• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 127

وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۱۲۷﴾

تفسیر سرسید :

( واذ یرفع) کعبہ درحقیقت نماز پڑھنے کی جگہ یعنی مسجد ہے، جس کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بنایا تھا۔ خود خدا نے اس کو مسجد کہا ہے جہاں فرمایا ہے ” ان المشرکین نجس فلا یقربوا المسجد الحرام “ اور جہاں فرمایا ہے ” لقد صدق اللہ الرویابالحق لتدخلن المسجد الحرام انشاء اللہ “ ابراہیم اور اس کی تمام اولاد ایسے مقام کو بیت اللہ کہا کرتے تھے اور اس لیے کعبہ کو بھی بیت اللہ کہتے ہیں۔
انسان کی ایک جبلی عادت ہے کہ ایک ایسے وجود کے لیے جو نہ دکھائی دیتا ہے، نہ چھوا جاتا ہے، اور نہ سمجھ میں آتا ہے، اور بجز اس کے کہ ہے، اور کوئی خیال اس کی نسبت قائم نہیں ہوسکتا، کوئی نہ کوئی محسوس نشان قائم کرلیتا ہے، اور اس محسوس نشان کے ذریعہ سے اپنا عجز اور نیاز اس غیر محسوس اور بیچون و بیچگون ذات کے سامنے ادا کرتا ہے۔ قدیم زمانہ کے لوگوں کو بالطبع ایسے نشان کے قائم کرنے کی زیادہ تر رغبت ہوتی تھی، اور یہی بات ہے جس کے سبب سے ہم قدیم سے قدیم قوموں کا اور وحشی سے وحشی لوگوں کا جب حال تحقیق کرتے ہیں، تو ان میں بت پرستی کے یعنی ایک شی محسوس کے پوجنے کے آثار پائے جاتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیال حضرت ابراہیم کے زمانہ تک معدوم نہیں ہوا تھا، اور اسی سبب سے حضرت ابراہیم بھی خدا کی عبادت کے لیے ایک بن گڑھا پتھر کھرا کرلیتے تھے، اور یہ رسم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وقت تک قائم تھی۔ اس فعل میں جو انبیاء نے کیا، اور اس فعل میں جو بت پرست کرتے تھے، فرق یہ ہے کہ بت پرست غیر خدا کے نام محسوس شے قائم کرکے پرستش کرتے تھے، اور اس لیے وہ خدا کی پرستش نہ تھی، بلکہ اس غیر خدا کی پرستش تھی، جس کے نام سے وہ محسوس شے قائم کی تھی۔ انبیاء نے جو محسوس شے قائم کی وہ خدا ہی کے نام پر قائم کی، اور خدا ہی کی پرستش کی نہ کسی غیر خدا کی، مگر مبارکی ہو اس کو (یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو) جس نے ان تمام نشانوں کو مٹا دیا، اور اس بےنشان کی عبادت کو بغیر کسی نشان کے قائم کیا، اور بحروبزا اور پہاڑ اور گھر اور مسجد سب میں یکساں خدا کی عبادت ہونا سکھا دیا، کوئی سمت خدا کی عبادت کے لیے مخصوص نہیں کی، یہ سمجھنا کہ کعبہ کی سمت خدا کی عبادت کے لیے مخصوص ہے محض غلطی ہے، اور بانی اسلام کی ہدایت کے خلاف ، وہ سمت عبادت کے لیے مخصوص نہیں ہے، بلکہ ایک تمیز اور تفرقہ کے لیے مخصوص ہے جس کو ہم آگے بیان کریں گے۔ کتاب پیدائش باب درسمیں لکھا ہے کہ ” تب خداوند نے ابراہیم کو دکھلائی دے کر کہا کہ یہی ملک میں تیری نسل کو دونگا، اور اس نے وہاں خداوند کے لیے جو اس پر ظاہر ہوا ایک مذبح بنایا، اور سای باب کی آٹھویں آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ پھر وہاں سے ابراہیم (علیہ السلام) نے کوچ کیا اور آگے جاکر، پھر ایک مذبح بنایا اور خدا کے نام سے یعنی خدا کے گھر کے نام سے اس کو موسوم کیا۔ اسی کتاب کے تیرھویں باب کی اٹھارہویں آیت میں ہے ” کہ بلوطستان ممری میں ابراہیم جارہا اور وہاں خداوند کے لیے ایک مذبح بنایا۔
ان تینوں آیتوں سے ثابت ہے کہ خدا کے لیے مذبح تعمیر کرنا اور خدا کے نام سے اس کو پکارنا اور وہاں خدا کے نام پر قربانی کرنا حضرت ابراہیم کا طریقہ تھا۔ یہ طریقہ ان کی اولاد میں بھی جاری تھا، چنانچہ کتاب پیدائش باب درس میں لکھا ہے کہ ” بیر شبع میں اسحاق پسرا ابراہیم کو خدا دکھلائی دیا اور اس نے وہاں مذبح بنایا اور خدا کے نام سے اس کو موسوم کیا “۔
اب ہم کو یہ بتانا رہا کہ یہ مذبح کس طرح بنایا جاتا تھا، اس کی تفصیل بھی توراۃ مقدس میں موجود ہے۔
کتاب خروج باب درس میں لکھا ہے کہ ” اگر تو میرے لیے پتھر کا مذبح بنادے تو تراشے ہوئے پتھر کا مت بنائیو کیونکہ اگر تو اسے اوزار لگا دے گا تو اسے ناپاک کریگا۔
اور اسی کتاب کے باب درس میں لکھا ہے کہ ” اور موسیٰ نے خداوند کی ساری باتیں لکھیں اور صبح کو سویرے اٹھا اور پہاڑ کے تلے ایک مذبح بنایا اور اسرائیل کی بارہ سبطوں کے عدد کے موافق بارہ ستون بنائے گئے۔
اور کتاب پیدائش باب درس و و میں لکھا ہے کہ ” یعقوب صبح سویرے اٹھا اور اس پتھرکو جسے اس نے اینا تکیہ کیا تھا لے کے ستون کی مانند کھڑا کیا اور اس کے سر پر تیل ڈالا ” اور اس کا نام بیت ایل (یعنی بیت اللہ خدا کا گھر) رکھا “ اور کہا کہ یہ پتھر جو میں نے ستون کی مانند کھڑا کیا خدا کا گھر یعنی بیت اللہ ہوگا “
جبکہ حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی سارہ کے کہنے سے اپنی دوسری بیوی ہاجرہ کو مع حضرت اسماعیل اپنے بیٹے کے جو ہاجرہ بیوی کے پیٹ سے تھے نکال دیا، اور وہ اس کوہستان مکہ میں آکے ٹھہرے، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کی عبادت کے لیے اسی طرح جیسا کہ وہ کیا کرتے تھے ایک پتھر کھڑا کرکے مذبح بنایا ہوگا، جو اب ہم مسلمانوں میں حجرا سود اور یمین الرحمن کے نام سے مشہور ہے۔ اس حجرا سود کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک جزو کعبہ کا ہوگیا تھا، مگر وہ ایک ایسی شے ہے جواب تک موجود ہے ، جہاں اس طرح پر مذبح بنایا جاتا تھا وہاں کوئی عمارت بنا دینے کا بھی دستور تھا، جس کا اشارہ توراۃ کی ان آیتوں سے بھی پایا جاتا ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں۔ پس بعد اس مذبح بنانے کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے وہاں کعبہ بنایا، جو اب بیت اللہ کہلاتا ہے، اور اسی کے ایک کونے میں وہ پتھر لگا دیا۔ اس آیت میں اسی تعمیر کا ذکر ہے۔
اگرچہ ڈایوڈورس یونانی مورخ کی تاریخ میں کعبہ کا ذکر ہے، اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے اعلیٰ درجہ کے تقدس کی تمام عرب تعظیم کرتے تھے، مگر بعض ناسمجھ آدمی یہ اعتراض کرتے ہیں، کہ توراۃ میں کہیں اس مقام پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مذبح بنانے یا کعبہ کی تعمیر کرنے کا ذکر نہیں ہے، مگر ان کا یہ اعتراض محض لغو اور بےبنیاد ہے، توراۃ میں بہت سے ایسے واقعات ہیں جو مذکور نہیں، حالانکہ ان کا تاریخی ثبوت موجود ہے۔ اور توراۃ میں ذکر نہ ہونے سے اس کا عدم واقوع لازم نہیں آتا۔ اصل یہ ہے کہ توراۃ اور جو کتابیں کہ اس سے متعلق ہیں، وہ خاص بنی اسرائیل کے حالات میں لکھی گئی ہیں، اس لیے انھیں بنی اسماعیل کا وہاں تک کا ذکر ہے جہاں تک کہ بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل کے مشترک حالات رہی ہیں، اور جہاں سے بنی اسماعیل کے حالات علیحدہ ہوگئے ہیں وہاں سے بنی اسماعیل کا ذکر ان کتابوں میں نہیں ہے، الا ماشاء اللہ کہیں کہیں کسی سبب اور کسی تعلق سے آجاتا ہے۔ مکہ میں بنی اسماعیل کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مذبح یا کعبہ بنانا بنی اسرائیل سے کچھ تعلق نہیں رکھتا تھا، اور
مقامات مشہورہ مکہ معظمہ
مقامات میقات۔ ذوالحلیفہ۔ مدینہ منورہ کے رستہ پر
ذات عرق۔ عراق کے رستہ پر
حجفہ۔ شام کے رستہ پر
قرن۔ نجد کے رستہ پر
یلہلم۔ یمن کے رستہ پر
حجرا سود۔ کعبہ کے شرقی وشمالی کونے میں یہ پتھر لگا ہوا ہے۔
مقام ابراھیم۔ عام لوگوں کے نزدیک وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر کعبہ کی دیوار چنی تھی۔ اور جو پتھر خانہ کعبہ کے شمال میں لگا ہوا ہے اور اس پر ایک قبہ بنا ہوا ہے اور وہاں شاضی امام کھڑا ہوتا ہے اسی کو وہ پتھر بتاتے ہیں۔
صفا۔ کعبہ سے جنوب و مشرق میں ایک پہاڑی ہے اور اب اس پر آبادی ہوگئی ہے۔
مروہ۔ کعبہ سے مشرق و شمال میں ایک چھوٹی پہاڑی ہے اب وہاں بھی آبادی ہے۔
منیٰ ۔ کعبہ سے گوشہ مشرق و شمامل میں چار کوس کے فاصلہ پر ہے۔
عرفات۔ کعبہ سے جانب مشرق آٹھ کوس کے فاصلہ پر ایک میدان ہے۔
ھزدلفہ۔ کعبہ سے جانب شمال و مشرق ایک میدان و پہاڑ ہے۔
زمزم۔ مشہور کنواں حرم کے اندر ہے۔
مینراب رحمت۔ کعبہ کے چھت کا پرنالہ ہے۔
ان کتابوں میں اس کا ذکر نہ ہونے کی یہ کافی وجہ ہے۔ مگر ہر زمانہ کے عرب کی متواتر روایتوں سے جن سے کسی امر کے ثبوت میں کچھ شبہ نہیں رہتا، اور ینز غیر قوموں کی کتابوں سے ، اور نیز قدیم جغرافیہ سے، اور خود مکہ کے گرد کی قدیم ویران بستیوں سے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹوں کے نام پر آباد ہوئی تھیں، کچھ شبہ نہیں رہتا کہ کعبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بنایا ہوا ہے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب کعبہ بنایا تو صرف اس کی دیواریں بنائی تھیں چھت اس پر نہیں تھی۔ بنی جرہم کے زمانہ میں پہاڑی نالہ کے سبب سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بنایا ہوا کعبہ ڈھے گیا، تب بنی جرہم نے اس کو پھر تعمیر کیا۔ پھر وہ عمالیق کے زمانہ میں جو ایک قبیلہ بنی حمیر کا تھا ڈھے گیا، تب عمالیق نے اس کو بنایا، پھر اس میں کچھ نقصان آگیا تو قصی نے اس کو تعمیر کیا۔ پھر آگ لگنے کے سبب کعبہ جل گیا اور قریش نے اس کو تعمیر کیا، اس زمانہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوچکے تھے اور آپ کی عمر تخمیناً بارہ چودہ برس کی تھی۔ یزید کے زمانہ میں جب کعبہ پر فوج کشی ہوئی تو پھر کعبہ جل گیا، اور عبداللہ ابن زبیر نے اس کو تعمیر کیا، مگر حجاج بن یوسف نے عبدالملک ابن مروان کے وقت میں عبداللہ بن زبیر کی عمارت کو ڈھا ڈالا، اور از سر نو اس کو اسی طرح پر بنادیا جیسا کہ قریش کے زمانہ میں تھا، اور اب جو عمارت موجود ہے وہ حجاج بن یوسف کی بنائی ہوئی ہے، مگر اس کے گرد کی جو عمارتیں ہیں اور جو عمارات حرم کعبہ کہلاتی ہیں ان کو بہت سے بادشاہوں نے بنایا ہے، اور وہ نہایت عالیشان عمارتیں ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 137

فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَاۤ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ فَقَدِ اہۡتَدَوۡا ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا ہُمۡ فِیۡ شِقَاقٍ ۚ فَسَیَکۡفِیۡکَہُمُ اللّٰہُ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۱۳۷﴾ؕ

تفسیر سرسید :

( بمثل ما امنتم) یہ جو خدا نے فرمایا کہ ” اگر ایمان لائے اس چیز کی مانند پر جس پر تم ایمان لائے ہو “ اس پر علما و مفسرین نے بحث کی ہے کہ مانند سے کیا مطلب ہے، اور اس کا حل اس طرح پر کیا ہے کہ مانند کے لفظ سے کوئی دوسری چیز اس کے مشابہ مقصود نہیں ہوتی، بلکہ وہی شے مقصود ہوتی ہے، جیسا کہ کوئی کہے کہ ایسا کرو جیسا کہ انھوں نے کیا ہے، تو اس سے مقصود یہی ہوتا ہے کہ وہی کرو جو انھوں نے کیا ہے، مقصود صرف اس قدر ہے کہ خدا پر اور انبیاء پر ایمان لانا ٹھیک ٹھیک ہدایت پانی ہے، اور اس کے ماننے سے انکار کرنا مخالفت کرنی ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
الم : سورۃ البقرة : آیت 138

صِبۡغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً ۫ وَّ نَحۡنُ لَہٗ عٰبِدُوۡنَ ﴿۱۳۸﴾

تفسیر سرسید :

( صبغۃ اللہ) ۔ یہودی اور عیسائی دونوں میں اصطباغ کی رسم جاری تھی، ابتداء میں یہودیوں میں کسی بنا پر یہ رسم شروع ہوئی ہو، مگر کچھ شبہ نہیں ہے کہ بعد تباہی بیت المقدس کے یہودیوں میں یہ رسم مستحکم ہوگئی تھی، اور مذہب میں داخل ہونے کو عیسائی مذہب کے رو سے بھی اصطباع لازمی قرار پایا تھا، خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی حضرت یحییٰ (علیہ السلام) سے اصطبراغ لیا تھا، اس مقام پر خدا نے فرمایا کہ خدا کا اصطباغ لو، اس سے بہتر کوئی اصطباغ نہیں، یعنی خدا پر دل سے جان سے روح سے یقین کرو، یہی خدا کا اصطباغ ہے، پس دین محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اسلام میں داخل ہونے کو ظاہری اصطباغ موقوف ہوگیا اور روحانی اصطباغ قائم ہوا، اور صرف دل سے خدا پر اور اس کی وحدانیت پر یقین کرنا ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کو کافی ہوا، جیسا کہ خدا کا اصطباغ دینے والا فرماتا ہے ” ما من عبد قال لا الہ الا اللہ ثم مات علی ذلک الا دخل الجنۃ “ اور اپنے خادم ابوہریرہ سے کہا کہ ” من لقیک یشھدان لا الہ الا اللہ مستیقناً بھا قلبہ فبشرہ بالجنۃ “ پس دین محمدی میں یہی روحانی اصطباغ ہی جس میں نہ اصطباغ دینے والے کی ضرورت ہے، نہ پانی کی رنگت کی، بلکہ صرف دل کا یقین کافی ہے، وھذا ھو صبغۃ اللہ۔
 
Top