• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر کبیر قادیانی خلیفہ زانی مرزا بشیر الدین محمود جلد نمبر1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ131

pg131تمہاری مالی حالت کے بھی مطابق ہو۔ یعنی کم سے کم حق الخدمت تو وہ ہو جو اس زمانہ کے حالات کے مطابق گزارہ کے لئے کافی ہو۔ لیکن اگر ہو سکے تو اس سے زیادہ دو۔
اس حکم کے ذریعہ سے قرآن کریم نے حق الخدمت کا ایک ایسا زریں اصل بتا دیا ہے کہ اگر اس کے مطابق حق الخدمت مقرر کیا جائے تو مزدو راور مالک کے جھگڑوں کا بالکل خاتمہ ہو جاتا ہے۔ مگر اس مضمون کو تفصیل سے آیت مذکورہ بالا اور اس کے ہم معنے آیات کے ماتحت بیان کیا جائے گا۔
(۹) نویں قسم خرچ کی قرآن کریم سے۔ اداء احسان کی ثابت ہوتی ہے۔ جیسے مثلاً والدین کی خدمت کا حکم ہے۔ یہ سلوک نہ تو حق الحدمت کہلا سکتا ہے کیونکہ والدین خدمت نہییں کرتے بلکہ ایک طبعی جوش سے بچے کی پرورش کرتے ہیں اور بچہ ان کو اس کام پر مقرر نہیں کرتا نہ کوئی اور انسان انہیں مقرر کرتا ہے اور نہ انہیں کسی بدلہ کی متنا ہوتی ہے۔ پس والدین کا سلوک بچے سے خدمت نہیں ہے بلکہ احسان ہے۔ اور اگر بڑا ہو کر کوئی بچہ اپنے والدین کی خدمت کرتاہے تو وہ ان کا حق الخدمت ادا نہیں کرتا۔ بلکہ اُن کے احسان کا بدلہ اتارنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی والدین کی نسبت فرماتا ہے وَوَصَّیْنَا الْاِنسانَ بِوَالِدَیْہِ (لقمان ع ۲) یعنی ہم نے ہر انسان کو اپنے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ پھر اسی جگہ آگے چل کر فرماتا ہے اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَ الِدَیْکَ یعنی ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ ہمارا بھی شکر کر اور اپنے والدین کا بھی۔ شکر کے لفظ سے یہ بتایا ہے کہ والدین کے ساتھ جو سلوک کر اس خیال سے نہ کر کہ میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں بلکہ احسان تو انہو ںنے تجھ پر کیا ہے۔ تو تو جو نیک معاملہ ان سے کرے گا وہ اظہار شکراور اقرار احسان کے طور پر ہو گا۔
قرآن کریم میں بعض جگہ والدین سے سلوک کا نام احسان بھی آیا ہے۔ جیسا کہ مثلاً اسی سورۃ میں یعنی سورۃ بقررہ میں فرماتا ہی وَبِالْوَ الِدَیْنِ اِحْسَانًا (ع ۱۰) یعنی والدین سے احسان کا سلوک کر۔ اس سے یہ دھوکا نہ کھانا چاہیئے کہ والدین سے سلوک بھی احسان کے معروف معنوں میں کیا جاسکتا ہے۔ اس آیت میں احسان کا لفظ عام معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک اور معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
عربی زبان کا محاورہ ہے کہ کسی امر کے بدلہ کے لئے بھی وہی لفظ استعمال کر دیا جاتا ہے۔ جیسے مثلاً ظلم کے بدلہ کا نام ظلم رکھ دیا جاتا ہے اور اس سے مراد ظلم نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے معنے ظلم کے بدلہ کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس آیت میں اور دوسری آیات میں جہاں والدین کے لئے احسان کا لفظ آیا ہے اس کے معنے احسان کے بدلہ کے ہیں۔ لیکن ان کے سوا دوسرے لوگوں کی نسبت اس لفظ کا استعمال اپنے معروف معنوں میں ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اور الفاظ بھی اس محاورہ کے مطابق استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً اسی سورۂ بقرہ میں فرمایا ہے فَمَنِ اعْتَدیٰ عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْمِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (بقرہ ع ۲۴) یعنی جو تم پر ظلم کرے اس پر اسی قدر ظلم کر سکتے ہو۔ اب یہ امر ظاہر ہے کہ ظلم کا اسی قدر بدلہ ظلم نہیں کہلا سکتا۔ پس بدلہ لینے والے کے لئے جو اعتداء کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کے معنے محض بدلہ کے ہیں نہ کہ ظلم کے اسی طرح احسان کرنے والے کے حق میں جب احسان کرنے کرنے کے الفاظ استعمال کئے جائیں تو اس کے معنے بدلہ احسان کے ہوتے ہیں نہ کہ احسان کے۔
اسی اداء احسان کے حکم کے نیچے اپنے اُستادوں اور دوسرے محسنوں یا ان کی اولادوں سے حسن سلوک بھی آ جاتا ہے۔ اور اس حکم کے ماتحت سب سے بڑے انسانی محسن آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کا بدلہ بھی آ جاتا ہے۔ جو صحابہ کرام درود اور دعائوں اور خدمت کے ذریعہ سے ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ میرے نزیک رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو جو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کی اولاد کے لئے صدقہ جائز نہیں ت واس میں یہی حکمت تھی کہ کہ امت اسلامیہ کو بتایا جائے کہ اس محسن عظیم کی اولاد سے جو سلوک کیا جائے وہ صدقہ ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ تو اس محسن کے احسان کا بدلہ اتارنے کی ایک ادنیٰ کوشش ہو گی۔
مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان اس مسئلہ کو خاش زور سے بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ایسے بے نفس
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ132

تھے کہ آپؐ نے اپنی اولاد کے لئے صدقہ کو حرام کر دیا۔ او راُنہیں یہ خیال نہیں آتا کہ آپؐ ایسے بے نفس تھے تو مسلمان ایسے نفس کے بندے کیو ںہو گئے ہیں کہ آپؐ کے احسان کا بدلہ اتارنے کی ادنیٰ کوشش بھی نہیں کرتے۔ محسن کسی بدلہ کا خیال نہیں کرتا۔ مگر کیا جس پر احسان کیا جائے اس کی شرافت نفس اس کا تقاضا نہیں کرتی کہ وہ محسن کے احسان کا شکریہ عمل سے ادا کرے۔ میرے نزدیک اس حکم سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانو ںکو یہ ادب سکھایا تھا کہ اگر حضرت رسالتمآب کی اولاد میں سے کوئی غریب ہو تو وُہ اس کے ساتھ حضور کے احسان کی یاد میں سلوک کریں۔ کیونکہ آپ کی اولاد کے ساتھ صدقہ کا معالہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ کیا اپنے بھائیون جیسا نہیں ہونا چاہیئے؟ افسوس کہ اس حکمت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمان دو حکموں میں سے ایک کو توڑنے لگ گئے ہیں۔ یا تو وہ سادات پر صدقہ اور زکوٰۃ خرچ کرنے لگ گئے ہیں یا اُن کی خدمت سے بالکل محروم ہو گئے ہیں۔
مجھ پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ میں نے دیر سے اس نکتہ کو سمجھا ہے اور مجھے کئی دفعہ اس امر کی توفیق ملی ہے کہ غرباء سادات کی خدمت کروں۔ نہ اس خیال سے کہ میں اُن پر صدقہ کر رہا ہوں بلکہ اس خیال سے کہ اُن سے حسنِ سلوک اس احسان عظیم کے اقرار کی جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ہم پر کئے ہیں ایک ادنیٰ کوشش ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔ کاش مسلمان اس نکتہ کو سمجھیں اور سادات کو صدقہ دینے یا ان کی مشکلات کو بالکل نظر انداز کرنے کے دو قبیح جرموں سے محفوظ ہو جائیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو شاید اللہ تعالیٰ بھی ان کی اولاد دوں پر رحم فرمائے۔
(۱۰) دسویں قسم جو قرآن کریم سے خرچ کی ثابت ہے وہ ہدیہ ہے۔ یعنی بغیر کسی سابق احسان یا صدقہ کے خیال کے ایک دوسرے کو موقعہ مناسب پر ہدیہ دیا جائے تاکہ آپس میں محبت بڑھے۔ اس کا بہترین موقعہ تو وہ ضیافت ہے جو ایک شخص دوسرے کی کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اس کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام دو نبیوں کے ذکروں میں آتا ہے۔ ضیافت صرف ایک صورت ہدیہ کی ہے ورنہ اور مناسب مواقع بھی اس حکم کے عمل کے نکل سکتے ہیں۔ افسوس مسلمانوں نے اس حکم کو بھی بھلا دیا ہے۔ اور مسافروں کی مہمان نوازی شاذو نادر کے طو رپر رہ گئی ہے بلکہ شہروں کے باشندے تو اس سے قریباً محروم ہی گئے ہیں۔ حالانکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ سلمنے اس کی اس قدر تاکید کی ہے کہ ضیافت کو ایک حق قرار دے دیا اور فرمایا کہ اگر کسی بستی کے باشندے ضیافت کا حق وصول کیا جا سکتا ہے۔ اس حق کی تمام تفصیلات بیان کرنے کا یہ موقع نہیں۔ یہاں اس قدر بیان کر دینا کافی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اس حق کی تشریح میں فرماتے ہیں تَھَا دَوْا تَحَابَّوْا (ابن عساکر بن ابی ہریرہ بحوالہ جامع الصغیر) یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اس سے محبت میں ترقی ہوتی ہے۔ اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا مجھے جبریل علیہ السلام نے ہمسایوں سے نیک سلوک کی اس قدر تاکیدکی کی میں نے سمجھا کہ اُسے وارث مقرر کر دیا جائے گا۔ (ترمذی جلد دوم ابواب البر والصلۃ باب ماجاء فی حق الجوار)
یہ خرچ صدقہ کی اقسام سے نہیں ہے بلکہ اخوت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور تمدن کی ترقی کے لئے نہایت ضروری احکام میں سے ہے۔
خلاصہ یہ کہ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میں صرف صدقہ کا ذکر نہیں بلکہ اُوپر کے بیان کرو سب قسم کے اخراجات اس میں شامل ہیں۔ اور غریب امیر، بڑے چھوٹے سب کے بارہ میں اس میں نہایت لطیف احکام بیان ہوئے ہیں۔ اور تقویٰ کے قیام کے لئے یہ ایک ضروری امر ہے۔
آیت کے مضامین پر مجموعی نظر:
اِس آیت میں تین احکام بیان ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو ان صداقتوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے جو انسانی نظر سے پوشیدہ ہیں۔ او ربتایا ہے کہ صرف محسوسات پر ایمان رکھنا کوئی خوبی نہیں۔ کیونکہ ان کو تو ہر بیوقوف سے بیوقوف
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ133

بھی مانتا ہے متقی کا مقام اس سے بالا ہے اور وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ ان صداقتوں پر بھی ایمان لائے جو ظاہر نظر سے پوشیدہ ہوتی ہیں اور یہی روحانیت کے کمال کی علامت ہے ورنہ دریا کو دریا سمجھنا او رپہاڑکو پہاڑ جاننا کوئی خوبی نہیں ہے دریا کو دریا ماننے والا عالم اور کامل نہیں کہلا سکتا۔ بلکہ وہ شخص عالم سمجھا جاتا ہے جو اس دریا کے پیچھے نظر کرتا ہے۔ اور یہ تحقیق کرتا ہے کہ دریا کہاں سے آیا ہے کس طرح بنا ہے، کن طبعی تغیرات کے نتیجہ میں اس کو پانی حاصل ہوا ہے۔ اور اس پر بھی غور کرتا ہے کہ دریا سے اس وقت کیا کیا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، اور یہ کہ وہ کدھر کو جاتا ہے او رکہاں گرتا ہے۔ غرض ایک دریا کو دیکھنے والے جاہل اور عالم میں یہی فرق ہے کہ جاہل صرف حاضر کو جانتا ہے اور عالم اس کے غائب حصہ کو بھی جانتا ہے۔ اور اسی کے جاننے سے وہ اس سے علمی اور عملی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ یہی حال روحانیات کے متعلق ایک عالم با عمل یا دوسرے لفظو ںمیں ایک متقی کا ہوتا ہے۔ وہ بھی اس دنیا کے بارہ میں صرف اس پر قناعت نہیں کرتا جو اس کی آنکھوں کے سامنے ہے بلکہ اس کے مبداء اور متھٰی کی تحقیق بھی کرتا ہے اور اس کے مخفی خزانوں کو بھی تلاش کرتا ہے اور اسی کا نام ایمان بالغیب ہے۔ اور یہ ظاہرہے کہ سوائے اس قسم کی تحقیق کے نہ علم کامل ہو سکتا ہے نہ عمل۔ پس ایمان بالغیب انسانی تکمیل کا ایک ایسا ضروری جزو ہے کہ اسے نظر اندار کر دینا صرف ایک جاہل کا کام ہو سکتا ہے۔
اس اہم اور ضروری امر پر زور دینے کے بعد اس کے لازمی نتائج کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اول یہ کہ جب انسان اس عالم کے مبداء پر غور کرتا ہے اور اسکے پیدا کرنے والے وجود کو دلائل سے معلوم کر لیتا ہے تو اس کے ساتھ شدید تعلق پیدا کرنے کی طرف بھی توجہ کرتا ہے اور اسی کا نام دوسرے لفظوں میں عبادت یا اقامتِ صلوۃ ہے۔ پھر جب اس کا روحانی تعلق اس مبداو کل سے ہو جاتا ہے تو لازماً اسے اس کے متعلقین او رمتوصلین کی طرف بھی توجہ ہوتی ہے او ران کی بہتری کے لئے کوشش کرنے لگتا ہے۔ کیونکہ مبداء کل سے تعلق پیدا ہو جانے کے بعد اس کی مخلوق کی محبت بھی اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے جس طرح کہ ماں باپ سے تعلق کے نتیجہ میں بھائیوں کی محبت پر بھی انسان مجبور ہو جاتا ہے۔ پس عبادت اور اقامتِ صلوٰۃ کے بعد متقی کا دوسرا کام وَمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ بتایا۔
اوپر کی تشریح سے ظاہ رہے کہ اس آیت میں ایمان بالغیب کے بعد اِقاَمَۃ الصَّلٰوۃ اور اس کے بعد َمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ کا رکھنا ایک اتفاقی امر نہیں۔ بلکہ ایک پُر حکمت ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہے۔
اس جگہ ایک اور نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے او روہ یہ ہے کہ اِقاَمَۃ الصَّلٰوۃ کو اس جگہ پہلے رکھا گیا ہے اور َمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ کو بعد میں رکھا گیا ہے۔ اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ رُوحانی عالم میں خدا تعالیٰ سے تعلق مخلوق سے تعلق پر مقدم ہے اور یہی طبعی اور درست ترتیب ہے۔ کیونکہ بغیر اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق کے مخلوق سے کامل محبت ہو ہی نہیں سکتی۔
اس معاملہ میں اسلام اور فلسفیوں کے خیالات میں اختلاف ہے۔ فلسفی کہتے ہیں اور بعض مذہب سے نامکمل تعلق رکھنے والے بھی ان کی تائید کرتے ہیں کہ جب مخلوق سے تعلق ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سے خود بخود ہی تعلق ہو جاتا ہے۔ اور اُن کے نزدیک جو شخص مخلوق سے تعلق کو درست کر لے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے بھی آپ ہی آپ درست ہو جاتا ہے۔ پس اصل چیز جس کی طرف توجہ چاہیئے وہ مخلوق سے تعلق ہے۔ مگر ایک ادنی تامل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ بات بالبداہ، باطل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق سے نیک سلوک خدا تعالیٰ کی عباد ت کا حصہ ہے لیکن یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ یہ امر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حصہ ہے لیکن یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ یہ امر اللہ تعالیٰ سے تعلق کا موجب ہو سکتا ہے۔ بلکہ حق یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق مخلوق سے محبت کا موجب ہوات ہے او رجو لوگ اس کے الٹ خیال کرتے ہیں وہ اس امر کو نہیں دیکھتے کہ مشاہدہ کس امر کی تائید کرتا ہے۔ اگر وہ یہ دیکھتے کہ جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق سے محبت کی ہے وہ کس پایہ کے تھے اور جو لوگ مخلوق سے محبت کر کے خدا تعالیٰ کو
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ134

پانے کے مدعی ہیں وہ اگر کہیں پائے جاتے ہیں تو کس پایہ کے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق سے محبت کرنے والوں میں سے حضرت ابراہیم‘ حضرت موسی‘ حضرت عیسی‘ حضرت کرشن‘ حضرت رام چندر اور حضرت زردشت ہیں اور میرے نزدیک حضرت بدھ اور حضرت کنفیوشس علیہم السلام بھی اور سب کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم۔ ان سب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ انہو ںنے جس رنگ میں اور جس شان کی بنی نوع انسان اور باقی مخلوق کی خدمت کی ہے اس کی مثال دوسرے لوگوں میں کہاں پائی جاتی ہے؟ کوئی ایک شخص بھی جس نے مخلوق سے محبت کر کے خدا تعالیٰ کو پایا ہو ان کے مقابل پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔اور ان کے مقابل پر ٹھہر نہیں سکتا۔ اور حق یہ ہے کہ تاریخ ایسے وجود کو پیش ہی نہیں کرتی۔ جس کا یہ دعویٰ ہو کہ اس نے پہلے مخلوق سے محبتکی او رپھر خدا تعالیٰ کو پایا۔ لیکن ایسے ہزاروں لاکھوں آدمی دنیا میں گزرے ہیں کہ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو پایا اور اس کی محبت سے سرشار ہو کر اس کی مخلوق کی محبت کو حاصل کیا۔ پس جبکہ مشاہدہ اس امر پر شاہد ہے کہ خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق کی محبت کرنے والے تو ہزاروں لاکھو ںوجود دنیا میں گزرے ہیں لیکن مخلوق کی محبت کر کے خدا تعالیٰ کو پانے والے کسی ایک وجود کا بھی پتہ نہیں ملتا۔ تو ایسی بے دلیل بات کے پیش کرنے کا فائدہ کیا۔
دوسرا پہلو اس سوال کا عقلی پہلو ہے۔ اگر اس پہلو سے غور کیا جائے تب بھی یہ دعویٰ کہ پہلے مخلوق کی محبت ہو تو اس سے خدا تعالیٰ آپ ہی مل جاتا ہے‘ درست ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہ عقلی طور پر مخلوق کی محبت سے خدا تعالیٰ کے وجود کامل جانا ناممکن اور غیر معقول نظر آتا ہے۔ کیونکہ مخلوق کی محبت کی وجہ یا تو حب وطن ہو سکتی ہے یا طبیعت کی نرمی۔ اور ظاہر ہے کہ حب وطن کی وجہ سے جو بنی نوع انسان سے محبت کرتا ہے وہ وطنی تقاضا کے ماتحت ان دوسرے انسانوں سے جو اس کے وطنی نہیں ہیں دشمنی بھی کر سکتا ہے۔ اور اسے خدا تعالیٰ تک پہنچانے والا کوئی بھی موجب موجود نہیں بلکہ اس سے دور لے جانے والے موجبات پیدا ہوتے رہیں گے اور وہ بجائے خالق کی طرف جانے کے سیاسیات میں الجھ کر رہ جائے گا۔ اور اگر اس کا موجب طبعی نرمی ہو تب بھی ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کی طر ف ھھیرنے والا موجب کوئی موجود نہیں۔ کیونکہ ایسا شخص کسی عقلی سبب سے مخلوق سے حسن سلوک نہیں کرتا بلکہ محض طبعی نرمی کی وجہ سے ایسا کام کرتا ہے۔ اس لئے اس کی عقل اُسے کسی دوسرے راستہ کی طرف راہنمائی ہی نہیں کرتی اور نہ کر سکتی ہے۔
بعض لوگ اس موقعہ پر کہا کرتے ہیں کہ حب وطن نہیں بلکہ حب انسانیت انسان کو بنی نوع سے حسن سلوک کی طرف راغب کرتی ہے اور ایسا انسان یقینا سیاسیات سے بالا رہتا ہے لیکن یہ دعویٰ بھی بلا دلیل ہے۔ کیونکہ ہر فعل کا کوئی طبعی محرک ہوتا ہے اور اُسی کے مطابق اس کے خیالات کی رو دوسری اطراف کی طرف پھرتی ہے۔ پس اس صورت میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ انسانیت کی محبت کی وجہ سے بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرنے والے شخص کے لئے محرک کیا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اگ راس کے افعال کا محرک خدا تعالیٰ کی محبت نہیں توپھر اس کے لئے محرک یہی خیال ہو سکتا ہے کہ چونکہ باقی انسان بھی میری طرح کے انسان ہیں اس لئے بوجہ ہم جنس ہونے کے مجھے اُن سے محبت کرنی چاہیئے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص دوسرے انسانوں سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ وہ اُسی کی طرح کے انسان ہیں وہ در حقیقت اپنے آپ سے محبت کرتا ہے اور اس کی اپنی ذات کی محبت اُسے کسی اپنے سے بالا وجود کی طرف توجہ نہیں دلا سکتی۔ او راس کا خاتمہ بھی اسی حالت میں ہو گا جس حالت پر کہ اس کی ابتداء ہوئی ہے اور وہ محض حب انسانیت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف راہنمائی حاصل نہیں کر سکتا۔
اب صر ف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ جو شخص مخلوق سے محبت کرے اُسے خدا تعالیٰ اس کے نیک فعل کی وجہ سے اپنی طرف کھینچ لے۔ مگر یہ حالت غیر طبعی ہے کیونکہ یہ صورت اسی شخص کے حق میں پوری ہو سکتی ہے جو خدا تعالیٰ کا علم نہ رکھتے ہوئے مخلوق سے کامل محبت کرے۔ کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کو عقلی طور پر علوم کر لیتا ہے او رپھر اس کی طرف سے منہ موڑ کر مخلوق کی خدمت پر
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ135

کفایت کرتا ہے وہ تو ایک زبردست سچائی کا منکر ہے او رہدایت پانے کا مستحق نہیں۔ ہاں صرف وہ شخص اس حالت میں ہدایت پانے کا مستحق ہو سکتا ہے جسے خدا تعالیٰ کا علم حاصل نہیں ہوا لیکن اس نے اپنے فطری قویٰ کو صحیح طور پر استعمال کیا اور گو صانع کا وجود اس کی نگہ سے پوشیدہ رہا مگر اس نے اس قدر حصہ سے جو اسے نظر آتا تھا (یعنی مخلوق) اپنے تعلق کو مضبوط کر لیا۔ ایسا شخص بے شک باوجود مخلوق سے پہلے تعلق پیدا کرنے کے صانع کی طرف ہدایت پانے کا مستحق ہے۔ کیونکہ جس قدر حصہ پر عمل کرنااس کے لئے اس کے علم کے مطابق ممکن تھا اس نے اس پر عمل کر لیا اور اس قسم کی استثنائی حالتو ںمیں مخلوق کو پا کر خالق کو پالینے کے ہم بھی منکر نہیں۔ نہ قرآن کریم اس کے خلاف ہے۔ بلکہ قرآنکریم سے صاف ظاہر ہے کہ جو ان سامانوں سے فائدہ اٹھاتا ہے جو اُسے میسر ہیں خدا تعالیٰ اُسے ان دوسرے سامانوں کی طرف ہدایت کرتا ہے جو اُسے میسر نہ تھے۔ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی شہادت بھی اسے ثابت کرتی ہے۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! مجھے ایمان تو اب نصیب ہوا ہے مگر ایمان سے پہلے بھی میں بنی نوع انسان سے نیک سلوک کیا کرتا تھا کیا میرے ان اعمال کا بھی مجھے کوئی صلہ ملے گا یا مجھے اب اپنی گزری ہوئی عمر کے اعمال کی تلافی کرنی چاہیئے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَسْلَمْتَ عَلٰی مَا اَسْلَفْتَ (مسلم کتاب الایماب باب بیان حکم عمل الکافر اذا اسلم بعدہ) یعنی تمہارے وہ عمل ضائع نہیں ہوئے بلکہ تم کو جو اسلام کی صداقت کے قبول کرنے کی توفیق ملی ہے یہ انہی اعمال کی وجہ سے ہے۔ گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ اعمال جو خدا تعالیٰ کا علم ہونے سے پہلے تم نے کئے گو خدا تعالیٰ کی رضاء جوئی کے لئے نہیں کئے مگر چونکہ اس میں تمہارا قصور نہ تھا خدا تعالیٰ نے ان کو بھی قبول کر لیا اور مخلوق سے نیکی نے تم کو خدا تعالیٰ کے عرفان اور اس پر ایمان کی طرف راہنمائی کی۔ لیکن اس جگہ سوال یہ نہیں کہ عدمِ علم کی صورت میں بطورِ استثناء انسان سے کیا سلوک کیا جا سکتا ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ اگر شخص کو خدا تعالیٰ کے وجود کا علم ہو جائے تو پھر وہ اس سے تعلق پیدا کرکے اپنے نفس کی اصلاح میں جلدی کرے یا وہ اس سے منہ موڑ کر مخلوق کی خدمت میں لگ جائے اور اقرار کرے کہ میں تواس ذریعہ سے خدا تعالیٰ کو پائوں گا۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقلمند اس امر کی تائید کرے گا۔ کہ خدا تعالیٰ کا علم ہو جانے کے بعد بھی انسان کو اس سے منہ موڑ لینا چاہیئے اور مخلوق کی خدمت میں لگ جانا چاہیئے کہ یہی طبعی راستہ خدا تعالیٰ کی طرف سے منہ موڑ لینا ہدایت پانے کا موجب نہ ہو گا بلکہ ہدایت سے دُور جانے کا موجب ہو گا۔
خلاصہ یہ کہ مخلوق کی خدمت کر کے خدا تعالیٰ کو پانا ایک استثنائی صورت ہے۔ اور عدم علم کی صورت میں ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق کی محبت کا پیدا ہونا ایک طبعی راستہ ہے کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کو پا کر اس کی عبادت میں لگ جائے گا وہ لازماً اس کی مخلوق سے بھی محبت کرے گا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کو پا لینے کے معنے یہ ہیں کہ اس کی صفات کا کامل علم اُسے ہو جائے اور جو شخص خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت عالمین اور صفت رحمانیت اور صفت رحیمیت اور صفت مالکیت یوم الدین کو معلوم کر لے گا وہ طبعاً اس کے بندوں سے اسی رنگ میں سلوک کرے گا جس رنگ میں کہ اس کا رب ان بندو ںسے سلوک کرتا ہے ورنہ وہ اس کے نقش کو اپنے دل میں پیدا نہیں کر سکتا۔ پس خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے اس کے بندوں سے حسن سلوک کرنا ایک لازمی امر ہے اور خدا تعالیٰ کے تعلق کا ایک نشان ہے اور اسی طبعی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن کریم نے اِقاَمَۃ الصَّلٰوۃ کو َمِمَّا رَزَقُنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ سے پہلے رکھا ہے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ136

؎ حل لغات

یُؤْمِنُوْنَ:۔کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۴؎
اُنْزِلَ:۔ اَنْزَلَ سے ماضی مجہول کا صیغہ ہے اور اَنْزَلَ اللّٰہُ الْکَلَامَ کے معنے ہیںاَوْحَیٰ بِہِ۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کلام کو بذریعہ وحی نازل فرمایا (اقرب) پس وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ کے معنے ہوں گے اور وہ لوگ جو اس کلام پر جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے ایمان لاتے ہیں۔
اَلْاٰخِرَۃ:۔ اَلْاٰخِرُ کا مونث ہے اور اَلْاُ وْلٰی کے مقابل پر بولا جاتا ہے اور صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے (اقرب) یہاں پر اس کا موصوف محذوف ہے معینی یہ ہوں گے کہ آئندہ آنے والی، آئندہ ہونے والی۔
یُوْقِنُوْنَ:۔ اَیْقَنَسے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اَیْقَنَ الْاَمْرَ وَاَیْقَنَ بِہِ کے معنے ہیں عَلِمَہُ وَتَحَقَّقَہٗ۔ یعنی کسی بات کو معلوم کیا اور اس کی پوری تحقیق کرتے ہوئے اپنے شک و شبہ کو دور کر لیا۔ اور اَیْقِیْنَ (جو اَیْقَنَ کا مصدر ہے) کے معنے ہیں اِزَاحَۃُ الشَّکِّ وَتَحقِیْقُ الْاَمْرِ۔اپنے شک کو دور کر لینا اور کسی معاملہ کی پوری تحقیق کر کے حقیقت پر قائم ہو جانا۔ (اقرب)
تفسیر۔ اس آیت میں متقیو ںکی تین اور صفات بیان کی گئی ہیں اور اس آیت کی پہلی اور گزشتہ آیت کو ملا کر چوتھی علامت متقی کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان فرمائی ہے کہ جو کلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے متقی اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس صفت کے بیان کے بیان کرنے میں یہ حکمت ہے کہ انسان کے لئے صرف نیک نیتی کافی نہیں ہوتی بلکہ صحیح طریق عمل کا اختیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ صر ف نیک نیتی اسی حالت میں کام آتی ہے۔ صرف نیک نیتی اسی حالت میں کام آتی ہے جبکہ صحیح طریق عمل کا معلوم کرنا اس کے لئے ناممکن ہو۔ لیکن جب صحیح ۔طریق عمل کا معلوم کرنا ممکن ہو تو نیک نیتی کا عذر نہ صرف یہ کہ غیر مقبول ہوتا ہے بلکہ غیر معقول بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص کی نیت نیک بھی ہو اور وہ پھر بھی صحیح طریق عمل کو نظر انداز کر دے اور اس کے معلوم کرنے سے اعراض کرے۔ نیک نیت تو وہی ہوتا ہے جو اپنی نیت کے مطابق عمل بھی کرتا ہے۔ لیکن جو شخص باوجود استطاعت کے صحیح طریق عمل کو چھوڑ دیتا ہے یا اُسے معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتا وہ ت واپنے عمل سے اپنے دعویٰ کو باطل کرتا ہے اور اپنی بدنیتی پر آپ شاہد ہوتا ہے۔
چونکہ روحانی عالم میں صحیح طریق عمل دہی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا جائے اس لئے وہی شحص نیک نیت کہلائے گا کہ جو اس طریق کو معلوم کرنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ اور چونکہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعشت کے بعد وہی صحیح طریق عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ پر ظاہر کیا ہے۔ اس لئے وہی شخص روحانی مقاصد کو پا سکتا ہے جو آپؐ پر نازل ہونے والے کلام پر ایمان لائے۔ پس چوتھی صفت متقی کی یہ بیان کی گئی کہ وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے کلام پر ایمان لاتا ہو۔ کیونکہ جو شخص اس کلام پر ایمان نہیں لاتا جو اس کے زمانہ کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہو وہ ہدایت کی جزئیات سے نہ باخبر ہو سکتا ہے او رنہ اُن پر عمل کر سکتا ہے۔ او رظاہر ہے کہ جو کسی مقصد کے حصول کی تمام جزئیات سے واقف نہیں ہو اس مقصد کے حصول کی تمام جزئیات سے واقف نہیں وہ اس مقصد کو پا بھی نہیں سکتا۔ جو شخص کسی زبان کا عالم بننا چاہے اسے اس زبان کے الفاظ اور الفاظ کی صحیح بندش کے طریق اور اس میں خیالات کے اظہار کے مناسب طریق کو بھی سیکھنا ہو گا ورنہ اس زبان کا ماہر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح تقویٰ کی تکمیل کے لئے یہ ضروری ہے کہ تقویٰ کی جزئیات کے بھی انسان واقف ہو۔ جو ان سے واقف نہ ہو گا اس کے خیالات اور عمل بسا اوقات تقویٰ کے خلاف ہوں گے اور بجائے تقویٰ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ137

میں ترقی کرنے کے وہ آہستہ آہستہ اس اجمالی تقویٰ کو بھی کھو بیٹھے گا جو اُسے نیک نیتی کی وجہ سے حاصل تھا کیونکہ خالی نیت انسان کو صحیح اعمال پر قادر نہیں کر سکتی۔ کوئی شخص کتنا ہی مضبوط ارادہ رکھا ہو کہ وہ صحیح زبان بولے گا لیکن اگر اُسے اس زبان کے الفاظ کا علم نہیں‘ اس کی بندشوں کا علم نہیں تو محض ارادہ سے وہ صحیح (زبان نہیں بول سکتا۔ پس اس جملہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اجمالی تقویٰ کے حاصل ہونے کے بعد متقی اس کی تفصیلات کو معلوم کر کے اس کے مطابق عمل کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور چونکہ اس زمانہ میں تقویٰ کی تفصیلات وہی ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ سے ظاہر کی گئی ہیں اس لئے تقویٰ کے تفصیلی حصہ کو کامل کرنے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانا بھی ضرویر ہے۔
بعض لوگ اس آیت اور ایسی ہی بعض دوسری آیات سے یہ دھوکا کھاتے ہیں کہ قرآن کریم پر ایمان لانے کا حکم ہے نہ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ۔ اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کو تسلیم کرنے کی نہ ضرورت ہے‘ نہ یہ جائز ہے بلکہ شرک ہے۔ یہ فرقہ چند سال سے ہندوستان میں پیدا ہوا ہے اور اصل میں خوارج کی ایک شاخ ہے کیونکہ خوارج میں بھی اصل جذبہ یہی کار فرما تھا کہ اَلْحُکْمُ لِلّٰہِ وَالْاَمْرُ شُوْریٰ بَیْنَہُمْ یعنی حکم صرف خدا تعالیٰ کا ہے اس کے بع دجن امو رمیں کسی فیصلہ کی ضرورت ہو اس کا فیصلہ مسلمان اپنے مشورہ اور اتفاق سے کریں گے۔
ان لوگوں کو یہ دھوکا قرآن کریم کے مضامین پر غور نہ کرنے سے لگا ہے۔ ان کے اس وہم کی بنیاد اس پر ہے کہ چونکہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ متعدد آیات میں بیان ہوا ہے کہ وہ مکمل کتاب ہے اس لئے اور کسی شخص کی ہدایت یا تشریح کی کیا ضرورت ہے اس بنیاد میں غلو کر کے جہاں جہاں رسول پر ایمان لانے یا اس کی اطاعت کرنے کا حکم قرآن کریم میں آتا ہے اس کے معنے وہ قرآن کریم کے لیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہاں رسول سے مراد قرآن کریم ہے۔ یہ لوگ اس امر پر غور نہیں کرتے کہ قرآن کریم میں کتب سماویہ کے نزول کا ذکر دو طرح آتا ہے ایک تو رسول کی طرف نسبت دے کر دوسرے اس کتاب کے ساتھ وابستہ گروہ سے نسبت دے کر۔ مثلاً قرآن کریم کی نسبت یہ الفاظ بھی ہیں کہ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ اور یہ بھی ہیں کہ وَھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ اِلَیْکُمْ الْکِتٰبَ مُفَصَّلاً (انعام ع ۱۴) یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے تم پر ایک کامل اور مفصل کتاب اتاری ہے غور کے قابل بات ہے کہ آخر یہ فرق قرآن کریم نے کیوں کیا ہے۔ کسی جگہ تو فرماتا ہے کہ یہ کتاب تم پر نازل ہوئی ہے اور کسی جگہ فرماتا ہے کہ یہ کتاب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اگر دوسرے لوگوں کی طرف کتاب نازل ہوئی ہے اگر دوسرے لوگوں کی طرف کتاب نازل ہونے کی نسبت اس غرض سے کی گئی ہے کہ وہ کتاب اُن کے لئے نازل کی گئی ہے تو پھر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی صرف یہی کہا جاتا کہ جو کتاب تم پر نازل ہوئی ہے اس پر ایمان لائو۔ لیکن قرآن کریم نہ ایک جگہ بلکہ متواتر اس نسبتِ نزول کا ذکر کرتا ہے اور اس شخص کو پیش کرتاہے جس پر وہ کلام نازل ہوا ہے اور یہ طریق بیان اس کا آنحضرت علیہ السلام کی نسبت ہی نہیں بلکہ تمام سابق انبیاء کی نسبت بھی ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں بھی وہ یہ فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتَابَ (بقرہ ع ۲۱۱) یعنی ہم نے موسیٰ کو ضرور کتاب دی تھی اور پھر ساتھ یہ بھی فرماتا ہے وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ (آل عمران ع ۲۰) یعنی اہل کتاب میں سے وُہ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اس پر بھی جو اے مسلمانوں تم پر نازل ہوا ہے اور اس پر بھی جو ان اہل کتاب پر نازل ہوا ہے۔ ان دو قسم کی نسبتوں سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں قوم پر نزول کتاب کا ذکر کیا گیا ہے وہاں اس امر پر زور دینا مطلوب ہے کہ اس قوم اور اس کتاب کے حالات بالکل متناسب ہیں اور اس قوم کے لئے اس کتاب پر عمل کئے بغیر کوئی چارہ نہیں اور جہاں رسول پر کتاب نازل ہونے کا ذکر ہے وہاں اس مناسبت
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ138

کی طرف اشارہ ہے جو اس رسول کی فطرۃ کو اس کتاب سے حاصل ہے اور صر ف کتاب کا ذکر ہی مطلوب نہیں۔ ملکہ یہ بتانا بھی مطلوب ہے کہ اس کتاب کی عملی تفسیر اور زندہ نمونہ اس کے وجود میں موجود ہے جس پر وہ کتاب نازل ہوئی ہے اگر یہ نہ ہوتا تو کسی جگہ اُنُزِلَ اِلَیْکُمْ اور کسی جگہ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ یا ٰاتَیْنَا مُوْسٰی کہہ کر دو مختلف نسبتوں کی طرف اشارہ نہ کیا جاتا بلکہ صرف یہ کہہ دیا جاتا کہ قرآنکریم پر ایمان لائو یا تو رات پر ایمان لائو جب کسی کتاب کا نام رکھ دیا جائے تو اس کا ذکر لمبے چوڑے جملوں سے عبث اور فضول ہو جاتا ہے اگر اس کی کلام حکیم میں کتاب کے نام کو چھوڑکر اور الفاظ میں اس کتاب کا ذکر کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ اس طریق بیان میں کوئی زائد فائدہ مدنظر رکھا گیا ہے اور وہ فائدہ آیت زیر بحث میں یہی مدنظر ہے کہ کتاب کو منزل الیہ وجود کی طرف نسبت دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کتاب ہادی ہے بلکہ وہ وجود بھی ہادی ہے جس پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے چنانچہ اس اشارہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دوسری جگہ واضح الفاظ میں بھی بیان فرما دیا ہے ۔ فرماتا ہے وَ اِذَا جَآئَ تْھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُوتٰی مِثْلَ مَا اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ۔ اللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ (انعام ع ۱۵) یعنی جب کفار کو نبیوں کے الہام کے ذریعہ سے کوئی نشان دکھایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جب تک اسی طرح ہم پر کلام نازل نہ ہو جس طرح ان مدعیانِ نوبت پر نازل ہوا ہے ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے کہ اس کا کلام کس پر نازل ہو اور کس پر نازل نہ ہو۔ پس جس کو وہ اس کلام کے نزول کے مناسب حال سمجھتا ہے اسی کے ذریعہ کلام بھجواتا ہے۔ یہ آیت واضح طور پر اس امر کو ثابت کر دیتی ہے کہ کلام الٰہی محض ایک ہر کارہ کے ذریعہ سے نہیں بھیجا جاتا بلکہ وُہ ایک ایسے شخص کے ذریعہ سے بھجوایا جاتا ہے جو اس کا صحیح مفہوم لوگوں کو بتا سکے اور اس کا مطلب سمجھا سکے۔ اگر صرف الفاظ پہنچائے مطلوب ہوتے تو ہر نبی کی قوم میں اچھے اچھے ادیب موجود تھے ان کے ذریعہ سے وہ کلام پہنچایا جا سکتا تھا۔ مشہور ادیبوں اور شاعروں کو چھوڑ کر بالعموم اُمّیوں اور ظاہر بینوں کی نگاہ میں کم علم لوگوں کی معرفت اس کلام کو بھجوانے کے تویہی معنے ہیں کہ اس کلام کا مطلب بیان کرنے کی کلام لانپے والے سے امید کی جاتی ہے اور دوسروں کی نسبت اس کلام کی باریکیوں کو سمجھنے کا اُسے زیادہ اہل سمجھا جاتا ہے اور نہ صرف الفاظِ کتاب اُسے دئے جاتے ہیں بلکہ فہم کلام بھی اُسے عطا کیا جاتا ہے کہ کیونکہ اس کی فطرت اس کلام کے مفہوم کے مطابق اور مناسب ہوتی ہے اور جب یہ حقیقت ہو تو پھر یہ کہناکہ جب کلام موجود ہے تو کلام لانے والے میں اور ہم میںکیا فرق ہے ہم کلام پر ایمان لائیں گے اور اس کا مطلب خود سمجھیں گے کس قدر عقل کے خلاف ہے اور بالکل اسی قسم کا قول ہے جیسے کفار نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے بات ہی کرنی تھی تو ہم سے کیوں نہ کر دی درمیان میں ایک واسطہ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی کیا ہم اس کی بات کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ نہ خدا تعالیٰ نے ان کفار کے اعتراض کو درست سمجھا نہ یہ مومن کہلانے والے اپنے دعویٰ میں سچے ہیں۔ اور سچ یہی ہے کہ کلام الٰہی پر ایمان لانے میں کلام الٰہی لانے والے پر ایمان لانا اور اس کی تشریح کو قبول اور تسلیم کرنا بھی شامل ہے کیونکہ کلام الٰہی لفظی کلام ہوتا ہے اور کلام الٰہی لانے والا اس کا جسمانی نمونہ۔ اور اُسے اسی لئے منتخب کیا جاتا ہے تا وہ اپنے عمل سے اس کا نمونہ پیش کرے اور اپنے کلام سے اس کی تفسیر بیان کرے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اسی تشریح کو قبول کیا جائے جو اُس تک یقینی طور پر پہنچی ہو نہ یہ کہ ہر رطب و یا بس جو کسی جھوٹے راوی نے اپنے سے پہلے چند معروف لوگوں کی طرف منسوب کرتے ہوئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دی۔
چونکہ اس آیت سے بھی اس مضمون کا تعلق ہے اس جگہ اختصاراً اسے بیان کر دیا گیا ہے مفصل بحث اس کی ان آیات کے ماتحت آئے گی جو زیادہ وضاحت سے اس مضمون کی طرف اشارہ کرتی ہیں یا جن آیات سے مذکورہ بالا فاسد عقیدہ کے لوگ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ139

استدلال کرتے ہیں۔
اس جگہ ایک اور مضمون بھی وضاحت طلب ہے اور وُہ کلام کے اتارنے کا محاورہ ہے عام طو رپر جب اسلامی تعلیم سے ناواقف لوگ کلام الٰہی کے اترنے کا محاورہ قرآن کریم میں پڑھتے ہیں تو خیال کر لیتے ہیں کہ شائد یہ کلام خدا تعالیٰ نے لکھ کر فرشتوں کو دیا اور وہ اسے آسمان پر سے زمین پر لائے اور رسول کے ہاتھ میں دے دیا۔ بلکہ غیر مذہب والوں کو کیا کہنا ہے خود مسلمانوں میں سے ایک بڑا طبقہ تعلیم اسلام سے ناواقفی کی وجہ سے اب یہی سمجھنے لگ گیا ہے کہ شائد کوئی چیز آسمان پر سے زمین پر مادی طو رپر اترتی ہے اور رسول کو ملتی ہے۔ لیکن یہ عقیدہ کئی غلطیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے (۱) ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ آسمان سے کیا مراد ہے (۲) انہوں نے غور نہیںکیا کہ فرشتے کیا ہیں اور ان کے اعمال کس طرح ظاہر ہوتے ہیں۔ (۳) انہوں نے یہ غور نہیں کیاکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کس ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں (۴) انہوں نے غور نہیںکیا کہ نزول کے کیا معنے ہیں۔ ان چار امور پر غور نہ کرنے کے سبب سے ان کو مذکورہ بالا غلط عقیدہ میں مبتلا ہونا پڑا ہے۔
اوّل سوال یہ ہے کہ کیا نزول کے یہ معنے ہیں کہ کلام الٰہی آسمان سے مادی طور پر نازل ہوتا ہے جیسا کہ عوام مسلمانوں میں اور اُن سے سن سنا کر دوسرے مذاہب کے لوگوں میں پھیلا ہوا ہے۔ چنانچہ سیل مترجم قرآن انگریزی نے اپنے ترجمہ کے دیباچہ کے باب ۳ میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام قرآن کریم ایک جدل میں جبریل فرشتہ کو دیا اور وہ اسے نچلے آسمان پر لے آئیاور یہاں سے آہستہ آہستہ انہو ںنے قرآن کریم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُتارا۔ (تفسیر ریورنڈی ویری جلد اول صفحہ ۱۰۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ایسی روایات کی بناز پر جو مسلمانوں میں بدقسمتی سے مشہور ہو گئے ہیں لیکن اُن کے معنوں پر انہوں نے غور نہیں کیا اور نہ ان کی صحت کی تصدیق کی مسیحیوں نے اس قسم کی تاریخ کی بنیاد رکھی ہے اور اس وجہ سے ہم ان پر یہ الزام تو نہیں لگا سکتے کہ انہوں نے یہ روایات خود بنا لی ہیں۔ لیکن جس رنگ میں اُنہوں نے ان روایات کو استعمال کیا ہے وہ ضرور قابل اعتراض ہے نیز وہ اس اعتراض کے نیچے ضرور ہیں کہ جن امور پر وہ اعتراض کرتے ہیں اسی قسم کے امور خود ان کی کتب میں موجود ہیں۔ جو تاویل وہ اپنی کتب میں کر لیتے ہیں دیانت اور تقویٰ کا تقاضا یہ تھا کہ ایسی روایات یا ان قرآن کریم کی آیات کے متعلق جن میں انہیں کوئی ایسا مضمون نظر آتا وہ ویسی ہی تاویل کر لیتے مذہب تو خشیت اللہ اور تقویٰ پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ ہارجیت کا اکھاڑہ بنانے کے لئے۔
موسیٰ کی کتاب پیدائش میں لکھا ہے کہ جب سدوم اور عمارہ میں گناہ بڑھ گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تباہی کی خبر دی تو وہ حضرت ابراہیم سے یوں گویا ہوا ’’میں اب اُتر کے دیکھوں گا کہ انہوں نے سراسر اس چلانے کے مطابق جو مجھ تک پہنچا، کیا ہے یا نہیں‘‘ (باب ۱۸ آیت ۲۱) اس آیت سے نہ صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم کامل نہیں اور وہ دوسروں سے خبریں سن کر ان کی تصدیق بعد میں کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہ وہ اس تصدیق کے لئے آپ آسمان سے اترنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اب اگر ان مسیحی مصنفین میں حقیقی دینی روح ہوتی اور وہ مذہب کو ایک جیت ہار کا اکھاڑہ نہ سمجھتے تو اس آیت کی موجودگی میں انہیں قرآن کریم کے اس مضمون پر کیونکر اعتراض ہو سکتا تھا کہ کلامِ الٰہی آسمان سے اُترتا ہے۔
MindRoasterMir
MindRoasterMir
لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
جنوری 24, 2018
#2
اس مضمون کے مطابق جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے عہد نامہ قدیم کی کتاب اسموئیل میں بھی ذکر آتا ہے وہاں لکھا ہے ’’اور خداوند کی روح اس دن سے ہمیشہ دائود پر اُترتی رہی‘‘ (باب ۱۶ آیت ۱۳) خدا کی روح کے معنے اس کے کلام اور اس کی ہدایت کے ہی ہیں۔ پس اس آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام دائود پر اترتا رہا۔ اب جو چیز ہمیشہ دائود پر اترتی رہی اور اس کا ذکر بائبل میں موجود ہے کس طرح تسلیم کیا جائے کہ مسیحی مصنفین اس کے مفہوم کے سمجھنے سے قاصر ہیں
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ140

نئے عہد نامہ میں بھی اسی قسم کا محاورہ استعمال ہوا ہے۔ اس میں آتا ہے ’’اور یوحنا نے یہ کہہ کے گواہی دی کہ میں نے روح کو کبوتر کی طرح آسمان سے اترتے دیکھا اور وہ اس پر ٹھہر اور میں اسے نہ جانتا تھا پر جس نے مجھے بھیجا کہ پانی سے بیتسمہ دوں اس نے مجھے کہا کہ جس پر تو روح کو اترتے اور ٹھہرتے دیکھے وہی ہے جو روح قدس سے بیتسمہ دیتا ہے سو میں نے دیکھا اور گواہی دی کہ یہی خدا کا بیٹا ہے (یوحناب ۱ ۳۲ تا ۳۴) ان آیات سے ظاہر ہے کہ روح القدس جسے قرآنی اصطلاح میں کلام لانے والا فرشتہ یاجبرئیل کہتے ہیں کبوبتر کی شکل میں حضرت مسیحؑ پر اترا جیسا کہ عہد نامہ جدید کے متعدد حوالہ جات سے ثابت ہے یہ روح قدس ہی ہے جو خدا کا کلام پہنچاتی ہے پس اس کبوتر نے اُتر کر مسیح پر خدا تعالیٰ کی مرضی ہی کھولی ہو گی چنانچہ متی باب ۳ آیت ۱۶ سے اس کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے کیونکہ وہاں لکھا ہے کہ ’’اس نے (یعنی مسیح علیہ السلام) نے خدا کی روح کو کبوتر کی مانند اترتے اور اپنے اوپر آتے دیکھا‘‘ غرض خدا کی روح سے خدا تعالیٰ کا کلام ہی مراد ہے۔
پس جبکہ عہد ناہ قدیم او رجدید دونوں خدا تعالیٰ اور اس کے کلام کے اترنے پر شاہد ہیں تو اس قسم کی روایات اگر مسلمانوں میں پائی جائیں تو مسیحیوں کو ان کے سمجھنے میں کیوں دقت پیش آئے۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں سماء کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کبھی اس کے معنے بادلوں کے ہوتے ہیں کبھی بلندی کے اور کبھی بلندی مقام کے جب اللہ تعالیٰ کی نسبت یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی اس کے بلند مقام کے ہوتے ہیں نہ یہ کہ وہ کسی خاص مقام پر انسانوں کی طرح بیٹھا ہے جس ہستی کی نسبت قرآن کریم خود فرماتا ہے نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد (ق ع ۲) وہ انسان کی رگِ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے اس کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ ایک جسمانی آسمان پر بیٹھا ہے اور وہاں سے لکھ لکھ اپنا کلام بھجوا رہا ہے کس طرح درست ہو سکتا ہے۔
عام مسلمانو ںکو بھی یہ ٹھوکر لگی ہے اور انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر جو قرآن کریم میں مذکور ہیں غور کئے بغیر ذوالوجوہ روایات اور تمشابہ آیات سے دھوکا کھایا ہے۔
دوسری وجہ جس سے لوگوں نے دھوکا کھایا ہے وہ فرشتوں کے متعلق اور ان کے اعمال کے ظہور کے متعلق اُن کا ناقص علم ہے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے مادی اجسام نہیں ہیں بلکہ تمام کائنات عالم کے لئے علت ثانیہ کا مقام رکھتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان پہلے واسطہ کی حیثیت ان کو حاصل ہے اور نظام عالم کا خدا تعالیٰ کے حکم اور اس کے اشارہ کے مطابق چلانا ان کا کام ہے۔ کوئی فرشتہ کلام الٰہی کو بندہ تک پہنچنے کا ذمہ دار ہے۔ کوئی پیدائش کا کارخانہ چلا رہا ہے‘ کسی کے ذمہ موت کا کام ہے اور وہ گویا بمنزلہ تاروں کے ہے جن کے ذریعہ سے دنیا کے کار خانہ کو خدا تعالیٰ حرکت دیتا ہے چناچنہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اُن کی زبانس ے فرماتا ہے وَمَا مِنَّآ اِلَّا لَہٗ مَقَامَّ مَّحْلُوْمٌ (صافات ع ۵) ہم میں سے ہر ایک کا ایک معلوم مقام ہے یعنی ہر ایک اپنے مقام پر رہتے ہوئے اسی طرح اپنا کام کر رہا ہے جس طرح کہ سورج اپنی جگہ پر رہتے ہوئے اپنے گرد کے سیاروں تک روشنی پہنچاتا ہے اور انہیں اس کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنی جگہ کو چھوڑیں پس جب فرشتوں کا اترنا ایک استعارہ ہے تو اس کلام کا اترنا بھی جو اُن کے ذریعہ سے واقع ہوتا ہے ایک استعارہ ہے۔
تیسری وجہ غلطی لگنے کی یہ ہے کہ لوگوں نے یہ غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کس طرح ظاہر ہوتا ہے ہیں۔ جاہل لوگ خیال کرتے ہیں کہ جس طرح انسان کو ضرورت ہوتی ہے کہ اپنا کلام پہنچانے کے لئے وہ مادی وسائل کو اختیار کرتا ہے مثلاً کسی پیغامبر کو ساوری دے کر اپنے مخا۔ب کی طرف بھجواتا ہے اسی طرح نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ بھی اس امر کا محتاج ہے کہ اپنا پیغام لکھ کر کسی پیغامبر کو دے اور وُہ اس کے اس بندے تک چل کر آئے جس تک پیغام بھجوایا گیا تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ تو اپنے کامو ںکے متعلق صاف فرماتا ہے کہ وَ اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (بقرہ ع ۱۴) یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا فیصلہ کرتا ہے تو اُسے
 
Top