• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 10 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ التوبہ : آیت 5

تفسیر سرسید : ۲
غزوہ ذی امر ربیع الاول سنہ ہجری
امر۔ رائے مشدد مفتوحہ سے ایک موضع کا نام ہے جو نواح نجد میں واقع ہے۔
یہ صرف ایک سفر تھا جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجد اور فطفان کی طرف فرمایا تھا اس سفر میں نہ کسی سے مقابلہ ہوا نہ کسی سے لڑائی ہوئی ایک مہینہ تک اس نواح میں آپ نے قیام کیا پھر واپس تشریف لے آئے۔
غزوہ فرع من بحران جمادی الاول سنہ ہجری
فرع۔ ایک گاؤں کا نام ہے ربذ پہاڑ کے پاس مدینہ سے آٹھ منزل مکہ کی طرف۔
بحران۔ ایک میدان ہے اسی کے پاس۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بذاتہ خاص قریش مکہ کا حال دریافت کرنے کو سفر کیا اور دو مہینہ تک اس نواح میں قیام فرمایا اور پھر مدینہ میں چلے آئے کوئی جھگڑا قضیہ کسی سے نہیں ہوا۔
غزوہ قردہ۔ جمادی الآخر سنہ ہجری
قردہ۔ ایک چشمہ کا نام ہے جو نجد میں ہے۔
قریش مکہ کی تجارت کا روکنا جن سے ہر وقت اندیشہ جنگ تھا ایک ضروری امر تھا انھوں نے قدیم رستہ تجارت کا چھوڑ کر ایک نیا رستہ عراق میں ہو کر نکالنا چاہا اور ابوسفیان بن حرب قافلہ لے کر نکلا اور فرات بن حیان رستہ بتانے والا تھا۔ جب اس کی خبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو زید ابن حارثہ کو ان پر بھیجا اس نے قافلہ کو لوٹ لیا اور فرات ابن حیان کو پکڑ لایا جو بعد اس کے مسلمان ہوگیا۔
یہ تمام واقعات ایسے ہیں جو ایک جنگجو دشمن کے مقابلہ میں ہر ایک قوم کو کرنے پڑتے ہیں ان واقعات سے اس بات پر استدلال نہیں ہوسکتا کہ یہ لڑائیاں بزور مسلمان کرنے کے لیے تھیں۔
غزوہ احد شوال سنہ ہجری
احد۔ مدینہ سے کچھ فاصلہ پر جو سرخ پہاڑ ہے اس کا نام ہے۔
ابوسفیان مکہ سے تین ہزار لڑنے والوں کے ساتھ لڑنے کو اور مدینہ پر حملہ کرنے کو روانہ ہوا جب کہ وہ لوگ عینین میں جو بطن سنجہ میں مدینہ کے مقابل ایک پہاڑ ہے پہنچے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مدینہ سے روانہ ہوئے اور احد کے پاس مقام کیا۔ نہایت سخت لڑائی ہوئی مسلمانوں کی فتح کامل ہونے کو تھی کہ لوگ لوٹنے میں مشغول ہوئے اور فتح کی شکست ہوگئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چار دانت پتھر کے صدمہ سے ٹوٹ گئے مشہور ہوگیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے اس پر بہت لوگ بھاگ نکلے جب معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحیح و سالم ہیں تب سب لوگ ایک محفوظ جگہ میں اکٹھے ہوگئے۔ دوسرے دن قریش مکہ نے وہاں سے کوچ کیا اور مکہ کو چلے گئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہدا کو دفن کیا اور مدینہ میں چلے آئے۔
غزوۃ حمراء الاسد۔ شوال سنہ ہجری
حمراء الاسد۔ ایک جگہ ہے مدینہ سے آٹھ میل پر۔
احد سے واپس آنے کے دوسرے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہی لوگوں کو ساتھ لے کر جو احد کی لڑائی میں شریک تھے مدینہ سے کوچ کیا اور حمراء الاسد میں پہنچ کر تین دن تک مقام کیا اور پھر واپس آگئے۔ غالباً یہ اس لیے تھا کہ لوگ یہ نہ خیال کریں کہ احد کے واقعہ کے سبب سے مسلمانوں میں اب کچھ قوت باقی نہیں رہی۔
سریہ عبداللہ ابن انیس محرم سنہ ہجری
عبداللہ بن انیس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات سنی کہ سفیان خالد ہذلی نے عربہ وادی عرفہ میں کچھ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑنے کے لیے جمع کئے ہیں۔ یہ سن کر وہ مدینہ سے غائب ہوگیا اور سفیان کے پاس پہنچا اس نے پوچھا کہ تو کون ہے اس نے کہا کہ میں خزاعہ کا ایک شخص ہوں میں نے سنا ہے کہ تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑنے کو لوگ جمع کئے ہیں میں بھی تمہارے ساتھ ہوا چاہتا ہوں اس نے کہا اچھا آؤ۔ عبداللہ ابن انیس تھوڑی دور اس کے ساتھ چلے اور اس کو دھوکا دے کر مار ڈالا اور اس کا سرکاٹ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئے مگر کسی کتاب میں یہ بات نہیں لکھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ایسا کرنے کو کہا تھا۔
سریہ قطن یا سریہ ابی سلمہ محرم سنہ ہجری
قطن۔ ایک پہاڑ کا نام ہے جو قید کی طرف واقع ہے اور قید ایک پانی کا چشمہ ہے بنی عمرو بن کلاب کے متعلق ابی سلمہ ڈیڑھ سو آدمی لے کر جس میں مہاجرین اور انصار دونوں شامل تھے طلحہ اور سلمہ پسران خویلد کی تلاش میں نکلے اور قطن پہاڑ تک تلاش کی مگر ان میں سے کوئی دستیاب نہیں ہوا اور نہ کسی سے کچھ لڑائی ہوئی۔
سریۃ الرجیع صفر سنہ ہجری
رجیع ایک چشمہ کا نام ہے جو حجاز کے کنارہ پر قوم ہذیل سے متعلق ہے۔
چند لوگ قوم عضل اور قوم غازی کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ ہم لوگوں میں اسلام پھیل گیا ہے آپ کچھ لوگ مذہب کے مسائل سکھانے کو ساتھ کر دیجئے آپ نے چھ آدمی ساتھ کردیئے جب رجیع میں پہنچے تو انھوں نے دغا بازی کی اور چھوؤں آدمیوں کو تلواروں سے گھیر لیا۔ اخیر کو یہ کہا کہ اگر تم قریش مکہ کے قبضہ میں جانا قبول کرو تو ہم تم کو مارنے کے نہیں قریش نے ہمارے آدمی قید کرلیے ہیں ان کے بدلے تم کو دے کر اپنے آدمی چھوڑا لاوینگے۔ ان چھ میں سے مرثد ابن مرثد اور خالد بن الیکروعاضم بن ثابت نے نہ مانا اور نہایت بہادری سے وہیں لڑکر شہید ہوگئے اخیر کو عاصم بھی لڑنے پر تیار ہوا اور لوگوں نے پتھروں سے مار کر ان کو بھی شہید کیا باقی دو شخصوں کو مکہ میں لے جا کر قریش کے ہاتھ بیچ ڈالا قریش نے ان کے ہاتھ پاؤں باندھے اور ان کو شہید کیا۔
سریہ بیرمعونہ صف ہجری
بیر معونہ۔ یہ ایک کنواں ہے درمیان بنی عامر اور حرہ بنی سلیم کے۔
ابو براء عامر بن مالک اگرچہ مسلمان نہیں ہوا تھا مگر مذہب اسلام کو ناپسند بھی نہیں کرتا تھا اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اگر آپ کچھ لوگ اسلام کا وعظ کرنے کو نجد کی طرف بھیجیں تو غالباً اس طرف کے لوگ اسلام قبول کرلینگے۔ حضرت نے فرمایا کہ اہل نجد سے اندیشہ ہے ابوبراء نے کہا کہ وہ ہماری حمایت میں ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چالیس شخص جو قرآن کے قاری تھے اور دن رات قرآن پڑھنا ان کا کام تھا ساتھ کردیئے۔ بیر معونہ پر یہ لوگ ٹھہرے اور حرام بن ملحان کے ہاتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط جو عامر بن طفیل نجدوالے کے نام کا تھا بھیجا اس نے عامر کو قتل کرڈالا اور بہت بڑی جماعت سے بیر معونہ پر چڑھ آیا اور سب مسلمانوں کو گھیر کر مار ڈالا صرف ایک شخص مردوں میں پڑا ہوا بچ گیا۔
غزوہ بنی نضیر ربیع الاول سنہ ہجری
بنی نضیر یہودیوں کے ایک قبلہ کا نام ہے۔
عمرو بن امیۃ الضمیری مدینہ کو آتا تھا رستہ میں دو شخص قبیلہ بنی عامر سے ملے جس قبیلہ سے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عہد تھا۔ عمرو بن امیۃ نے ان دونوں کو سوتے میں مار ڈالا۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ملی تو آپ نے فرمایا کہ میں ان دونوں کی دیت دونگا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کی دیت کے لیے بنی نضیر سے بھی مدد چاہی کیونکہ بنی نضیر اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان میں بھی معاہدہ تھا اور بنی نضیر اور بنی عامر آپس میں حلیف تھے۔ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبیلہ بنی نضیر میں دیت کے پورا کرنے میں مدد کے مانگنے کو گئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دیوار کے تلے جا بیٹھے۔ بنی نضیر نے آپ میں مشورہ کیا کہ ایسے وقت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مار ڈالا جائے اور یہ تجویز کی کہ دیوار پرچڑھ کر ایک بڑا پتھر ان پر ڈال دیا جائے اور عمرو بن جحاش اس کام کے لیے مقرر ہوا۔ اتنے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مدینہ میں چلے آئے۔ جب کہ یہ دغا بازی بنی نضیر کی محقق ہوگئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر چڑھائی کی وہ قلعہ بند ہوگئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا محاصرہ کرلیا اور یہ بات ٹھہری کہ وہ لوگ مدینہ سے چلے جائیں اور ان کے اونٹ سو اے ہتھیاروں کے جس قدر مال و اسباب اٹھاسکیں لیجاویں۔ چنانچہ انھوں نے چھ سو اونٹوں پر اپنا اسباب لادا اور اپنے مکانوں کو خود توڑ دیا اور خیبر میں جاکر آباد ہوگئے۔
غزوہ بدر موعودہ یا غزوہ بدر الاخری ذیقعدہ سنہ ہجری
ابوسفیان نے وعدہ کیا تھا کہ میں تم سے پھر لڑونگا اس وعدہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ سے کوچ کیا اور بدر میں پہنچ کر مقام فرمایا۔ ابوسفیان بھی مکہ سے نکل کر ظہران یا عسفان تک آیا مگر آگے نہیں بڑھا اور کہا کہ یہ سال قحط کا ہے اس میں لڑنا مناسب نہیں اور سب لوگوں کو لے کر مکہ کو واپس چلا گیا۔
غزوہ ذات الرقاع محرم سنہ ہجری
ذات الرقاع۔ اس غزوہ کا یا تو اس لیے نام ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے جھنڈوں میں جو پھٹ گئے تھے پیوند لگائے تھے اور بعض کا قول ہے کہ جہاں مسلمانوں کا لشکر ٹھہرا تھا وہاں ایک درخت تھا جس کا نام ذات الرقاع تھا۔
بنی محارب اور بنی ثعلبہ نے جو قبیلہ غطفان سے تھے لڑائی کے لیے کچھ لوگ جمع کئے تھے ان کے مقابلہ کے لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کیا تھا۔ جب آپ غطفان میں پہنچے تو ایک بہت بڑا گروہ دشمنوں کا نظر آیا۔ دونوں طرف کے لوگ لڑنے کے ارادہ سے آگے بڑھے مگر لڑائی نہیں ہوئی اور ہر ایک گروہ واپس چلا گیا۔
غزوہ دومتہ الجندل ربیع الاول سنہ ہجری
دومتہ الجندل۔ ایک قلعہ کا نام ہے جو مدینہ اور دمشق کے بیچ میں ہے اور اس کے قریب ایک پانی کا چشمہ ہے۔
اس بات کا خیال ہونے پر کہ یہاں کے لوگوں نے بھی لڑائی کے لیے کچھ لوگ جمع کئے ہیں اس طرف کوچ کیا مگر اثنا سے راہ میں سے واپس تشریف لے آئے۔ غالباً اس لیے کہ اس خیال کی صحت نہ پائی گئی ہوگی۔
غزوہ بنی المصطلق یا غزوہ مریسیع شعبان سنہ ہجری
بنی المصطلق ۔ عرب کے ایک قبیلہ کا نام ہے۔
مریسیع۔ ایک چشمہ کا نام ہے جو قدید کی طرف واقع ہے۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی کہ حارث بن ابی ضرار نے لڑائی کے ارادہ پر لوگوں کو جمع کیا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مقابلہ کے لیے کوچ کیا اور مریسیع کے مقام پر دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا اور لڑائی ہوئی اور بنی المصطلق کو شکست ہوئی اور ان کی عورتیں اور بچے سب قید ہوگئے۔ اس وقت تک یہ آیت حریت ” فاما منا یعد واما فداء “ نازل نہیں ہوئی تھی۔
غزوہ خندق ذیقعدۃ سنہ ہجری
بنی نضیر کے یہودی جو جلاوطن کئے گئے تھے ان میں کے چند سردار اور بنی وائل کے چند سردار مکہ میں قریش کے پاس گئے ان کو مدینہ پر حملہ کرنے کو آمادہ کیا اور روپیہ اور سامان اور ہر طرح سے مدد دینے کا وعدہ کیا۔ قریش مکہ اس پر راضی ہوئے اور ابوسفیان کو سردار قرار دیا اور لوگوں کو جمع کیا اور قبیلہ غطفان میں پہنچے اور اس قبیلہ میں سے بھی لوگ ساتھ ہوئے اور دس ہزار آدمیوں کے لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کرنے کو روانہ ہوئے۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خبر کو سن کر مدینہ سے باہر جاکر لڑنا مناسب نہ سمجھا اور مدینہ کے گرد خندق کھود کر مورچہ بندی کی یہودی بنی قریظہ جن سے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے امن کا معاہدہ تھا انھوں نے بھی اپنا معاہدہ توڑ دیا اور دشمنوں سے مل گئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پاس لوگوں کو بھیجا اور معاہدہ یاد دلایا مگر علانیہ مخالفت کی۔
اس واقعہ سے اور بنی قریظہ کے دشمنوں کے مل جانے سے مدینہ والوں پر نہایت سخت وقت تھا اور ایک شخص کے بچنے کی بھی توقع نہ تھی غرض کہ یہ تمام لشکر مدینہ پر آپہنچا اور مدینہ کا محاصرہ کرلیا۔ ایک مہینہ تک محاصرہ رہا اور لڑائیاں ہوتی رہیں حصور مسلمان بھی خوب دل توڑ کر دشمنوں کے حملہ کو دفع کرتے تھے آخر کار دشمن غالب نہ آسکا اور محاصرہ اٹھا کر نہایت ناکامی کے ساتھ واپس چلا گیا۔
غزوہ عبداللہ ابن عتیک ذیقعدہ سنہ ہجری
جس زمانہ میں مدینہ پر چڑھائی کرنے کو تمام قومیں جمع ہورہی تھیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کے گرد خندق کھودنے میں مصروف تھے اسی زمانہ میں رافع بن عبداللہ جس کو سلام ابن ابی الحقیق کہتے تھے ایک سردار یہودی تھا وہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے قوموں کے جمع کرنے میں بہت کوشش کررہا تھا۔ عبداللہ ابن عتیک اور عبداللہ ابن انیس اور ابوقتادہ اور اسود بن خزاعی
اور مسعود بن سناوخیبر کو گئے جہاں وہ رہتا تھا اور کسی طرح رات کو اس کو خواب گاہ میں چلے گئے اور اس کو مار ڈالا۔
مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ پیغمبر خدا نے ان کو اس یہودی سردار کے قتل کو بھیجا تھا شاید ایسا ہوا ہو مگر ہم اس لیے شبہ میں ہیں کہ ایشیائی مورخوں کی عادت ہے کہ خواہ نخواہ ہر چیز کو پیغمبر سے منسوب کردیتے ہیں علاوہ اس کے یہ قصہ ایسی عجیب باتوں کے ساتھ ملا کر لکھا ہے کہ وہی باتیں اس کے سچ ہونے پر شبہ ڈالتی ہیں نہایت شبہ ہے کہ یہ واقعہ ہوا بھی یا نہیں مگر ہم کو مناسب ہے کہ جو طرف ضعیف ہے اسی کو اختیار کریں پس تسلیم کرتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے وہ گئے اور انھوں نے اس یہودی کو جو قوموں کو مدینہ پر حملہ کرنے کو جمع کررہا تھا مار ڈالا۔ مگر اس واقعہ سے ہمارے اس دعویٰ میں کہ تلوار کے زور سے اسلام قبلوانا ان لڑائیوں سے مقصود نہ تھا کچھ خلل واقع نہیں ہوتا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ التوبہ : آیت 5

تفسیر سرسید : ۳
غزوہ بنی قریظہ ذی حجہ سنہ ہجری
وھم بھودینی قریظۃ عاھد ھم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لا یما لوا علیہ فانہ انوا المشرکین بالسلاح (یوم بدر) وقالوا نسینا ثم عاھد ھم فنکتواو ما اع ھم عیہ یوم الخندق (بیضاوی وکبیر)
بنی قریظہ۔ ایک قبیلہ یہودہ کا تھا جو مدینہ میں رہتا تھا ان سے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے امن کا معاہدہ تھا مگر جب بدر کی لڑائی ہوئی تو بنی قریظہ نے معاہدہ توڑا اور دشمنوں کو ہتھیار دینے سے مدد کی۔ جب ان سے مواخذہ ہوا تو کہا ہم بھول گئے اور ہم سے خطا ہوئی معاف کیجئے اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ ان سے معاہدہ کیا ۔ اس کو بھی انھوں نے توڑ دیا اور خندق کی لڑائی میں دشمنوں سے جاملے۔ دشمنوں نے مدینہ پر حملہ کیا تھا اور مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تھی اور بنی قریظہ مدینہ میں رہتے تھے پس خاص شہر کے رہنے والوں کا محاصرہ کی حالت میں ہونا سخت واقعہ تھا کہ ایک مسلمان کو بھی زندہ بچنے کی توقع نہ رہی ہوگی۔
جب دشمنوں نے مدینہ کا محاصرہ اٹھا لیا اور واپس چلے گئے اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی قریظہ کو ان کی بغاوت اور عہد شکنی کی سزا دینی چاہی اور بنی قریظہ جہاں رہتے تھے ان کا محاصرہ کرلیا۔ پچیس دن تک محاصرہ رہا اسی درمیان میں انھوں نے کعب ابن اسد سے جو ان کا سردار تھا اصلاح کی کہ کیا کرنا چاہیے اس نے صلاح دی کہ تین کاموں میں سے ایک اختیار کرو۔ یا ہم سب اسلام قبول کرلیں۔ یا خود اپنی آل اولاد اور عورتوں کو قتل کرکے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑ کر مرجاویں۔ یا آج ہی کہ سبت کا دن ہے ان پر حملہ کردیں کیونکہ وہ آج کے دن غافل ہوں گے اور سمجھتے ہوں گے کہ سبت کے دن یہودی نہیں لڑنے کے مگر وہ ان تینوں باتوں میں سے کسی پر راضی نہ ہوئے۔
اب وہ صلح کی طرف متوجہ ہوئے اس کا یہ جواب تھا کہ بلا کسی شرط کے وہ اپنے تئیں سپرد کریں اور پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو چاہینگے وہ ان کی نسبت حکم دینگے۔ تب انھوں نے درخواست کی کہ تھوڑی دیر کے لیے ابو لبانہ کو جو اس قوم سے تھا جو بنی قریظہ کے حلیف تھے ہمارے پاس بھیج دیا جاوے وہ گئے اور تمام لوگوں نے ان سے پوچھا کہ ہم پیغمبر کے حکم پر اپنے تئیں سپرد کردینا قبول کرلیں یا نہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہاں مگر اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا جس سے یہ اشارہ تھا کہ سب قتل کئے جاوینگے۔
فحصر ھم خمسا وعشرین لیلۃ حتی جھد ھم الحصار فقال لھم رسول اللہ تنزلون ملی حکمی ذابوا فقال علی حکم سعد بن معاذ نومنوا بہ۔ (تفسیر کثاف صفحہ )
تب انھوں نے جیسا کہ تفسیر کشاف میں لکھا ہے اس بات پر اپنے تئیں سپرد کرنے سے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو چاہیں گے ان کی نسبت حکم دینگے انکار کیا۔
ابولبانہ خوب جانتے تھے کہ بنی قریظہ دو دفعہ اپنا عہد توڑ چکے تھے ان کا کوئی معاہدہ آئندہ کے لیے کریں قابل اعتبار نہ ہوگا۔ اور اگر وہ اسلام قبول کرنے
پر راضی ہوں تو بھی اس پر یقین نہیں ہوگا اور وہ منافق سمجھے جاوینگے جس کی نسبت جب وہ علانیہ کوئی دشمنی کرچکے ہوں وہی حکم ہے جو ان لوگوں کی نسبت ہے جو علانیہ کافر ہیں۔ علاوہ اس کے ابولبانہ کو معلوم تھا کہ وہ بغاوت کی سزا کے مستحق ہیں اگر ان کی جگہ کوئی مسلمان قوم ہوتی تو وہ بھی بغاوت کی سزا سے بچ نہیں سکتی تھی۔ اسی سبب سے انھوں نے اشارہ کیا کہ سب قتل کئے جاوینگے۔
اس پر بنی اوس جو بنی قریظہ کے حلیف تھے درمیان میں پڑے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ جس طرح آپ نے بہبود بنی تغیقاع سے جو بنی خزرج کے حلیف تھے معاملہ کیا وہی ان کے ساتھ بھی کیجئے اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری قوم میں کا ایک شخص یعنی سعد ابن معاذ جو حکم دے دیں وہ منظور کیا جائے۔ بنی اوس اور بنی قریظہ دونوں اس پر راضی ہوگئے اور بنو قریظہ نے اپنے تئیں سپرد کردیا۔
قال المائزلت بنوقریظۃ علی حکم سعد ابن معاذ بعث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وکان قریبا منہ فجاء الی حمار فلما ناقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قوموا الی سید کم فجاء فجلس الے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال لہ ان ھو لاء نزلو یعلی حکمک قال فانی احکم ان تقتل المقاتتۃ وان نسبی الذریۃ قال لقدحکمت فیھم بحکم اسلک۔ (بخاری)
نزل اھل قریضۃ علی حکم سعد بن معاذ فلوسل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سعد فانی عل حمار فلماونا من المسجد قاللا عاد قوموالی سیدکم اوقال خیر کم ھولاء
بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ بنی قریظہ نے اول اپنے تئیں اسی بات پر سپرد کردیا تھا کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی نسبت جو چاہیں حکم دیں اور بعد کو سعد ابن معاذ حکم قرار دیئے گئے تھے مگر یہ قول صحیح نہیں ہے۔ بخاری میں جو سب سے زیادہ معتبر کتاب ہے ابن سعید خدری سے وہ روایتیں منقول ہیں اور ان میں اور ہشامی میں صاف بیان ہوا ہے کہ بنی قریظہ نے اس بات پر اپنے تئیں سپرد کیا تھا کہ سعد ابن معاذ جو ان کی نسبت حکم دیں وہ کیا جاوے۔
غرضیکہ سعد ابن معاذ بلائے گئے اور انھوں نے یہ حکم دیا کہ لڑنے والوں کو قتل کردیا جائے اور ان کی عورتیں اور بچے قید کرلیے جاویں اور ان کا مال تقسیم کردیا جائے مگر بخاری کی حدیث میں عورتوں اور مال کی تقسیم کا کچھ ذکر نہیں ہے۔ بہرحال اس حکم کی تعمیل ہوئی تمام عورتیں اور بچے اور لڑکے قریظۃ علی حکمک فقال اتقس امنھم مفہ تلتھم ونسبی ذرا یہم قان قصیت بحکم اللہ اذ قال بحکم الملک (بخاری) قال ابن ہشام حدثن ما ثوتبہ من اھل العلم ن علیہ ابن ابی طالب صح وھو محاصر نہ بنی قریظۃ یا کتیبۃ الایمان ولقد مھوم الزبیر وقال اللہ لا ذوقن ماذاق حمزۃ اولا فتحن حصنھم فقالوا یا محمد تنزل علی منکم سعد اھشامی صفحہ
جن کی ڈارھی مونچھ نہیں نکلی تھی قتل سے محفوظ رہے اور تمام مرد بجز تین شخصوں کے جن کی نسبت ثابت ہوا تھا کہ اس بغاوت میں شریک نہ تھے قتل کئے گئے۔ ایک عورت جس کا نام ینانہ تھا اور جس نے علاد بن سوید بن الصامت کو مار ڈالا تھا بطور قصاص کے ماری گئی (ابن خلدون صفحہ مگر کامل ہیں ایک اور عورت کا قتل ہونا لکھا ہے جس کا نام ارفہ سیت عاد تھا) جو عورتیں اور بچے قتل سے بچے تھے وہ لونڈی غلام بنا لیے گئے اور تمام جاندار بنی قریظہ کی ضبط ہو کر تقسیم کی گئی مگر یہ یاد رہے کہ اس وقت تک آیت حریت جس میں ان لوگوں کے قتل کا جو لڑائی میں قید ہوجاویں اور ان کے لونڈی اور غلام بنانے کا امتناع ہے نازل نہیں ہوئی تھی ۔ معتہدا ان لوگوں کو بطور قیدیان جنگ سزا نہیں دی گئی تھی بلکہ باغیوں کے لیے جو سزا ہونی چاہیے وہ دی گئی تھی۔
مقتولین کی تعداد میں نہایت مبالغہ معلوم ہوتا ہے۔ بعضوں نے کہا ہے کہ چار سو تھے۔ اور بعضوں نے کہا چھ سو اور بعضوں نے کہا سات سو اور بعضوں نے کہا آٹھ سو اور بعضوں نے کہا نوسو۔ مگر بلحاظ اس آبادی کے جو اس زمانہ میں مدینہ میں تھی یقین نہیں ہوسکتا کہ چار سو آدمی بھی لڑنے والے بنی قریظہ کے محلہ میں ہوں۔
اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ یہ واقعہ خوفناک تھا۔ مگر کون سا زمانہ ہے اور کون سی قوم ہے جس کے ہاتھ سے باغیوں کی نسبت اس سے بھی سخت سزائیں نہ دی گئی ہوں۔ جن لوگوں نے بغاوت کی تاریخیں پڑھی ہیں یا اپنی آنکھوں سے اس انیسویں صدی عیسوی میں بھی جو سولیزیشن کا زمانہ کہلاتا ہے یا اس سے تھوڑے زمانہ پہلے بغاوت کے واقعات دیکھے ہیں ان کی آنکھوں میں کئی سو آدمیوں کا بجزم بغاوت قتل ہونا کوئی بڑا واقعہ معلوم نہ ہوگا۔ رہی یہ بات کہ اس قسم کی لڑائیوں اور ایسی خونریزی کو حضرت موسیٰ نے اپنے زمانہ میں اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے زمانہ میں کیوں جائز رکھا۔ اور مثل حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کے کیوں نے اپنی جان دی اس کی نسبت ہم اخیر کو بحث کرینگے۔ اس مقام پر ہم کو صرف یہ بات دکھانی ہے کہ جو لڑائیاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ہوئیں وہ اس بنا پر نہ تھیں کہ لوگوں کو بجبر اور ہتھیار کے زور سے مسلمان بنایا جاوے سو اس عظیم واقعہ سے بھی جو بنی قریظہ کے قتل کا واقعہ ہے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ صرف بزور شمشیر امن کا قائم رکھنا مقصود تھا نہ کسی کو بجبر مسلمان کرنا۔
سریہ قریظاء یا محمد بن مسلمہ محرم سنہ ہجری
قریظاء۔ ایک قبیلہ ہے بنی بکرین کلاب میں کا۔
یہ لوگ ضربہ کی طرف رہتے تھے جو مدینہ سے سات منزل ہے اور عمرہ کے لیے مکہ جانے کو نکلے تھے جیسا کہ ان کے سردار نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیان کیا ان کا ارادہ عمرہ ادا کرنے کا تھا۔ غالباً ان کے نکلنے سے شبہ ہواہوگا اس لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محمد بن مسلمہ کو تیس سوار دے کر اس طرف روانہ کیا مگر وہ لوگ ان سواروں کو دیکھ کر بھاگ گئے۔ مگر ان میں سے ثمانیہ بن اثال پکڑا گیا۔ جب محمد بن مسلمہ مدینہ میں آئے تو اس کو بھی لائے اور مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اس کو چھوڑ دیا گیا۔ اور بعد کو وہ مسلمان بھی ہوگیا۔
غزوہ بنی لحیان ربیع الاول سنہ ہجری
غزوہ رجیع میں ذکر ہوچکا ہے کہ رجیع کے مقام پر لوگوں نے دغا بازی سے مسلمانوں کو مار ڈالا تھا اس کا بدلا لینے کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کیا اور مختلف رستہ اختیار کیا تاکہ بنی لحیان یہ نہ سمجھیں کہ ان پر چڑھائی ہوتی ہے۔ مگر جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کو خبر پہنچ گئی تھی اور وہ پہاڑوں میں جا چھپے تھے دو سو سوار آپ کے ساتھ تھے آپ نے معہ سواروں کے غسفان پر مقام کیا اور پھر واپس تشریف لے آئے۔
غزوہ ذی قردیا غزوہ غابہ ربیع الآخر سنہ ہجری
غابہ ۔ ایک گانوں ہے مدینہ کے پاس شام کی طرف۔
عیینہ بن حصن الفراری نے بنی غطفان کے سوار لے کر مقام غابہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اونٹوں کو لوٹ لیا اور وہاں ایک آدمی بنی غفار میں کا معہ اپنی جورو کے تھا اس کو مار ڈالا اور اس کی جورو اور اونٹوں کو لے گئے۔ سلمہ بن عمرو بن الاکوع نے ان کا تعاقب کیا اور اونٹوں کو چھین لیا۔ جب یہ خبر مدینہ میں پہنچی تو لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جمع ہوگئے تاکہ ان کو سزا دیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن زید کو سردار کرکے ان لوگوں کے تعاقب میں بھیجا۔ کچھ خفیف سی لڑائی ہوئی اور چند آدمی مارے گئے ۔ ان لوگوں کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ گئے سعد ابن زید کے رہانہ ہونے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی روانہ ہوئے اور ذی قرو تک جو ایک چشمہ کا نام ہے پہنچے اور پھر سب لوگ واپس چلے آئے۔
سریہ عکاشہ ربیع الآخر سنہ ہجری
غمرمرزوق۔ ایک چشمہ پانی کا ہے بنی اسد میں قید سے دو منزل۔
عکاشہ ابن محصن الاسد چالیس آدمیوں کے ساتھ اس طرف روانہ ہوئے۔ اس طرف اعراب یعنی گنوار و عرب رہتے تھے غالباً انہی کی تنبیہ و تادیب کو گئے ہوں گے وہ لوگ بھاگ گئے اور عکاشہ ان کے دو سو اونٹ پکڑ لائے۔
سریہ ذی القصہ یا سریہ بنی ثعلبہ ربیع الآخر سنہ ہجری
ذی القصہ۔ ایک گانوں ہے مدینہ سے چوبیس میل۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس آدمی بنی ثعلبہ کے پاس روانہ کئے تھے اور محمد بن مسلمہ ان کے سردار تھے یہ لوگ ذی القصہ میں رات کو رہے مگر رات کو وہاں کے سو آدمیوں نے ان کو گھیر کے تیروں سے مار کر مار ڈالا صرف محمد بن مسلمہ بچے مگر زخمی ہوئے صبح کو ایک شخص انھیں اٹھا کر مدینہ میں لے آیا۔
سریہ ذی القصہ ربیع الآخر سنہ ہجری
اس واقعہ کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوعبیدہ بن الجراح کو چالیس آدمی دے کر ان لوگوں کو سزا دینے کے لیے بھیجا مگر وہ سب پہاڑوں میں بھاگ گئے ان کا گلاسڑا اسباب جو رہ گیا تھا اس کو ابوعبیدہ لوٹ لائے۔
سریہ جموم ربیع الآخر سال ششم
جموم۔ ایک مقام ہے بطن نخل میں مدینہ سے چار میل۔
زید ابن حارثہ بطور گشت کے اس طرف گئے۔ قوم مزینہ کی ایک عورت نے جس کا نام حلیمہ تھا بنو سلیم کی کچھ مخبری کی جس پر زید نے اس محلہ کو گھیر لیا ان کے اونٹ چھین لیے اور چند کو قید کرلیا جن میں حلیمہ کا شوہر بھی تھا۔ مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے شوہر کو چھوڑ دیا۔
سریہ عیص جمادی الاول سال ششم
عیص۔ ایک موضع ہے مدینہ سے چار میل پر۔
قریش مکہ کا ایک قافلہ جس میں تجارت وغیرہ کا سامان تھا شام سے آتا تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید ابن حارثہ کو بھیجا کہ قریش مکہ تک اس سامان کو نہ جانے دے۔ زید گئے اور انھوں نے قافلہ کا مال و اسباب چھین لیا اور چند آدمی قید کرلئے۔
سریہ طرف جمادی الآخر سال ششم
طرف۔ ایک چشمہ کا نام ہے مدینہ سے چھتیس میل۔
زید بن حارثہ پندرہ آدمیوں کے ساتھ بطور گشت کے بنو ثعلبہ کی طرف گئے جو اعراب میں سے تھے مگر وہ لوگ بھاگ گئے اور اپنے اونٹ بھی چھوڑ گئے جن کو زید لے کر چلے آئے۔
سریہ حسمی جمادی الآخر سال ششم
حسمی۔ وادی القرے سے دو منزل ورے ہے اور وادی القرے مدینہ سے چھ منزل ہے۔
وحیہ بن خلیفۃ الکلبی شام سے واپس آتے تھے۔ جب ارض جذام میں پہنچے تو ہنید بن عوص اور اس کے بیٹے نے ان کو لوٹ لیا۔ دحیہ نے مدینہ میں آکر یہ حال بیان کیا اس درمیان میں بنو نصیب نے جو رفاعہ کی قوم سے تھے اور مسلمان ہوچکے تھے ہنید پر حملہ کیا اور مال و اسباب واپس کرلیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید ابن حارثہ کو ان کی سزا دہی کو مقرر کیا۔ وہ گئے اور لڑائی میں ہنید اور ان کا بیٹا مارا گیا ان کا اسباب لوٹ لیا گیا اور کچھ لوگ قید ہوئے۔
معلوم ہوتا ہے کہ اس ہنگامہ میں بنی نصیب کا بھی کچھ اسباب لوٹا گیا اور ان کے کچھ آدمی بھی قید ہوگئے۔ جب انھوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر یہ حال بیان کیا تو آپ نے حضرت علی مرتضیٰ کو متعین کیا انھوں نے جاکر بنی نصیب کا سب مال و اسباب واپس دلا دیا اور قیدیوں کو چھڑوادیا۔
سریہ وادی القرئے رجب سال ششم
وادی القرے ۔ ایک میدان ہے مدینہ اور شام کے درمیان میں وہاں بہت سی بستیاں ہیں۔
زید ابن حارثہ کچھ آدمی لے کر بطور گشت کے اس طرف گئے وہاں کے لوگوں سے لڑائی ہوئی زید کے ساتھ کے آدمی جو مسلمان تھے مارے گئے اور زید بھی سخت زخمی ہوئے۔
سریہ دومتہ الجندل شعبان سال ششم
دومتہ الجندل کے لوگ ہمیشہ حملہ کا موقع تکتے تھے چنانچہ ہجرت کے چوتھے سال میں بھی ان کے حملہ کا احتمال ہوا تھا اور خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ فرمایا تھا۔ انہی اسباب سے اس سال عبدالرحمن بن عوف کو سردار کرکے ان لوگوں پر بھیجا اور کہا کہ کوئی دغا کی بات مت کرو اور خدا کی راہ میں لڑو اور کسی نابالغ بچے کو مت مارو۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اگر وہ تیری اطاعت کرلیں تو ان کے سردار کی بیٹی سے شادی کرے (وہ لوگ عیسائی تھے اور ان کی بیٹیوں سے شادی کرنا جائز تھا) ۔
عرب میں قوموں کو اپنا پورا پورا ساتھی یا حمایتی بنا لینے کے صرف دو طریق سب سے عمدہ تھے ایک حلیف ہوجانا۔ دوسرا رشتہ مندی کرلینا۔ اسی پولٹیکل مصلحت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبدالرحمن کو وہاں کے سردار کی بیٹی سے شادی کرلینے کی ہدایت کی تھی۔ اور یہی ایک بڑا سبب تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اخیر عمر میں متعدد قبیلہ کی عورتوں کو اپنے ازواج مطہرات میں داخل کیا تھا باوجودیکہ عالم شباب میں بجز ایک بیوی کے کوئی اور نہ تھی۔
بہرحال عبدالرحمن بن عوف وہاں گئے تین دین قیا کیا اور اسلام کا وعظ کیا کئے اور مسلمان ہوجانے کی ان کو ہدایت کی اصبح بن عمرو الکلبی جو وہاں کا سردار اور عیسائی تھا مسلمان ہوگیا اور اس کے ساتھ اور بہت سے آدمی مسلمان ہوگئے اور جو مسلمان نہیں ہوئے انھوں نے اطاعت اختیار کی اور جزیہ دینا قبول کرلیا۔ عبدالرحمن نے وہاں کے سردار اصبح کی بیٹی سے شادی کرلی اور اسی سے ابوسلمہ پیدا ہوئے۔
سریہ فدک شعبان سال ششتم
فدک۔ ایک گاؤں ہے حجاز میں مدینہ سے دو منزل۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر پہنچی کہ قبیلہ بنو سعد بن بکر لوگوں کو جمع کررہے ہیں اور خیبر میں جو یہود جلاوطن کئے گئے تھے ان کو مدد دینے کا ارادہ کررہے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی مرتضیٰ کو سو آدمی دے کر ان پر روانہ کیا۔ علی مرتضیٰ نے ان پر چھاپہ مارا اور ان کے سو اونٹ اور دو ہزار بکریاں لوٹ لائے اور کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔
سریہ زید ابن حارثہ یا سریہ ابی ام قرفہ رمضان سال ششم
زید ابن حدثہ مسلمانوں کا بہت سا مال لیے ہوئے تجارت کے لیے شام کی طرف جاتے تھے۔ جب وہ وادی القریٰ میں پہنچے تو قوم قرارہ نے جو مینی بدر کی ایک شاخ ہے اور جن کی سردار ام قرفہ تھی اور جس کا نام فاطمہ بنت ربیعہ بن زید الفراریہ تناسب اسباب لوٹ لیا وہ مدینہ واپس چلی آئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر کی آپ نے زید ہی کو ان کے سزا دینے کو متعین کیا زید نے دفعتہ ان پر چھاپہ مارا اور ام قرفہ اور اس کی بیٹی کو پکڑ لیا۔ قیس ابن محسر نے جو زید کے لشکر میں تھے اس ضعیف عورت ام قرفہ کو نہایت بری طرح سے مار ڈالا۔ اس کا ایک پاؤں ایک اونٹ سے اور دوسرا پاؤں دوسرے اونٹ سے باندھ کر اونٹوں کو مختلف سمت میں ان کا کہ اس کے دو ٹکڑے ہوگئے۔
تاریخوں سے یہ بات قابل اطمینان نہیں معلوم ہوتی کہ ام قرفہ کے مار ڈالنے کے بعد اس کے پاؤں اونٹوں سے باندھے تھے یا وہ زندہ تھی اور اونٹوں کے پاؤں سے باندھ کر اس کو مارا تھا۔
مورخین نے اس کا ذکر بھی فروگذاشت کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بےرحم واقعہ کو اگر درحقیقت وہ ہوا تھا سن کر کیا فرمایا ضرور قیس ابن محسر پر نہایت درجہ پر خفگی فرمائی ہوگی کیونکہ عموماً آپ کی یہ نصیحت تھی کہ عورتیں اور بچے نہ مارے جاویں۔
معہند اس سریہ کے متعلق ایسی مختلف روایتیں ہیں جس میں سے کسی پر بھی اعتماد نہیں ہوسکتا کامل ابن اثیر میں لکھا ہے کہ اس سریہ کے سردار حضرت ابوبکر تھے اور سلمۃ بن الاکوع لڑے تھے اور اس میں ایک ضعیف عورت معہ اس کی بیٹی کے پکڑے جانے کا ذکر ہے مگر اس کے مارے جانے کا ذکر نہیں۔ اس کا نہ مارا جانا زیادہ تر یقین کے قابل ہے کیونکہ صحیح مسلم میں جو حدیث کی نہایت معتبر کتاب ہے اور بخاری کے برابر سمجھی جاتی ہے اس عورت کا پکڑا جانا بیان ہوا ہے مگر مارے جانے کا ذکر نہیں ہے
پھر ایک روایت میں ہے کہ اس کی بیٹی حزن بن ابی وہب کو دے دی گئی اور اس سے بن حزن پیدا ہوئے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ وہ لڑکی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لے لی اور اس کو مکہ میں بھیج دیا اور اس کے بدلے میں چند مسلمانوں کو جو قریش مکہ کے پاس قیدی تھے چھڑا لیا۔
غزوہ ابن رواحہ شوال سال ششم
ابورافع سلام بن ابی الحقیق یہودی کے مرنے یا مارے جانے کے بعد جس کا ذکر ہم نے بہ تحت غزوہ عبداللہ ابن عتیک کیا ہے اسیر ابن رزام یہودی یہودیوں کا سردار قرار پایا۔ اس نے غطفان کے یہودیوں کو اپنے ساتھ ملایا اور لڑائی کی تیاری کی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب یہ خبر ملی تو آپ نے عبداللہ ابن رواحہ کو معہ تین اور آدمیوں کے اس خبر کی تحقیق کرنے کو بھیجا۔ جب عبداللہ واپس آئے تو آپ نے تیس آدمی ان کے ساتھ کئے اور اسیرابن رزام پاس روانہ کیا۔ ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ ان کا بھیجنا کسی معاہدہ یا صلح یا اور کسی قسم کی گفتگو کے لیے تھا نہ لڑائی کے لیے کیونکہ لڑائی کے لیے تیس آدمی نہیں بھیجے جاسکتے تھے۔
عبداللہ ابن رواحہ نے اس سے گفتگو کی اور وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس آنے پر اس لالچ میں راضی ہوا اک خیبر کی سرداری اس کو ملجاوے وہ بھی تیس آدمی اپنے ساتھ لے کر چلا۔ یہ سب اونٹوں پر سوار ہو کر چلے یہودی آگے اور مسلمان ان کے پیچھے بیٹھے جب قرقرہ میں پہنچے تو اسیر کے دل میں کچھ شبہ ہوا جیسا کہ زاد والمعاد میں لکھا ہے اور اس نے عبداللہ کی تلوار پر ہاتھ ڈالا عبداللہ کو بھی شبہ ہوا اور وہ اونٹ پر سے کود پڑے اور اس کے پاؤں پر تلوار ماری اسیر بھی کود پڑا اور خاردار سوتا عبداللہ کے منہ پر مارا وہ زخمی ہوئے اس ہنگامہ کو دیکھ کر ہر ایک مسلمان نے اپنے ساتھی پر حملہ کیا اور مار ڈالا۔
سریہ عرنین شوال سال ششم
عرنہ۔ مدینہ کے میدانوں میں سے ایک میدان میں ایک باغ تھا جس کا یہ نام ہے۔
چند کسان شکل اور ارنہ کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس آنے نہایت مفلس اور تباہ حال اور بیمار تھے شاید استسقاء کی بیماری تھی جس کا علاج اونٹ کا دودھ اور پیشاب پینا اور جہاں اونٹ بندھتے ہوں وہیں پڑے رہنا تھا۔ انھوں نے جھوٹ بیان کیا کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں ہماری مدد کرو۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چند اونٹنیاں اور چرواہے ان کے ساتھ کردیئے مگر جب وہ حرم کے مقام پر پہنچے ان لوگوں نے جیسا کہ صحیح مسلم میں بیان ہوا ہے ان چرواہوں کی آنکھیں پھوڑ دیں اور ان کو بری طرح پر مار ڈالا اور اونٹنیاں لے کر چل دیئے۔
جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی ان کے تعاقب میں لوگ بھیجے گئے جن کا سردار کو رزبن جابر تھا وہ پکڑے گئے ان کی بھی آنکھیں پھوڑی گئیں اور ہاتھ پاؤں کاٹ کر ڈال دیئے گئے کہ وہ مرگئے۔ بخاری میں ہے کہ اس کے بعد آپ نے مثلہ کرنے سے منع کیا۔ (بہت سے لوگ قائل ہیں کہ رسول اللہ کا یہ فعل قرآن کی رو سے منسوخ ہوا۔ مگر امام شافعی ایک دوسری حدیث سے منسوخ ہونا ثابت کرتے ہیں دیکھو تیسیر کبیر اس آیت کے متعلق ” انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ “ )
یہ کہنا مشکل ہے کہ جس طرح ان لوگوں نے چرواہوں کو مارا تھا اسی طرح وہ کس کے حکم سے مارے گئے مگر اس بات کی بہت سی دلیلیں ہیں کہ ابتدائی زمانہ اسلام میں جن امور کی نسبت کوئی خاص حکم نازل نہیں ہوتا تھا تو اکثر یہودی شریعت کے مطابق عمل کیا جاتا تھا اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ توراۃ میں لکھا ہے کہ ” و اگر اذیت دیگر سیدہ باشدانگادجان عوض بان ابیدد ادہ شود چشم بعوض چشم دنداں بعوض دانداں دست بعوض دست پابعوض پاسوختین بعوض سو ختن زخم بعوض زخم لطمہ بعوض نطمہ “ (سفر خروج باب آیت - و ) تمائبا اسی خیال سے ان لوگوں نے بطور قصاص کے ان کو اسی طرح مارا جس طرح کہ ان لوگوں نے چرواہوں کو مارا تھا۔
سریہ عمرو بن امیہ شوال سال ششم
ابوسفیان ابن حرب نے مکہ سے ایک آدمی مدینہ میں بھیجا کہ کسی بہانہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردے وہ معہ خنجر جو اس کے پاس چھپا ہوا تھا پکڑا گیا۔ مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شرط پر کہ سچ حال بتادے ان کو امن دیا چنانچہ اس نے بتادیا اور اس کو چھوڑ دیا کہ وہ مکہ چلا گیا۔ مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی سفیان کے قتل کے لیے عمرو بن امیہ اور سلمۃ بن اسلم کو متعین کرکے بھیجا وہ مکہ میں پہنچے لیکن ان کا وہاں جانا کھل گیا لوگ ان پر دوڑے مگر وہ وہاں سے بچ کر نکل آئے۔
غزوہ حدیبیہ ذیقعدہ سال ششم
حدیبیہ۔ ایک گاؤں ہے اور اس گاؤں میں اس نام کا ایک کنواں ہے اسی کنوئیں کے نام سے وہ گاؤں مشہور ہوگیا ہے یہاں سے مکہ ایک منزل ہے۔
اس سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں جاکر حج و عمرہ ادا کرنے کا ارادہ کیا اور کسی سے لڑنے کا مطلق ارادہ نہ تھا قربانی کے لیے اونٹ اپنے ہمراہ لیے تھے اور کل آدمی جو ساتھ تھے ان کی تعداد ایک ہزار چار سو تھی ۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قریش مکہ کو اندیشہ ہوا اور مکہ میں آنے سے روکا دونوں طرف سے پیغام سلام ہوئے اور لوگ آئے گئے مگر قریش نے نہ مانا۔ آخر کار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان کو قریش مکہ کے پاس بھیجا قریش ان کی فہمائش پر بھی راضی نہ ہوئے بلکہ ان کو بھی قید کررکھا۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر پہنچی کہ حضرت عثمان کو قتل کرڈالا اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لڑنے کا ارادہ کیا اور سب لوگوں سے لڑنے پر اور مارنے مرنے پر بیعت لی۔ یہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی اور بیعۃ الرضوان کے نام سے مشہور ہے مگر بعد کو معلوم ہوا کہ حضرت عثمان کے قتل ہونے کی جو خبر مشہور ہوئی تھی وہ غلط تھی۔
اس کے بعد قریش مکہ نے سہیل ابن عمرو کو صلح کا پیغام دے کر بھیجا اور صلح اس بات پر منحصر تھی کہ اس سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں حج اور عمرہ کرنے کو نہ آویں اور واپس چلے جاویں۔ بعد لبنی گفتگو کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر راضی ہوگئے اور حضرت علی مرتضیٰ کو عہد نامہ لکھنے کو بلایا۔ جب وہ آئے تو آپ نے فرمایا کہ لکھ ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ سہیل نے کہا کہ ہم تو اس کو نہیں جانتے صرف یہ لکھو ” باسمک اللھم “ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہی لکھو پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی مرتضیٰ کو فرمایا کہ لکھ ” ھذا ما صالح علیہ محمد رسول اللہ “ سہیل نے کہا اگر ہم اس بات کو قبول کرتے کہ آپ خدا کے رسول ہیں تو آپ سے لڑتے ہی کیوں آپ اپنا اور اپنے والد کا نام لکھوائے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لکھ ” ھذا ما صالح علیہ محمد بن عبداللہ “ غرضیکہ اس سال واپس چلے آنے کے علاوہ اس بات پر صلح ہوئی کہ دس برس تک لڑائی موقوف رہے سب لوگ امن میں رہیں اور لڑائی نہ ہو۔ اور یہ بھی معاہدہ ہوا کہ اگر کوئی شخص قریش مکہ میں کابلا اجازت اپنے ولی کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس چلا آئے تو آپ اس کو قریش مکہ کے پاس بھیج دینگے۔ اور اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی قریشیوں میں سے کوئی شخص مکہ میں قریشیوں کے پاس چلا جاوے تو اس کو قریش مکہ واپس نہیں دینے کے۔ بہرحال دونوں طرف سے عہد نامہ کی تصدیق ہوگئی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی مقام پر قربانی کے اونٹ ذبح کئے اور ارادہ حج و عمرہ کا موقوف کیا اور مدینہ کو واپس تشریف لے آئے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ التوبہ : آیت 6

وَ اِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ٪﴿۶﴾

تفسیر سرسید : ۱

غزوہ خیبر جمادی الآخر سال ہفتم
خیبر۔ ایک معروف و مشہور بہت بڑا شہر ہے اور اس میں متعدد قلعے نہایت مستحکم تھے۔ مدینہ سے آٹھ منزل شام کی طرف ہے۔
اہل خیبر جن میں وہ تمام یہودی بھی جاملے تھے جو مدینہ سے جلا وطن کئے گئے تھے ہمیشہ مسلمانوں سے لڑنے کی تیاریاں کرتے رہتے تھے اور انھوں نے بنی اسد اور بنی غطفان کو اپنا حلیف کرلیا تھا۔ اور اپنی مضبوط قلعوں پر نازاں تھے۔ جب ان لوگوں کی آمادگی جنگ نے زیادہ شرت پائی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فساد کے مٹانے کا ارادہ کیا اور مدینہ سے معہ لشکر کے خیبر کی طرف کوچ کیا۔ بنی اسد جن کا سردار طلیحہ بن خویلد اسدی تھا اور بنی غطفان جن کا سردار عینیہ بن حصن بن بدر فزاری تھا خیبر والوں کی مدد کو پہنچے خیبر والوں کے پاس (حصن نطاء حصن الصعبہ ۔ حصن ناعم۔ حصن قلعہ البریر ۔ عصن الشق جصن ابی حصن البراء۔ حصن القموص ۔ حصن الوطیح۔ حصن السلام یا حصن ابی لحقیق) دس مستحکم قلعے تھے اور ان سب نے اپنے قلعوں کو بند کرلیال اور لڑائی ر مستعد ہوگئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی معہ لشکر کے وہاں پہنچے اور ایک مہینہ تک لڑائی جاری رہی۔ سب سے پہلے حصن ناعم فتح ہوا اور پھر بعض اور قلعے بھی فتح ہوئے اس درمیان میں بنی اسد اور بنی غطفان خیبر والوں سے علیحدہ ہوگئے اور صرف اہل خیبر برابر لڑتے رہے۔ اور سخت لڑائیاں ہوتی رہیں حصن الوطیح اور حصن السلالم نہایت مضبوط قلعے تھے جن کو حضرت علی مرتضیٰ نے فتح کیا۔ اس وقت یہودیوں نے امن چاہا اور تین امر پر صلح ہوئی کہ تمام اہل خیبر کو اور ان کے اہل و عیال کو جان کی امان دی جاوے دوسرے یہ کہ تمام اہل خیبر اپنا مال و اسباب بطور معاوضہ جنگ کے دے دیں لیکن اگر کوئی شخص اپنا مال چھپا رکھے تو اس سے یہ معاہدہ یعنی جان کے اور اہل و عیال کے امن کا قائم نہ رہیگا ۔ تیرے یہ کہ تمام زمینیں خیبر کی ان کی ملکیت نہ رہینگی مگر وہ لوگ اپنے گھروں میں آباد رہینگے اور زمینوں پر بھی قابض رہینگے اور ان کی پیداوار کا نصف حصہ بطور خراج کے دیا کرینگے۔ اور کسی بھی پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار ہوگا کہ ان کو جلاوطن فرمادیں۔ صرف کنانہ بن ربیع بن ابی الحقیق فے مال کے دینے میں دغابازی کی اور نہایت بیش قیمت مال چھپا رکھا جو کہ بعد تلاش کے دستیاب ہوا وہ مارا گیا اور اس کے اہل و عیال قید ہوگئے۔
غزوہ وادی القریٰ جمادی الآخر سال ہفتم
جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر سے مراجعت کی تو وادی القرے میں پہنچے اور وہاں چار دن ٹھہرے اور اہل تیما نے اسلام قبول نہیں کیا اور جزیہ دینے پر صلح کرلی۔
سریہ تربہ شعبان سال ہفتم
تربہ۔ مکہ کے قریب دو منزل پر ایک جگہ ہے۔
حضرت عمر تیس آدمی لے کر اس طرف کو گئے مگر وہاں کے لوگ بھاگ گئے کوئی نہیں ملا اور حضرت عمر واپس آگئے۔
سریہ حضرت ابوبکر شعبان سال ہفتم
اس سر یہ میں حضرت ابوبکر کچھ آدمی لے کر بنی کلاب کی طرف گئے کچھ خفیف سی لڑائی ہوئی کچھ آدمی مرے کچھ قید ہوگئے۔
سریہ بشیرابن سعد شعبان سال ہفتم
اس سریہ میں بشیر ابن سعد بنی مرہ پر جو فدک میں رہتے تھے تیس آدمی لے کر گئے اور خفیف لڑائی کے بعد واپس آگئے۔
سریہ غالب بن عبداللہ الیثمی رمضان سال ہفتم
یہ سریہ نجد کی طرف منقعہ پر جو مدینہ سے آٹھ منزل ہے بھیجا گیا تھا اور دو سو تیس آدمی لشکر میں تھے مگر وہاں بہت ہی خفیف سی لڑائی ہوئی اور پھر لوگ واپس آگئے۔
سریہ اسامۃ بن زید رمضان سال ہفتم
یہ سریہ خربہ کی طرف بھیجا گیا تھا جو ضریہ کی طرف ہے۔ یہاں کسی سے لڑائی نہیں ہوئی مگر ایک شخص اسامہ کو ملا جس پر انھوں نے تلوار کھینچی مگر اس نے کلمہ پڑھا اور کہا لا الہ الا اللہ مگر اسامہ نے اس کو مار ڈالا۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر اس بات پر نہایت خفگی ظاہر فرمائی۔
سریہ بشیر بن سعد الانصاری شوال سال ہفتم
یہ سریہ یمن اور حیاب جس کو قزارہ اور عذرہ کہتے ہیں اور بنی غطفان سے علاقہ رکھتے ہیں جو خیبر والوں کے ساتھ لڑائی میں شریک ہوئے تھے بھیجا گیا تھا مگر وہاں کے لوگ بھاگ گئے اور ان کا مال و اسباب ہاتھ آیا اور صرف دو آدمی قید کئے گئے۔
بعد اس کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تشریف لے گئے اور عمرہ قضا ادا کیا۔
سریہ ابن ابی العوجاء السلمی ذیححہ سال ہفتم
یہ سریہ بنی سلیم کی طرف بھیجا گیا تھا وہاں سخت لڑائی ہوئی اور دشمن چاروں طرف سے ٹوٹ پڑے اور سب لوگ مارے گئے اور ابن ابی العوجاء بھی زخمی ہوئے اور مردوں میں پڑے رہے گئے اور پھر ان میں سے اٹھا لائے گئے۔
سریہ غالب بن عبداللہ الیثمی صفر سال ہشتم
یہ سریہ بنی الملوح پر جو کدید میں رہتے تھے کیا گیا تھا۔ وہاں کچھ لڑائی نہیں ہوئی مگر کچھ اسباب ہاتھ آیا۔
اسی مہینے میں خالد بن الولید اور عثمان بن ابی طلحہ اور عمرو بن العاص مکہ سے مدینہ میں چلے آئے اور مسلمان ہوگئے۔
سریہ غالب بن عبداللہ صفر سال ہشتم
یہ سریہ بھی فدک کی جانب بھیجا گیا تھا انھیں لوگوں پر جن پر بشیر بن سعد بھیجے گئے تھے ان سے لڑائی ہوئی کچھ لوگ مارے گئے اور کچھ اسباب لوٹ لیا گیا۔
سریہ شجاع بن وہب الاسدی ربیع الاول سال ہشتم
یہ سریہ ذات عرق کی طرف بھیجا گیا تھا جو مدینہ سے پانچ منزل ہے اور جہاں ہوازن نے لوگ جمع کئے تھے۔ وہاں کچھ لڑائی نہیں ہوئی مگر ان کے اونٹ لوٹ لائے۔
سریہ کعب ابن عمیر الغفاری ربیع الاول سال ہشتم
یہ سریہ ذات اطلع کی طرف بھیجا گیا تھا جو ذات القرے کے قریب ہے۔ ذات اطلع میں نہایت کثرت سے لوگ لڑنے کے لیے جمع تھے نہایت سخت لڑائی ہوئی اور جو لوگ بھیجے گئے تھے وہ سب مار ڈالے گئے۔ جب یہ خبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو ایک بڑا لشکر بھیجنے کا ارادہ کیا مگر معلوم ہوا کہ وہ لوگ اور سمت کو چلے گئے۔
سریہ موتہ یا سریہ زید ابن حارثہ جمادی الاول سال ہشتم
موتہ۔ ایک قصبہ ہے شام کے علاقہ میں دمشق سے ورے۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حارث بن عمیر الازدی کو ہرقل شہنشاہ روم کے نام ایک خط دے کر مبصرے کو روانہ کیا تھا جب کہ وہ موتہ میں پہنچے تو شرجیل بن عمرو الفسانی نے تعرض کیا اور ان کو مار ڈالا۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین ہزار آدمیوں کا لشکر جس کے سردار زید بن حارثہ تھے موتہ پر روانہ کیا وہاں نہایت سخت لڑائی ہوئی اور زید ابن حارثہ اور جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ جن کے ہاتھ میں فوج کا نشان تھا یکے بعد دیگرے لڑ کر مارے گئے اس پر فوج کا نشان خالد بن ولید نے لیا اور نہایت سخت لڑائی کے بعد خالد نے فتح پائی۔ اس لڑائی میں تمام عیسائی قومیں تو اس نواح میں رہتی تھیں شامل تھیں اور ہرقل کی فوج بھی جو اس زمانہ میں روم یعنی قسطنطنیہ کا شہنشاہ تھا اور تمام صوبہ شام پر اس کی حکومت تھی اور اسی زمانہ میں فارس کو بھی فتح کرچکا تھا ان لوگوں کے ساتھ لڑائی میں شریک تھی۔
سریہ عمرو بن العاص جمادی الآخر سال ہشتم
یہ سریہ ذات السلاسل کے نام سے مشہور ہے سلسل ایک چشمہ کا نام تھا ذات القرے کے نزدیک مدینہ سے دس منزل پر۔
بنی قضاعہ نے کچھ لوگ لڑنے کے لیے جمع کئے تھے۔ جب یہ خبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو آپ نے عمرو بن العاص کو تین سو آدمی دے کر اس طرف روانہ کیا۔ جب وہ سلاسل کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ دشمنوں نے بہت کثرت سے لوگ جمع کئے ہیں اس کی خبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو بھی روانہ کیا اور دو سو آدمی اور بھیجی۔ مگر بنی قصاعہ آخر کار بھاگ گئے اور جمعیت متفرق ہوگئی۔
سریہ ابی عبیدہ ابن جراح رجب سال ہشتم
اس سریہ کا نام سریہ خبط بھی ہے۔ کیونکہ اس میں بسبب نہ رہنے رسد کے خبط کو جو غالباً کسی درخت کا پھل ہے پانی میں بھگو کر کھایا تھا۔ اسی سر یہ میں لوگوں کو دریا کے کنارہ سے ایک بڑی مچھلی ہاتھ آگئی تھی جس کو لوگوں نے کئی دن تک کھایا تھا۔ بخاری نے اس غزوہ کا نام سیف البحر بیان کیا ہے مگر تمام تاریخوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سیف البحر جو سال اول میں ہوا تھا وہ علیحدہ سریہ ہے اور یہ علیحدہ سریہ ہے۔
اس سریہ میں تین سو آدمی تھے اور دریا کے کنارہ پر چند روز ٹھہرے رہے کسی سے کچھ لڑائی نہیں ہوئی اور سب لوگ واپس آگئے۔
سریہ ابی قتادہ الانصاری شعبان سال ہشتم
اس سریہ میں صرف پندرہ آدمی تھے اور بمقام خضرہ جو نجد میں ہے بنی غطفان کے لوگوں کی طرف بھیجا گیا تھا کچھ لڑائی ہوئی اور کچھ لوگ قید کرلیے گئے اور دو سو اونٹ اور ہزار بکریاں غنیمت میں ہاتھ آئیں۔
سریہ ابی قتادہ رمضان سال ہشتم
اس سریہ میں صرف آٹھ آدمی تھے اور یہ اضم کی طرف بھیجا گیا تھا جو ایک چشمہ ہے درمیان مکہ اور یمامہ کے اور مدینہ سے تین منزل ہے۔
یہ سریہ صرف اس لیے بھیجا گیا تھا کہ قریش مکہ کی کچھ خبر ملے اور نیز مکہ والے خیال کریں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرف تشریف لے جاوینگے حالانکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ قریش پر حملہ کرنے کا تھا۔ ان آٹھ آدمیوں میں محلم بن جسامہ بھی تھا اس سے ایک شخص نے آ کر مسلمانوں کی طرح سلام علیک کی اس نے اس کو مار ڈالا۔ اس پر خدا تعالیٰ کی خفگی ہوئی اور حکم ہوا جو کوئی مسلمانوں کی طرح سلام علیک کرے اس کو کافر نہ سمجھو۔ بعض کتابوں میں اس سریہ کو ابن ابی حدود کی طرف منسوب کیا ہے مگر وہ صحیح نہیں ہے۔
غزوہ فتح مکہ رمضان سال ہشتم
حدیبیہ میں جو قریش مکہ سے صلح ہوئی تھی اور یہ بات ٹھہری تھی کہ دس برس تک آپس میں لڑائی نہ ہو اور امن رہے اس وقت یہ بھی معاہدہ ہوا تھا کہ جو قومیں چاہیں اس معاہدہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریک ہوجائیں اور ر جو قومیں چاہیں قریش کے معاہدہ میں داخل ہوجائیں۔ بنو خزاعہ جو مسلمان ہوگئے تھے یا اسلام کی طرف راغب تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ معاہدہ میں شریک ہوئے اور بنو بکر قریش کے معاہدہ میں داخل ہوئے ۔ اسلام سے پہلے ان دونوں قوموں میں نہایت عداوت اور جنگ وجدل تھی مگر شروع زمانہ اسلام میں وہ جنگ وجدل موقوف ہوچکی تھی۔
اس معاہدہ کے بعد بنو بکر نے اور ان کے ساتھ قریش نے اس معاہدہ کو توڑ دیا اور نوفل بن معاویۃ الدیلمی ایک جماعت لے کر نکلا اور بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور کچھ آدمی مارے گئے اور باہم لڑائیاں ہوتی رہیں۔ قریش مکہ نے علانیہ بنو بکر کو ہتھیاروں کے بھیجنے سے مدد کی اور قریش کے لوگ بھی خفیہ جاکر لڑائی میں شریک ہوئے۔ منجملہ ان کے صفوان بن امیہ اور حویطب بن عبدالعزے اور مکرز بن حفص بھی تھا بنو خزاعہ نہایت عاجز ہوگئے اور انھوں نے حرم کعبہ میں پناہ لی اور نوفل نے وہاں بھی ان کا تعاقب کرنا چاہا۔ بنو بکر کے قبیلہ کے لوگوں نے نوفل سے کہا کہ اللہ کے حرم کا پاس کرنا ضرور ہے۔ نوفل نے کہا کہ آج کے دن خدا کوئی چیز نہیں ہے ہم کو اپنا بدلہ لینا چاہیے بنو خزاعہ نے لاچار بدیل بن ورقاء کی پناہ لی اور ایک شخص عمرو بن سالم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عہد کے توڑنے کے حالات بیان کئے اور بنی خزاعہ کی امداد کا خواہاں ہوا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لشکر کے جمع کرنے کا حکم دیا اور قریش سے لڑنے اور ان کو ان کی عہد شکنی کی سزا دینے کو آمادہ ہوئے۔ یہ خبر سن کر ابوسفیان مدینہ میں آیا اور یہ بات چاہی کہ اس عہد شکنی سے درگزر کی جائے اور پھر نیا عہد نامہ کیا جائے ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منظور نہ فرمایا غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش نے بنوخزاعہ کے بہت سے لوگوں کو قتل کردیا تھا اور ان پر بےانتہا زیادتی کی تھی پس ممکن نہیں تھا کہ اس ظلم سے درگز کی جاتی اور اس کی سزا نہ دی جاتی اور تمام خونریزی سے جو بنی خزاعہ نے کی تھی درگزر کرکے نیا عہد نامہ کیا جاتا۔
تاریخوں میں لکھا ہے کہ جب ابوسفیان کو معلوم ہوا کہ قریش مکہ پر ضرور لشکر کشی ہوگی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لشکر کو دیکھ کر وہ حیران ہوگیا تو اس کو یقین ہوا کہ قریش مارے جاوینگے اور مکہ فتح ہوجاویگا غالباً اسی خوف سے اس نے اپنا مسلمان ہوجانا بھی ظاہر کیا اور شاید دل میں بھی باتیں سننے سے اور حضرت عباس کی نصیحت سے کچھ کچا پکا مسلمان ہو بھی گیا ہو مگر جب وہ مکہ کو واپس جانے لگا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کہہ دیا کہ لڑائی کے زمانہ میں جو شخص تیرے گھر میں پناہ لے گا اس کو امن دیا جائے گا ۔
غرضیکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ فرمایا اور تمام لشکر روانہ ہوا۔ جب لشکر قریب مکہ کے پہنچا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشتہر کردیا اور مکہ میں بھی لوگوں نے مشتہر کیا کہ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے گا اور جو شخص حرم کعبہ میں پناہ لے گا اور جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کرکے اپنے گھر میں بیٹھا رہیگا ان سب کو امن دیا جائے گا مگر نو آدمیوں کے نام بتائے کہ وہ قتل کئے جاوینگے۔ ان نو آدمینوں کے یہ نام ہے ( ) عبداللہ بن سعد بن ابی سرح عکرمہ بن ابی جہل ، عبدالعزے بن خطل الحارث بن نفیل بن وہب مقیس بن صبابہ، ہبار ابن الاسود، دو گانے والی عورتیں ابن خطل کی، سارہ مولاۃ بنی عبدالمطلب۔
غرضیکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے فتح عظیم عنایت کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہ فتح و نصرت مکہ میں داخل ہوئے۔ جو تکلیفیں کہ لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی تھیں ان کے سبب لوگوں کو خیال تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ کیا کرینگے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب لوگوں کو امن دیا اور کسی سے بدلہ نہیں لیا اور ایک ایسا فصیح اور بلیغ اور رحم کا بھرا ہوا خطبہ پڑھا جو زمانہ میں یادگار ہے۔
جن نو آدمیوں کے قتل کا حکم دیا تھا ان میں سے ابن ابی سرح کو حضرت عثمان لے کر آئے اور امن کی درخواست کی اس کو امن دیا اور وہ مسلمان ہوگیا۔ عکرمہ بن ابی جہل کو جو مفرور ہوگیا تھا من دینے کے لیے اس کی جو رونے عرض کیا آپ نے اس کو بھی امن دیا وہ واپس آیا اور مسلمان ہوگیا۔ ہبارابن الاسود بھی بھاگ گیا تھا اور یہ وہ شخص تھا جس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی حضرت زینب کو دھکا دیا تھا اور وہ ایک پتھر پر گر پڑی تھیں اور اسقاط حمل ہوگیا تھا اس کو بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امن دیا، اور سارہ اور ، ان دوگانے والیوں میں سے ایک کو بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امن دیا اور وہ دونوں مسلمان ہوگئیں۔ اور ان میں سے صرف چار شخص مارے گئے۔ ایک ابن خطل۔ ایک الحارث۔ ایک مقیس۔ اور ایک دونوں گانے والیوں میں سے۔ عبداللہ ابن خطل پہلے مسلمان ہوگیا تھا پھر مرتد ہوگیا اس نے حالت اسلام میں ایک مسلمان غلام کو مار ڈالا تھا اور اس کا خون اس پر تھا۔ اور مقیس بن صبابہ بھی پہلے مسلمان ہوگیا تھا پھر مرتد ہوگیا تھا اور کافروں سے جا ملا تھا اور اس نے ایک انصاری کو مار ڈالا تھا اور ان کا خون اس پر تھا۔ الحارث اور ان دونوں گانے والیوں میں سے ایک گانے والی کے مارے جانے کی وجہ ہم کو معلوم نہیں ہوئی۔ بعض علما سے میں نے سنا کہ ان دونوں کو بھی بعوض کسی خون کے قصاصاً مار ڈالا گیا الا ہم کو کہیں اس کی تصریح نہیں ملی۔ مگر یقین ہے کہ ان دونوں پر کوئی ایسا جرم تھا کہ جس کی سزا بجز قتل کے اور کچھ نہ تھی۔ خصوصاً ان دونوں گانے والیوں میں سے ایک کے مارے جانے کی ضرور کوئی ایسی وجہ ہوگی جس سے اس کا قتل کرنا لازمی ہوگا کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمیشہ ہدایت تھی کہ کوئی عورت بجز قصاص کے اور کسی طرح پر نہ ماری جاوے۔
فتح مکہ کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ” فاذا القیم الذین کفروا فضرب الرقاب حتی اذا اثخنتمو ھم مثد وا الو ثاق فاما منا بعد وانما فداء حتی تضع الحرب اوزارھا “ جس نے تمام انسانوں کو لونڈی اور غلام ہونے سے آزادی دی ہے اور لڑائی کے تمام قیدیوں کی جانوں کو بچایا ہے کہ اس کے بعد لڑائی کا کوئی قیدی قتل نہیں ہوسکتا اور کوئی قیدی زن ومرد لڑکا اور لڑکی لونڈی اور غلام نہیں بنائے جاسکتے اور لڑائی کے قیدیوں کے ساتھ بجز اس کے کہ ان پر احسان کرکے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کے لیے یہ ایک ایسا فخر ہے کہ کسی اور مذہب کے لیے نہیں ہے۔
سریہ خالد بن الولید رمضان سال ہشتم
فتح مکہ کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد ابن ولید کو عزے بت کے توڑنے کے لیے جو بنی کنانہ کا بت تھا بھیجا اور وہ توڑ کر چلے آئے۔
سریہ عمرو بن العاص رمضان سال ہشتم
سواع جو ہذیل کی قوم کا ایک بت مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر تھا اس کے توڑنے کو عمرو بن العاص مقرر ہوئے اور وہ توڑ کر چلے آئے۔
سریہ سعد بن یزید الا شہلی رمضان سال ہشتم
منات جو ایک نہایت مشہور بت ہے بنی اوس اور خزرج کا مسلل میں تھا اس کے توڑنے کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد کو مقرر کیا اور ورہ بیس سوار لے کر وہاں گئے اور اس کو توڑ کر چلے آئے۔
ان بتوں کے توڑنے کے وقت جو قصے کتابوں میں لکھے ہیں وہ محض کہانیاں ہیں اور نہ ان کی کوئی معتبر سند ہے اور مطلق اعتبار کے لائق نہیں ہیں۔
سریہ خالد ابن ولید شوال سال ہشتم
جب کہ خالد بن ولید عزے بت کو توڑ کر مکہ میں واپس آئے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین سو پچاس آدمیوں کے ساتھ ان کو بنی جذیمہ کی طرف اسلام کی ہدایت کرنے کے لیے بھیجا لڑنے کے لیے نہیں بھیجا تھا۔ مگر بنی خذیمہ پہلے سے مسلمان ہوگئے تھے اور انھوں نے ایک آدھ مسجد بھی اپنے ہاں نماز پڑھنے کے لیے بنالی تھی مگر وہ ہتھیار بند ہو کر مقابلہ کو آئے۔ جب ان سے پوچھا کہ تم مسلح ہو کر کیوں آئے ہو تو انھوں نے کہا کہ عرب کی ایک قوم سے اور ہم سے دشمنی ہے ہم کو خوف ہوا کہ وہی قوم ہم پر چڑھ کر نہ آئی ہو ان سے کہا گیا کہ ہتھیار رکھ دو انھوں نے ہتھیار رکھ دیئے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ تم مسلمان ہوگئے ہو تو انھوں نے بجائے اس کے کہ کہتے ” اسلمنا “ انھوں نے کہا ” صبانا صبانا “ اس کہنے سے ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے اپنا پہلا مذہب چھوڑ دیا ہے لیکن جب کوئی مسلمان اس لفظ کو کہے تو اس کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم کافر ہوگئے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں نے بھی اس کا مطلب سمجھا اور ان کو قید کرلیا اور رات کے وقت مسلمانوں کے ہر گروہ نے علیحدہ علیحدہ چند چند قیدی اپنی اپنی حفاظت میں کرلیے صبح کو خالد ابن ولید نے حکم دیا کہ جس کے پاس جو جو قیدی ہیں ان کو مار ڈالے۔ بنو سلیم کے پاس جتنے قیدی تھے ان کو انھوں نے مار ڈالا ۔ مگر مہاجرین اور انصار کے پاس جس قدر قیدی تھے انھوں نے قتل نہیں کیا بلکہ ان سب کو چھوڑ دیا جب یہ خبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچی تو آپ خالد بن ولید کے کام سے نہایت ناراض ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ اے خدا جو کچھ خالد نے کیا میں اس سے بری ہوں اور حضرت علی مرتضیٰ کو مقرر فرمایا کہ جو لوگ مارے گئے ہیں ان کی دیت ادا کریں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ التوبہ : آیت 6

تفسیر سرسید : ۲
غزوہ حنین یا غزوہ اوطاس یا غزوہ ہوازن شوال سال ہشتم
حنین اور اوطاس دو مقاموں کا نام ہے جو مکہ اور طائف کے بیچ میں ہیں اور ہوازن کی قوم سے اس مقام پر لڑائی ہوئی تھی اسی سبب سے اس غزوہ کے یہ نام ہوئے ہیں۔
فتح مکہ کے بعد مالک ابن عوف نضری نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑنے کے لیے لوگوں کو جمع کیا اور ہوازن اور بنی ثقیف اور بنی مضر اور بنی جشم اور کچھ لوگ بنی ہلال کے اور بہت سے لوگ مختلف قبائل کے اس کے پاس جمع ہوگئے۔ یہ خبر سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی لڑائی کی تیاری کی اور بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر لے کر کوچ فرمایا۔ مالک ابن عوف نضری بھی اپنا لشکر لے کر چل چکا تھا اور اوطاس کے میدان میں پہنچ گیا تھا۔ وہ ایک ایسی تنگ اور پتھریلی اور ریتلی زمین تھی کہ وہاں گھوڑوں کا جانا اور لڑنا نہایت مشکل تھا۔ انھوں نے وہیں اپنا لشکر ڈالا اور اس کے گڑھوں میں اور ان تنگ رستوں کے ادھر ادھر جن میں گزرنا نہایت مشکل تھا چھپ بیٹھے۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لشکر جب وہاں پہنچا تو بغیر ترتیب لڑائی کے اور بغیر کسی خیال کے اس دشوار گزار رستہ میں سے گزرنا شروع کیا اور کچھ لوگ اس سے آگے بڑھ گئے اور ہوازن والوں کی جہاں بھیڑ اور عورتیں اور مال و اسباب تھا اس طرف جانے کا ارادہ کیا اس وقت دشمن اپنے کمین گاہوں میں سے جہاں وہ چھپے ہوئے تھے نکل پڑے اور دفعتہ سب نے ملکر حملہ کیا اور مارنا اور قتل کرنا شروع کیا۔ مسلمانوں کے لشکر میں نہایت ابتری پڑی اور لوگ بھاگ نکلے یہاں تک کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھی بہت تھوڑے آدمی رہے گئے۔ غالباً لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی قتل ہوگئے۔ جب یہ حال دیکھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک طرف اونچی جگہ پر جا کھڑے ہوئے اور لوگوں کو پکارا کہ میں موجود ہوں اور حضرت عباس نے بھی نہایت بلند آواز سے لوگوں کو ڈانٹا اور کہا کہ کہاں بھاگے جاتے ہو۔ حضرت عباس نے یہ بھی کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زندہ ہیں ان کا یہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل ہوجانے کا خیال کیا تھا۔ غرضیکہ سب لوگ پھر پڑے اور اکٹھے ہوگئے اور نہایت سخت لڑائی کے بعد دشمنوں کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ نکلے۔
سریہ ابی عامر الاشعری شوال سال ہشتم
اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوعامر اشعری کو ان لوگوں کے تعاقب میں بھیجا جو اوطاس کی جانب بھاگے تھے ان لوگوں سے بھی کچھ لڑائی ہوئی اور ابو عامر ایک تیر کے زخم سے مرگئے۔ اور مالک بن عوف نے ثقیف کے ایک قلعہ میں جاکر پناہ لی اور بہت سے قیدی اور مال و اسباب مسلمانوں کے ہاتھ آیا قیدیوں کی تعداد چھ ہزار لکھی ہے اور اونٹوں اور بکریوں کی تعداد بہت زیادہ بیان کی گئی ہے۔
قیہ یان حنین کی منا رہائی
کئی دن بعد ہوازن کے لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور چاہا کہ ان کے تمام قیدی ” منا “ یعنی احسان رکھ کر بغیر کسی معاوضہ لینے کے چھوڑ دیئے جاویں۔ یہ بات کسی قدر مشکل تھی کیونکہ تمام لڑنے والوں کا جیسا حق غنیمت کے مال میں حصہ لینے کا تھا ویسا ہی ان قیدیوں کے معاوضہ میں فدیہ لینے کا حق تھا اور وہ لوگ ایسے نہ تھے کہ فدیہ نہ دے سکتے ہوں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیدیوں کو بغیر فدیہ لیے چھوڑ دینے کی خواہش رکھتے تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کل نماز کے وقت سب لوگ آؤ۔ غالباً یہ اس لیے فرمایا کہ سب لوگ ایک جگہ جمع ہوں گے اور جب نماز ہوچکے تو تم قیدیوں کو چھوٹنے کی درخواست کرو۔ ان لوگوں نے اسی طرح کیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو کچھ کہ میرا اور بنی عبدالمطلب کا ہے یعنی ان کا حصہ ہے وہ تمہارے لیے ہے۔ مہاجرین اور انصار نے کہا کہ جو ہمارا حصہ ہے وہ بھی رسول اللہ کے لیے ہے۔ بعض لوگوں نے اس طرح پر قیدیوں کے دے دینے سے انکار کیا مگر آخر کو سب لوگ راضی ہوگئے اور تمام قیدی بغیر معاوضہ لیے احساناً چھوڑ دیئے گئے۔
سریہ طفیل بن عمرو الدوسی شوال سال ہشتم
ذوالکفین نام لکڑی کا ایک بت عمرو بن حمہۃ کا تھا اس کے توڑنے کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طفیل ابن عمرو کو روانہ کیا وہ وہاں گئے اور اس بت کو توڑ دیا اور جلا دیا۔
غزوہ طائف شوال سال ہشتم
حنین سے واپس آنے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف کی طرف کوچ فرمایا کیونکہ بنی ثقیف نے طائف کے قلعوں میں جاکر پناہ لی تھی اور لڑائی کا سامان کیا تھا۔ ایک مہینہ تک یا کچھ زیادہ طائف کا محاصرہ رہا اور لڑائی بھی ہوتی رہی مگر ابھی فتح نہیں ہوئی تھی کہ ذیقعدہ کا مہینہ کا چاند دکھائی دیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عمرہ ادا کرنا منظور تھا اس لیے محاصرہ اٹھا لیا اور فرمایا کہ ماہ عور گزر جانے کے بعد پھر لڑا جاویگا اور مکہ کو واپس تشریف لائے اور عمرہ ادا کرنے کے بعد مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے۔
کئی مہینوں کے بعد طائف کے لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے بہتر ہے کہ ہم اطاعت قبول کریں۔ پھر انھوں نے چھ شخصوں کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مدینہ میں بھیجا اور چار باتوں پر صلح چاہی ایک یہ کہ ” لات “ جو ان کا بت ہے وہ تین برس تک نہ توڑا جاوے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منظور نہ فرمایا تو انھوں نے چاہا کہ ایک برس تک نہ توڑا جاوے جب اس کو بھی منظور نہ فرمایا تو انھوں نے چاہا کہ ایک مہینے تک جب سے کہ یہ لوگ واپس جاویں توڑا جاوے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بھی نامنظور فرمایا۔ دوسرے یہ کہ ان کے لیے توڑ معاف کردیجاوے۔ حضرت نے فرمایا کہ جس دین میں نماز نہیں ہے اس میں کچھ بھلائی نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ اپنے بت اپنے ہاتھوں سے نہ توڑیں۔ چوتھے یہ کہ جو عامل محصول وصول کرنے کے لیے مقرر ہو اس کے سامنے ود نہ بلائے جائیں اور نہ ان کی زمینوں کا عشر لیا جاوے اور نہ کوئی جرمانہ۔ ان پچھلی دو شرطوں کو آپ نے منظور فرمایا اور اسی پر صلح ہوگئی۔
بھیجا جانا ابوسفیان ابن حرب اور مغیرہ بن شعبہ کا واسطے توڑنے لات کے طائف کو
اس صلح کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوسفیان اور مغیرہ بن شعبہ کو طائف میں لات بت کے توڑنے کے لیے بھیجا اور مغیرہ بن شعبہ نے اپنے ہاتھ سے اس کو توڑ دیا۔ جب وہ توڑا جاتا تھا تو بنی ثقیف کی عورتیں اس کے گرد جمع ہوگئی تھیں اور لات کی موت پر گریہ وازاری کرتی تھیں۔
سریہ عینیہ بن حصن انفراری محرم سال نہم
اس سریہ میں پچاس سوار تھے اور بنی تمیم پر جنہوں نے ابھی تک اطاعت نہیں قبول کی تھی بھیجا گیا تھا وہ لوگ جنگل میں اپنے مویشی کو چرا رہے تھے کہ دفعتہ عیینہ معہ اپنے سواروں کے ان پر جاپڑے وہ لوگ بھاگ گئے اور گیارہ مرد اور اکیس عورتیں اور تیس بچے گرفتار ہوئے ان کو مدینہ اس کے بعد نبی تمیم کے چند سردار مل کر مدینہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور اطاعت قبول کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام قیدیوں کو ” منا “ یعنی بغیر کسی معاوضہ کے ان کو دے دیا۔
سریہ قطبہ بن عامر بن حدیدہ صفر سال نہم
یہ سریہ قبیلہ خثعم پر بھیجا گیا تھا اور مورخین لکھتے ہیں کہ اس سریہ کو حکم تھا کہ بنی خثعم کو لوٹ لیں مگر کسی نے نہیں لکھا کہ ایسا حکم دینے کی کیا وجہ تھی۔ وہ قبیلہ کچھ مالدار نہ تھا نہ اس کے پاس بہت سا اسباب یا مویشی تھے کہ کوئی بدظنی سے کہ سکے کہ مال اور لوٹ کے لالچ سے ایسا حکم دیا تھا۔
بہرحال اگر درحقیقت ایسا حکم دیا گیا تھا تو ضرور اس کے لیے کوئی جائز سبب ہوگا۔ اس سریہ میں کل بیس آدمی بھیجے گئے تھے اور جو واقعہ ہوا اس کا بیان بھی مختلف ہے۔ زادالعلوم میں لکھا ہے کہ قبیلہ خشعم کے گاؤں کا ایک آدمی ملا اس سے کچھ حال پوچھا وہ چلایا غالباً اس غرض سے گاؤں والوں کو خبر ہوجاوے اس کو لوگوں نے مار ڈالا۔ مگر مواہب الدنیہ میں اس کے قتل ہونے کا کچھ ذکر نہیں۔ پھر زاوالعاد میں لکھا ہے کہ رات کو سوتے میں گاؤں پر حملہ کیا مگر مواہب لدنیہ میں رات کو حمد ہونا بیان نہیں ہوا۔
بہرحال یہ لوگ اس گاؤں پر جاپڑے گاؤں والے خوب لڑے اور طرفین کے آدمی مارے گئے اور زخمی ہوئے اور کچھ بھیڑ بکریاں جو ہاتھ لگیں اور کچھ عورتیں جو گرفتار ہوئیں تھیں ان کو مدینہ میں لے آئے۔ کسی نے نہیں لکھا کہ ان عورتوں کی نسبت کیا ہوا اور اس کا ذکر نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ چھوڑ دی گئیں کیونکہ اگر وہ بطور لونڈیوں کے تقسیم کی جاتیں تو اس کا ضرور ذکر ہوتا۔
سریہ ضحاک بن سفیان الکلابی ربیع الاول سال نہم
یہ سریہ بنوکلاب پر بھیجا گیا تھا انھوں نے بھی اطاعت نہیں کی تھی۔ وہاں پہنچ کر اول ان کو مسلمان ہوجانے کو سمجھایا گیا انھوں نے نہ مانا اور لڑے اور شکست کھا کر بھاگ گئے۔ سریہ عبداللہ ابن حذافہ یا سریہ علقمہ بن المحرز المدلجی ربیع الاول سال نہم
اس بات میں اختلاف ہے کہ اس سریہ کے سردار عبداللہ تھے یا علقمہ سیرت ہشامی میں لکھا ہے کہ علقمہ کے بھائی وقاص بن محرز المدلجی ذوقرد کی لڑائی میں مارے گئے تھے اس لیے علقمہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت چاہی کہ وہ حبشہ کی قوم سے جنہوں نے ان کو مارا تھا ان کے خون کا بدلہ لے۔ اور کچھ عجب نہیں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے عبداللہ کو سردار قرار دیا ہو اور پھر علقمہ کو سردار کردیا یہ سریہ قوم حبشہ کی طرف بھیجا گیا تھا جن کی بغرض فساد کے جمع ہونے کی خبر پہنچی تھی تین سو آدمی اس سریہ میں تھے۔ یہ لوگ دریا کی طرف جمع تھے اور جب علقہ دریا کے ایک جزیرے میں جاکر اترے تو وہ لوگ بھاگ گئے اور علقہ معہ اپنے لوگوں کے بغیر کسی جنگ کے واپس آگئے۔
سریہ حضرت علی بن ابی طالب الیٰ بنی طے سال نہم
قبیلہ بنی طے کا سردار عدی بن حاتم تھا اور اس قبیلہ میں بطور بادشاہ کے سمجھا جاتا تھا اور سب سے زیادہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناپسند کرتا تھا اور کسی قسم کی اطاعت بھی نہیں کی تھی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی مرتضیٰ کو متعین کیا کہ اس قبیلہ میں جاویں اور ان کے پوجنے کا بت جس کا نام فلس تھا توڑ دیں یہ بت حاتم کے محلہ میں تھا۔ یہ لوگ دفعتہ وہاں پہنچے عدسی ابن حاتم بھاگ گیا اور ان لوگوں نے اس محلہ کو گھیر لیا اور لوٹ لیا اور بت کو توڑ ڈالا اور کچھ قیدی پکڑ لیے اور مدینہ میں واپس چلے آئے۔ انھیں قیدیوں میں حاتم کی کی بیٹی بھی تھی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرف گزرے تو حاتم کی بیٹی نے اپنا مال عرض کیا آپ نے ہا کہ عدی تیرا بھائی ہے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ التوبہ : آیت 6

تفسیر سرسید : ۳
جو بھاگ گیا ہے اور کچھ جواب نہیں دیا۔ دوسرے دن پھر اس نے کہا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب فرمایا کہ میں اس بات کا منتظر ہوں کہ کوئی شخص تیری قوم کا ملے تو میں اس کو تیرے ساتھ کرکے آرام سے تیرے گھر تجھ کو بھیج دوں۔ عدی اس کا بھائی عیسائی تھا اور شام کی طرف بھاگ گیا تھا۔ انھیں دنوں میں ایک قافلہ شام کو جاتا تھا۔ حاتم کی بیٹی نے درخواست کی کہ اس کو اس قافلہ کے ساتھ شام میں اس کے بھائی کے پاس بھیج دیا جاوے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منظور کیا اور اس کو زادراہ اور کپڑے عطا کئے اور روانہ کردیا وہ اپنے بھائی پاس پہنچ گئی۔ اس کے چند روز بعد ابن حاتم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور مسلمان ہوگیا اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ قبیلہ طے کے جس قدر قیدی تھے وہ سب چھوڑ دیئے گئی۔
غزوہ تبوک رجب سال نہم تبوک ایک قصبہ ہے شام اور وادی القرے کے درمیان۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر ملی تھی کہ اہل روم نے شام میں بہت کثرت سے لوگ جمع کئے ہیں اور ہرقل نے ایک برس کے خرچ کے لائق رسد ان کو دیدی ہے اور بنی نحم اور بنی جذاب اور بنی عاملہ اور بنی غسان سب ان کے ساتھ شریک ہوگئے ہیں۔ اہل روم سے مراد ہرقل کے لشکر سے ہے جو قسطنطنیہ کا شہنشاہ تھا اور شام اس کے تحت حکومت میں تھا اور اس زمانہ کے قریب اس نے ایران کو بھی فتح کرلیا تھا۔ اس خبر پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی لوگوں کو جمع ہونے اور لڑائی کا سامان مہیا کرنے کا حکم دیا اور مدینہ سے معہ لشکر کے روانہ ہوئے مگر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک میں پہنچے تو جس قدر مجمع کی خبر سنی تھی اس قدر کا مجمع ہونا صحیح نہیں تھا۔ بہرحال آپ نے تبوک میں قیام فرمایا۔ یوحنا بن روبہ جو ایلہ کا سردار اور عیسائی تھا۔ اور اخرج اور جریا اور مقنا کے لوگ وقتہً فوقتہً آئے اور جزیہ دینے پر راضی ہوئے اور ان کو عہد نامہ لکھ دیا گیا۔ یوحنا کے نام ایلہ والوں کے لیے جو فرمان لکھا گیا تھا اس کا یہ مطلب تھا کہ ایلہ والوں کو خدا اور رسول خدا نے پناہ دی ہے ان کی کشتیوں کو ان کے مسافروں کو خشکی و تری میں ان کے لیے اللہ ورسول کی ذمہ داری ہے اور جو لوگ اہل شام و اہل یمن اور اہل بحرین ان کے ساتھ ہوں وہ بھی ان کے ساتھ امن میں ہیں اور اگر ان سے کوئی نئی بات پیدا ہوگی (یعنی دشمنی و عداوت کی) تو ان کا مال (یعنی جزیہ دینا) ان کو بچا نہیں سکنے کا اور ہر ایک شخص کو ان کا پکڑ لینا جائز ہوگا اور (اس حالت کے سوا) کسی کو جائز نہیں ہے کہ جہاں وہ جانا چاہیں اور جس رستہ سے جانا چاہیں تری کے یا خشکی کے ان کو منع کرے۔ غالباً اسی قسم کا یا اس کی مانند باقی لوگوں سے بھی جنہوں نے جزیہ قبول کیا تھا معاہدہ ہوا ہوگا۔
دومتہ الجندل کا سردار جس کا نام اکیدر بن عبدالملک تھا اور اس نواح کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا اور عیسائی مذہب رکھتا تھا اور کندی قوم کا تھا جو عرب کی ایک قوم ہے حاضر نہیں ہوا اس کے پاس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد بن ولید کو روانہ کیا۔ وہ اپنے محل سے معہ اپنے بھائی حسان کے گھوڑوں پر سوار ہو کر نکلا اور اس ک یساتھ اس کے سوار بھی تھے خالد کے سواروں سے مقابلہ ہوا حسان اس کا بھائی مارا گیا اور اکیدر گرفتار ہوگیا جب اس کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس لائے تو اس نے بھی جزیہ دینے پر صلح کرلی اور اس کو چھوڑ دیا۔ اور غزوہ تبوک ختم ہوگیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینے کو واپس تشریف لے آئے۔
تبوک ہی کے مقام سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہرقل شہنشاہ روم کے نام خط روانہ کیا اور اپنا ایلچی بھیجا جس کی نسبت مسٹر گبن نے اپنی معروف و مشہور تاریخ میں یہ فقرہ لکھا ہے ” جب ہرقل جنگ فارس سے توزک ابدشان کے ساتھ لوٹا تو اس نے مقام حمص میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایلیچوں میں سے ایک کی ضیافت کی جو روے زمین کے شاہزادوں اور اقوام کو دین اسلام کی دعوت کرتے پھرتے تھے۔ اسی بناء پر عرب والوں نے تعصب سے یہ خیال کیا کہ اس عیسائی بادشاہ نے خفیہ اسلام قبول کرلیا۔ ادھ یونانی یہ شیخی بگھارتے ہیں کہ ہرقل سے خود بادشاہ مدینہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے آکر ملاقات کی اور روم کے بادشاہ یعنی ہرقل نے فیاضی سے صوبہ شام میں ایک عمدہ مقام آپ کو عطا کیا ” مسٹر گبن نے بھی یہ مضمون رومیوں کی نسبت بطور طعن کے لکھا ہے ا اور ہر مورخ سمجھ سکتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہرقل کے پاس تشریف لے جانا اور اس کا کسی زمین کا دینا محض غلط ہے م اگر ایشیا کے سورخوں امر رومی مورخوں کے بیان سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایلچی کا ہرقل سے ملنا اور اس کا ایلچی کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا ثابت ہوتا ہے۔
بحث نسبت جزیہ کے جو لوگ مسلمان نہیں ہوتے تھے اور اپنے قدیم مذہب پر قائم رہتے تھے ان پر جو جزیہ مقرر ہوتا تھا اس کا مقصد سمجھنے میں لوگوں نے بڑی غلطی کی ہے اور جو لوگ مخالف اسلام کے ہیں انھوں نے جزیہ مقرر کرنے پر بہت سا طعن کیا ہے۔ مسٹر لین نے اپنی کتاب مدالتاموس میں لکھا ہے کہ جزیہ قتل کے محفوظ رہنے کا معاوضہ تھا اور یہ ان کی نہایت غلطی ہے کیونکہ امن کا ہوجانا یعنی لڑائی کا موقوف ہونا یا صلح کا ہوجانا یا کسی قسم کا معاہدہ ہونا گو کہ اس میں جزیہ کا دینا نہ قرار پایا ہو قتل سے محفوطی کا سبب ہوتا تھا نہ کہ جزیہ دینا۔ جزیہ ان لوگوں سے لیا جاتا تھا جو مسلمانوں کی زیر حکومت بطور رعیت کے رہنا قبول کرتے تھے۔ جو لوگ رعیت ہو کر رہتے تھے وہ ذمی کہلاتے تھے یعنی مسلمانوں کی حکومت میں ان کے امن سے رہنے کے ذمہ دار ہیں۔ جیسے کہ اہل ایلہ کے نام فرمان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھا تھا کہ ” ھم ذمۃ اللہ و ممد النبی “ پس جزیہ قتل سے محفوظ رہنے کا معاوضہ نہیں ہے۔
جزیہ دینے والے مسلمانوں کے ساتھ ہو کر مخالفوں سے لڑائی کو جانے سے بالکل بری تھے۔ لڑائی کی ضرورت سے جو خاص جہاز یعنی نقد جنس مسلمانوں سے مانگا جاتا تھا اور لیا جاتا تھا اس سے وہ بری تھے۔ مسلمانوں سے نہایت سخت سالانہ ٹیکس یعنی چالیسواں حصہ مال کا لے لیا جاتا تھا اس سے وہ لوگ بری تھے ان سب امور کے عوض ایک نہایت خفیف سالانہ ٹیکس جو فی کس تین روپیہ کئی آنے سال ہوتا ہے ان سے لیا جاتا تھا۔ پس اس تخفیف و رعایت کی جو ذمیوں کے ساتھ کی گئی تھی حد نہیں۔ فرض کرو کہ ایک ذمی کے پاس چالیس ہزار روپیہ نقد موجود ہے اور اس کو اور قسم کی آمدنیاں تجارت وغیرہ سے بھی ہیں۔ اور ایک مسلمان پاس بھی چالیس ہزار روپیہ نقد موجود ہے اور اس کے پاس اور کوئی آمدنی تجارت وغیرہ سے نہیں ہے سال بھر کے بعد اس ذمی کو تو صرف تین روپے کئی آنے اور اگر اس کی جو رو یا اور کنبہ ہے جس کی پرورش اس کے ذمہ ہے تو ہر ایک کی طرف سے بھی اسی قدر دینا ہوگا جس کی مقیدار ایک عام طریقہ پر تیس چالیس روپیہ سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ مگر مسلمان کو بلا عذر اپنے صندوق خزانہ میں سے ایک ہزار روپیہ نقد نکال کردینا ہوگا۔ جزیہ مسلمان ہونے پر کسی طرح رغبت دلا نہیں سکتا۔ بلکہ جس کسی کو ایمان سے زیادہ مال کی محبت ہو تو اس کو مسلمان ہونے سے باز رہنے پر رغبت دلا سکتا ہے۔ بااینہمہ جو ذمی غریب و مسکین تھے وہ جزیہ سے بھی معاف کردیئے جاتے تھے۔
جو خیال کہ مخالفین اسلام نے جزیہ کی نسبت کیا ہے اس کے غلط ہونے کی شہادت ایک اور حال کے زمانہ کے بڑے عیسائی عالم کی کتاب سے ثابت ہوتی ہے وہ عالم عیسائی ” معلم بطرس البستانی “ ہے اور اس کی کتاب کا نام محیط المحیط ہے جو عربی زبان کی لغت میں اس نے ، لکھی ہے وہ کہتا ہے کہ ” الجزیہ خراج الارض وما یوخذ من اھل الذمۃ تیل کانھا تجزی عنہم ای تکفیھم معاملۃ الحربیین وقیل لا تھا تکفیھم مونۃ الجھاد کالمساعین “۔
بحث نسبت محاربات کے
ان تمام واقعات سے جو بیان ہوئے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لڑائیاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ہوئیں وہ چار طرح پر ہوئیں تھیں یا تو دشمنوں کے حملہ کے روکنے اور ان کے حملوں کے دفعہ کرنے کے لیے تھیں۔ یا دشمنوں کا ارادہ لڑنے اور حملہ کرنے اور لڑائی کے لیے لوگوں کے جمع کرنے کی خبر پاکر اس فساد کے مٹانے اور ان لوگوں کے منتشر کرنے کے لیے ہوئی تھیں۔ یا ان لوگوں پر حملہ کیا گیا تھا جنہوں نے عہد شکنی یا دغابازی یا بغاوت کی تھی۔ یا خبر رسانی اور ملک کی اور قوموں کے حالات دریافت کرنے کو جو لوگ بھیجے جاتے تھے ان سے لڑائی ہوگئی تھی۔ پس یہ تمام لڑائیاں ایسی تھیں جو معمولاً ملکی انتظام میں اور امن و امان کے قائم کرنے میں واقع ہوتی ہیں اور دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ جس نے ملکی انتظام ہاتھ میں لیا ہو اور اس کو اس قسم کی لڑائیاں نہ پیش آئی ہوں ان لڑائیوں کے نسبت یہ کہنا کہ زبردستی سے ہتھیاروں کے زور سے مسلمان کرنے کے لیے تھیں ایک ایسا غلط قول ہے جس کو کوئی ذی عقل بجز اس کے جس کے دل میں تعصب بھر ا ہو سچ تسلیم نہیں کرسکتا۔
یہ سچ ہے کہ جس قوم کی کسی ملک میں سلطنت اور حکومت ہوجاتی ہے قدرتی طور پر اس قوم کے مذہب کو اور نہ صرف مذہب کو بلکہ رسم و رواج و عادات و اطوار کو ترقی ہوتی ہے اور لوگ اس طرف مائل ہوتے جاتے ہیں اور یہ مقولہ کہ ” الملک والدین تو امان “ ہر ایک قوم اور ہر ایک مذہب پر صادق آتا ہے اسی طرح اسلامی حکومت کے سبب اسی قدرتی قاعدہ سے اسلام کی ترقی کو بھی مدد پہنچی۔ مگر ان لڑائیوں کو جو ملکی ضرورت اور امن قائم کرنے کے لیے ہوئیں یہ کہنا کہ وہ اسلام پھیلانے کے لیے اور بجبرہتھیاروں کے زور سے اسلام قبلوانے کے لیے تھیں محض غلط ہے۔ بلکہ صرف اسلام ہی کی تاریخ میں ایک نہایت عجیب واقعہ پایا جاتا ہے جو اور کسی مذہب کی تاریخ میں نہیں ہے کہ فاتح قوم نے فتح کامل حاصل کرنے اور استقلال کامل پانے کے بعد اپنی مفتوح ملک کے باشندوں کی مذہبی آزادی کی مانع ہو۔ جزیہ جو ایک قسم کا ٹیکس ہے اس کی نسبت ہم بیان کرچکے کہ مسلمان سے بنسبت اس کے بہت زیادہ ٹیکس لیا جاتا تھا جو زکوٰۃ کے نام سے موسوم ہے۔ اور اس لیے مسلمانی سلطنت میں غیر مذہب والے مسلمانوں کی بنسبت زیادہ آسودہ حال اور دولتمند رہتے تھے اور لڑائی میں شریک ہونے کی مصیبتوں سے بالکل محفوظ تھے ۔ تسلیم کیا جاوے کہ بعض مسلمان بادشاہوں نے غیر مذہب والوں پر ظلم کیا اور ان کی مذہبی آزادی کو برباد کردیا مگر ایسا کرنا ان کا ذاتی فعل تھا جس کے وہ خود ملزم ہیں نہ مذہب اسلام۔
بلاشبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے بعد قوم عرب کے بتوں کو توڑ دیا مگر اس بت شکنی کی نظیر محمود غزنوی کی یا عالمگیر کی یا اور کسی بادشاہ کی بت شکنی کی نہیں ہوسکتی۔ کعبہ ایک مسجد تھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بنائی ہوئی خداے واحد کی عبادت کے لیے اس کے بعد جب عرب بت پرست ہوگئے تو اس مسجد میں انھوں نے بت رکھ دیئے تھے جن کا برباد کرنا اور دین ابراہیم کا اس میں جاری کرنا ابراہیم کے پہلونٹے بیٹے کے بیٹے کو لازم تھا قوم عرب جس کا غالب حصہ ابراہیم کی نسل سے تھا اور جس قوم و نسل میں خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تھے اس قوم کو بتوں کی پرستش سے چھڑانا اور ابراہیم کے خدا کی پرستش سکھلانا ضرور تھا پس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اپنی قوم کے بت توڑے تھے اس سے دیگر اقوام کے مذہب کی آزادی کو ضائع کرنا لازم نہیں آتا۔
مسلمانوں کی تاریخ میں جہاں بت شکنی اور غیر مذہب کے معبدوں کے برباد کرنے کی مثالیں ملتی ہیں اسی طرح ہزاروں مثالیں اس کے برخلاف بھی موجود ہیں۔ مسلمانوں کی سلطنت دنیا کے ایک بہت بڑے وسیع حصے میں پھیلی ہوئی تھی اس کو حکومت میں مختلف مذہب کی قومیں رہتی تھیں تمام سنیگاگ اور تمام گرجے جو زیادہ تر روسن کیتھلک مذہب کے تھے بدستور قرناے اور گھنٹے بجاتے تھے تمام ملک میں ناقوس کی آواز گونجتی تھی مندروں میں بت موجود تھے ہر ایک قوم اپنے مذہب میں آزاد تھی پس ان تمام حالات کو جو نہایت کثرت سے تھے بھول جانا اور چند واقعات کو جو اس کے برخلاف شخصی طبیعت سے واقع ہوئے تھے نظیر پیش کرکے یہ کہنا کہ اسلام نے مذہبی آزادی کو مٹایا تھا محض ناانصافی ہے اور اصول مذہب اسلام کے بلکل
بالکل بر خلاف ہے۔
رہی یہ بات کہ انبیاء کو اس قسم کی لڑائیاں کرنی زیبا ہیں یا نہیں۔ اس سے انکار کرنا اور اس کو نازیبا قرار دینا قانون قدرت کے برخلاف ہے۔ تمام انبیاء جب کہہ قوم کی اصلاح اور ان کے مذہب کی درستی کو کھڑے ہوتے ہیں تو ابتدا میں عموماً ان کے دشمن چاروں طرف ہوتے ہیں اگر وہ اپنی حفاظت اور مخالفوں سے محفوظ رہتے کی کوشش نہ کرتے تو دنیا میں نہ آج یہودی مذہب کا وجود ہوتا اور نہ اور کسی مذہب کا اور نہ عیسائی مذہب کا اگر بعد حضرت مسیح کے اس کے لیے ایسا زمانہ نہ آتا جس میں اس کے پیرؤوں کی مخالفوں سے حفاظت کی گئی اور بزور حکومت اس کو ترقی دی گئی۔
ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھد مت سوامع ومع وصلواۃ و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا (سورة حج )
قرآن مجید میں نہہایت عمدہ اور بالکل سچ بات خدا نے فرمائی ہے کہ ” اگر نہ ہوتا دفع کرنا اللہ کا آدمیوں کو ایک دوسرے تو ضرور ڈھادی جاتیں عیسائیوں اور درویشوں کی خانقاہیں اور گرجے اور یہودیوں کے معبد اور تمام نماز گاہیں اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں بہت زیادہ خدا کا ذکر کیا جاتا ہے پس یہ کہنا کہ انبیاء کو ایسی لڑائیاں نازیبا ہیں ایک ایسا قول ہے جس کو قانون قدرت مردود کرتا ہے۔
لوگ حضرت موسیٰ کے کاموں کو تو بھول جاتے ہیں اور غریبی اور مسکینی اور مظلومی کی مثال میں حضرت مسیح کو پیش کرتے ہیں۔ مگر حضرت مسیح نے جب اپنے تئیں خلقت کے سامنے پیش کیا اس وقت سے اور حضرت مسیح کی وفات تک نہایت قلیل زمانہ قریب تین برس کے گزرا تھا اور صرف ستر آدمیوں کے قریب ان پر ایمان لائے تھے ان کو مطابق ایسی قوت جس سے وہ اپنے دشمنوں کو دفع کرسکیں حاصل نہیں ہوئی تھی اور اس سبب سے کا ڈوری کی پہاڑی پر وہ افسوس ناک واقع ہوا۔ اس کے بعد اگر اس کے ایسے حامی نہ پیدا ہوجاتے جو دشمنوں کو دفع کرسکے تو آج دنیا میں ایک بھی گرجا اور ایک بھی خانقاہ نہ دکھائی دیتی۔
علاوہ اس کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روحانی بادشاہی کے سوا سلیمان کیسی سلطنت کے انتظام میں داخل ہوجانے میں ایک بہت بڑی مجبوری تھی۔ عرب میں بادشاہت کا وجود نہ تھا ہر ایک قبیلہ کا سردار ان کا حاکم ہوتا تھا اور جس کو سب لوگ بڑا سمجھتے تھے اس کو بامجبوری افسر بننا اور تمام ملکی انتظام کرنا لازم تھا۔ جب کہ تمام قبائل رفتہ رفتہ مسلمان ہوگئے تو امکان سے خارج تھا کہ وہ لوگ سوائے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور کسی کو اپنا سردار تسلیم کرتے اور تمام معاملات مب کی بجز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے اور کسی کے حکم سے تعمیل پاتے ۔ پس ہر بات پر انصاف سے غور کرنا چاہیے نہ تعصب سے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ التوبہ : آیت 30

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ۚ یُضَاہِـُٔوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۚ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۳۰﴾

تفسیر سرسید :

(وقالت الیھود) ہمارے علمائے مفسرین اس آیت کی تفسیر میں یہ لکھتے ہیں کہ یہودیوں نے توراۃ مقدس کو ضائع کردیا تھا یعنی بخت نصر نے جب بیت المقدس کو ویران کیا ہے اور جلالا ہے اس وقت ضائع ہوگئی تھی مگر حضرت عزیر کے دعا مانگنے پر اللہ تعالیٰ نے توراۃ ان کو یاد کروادی اور انھوں نے اس کو لکھ دیا اس وقت یہودیوں نے کہا کہ یہ بات جو عزیر کو حاصل ہوئی تو مشک ودابن اللہ ہے۔
اس کے بعد علماے مفسرین نے یہ بحث کی ہے کہ حضرت عزیر کو ابن اللہ کس نے کہا عبید ابن عمیر کا یہ قول ہے کہ صرف ایک یہودی نے یہ بات کہی تھی جس کا نام فخاص بن عازورا تھا اور سعید بن جبیر اور عکرمہ کا یہ قول ہے کہ ایک گروہ یہودیوں کی تھی جنہوں نے یہ کہا تھا اور بعضوں کا یہ قول ہے کہ یہ مذہب یہودیوں میں رائج تھا مگر پھر انھوں نے اس کو چھوڑ دیا تھا ۔ تفسیر کثاف میں لکھا ہے کہ جو یہود کہ مدینہ میں رہتے تھے ان میں سے چند آدمیوں کا یہ مذہب تھا۔ کل یہودیوں کا یہ مذہب نہیں تھا۔ یہ سب اقوال ہمارے علمائے مفسرین کے ہیں مگر یہودی اس سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہودی عزیر کو کبھی ابن اللہ نہیں کہتے تھے۔
علمائے مفسرین نے جو کچھ اس کی نسبت بیان کیا مورخانہ طریقہ پر اس کا ماخذ تلاش نہیں کیا ہے اور نہ یہودی مذہب کی کسی کتاب کا حوالہ دیا ہے۔ پس ہم کو علمائے مفسرین کے اقوال کا ماخذ تلاش کرنا ہے اور وہ صرف دو قول ہیں۔ اول یہ کہ بعد منائع ہوجانے توراۃ کے حضرت عزیر پیغمبر نے از سر نو توراۃ کو لکھا۔ دوم یہ کہ یہودیوں کے کسی فرقہ نے حضرت عزیر کو ابن اللہ کہا۔
پہلے قول کی سند ہم یہودی کتابوں سے بیان کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ تین کتابیں ہیں جو حضرت عزیر کی طرف منسوب ہیں۔ ایک کتاب موسوم بہ کتاب ” غربا “ ہے جو موجودہ عہد عتیق کی کتابوں میں شامل ہے اور سب لوگ اس کو صحیح اور معتبر مانتے ہیں۔ علاوہ اس کے دو کتابیں اور ہیں جو کتاب اول ” عیزڈر اس “ اور کتاب دوم ” عیز درس “ کے نام سے موسوم ہیں۔ عزرا کا نام یونانی زبان میں ” عیزڈر اس “ کہا جاتا ہے اور جو کہ ان دونوں کتابوں کی نسبت کو اسی نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
ان کتابوں میں سے دوسری کتاب کے چودھویں باب میں یہ درس ہیں ۔” دیکھ اے خدا میں جاؤنگا جیسا کہ تونے مجھ کو حکم دیا ہے اور جو لوگ موجود ہیں میں ان کو فہمائش کرونگا لیکن جو لوگ کہ بعد کو پیدا ہوں گے ان کو کون فہمائش کرے گا۔ اس طرح دنیا تاریکی میں ہے اور جو لوگ اس میں رہتے ہیں بغیر روشنی کے ہیں “۔ (درس )
” کیونکہ تیرا قانون جل گیا ہے پس کوئی نہیں جانتا ان چیزوں کو جو تو کرتا ہے اور ان کاموں کو جو شروع ہونے والے ہیں “ (درس )
” لیکن اگر مجھ پر تیری مہربانی ہے تو تو روح القدس کو مجھ میں بھیج اور میں لکھوں گا تمام جو کچھ کہ دنیا میں ابتدا سے ہوا ہے اور جو کچھ تیرے قانون میں لکھا تھا تاکہ لوگ تیری راہ کو پاویں اور وہ لوگ جو اخیر زمانہ میں ہوں گے زندہ رہیں “ (درس )
” اور اس نے مجھ کو یہ جواب دیا کہ جا اپنے راستہ سے لوگوں کو اکٹھا جمع کر اور ان سے کہ کہ وہ چالیس دن تک تجھ کو نہ ڈھونڈیں “ (درس )
” لیکن دیکھ تو بہت سے صندوق کے تختے تیار کر اور اپنے ساتھ ” ساریا “ و ” دبریا “ ” سلیما “ ۔ ” اکینسیسن “ اور ” ایشیل “ کو لے۔ ان پانچوں کو جو بہت تیزی سے لکھنے کو تیار ہیں “ (درس )
” اور یہاں آ ادریس تیرے دل میں سمجھ کی شمع روشن کرونگا جو کہ نہ بجھے گی تاوقتیکہ وہ چیزں پوری نہ ہوں جو تو لکھنی شروع کرے گا “ (درس )
” اور جب کہ تو پورا کرچکے گا تو بعض چیزوں کو تو مشتہر کرے گا اور بعض چیزوں کو تو خفیہ عقلمندوں کو دکھادیگا۔ کل اسی وقت تو لکھنا شروع کرے گا “ (درس )
” پس میں نے ان پانچ آدمیوں کو لیا جیسا کہ اس نے حکم دیا تھا اور میدان میں گئے اور وہاں رہے “ (درس)
” اور دوسرے دن دیکھو ایک آواز نے مجھ کو پکارا اور کہا اے ” عیزڈر اس “ اپنا منہ کھول اور میں جو کچھ پینے کو دیتا ہوں اس کو پی “ (درس)
” جب میں نے اپنا منہ کھولا اور دیکھو اس نے ایک بھرا ہوا پیالہ میرے منہ تک پہنچایا اور جو کہ مثل پانی کے ایک چیز سے بھرا ہوا تھا لیکن اس کا رنگ مثل آگ کے تھا “ (درس)
” اور میں نے اس کو لیا اور پیا اور جب میں پی چکا میرے دل میں سمجھ آئی اور میرے سینہ میں عقل پیدا ہوتی کیونکہ میری روح نے میرے ذہن کو قوت بخشی “ (درس )
” اور میرا منہ کھلا اور پھر بند نہ ہوا “ (درس )
” خدا نے ان پانچ آدمیوں کو بھی سمجھ دی اور انھوں نے رات کے عجیب خوابوں کو جو بیان کئے گئے لکھا اور جو ان کو معلوم نہ تھے اور وہ چالیس دن تک بیٹھے اور انھوں نے دن میں لکھا اور رات کو روٹی کھائی “ (درس )
” لیکن میں دن کو بولتا تھا اور رات کو اپنی زبان بند نہیں کرتا تھا “ (درس )
” چالیس دن میں انھوں نے دو سو چار (یا نوسوچار) کتابیں لکھیں “ (درس )
” اور ایسا ہوا کہ جب چالیس دن پورے ہوگئے تو خدا بولا اور اس نے کہا کہ جو تونے پہلے لکھا ہے اس کو عام طور سے مشتہر کرتا کہ لائق اور نالائق سب پڑھیں “ (درس )
” لیکن پچھلی ستر جو ہیں ان کو پوشیدہ رکھا تاکہ تو صرف ان کو دے سکے جو تیرے لوگوں میں عقل مند ہوں “ (درس )
” اور میں نے ایسا ہی کیا “ (درس )
کتاب عزرا جو عہد عتیق میں داخل ہے اور جس کو سب معتبر مانتے ہیں اس میں لکھا ہے کہ ” میں عزرا از بابل برآمد کہ اور در شریعت موسیٰ کے خداوند کہ خداے اسرائیل وادھ بود کاتب مابربود “ (درس)
” زاں رد کہ عزرا قلب خود رابہ خصوص طلبیدان و بجا آوردن شریعت خداوند بہ خصوص تعلیم نمودن فرائض و احکام بہ اسرائیل حاضر کرد “ (بابدرس )
جارج سیل صاحب اپنے ترجمہ قرآن کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ ” یہ رائے کہ عزرا نے نہ صرف کتب خمسہ موسیٰ کو بلکہ عہد عتیق کی اور کتابوں کو بھی خدا کی وحی سے دوبارہ تیار کیا۔ متعدد عیسائی (پادری احمد بابا) فادرز کی بھی یہی رائے ہے جن کا ذکر ڈاکٹر پر یڈیوز نے کیا ہے اور مصنفوں کی بھی یہ رائے ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اس رائے کی اصل بنا ھیز ڈر اس کے باب دوسرے کے ایک حصہ پر ہے۔ ڈاکٹر پر یڈیوز نے بیان کیا ہے کہ اس باب میں عیسائیوں نے عزرا کی طرف بنسبت یہودیوں کے بہت زیادہ باتیں منسوب کی ہیں کیونکہ یہودیوں کا یقین ہے کہ عزرا نے صرف موسیٰ کی کتابوں کا ایک صحیح نسخہ تیار کیا تھا اور اس پر بہت محنت کرکے اس کو بہت مکمل کیا تھا۔ اس میں بہت کم شبہ ہے کہ یہ خیال ابتداً یہودیوں سے شروع ہوا گو اب ان کی رائے اور ہو ، ہمارے نزدیک یہ سند جو ہم نے بیان کیں ان سے ہمارے مفسرین کے پہلے قول کی تصدیق ہوتی ہے۔
دوسرے قول کی تصدیق کے لیے ہم ” میزڈر اس “ کی اس دوسری کتاب سے استدلال کرتے ہیں۔ اس کے چودھویں باب میں یہ درس ہیں :۔
” اور اب میں (خدا) تجھ سے کہتا ہوں “ (درس)
” کہ تو اپنے دل میں دو نشانیاں جمع رکھ جو میں نے دکھائی ہیں اور ان خوابوں کو جو تونے دیکھے ہیں اور ان تعبیروں کو جو تونے سنی ہیں “۔ (درس)
” کیونکہ تو سب سے علیحدہ کردیا جائے گا اور اب سے تو میرے بیٹے کے ساتھ رہیگا اور ایسے لوگوں کے ساتھ جو تیری ہی مانند ہیں یہاں تک کہ زمانہ کا خاتمہ ہوجاوے “ ۔ (درس)
یہ ترجمہ جو ہم نے لکھا ہے انگریزی زبان کے ترجمہ کا اردو ترجمہ ہے۔ اصل کتاب ” عیزڈر اس “ موجود نہیں ہے۔ اگر بیٹے کے ساتھ رہنے سے حضرت عیسیٰ مراد ہوں تو یہ درس محض مہمل و بےمعنی ہوجاتا ہے بلکہ سیاق کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کلمہ کا اطلاق خود حضرت عزرا کی طرف ہے کہ اب سے تو میرا بیٹا رہیگا یعنی مقبول و مقرب۔
اس کتاب کا عربی زبان میں بھی ترجمہ موجود تھا اور کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ وہی عربی ترجمہ عرب میں اور بالتخصیص مدینہ میں جہاں کثرت سے یہودی رہتے تھے مروج ہوگا اور نہایت قرین قیاس ہے کہ وہ ترجمہ ایسے لفظوں میں ہوگا جس سے لوگ حضرت عزرا کو ابن اللہ تعبیر کرتے ہوں گے جس طرح کہ عیسائی اسی قسم کے لفظوں کے سبب سے حضرت مسیح کو ابن اللہ تعبیر کرتے ہیں۔ پس یہ قول ہمارے علما کا کہ مدینہ کے یہودیوں کا یہ خیال تھا نہایت صحیح اور قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔
اب ہم کو ” میز ڈر اس “ کی دوسری کتاب پر جس کے حوالے ہم نے دیئے ہیں بحث کرنی باقی ہے یہ کتاب مجموعہ کتب عہد عتیق میں شامل نہیں ہے اور اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ یہ ایک جھوٹی یا نا معتبر کتاب ہے گو کہ اس میں بہت سی باتیں عمدہ اور صحیح بھی موجود ہیں۔
اس کتاب کے نا معتبر ہونے کی یہ دلیلیں پیش ہوتی ہیں اول۔ یہ کہ اس کتاب کا کوئی عبری یا یونانی نسخہ نہیں پایا جاتا صرف لیٹن زبان کے چند نسخے اور ایک عبری زبان کا نسخہ سے مگر ہم نہیں سمجھ سکتے کہ عبری یا یونانی نسخہ کا نہ پایا جانا خصوصاً ایسی حالت میں کہ سب لوگ اس کا یونانی میں لکھا جانا تسلیم کرتے ہیں اس کے نا معتبر ہونے کی کیونکہ دلیل ہوسکتی ہے۔
دوسری دلیل یہ پیش ہوتی ہے کہ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ ابتدا ہی میں یہ کتاب یونانی زبان میں لکھی گئی تھی جس کا یہ مفاد ہے کہ حضرت عزرا نے نہیں لکھی کیونکہ اگر وہ لکھتے تو عبری زبان میں لکھتے مگر اس کا یونانی زبان میں ابتدائً لکھا جانا صرف خیال کیا گیا ہے اور اس کا کچھ ثبوت نہیں ہے۔ علاوہ اس کے بالا تفاق تسلیم کیا گیا ہے کہ حضرت متی کی انجیل دراصل عبری زبان میں لکھی گئی تھی جو اب دنیا میں موجود نہیں ہے اور موجودہ انجیل یونانی زبان کی اس کا ترجمہ ہے۔ پس کیا وجہ ہے کہ میزڈر اس کی کتاب کے اس نسخہ کو جس کا یونانی میں لکھا جانا خیال کیا گیا ہے عبری کا ترجمہ نہ تصور کیا جاوے۔
تیسری سب سے بڑی دلیل اس کتاب کی عزرا کی لکھی ہوئی نہ ہونے کی ڈاکٹر گوے کا قول ہے وہ کہتے ہیں کہ ” اس کتاب کے مختلف مقامات کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان مسئلوں اور خیالات اور فقروں کی طرح ہے جو عہد جدید میں پائے جاتے ہیں اور یہ بات کہ ہمارے سیور (لفظی معنی نجات دہندہ) حضرت مسیح کا ذکر ان کا نام لے کر اس میں بہت صاف الفاظ میں کیا ہے ان سب باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کل نہیں تو اکثر حصہ اس کا انجیل کے بعد لکھا ہوا ہے۔
جن درسوں میں ایسے الفاظ ہونے کا خیال کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل درسوں میں مذکور ہیں۔
” اور اس لیے میں تم سے کہتا ہوں اے کفار تم میں سے جو سنتے اور سمجھتے ہیں کہ تم ڈھونڈو اپنے گڈریا کو کہ وہ تم کو ہمیشہ کا آرام دے گا کیونکہ اب وہ قریب ہے اور دنیا کے اخیر میں آنے والا ہے “ (باب درس)
” بادشاہت کے انعام کے لیے تیار رہو کیونکہ ہمیشہ کی روشنی تم پر چمکنے والی ہے “ (باب درس )
” اس دنیا کے سایہ سے بھاگو اور اپنے جلال کی خوشی کو حاصل کرو میں اپنے سیویر کی تصدیق صاف طور سے کرتا ہوں “ (باب درس)
عیسائی حضرت عیسیٰ پر سیویر کا لفظ اطلاق کرتے ہیں اور اسی خیال سے ڈاکٹر گرے نے خیال کیا ہے کہ اس سے حضرت عیسیٰ مراد ہیں اور یہ کتاب انجیل کے بعد لکھی گئی ہے۔ مگر وہ عبری لفظ جس کا ترجمہ سیویر یعنی نجات دہندہ کیا جاتا ہے وہ عہد عتیق میں اشعیاہ نبی کی کتاب باب درسو باب درس و باب درس و بابدرس میں آیا ہے اور خدا کی طرف اس کا اطلاق کیا گیا ہے پھر یہاں بھی سیویر سے خدا کیوں سمجھا نہیں جاتا۔
” تب میں نے فرشتہ سے پوچھا کہ یہ جوان شخص کون ہے جو ان لوگوں کے سروں پر تاج رکھتا ہے اور ان کے ہاتھ میں شاخیں دیتا ہے “ (باب درس )
” پس اس نے جواب دیا کہ یہ خدا کا بیٹا ہے جس کو انھوں نے دنیا میں قبول کیا ہے “ (باب درس )
مگر بزرگ اور مقدس آدمی کو خدا کا بیٹا کہنا عام محاورہ کتب عہد عتیق کا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دوسری کتاب یعنی سفر خروج کے چوتھے باب کی بائیسویں آیت میں خدا نے حضرت یعقوب کو اپنا پہلا بیٹا کہا ہے اور وہ آیت یہ ہے : ” وبہ فرعون بگوے کہ خداوند چنیں می فریاید کہ اسرائیل قسر اول زادہ من است “ زادہ کا لفظ اصل عبری میں نہیں ہے۔
ہوشیع نبی کی کتاب کے پہلے باب کی دسویں آیت میں بنی اسرائیل پر خدا کے بیٹوں کا اطلاق ہوا ہے اور وہ آیت یہ ہے ” معندا تعداد بنی اسرائیل مثل ریگ دریا کہ پمیودنی وشمودنی نیست خوابد بود بلکہ واقع می شودورتمامی مقامے کہ بایشاں گفتہ شد کہ شما قوم من نیستید بایشاں گفتہ خاہد شد کہ پسران خدا حی اید “۔
” اور جو شخص کہ مندرجہ بالا برائیوں سے بچے گا وہ میرے عجائبات کو دیکھے گا “ (بابدرس )
” کیونکہ میرا بیٹاجیسس ان لوگوں کے ساتھ ظاہر ہوگا جو اس کے ساتھ ہوں گے اور جو لوگ باقی رہینگے وہ چار سو برس کے اندر خوش ہوں گے “ (بابدرس بعد ان برسوں کے میرا بیٹا کر ائسٹ مرجاویگا اور تمام لوگ جو جان رکھتے ہیں وہ بھی “ (بابدرس )
جیسس اور جیسو اور جو شیو یہ تینوں صورتیں یونانی نام جو شوا اور بیشوا کی ہیں جو مخفف ہے جیہو شواکا۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس مقام میں جو جیسس نام ہے ڈاکٹر گرے نے کس دلیل پر اس کو حضرت مسیح کا نام سمجھا ہے۔ کیونکہ اسی میزڈر اس کی پہلی کتاب کے پانچویں باب درس میں یہی نام آیا ہے اور یہ وہ شخص ہے جو قید بابل سے چھوٹ کر بنی اسرائیل کے ساتھ بیت المقدس میں آیا تھا مذکورہ بالا درس میں اسی شخص کا نام معلوم ہوتا ہے کیونکہ لکھا ہے کہ جیسس ان لوگوں کے ساتھ ظاہر ہوگا جو اس کے ساتھ ہوں گے اور اس سے صاف اشارہ انھیں لوگوں کی طرف ہے جو قید بابل سے چھوٹ کر بیت المقدس میں آئے تھے۔
اس شخص نے بہت سی نیکی اور خدا پرستی کے کام کئے ہیں جن کا ذکر میزڈر اس کی پہلی کتاب کے باب درس ،, , , و بابدرس و بابدرس میں مندرج ہے اور انھیں نیک کاموں کے سبب سے اس کو خدا نے اپنا بیٹا کہا ہے۔
مسیح اور کر ائسٹ کے ایک ہی معنی ہیں۔ یہ لفظ ہر ایک کے لیے استعمال ہوتا تھا جس پر ایک خاص رسم میں تیل ملا جاتا تھا (دیکھو سفر لویان باب درس ، ,) ان درسوں میں مسیح یا کر ائسٹ کا لفظ ہائی پر یسٹ کے لیے استعمال ہوا ہے اور بنی اسرائیل کے بادشاہوں کو بھی تیل ملا جاتا تھا اور وہ بھی اس لقب سے بولے جاتے تھے (دیکھو پہلا سموٹل باب درس و وبال درس ۔ وباب درسوباب درس۔ وباب درس - ۔ دوسرا سموٹل باب درس - وباب درس وباب درس )
یہودیوں میں پر یسٹ کو بھی تیل ملا جاتا تھا جس وقت کہ وہ اپنے کام پر مقرر ہوتے تھے (دیکھو پہلی کتاب تواریخ الایام باب درس وزبور درس ) پس اس مقام پر کر ائسٹ سے وہی جیسس مراد ہے جو قید بابل سے چھوٹ کر بیت المقدس میں آیا تھا اور بطور بریسٹ کے اس نے بہت سے کام کئے ہیں۔
مسٹر آرنلڈ ان اخیر دو درسوں کی نسبت جن میں جیسس اور کر ائسٹ کا لفظ آیا ہے یہ لکھتے ہیں کہ ” اس درس اور اس کتاب کے اور چند فقروں سے جیسس کر ائسٹ کا نام اور ان کے کام اور موت وغیرہ کا حال صاف صاف معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ بات ناممکن ہے کہ کسی یہودی نے جس نے اس کتاب کو تسلیم کرلیا ہو وہ عیسائی نہ ہوگیا ہو ، مگر میں کہتا ہوں کہ یہ بات ناممکن ہے کہ کسی یہودی نے جس نے اس کتاب کو تسلیم کرلیا ہو ان لفظوں کے وہ معنی سمجھے ہوں جو مسٹر آرنلڈ نے سمجھے ہیں۔
اس کے بعد مسٹر آرنلڈ لکھتے ہیں کہ ” اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ کتاب ہمارے (انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ نجات دہندہ “ احمد بابا) سیویر یعنی حضرت مسیح کے تھوڑے زمانہ بعد لکھی گئی ہوگی اور جس کے حالات اور جس کے حواریوں کی تحریرات سے مصنف نے چند فقرے لکھے ہیں۔
اگرچہ ہم نے تشریح کردی ہے ان درسوں کے وہ معنی نہیں ہوسکتے جو عیسائی مصنف سمجھتے ہیں لیکن اگر ہم ان کے اس قول کو تسلیم کرلیں کہ یہ کتاب حضرت مسیح کے تھوڑے زمانہ بعد لکھی گئی تھی تو بھی یہ بات تسلیم کرنی ضرور ہوگی کہ قبل نزول قرآن مجید کے یہ کتاب تحریر ہوچکی تھی اور جو کہ اس میں متعدد جگہ انسانوں کو ابن اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے اس واسطے یہودیوں کا بعضا فرقہ حضرت عزیر کو ابن اللہ کہتا ہوگا جیسا کہ ہمارے مفسروں نے لکھا ہے کہ مدینہ کے یہودیوں کا یہ اعتقاد تھا۔ چنانچہ سعید ابن جبیر اور عکرمہ نے روایت کی ہے کہ سلام بن مشکم اور نعمان بن اونی اور مالک ابن سیف جو مدینہ کے یہودی تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے کہ ہم کیونکر تمہاری تابعداری کریں تم نے تو ہمارا قبیلہ چھوڑ دیا ہے اور عزیر کو ابن اللہ بھی نہیں سمجھتے۔ اس میں کچھ نہیں کہ شام کے یہودیوں کا یہ اعتقاد نہیں تھا اور اسی وجہ سے وہ لوگ اس بات سے کہ وہ عزیر کو ابن اللہ سمجھتے تھے ہمیشہ انکار کرتے رہے ہیں مگر ان کے انکار کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوئی فرقہ بھی اس اعتقاد کا نہ تھا۔ اگر اس وقت عیسائیوں سے پوچھو تو سب عیسائی اس بات سے کہ وہ حضرت مریم کو بھی خدا سمجھتے تھے انکار کرینگے حالانکہ چوتھی صدی کے اخیر میں عیسائیوں میں ایک فرقہ پیدا ہوا تھا جو کوئی ری ڈینس پکارا جاتا تھا۔ سوشیم کلیز یا سٹکل ہسٹری صفحہ میں لکھا ہے کہ ان لوگوں نے باپ اور بیٹے (یعنی خدا اور حضرت مسیح) کے سوا حضرت مریم کو بھی خدا مانا تھا یہ فرقہ چند روز رہا اور مدت سے معدوم ہوگیا۔ اسی طرح یہودیوں کا بھی ایک خاص فرقہ تھا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور اب وہ معدوم ہے۔
مسلمان عالموں کی یہ دلیل کہ قرآن مجید علانیہ مدینہ میں پڑھا جاتا تھا اور آیت وقالت الیحود عزیز بن اللہ سب یہودی سنتے تھے اگر ان کا یہ اعتقاد نہ ہوتا تو ضرور الزام دیتے کچھ کم مضبوط نہیں ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
واعلموا : سورۃ التوبہ : آیت 40

اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفۡلٰی ؕ وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۴۰﴾

تفسیر سرسید :

( ؎) جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ سے ہجرت فرمائی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر صدیق کو ساتھ لے کر جبل نور کے ایک غار میں چھپ رہے تھے اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے
 
Top