واعلموا : سورۃ التوبہ : آیت 5
تفسیر سرسید : ۲
غزوہ ذی امر ربیع الاول سنہ ہجری
امر۔ رائے مشدد مفتوحہ سے ایک موضع کا نام ہے جو نواح نجد میں واقع ہے۔
یہ صرف ایک سفر تھا جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجد اور فطفان کی طرف فرمایا تھا اس سفر میں نہ کسی سے مقابلہ ہوا نہ کسی سے لڑائی ہوئی ایک مہینہ تک اس نواح میں آپ نے قیام کیا پھر واپس تشریف لے آئے۔
غزوہ فرع من بحران جمادی الاول سنہ ہجری
فرع۔ ایک گاؤں کا نام ہے ربذ پہاڑ کے پاس مدینہ سے آٹھ منزل مکہ کی طرف۔
بحران۔ ایک میدان ہے اسی کے پاس۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بذاتہ خاص قریش مکہ کا حال دریافت کرنے کو سفر کیا اور دو مہینہ تک اس نواح میں قیام فرمایا اور پھر مدینہ میں چلے آئے کوئی جھگڑا قضیہ کسی سے نہیں ہوا۔
غزوہ قردہ۔ جمادی الآخر سنہ ہجری
قردہ۔ ایک چشمہ کا نام ہے جو نجد میں ہے۔
قریش مکہ کی تجارت کا روکنا جن سے ہر وقت اندیشہ جنگ تھا ایک ضروری امر تھا انھوں نے قدیم رستہ تجارت کا چھوڑ کر ایک نیا رستہ عراق میں ہو کر نکالنا چاہا اور ابوسفیان بن حرب قافلہ لے کر نکلا اور فرات بن حیان رستہ بتانے والا تھا۔ جب اس کی خبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو زید ابن حارثہ کو ان پر بھیجا اس نے قافلہ کو لوٹ لیا اور فرات ابن حیان کو پکڑ لایا جو بعد اس کے مسلمان ہوگیا۔
یہ تمام واقعات ایسے ہیں جو ایک جنگجو دشمن کے مقابلہ میں ہر ایک قوم کو کرنے پڑتے ہیں ان واقعات سے اس بات پر استدلال نہیں ہوسکتا کہ یہ لڑائیاں بزور مسلمان کرنے کے لیے تھیں۔
غزوہ احد شوال سنہ ہجری
احد۔ مدینہ سے کچھ فاصلہ پر جو سرخ پہاڑ ہے اس کا نام ہے۔
ابوسفیان مکہ سے تین ہزار لڑنے والوں کے ساتھ لڑنے کو اور مدینہ پر حملہ کرنے کو روانہ ہوا جب کہ وہ لوگ عینین میں جو بطن سنجہ میں مدینہ کے مقابل ایک پہاڑ ہے پہنچے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مدینہ سے روانہ ہوئے اور احد کے پاس مقام کیا۔ نہایت سخت لڑائی ہوئی مسلمانوں کی فتح کامل ہونے کو تھی کہ لوگ لوٹنے میں مشغول ہوئے اور فتح کی شکست ہوگئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چار دانت پتھر کے صدمہ سے ٹوٹ گئے مشہور ہوگیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے اس پر بہت لوگ بھاگ نکلے جب معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحیح و سالم ہیں تب سب لوگ ایک محفوظ جگہ میں اکٹھے ہوگئے۔ دوسرے دن قریش مکہ نے وہاں سے کوچ کیا اور مکہ کو چلے گئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہدا کو دفن کیا اور مدینہ میں چلے آئے۔
غزوۃ حمراء الاسد۔ شوال سنہ ہجری
حمراء الاسد۔ ایک جگہ ہے مدینہ سے آٹھ میل پر۔
احد سے واپس آنے کے دوسرے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہی لوگوں کو ساتھ لے کر جو احد کی لڑائی میں شریک تھے مدینہ سے کوچ کیا اور حمراء الاسد میں پہنچ کر تین دن تک مقام کیا اور پھر واپس آگئے۔ غالباً یہ اس لیے تھا کہ لوگ یہ نہ خیال کریں کہ احد کے واقعہ کے سبب سے مسلمانوں میں اب کچھ قوت باقی نہیں رہی۔
سریہ عبداللہ ابن انیس محرم سنہ ہجری
عبداللہ بن انیس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات سنی کہ سفیان خالد ہذلی نے عربہ وادی عرفہ میں کچھ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑنے کے لیے جمع کئے ہیں۔ یہ سن کر وہ مدینہ سے غائب ہوگیا اور سفیان کے پاس پہنچا اس نے پوچھا کہ تو کون ہے اس نے کہا کہ میں خزاعہ کا ایک شخص ہوں میں نے سنا ہے کہ تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑنے کو لوگ جمع کئے ہیں میں بھی تمہارے ساتھ ہوا چاہتا ہوں اس نے کہا اچھا آؤ۔ عبداللہ ابن انیس تھوڑی دور اس کے ساتھ چلے اور اس کو دھوکا دے کر مار ڈالا اور اس کا سرکاٹ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئے مگر کسی کتاب میں یہ بات نہیں لکھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ایسا کرنے کو کہا تھا۔
سریہ قطن یا سریہ ابی سلمہ محرم سنہ ہجری
قطن۔ ایک پہاڑ کا نام ہے جو قید کی طرف واقع ہے اور قید ایک پانی کا چشمہ ہے بنی عمرو بن کلاب کے متعلق ابی سلمہ ڈیڑھ سو آدمی لے کر جس میں مہاجرین اور انصار دونوں شامل تھے طلحہ اور سلمہ پسران خویلد کی تلاش میں نکلے اور قطن پہاڑ تک تلاش کی مگر ان میں سے کوئی دستیاب نہیں ہوا اور نہ کسی سے کچھ لڑائی ہوئی۔
سریۃ الرجیع صفر سنہ ہجری
رجیع ایک چشمہ کا نام ہے جو حجاز کے کنارہ پر قوم ہذیل سے متعلق ہے۔
چند لوگ قوم عضل اور قوم غازی کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ ہم لوگوں میں اسلام پھیل گیا ہے آپ کچھ لوگ مذہب کے مسائل سکھانے کو ساتھ کر دیجئے آپ نے چھ آدمی ساتھ کردیئے جب رجیع میں پہنچے تو انھوں نے دغا بازی کی اور چھوؤں آدمیوں کو تلواروں سے گھیر لیا۔ اخیر کو یہ کہا کہ اگر تم قریش مکہ کے قبضہ میں جانا قبول کرو تو ہم تم کو مارنے کے نہیں قریش نے ہمارے آدمی قید کرلیے ہیں ان کے بدلے تم کو دے کر اپنے آدمی چھوڑا لاوینگے۔ ان چھ میں سے مرثد ابن مرثد اور خالد بن الیکروعاضم بن ثابت نے نہ مانا اور نہایت بہادری سے وہیں لڑکر شہید ہوگئے اخیر کو عاصم بھی لڑنے پر تیار ہوا اور لوگوں نے پتھروں سے مار کر ان کو بھی شہید کیا باقی دو شخصوں کو مکہ میں لے جا کر قریش کے ہاتھ بیچ ڈالا قریش نے ان کے ہاتھ پاؤں باندھے اور ان کو شہید کیا۔
سریہ بیرمعونہ صف ہجری
بیر معونہ۔ یہ ایک کنواں ہے درمیان بنی عامر اور حرہ بنی سلیم کے۔
ابو براء عامر بن مالک اگرچہ مسلمان نہیں ہوا تھا مگر مذہب اسلام کو ناپسند بھی نہیں کرتا تھا اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اگر آپ کچھ لوگ اسلام کا وعظ کرنے کو نجد کی طرف بھیجیں تو غالباً اس طرف کے لوگ اسلام قبول کرلینگے۔ حضرت نے فرمایا کہ اہل نجد سے اندیشہ ہے ابوبراء نے کہا کہ وہ ہماری حمایت میں ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چالیس شخص جو قرآن کے قاری تھے اور دن رات قرآن پڑھنا ان کا کام تھا ساتھ کردیئے۔ بیر معونہ پر یہ لوگ ٹھہرے اور حرام بن ملحان کے ہاتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط جو عامر بن طفیل نجدوالے کے نام کا تھا بھیجا اس نے عامر کو قتل کرڈالا اور بہت بڑی جماعت سے بیر معونہ پر چڑھ آیا اور سب مسلمانوں کو گھیر کر مار ڈالا صرف ایک شخص مردوں میں پڑا ہوا بچ گیا۔
غزوہ بنی نضیر ربیع الاول سنہ ہجری
بنی نضیر یہودیوں کے ایک قبلہ کا نام ہے۔
عمرو بن امیۃ الضمیری مدینہ کو آتا تھا رستہ میں دو شخص قبیلہ بنی عامر سے ملے جس قبیلہ سے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عہد تھا۔ عمرو بن امیۃ نے ان دونوں کو سوتے میں مار ڈالا۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ملی تو آپ نے فرمایا کہ میں ان دونوں کی دیت دونگا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کی دیت کے لیے بنی نضیر سے بھی مدد چاہی کیونکہ بنی نضیر اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان میں بھی معاہدہ تھا اور بنی نضیر اور بنی عامر آپس میں حلیف تھے۔ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبیلہ بنی نضیر میں دیت کے پورا کرنے میں مدد کے مانگنے کو گئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دیوار کے تلے جا بیٹھے۔ بنی نضیر نے آپ میں مشورہ کیا کہ ایسے وقت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مار ڈالا جائے اور یہ تجویز کی کہ دیوار پرچڑھ کر ایک بڑا پتھر ان پر ڈال دیا جائے اور عمرو بن جحاش اس کام کے لیے مقرر ہوا۔ اتنے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مدینہ میں چلے آئے۔ جب کہ یہ دغا بازی بنی نضیر کی محقق ہوگئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر چڑھائی کی وہ قلعہ بند ہوگئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا محاصرہ کرلیا اور یہ بات ٹھہری کہ وہ لوگ مدینہ سے چلے جائیں اور ان کے اونٹ سو اے ہتھیاروں کے جس قدر مال و اسباب اٹھاسکیں لیجاویں۔ چنانچہ انھوں نے چھ سو اونٹوں پر اپنا اسباب لادا اور اپنے مکانوں کو خود توڑ دیا اور خیبر میں جاکر آباد ہوگئے۔
غزوہ بدر موعودہ یا غزوہ بدر الاخری ذیقعدہ سنہ ہجری
ابوسفیان نے وعدہ کیا تھا کہ میں تم سے پھر لڑونگا اس وعدہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ سے کوچ کیا اور بدر میں پہنچ کر مقام فرمایا۔ ابوسفیان بھی مکہ سے نکل کر ظہران یا عسفان تک آیا مگر آگے نہیں بڑھا اور کہا کہ یہ سال قحط کا ہے اس میں لڑنا مناسب نہیں اور سب لوگوں کو لے کر مکہ کو واپس چلا گیا۔
غزوہ ذات الرقاع محرم سنہ ہجری
ذات الرقاع۔ اس غزوہ کا یا تو اس لیے نام ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے جھنڈوں میں جو پھٹ گئے تھے پیوند لگائے تھے اور بعض کا قول ہے کہ جہاں مسلمانوں کا لشکر ٹھہرا تھا وہاں ایک درخت تھا جس کا نام ذات الرقاع تھا۔
بنی محارب اور بنی ثعلبہ نے جو قبیلہ غطفان سے تھے لڑائی کے لیے کچھ لوگ جمع کئے تھے ان کے مقابلہ کے لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کیا تھا۔ جب آپ غطفان میں پہنچے تو ایک بہت بڑا گروہ دشمنوں کا نظر آیا۔ دونوں طرف کے لوگ لڑنے کے ارادہ سے آگے بڑھے مگر لڑائی نہیں ہوئی اور ہر ایک گروہ واپس چلا گیا۔
غزوہ دومتہ الجندل ربیع الاول سنہ ہجری
دومتہ الجندل۔ ایک قلعہ کا نام ہے جو مدینہ اور دمشق کے بیچ میں ہے اور اس کے قریب ایک پانی کا چشمہ ہے۔
اس بات کا خیال ہونے پر کہ یہاں کے لوگوں نے بھی لڑائی کے لیے کچھ لوگ جمع کئے ہیں اس طرف کوچ کیا مگر اثنا سے راہ میں سے واپس تشریف لے آئے۔ غالباً اس لیے کہ اس خیال کی صحت نہ پائی گئی ہوگی۔
غزوہ بنی المصطلق یا غزوہ مریسیع شعبان سنہ ہجری
بنی المصطلق ۔ عرب کے ایک قبیلہ کا نام ہے۔
مریسیع۔ ایک چشمہ کا نام ہے جو قدید کی طرف واقع ہے۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی کہ حارث بن ابی ضرار نے لڑائی کے ارادہ پر لوگوں کو جمع کیا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مقابلہ کے لیے کوچ کیا اور مریسیع کے مقام پر دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا اور لڑائی ہوئی اور بنی المصطلق کو شکست ہوئی اور ان کی عورتیں اور بچے سب قید ہوگئے۔ اس وقت تک یہ آیت حریت ” فاما منا یعد واما فداء “ نازل نہیں ہوئی تھی۔
غزوہ خندق ذیقعدۃ سنہ ہجری
بنی نضیر کے یہودی جو جلاوطن کئے گئے تھے ان میں کے چند سردار اور بنی وائل کے چند سردار مکہ میں قریش کے پاس گئے ان کو مدینہ پر حملہ کرنے کو آمادہ کیا اور روپیہ اور سامان اور ہر طرح سے مدد دینے کا وعدہ کیا۔ قریش مکہ اس پر راضی ہوئے اور ابوسفیان کو سردار قرار دیا اور لوگوں کو جمع کیا اور قبیلہ غطفان میں پہنچے اور اس قبیلہ میں سے بھی لوگ ساتھ ہوئے اور دس ہزار آدمیوں کے لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کرنے کو روانہ ہوئے۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خبر کو سن کر مدینہ سے باہر جاکر لڑنا مناسب نہ سمجھا اور مدینہ کے گرد خندق کھود کر مورچہ بندی کی یہودی بنی قریظہ جن سے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے امن کا معاہدہ تھا انھوں نے بھی اپنا معاہدہ توڑ دیا اور دشمنوں سے مل گئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پاس لوگوں کو بھیجا اور معاہدہ یاد دلایا مگر علانیہ مخالفت کی۔
اس واقعہ سے اور بنی قریظہ کے دشمنوں کے مل جانے سے مدینہ والوں پر نہایت سخت وقت تھا اور ایک شخص کے بچنے کی بھی توقع نہ تھی غرض کہ یہ تمام لشکر مدینہ پر آپہنچا اور مدینہ کا محاصرہ کرلیا۔ ایک مہینہ تک محاصرہ رہا اور لڑائیاں ہوتی رہیں حصور مسلمان بھی خوب دل توڑ کر دشمنوں کے حملہ کو دفع کرتے تھے آخر کار دشمن غالب نہ آسکا اور محاصرہ اٹھا کر نہایت ناکامی کے ساتھ واپس چلا گیا۔
غزوہ عبداللہ ابن عتیک ذیقعدہ سنہ ہجری
جس زمانہ میں مدینہ پر چڑھائی کرنے کو تمام قومیں جمع ہورہی تھیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کے گرد خندق کھودنے میں مصروف تھے اسی زمانہ میں رافع بن عبداللہ جس کو سلام ابن ابی الحقیق کہتے تھے ایک سردار یہودی تھا وہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے قوموں کے جمع کرنے میں بہت کوشش کررہا تھا۔ عبداللہ ابن عتیک اور عبداللہ ابن انیس اور ابوقتادہ اور اسود بن خزاعی
اور مسعود بن سناوخیبر کو گئے جہاں وہ رہتا تھا اور کسی طرح رات کو اس کو خواب گاہ میں چلے گئے اور اس کو مار ڈالا۔
مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ پیغمبر خدا نے ان کو اس یہودی سردار کے قتل کو بھیجا تھا شاید ایسا ہوا ہو مگر ہم اس لیے شبہ میں ہیں کہ ایشیائی مورخوں کی عادت ہے کہ خواہ نخواہ ہر چیز کو پیغمبر سے منسوب کردیتے ہیں علاوہ اس کے یہ قصہ ایسی عجیب باتوں کے ساتھ ملا کر لکھا ہے کہ وہی باتیں اس کے سچ ہونے پر شبہ ڈالتی ہیں نہایت شبہ ہے کہ یہ واقعہ ہوا بھی یا نہیں مگر ہم کو مناسب ہے کہ جو طرف ضعیف ہے اسی کو اختیار کریں پس تسلیم کرتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے وہ گئے اور انھوں نے اس یہودی کو جو قوموں کو مدینہ پر حملہ کرنے کو جمع کررہا تھا مار ڈالا۔ مگر اس واقعہ سے ہمارے اس دعویٰ میں کہ تلوار کے زور سے اسلام قبلوانا ان لڑائیوں سے مقصود نہ تھا کچھ خلل واقع نہیں ہوتا۔
تفسیر سرسید : ۲
غزوہ ذی امر ربیع الاول سنہ ہجری
امر۔ رائے مشدد مفتوحہ سے ایک موضع کا نام ہے جو نواح نجد میں واقع ہے۔
یہ صرف ایک سفر تھا جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجد اور فطفان کی طرف فرمایا تھا اس سفر میں نہ کسی سے مقابلہ ہوا نہ کسی سے لڑائی ہوئی ایک مہینہ تک اس نواح میں آپ نے قیام کیا پھر واپس تشریف لے آئے۔
غزوہ فرع من بحران جمادی الاول سنہ ہجری
فرع۔ ایک گاؤں کا نام ہے ربذ پہاڑ کے پاس مدینہ سے آٹھ منزل مکہ کی طرف۔
بحران۔ ایک میدان ہے اسی کے پاس۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بذاتہ خاص قریش مکہ کا حال دریافت کرنے کو سفر کیا اور دو مہینہ تک اس نواح میں قیام فرمایا اور پھر مدینہ میں چلے آئے کوئی جھگڑا قضیہ کسی سے نہیں ہوا۔
غزوہ قردہ۔ جمادی الآخر سنہ ہجری
قردہ۔ ایک چشمہ کا نام ہے جو نجد میں ہے۔
قریش مکہ کی تجارت کا روکنا جن سے ہر وقت اندیشہ جنگ تھا ایک ضروری امر تھا انھوں نے قدیم رستہ تجارت کا چھوڑ کر ایک نیا رستہ عراق میں ہو کر نکالنا چاہا اور ابوسفیان بن حرب قافلہ لے کر نکلا اور فرات بن حیان رستہ بتانے والا تھا۔ جب اس کی خبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو زید ابن حارثہ کو ان پر بھیجا اس نے قافلہ کو لوٹ لیا اور فرات ابن حیان کو پکڑ لایا جو بعد اس کے مسلمان ہوگیا۔
یہ تمام واقعات ایسے ہیں جو ایک جنگجو دشمن کے مقابلہ میں ہر ایک قوم کو کرنے پڑتے ہیں ان واقعات سے اس بات پر استدلال نہیں ہوسکتا کہ یہ لڑائیاں بزور مسلمان کرنے کے لیے تھیں۔
غزوہ احد شوال سنہ ہجری
احد۔ مدینہ سے کچھ فاصلہ پر جو سرخ پہاڑ ہے اس کا نام ہے۔
ابوسفیان مکہ سے تین ہزار لڑنے والوں کے ساتھ لڑنے کو اور مدینہ پر حملہ کرنے کو روانہ ہوا جب کہ وہ لوگ عینین میں جو بطن سنجہ میں مدینہ کے مقابل ایک پہاڑ ہے پہنچے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مدینہ سے روانہ ہوئے اور احد کے پاس مقام کیا۔ نہایت سخت لڑائی ہوئی مسلمانوں کی فتح کامل ہونے کو تھی کہ لوگ لوٹنے میں مشغول ہوئے اور فتح کی شکست ہوگئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چار دانت پتھر کے صدمہ سے ٹوٹ گئے مشہور ہوگیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے اس پر بہت لوگ بھاگ نکلے جب معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحیح و سالم ہیں تب سب لوگ ایک محفوظ جگہ میں اکٹھے ہوگئے۔ دوسرے دن قریش مکہ نے وہاں سے کوچ کیا اور مکہ کو چلے گئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہدا کو دفن کیا اور مدینہ میں چلے آئے۔
غزوۃ حمراء الاسد۔ شوال سنہ ہجری
حمراء الاسد۔ ایک جگہ ہے مدینہ سے آٹھ میل پر۔
احد سے واپس آنے کے دوسرے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہی لوگوں کو ساتھ لے کر جو احد کی لڑائی میں شریک تھے مدینہ سے کوچ کیا اور حمراء الاسد میں پہنچ کر تین دن تک مقام کیا اور پھر واپس آگئے۔ غالباً یہ اس لیے تھا کہ لوگ یہ نہ خیال کریں کہ احد کے واقعہ کے سبب سے مسلمانوں میں اب کچھ قوت باقی نہیں رہی۔
سریہ عبداللہ ابن انیس محرم سنہ ہجری
عبداللہ بن انیس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات سنی کہ سفیان خالد ہذلی نے عربہ وادی عرفہ میں کچھ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑنے کے لیے جمع کئے ہیں۔ یہ سن کر وہ مدینہ سے غائب ہوگیا اور سفیان کے پاس پہنچا اس نے پوچھا کہ تو کون ہے اس نے کہا کہ میں خزاعہ کا ایک شخص ہوں میں نے سنا ہے کہ تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑنے کو لوگ جمع کئے ہیں میں بھی تمہارے ساتھ ہوا چاہتا ہوں اس نے کہا اچھا آؤ۔ عبداللہ ابن انیس تھوڑی دور اس کے ساتھ چلے اور اس کو دھوکا دے کر مار ڈالا اور اس کا سرکاٹ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آئے مگر کسی کتاب میں یہ بات نہیں لکھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ایسا کرنے کو کہا تھا۔
سریہ قطن یا سریہ ابی سلمہ محرم سنہ ہجری
قطن۔ ایک پہاڑ کا نام ہے جو قید کی طرف واقع ہے اور قید ایک پانی کا چشمہ ہے بنی عمرو بن کلاب کے متعلق ابی سلمہ ڈیڑھ سو آدمی لے کر جس میں مہاجرین اور انصار دونوں شامل تھے طلحہ اور سلمہ پسران خویلد کی تلاش میں نکلے اور قطن پہاڑ تک تلاش کی مگر ان میں سے کوئی دستیاب نہیں ہوا اور نہ کسی سے کچھ لڑائی ہوئی۔
سریۃ الرجیع صفر سنہ ہجری
رجیع ایک چشمہ کا نام ہے جو حجاز کے کنارہ پر قوم ہذیل سے متعلق ہے۔
چند لوگ قوم عضل اور قوم غازی کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ ہم لوگوں میں اسلام پھیل گیا ہے آپ کچھ لوگ مذہب کے مسائل سکھانے کو ساتھ کر دیجئے آپ نے چھ آدمی ساتھ کردیئے جب رجیع میں پہنچے تو انھوں نے دغا بازی کی اور چھوؤں آدمیوں کو تلواروں سے گھیر لیا۔ اخیر کو یہ کہا کہ اگر تم قریش مکہ کے قبضہ میں جانا قبول کرو تو ہم تم کو مارنے کے نہیں قریش نے ہمارے آدمی قید کرلیے ہیں ان کے بدلے تم کو دے کر اپنے آدمی چھوڑا لاوینگے۔ ان چھ میں سے مرثد ابن مرثد اور خالد بن الیکروعاضم بن ثابت نے نہ مانا اور نہایت بہادری سے وہیں لڑکر شہید ہوگئے اخیر کو عاصم بھی لڑنے پر تیار ہوا اور لوگوں نے پتھروں سے مار کر ان کو بھی شہید کیا باقی دو شخصوں کو مکہ میں لے جا کر قریش کے ہاتھ بیچ ڈالا قریش نے ان کے ہاتھ پاؤں باندھے اور ان کو شہید کیا۔
سریہ بیرمعونہ صف ہجری
بیر معونہ۔ یہ ایک کنواں ہے درمیان بنی عامر اور حرہ بنی سلیم کے۔
ابو براء عامر بن مالک اگرچہ مسلمان نہیں ہوا تھا مگر مذہب اسلام کو ناپسند بھی نہیں کرتا تھا اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اگر آپ کچھ لوگ اسلام کا وعظ کرنے کو نجد کی طرف بھیجیں تو غالباً اس طرف کے لوگ اسلام قبول کرلینگے۔ حضرت نے فرمایا کہ اہل نجد سے اندیشہ ہے ابوبراء نے کہا کہ وہ ہماری حمایت میں ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چالیس شخص جو قرآن کے قاری تھے اور دن رات قرآن پڑھنا ان کا کام تھا ساتھ کردیئے۔ بیر معونہ پر یہ لوگ ٹھہرے اور حرام بن ملحان کے ہاتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط جو عامر بن طفیل نجدوالے کے نام کا تھا بھیجا اس نے عامر کو قتل کرڈالا اور بہت بڑی جماعت سے بیر معونہ پر چڑھ آیا اور سب مسلمانوں کو گھیر کر مار ڈالا صرف ایک شخص مردوں میں پڑا ہوا بچ گیا۔
غزوہ بنی نضیر ربیع الاول سنہ ہجری
بنی نضیر یہودیوں کے ایک قبلہ کا نام ہے۔
عمرو بن امیۃ الضمیری مدینہ کو آتا تھا رستہ میں دو شخص قبیلہ بنی عامر سے ملے جس قبیلہ سے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عہد تھا۔ عمرو بن امیۃ نے ان دونوں کو سوتے میں مار ڈالا۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ملی تو آپ نے فرمایا کہ میں ان دونوں کی دیت دونگا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کی دیت کے لیے بنی نضیر سے بھی مدد چاہی کیونکہ بنی نضیر اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان میں بھی معاہدہ تھا اور بنی نضیر اور بنی عامر آپس میں حلیف تھے۔ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبیلہ بنی نضیر میں دیت کے پورا کرنے میں مدد کے مانگنے کو گئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دیوار کے تلے جا بیٹھے۔ بنی نضیر نے آپ میں مشورہ کیا کہ ایسے وقت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مار ڈالا جائے اور یہ تجویز کی کہ دیوار پرچڑھ کر ایک بڑا پتھر ان پر ڈال دیا جائے اور عمرو بن جحاش اس کام کے لیے مقرر ہوا۔ اتنے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مدینہ میں چلے آئے۔ جب کہ یہ دغا بازی بنی نضیر کی محقق ہوگئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر چڑھائی کی وہ قلعہ بند ہوگئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا محاصرہ کرلیا اور یہ بات ٹھہری کہ وہ لوگ مدینہ سے چلے جائیں اور ان کے اونٹ سو اے ہتھیاروں کے جس قدر مال و اسباب اٹھاسکیں لیجاویں۔ چنانچہ انھوں نے چھ سو اونٹوں پر اپنا اسباب لادا اور اپنے مکانوں کو خود توڑ دیا اور خیبر میں جاکر آباد ہوگئے۔
غزوہ بدر موعودہ یا غزوہ بدر الاخری ذیقعدہ سنہ ہجری
ابوسفیان نے وعدہ کیا تھا کہ میں تم سے پھر لڑونگا اس وعدہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ سے کوچ کیا اور بدر میں پہنچ کر مقام فرمایا۔ ابوسفیان بھی مکہ سے نکل کر ظہران یا عسفان تک آیا مگر آگے نہیں بڑھا اور کہا کہ یہ سال قحط کا ہے اس میں لڑنا مناسب نہیں اور سب لوگوں کو لے کر مکہ کو واپس چلا گیا۔
غزوہ ذات الرقاع محرم سنہ ہجری
ذات الرقاع۔ اس غزوہ کا یا تو اس لیے نام ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے جھنڈوں میں جو پھٹ گئے تھے پیوند لگائے تھے اور بعض کا قول ہے کہ جہاں مسلمانوں کا لشکر ٹھہرا تھا وہاں ایک درخت تھا جس کا نام ذات الرقاع تھا۔
بنی محارب اور بنی ثعلبہ نے جو قبیلہ غطفان سے تھے لڑائی کے لیے کچھ لوگ جمع کئے تھے ان کے مقابلہ کے لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ کیا تھا۔ جب آپ غطفان میں پہنچے تو ایک بہت بڑا گروہ دشمنوں کا نظر آیا۔ دونوں طرف کے لوگ لڑنے کے ارادہ سے آگے بڑھے مگر لڑائی نہیں ہوئی اور ہر ایک گروہ واپس چلا گیا۔
غزوہ دومتہ الجندل ربیع الاول سنہ ہجری
دومتہ الجندل۔ ایک قلعہ کا نام ہے جو مدینہ اور دمشق کے بیچ میں ہے اور اس کے قریب ایک پانی کا چشمہ ہے۔
اس بات کا خیال ہونے پر کہ یہاں کے لوگوں نے بھی لڑائی کے لیے کچھ لوگ جمع کئے ہیں اس طرف کوچ کیا مگر اثنا سے راہ میں سے واپس تشریف لے آئے۔ غالباً اس لیے کہ اس خیال کی صحت نہ پائی گئی ہوگی۔
غزوہ بنی المصطلق یا غزوہ مریسیع شعبان سنہ ہجری
بنی المصطلق ۔ عرب کے ایک قبیلہ کا نام ہے۔
مریسیع۔ ایک چشمہ کا نام ہے جو قدید کی طرف واقع ہے۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی کہ حارث بن ابی ضرار نے لڑائی کے ارادہ پر لوگوں کو جمع کیا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مقابلہ کے لیے کوچ کیا اور مریسیع کے مقام پر دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا اور لڑائی ہوئی اور بنی المصطلق کو شکست ہوئی اور ان کی عورتیں اور بچے سب قید ہوگئے۔ اس وقت تک یہ آیت حریت ” فاما منا یعد واما فداء “ نازل نہیں ہوئی تھی۔
غزوہ خندق ذیقعدۃ سنہ ہجری
بنی نضیر کے یہودی جو جلاوطن کئے گئے تھے ان میں کے چند سردار اور بنی وائل کے چند سردار مکہ میں قریش کے پاس گئے ان کو مدینہ پر حملہ کرنے کو آمادہ کیا اور روپیہ اور سامان اور ہر طرح سے مدد دینے کا وعدہ کیا۔ قریش مکہ اس پر راضی ہوئے اور ابوسفیان کو سردار قرار دیا اور لوگوں کو جمع کیا اور قبیلہ غطفان میں پہنچے اور اس قبیلہ میں سے بھی لوگ ساتھ ہوئے اور دس ہزار آدمیوں کے لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کرنے کو روانہ ہوئے۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خبر کو سن کر مدینہ سے باہر جاکر لڑنا مناسب نہ سمجھا اور مدینہ کے گرد خندق کھود کر مورچہ بندی کی یہودی بنی قریظہ جن سے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے امن کا معاہدہ تھا انھوں نے بھی اپنا معاہدہ توڑ دیا اور دشمنوں سے مل گئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پاس لوگوں کو بھیجا اور معاہدہ یاد دلایا مگر علانیہ مخالفت کی۔
اس واقعہ سے اور بنی قریظہ کے دشمنوں کے مل جانے سے مدینہ والوں پر نہایت سخت وقت تھا اور ایک شخص کے بچنے کی بھی توقع نہ تھی غرض کہ یہ تمام لشکر مدینہ پر آپہنچا اور مدینہ کا محاصرہ کرلیا۔ ایک مہینہ تک محاصرہ رہا اور لڑائیاں ہوتی رہیں حصور مسلمان بھی خوب دل توڑ کر دشمنوں کے حملہ کو دفع کرتے تھے آخر کار دشمن غالب نہ آسکا اور محاصرہ اٹھا کر نہایت ناکامی کے ساتھ واپس چلا گیا۔
غزوہ عبداللہ ابن عتیک ذیقعدہ سنہ ہجری
جس زمانہ میں مدینہ پر چڑھائی کرنے کو تمام قومیں جمع ہورہی تھیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کے گرد خندق کھودنے میں مصروف تھے اسی زمانہ میں رافع بن عبداللہ جس کو سلام ابن ابی الحقیق کہتے تھے ایک سردار یہودی تھا وہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے قوموں کے جمع کرنے میں بہت کوشش کررہا تھا۔ عبداللہ ابن عتیک اور عبداللہ ابن انیس اور ابوقتادہ اور اسود بن خزاعی
اور مسعود بن سناوخیبر کو گئے جہاں وہ رہتا تھا اور کسی طرح رات کو اس کو خواب گاہ میں چلے گئے اور اس کو مار ڈالا۔
مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ پیغمبر خدا نے ان کو اس یہودی سردار کے قتل کو بھیجا تھا شاید ایسا ہوا ہو مگر ہم اس لیے شبہ میں ہیں کہ ایشیائی مورخوں کی عادت ہے کہ خواہ نخواہ ہر چیز کو پیغمبر سے منسوب کردیتے ہیں علاوہ اس کے یہ قصہ ایسی عجیب باتوں کے ساتھ ملا کر لکھا ہے کہ وہی باتیں اس کے سچ ہونے پر شبہ ڈالتی ہیں نہایت شبہ ہے کہ یہ واقعہ ہوا بھی یا نہیں مگر ہم کو مناسب ہے کہ جو طرف ضعیف ہے اسی کو اختیار کریں پس تسلیم کرتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے وہ گئے اور انھوں نے اس یہودی کو جو قوموں کو مدینہ پر حملہ کرنے کو جمع کررہا تھا مار ڈالا۔ مگر اس واقعہ سے ہمارے اس دعویٰ میں کہ تلوار کے زور سے اسلام قبلوانا ان لڑائیوں سے مقصود نہ تھا کچھ خلل واقع نہیں ہوتا۔