الم : سورۃ البقرة : آیت 23
وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ ۪ وَ ادۡعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۳﴾
تفسیر سرسید :
( ممانزلنا) سے مراد قرآن ہے، جو نبی پر بذریعہ وحی کے خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے، پس اس مقام پر جب تک کہ وحی و نبوت کی حقیقت نہ بیان ہو اس وقت تک اس آیت کا مطلب سمجھ میں نہیں آسکتا۔
وحی تو وہی ہوتی ہے جو خدا سے پیغمبر کو دی جاتی ہے، مگر اگلے مفسرین نے لٹکا بیان کہ وہ کیونکر دی جاتی ہے ٹھیک طور پر نہیں کیا، انھوں نے خدا ورسول کو دنیا کے بادشاہ اور وزیر کی مانند اور وحی کو بادشاہ کے کلام یا حکم یا پیغام کی مانند سمجھا ہے، اور جبرائیل کو ایک مجسم فرشتہ بادشاہ و وزیر میں ایلچی پیغام لے جانے والا قرار دیا ہے۔
امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں ارقام فرماتے ہیں کہ آسمان پر جبرائیل خدا کا کلام سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترتے تھے اور وہ پیغام کہہ دیتے تھے۔ پھر اس تقریر پر ان کو یہ مشکل پیش آئی علی عبدنا اپنے بندے پر کہ خدا کے کلام میں تو حروف اور آواز نہیں ہے، پھر جبرائیل نے وہ کیونکر سنا ہوگا، پھر اس کا جواب یہ دیا ہے کہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ نے جبرائیل میں ایسی سماعت پیدا کی ہو جو خدا کا کلام سن لیتا ہو، پھر اس میں یہ قدرت رکھی ہو کہ وہ عبارت میں اس کی تعبیر کرسکے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہو کہ خدا نے لوح محفوظ میں اسی ترتیب سے قرآن پیدا کردیا ہو، اور جبرائیل نے اس کو پڑھ کر یاد کرلیا ہو۔ یا یہ ہوا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز جسم دار میں سے خاص طرح کی آوازیں ٹھہر ٹھہر کر نکالی ہوں اور جبرائیل نے بھی اسی کے ساتھ آواز ملا لی ہو، پھر اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو بتادیا کہ یہی وہ عبارت ہے ، جو ہمارے کلام قدیم کو پورا ادا کردیتی ہے۔
یہ تقریریں ہمارے علماء قدیم کی اسی قسم کی تقریریں ہیں جن پر آج لوگ ہنستے ہیں، اور قرآن مجید اور مذہب اسلام کو مثل اس تقریر کے لغو سمجھتے ہیں۔ امام صاحب نے اس بات پر غور نہیں فرمایا ہے، کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی میں ایسی سماعت یا لوح محفوظ میں سے پڑھنے کی قدرت یا جس جسم میں سے وہ اونچی نیچی آوازیں نکلتی تھیں ان سے کلام سمجھ لینے کی طاقت کیوں نہیں پیدا کی جو خدا کا کلام سن لیتے اور سمجھ لیتے تاکہ اس تکلیف کی کہ جبرائیل سنیں پھر اس کی عبارت بنائیں پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آکر سنائیں حاجت نہ رہتی۔ اس کی بھی تشریح امام صاحب نے نہیں فرمائی کہ ان اونچی نیچی آوازوں سے آواز ملا لینے کے بعد جبرائیل کو خدا نے کیونکر بتایا کہ یہ وہی عبارت ہے، آیا انہی اونچی نیچی آوازوں سے ، ان سے تو جاننا محال تھا کیونکہ دور لازم آتا ہے، پھر اور کسی طرح بتایا ہوگا، مگر پہلے ہی اسی طرح بتادیا ہوتا، ” ولا شک ان ھذہ طفوات لیس لھا فی الاسلام نصیب “ نبوت کو بھی علماء متقدمین نے ایک عہدہ سمجھا ہے کہ خدا جس کو چاہتا ہے یا جس کو منتخب کرتا ہے وزیر بنا ہے، جیسے بادشاہ اپنے بندوں میں سے کسی کو وزیر کسی کو دیوان کسی کو بخشی کردیتا ہے، اور وہ کسی منصب کو لے کر وہ کام شروع کرتا ہے، اور مبعوث ہونے کے ٹھیک یہی معنی انھوں نے سمجھے ہیں۔
فاتوا تو تم لاؤمگر میری سمجھ یہ نہیں ہے، میں نبوت کو ایک فطری چیز سمجھتا ہوں۔ نبی گو اپنی ماں کے پیٹ ہی میں کیوں نہ ہو نبی ہوتا ہے، النبی نبی ولوکان فی بطن امہ، جب پیدا ہوتا ہے تو نبی ہی پیدا ہوتا ہے، جب مرتا ہے تو نبی ہی مرتا ہے۔
نبی کا لفظ یہودیوں میں زیادہ تر مستعمل تھا، وہ اس کو لفظ بنانے سے مشتق کرتے تھے، جس کے معنی خبر دینے کے ہیں۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ انبیاء مثل نجومیوں کے دنیا کی باتوں میں سے غیب کی بات یا آئندہ ہونے والی باتیں بتا دیتے ہیں، شاید اتنا فرق سمجھتے ہوں کہ نجومی ستاروں کے حساب یا شیطانوں کے اسرار سے بتاتے تھے، اور انبیاء ربانی کرشمہ سے، پس جو شخص کہ کوئی پیشین گوئی نہیں کرتا تھا، اس کو نبی یا پیغمبر نہیں کہتے تھے، مگر اسلام میں اور مسلمانوں میں یہ خیال نہیں ہے، وہ ان سب کو جن پر خدا نے وحی نازل کی ہے نبی جانتے ہیں، اور پیغمبر مانتے ہیں، گو کہ اس نے کوئی بھی پیشینگوئی نہ کی ہو، بلکہ مذہب اسلام تو یہ بتاتا ہے کہ ” لا یعلم الغیب الا ھو “ یہی سبب ہے کہ قرآن مجید میں ہر ایک صاحب وحی کو نبی یا پیغمبر کہا گیا ہے جن میں سے اکثر کو جیسے داؤد سلیمان کو یہودی نبی نہیں کہتے۔
بہرحال اس لفظی بحث کو جانے دو، نبوت درحقیقت ایک فطری چیز ہے جو انبیاء میں بمقتضائے اپنی فطرت کے مثل دیگر قواے انسانی کے ہوتی ہے۔ جس انسان میں وہ قوت ہوتی ہے وہ نبی ہوتا ہے، اور جو نبی ہوتا ہے اس میں وہ قوت ہوتی ہے جس طرح کہ تمام ملکات انسانی اس کی ترکیب اعضا، دل و دماغ و خلقت کی مناسبت سے علاقہ رکھتے ہیں، اسی طرح ملکہ نبوت بھی اس سے علاقہ رکھتا ہے، یہ بات کچھ ملکہ نبوت پر ہی موقوف نہیں ہے، ہزاروں قسم کے جو ملکات انسانی ہیں بعض دفعہ کوئی خاص ملکہ کسی خاص انسان میں زروئے خلقت و فطرت کے ایسا قوی ہوتا ہے کہ وہ اس کا امام یا پیغمبر کہلاتا ہے، لوہار بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے،
نبورۃ من مثلہ اس کی مانند کوئی سورت
شاعر بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے ، ایک طبیب بھی فن طب کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے، مگر جو شخص روحانی امراض کا طبیب ہوتا ہے، اور جس میں اخلاق انسانی کی تعلیم و تربیت کا ملکہ بمقتضائے اس کی فطرت کے خدا سے عنایت ہوتا ہے، وہ پیغمبر کہلاتا ہے۔ اور جس طرح کہ اور قواے انسانی بمناسبت اس کے اعضا کے قوی ہوتے جاتے ہیں اسی طرح یہ ملکہ بھی قوی ہوتا جاتا ہے، اور جب اپنی پوری قوت پر پہنچ جاتا ہے، تو اس سے وہ ظہور میں آتا ہے جو اس کا مقتضی ہوتا ہے، جس کو عرف عام میں بعثت سے تعبیر کرتے ہیں۔
خدا اور پیغمبر میں بجز اس ملکہ نبوت کے جس کو ناموس اکبر اور زبان شرع میں جبرائیل کہتے ہیں اور کوئی ایلچی پیغام پہنچانے والا نہیں ہوتا، اس کا دل ہی وہ آئینہ ہوتا ہے جس میں تجلیات ربانی کا جلوہ دکھائی دیتا ہے، اس کا دل ہی وہ ایلچی ہوتا ہے جو خدا کے پاس پیغام لے جاتا ہے اور خدا کا پیغام لے کر آتا ہے، وہ خود ہی وہ مجسم چیز ہوتا ہے جس میں سے اللہ کے کلام کی آوازیں نکلتی ہیں، وہ خود ہی وہ کان ہوتا ہے جو خدا کے بےحرف بےصورت کلام کو سنتا ہے، خود اسی کے دل سے فوارہ کی مانند وحی اٹھتی ہے، اور خود اسی پر نازل ہوتی ہے، اسی کا عکس اس کے دل پر پڑتا ہے، جس کو وہ خود ہی الٰہام کہتا ہے، اس کو کوئی نہیں بلواتا بلکہ وہ خود بولتا ہے اور خود ہی کہتا ہے، وما ینطق عن الھویٰ ان ھوالا وحی یوحی۔
جو حالات و واردات ایسے دل پر گزرتے ہیں، وہ بھی بمقتضائے فطرت انسانی اور سب کے سب قانوکن فطرت کے پابند ہوتے ہیں، وہ خود اپنا کلام نفسی ان ظاہری کانوں سے اس طرح پر سنتا ہے جیسے کوئی دوسرا شخص اس سے کہہ رہا ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو ان ظاہری آنکھوں سے اس طرح دیکھتا ہے جیسے دوسرا شخص اس کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔
ان واقعات کے بتلانے کو اگرچہ یہ قول یاد آتا ہے کہ ” قدرایں با دہ ندانی بخدا تا۔۔ مگر ہم بطور تمثیل کے گو وہ کیسی ہی کم رتبہ ہو اس کا ثبوت دیتے ہیں، ہزاروں شخص ہیں جنہوں نے مجنونوں کی حالت دیکھی ہوگی، وہ بغیر بولنے والے کے اپنے کانوں سے آوازیں سنتے ہیں تنہا ہوتے ہیں مگر اپنی آنکھوں سے اپنے پاس کسی کو کھڑا ہوا باتیں کرتا ہوا دیکھتے ہیں، وہ سب انہی کے خیالات ہیں جو سب طرف سے بیخبر ہو کر ایک طرف معروف اور اس میں مستفرق ہیں، اور باتیں سنتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں پس ایسے دل کو جو فطرت کی رو سے تمام چیزوں سے بےتعلق، اور روحانی تربیت پر مصرف اور اس میں مستغرق ہو ایسی واردات کا پیش آنا کچھ بھی خلاف فطرت انسانی نہیں ہے، ہاں ان دونوں میں اتنا فرق ہے کہ پہلا مجنون ہے اور پچھلا پیغمبر، گو کہ کافر پچھلے کو بھی مجنون بتاتے تھے۔
پس وحی وہ چیز ہے جس کو قلب نبوت پر بسبب اسی فطرت نبوت کے مبداء فیاض نے نقش کیا ہے۔ وہی انتقاش قلبی کبھی مثل ایک بولنے والی آواز کے انہی ظاہر کانوں سے سنائی دیتا ہے، اور کبھی وہی نقش قلبی دوسرے بولنے والے کی صورت میں دکھائی دیتا ہے، مگر بجز اپنے آپ کے نہ وہاں کوئی آواز ہے نہ بولنے والا، خدا نے بہت سی جگہ قرآن میں جبرائیل کا نام لیا ہے، مگر سورة بقرہ میں اس کی ماہیت بتائی ہے، جہاں فرمایا ہے کہ ” جبرائیل نے تیرے دل میں قرآن کو خدا کے حکم سے ڈالا ہے “ دل پر اتارنے والی، یا دل میں ڈالنے والی، وہی چیز ہوتی ہے جو خود انسان کی فطرت میں ہو، نہ کوئی دوسری چیز جو فطرت سے خارج اور خود اس کی خلقت سے جس کے دل پر ڈالی گئی ہے جداگانہ ہو، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسی ملکہ نبوت کا جو خدا نے انبیاء میں پیدا کیا ہے جبرائیل نام ہے۔ یہی مطلب قرآن کی بہت سی آیتوں سے پایا جاتا ہے جیسا کہ سورة قیامۃ میں فرمایا ہے کہ ” ان علینا جمعہ وقراٰنہ “ یعنی ہمارا ذمہ ہے وحی کو تیرے دل میں اکٹھا کردینے اور اس کے پڑھ دینے کا ” فاذا اقراناہ فاتبع قراٰنہ “ پھر جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو اس پڑھنے کی پیروی کر ” ثم ان علینا بیانہ “ پھر ہمارا ذمہ ہے اس کا مطلب بتانا، ان آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا اور پیغمبر میں کوئی واسطہ نہیں ہے، خود خدا ہی پیغمبر کے دل میں وحی جمع کرتا ہے وہی پڑھتا ہے وہی مطلب بتاتا ہے، اور یہ سب کام اسی فطری قوت نبوت کے ہیں جو خدا تعالیٰ نے مثل دے کر تو اسی انسانی کے انبیاء میں بمقتضائے ان کی فطرت کے پیدا کی ہے۔ اور وہی قوت ناموس اکبر ہے، اور وہی قوت جبرائیل پیغمبر۔
اسی طرح خدا تعالیٰ سورة النجم میں فرماتا ہے ” وما ینطق عن للھویٰ ان ھو الا وحی یوحی “ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی خواہش نفس سے نہیں کہتا مگر یہ تو وہ بات ہے جو اس کے دل میں ڈالی گئی ہے۔ ” علمہ شدید القوی ذوہوۃ “ اس کو سکھایا ہے بڑی قوت والے صاحب دانش نے ” فاستوی وھوبالافق الا علی “ پھر ٹھہرا اور وہ بہت بلند کنارہ پر تھا ” ثم دلی فتدل “ پھر پاس ہوا اور ادھر کھڑا ہوا ” فکان قاب قوسین اوادنی “ پھر دو کمانوں یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا ” فاوحی الی عبدہ مااوحی “ پھر اپنے بندہ کے دل میں ڈالی وہ بات جو ڈالی۔ یہ تمام مشاہدہ اگر انہی ظاہری آنکھوں سے تھا، تو وہ عکس خود اپنے دل کی تجلیات ربانی کا تھا، جو بمقتضائے فطرت انسانی و فطرت نبوت دکھائی دیتا تھا، اور دراصل بجز ملکہ نبوت کے جس کو جبرائیل کہو یا اور کچھ، کچھ نہ تھا۔
علماء اسلام نے انبیاء اور عام انسانوں میں بجز اس کے کہ ان کو ایک عہدہ مل گیا ہے، جو ممکن تھا کہ ان میں سے بھی کسی کو مل جاتا، اور کچھ فرق نہیں سمجھا، اور اسی لیے شاعرہ دماتریدیہ نے نبی اور امت کی مثال سلطان ورعیت کی سمجھی ہے۔ مگر میری سمجھ میں یہ مثال ٹھیک نہیں ہے،
نبی اور امت کی مثال راعی و غنم کیسی ہے ، گو نبی و امت انسانیت میں شریک ہیں، جیسا کہ راعی و غلام حیوانیت میں، مگر نبی و امت میں فطرت نبوکت کی ایسی ہی فصل ہے، جیسا کہ راعی و غنم میں ناطقیت کی۔
قرآن مجید کا نجما نجما نازل ہونا بھی بری دلیل اس بات کی ہے کہ وہ بمقتضائے اسی فطرت کے نازل ہوا ہے، ہم بمقتضائے فطرت انسانی یہ بات دیکھتے ہیں ، کہ تمام ملکات انسانی کسی متحرک یعنی کسی امر کے پیش آنے پر اپنا کام کرتے ہیں، اسی طرح ملکہ نبوت بھی حبیی اپنا کام کرتا ہے جبکہ کوئی امر پیش آتا ہے۔ ہمارے دل میں سینکڑوں مضمون ہوتے ہیں، سینکڑوں نصیحتیں ہوتی ہیں، اشعار یاد ہوتے ہیں ، دوستوں کی صورتیں، اور مکانوں کی باغوں اور جنگلوں کی تصویریں دماغ میں موجود ہوتی ہیں، مگر جب تک ان پر متوجہ ہونے کا کوئی سبب نہ ہو وہ سب بےمعلوم رہتی ہیں، یہی حال ملکہ نبوت کا ہے، نبی معہ اپنے ملکہ نبوت کے موجود ہوتا ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، سوتا ہے، جاگتا ہے، دنیوی باتیں جن کو نبوت سے کچھ تعلق نہیں ہیں اسی طرح پر کرتا ہے جس طرح کہ اور تمام انسان کرتے ہیں، مگر جب کوئی ایسا امر پیش ہوتا ہے جو اس ملکہ نبوت کی تحریک کا باعث ہو، اس وقت وہ ملکہ نبوت اپنا کام کرتا ہے، اسی باریک دقیقہ کی حرف خدا نے اشارہ کرنے کو اپنی نبی کی زبان سے یہ کہلوایا کہ ” انا بشر مثلکم یوحی الی انما الھکم الہ واحد “ اور خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” انما انا بشرا اذا امن لکم بشیء من امر دینکم فخذ وابروانا من تکم بشیء من رابی فانما انا بشر “ (رواہ مسلم) یعنی میں بھی تو انسان ہی ہوں جب تم کو تمہارے دین کی کسی بات کا حکم دوں تو اس کو مان لو اور جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو بیشک میں بھی انسان ہوں۔ (فاتوا بسورۃ من مثلہ) ہم نے شروع تفسیر میں سورة کے لفظ کی تحقیق میں بتایا تھا، کہ جہاں قرآن میں لفظ سورة کا آیا ہے اس سے کوئی سورة جو سورتوں کے نام سے مشہور ہیں مراد نہیں ہے، بلکہ کوئی حصہ قرآن کا مراد ہے۔
جو لوگ کہ قرآن پر خدا کی وحی سے ہونے میں شک کرتے تھے ان کا شبہ مٹانے کو خدا نے ان سے فرمایا کہ اگر تم اس کو خدا سے نہیں سمجھتے تو تم بھی اس کی مانند لاؤ۔
یہ مضمون کئی طرح پر قرآن میں آیا ہے، اس مقام پر تو یہ فرمایا ہے کہ قرآن کے کسی ٹکڑے یا حصہ کے مانند تم بھی لاؤ۔
اسی طرح سورة یونس میں فرمایا ہے کہ ” کیا کافر قرآن کو کہتے ہیں کہ یوں ہی بنالیا ہے تو تو ان سے کہہ کہ اس کے ٹکڑے یا حصہ کی مانند تم بھی بنا لاؤ۔
اور سورة ہود میں فرمایا ہے کہ ” کیا کافر قرآن کو کہتے ہیں کہ یوں ہی بنالیا ہے تو تو ان سے کہہ کہ اس کے دس ہی ٹکڑوں یا حصوں کی مانند تم بھی یوں ہی بنا لاؤ “۔
اور سورة اسریٰ میں فرمایا ہے کہ ” تو کہہ دے کہ اگر جن وانس اس بات پر جمع ہوں کہ اس قرآن کی مانند بنا لاویں تو اس کی مانند نہ بنا لاسکے گے “۔
اور سورة قصص میں فرمایا ہے کہ ” تو ان سے کہہ دے کہ خدا کے پاس سے کوئی کتاب لاؤ جو توراۃ و قرآن سے زیادہ ہدایت کرنے والی ہو “۔
ان سب آیتوں پر غور کرنے کے بعد اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ قرآن کی مانند سے کیا مراد ہے، ہمارے تمام علما و مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ قرآن نہایت اعلیٰ فصاحت و بلاغت پر واقع ہوا ہے، فصاحت و بلاغت پر واقع ہوا ہے،
ام یقولون افتراہ قل فاتوا بسورۃ مثلہ وادعوامن استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین (یونس
ام یقولون افتراہ قل فاتوا بعشرسو مثلہ مفریات وادھو امر استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین (ھود : )
قل لئن اجتعت الانس والجن علے ان یا تو ایمثل ھذا القرآن یا تون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا (اسری)
قل فاتوا بکتاب من عنداللہ ھواتد منھا اتبعہ ان کنتم صدقین (قصص : )
اور اس زمانہ میں اہل عرب کو فصاحت و بلاغت کا بڑا ہی دعویٰ تھا، پس خدا نے قرآن کے من اللہ ثابت کرنے کو یہ معجزہ قرآن میں رکھا کہ ویسا فصیح کلام کوئی بشر نہیں کہہ سکتا اور نہیں کہہ سکا، پس انھوں نے قرآن کی مانند سے فصاحت و بلاغت میں مانند ہونامراد لیا ہے۔
مگر میری سمجھ میں ان آیتوں کا یہ مطلب نہیں ہے، اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ قرآن مجید نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ فصاحت و بلاغت پر واقع ہے اور جو کہ وہ ایسی وحی ہے، جو پیغمبر کے قلب نبوت پر، نہ بطور معنی و مضمون کے بلکہ بلفظہ ڈالی گئی تھی، جس کے سبب سے ہم اس کو وحی متلو یا قرآن یا کلام خدا کہتے اور یقین کرتے ہیں، اس لیے ضروری تھا کہ وہ ایسے اعلیٰ درجہ فصاحت پر ہو، جو بےمثل و بےنظیر ہو، مگر یہ بات کہ اس کی مثال کوئی نہیں کہہ سکا یا کہہ سکتا، اس کے من اللہ ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی۔ کسی کلام کی نظیر نہ ہونا اس بات کی تو بلاشبہ دلیل ہے، کہ اس کی مانند کوئی دوسرا کلام موجود نہیں ہے، مگر اس کی دلیل نہیں ہے، کہ وہ خدا کی طرف سے ہے ، بہت سے کلام انسانوں کے دنیا میں ایسے موجود ہیں، کہ ان کے مثل فصاحت و بلاغت میں آج تک دوسرا کلام نہیں ہوا، مگر وہ من اللہ تسلیم نہیں ہوتے، نہ ان آیتوں میں کوئی ایسا اشارہ ہے جس سے فصاحت و بلاغت میں معارضہ چاہا گیا ہو، بلکہ صاف پایا جاتا ہے، کہ جو ہدایت قرآن سے ہوتی ہے اس میں معارضہ چاہا گیا ہے، کہ اگر قرآن کے خدا سے ہونے میں شبہ ہے، تو کوئی ایک سورة یا دس سورتیں یا کوئی کتاب مثل قرآن کے بنا لاؤ جو ایسی ہادی ہو۔ سورة قصص میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاف حکم دیا گیا ہے کہ ” تو کافروں سے کہہ دے کہ کوئی کتاب جو توراۃ و قرآن سے زیادہ ہدایت کرنے والی ہو اسے لاؤ، توراۃ فصیح نہیں ہے، بلکہ عام طور کی عبارت ہے، اس لیے کہ علاوہ قومی دس توراۃ و تاریخانہ مضامین کے جو اس کے جامع نے اس میں شامل کیے ہیں، جس قدر مضامین وحی کے اس میں ہیں، ان کا القاء بھی بلفظہ شاید بجز احکام عشرہ توراۃ کے جن کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پہاڑ میں بیٹھ کر پتھر کی تختیوں پر کھود لیا تھا، پایا نہیں جاتا، پس ظاہر ہے کہ قرآن گو کیسا ہی فصیح ہو، مگر جو معارضہ ہے، وہ اس کی فصاحت و بلاغت یا اس کی عبارت کے بےنظیر ہونے پر نہیں ہے، بلکہ اس کے بےمثل ہادی ہونے میں ہے، جو بالتصریح سورة قصص کی آیت میں بیان ہوا ہے، وہاں اس کی فصاحت و بلاغت اس کے بےنظیر ہادی ہونے کو زیادہ تر روشن و مستحکم کرتی ہے۔
ان آیتوں کے مخاطب اہل عرب تھے، پس جب قرآن نازل ہوا تو اس وقت جو عرب کا حال تھا اس کو ذرا اس طرح پر خیال میں لانا چاہیے کہ اس کا نقشہ آنکھوں کے سامنے جم جاوے۔ وہ تمام قوم ایک لٹیرے، چور، وقراق، خانہ بدوش قوم تھی جو مثل کجروں کے اپنا ڈیرہ گدھوں و خچروں پر لادے پڑی پھرتی تھی، غیر قوموں نے، ” سارشبین ” جو لفظ “ سارقین “ کا محرف ہے خطاب دیا تھا، بغض و عداوت و کینہ جو بدترین خصائص انسانی سے ہیں ان کے رگ و ریشہ میں پڑا ہوا تھا یہاں تک کہ وہاں کے جانور بھی کینہ میں ضرب المثل ہیں (شترکینہ) خوں ریزی، بےرحمی، قتل اولاد، ان میں ایسے درجہ پر تھی جس کی نظیر کسی قوم کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی، کنواری اور بیاہی عورتیں زنا کو اپنا فخر سمجھتی تھیں، جس طرح مرد کسی بھی عورت یا مشہور خاندان کی عورت سے زنا کرنا فخریہ اپنی قوم میں بیان کرتا تھا، اسی طرح عورتیں کسی نامی یا مشہور خاندانی مرد سے زنا کرنا فخریہ بیان کرتی تھیں، قوم کی قوم جاہل و امی تھی، بجز شراب خواری و بت پرستی کے کچھ کام نہ تھا، اور قوموں سے ایسے کونے میں پڑی ہوئی تھیں کہ کچھ روشن تعلیم و تربیت کی ان تک نہیں پہنچی تھی،
اسی قوم میں ایک شخص جس نے چالیس برس اپنی عمر کے انہی کے ساتھ صرف کیے تھے، ربانی روشنی جو خدا نے بمقتضائے فطرت اس میں رکھی تھی منور ہوا، اور روحانی تربیت کے حقائق ودقائق ایسے الفاظ میں جو عالم اور حکیم اور فلسفی اور نیچر لسٹ دوہریہ سے لے کر عام جاہلوں بدؤں صحرانشینوں کی ہدایت کے لیے بھی یکساں مفید تھے علانیہ بیان کئے، جو ممکن نہ تھا کہ بغیر اس کے کہ وہ خدا کی طرف سے ہوں بیان کئے جاسکتے، فطرت کے قاعدہ کے مطابق ممکن نہ تھا کہ بغیر اس فطرت نبوت کے جو خدا اپنے انبیاء میں ودیعت کرتا ہے ایسی قوم کے کسی شخص کے اس طرح کے خیالات اور اقوال و نصایح ہوں، جیسے کہ قرآن میں ہیں، یا ایسی تاریک و خراب حالت کی قوم کا کوئی شخص بغیر اس نور کے جو خدا نے اس کو دیا ایسی ہدایتیں بتادے، جیسی کہ قرآن میں ہیں، یہ بجز خدا سے ہونے کے اور کسی طرح ہو ہی نہیں سکتیں، اسی امر کی نسبت خدا نے فرمایا کہ اگر تم کو اس کے خدا سے ہونے میں شک ہے تو فاتوا بسورۃ من مثلہ۔
وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ ۪ وَ ادۡعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۳﴾
تفسیر سرسید :
( ممانزلنا) سے مراد قرآن ہے، جو نبی پر بذریعہ وحی کے خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے، پس اس مقام پر جب تک کہ وحی و نبوت کی حقیقت نہ بیان ہو اس وقت تک اس آیت کا مطلب سمجھ میں نہیں آسکتا۔
وحی تو وہی ہوتی ہے جو خدا سے پیغمبر کو دی جاتی ہے، مگر اگلے مفسرین نے لٹکا بیان کہ وہ کیونکر دی جاتی ہے ٹھیک طور پر نہیں کیا، انھوں نے خدا ورسول کو دنیا کے بادشاہ اور وزیر کی مانند اور وحی کو بادشاہ کے کلام یا حکم یا پیغام کی مانند سمجھا ہے، اور جبرائیل کو ایک مجسم فرشتہ بادشاہ و وزیر میں ایلچی پیغام لے جانے والا قرار دیا ہے۔
امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں ارقام فرماتے ہیں کہ آسمان پر جبرائیل خدا کا کلام سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترتے تھے اور وہ پیغام کہہ دیتے تھے۔ پھر اس تقریر پر ان کو یہ مشکل پیش آئی علی عبدنا اپنے بندے پر کہ خدا کے کلام میں تو حروف اور آواز نہیں ہے، پھر جبرائیل نے وہ کیونکر سنا ہوگا، پھر اس کا جواب یہ دیا ہے کہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ نے جبرائیل میں ایسی سماعت پیدا کی ہو جو خدا کا کلام سن لیتا ہو، پھر اس میں یہ قدرت رکھی ہو کہ وہ عبارت میں اس کی تعبیر کرسکے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہو کہ خدا نے لوح محفوظ میں اسی ترتیب سے قرآن پیدا کردیا ہو، اور جبرائیل نے اس کو پڑھ کر یاد کرلیا ہو۔ یا یہ ہوا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز جسم دار میں سے خاص طرح کی آوازیں ٹھہر ٹھہر کر نکالی ہوں اور جبرائیل نے بھی اسی کے ساتھ آواز ملا لی ہو، پھر اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو بتادیا کہ یہی وہ عبارت ہے ، جو ہمارے کلام قدیم کو پورا ادا کردیتی ہے۔
یہ تقریریں ہمارے علماء قدیم کی اسی قسم کی تقریریں ہیں جن پر آج لوگ ہنستے ہیں، اور قرآن مجید اور مذہب اسلام کو مثل اس تقریر کے لغو سمجھتے ہیں۔ امام صاحب نے اس بات پر غور نہیں فرمایا ہے، کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی میں ایسی سماعت یا لوح محفوظ میں سے پڑھنے کی قدرت یا جس جسم میں سے وہ اونچی نیچی آوازیں نکلتی تھیں ان سے کلام سمجھ لینے کی طاقت کیوں نہیں پیدا کی جو خدا کا کلام سن لیتے اور سمجھ لیتے تاکہ اس تکلیف کی کہ جبرائیل سنیں پھر اس کی عبارت بنائیں پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آکر سنائیں حاجت نہ رہتی۔ اس کی بھی تشریح امام صاحب نے نہیں فرمائی کہ ان اونچی نیچی آوازوں سے آواز ملا لینے کے بعد جبرائیل کو خدا نے کیونکر بتایا کہ یہ وہی عبارت ہے، آیا انہی اونچی نیچی آوازوں سے ، ان سے تو جاننا محال تھا کیونکہ دور لازم آتا ہے، پھر اور کسی طرح بتایا ہوگا، مگر پہلے ہی اسی طرح بتادیا ہوتا، ” ولا شک ان ھذہ طفوات لیس لھا فی الاسلام نصیب “ نبوت کو بھی علماء متقدمین نے ایک عہدہ سمجھا ہے کہ خدا جس کو چاہتا ہے یا جس کو منتخب کرتا ہے وزیر بنا ہے، جیسے بادشاہ اپنے بندوں میں سے کسی کو وزیر کسی کو دیوان کسی کو بخشی کردیتا ہے، اور وہ کسی منصب کو لے کر وہ کام شروع کرتا ہے، اور مبعوث ہونے کے ٹھیک یہی معنی انھوں نے سمجھے ہیں۔
فاتوا تو تم لاؤمگر میری سمجھ یہ نہیں ہے، میں نبوت کو ایک فطری چیز سمجھتا ہوں۔ نبی گو اپنی ماں کے پیٹ ہی میں کیوں نہ ہو نبی ہوتا ہے، النبی نبی ولوکان فی بطن امہ، جب پیدا ہوتا ہے تو نبی ہی پیدا ہوتا ہے، جب مرتا ہے تو نبی ہی مرتا ہے۔
نبی کا لفظ یہودیوں میں زیادہ تر مستعمل تھا، وہ اس کو لفظ بنانے سے مشتق کرتے تھے، جس کے معنی خبر دینے کے ہیں۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ انبیاء مثل نجومیوں کے دنیا کی باتوں میں سے غیب کی بات یا آئندہ ہونے والی باتیں بتا دیتے ہیں، شاید اتنا فرق سمجھتے ہوں کہ نجومی ستاروں کے حساب یا شیطانوں کے اسرار سے بتاتے تھے، اور انبیاء ربانی کرشمہ سے، پس جو شخص کہ کوئی پیشین گوئی نہیں کرتا تھا، اس کو نبی یا پیغمبر نہیں کہتے تھے، مگر اسلام میں اور مسلمانوں میں یہ خیال نہیں ہے، وہ ان سب کو جن پر خدا نے وحی نازل کی ہے نبی جانتے ہیں، اور پیغمبر مانتے ہیں، گو کہ اس نے کوئی بھی پیشینگوئی نہ کی ہو، بلکہ مذہب اسلام تو یہ بتاتا ہے کہ ” لا یعلم الغیب الا ھو “ یہی سبب ہے کہ قرآن مجید میں ہر ایک صاحب وحی کو نبی یا پیغمبر کہا گیا ہے جن میں سے اکثر کو جیسے داؤد سلیمان کو یہودی نبی نہیں کہتے۔
بہرحال اس لفظی بحث کو جانے دو، نبوت درحقیقت ایک فطری چیز ہے جو انبیاء میں بمقتضائے اپنی فطرت کے مثل دیگر قواے انسانی کے ہوتی ہے۔ جس انسان میں وہ قوت ہوتی ہے وہ نبی ہوتا ہے، اور جو نبی ہوتا ہے اس میں وہ قوت ہوتی ہے جس طرح کہ تمام ملکات انسانی اس کی ترکیب اعضا، دل و دماغ و خلقت کی مناسبت سے علاقہ رکھتے ہیں، اسی طرح ملکہ نبوت بھی اس سے علاقہ رکھتا ہے، یہ بات کچھ ملکہ نبوت پر ہی موقوف نہیں ہے، ہزاروں قسم کے جو ملکات انسانی ہیں بعض دفعہ کوئی خاص ملکہ کسی خاص انسان میں زروئے خلقت و فطرت کے ایسا قوی ہوتا ہے کہ وہ اس کا امام یا پیغمبر کہلاتا ہے، لوہار بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے،
نبورۃ من مثلہ اس کی مانند کوئی سورت
شاعر بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے ، ایک طبیب بھی فن طب کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے، مگر جو شخص روحانی امراض کا طبیب ہوتا ہے، اور جس میں اخلاق انسانی کی تعلیم و تربیت کا ملکہ بمقتضائے اس کی فطرت کے خدا سے عنایت ہوتا ہے، وہ پیغمبر کہلاتا ہے۔ اور جس طرح کہ اور قواے انسانی بمناسبت اس کے اعضا کے قوی ہوتے جاتے ہیں اسی طرح یہ ملکہ بھی قوی ہوتا جاتا ہے، اور جب اپنی پوری قوت پر پہنچ جاتا ہے، تو اس سے وہ ظہور میں آتا ہے جو اس کا مقتضی ہوتا ہے، جس کو عرف عام میں بعثت سے تعبیر کرتے ہیں۔
خدا اور پیغمبر میں بجز اس ملکہ نبوت کے جس کو ناموس اکبر اور زبان شرع میں جبرائیل کہتے ہیں اور کوئی ایلچی پیغام پہنچانے والا نہیں ہوتا، اس کا دل ہی وہ آئینہ ہوتا ہے جس میں تجلیات ربانی کا جلوہ دکھائی دیتا ہے، اس کا دل ہی وہ ایلچی ہوتا ہے جو خدا کے پاس پیغام لے جاتا ہے اور خدا کا پیغام لے کر آتا ہے، وہ خود ہی وہ مجسم چیز ہوتا ہے جس میں سے اللہ کے کلام کی آوازیں نکلتی ہیں، وہ خود ہی وہ کان ہوتا ہے جو خدا کے بےحرف بےصورت کلام کو سنتا ہے، خود اسی کے دل سے فوارہ کی مانند وحی اٹھتی ہے، اور خود اسی پر نازل ہوتی ہے، اسی کا عکس اس کے دل پر پڑتا ہے، جس کو وہ خود ہی الٰہام کہتا ہے، اس کو کوئی نہیں بلواتا بلکہ وہ خود بولتا ہے اور خود ہی کہتا ہے، وما ینطق عن الھویٰ ان ھوالا وحی یوحی۔
جو حالات و واردات ایسے دل پر گزرتے ہیں، وہ بھی بمقتضائے فطرت انسانی اور سب کے سب قانوکن فطرت کے پابند ہوتے ہیں، وہ خود اپنا کلام نفسی ان ظاہری کانوں سے اس طرح پر سنتا ہے جیسے کوئی دوسرا شخص اس سے کہہ رہا ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو ان ظاہری آنکھوں سے اس طرح دیکھتا ہے جیسے دوسرا شخص اس کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔
ان واقعات کے بتلانے کو اگرچہ یہ قول یاد آتا ہے کہ ” قدرایں با دہ ندانی بخدا تا۔۔ مگر ہم بطور تمثیل کے گو وہ کیسی ہی کم رتبہ ہو اس کا ثبوت دیتے ہیں، ہزاروں شخص ہیں جنہوں نے مجنونوں کی حالت دیکھی ہوگی، وہ بغیر بولنے والے کے اپنے کانوں سے آوازیں سنتے ہیں تنہا ہوتے ہیں مگر اپنی آنکھوں سے اپنے پاس کسی کو کھڑا ہوا باتیں کرتا ہوا دیکھتے ہیں، وہ سب انہی کے خیالات ہیں جو سب طرف سے بیخبر ہو کر ایک طرف معروف اور اس میں مستفرق ہیں، اور باتیں سنتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں پس ایسے دل کو جو فطرت کی رو سے تمام چیزوں سے بےتعلق، اور روحانی تربیت پر مصرف اور اس میں مستغرق ہو ایسی واردات کا پیش آنا کچھ بھی خلاف فطرت انسانی نہیں ہے، ہاں ان دونوں میں اتنا فرق ہے کہ پہلا مجنون ہے اور پچھلا پیغمبر، گو کہ کافر پچھلے کو بھی مجنون بتاتے تھے۔
پس وحی وہ چیز ہے جس کو قلب نبوت پر بسبب اسی فطرت نبوت کے مبداء فیاض نے نقش کیا ہے۔ وہی انتقاش قلبی کبھی مثل ایک بولنے والی آواز کے انہی ظاہر کانوں سے سنائی دیتا ہے، اور کبھی وہی نقش قلبی دوسرے بولنے والے کی صورت میں دکھائی دیتا ہے، مگر بجز اپنے آپ کے نہ وہاں کوئی آواز ہے نہ بولنے والا، خدا نے بہت سی جگہ قرآن میں جبرائیل کا نام لیا ہے، مگر سورة بقرہ میں اس کی ماہیت بتائی ہے، جہاں فرمایا ہے کہ ” جبرائیل نے تیرے دل میں قرآن کو خدا کے حکم سے ڈالا ہے “ دل پر اتارنے والی، یا دل میں ڈالنے والی، وہی چیز ہوتی ہے جو خود انسان کی فطرت میں ہو، نہ کوئی دوسری چیز جو فطرت سے خارج اور خود اس کی خلقت سے جس کے دل پر ڈالی گئی ہے جداگانہ ہو، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسی ملکہ نبوت کا جو خدا نے انبیاء میں پیدا کیا ہے جبرائیل نام ہے۔ یہی مطلب قرآن کی بہت سی آیتوں سے پایا جاتا ہے جیسا کہ سورة قیامۃ میں فرمایا ہے کہ ” ان علینا جمعہ وقراٰنہ “ یعنی ہمارا ذمہ ہے وحی کو تیرے دل میں اکٹھا کردینے اور اس کے پڑھ دینے کا ” فاذا اقراناہ فاتبع قراٰنہ “ پھر جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو اس پڑھنے کی پیروی کر ” ثم ان علینا بیانہ “ پھر ہمارا ذمہ ہے اس کا مطلب بتانا، ان آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا اور پیغمبر میں کوئی واسطہ نہیں ہے، خود خدا ہی پیغمبر کے دل میں وحی جمع کرتا ہے وہی پڑھتا ہے وہی مطلب بتاتا ہے، اور یہ سب کام اسی فطری قوت نبوت کے ہیں جو خدا تعالیٰ نے مثل دے کر تو اسی انسانی کے انبیاء میں بمقتضائے ان کی فطرت کے پیدا کی ہے۔ اور وہی قوت ناموس اکبر ہے، اور وہی قوت جبرائیل پیغمبر۔
اسی طرح خدا تعالیٰ سورة النجم میں فرماتا ہے ” وما ینطق عن للھویٰ ان ھو الا وحی یوحی “ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی خواہش نفس سے نہیں کہتا مگر یہ تو وہ بات ہے جو اس کے دل میں ڈالی گئی ہے۔ ” علمہ شدید القوی ذوہوۃ “ اس کو سکھایا ہے بڑی قوت والے صاحب دانش نے ” فاستوی وھوبالافق الا علی “ پھر ٹھہرا اور وہ بہت بلند کنارہ پر تھا ” ثم دلی فتدل “ پھر پاس ہوا اور ادھر کھڑا ہوا ” فکان قاب قوسین اوادنی “ پھر دو کمانوں یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا ” فاوحی الی عبدہ مااوحی “ پھر اپنے بندہ کے دل میں ڈالی وہ بات جو ڈالی۔ یہ تمام مشاہدہ اگر انہی ظاہری آنکھوں سے تھا، تو وہ عکس خود اپنے دل کی تجلیات ربانی کا تھا، جو بمقتضائے فطرت انسانی و فطرت نبوت دکھائی دیتا تھا، اور دراصل بجز ملکہ نبوت کے جس کو جبرائیل کہو یا اور کچھ، کچھ نہ تھا۔
علماء اسلام نے انبیاء اور عام انسانوں میں بجز اس کے کہ ان کو ایک عہدہ مل گیا ہے، جو ممکن تھا کہ ان میں سے بھی کسی کو مل جاتا، اور کچھ فرق نہیں سمجھا، اور اسی لیے شاعرہ دماتریدیہ نے نبی اور امت کی مثال سلطان ورعیت کی سمجھی ہے۔ مگر میری سمجھ میں یہ مثال ٹھیک نہیں ہے،
نبی اور امت کی مثال راعی و غنم کیسی ہے ، گو نبی و امت انسانیت میں شریک ہیں، جیسا کہ راعی و غلام حیوانیت میں، مگر نبی و امت میں فطرت نبوکت کی ایسی ہی فصل ہے، جیسا کہ راعی و غنم میں ناطقیت کی۔
قرآن مجید کا نجما نجما نازل ہونا بھی بری دلیل اس بات کی ہے کہ وہ بمقتضائے اسی فطرت کے نازل ہوا ہے، ہم بمقتضائے فطرت انسانی یہ بات دیکھتے ہیں ، کہ تمام ملکات انسانی کسی متحرک یعنی کسی امر کے پیش آنے پر اپنا کام کرتے ہیں، اسی طرح ملکہ نبوت بھی حبیی اپنا کام کرتا ہے جبکہ کوئی امر پیش آتا ہے۔ ہمارے دل میں سینکڑوں مضمون ہوتے ہیں، سینکڑوں نصیحتیں ہوتی ہیں، اشعار یاد ہوتے ہیں ، دوستوں کی صورتیں، اور مکانوں کی باغوں اور جنگلوں کی تصویریں دماغ میں موجود ہوتی ہیں، مگر جب تک ان پر متوجہ ہونے کا کوئی سبب نہ ہو وہ سب بےمعلوم رہتی ہیں، یہی حال ملکہ نبوت کا ہے، نبی معہ اپنے ملکہ نبوت کے موجود ہوتا ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، سوتا ہے، جاگتا ہے، دنیوی باتیں جن کو نبوت سے کچھ تعلق نہیں ہیں اسی طرح پر کرتا ہے جس طرح کہ اور تمام انسان کرتے ہیں، مگر جب کوئی ایسا امر پیش ہوتا ہے جو اس ملکہ نبوت کی تحریک کا باعث ہو، اس وقت وہ ملکہ نبوت اپنا کام کرتا ہے، اسی باریک دقیقہ کی حرف خدا نے اشارہ کرنے کو اپنی نبی کی زبان سے یہ کہلوایا کہ ” انا بشر مثلکم یوحی الی انما الھکم الہ واحد “ اور خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” انما انا بشرا اذا امن لکم بشیء من امر دینکم فخذ وابروانا من تکم بشیء من رابی فانما انا بشر “ (رواہ مسلم) یعنی میں بھی تو انسان ہی ہوں جب تم کو تمہارے دین کی کسی بات کا حکم دوں تو اس کو مان لو اور جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو بیشک میں بھی انسان ہوں۔ (فاتوا بسورۃ من مثلہ) ہم نے شروع تفسیر میں سورة کے لفظ کی تحقیق میں بتایا تھا، کہ جہاں قرآن میں لفظ سورة کا آیا ہے اس سے کوئی سورة جو سورتوں کے نام سے مشہور ہیں مراد نہیں ہے، بلکہ کوئی حصہ قرآن کا مراد ہے۔
جو لوگ کہ قرآن پر خدا کی وحی سے ہونے میں شک کرتے تھے ان کا شبہ مٹانے کو خدا نے ان سے فرمایا کہ اگر تم اس کو خدا سے نہیں سمجھتے تو تم بھی اس کی مانند لاؤ۔
یہ مضمون کئی طرح پر قرآن میں آیا ہے، اس مقام پر تو یہ فرمایا ہے کہ قرآن کے کسی ٹکڑے یا حصہ کے مانند تم بھی لاؤ۔
اسی طرح سورة یونس میں فرمایا ہے کہ ” کیا کافر قرآن کو کہتے ہیں کہ یوں ہی بنالیا ہے تو تو ان سے کہہ کہ اس کے ٹکڑے یا حصہ کی مانند تم بھی بنا لاؤ۔
اور سورة ہود میں فرمایا ہے کہ ” کیا کافر قرآن کو کہتے ہیں کہ یوں ہی بنالیا ہے تو تو ان سے کہہ کہ اس کے دس ہی ٹکڑوں یا حصوں کی مانند تم بھی یوں ہی بنا لاؤ “۔
اور سورة اسریٰ میں فرمایا ہے کہ ” تو کہہ دے کہ اگر جن وانس اس بات پر جمع ہوں کہ اس قرآن کی مانند بنا لاویں تو اس کی مانند نہ بنا لاسکے گے “۔
اور سورة قصص میں فرمایا ہے کہ ” تو ان سے کہہ دے کہ خدا کے پاس سے کوئی کتاب لاؤ جو توراۃ و قرآن سے زیادہ ہدایت کرنے والی ہو “۔
ان سب آیتوں پر غور کرنے کے بعد اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ قرآن کی مانند سے کیا مراد ہے، ہمارے تمام علما و مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ قرآن نہایت اعلیٰ فصاحت و بلاغت پر واقع ہوا ہے، فصاحت و بلاغت پر واقع ہوا ہے،
ام یقولون افتراہ قل فاتوا بسورۃ مثلہ وادعوامن استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین (یونس
ام یقولون افتراہ قل فاتوا بعشرسو مثلہ مفریات وادھو امر استطعتم من دون اللہ ان کنتم صدقین (ھود : )
قل لئن اجتعت الانس والجن علے ان یا تو ایمثل ھذا القرآن یا تون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا (اسری)
قل فاتوا بکتاب من عنداللہ ھواتد منھا اتبعہ ان کنتم صدقین (قصص : )
اور اس زمانہ میں اہل عرب کو فصاحت و بلاغت کا بڑا ہی دعویٰ تھا، پس خدا نے قرآن کے من اللہ ثابت کرنے کو یہ معجزہ قرآن میں رکھا کہ ویسا فصیح کلام کوئی بشر نہیں کہہ سکتا اور نہیں کہہ سکا، پس انھوں نے قرآن کی مانند سے فصاحت و بلاغت میں مانند ہونامراد لیا ہے۔
مگر میری سمجھ میں ان آیتوں کا یہ مطلب نہیں ہے، اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ قرآن مجید نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ فصاحت و بلاغت پر واقع ہے اور جو کہ وہ ایسی وحی ہے، جو پیغمبر کے قلب نبوت پر، نہ بطور معنی و مضمون کے بلکہ بلفظہ ڈالی گئی تھی، جس کے سبب سے ہم اس کو وحی متلو یا قرآن یا کلام خدا کہتے اور یقین کرتے ہیں، اس لیے ضروری تھا کہ وہ ایسے اعلیٰ درجہ فصاحت پر ہو، جو بےمثل و بےنظیر ہو، مگر یہ بات کہ اس کی مثال کوئی نہیں کہہ سکا یا کہہ سکتا، اس کے من اللہ ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی۔ کسی کلام کی نظیر نہ ہونا اس بات کی تو بلاشبہ دلیل ہے، کہ اس کی مانند کوئی دوسرا کلام موجود نہیں ہے، مگر اس کی دلیل نہیں ہے، کہ وہ خدا کی طرف سے ہے ، بہت سے کلام انسانوں کے دنیا میں ایسے موجود ہیں، کہ ان کے مثل فصاحت و بلاغت میں آج تک دوسرا کلام نہیں ہوا، مگر وہ من اللہ تسلیم نہیں ہوتے، نہ ان آیتوں میں کوئی ایسا اشارہ ہے جس سے فصاحت و بلاغت میں معارضہ چاہا گیا ہو، بلکہ صاف پایا جاتا ہے، کہ جو ہدایت قرآن سے ہوتی ہے اس میں معارضہ چاہا گیا ہے، کہ اگر قرآن کے خدا سے ہونے میں شبہ ہے، تو کوئی ایک سورة یا دس سورتیں یا کوئی کتاب مثل قرآن کے بنا لاؤ جو ایسی ہادی ہو۔ سورة قصص میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاف حکم دیا گیا ہے کہ ” تو کافروں سے کہہ دے کہ کوئی کتاب جو توراۃ و قرآن سے زیادہ ہدایت کرنے والی ہو اسے لاؤ، توراۃ فصیح نہیں ہے، بلکہ عام طور کی عبارت ہے، اس لیے کہ علاوہ قومی دس توراۃ و تاریخانہ مضامین کے جو اس کے جامع نے اس میں شامل کیے ہیں، جس قدر مضامین وحی کے اس میں ہیں، ان کا القاء بھی بلفظہ شاید بجز احکام عشرہ توراۃ کے جن کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پہاڑ میں بیٹھ کر پتھر کی تختیوں پر کھود لیا تھا، پایا نہیں جاتا، پس ظاہر ہے کہ قرآن گو کیسا ہی فصیح ہو، مگر جو معارضہ ہے، وہ اس کی فصاحت و بلاغت یا اس کی عبارت کے بےنظیر ہونے پر نہیں ہے، بلکہ اس کے بےمثل ہادی ہونے میں ہے، جو بالتصریح سورة قصص کی آیت میں بیان ہوا ہے، وہاں اس کی فصاحت و بلاغت اس کے بےنظیر ہادی ہونے کو زیادہ تر روشن و مستحکم کرتی ہے۔
ان آیتوں کے مخاطب اہل عرب تھے، پس جب قرآن نازل ہوا تو اس وقت جو عرب کا حال تھا اس کو ذرا اس طرح پر خیال میں لانا چاہیے کہ اس کا نقشہ آنکھوں کے سامنے جم جاوے۔ وہ تمام قوم ایک لٹیرے، چور، وقراق، خانہ بدوش قوم تھی جو مثل کجروں کے اپنا ڈیرہ گدھوں و خچروں پر لادے پڑی پھرتی تھی، غیر قوموں نے، ” سارشبین ” جو لفظ “ سارقین “ کا محرف ہے خطاب دیا تھا، بغض و عداوت و کینہ جو بدترین خصائص انسانی سے ہیں ان کے رگ و ریشہ میں پڑا ہوا تھا یہاں تک کہ وہاں کے جانور بھی کینہ میں ضرب المثل ہیں (شترکینہ) خوں ریزی، بےرحمی، قتل اولاد، ان میں ایسے درجہ پر تھی جس کی نظیر کسی قوم کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی، کنواری اور بیاہی عورتیں زنا کو اپنا فخر سمجھتی تھیں، جس طرح مرد کسی بھی عورت یا مشہور خاندان کی عورت سے زنا کرنا فخریہ اپنی قوم میں بیان کرتا تھا، اسی طرح عورتیں کسی نامی یا مشہور خاندانی مرد سے زنا کرنا فخریہ بیان کرتی تھیں، قوم کی قوم جاہل و امی تھی، بجز شراب خواری و بت پرستی کے کچھ کام نہ تھا، اور قوموں سے ایسے کونے میں پڑی ہوئی تھیں کہ کچھ روشن تعلیم و تربیت کی ان تک نہیں پہنچی تھی،
اسی قوم میں ایک شخص جس نے چالیس برس اپنی عمر کے انہی کے ساتھ صرف کیے تھے، ربانی روشنی جو خدا نے بمقتضائے فطرت اس میں رکھی تھی منور ہوا، اور روحانی تربیت کے حقائق ودقائق ایسے الفاظ میں جو عالم اور حکیم اور فلسفی اور نیچر لسٹ دوہریہ سے لے کر عام جاہلوں بدؤں صحرانشینوں کی ہدایت کے لیے بھی یکساں مفید تھے علانیہ بیان کئے، جو ممکن نہ تھا کہ بغیر اس کے کہ وہ خدا کی طرف سے ہوں بیان کئے جاسکتے، فطرت کے قاعدہ کے مطابق ممکن نہ تھا کہ بغیر اس فطرت نبوت کے جو خدا اپنے انبیاء میں ودیعت کرتا ہے ایسی قوم کے کسی شخص کے اس طرح کے خیالات اور اقوال و نصایح ہوں، جیسے کہ قرآن میں ہیں، یا ایسی تاریک و خراب حالت کی قوم کا کوئی شخص بغیر اس نور کے جو خدا نے اس کو دیا ایسی ہدایتیں بتادے، جیسی کہ قرآن میں ہیں، یہ بجز خدا سے ہونے کے اور کسی طرح ہو ہی نہیں سکتیں، اسی امر کی نسبت خدا نے فرمایا کہ اگر تم کو اس کے خدا سے ہونے میں شک ہے تو فاتوا بسورۃ من مثلہ۔