قال الم : سورۃ مريم : آیت 71
وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُہَا ۚ کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا ﴿ۚ۷۱﴾
تفسیر سرسید :
اس آیت میں جو لفظ ” وان منکم “ ہے اور اس میں جو کم کی ضمیر مخاطب ہے اس ضمیر کی خطاب میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔ جو لوگ کہ یہ کہتے ہیں کہ کل انسان خواہ وہ مسلم ہوں یا کافر مخاطب ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ سب لوگ پہلے دوزخ میں جائیں گے پھر جو مسلمان ہیں اس سے نجات پائیں گے مگر جو کہ مسلمانوں کا دوزخ میں جانا اور آیتوں سے نہیں معلوم ہوتا تھا اس لیے ایک گروہ علما نے یہ خیال کیا کہ دوزخ کی پشت پر جو پل صراط کھچا ہوا ہے اس کے اوپر سے سب لوگ گزرینگے ۔ جو کافر ہیں وہ دوزخ میں گر پڑینگے اور جو مسلمان ہیں وہ صحیح و سالم اس سے گزر جائیں گے۔
مگر یہ روایتیں ایسی ہیں جن کا کچھ نشان قرآن کے الفاظ میں نہیں پایا جاتا۔ صحیح رائے ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ” منکم “ کی ضمیر مخاطب کو صرف کفار کی طرف راجع کیا ہے اور یہ رائے قرآن مجید سے صحیح معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ اس آیت سے قبل کی آیتوں میں کفار کا اور ان پر عذاب ہونے اور ان کو دوزخ میں ڈالے جانے کا ذکر ہے اور یہ صاف قرینہ ہے کہ اس آیت میں ضمیر کم کی مخاطب بھی صرف وہی لوگ ہیں جن کا ذکر اوپر کی آیتوں میں ہے یعنی کفار نہ کہ تمام انسان۔
وان منکم الاواردھا یعنی جھنم واختلفوا فقال بعضھم المراد من تقدم ذکرہ من الکفار فکنی عنھم اولا کنایۃ الغیبۃ ثم خاطب
اس کی تفسیر کو تفسیر کبیر میں بھی بیان کیا و ہے کہ ” وان منکم الاواردھا “ کے معنی یہ ہیں کہ تم میں کوئی ایسا نہیں جو دوزخ میں نہ پہنچے ۔ پھر اس بات میں کہ اس آیت کے مخاطب کون لوگ ہیں علما نے اختلاف کیا ہے بعض علما کہتے ہیں کہ وہی کفار مخاطب ہیں خطاب المشافہۃ قالوا انہ لا یجوز المومنین ان یردوالنار ویدل علیہ امورا احدھا قولہ تعالیٰ ان الذین سبقت لھم منا الحسنیٰ اولئک عنھا مبعدون والمبعد عنھا لا یومف بانہ واردھا والثانی قولہ لا یسمعون حسیسھا ولووردوا جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے خدا نے اول ان کا ذکر کنایۃ غائب کے صیغون میں کیا ہے پھر بالمشافہ ان سے خطاب کیا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا دوزخ میں پہنچنا ممکن نہیں ہے اور اس کی تین دلیلیں ہیں اول یہ کہ خدا فرماتا ہے وہ لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے پہلے سے جھنم لسمعوا حسیسھا و ثالثھا وھم من فزع یومئذا منون (تفسیر کبیر جلد رابع صفحہ )
نیک جزا مقرر کی ہے وہ دوزخ سے دور رہیں گے اور یہ ظاہر ہے کہ جو دوزخ سے دور رہینگے ان کی نسبت نہیں کہہ سکتے کہ وہ دوزخ میں پہنچے گے دوسری دلیل یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ وہ دوزخ کی آواز نہیں سنیں گے اور اگر وہ دوزخ میں پہنچے گے تو ضرور ہے کہ وہ اس کی آواز بھی سنیں گے ۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ وہ اس دن کی گھبراہٹ سے امن میں رہینگے۔
پس کچھ شبہ نہیں ہے کہ اس آیت میں صرف کافر ہی مخاطب ہیں نہ مسلمان۔
وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُہَا ۚ کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا ﴿ۚ۷۱﴾
تفسیر سرسید :
اس آیت میں جو لفظ ” وان منکم “ ہے اور اس میں جو کم کی ضمیر مخاطب ہے اس ضمیر کی خطاب میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔ جو لوگ کہ یہ کہتے ہیں کہ کل انسان خواہ وہ مسلم ہوں یا کافر مخاطب ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ سب لوگ پہلے دوزخ میں جائیں گے پھر جو مسلمان ہیں اس سے نجات پائیں گے مگر جو کہ مسلمانوں کا دوزخ میں جانا اور آیتوں سے نہیں معلوم ہوتا تھا اس لیے ایک گروہ علما نے یہ خیال کیا کہ دوزخ کی پشت پر جو پل صراط کھچا ہوا ہے اس کے اوپر سے سب لوگ گزرینگے ۔ جو کافر ہیں وہ دوزخ میں گر پڑینگے اور جو مسلمان ہیں وہ صحیح و سالم اس سے گزر جائیں گے۔
مگر یہ روایتیں ایسی ہیں جن کا کچھ نشان قرآن کے الفاظ میں نہیں پایا جاتا۔ صحیح رائے ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ” منکم “ کی ضمیر مخاطب کو صرف کفار کی طرف راجع کیا ہے اور یہ رائے قرآن مجید سے صحیح معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ اس آیت سے قبل کی آیتوں میں کفار کا اور ان پر عذاب ہونے اور ان کو دوزخ میں ڈالے جانے کا ذکر ہے اور یہ صاف قرینہ ہے کہ اس آیت میں ضمیر کم کی مخاطب بھی صرف وہی لوگ ہیں جن کا ذکر اوپر کی آیتوں میں ہے یعنی کفار نہ کہ تمام انسان۔
وان منکم الاواردھا یعنی جھنم واختلفوا فقال بعضھم المراد من تقدم ذکرہ من الکفار فکنی عنھم اولا کنایۃ الغیبۃ ثم خاطب
اس کی تفسیر کو تفسیر کبیر میں بھی بیان کیا و ہے کہ ” وان منکم الاواردھا “ کے معنی یہ ہیں کہ تم میں کوئی ایسا نہیں جو دوزخ میں نہ پہنچے ۔ پھر اس بات میں کہ اس آیت کے مخاطب کون لوگ ہیں علما نے اختلاف کیا ہے بعض علما کہتے ہیں کہ وہی کفار مخاطب ہیں خطاب المشافہۃ قالوا انہ لا یجوز المومنین ان یردوالنار ویدل علیہ امورا احدھا قولہ تعالیٰ ان الذین سبقت لھم منا الحسنیٰ اولئک عنھا مبعدون والمبعد عنھا لا یومف بانہ واردھا والثانی قولہ لا یسمعون حسیسھا ولووردوا جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے خدا نے اول ان کا ذکر کنایۃ غائب کے صیغون میں کیا ہے پھر بالمشافہ ان سے خطاب کیا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا دوزخ میں پہنچنا ممکن نہیں ہے اور اس کی تین دلیلیں ہیں اول یہ کہ خدا فرماتا ہے وہ لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے پہلے سے جھنم لسمعوا حسیسھا و ثالثھا وھم من فزع یومئذا منون (تفسیر کبیر جلد رابع صفحہ )
نیک جزا مقرر کی ہے وہ دوزخ سے دور رہیں گے اور یہ ظاہر ہے کہ جو دوزخ سے دور رہینگے ان کی نسبت نہیں کہہ سکتے کہ وہ دوزخ میں پہنچے گے دوسری دلیل یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ وہ دوزخ کی آواز نہیں سنیں گے اور اگر وہ دوزخ میں پہنچے گے تو ضرور ہے کہ وہ اس کی آواز بھی سنیں گے ۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ وہ اس دن کی گھبراہٹ سے امن میں رہینگے۔
پس کچھ شبہ نہیں ہے کہ اس آیت میں صرف کافر ہی مخاطب ہیں نہ مسلمان۔