• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 16 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قال الم : سورۃ مريم : آیت 71

وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُہَا ۚ کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا ﴿ۚ۷۱﴾

تفسیر سرسید :

اس آیت میں جو لفظ ” وان منکم “ ہے اور اس میں جو کم کی ضمیر مخاطب ہے اس ضمیر کی خطاب میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔ جو لوگ کہ یہ کہتے ہیں کہ کل انسان خواہ وہ مسلم ہوں یا کافر مخاطب ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ سب لوگ پہلے دوزخ میں جائیں گے پھر جو مسلمان ہیں اس سے نجات پائیں گے مگر جو کہ مسلمانوں کا دوزخ میں جانا اور آیتوں سے نہیں معلوم ہوتا تھا اس لیے ایک گروہ علما نے یہ خیال کیا کہ دوزخ کی پشت پر جو پل صراط کھچا ہوا ہے اس کے اوپر سے سب لوگ گزرینگے ۔ جو کافر ہیں وہ دوزخ میں گر پڑینگے اور جو مسلمان ہیں وہ صحیح و سالم اس سے گزر جائیں گے۔
مگر یہ روایتیں ایسی ہیں جن کا کچھ نشان قرآن کے الفاظ میں نہیں پایا جاتا۔ صحیح رائے ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ” منکم “ کی ضمیر مخاطب کو صرف کفار کی طرف راجع کیا ہے اور یہ رائے قرآن مجید سے صحیح معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ اس آیت سے قبل کی آیتوں میں کفار کا اور ان پر عذاب ہونے اور ان کو دوزخ میں ڈالے جانے کا ذکر ہے اور یہ صاف قرینہ ہے کہ اس آیت میں ضمیر کم کی مخاطب بھی صرف وہی لوگ ہیں جن کا ذکر اوپر کی آیتوں میں ہے یعنی کفار نہ کہ تمام انسان۔
وان منکم الاواردھا یعنی جھنم واختلفوا فقال بعضھم المراد من تقدم ذکرہ من الکفار فکنی عنھم اولا کنایۃ الغیبۃ ثم خاطب
اس کی تفسیر کو تفسیر کبیر میں بھی بیان کیا و ہے کہ ” وان منکم الاواردھا “ کے معنی یہ ہیں کہ تم میں کوئی ایسا نہیں جو دوزخ میں نہ پہنچے ۔ پھر اس بات میں کہ اس آیت کے مخاطب کون لوگ ہیں علما نے اختلاف کیا ہے بعض علما کہتے ہیں کہ وہی کفار مخاطب ہیں خطاب المشافہۃ قالوا انہ لا یجوز المومنین ان یردوالنار ویدل علیہ امورا احدھا قولہ تعالیٰ ان الذین سبقت لھم منا الحسنیٰ اولئک عنھا مبعدون والمبعد عنھا لا یومف بانہ واردھا والثانی قولہ لا یسمعون حسیسھا ولووردوا جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے خدا نے اول ان کا ذکر کنایۃ غائب کے صیغون میں کیا ہے پھر بالمشافہ ان سے خطاب کیا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا دوزخ میں پہنچنا ممکن نہیں ہے اور اس کی تین دلیلیں ہیں اول یہ کہ خدا فرماتا ہے وہ لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے پہلے سے جھنم لسمعوا حسیسھا و ثالثھا وھم من فزع یومئذا منون (تفسیر کبیر جلد رابع صفحہ )
نیک جزا مقرر کی ہے وہ دوزخ سے دور رہیں گے اور یہ ظاہر ہے کہ جو دوزخ سے دور رہینگے ان کی نسبت نہیں کہہ سکتے کہ وہ دوزخ میں پہنچے گے دوسری دلیل یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ وہ دوزخ کی آواز نہیں سنیں گے اور اگر وہ دوزخ میں پہنچے گے تو ضرور ہے کہ وہ اس کی آواز بھی سنیں گے ۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ وہ اس دن کی گھبراہٹ سے امن میں رہینگے۔
پس کچھ شبہ نہیں ہے کہ اس آیت میں صرف کافر ہی مخاطب ہیں نہ مسلمان۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قال الم : سورۃ مريم : آیت 87

لَا یَمۡلِکُوۡنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ عَہۡدًا ﴿ۘ۸۷﴾

تفسیر سرسید :

، اس آیت میں شفاعت کا ذکر ہے مگر قبل اس کے کہ ہم اس پر بحث کریں ہم کو بتانا چاہیے کہ قرآن مجید کس کس طرح پر شفاعت کا ذکر آیا ہے۔
اول : مشرکین عرب کی نسبت وہ آیتیں ہیں جن میں شفاعت کا ذکر ہے۔ اس میں کسی کو کلام نہیں کہ کفار عرب بلکہ تمام مشرکین بت پرست اس بات کا یقین رکھتے تھے اور یقین رکھتے ہیں کہ جن معبودوں کی وہ عبادت کرتے ہیں وہ معبود خدا سے ان کی شفاعت کرینگے۔ پس ان آیتوں میں جو کافروں اور بت پرستوں کی نسبت ہیں خدا نے فرمایا ہے کہ کافر جن کی عبادت کرتے ہیں اور جن کو وہ اپنا شفیع سمجھتے ہیں وہ خدا کے پاس ان کی شفاعت نہیں کرسکنے کے۔ مذکورہ بالا آیتیں حسب تفصیل ذیل ہیں۔
یقول الذین بسوۃ من قبل قد جات رسل رینا بالحق فھل لنا من شفعاء فیشفعوا لنا۔ (اعراف )
سورة اعراف میں خدا نے فرمایا ہے کہ جن وعدوں کا خدا نے ذکر کیا ہے جب وہ آجاوینگے تو وہ لوگ جو اس سے پہلے ان کو بھول گئے ہیں کہینگے کہ بیشک ہمارے پروردگار کے سچے پیغمبر آئے تھے پھر کیا ہمارے لیے شفاعت کرنے والے ہیں کہ ہمارے لیے شفاعت کریں۔ (یعنی کوئی شفاعت کرنے والا نہیں)
فما لنا من شافعین ولا صدیق حمیم (الشعرا - )
سورة الشعرا میں فرمایا ہے کہ قیامت کے دن کافر کہیں گے کہ ہمارے لیے کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔
فما تنفعھم شفاعت الشافعین (المدثر )
سورة المدثر میں فرمایا ہے کہ کافر کہیں گے کہ ہم جھٹلائے تھے قیامت کے دن کو یہاں تک کہ ہم کو موت آگئی پھر ان کو نفع نہیں دینے کی شفاعت شفاعت کرنے والوں کی (یعنی جن کو کافر شفاعت کرنے والا سمجھتے تھے اگلی شفاعت سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا ۔ یعنی وہ ان کی شفاعت کرنے والے ہونے ہی کے نہیں)
مالکم من دونہ من ولی ولا شفیع افلاتتذکرون (سورة السجدہ)
سورة السجدہ میں کافروں سے خطاب کرکے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن کافروں کے لیے خدا کے سوا نہ کوئی ولی ہوگا نہ کوئی شفاعت کرنے والا۔
ماللظلمین من حمیم ولا شفیع بطاع (المومن )
سورة المومن میں فرمایا ہے کہ قیامت کے دن ظالموں کے لیے نہ کوئی دوست ہوگا نہ کوئی شفاعت کرنے والا جس کی بات مانی جاوے۔
ولم یکن لھم من شرکائھم شفعاء وکانوا بشر کا ئھم کافرین (روم )
سورة الروم میں فرمایا ہے کہ قیامت کے دن کافروں کے لیے ان کے معبودوں میں سے جن کو وہ خدا کا شریک ٹھہراتے تھے کوئی شفاعت کرنے والا نہ ہوگا۔
ام اتخذوا من دون اللہ شفعاء قل اولو کانوالا یملکون شیئا ولا یعقلون قل اللہ الشفاعۃ جمیعا لہ ملک السموت والارض ثم الیہ ترجعون (الزمرایت - )
سورة الزمر میں فرمایا ہے کہ کیا مکہ کے کافروں نے خدا کے سوا شفاعت کرنے والے ٹھہرائے ہیں کہہ دے (اے پیغمبر) کہ کیا وہ (یعنی جن کو شفاعت کرنے والا ٹھہرایا ہے) کیسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے اور نہ سمجھتے ہیں۔ کہہ دے اے پیغمبر کہ شفاعت تمام تر اللہ ہی کے لیے ہے اسی کے لیے ہے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی پھر اس کے پاس جاؤ گے۔
ویعبدون من دون اللہ ما لا یضرھم ولا ینفعھم ویقولون ھولاع شفاء ناعنداللہ قل اتنبون اللہ بما لا یعلم فی السموت ولا فی الارض سبحانہ و تعالیٰ عما یشرکون (یونس )
سورة یونس میں فرمایا ہے کہ کافر اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو نقصان پہنچاتے ہیں نہ ان کو نفع۔ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ ہیں ہماری شفاعت کرنے والے اللہ کے پاس کہہ دے اے پیغمبر کہ کیا تم متنبہ کرتے ہو اللہ کو اس چیز سے کہ وہ نہیں جانتا آسمانوں کی اور زمین کی پاک ہے اور اعلیٰ ہے اس سے کہ شریک مقرر کرتے ہیں۔
وما تری معکم شفعاء کم الذین زعمتم انھم فیکم شرکاء (انعام )
سورة انعام میں فرمایا ہے اور ہم نہیں دیکھتے تمہارے ساتھ تمہاری شفاعت کرنے والوں کو جن کو تم گمان کرتے تھے کہ وہ تم میں شریک ہیں۔
ا اتخذ من دون الھۃ ان یردن الرحمن بضرلاتغن عنی شفاعتھم شیئا ولا ینقذون (یسین )
سورة یسین میں خدا نے پیغمبر کی زبان سے فرمایا ہے کہ کیا میں ٹھہراؤں اللہ کے سوا کسی کو معبود اگر خدا کچھ مجھ کو نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی شفعات میرے کچھ بھی کام نہیں آسکتی۔ اور نہ اس سے مجھ کو چھڑا سکتی ہے۔
دوسری قسم کی وہ آیتیں ہیں جن میں قطعات یہ بات فرمائی ہے کہ کوئی شخص خدا کے سامنے کسی کی شفاعت نہیں کرسکتا۔ اور نہ کوئی کسی کا شفیع ہوسکتا ہے اور وہ آیتیں یہ ہیں۔
یا ایھا الذین امنوا انفقوا ممارزقنکم من قبل ان یاتی یوم لا بیع فیہ ولا خلۃ ولا شفاعۃ والکافرون ھم الظلمون (بقرہ )
سورة بقرہ میں خدا نے فرمایا ہے اے لوگو جو ایمان لائے ہو خیرات کرو اس میں سے جو دیا ہے ہم نے تم کو اس سے پہلے کہ ایک دن آوے جس میں نہ خرید فروخت ہے اور نہ دوستی اور نہ شفاعت اور کافرو ہی ہیں ظلم کرنے والے۔
لیس لھم من دونہ ولی ولا شفیع لعلھم یتقون (انعام )
سورة انعام میں خدا نے اپنے پیغمبر سے فرمایا ہے کہ تو قرآ سے ان لوگوں کو ڈرا جو ڈرتے ہیں کہ وہ جاوینگے اپنے پروردگار کے پاس ان کے لیے سوائے خدا کے نہ کوئی دوست ہے نہ شفاعت کرنے والا تاکہ وہ پرہیزگاری کریں۔
لبس لھا من دون اللہ ولی ولا شفیع (انعام)
پھر دوسری آیت میں خدا نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ تو قرآن سے ان کو نصیحت کر کہ جو کچھ جس نے کمایا ہے اس کے سبب سے وہ ہلاکت میں پڑے گا اور خدا کے سوا نہ اس کا کوئی دوست ہوگا اور نہ شفاعت کرنے والا واتقوا یوما لا تجزی نفس عن نفس شیئا ولا یقبل منھا عدل ولا تنفعھا شفاعۃ ولا ھم ینصرون (بقرہ )
سورة بقرہ میں فرمایا ہے اور ڈرو اس دن سے کہ نہیں پورا کرنے کا کوئی کسی سے کچھ اور ان سے قبول کیا جاویگا بدلا اور نہ فائدہ دے گی ان کو شفاعت اور نہ وہ مدد کئے جاوینگے۔
من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ (سورة البقرہ )
سورة البقر میں خدا نے فرمایا ہے کہ وہ کون ہے جو شفاعت کرے اس کے پاس (یعنی اللہ کے پاس) مگر اس کے حکم سے۔
یعلم مابین ایدیھم وما خلفھم ولا یشفعون الا لمن ارتضی وھو من خشیۃ مشفقون (سورة الانبیا - )
سورة انبیاء میں فرمایا ہے کہ خدا جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ شفاعت نہیں کرتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہے اور وہ اس کے ڈر سے دہلنے والے ہیں۔
ما من شفیع الامن بعد اذنہ (سورة یونس)
سورة یونس میں فرمایا ہے۔ نہیں ہے کوئی شفاعت کرنے والا مگر اس کے اذن کے بعد۔
یومئذ لا تنفع الشفاعۃ الا من اذن لہ الرحمن ورضی لہ قولہ (سورة طہ )
سورة طہ میں فرمایا ہے اس دن شفاعت فائدہ نہیں دینے کی مگر اس کو جس کے لیے خدا نے اذن دیا ہے اور اس کی بات کو پسند کیا ہے۔
ولا تنفع الشفاعۃ عندہ الا لمن اذن لہ (سورة السبا )
سورة سبا میں فرمایا ہے اور فائدہ نہیں دیتی شفاعت اس کے پاس مگر واسطے اس شخص کے کہ اذان دیا گیا ہو اس کے لئے۔
وکم من ملک فی السموات لا تغنی شفاعتھم شیئا الا من بعد ان یاذن اللہ لمن یشاء ویرضی (سورة النجم - )
سورة النجم میں فرمایا ہے اور کتنے فرشتے ہیں آسمانوں میں کہ ان کی شفاعت تم کو کچھ فائدہ نہیں دیتی مگر بعد اس کے کہ اذن دیوے اللہ جس کے لیے چاہے اور پسند کرے۔
ولا یملک الذین یدون من دونہ الشفاعۃ الا من شھد بالحق وھم یعلمون (سورة الزخرف)
سورة الزخرف میں فرمایا ہے جو لوگ کہ عبادت کرتے ہیں اللہ کے سوا وہ مالک نہیں ہیں شفاعت کے مگر وہ شخص جس نے سچ کی گواہی دی اور وہ جانتے ہیں۔
لا یملکون الشفاعۃ الا من اتخذ عندالرحمن عھدا (سورة مریم)
سورة مریم میں فرمایا ہے اور نہیں مالک ہیں شفاعت کے مگر وہ شخص جس نے اللہ سے عہد لیا ہے۔
پہلی قسم کی جو آیتیں ہیں ان سے زیادہ بحث کرنے کی کچھ ضرورت نہیں کیونکہ کافر یہ یقین کرتے تھے کہ ان کے معبود خدا سے ان کی سفارش کرکے ان کے گناہ بخشوا دینگے۔ خدا نے کہا کہ قیامت میں ان کے لیے کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہوگا۔ یعنی ان کا یہ خیال کہ ان کے معبود شفاعت کروالینگے غلط ہے۔
دوسری قسم کی آیتیں بھی ہمارے نزدیک بالکل سیدھی اور صاف ہیں جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ خدا کے سامنے کوئی کسی کی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔ کیونکہ ہر ایک شخص اپنے اعمال کی موافق جزا اور سزا پاویگا۔ پس وہاں نہ کسی کی شفاعت چلتی ہے اور نہ کوئی کسی کی شفاعت کرسکتا ہے۔
مگر تیسری قسم کی آیتیں بحث کے قابل ہیں۔ جن میں الاحرف استثنا کا اور لفظ اذن کا آیا ہے اور اس سبب سے بعض اکابر شفاعت بالاذن کے قائل ہوئے ہیں۔ یعنی خدا جس شخص کی شفاعت کرنے کی اجازت دے گا اسی کی شفاعت کی جاوے گی۔ اور جس کے لیے خدا کا اذن نہ ہوگا اس کی شفاعت نہیں کی جاوے گی۔
مسلمانوں میں ایک عام خیال ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) قیامت کے دن اپنی امت کے گنہگاروں کی شفاعت کرکے ان کو بخشوالیں گے۔ پھر اس خیال کو بہت وسعت ہوگئی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ پیر اپنے مریدوں کی اور نیک بندے اپنے دوستوں اور معتقدوں کی اور حافظ اپنی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی شفاعت کرکے ان کو بخشوالیں گے۔ اور ایک ایک کی شفاعت سے معلوم نہیں کتنے کتنے گناہ گار بخشے جاوینگے۔ ان خیالات کی بنیاد کچھ ہی ہو اس مقام پر اس سے بحث کرنی ضروری نہیں ہے۔ یہاں صرف اس بات پر بحث کرنی ہے کہ ان آیتوں سے جو تیسری قسم میں مندرج ہیں نسبت شفاعت کے کیا نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔
شفاعت کا مطلب اگر یہی خیال کیا جاوے جو عام لوگوں کا ہے تو یہ مشکل پیش آتی ہے کہ سورة انعام میں خدا نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن خدا کے سوا نہ کوئی دوست ہوگا نہ شفاعت کرنے والا اور اس کا فائدہ یہ بتایا ہے کہ ” لعلھم یتقون “ یعنی تاکہ لوگ پرہیزگاری کریں یعنی کوئی کسی کا شفیع نہیں ہے اس لیے ان کو چاہیے کہ نیک اعمال کریں ۔ پس اگر لوگوں کو یہ یقین ہو کہ انبیاء اور اولیا قیامت کے دن شفاعت کرکے ان کے گناہ بخشوالینگے تو جو فائدہ خدا نے کسی کی شفیع نہ ہونے کا بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ قیامت کے دن خدا کے سوا نہ کوئی دوست ہے نہ شفاعت کرنے والا وہ باطل ہوجاتا ہے۔ اور اس لیے ضروری ہے کہ ان آیتوں پر جو تیسری قسم میں داخل کی گئی ہیں کافی غور کی جاوے۔
شفاعت کے معنی اگر یہ قرار دیئے جاویں کہ کوئی شخص کسی اعلیٰ حاکم سے کسی کی نسبت یہ چاہے کہ اس کی تقصیروں کو معاف کیا جاوے اور اس پر رحم اور مہربانی ہو تو شفاعت کے لیے تین وجودوں کا ہونا لازم آتا ہے۔ ایک اس شخص کا جو گناہ گار ہے۔ دوسرے اس شخص کا جو شفاعت کرے۔ تیسرے اس کا جس سے شفاعت کی جاوے۔ مگر متعدد جگہ خدا نے شفاعت کو اپنے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ اور اس سے صرف دو وجودوں کا ہونا لازم آتا ہے۔
ایک خدا کا اور ایک اس شخص کا جو گناہ گار ہے۔ خدا نے سورة الزمر میں صاف بیان کیا ہے کہ قل للہ الشفاعۃ جمیعا۔ یعنی اے پیغمبر کہہ دے کہ شفاعت تمام تر اللہ ہی کے لیے ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود خدا ہی اپنے گناہ گار بندوں کا شفیع ہے۔
علاوہ اس کے خدا نے سورة السجدہ میں کافروں کی نسبت فرمایا ہے مالک من دونہ من ولی ولا شفیع۔
اور سورة یسین میں فرمایا ہے کہ ا اتخذ من دونہ آلۃ۔ اور سورة انعام میں فرمایا ہے کہ لیس لھم من دونہ ولی ولا شفیع۔ اور ایک جگہ فرمایا ہے لیس لہا من دون المدولی ولا شفیع۔ جس سے پایا جاتا ہے کہ کافروں کو چاہیے تھا کہ خدا کو ولی اور شفیع گردانتے نہ خدا کے سوا اور کسی کو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ولی اور شفیع خدا ہے نہ اور کوئی۔
لفظ ” دون “ کے بعد جب کوئی امرثبت اور محقق بیان کیا جاتا ہے تو اس سے یہی مراد ہوتی ہے کہ جو فعل اس شخص کے ساتھ کیا گیا ہے جو لفظ ” دون “ سے مراد ہے وہ فعل اس کے ساتھ نہ کرنا چاہیے تھا۔ بلکہ اس کے ساتھ کرنا چاہیے تھا جو لفظ ” دون “ کے بعد ہے جیسا کہ خدا نے کہا ہے کہ یعبدون من دون اللہ پس جو فعل کہ اللہ کے سوا اور کسی کے ساتھ کیا گیا تھا وہ کرنا نہیں چاہیے تھا۔ بلکہ اللہ کے ساتھ کرنا چاہیے تھا۔ اور جیسا کہ خدا نے فرمایا ہے الذین یتخذون الکافرین اولیاء من دون المومنین۔ پس ظاہر ہے کہ جو دوستی کہ کافروں کے ساتھ کی گئی تھی وہ قبیح اور ناجائز تھی۔ بلکہ وہ دوستی مسلمانوں کے ساتھ کرنی چاہیے تھی۔ پس مذکورہ بالا آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شفاعت کا خیال غیر خدا کے ساتھ ناواجب تھا اور خدا کے ساتھ لازم تھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ ولی اللہ شفیع اللہ الہ۔ پس شفاعت خدا کے ساتھ مخصوص ہے اور وہی شفیع ہے نہ کوئی غیر۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ جہاں کہیں خدا نے شفاعت کو اپنی طرف منسوب کیا ہے جیسی کہ ” قل للمدا الشفاعۃ جمیعا “ یہ اس سبب سے کیا ہے کہ بغیر اس کے اذن کے کوئی شفاعت نہیں کرسکنے کا پس گویا حقیقت میں شفیع خدا ہی ہے جس کے اذن کے بغیر شفاعت نہیں ہوسکتی۔
مگر اس توجیہ کا تسلیم کرنا ان آیتوں کی مراد پر منحصر ہے جن میں اذن کا لفظ واقع ہوا ہے اگر ان آیتوں میں شفاعت کے اذن دینے سے مرادنہ ہو تو یہ توجیہ صحیح نہیں ہوسکتی اور اس لیے ہم ان آیتوں سے بحث کرتے ہیں۔ جن میں اذن کا لفظ آیا ہے۔
پانچ آیتیں ہیں جن میں الاباذنہ کا لفظ آیا ہے ایک سورة بقر کی جہاں خدا نے فرمایا ہے ” من ذالذی شفع عندہ الا باذنہ “ دوسری سورة یونس میں جہاں خدا نے فرمایا ہے ” مامن شفیع الا بعداذنہ “ تیسری سورة طہ میں جہاں خدا نے فرمایا ہے ” یومئذ لا تنفع الشفاعۃ الا من اذن لہ الرحمن ورضی لہ قولا “۔ چوتھی سورة سبا میں جہاں خدا نے فرمایا ہے ” ولا تنفع الشفاعۃ عندہ الا لمن اذن لہ “ پانچویں سورة نجم میں جہاں خدا نے فرمایا ہے ” لا تغنی شفاعتھم شیئا الا من بعد ان باذن اللہ لمن یشاء ویرضی “
سورة بقر اور سورة انعام کی جو آیتیں ہم نے قسم دوم میں لکھی ہیں ان میں بلا کسی شرط اور بلا کسی استثنا کے خدا نے فرمادیا ہے کہ قیامت کے دن کوئی کسی کا شفیع نہیں ہونے کا اور نہ کوئی کسی کا ولی اور مددگار۔ پساب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ ان آیتوں میں جن میں لفظ ” الاباذنہ “ واقع ہے درحقیقت اس سے شفاعت کے اذن کا دیا جانا مراد ہے یا نہیں۔
ہمارے نزدیک شفاعت کے اذن کا دیا جانا مراد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ قرآن مجید میں جس جگہ کسی امر کا ہونا یا نہ ہونا قطعی طور پر بیان کیا گیا ہے اور پھر اس سے اپنی مشیت یا ارادہ یا قدرت کو خدا نے مستثنیٰ کیا ہے تو اس استثنا سے صرف اپنی قدرت کاملہ اور مشیت اور ارادہ کا اظہہار مقصود ہوتا ہے نہ اس امر کے واقع ہونے کا جو بعد حرف استثنا کے واقع ہوا ہے۔ پس ان آیتوں میں الا باذنہ یا باذن اللہ کا لفظ جو آیا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ خدا قیامت میں کسی کو یا کسی کے لیے شفاعت کرنے کی اجازت بھی دے گا اور خدا نے قرآن مجید میں شفاعت کی جو عام طور پر نفی کی ہے اس استثنا سے اس میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اور ہمارے نزدیک ایسی آیتوں میں کلمہ الا باذنہ الا باذن اللہ بطور کلمہ تائید کے ہوتا ہے جس سے اس امر کا ہونا یا نہ ہونا قطعی ہوجاتا ہے جس سے خدا نے اپنے اذن کو مستثنا کیا ہے۔
قد افترینا علے اللہ کذبا ان عدنا فی ملتکم بعد اذنجینا اللہ منھا وما یکون لنا ان تعود فیھا الا ان یشاء اللہ (سورة اعراف)
اس کی مثال لفظ الاان یشاء اللہ سے بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے۔ سورة اعراف میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے قصہ میں خدا نے فرمایا ہے کہ اس گاؤں کے سرداروں نے جہاں شعیب رہتے تھے حضرت شعیب سے اور جو لوگ کہ ایمان لائے تھے ان سے کہا کہ ہم تم کو گانوں سے نکالینگے یا ہمارے مذہب میں آجاؤ۔ تو حضرت شعیب نے کھا کہ اگر تمہارے مذہب میں پھر آؤں بعد اس کے کہ خدا نے مجھ کو اس سے نجات دی ہے تو میں نے بیشک خدا کے اوپر جھوٹ باندھا ہوگا۔ اور ہمارے لیے نہیں ہے کہ ہم اس کی مثال اس میں پھر جاویں مگر یہ کہ خدا چاہے۔
اس آیت کا یہ مقصد نہیں ہے کہ حضرت شعیب کا دوبارہ کفر میں داخل ہوناخدا چاہے گا بلکہ خدا حضرت شعیب پیغمبر کا پہر کفر میں داخل ہونا ہرگز نہیں چاہنے کا۔ پس کلمہ استثنا کے بعد جو بیان ہے وہ بطور تائید کلام اول کے ہے اور اس کا وقوع کسی طرح مقصود نہیں ہے۔ اور یہی حال ان آیتوں کا ہے جن میں لفظ الا باذنہ کا آیا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا کسی کو شفاعت کرنے کی یا کسی کے لیے شفاعت کرنے کی اجازت نہیں دینے کا علاوہ اس کے یہ کلمے بطور تبعید یا تعلیق المحال بالمحال کے بولے جاتے ہیں اور اس کی مثال یہ ہے کہ خدا نے قرآن مجید میں جابجا مشرک کی نجات نہ ہونے کو صاف صاف بیان فرمادیا ہے اور ایک آیت میں جہاں فرمایا ہے حتے یلج الجمل فی سم الخیاط ان کی نجات کو اس شرط کے ساتھ معلق کیا ہے کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہوسکے اور ایسا ہونا محال ہے۔ پس مشرک کی نجات کی جو عام طور پر قرآن میں نفی کی گئی ہے اس تعلیق سے اس میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ بلکہ مشرک کی نجات کا ناممکن ہونا اور بھی واضح ہوگیا ہے۔
اس کی اور بہت سی مثالیں ہیں۔ مثلاً کوئی کہے کہ میں یہ کام نہیں کرنے کا جب تک کہ تارکول سفید اور کالا کو بوڑھا نہ ہوجائے ۔ یعنی جب تک کالے کوے کے سفید بال نہ نکل آئیں۔
پس ان آیتوں میں بھی شفاعت کر باذتہ سے مشروط کرنا تعلیق المحال بالمحال ہے کیونکہ اور آیتوں میں شفاعت کی مطلقاً نفی کی گئی ہے جس سے کسی کو شفاعت کا اذن دیا جانا محال معلوم ہوتا ہے یہاں شفاعت کو اسی اذن کے ساتھ معلق اور مشروط کیا ہے جس کا حاصل ہونا محال ہے۔ پس اس تعلیق سے شفاعت کی مطلق نفی میں کوئی فرق نہیں آتا جو پہلے بیان ہوچکی ہے بلکہ شفاعت کا ناممکن اور محال ہونا زیادہ واضح ہوجاتا ہے۔ بہرحال ان آیتوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قیامت میں خدا کسی کو شفاعت کرنے کا یا کسی کے لیے شفاعت کرنے کا اذن دے گا ۔ بلکہ سیاق قرآن سے یہی پایا جانا ہے کہ اجازت نہیں دینے کا۔
دو آیتیں اور ہیں جن میں اذن کا لفظ نہیں ہے مگر حرف استثنا آیا ہے۔ پہلی آیت سورة الزخرف کی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے۔ ولا جلک الذین یدعون من دونہ الشفاعۃ الا من شھد بالحق وھم یعلمون اور دوسری آیت سورة مریم کی ہے جس کی ہم تفسیر لکھتے ہیں اس آیت میں خدا نے فرمایا ہے لا یملکون الشفاعۃ الا من اتخذ عندالرحمن عھدا۔ یہ دونوں آیتیں ایک سی ہیں۔ پہلی آیت میں فرمایا ہے کہ جو لوگ خدا کے سوا اوروں سے شفاعت چاہتے ہیں ان میں سے کوئی شفاعت کا مالک نہیں ہے۔ بجز اس کے جس نے سچ بات یعنی اسلام پر اقرار کیا۔ اور دوسری آیت میں ہے کہ سوائے ان کے جنہوں نے خدا سے عہد کیا ہے یعنی اس کی وحدانیت کا اقرار کیا ہے کوئی مالک شفاعت کا نہیں ہوگا۔
شفاعت کے مالک ہونے سے شفاعت کا حق یا استحقاق حاصل ہونا مراد ہے جو سوائے مسلمان کے اور کسی کو حاصل نہیں ہے۔ شفاعت کا حاصل ہے کسی کے گناہوں سے درگزر کرنا اور جب شفاعت خدا کی طرف منسوب کی جاتی ہے تو اس کے معنی مغفرت کے رہے جاتے ہیں اور مجازاً اس کا استعمال بمعنی مغفرت ولایت (ولی ہونا) اور نصرت کے ہوتا ہے۔ جیسے کہ خدا نے فرمایا ہے۔۔ من دونہ ولی ولا شفیع۔ اور دوسری جگہ فرمایا ہے لا تنفعھا شفاعۃ ولاھم ینصرون (ان آیتوں میں لفظ ولی اور ینصرون گویا تفصیل ہے شفاعت کی پس خدا کی شفاعت اس کی مغفرت ہے اور خدا کا شفیع ہونا اس کا غفور اور) غفار ہونا ہے۔ اس مطلب کو نہایت صاف طور پر خدا نے بیان کیا ہے جہاں فرمایا ہے۔
ان اللہ لا یغفران یشرک بہ ویغ فرمادون ذالک لمن یشآء۔ ولا شک ان محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شفیعنا وشفیع جمیع المسلمین لانہ (علیہ السلام) ھدانا الی صراط مستقیم موصل الی الشفاعۃ والرحمۃ والغفران من عنداللہ فھو شفیع لنا بالتحقیق فی یوم الدین یوم لابیع فیہ ولا خلۃ ولا شفاعۃ۔ ھوالمستعان
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قال الم : سورۃ طه : آیت 55

مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ وَ فِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ وَ مِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی ﴿۵۵﴾

تفسیر سرسید :

حیوانات مختلف عنصرون سے مل کر بنے ہیں مگر وہ تین قسم کے خیال کئے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو زمین پر رہتے ہیں۔ دوسرے وہ جو پانی میں رہتے ہیں۔ تیسرے وہ جو ہوا میں اوڑتے ہیں۔ زمین پر رہنے والوں کی نسبت کہا جاتا ہے کہ زمین سے پیدا ہوئے اور پانی میں رہنے والوں کی نسبت کہا جاتا ہے کہ پانی سے پیدا ہوئی۔ اور ہوا میں ڈرانے والوں کی نسبت کہا جاتا ہے کہ ہوا سے پیدا ہوئے اسی سے یہ مقصد نہیں ہے کہ صرف مٹی یا پانی یا ہوا سے پیدا کئے گئے ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
قال الم : سورۃ طه : آیت 58

فَلَنَاۡتِیَنَّکَ بِسِحۡرٍ مِّثۡلِہٖ فَاجۡعَلۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکَ مَوۡعِدًا لَّا نُخۡلِفُہٗ نَحۡنُ وَ لَاۤ اَنۡتَ مَکَانًا سُوًی ﴿۵۸﴾

تفسیر سرسید :

مکانا سوی نصفا بیننا وبینک ان قراء بضھم السین تفسیر ابن عباس فاضرب : ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب برو ترجمہ مولوی رفیع الدین صاحب مار۔ ترجمہ شاہ عبداللہ القادر صاحف ڈال دے۔ تفسیر ابن عباس فاضرب لھم بینلھم عبور موسیٰ اور غرق فرعون کی نسبت ہم پوری بحث اپنی تفسیروں کی جلد اول صفحہ لغایت میں کرچکے ہیں۔
 
Top