صفحہ191
یہ بتایا ہے کہ جنگ کی آگ تو انہوں نے اس لئے جلائی تھی کہ اس کی بھڑکتی آگ سے فائدہ اٹھائیں گے اور پھر اپنی شوکت قائم کریں گے۔ مگر ہوأ یہ کہ نفاق کے کھل جانے کے سببب سے اور بھی اندھیرے میں جا پڑے یعنی حیران رہ گئے کہ اب کیا کریں یا یہ کہ نفاق کی مرض اور بھی ترقی کی گئی۔آگ کے معنے اگر اسلام کے کئی جائیں تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ چونکہ انہوں نے خود اسلام کو بلوایا اور پھر اس سے اعراض کیا اللہ تعالیٰ نپے ان کو اس نور سے بھی محروم کر دیا جو فطرت صحیحہ کے ذریعہ سے ہر انسان کو ملتا ہے اور ان کو اسی حالت میں چھوڑ دیا کہ نہ خدا تعالیٰ کے الہام کا نور ان کے پاس رہا اور نہ فطرۃ صحیحہ کی ہدایت ان کے ساتھ رہی۔
بعض لوگ اس آیت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آگ جلانے والے ایک شخص کا ذکر ہے لیکن بعد میں ضمیر جمع کی آئی ہے اس کا کیا مطلب؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں آگ جلانے والے کے لئے اَلَّذِیْ کا لفظ آیا ہے اور اَلَّذِیْ عربی میں مفرد تثنیہ اور جمع تینوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ جائر ہے کہ کبھی تو اس کی طرف لفظ کی رعایت سے مفرد کی ضمیر پھیری جائے اور کبھی مراد کے لحاظ سے اگر وہ جمع ہو جمع کی ضمیر پھیری جائے چنانچہ ہمع الہوامع میں جو امام سیوطی کی علم نحو میں نہایت اعلیٰ کتاب ہے لکھا ہیں کہ اخفش کہتا ہے اَلَّذِیْ کَمَنْ یَکُوْنُ لِلْوَاحِد وَالْمُثَنّٰی وَالْجَمْعِ بِلَفْظٍ وَاحِدٍ۔ اَلَّذِیْبھی مَنْ کی طرح ہے اس سے واحد میثنٰی اور جمع تینوں کی طرف اشارہ کرنا جائر ہوتا ہے۔ پھر اخفش کی روایت سے ایک مصرعہ لکھا ہیں اُولٰٓئِکَ اَشْیَا خِی الَّذِیْ تَعْرِ فُوْنَھُمْ یعنی یہ میرے شیوخ ہیں جن کو تم جانتے ہو۔ اس مصرعہ میں اشیاخی کے لئے جو جمع ہے اَلَّذِیْ کا لفظ استعمال کی گیا ہیں۔ قرآن کریم میں بھی دوسرے مقامات پر اسی طرح اَلَّذِیْ جمع کے لئے استعمال ہوتا ہے فرماتا ہے وَاَلَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo (زمر۔ ع ۴)یعنی اَلَّذِیْ کے بعد پہلے مفرد ضمیر استعمال کی اور جَآئَ اور صَدَّقَ کے الفاظ رکھے مگر بعد میں اُولٰٓئِکَ کہہ کر جمع کے لفظ سے اشارہ کیا۔ اس طرح ایک اور جگہ آتا ہے وَخُضْتُمْ کَالَّذِیْ خَاضُوْا (توبہ ع ۹) اور تم باتوں میں پڑ گئے جس طرح پہلے لوگ باتوں میں پڑ گئے تھے۔ یہاں اَلَّذِیْ کہہ کر خَاضُوْا کہا ہے جس میںجمیع کی ضمیر ہے۔
غرض اس آیت میں پہلے تو اَلَّذِیْ کے لفظ کی رعایت سے اَسْتَوْقَدُ لفظ لایا گیا جس میں واحد کی ضمیر ہے او رپھر ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِ ھِمْ کہ کر تباہ دیا گیا کہ گو لفظ مفرد کا استعمال ہؤا ہے مگر مراد اس سے ایک جماعت ہے۔
نیز اس کا جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے اِسْتَوْقَدَ میں ان کے لیڈر کی طرف اشارہ کیا جس نے آگ جلائی تھی اور پھر ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِ ھِمْ میں اس طرف اشارہ کر دیا کہ وہ شخص اکیلا نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک جماعت بھی ہیں۔
اور یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ فساد شروع منافقوں کے لیڈر نے کیاتھا مگر اس کے نتیجہ میں تباہی سب منافقوںپر آئی۔
ایک اعتراض اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ پہلے تو فرمایا مَثَلُھُمْ پھر فرمایا کَالَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا ی یعنی پہلے تو ایک جماعت کی حالت بیان کرنے کا ذکر کیا اور بعد میں ایک شخص کو پیش کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے۔ اس جگہ ایک شخص کا ذکر نہیں بلکہ اَلَّذِیْکی وجہ سے واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے مگر مراد جمع ہی ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ایک جماعت کی حالت بھی ایک شخص کی حالت کے مشابہ ہو سکتی ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ جماعت کو ایک سے مشابہت دینا محاورہ کے خلاف نہیں۔ قرآن کریم میں بھی دوسری جگہ آتا ہے مَثَلُ الَّذِیْنَ حُتِلُوا التَّوْرٰلۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا (جمعہ ع ۱) یعنی وہ لوگ جن پر تورات حکماً لا دی گئی۔ پھر انہو ںنے اس کو نہ اٹھایا یعنی اس پر کار بند نہ ہوئے ان کی مثال گدھے کی مثال ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں