میں تم دونوں فرعون کے پاس جاو کہ وہ سرکش ہے خدا نے کہا کہ وہ ہرگز تم کو نہ مارسکے گا پھر تم دونوں میری نشانیوں سمیت جاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں تمہاری بات سنوں گا پھر فرعون کے پاس جاؤ اور پھر اس سے کہو کہ ہم دونوں تمام عالموں کے پروردگار کے رسول ہیں ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے اور اس سے نرم بات کہو شاید کہ نصیحت مانے اور خوف کرے انھوں نے کہا اے ہمارے پروردگار بیشک ہم ڈرتے ہیں کہ ہم پر زیادتی کرے یا ہم سے سرکشی کرے خدا نے کہا کہ تم مت ڈرو میں تمہارے ساتھ ہوں تمہاری بات سنوں گا اور تم کو دیکھتا رہوں گا پھر اس کے پاس جاؤ موسیٰ گئے اور کہا کہ تکھ کو پاک ہونے کی خواہش ہے اور میں تجھ کو تیرے پروردگار کی راہ بتاؤں تاکہ تو خوف کرے خدا نے کہا کہ تم دونوں فرعون سے کہو کہ ہم دونوں تیرے پروردگار کے رسول ہیں پھر ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے اور ان کو عذاب مت دے ہم تیرے پروردگار کی نشانی لائے ہیں۔ فرعون بولا اے موسیٰ تمہارا پروردگار کون ہے موسیٰ نے کہا کہ ہمارا پروردگار وہ ہے کہ جس نے تمام چیزوں کی خلقت ان کو عطا کی ہے پھر سیدھی راہ بتائی ہے فرعون نے کہا پھر اگلے زمانہ کے لوگوں کا کیا حال ہے موسیٰ نے کہا کہ کہ جو آسمان کا اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب کا پروردگار ہے اگر تم یقین لاؤ فرعون نے ان لوگوں سے جو اس کے اردگرد تھے کہا کہ کیا تم نہیں سنتے ہو، موسیٰ نے کہا کہ تمہارا پروردگار اور ہم سب کے باپ دادا کا۔ فرعون نے اپناے درباریوں سے کہا کہ تمہارے پاس جو رسول آیا ہے البتہ دیوانہ ہے موسیٰ نے کہا کہ تمام عالموں کا خدا وہی ہے جو مشرق و مغرب کا اور جو اس میں ہے اس سب کا پروردگار ہے اگر تم سمجھتے ہو فرعون نے کہا کہ اگر تونے میرے سوا اور کسی کو خدا ٹھہرایا تو میں ضرور تجھ کو قیدیوں میں داخل کروں گا فرعون نے کہا کہ کیا ہم نے تجھ کو نہیں پالا جبکہ تو ہم میں بچہ تھا اور کیا تونے بسر نہیں کیے ہم میں اپنی عمر کے چند سال اور تونے وہ کام کیا جو کیا اور تو ناشکروں میں ہے موسیٰ نے کہا کہ میں کیا تھا جبکہ میں گمراہوں میں تھا پھر میں تم سے ڈرا اور تم میں سے بھاگ گیا پھر خدا نے مجھ کو حکم دیا اور مجھ کو پیغمبروں میں کیا اور یہ بھلائی جس کا احسان تو مجھ پر رکھتا ہے اس بناء پر ہے کہ تونے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے فرعون نے موسیٰ سے کہا کہ میں تجھ کو سحرزدہ سمجھتا ہوں موسیٰ نے کہا کہ جب بھی اگر میں کوئی بڑی نشانی لاؤں فرعون نے کہا کہ اگر تو کوئی نشانی لاسکتا ہے تو اس نشانی کو لا اگر تو سچا ہے پھر موسیٰ نے اپنی لاٹھی ڈال دی پھر یکایک وہ ہو بہو سانپ تھی اور اپنا ہاتھ نکالا پھر یکایک دیکھنے والوں کو چمکتا معلوم ہوتا تھا موسیٰ نے کہا اے فرعون میں پروردگار و عالموں کا رسول ہو، مجھ کو لائق ہے کہ میں خدا پر سوائے سچ کے اور کچھ نہ کہوں میں لایا ہوں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی نشانی پھر میرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے پھر فرعون اور اس کے لشکروں نے بغیر کسی حق کے دنیا میں تکبر کیا اور گمان کیا کہ وہ ہمارے پاس نہ پھریں گے پھر انھوں نے تکبر کیا اور وہ ایک قوم بڑھے ہوئے تھی گناہ گار تھی بولی کہ کیا ہم ایسے دو شخصوں پر ایمان لاویں جو ہمارے سے ہیں اور ان کی قوم ہماری غلام ہے پھر انھوں نے ظلم کیا اور ان دونوں کو جھٹلایا اور کہا کہ جھوٹے جادو گر ہیں فرعون نے اپنے ارد گرد کے درباریوں سے کہا کہ یہ جادو گر بڑا جاننے والا ہے چاہتا ہے کہ تم کو تمہارے ملک سے اپنے جادو سے نکال دے پھر تم کیا کہتے ہو وہ بولے کہ اس کو اور اس کے بھائی کو مہلت دے اور شہروں میں (جادوگروں کے) اکٹھا کرنے والوں کو بھیج تیرے پاس لے آویں ہر ایک بڑے علم والے جادو گر کو فرعون نے کہا کہ اے موسیٰ کیا تو ہمارے پاس ہم کو ہمارے ملک سے اپنے جادو سے نکالنے کو آیا ہے پھر بےشبہ ہم بھی تیرے پاس ویسا ہی جادو لائینگے پس کسی چوپٹ میدان میں ہم میں اور اپنے میں (مقابلہ کے لئے) کوئی وقت مقرر کر نہ ہم اس کے برخلاف کریں اور نہ تو موسیٰ نے کہا کہ جشن کا دن تمہارے وعدے کا سہی اور تھوڑے دن چڑھے سب آدمی وہاں اکٹھے ہوجاویں پھر فرعون (اپنے محل میں) گیا اور اپنے جادو گروں کو جمع کیا فرعون نے کہا کہ ہر ایک بڑے جادو گر کو بلاؤ پھر تمام جادو گر وقت معین پر جمع ہوگئے اور لوگوں سے کہا کہ کیا تم بھی اکٹھے ہوگے تاکہ اگر جادو گر غالب آجاویں تو ہم ان کا ساتھ دیں جب فرعون کے جادو گر فرعون کے پاس آئے تو انھوں نے کہا کہ اگر ہم غالب ہوں تو ہمارے لیے کچھ انعام ہے فرعون نے کہا کہ ہاں تب تو تم مقربوں میں سے ہوگے پھر ان کے باہم ان کے کام میں کچھ جھگڑا ہوا انھوں نے اپنے مشورہ کو چھپایا۔ انھوں نے کہا کہ بےشبہ یہ دونوں جادو گر ہیں اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہارے ملک سے نکالنا اور تمہارے عمدہ مذہب کو کھو دینا چاہتے ہیں پس اپنے جادو گروں کو جمع کرکے کہا کہ پھر اکٹھے ہو کر چلو اور آج کے دن جو غالب ہوگا وہی کامیاب ہوگا، چنانچہ (یوم موعود کو سب جمع ہوئے) فرعون کے جادو گروں نے موسیٰ سے کہا کہ یا تو تو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالتے ہیں، موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو پھر جب انھوں نے ڈالا تو لوگوں کی آنکھوں پر ڈھٹ بندی کردی اور ان کو ڈرادیا اور بہت بڑا جادو گر لائے جب انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں اور کہا کہ فرعون کی عزت کی قسم ہم ہی غالب ہیں تب تو موسیٰ کے خیال میں ان کی رسیاں۔۔۔ اور لاٹھیاں ان کے جادو سے چلتی ہوئی لگنے لگیں۔ موسیٰ نے کہا یہ جو تم نے کیا یہ جادو ہے اس کو خدا باطل کرے گا مگر موسیٰ دل میں ڈر گیا خدا نے کہا کہ مت ڈر تو ہی جیتے گا اور خدا نے موسیٰ کے دل میں ڈالا کہ اپنی لاٹھی ڈال کہ وہ اس سب بناوٹ کو نگل جاویگی پھر موسیٰ نے اپنی لاٹھی ڈالی پھر اس سب بناوٹ کو جو انھوں نے کی تھی نگلتی تھی انھوں نے تو جادو گروں کا سامکر کیا تھا اور حق کے سامنے جادو گر کامیاب نہیں ہوسکتا پس حق ثابت ہوگیا اور جو۔۔۔ انھوں نے کیا تھا وہ باطل ہوگیا پھر وہاں ہار کر ذلت سے لوٹ گئے اور فرعون کے جادو گروں نے سجدہ کیا بولے ہم پروردگار عالموں پر ایمان لائے جو موسیٰ و ہارون کا پروردگار ہے۔
 
Top