صفحہ131
pg131تمہاری مالی حالت کے بھی مطابق ہو۔ یعنی کم سے کم حق الخدمت تو وہ ہو جو اس زمانہ کے حالات کے مطابق گزارہ کے لئے کافی ہو۔ لیکن اگر ہو سکے تو اس سے زیادہ دو۔اس حکم کے ذریعہ سے قرآن کریم نے حق الخدمت کا ایک ایسا زریں اصل بتا دیا ہے کہ اگر اس کے مطابق حق الخدمت مقرر کیا جائے تو مزدو راور مالک کے جھگڑوں کا بالکل خاتمہ ہو جاتا ہے۔ مگر اس مضمون کو تفصیل سے آیت مذکورہ بالا اور اس کے ہم معنے آیات کے ماتحت بیان کیا جائے گا۔
(۹) نویں قسم خرچ کی قرآن کریم سے۔ اداء احسان کی ثابت ہوتی ہے۔ جیسے مثلاً والدین کی خدمت کا حکم ہے۔ یہ سلوک نہ تو حق الحدمت کہلا سکتا ہے کیونکہ والدین خدمت نہییں کرتے بلکہ ایک طبعی جوش سے بچے کی پرورش کرتے ہیں اور بچہ ان کو اس کام پر مقرر نہیں کرتا نہ کوئی اور انسان انہیں مقرر کرتا ہے اور نہ انہیں کسی بدلہ کی متنا ہوتی ہے۔ پس والدین کا سلوک بچے سے خدمت نہیں ہے بلکہ احسان ہے۔ اور اگر بڑا ہو کر کوئی بچہ اپنے والدین کی خدمت کرتاہے تو وہ ان کا حق الخدمت ادا نہیں کرتا۔ بلکہ اُن کے احسان کا بدلہ اتارنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی والدین کی نسبت فرماتا ہے وَوَصَّیْنَا الْاِنسانَ بِوَالِدَیْہِ (لقمان ع ۲) یعنی ہم نے ہر انسان کو اپنے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ پھر اسی جگہ آگے چل کر فرماتا ہے اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَ الِدَیْکَ یعنی ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ ہمارا بھی شکر کر اور اپنے والدین کا بھی۔ شکر کے لفظ سے یہ بتایا ہے کہ والدین کے ساتھ جو سلوک کر اس خیال سے نہ کر کہ میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں بلکہ احسان تو انہو ںنے تجھ پر کیا ہے۔ تو تو جو نیک معاملہ ان سے کرے گا وہ اظہار شکراور اقرار احسان کے طور پر ہو گا۔
قرآن کریم میں بعض جگہ والدین سے سلوک کا نام احسان بھی آیا ہے۔ جیسا کہ مثلاً اسی سورۃ میں یعنی سورۃ بقررہ میں فرماتا ہی وَبِالْوَ الِدَیْنِ اِحْسَانًا (ع ۱۰) یعنی والدین سے احسان کا سلوک کر۔ اس سے یہ دھوکا نہ کھانا چاہیئے کہ والدین سے سلوک بھی احسان کے معروف معنوں میں کیا جاسکتا ہے۔ اس آیت میں احسان کا لفظ عام معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک اور معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
عربی زبان کا محاورہ ہے کہ کسی امر کے بدلہ کے لئے بھی وہی لفظ استعمال کر دیا جاتا ہے۔ جیسے مثلاً ظلم کے بدلہ کا نام ظلم رکھ دیا جاتا ہے اور اس سے مراد ظلم نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے معنے ظلم کے بدلہ کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس آیت میں اور دوسری آیات میں جہاں والدین کے لئے احسان کا لفظ آیا ہے اس کے معنے احسان کے بدلہ کے ہیں۔ لیکن ان کے سوا دوسرے لوگوں کی نسبت اس لفظ کا استعمال اپنے معروف معنوں میں ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اور الفاظ بھی اس محاورہ کے مطابق استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً اسی سورۂ بقرہ میں فرمایا ہے فَمَنِ اعْتَدیٰ عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْمِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (بقرہ ع ۲۴) یعنی جو تم پر ظلم کرے اس پر اسی قدر ظلم کر سکتے ہو۔ اب یہ امر ظاہر ہے کہ ظلم کا اسی قدر بدلہ ظلم نہیں کہلا سکتا۔ پس بدلہ لینے والے کے لئے جو اعتداء کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کے معنے محض بدلہ کے ہیں نہ کہ ظلم کے اسی طرح احسان کرنے والے کے حق میں جب احسان کرنے کرنے کے الفاظ استعمال کئے جائیں تو اس کے معنے بدلہ احسان کے ہوتے ہیں نہ کہ احسان کے۔
اسی اداء احسان کے حکم کے نیچے اپنے اُستادوں اور دوسرے محسنوں یا ان کی اولادوں سے حسن سلوک بھی آ جاتا ہے۔ اور اس حکم کے ماتحت سب سے بڑے انسانی محسن آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کا بدلہ بھی آ جاتا ہے۔ جو صحابہ کرام درود اور دعائوں اور خدمت کے ذریعہ سے ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ میرے نزیک رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو جو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کی اولاد کے لئے صدقہ جائز نہیں ت واس میں یہی حکمت تھی کہ کہ امت اسلامیہ کو بتایا جائے کہ اس محسن عظیم کی اولاد سے جو سلوک کیا جائے وہ صدقہ ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ تو اس محسن کے احسان کا بدلہ اتارنے کی ایک ادنیٰ کوشش ہو گی۔
مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان اس مسئلہ کو خاش زور سے بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ایسے بے نفس