• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر کبیر قادیانی خلیفہ زانی مرزا بشیر الدین محمود جلد نمبر1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ191

یہ بتایا ہے کہ جنگ کی آگ تو انہوں نے اس لئے جلائی تھی کہ اس کی بھڑکتی آگ سے فائدہ اٹھائیں گے اور پھر اپنی شوکت قائم کریں گے۔ مگر ہوأ یہ کہ نفاق کے کھل جانے کے سببب سے اور بھی اندھیرے میں جا پڑے یعنی حیران رہ گئے کہ اب کیا کریں یا یہ کہ نفاق کی مرض اور بھی ترقی کی گئی۔
آگ کے معنے اگر اسلام کے کئی جائیں تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ چونکہ انہوں نے خود اسلام کو بلوایا اور پھر اس سے اعراض کیا اللہ تعالیٰ نپے ان کو اس نور سے بھی محروم کر دیا جو فطرت صحیحہ کے ذریعہ سے ہر انسان کو ملتا ہے اور ان کو اسی حالت میں چھوڑ دیا کہ نہ خدا تعالیٰ کے الہام کا نور ان کے پاس رہا اور نہ فطرۃ صحیحہ کی ہدایت ان کے ساتھ رہی۔
بعض لوگ اس آیت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آگ جلانے والے ایک شخص کا ذکر ہے لیکن بعد میں ضمیر جمع کی آئی ہے اس کا کیا مطلب؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں آگ جلانے والے کے لئے اَلَّذِیْ کا لفظ آیا ہے اور اَلَّذِیْ عربی میں مفرد تثنیہ اور جمع تینوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ جائر ہے کہ کبھی تو اس کی طرف لفظ کی رعایت سے مفرد کی ضمیر پھیری جائے اور کبھی مراد کے لحاظ سے اگر وہ جمع ہو جمع کی ضمیر پھیری جائے چنانچہ ہمع الہوامع میں جو امام سیوطی کی علم نحو میں نہایت اعلیٰ کتاب ہے لکھا ہیں کہ اخفش کہتا ہے اَلَّذِیْ کَمَنْ یَکُوْنُ لِلْوَاحِد وَالْمُثَنّٰی وَالْجَمْعِ بِلَفْظٍ وَاحِدٍ۔ اَلَّذِیْبھی مَنْ کی طرح ہے اس سے واحد میثنٰی اور جمع تینوں کی طرف اشارہ کرنا جائر ہوتا ہے۔ پھر اخفش کی روایت سے ایک مصرعہ لکھا ہیں اُولٰٓئِکَ اَشْیَا خِی الَّذِیْ تَعْرِ فُوْنَھُمْ یعنی یہ میرے شیوخ ہیں جن کو تم جانتے ہو۔ اس مصرعہ میں اشیاخی کے لئے جو جمع ہے اَلَّذِیْ کا لفظ استعمال کی گیا ہیں۔ قرآن کریم میں بھی دوسرے مقامات پر اسی طرح اَلَّذِیْ جمع کے لئے استعمال ہوتا ہے فرماتا ہے وَاَلَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَo (زمر۔ ع ۴)یعنی اَلَّذِیْ کے بعد پہلے مفرد ضمیر استعمال کی اور جَآئَ اور صَدَّقَ کے الفاظ رکھے مگر بعد میں اُولٰٓئِکَ کہہ کر جمع کے لفظ سے اشارہ کیا۔ اس طرح ایک اور جگہ آتا ہے وَخُضْتُمْ کَالَّذِیْ خَاضُوْا (توبہ ع ۹) اور تم باتوں میں پڑ گئے جس طرح پہلے لوگ باتوں میں پڑ گئے تھے۔ یہاں اَلَّذِیْ کہہ کر خَاضُوْا کہا ہے جس میںجمیع کی ضمیر ہے۔
غرض اس آیت میں پہلے تو اَلَّذِیْ کے لفظ کی رعایت سے اَسْتَوْقَدُ لفظ لایا گیا جس میں واحد کی ضمیر ہے او رپھر ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِ ھِمْ کہ کر تباہ دیا گیا کہ گو لفظ مفرد کا استعمال ہؤا ہے مگر مراد اس سے ایک جماعت ہے۔
نیز اس کا جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے اِسْتَوْقَدَ میں ان کے لیڈر کی طرف اشارہ کیا جس نے آگ جلائی تھی اور پھر ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِ ھِمْ میں اس طرف اشارہ کر دیا کہ وہ شخص اکیلا نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک جماعت بھی ہیں۔
اور یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ فساد شروع منافقوں کے لیڈر نے کیاتھا مگر اس کے نتیجہ میں تباہی سب منافقوںپر آئی۔
ایک اعتراض اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ پہلے تو فرمایا مَثَلُھُمْ پھر فرمایا کَالَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا ی یعنی پہلے تو ایک جماعت کی حالت بیان کرنے کا ذکر کیا اور بعد میں ایک شخص کو پیش کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے۔ اس جگہ ایک شخص کا ذکر نہیں بلکہ اَلَّذِیْکی وجہ سے واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے مگر مراد جمع ہی ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ایک جماعت کی حالت بھی ایک شخص کی حالت کے مشابہ ہو سکتی ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ جماعت کو ایک سے مشابہت دینا محاورہ کے خلاف نہیں۔ قرآن کریم میں بھی دوسری جگہ آتا ہے مَثَلُ الَّذِیْنَ حُتِلُوا التَّوْرٰلۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا (جمعہ ع ۱) یعنی وہ لوگ جن پر تورات حکماً لا دی گئی۔ پھر انہو ںنے اس کو نہ اٹھایا یعنی اس پر کار بند نہ ہوئے ان کی مثال گدھے کی مثال ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ192

؎ حل لغات

صُمٌّ:۔ اَصَمُّ کی جمع ہے اور کہتے ہیں صَمَّ الرَّجُلُ صَمًّا وصَمَمًا: اِنْسَدَّتْ اُذُنُہٗ وَثَقُلَتْ سَمْعُہُ۔ اس کے کان بند ہو گئے اور بوجھل ہو گئے یعنی شنوائی جاتی رہی فَھُوَ اَصَمُّ اور ایسے شخص کو اصم یعنے بہرہ کہتے ہیں اَلْاَصَمُّ اَیْضًا الرَّجُلُ لَایُطْمَعُ فِیْہ وَلَا یُرَدَّ عَنْ ھَوَاہُ اور ایسے شخص کو بھی اَصَمّ کہتے ہیں جس کے راہ راست پر آنے کی امید نہ کی جا سکے اور نہ اس سے کسی بھلائی کی امید کی جا سکے اور اس کو بھی اَصَمّ کہتے ہیں جو اپنی شرارت سے باز نہ آئے اور اس کو ہوا پرستی و گمراہی سے روکا نہ جا سکے (اقرب)
بُکْمٌ:۔ اَبْکَمُ کی جمع ہے۔ جو بَکَمَ سے صفت مشبہ ہے۔ اَلْبُکْمُ کے معنے ہیں اَلْخُرْسُ مَعَ عَیٍّ وَبَلْہِ ایسا گونگاپن جس میں زبان کی رکاوٹ اور سادہ لوحی پائی جائے وَقِیْلَ ھُوَ الحُزْسُ مَاکَانَ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنے مطلق گونگا پن کے ہیں خواہِ کیسا ہی ہو۔ وَقَالَ ثَعْلَبُ اَلْبُکْمُ اَنْ یُوْلَدَ الْاِنْسَانُ لَایَنْطِقُ وَلَایَسْمِعُ وَلَایَبْصُرُ۔ ثعلب جو لغت کے مشہور امام ہیں کہتے ہیں کہ اَبْکَمُ ایسے شخص پر بولا جائے گا جس کی پیدائش ایسی ہو کہ نہ وہ بول سکے اور نہ سُن سکے اور نہ دیکھ سکے۔ نیز اَبْکَمُ کے معنی ہیں۔ اَخرَسُ بَیِّنُ الْخُرْسِ۔ ایساگونگا جس کا گونگا پن ظاہر ہو قَالَ الْاَ ذھَرِی بَیْنَ الْاَخْرَسِ وَالْاَ بْکَمِ فَرْقٌ فِی کَلَامِ الْعَربَ۔ ازہری کہتے ہیں کہ اَخْرَسُ اور اَبْکَم میں کلام عرب میں فرق ہے فَالْاَ خْرَسُ الَّذِیْ خُلِقَ وَلَا نُطْقَ لَہٗ کَا لْبَھِیْمَۃِ الْعَجْمَائِ وَالْاَ بْکَمُ الَّذِیْ بِلِسَانِہٖ نُطٰقٌ وَھُوَ لَایَعْقِلُ الْجَوَابَ وَلَا یُحْسِنُ وَجْہَ الْکَلَامِ۔ اخرس ایسے شخص کو کہتے ہیں کہ جو ایسی خلقت میں پیدا ہو کہ اس میں قوت ناطقہ نہ ہو اور وہ جیعان کی طرح ہو اور ابکم ایسے شخص کو کہیں گے جس کی زبان میں نطق تو ہو لیکن وہ جواب نہ دے سکتا ہو اور نہ اچھی طرح کلام کر سکتا ہو۔ (لسان)
عُمْیٌ:۔ اَعْمٰی کی جمع ہے اس کا فعل عَمِیَ ہے کہتے ہیں عَمِی:۔ ذَھَبَ بَصَرُہٗ کُلُّہٗ مِنْ عَیْنَیْہِ کِلْتَیْھِمَا یعنی بکلی آنکھوں سے اندھا ہو گیا۔ نیز عَمِیَ فُلَانٌ کے معنے ہیں۔ ذَھَبَ بَصَرُ قَلْبِہ وَجَھِلَ ول کا اندھا اور بصیرت سے کورا ہو گیا۔ غَوِیَ:۔ بدراہ ہو گیا (اقرب)
لَایَرْجِعُوْنَ:۔ رَجَعَ سے مضارع منفی جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور رَجَعَ الرَّجُلُ کے معنی ہیں اِلْصَرَفَ واپس لوٹا(اقرب) پس لَایَرْجِعُوْنَ کے معنے ہونگے وہ لوٹیں گے نہیں۔
تفسیر۔ فرماتا ہے۔یہ منافق بہرے۔ گونگے اور اندھے ہیں۔ اس لئے اپنی شرارتوں سے باز نہیں آ سکتے۔ بہرے اس لئے کہ قرآن کریم سنا مگر پھر بھی اس سے فائدہ نہ اُٹھایا گونگے اس لئے کہ اگر دل میں شبہات پیدا ہوتے تھے تو ان کے بارہ میں سوال کر لیتے اور اس طرح دل صاف کر لیتے۔ مگر جھوٹی عزت کے خیال سے کہ پہلے تو قوم کو پڑھانے والے سمجھے جاتے تھے۔ اب دوسروں سے کس طرح پڑھیں۔ پوچھنے سے بھی گریز کیا۔ اور گونگوں کی طرح ہو گئے۔ اندھے اس لئے کہ سچے مومنوں کے اندر جو نیک تبدیلیاں پیدا ہوئیں ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے فائدہ نہیں اٹھایا۔ آخر اوس اور خزرج ہی میں سے بیسیوں وہ لوگ تھے جو ہر قسم کے اخلاقی عیوب سے پاک ہو گئے تھے۔ ان کے دل خدا تعالیٰ کی محبت سے پُر تھے اُن کی آنکھیں خدا تعالیٰ کے ذکر سے بہتی تھیں ان کی زبان خدا تعالیٰ کی تقدیس کے گیت گاتی تھی وہ دُنیا میں رہتے ہوئے دُنیا سے جُدا تھے اور آخر ان کی پہلی حالت سے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ193

بھی یہ منافق واقف تھے اور ایمان کے بعد کی حالت سے بھی آگاہ تھے پھر اگر قرآن کریم سمجھ نہ آتا تھا اور اس کے متعلق اپنے شبہات کا ازالہ کروانے سے شرماتے تھے تو اس عظیم الشان تبدیلی ہی کو دیکھتے جو خود ان کے گھروں میں ظاہر ہو رہی تھی عبداللہ بن ابی ابن سلول کا لڑکا مخلص مسلمان تھا کیا عبداللہ کو نظر نہ آتا کہ اس جیسے کذاب کے لڑکے کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صادق اور راستباز کس طرح بنا دیا اور اس جیرے بُزول کے لڑکے کو آپؐ نے بہادر او رجری کس طرح بنا دیا۔ اس جیسے دُنیا کے پرستار کے لڑکے کو خدائے ذوالجلال کے عرش کے آگے سجدہ میں کس طرح گروا دیا۔ اسی طرح دوسرے منافقوں کے گھروں او رہمسائیوں کے گھروں میں یہ تبدیلیاں ہو رہی تھیں مگر دل کی آنکھیں اندھی تھیں اس لئے نظر کچھ نہ آتا تھا سجہائی کچھ نہ دیتا تھا۔

۲۰؎ حل لغات

اَوْ:۔ حرف عطف ہے۔ اور مندرجہ ذیل بارہ معنوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

(۱) اَلشَّکُّ (۲) اَلْاِبْہَامُ (۳) اَلتَّخْیِیْرُ۔ (۴) الْمُطْلقُ (۵) اَلتَّقْسِیْمُ (۶) اَلْاِضْراَبُ (۷) اَلْاِبَاحَۃُ (۸) بمعنے اِلَّا (۹) بمعنے الیٰ (۱۰) اَلتَّقْرِیْبُ (۱۱) اَلشَّرطیہ (۱۲) اَلتَّبْعِیْضُ (معنی)
آیت ہذا میں ان میں سے دو معنے چسپاں ہو سکتے ہیں جن کی تشریح ذیل میں درج ہے۔
(۱) اَلْجَمْعُ الْمُطْلقُ یعنی کبھی دو امور کے درمیان لفظ اَوْ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنے ’’اور‘‘ کے ہوتے ہیں چنانچہ
؎ وَقَدْ زَعَمَتْ لَیلیٰ بِاَنِّی فَاجِرٌ
لِنَفْسِیْ تُقَاھَا اَوْ عَلَیْہَا فُجُوْرُھَا
میں اَوْ بمعنے یا نہیں بلکہ بمعنے ’’اور‘‘ ہے یعنی میرے نفس کا تقوے مجھے ہی فائدہ دے گا اور اس کی برائی بھی مجھ پر ہی وبال ثابت بنے گی۔
(۳) اَلتَّقْسِیْمُ:۔ کسی چیز کی مختلف اقسام بتانے کے لئے بھی اَوْ آتا ہے۔ چنانچہ نحو کا یہ جملہ کہ اَلْکَلِمَۃُ اِسْمٌ اَوْ فِعْلٌ اَوْ حَرْفٌ اس کی مثال ہے اس میں اَوْ تقسیم کے لئے استعمال ہؤا ہے اور معنی یہ ہیں کہ کلمہ کی تین قسمیں ہیں یا وہ اسم ہو گا یا فعل ہو گا یا حرف ہو گا۔ (مغنی)
کَصَیّبٍ: ۔ اَلصَیّبُ کے معنے ہیں ! السَّحَابُ ذُوْالصَّوْبِ۔ ایسا بادل جو کڑک اور بارش والا ہو (اقرب) الصَّوْبُ: خَزُوْلُ الْمَطَرِ اِذَا کَانَ بِقَدَرٍ مَّا یَنْفَعُ یعنے صوب بارش کے ایسے طور پر اور ایسے انداز پر برسنے کو کہتے ہیں جبکہ وہ موجب نفع ہو۔ وَالصَّیِّبُ:۔ السَّحَابُ الْمُخْتَصُّ بِالصَّوْبِ۔ اور صَیّب اس بادل کو کہتے ہیں جس میں صوب کی صفت پائی جائے یعنی خوب برسے (مفردات)
اَلسَّمَاء :۔ آسمان کُلُّ مَا عَلَاکَ فَاَظَلَّکَ۔ ہر اوپر سے سایہ ڈالنے والی چیز سَقْفُ کُلِّ شَیْئٍ وَبَیْتٍ چھت
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ194

رَوَاقُ الْبَیْتِ گھرکے سامنے کا چھجہ ۔ ظَہْرُ الْفَرسِ گھوڑے کی پیٹھ۔ السَّحَابُ بادل۔ اَلْمَطَرُ بارش اَلْمَطُر الجَیِّدٗۃُ ایک دفعہ کسی برسی ہوئی عمدہ بارش۔ اَلْعُشْبُ سبزہ و گیاہ (اقرب)
ظُلُمَات:۔ کے لئے دیکھو حل لغات سورۂ ہذا ۱۸؎ نیز تاج العروس جلد ثامن میں ہے کہ اَلْعَرَبُ تقُوْلُ لِلْیَومِ الَّذِیْ تلقٰی فِیہِ الشِّدَّۃُ یَوْمٌ مظْلِمٌ:۔ اہلِ عرب شدت اور تکلیف کے دن کو ظلمت والا دن کہتے ہیں۔
رَعْدٌ:۔ رَعدَ کا مصدر ہے اور رَعَدَ السَّحَابُ کے معنے ہیں صَاتَ وَ ضَجَّ لِلْامْطَارِ بادل برسنے کے لئے گرجا الرّعد کے معنے ہیں۔ صَوْتُ السَّحَابِ۔ بادل کی آواز یعنی کڑک (اقرب) لغوی معنے رَعْدٌ کے بادلوں کے گرجنے اور گرجنے کی آواز کے ہیں۔ آیت ہذا میں زبردست احکام۔ تباہی کی خبروں۔ وعید کی پیشگوئیوں اور احکام جنگ کو رعد یعنی کڑک سے تشبیہہ دی گئی ہے۔
البرق:۔ وَمِیْضُ السَّحَابِ:۔ بادل کی چمک (اقرب) لغوی طور پر برق چمکتی بجلی کو کہتے ہیں۔ آیت ہذا میں اس سے مُراد لڑائی کے نظارے ہیں یا کھلی کھلی علمی باتیں‘ صداقت کے نشانات یا مال غنیمت و اسلامی فتوحات۔
یَجْعَلُوْنَ:۔ جَعَلَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ جَعَلَہٗ (یَجْعَلُ) جَعْلًا کے معنے ہیں صَنَعَہٗ اس کو پیدا کیا۔ چنانچہ انہی معنوں میں جَعَلَ اللّٰہُ الظُّلَمَاتِ وَالنُّوْرَ استعمال ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اندھیروں اور روشنی کو پیدا کیا۔ جَعَلَ الشَّیْئَ کے ایک معنی وَضَعَہٗ کے ہیں اس کو کسی جگہ رکھا۔ نیز جَعَلَ کبھی ظَنَّ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ کہتے ہیں جَعَلَ الْبَصْرَۃَ بَغْدَلوًا اَیْ ظَنَّہَا اِیَّا ھَا کہ فلاں شخص نے بصرہ کو بغداد خیال کر لیا۔ بعض اوقات جَعَلَ کے معنے شَرَعَ کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ کہتے جَعَلَ یَنْشُدُ مراد ہوتی ہے کہ اس نے شعر خوانی شروع کر دی (اقرب) اس آیت میں جَعَلَ وَضَعَ کے معنے میں استعمال ہوا ہے۔ اس لئے یَجْعَلُوْنَ کے معنے یہ کئے گئے ہیں کہ ڈال لیتے ہیں۔
الصَّوَاعِقُ:۔ الصَّاعِقَۃُ کی جمع ہے اور الصَّاعِقَہُ کے معنے ہیں اَلْمَوْتُ۔ موت۔ کُلُّ عَذَابٍ مُھْلِکٍ۔ ہر مہک غذاب۔ صَیْحَۃُ الْعَذَابِ۔ عذاب کی آواز۔ نَارٌ تَسْقُطُ مِنَ السَّمَائِ فِیْ رَعْدٍ شَدِیْدٍ لَا تَمُرّ عَلیٰ شَیْئٍ اِلاَّ اَحْرَقَتْہُ وہ آگ جو بادل سے کڑک کے ساتھ نازل ہوتی ہے اور جس چیز پر گرے اسے جلا دیتی ہے (یعنی گرنے والی بجلی) (اقرب) الصَّاعِقَۃُ:۔ ھِیَ الصَّوْتُ الشَّدِیْدُ مِنَ الْجَوِّ ثُمَّ یَکُوْنُ مِنْہُ نَارٌ فَقَطَ اَوْ عَذَابٌ اَوْ مَوْتٌ وَھِیَ فِی ذا تِھَا شَیْئٌ وَاحِدٌ وَھٰذِہِ الْاَشْیائُ تَاثِیْرَاتٌ مِنْھَا۔ صَاعِقَہ اس ہولناگ گرج اور آواز کو کہتے ہیں جو فضاء سے پیدا ہوتی ہے پھر اس سے کبھی تو آگ واقع ہوتی ہے یا عذاب یا موت نازل ہوتی ہے۔
حَذَر:۔ التَّحَرُّزُ وَ مُجَانَبَۃُ الشَّیْ خَوْفًا مِنْہُ کسی چیز سے بچنا اور خوف کے ۔ر سے علیحدہ رہنا۔ (اقرب)
اَلْمَوْت:۔ زَوَالُ الْحَیَاۃِ عَمَّنْ اِتَّصَفَ بِھَا:۔ اس چیز سے زندگی کا علیحدہ ہو جانا جو زندگی کے ساتھ متصف ہو (اقرب) مفردات میں ہے اَلْمَوْتُ زَوَالُ الْقُوّۃِ الْحَیَوَانِیَّۃِ وَاِبِانَۃُ الرُّوْحِ عَنِ الْجِسْمِ۔ قوت حیوانیہ اور رُوح کا جسم سے علیحدہ ہو جانا موت کہتا ہے اَنْوَاعُ الْمَوْتِ بِحَسْبِ الْحَیٰوۃِ۔ موت کئی قسم کی ہوتی ہے جس قسم کی زندگی ہو گی اسی کے مطابق موت ہو گی(۱) فَالْاَوَّلُ مَاھُوَ بِازائِ الْقُوَّۃِ النَّامِیَّۃِ الْمَوْجُوْدَۃِ فِی الْاِنْسَانِ وَالْحَیَوَانَاتِ وَالنَّبَاتِ۔ انسان۔ حیوانات اور نباتات میں نشوونما کا رُک جانا موت کہلاتا ہے جیسے یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا (روم) میں اشارہ فرمایا ہے (۲) الثَّانِیْ زَوَالُ الْقُوَّۃِ الْحَاسَّۃِ احساس کا زوال بھی موت کہلاتا ہے جیسے حضرت مریم علیہ السّلام کا قول یَا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا (مریم ع ۲) ہے کہ اے کاش میں اس سے پہلے کی بے حس ہو چکی ہوتی (۳) زَوَالُ الْقُوَّۃِ الْعَاقِلَۃِ زوال یعنی جہالت بھی موت
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ195

کہلاتی ہے جیسے اَوَمَنْ کَانَ میْتًا فَاَ حْیَیْنَاہُ (انعام) (۴) اَلرَّابِعُ الْحُزْنُ الْمُکَدِّرَۃُ لِلْحَیٰوۃِ۔ ایسے غم جو زندگی کو دو بہر کر دیں جیسے فرمایا یَاْ تِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَمَا ھُوَ بِمَیِّتٍ (ابراہیم) (۵) الخامس۔ المنام نیند۔ لسان میں ہے وَقَدْ یُسْتَعَارُ الْمَوْتُ لِلْاَحْوَالِ الشَّاقَّۃِ کَالْفَقْرِ وَالذُّلِ وَالسُّؤَالِ وَالھَہِمَ وَالْمَعْصِیَۃِ کبھی موت کا لفظ استعارۃً تکلیف دو حالتوں پر بھی جیسے فقر۔ ذلت۔ سوال۔ بڑھاپا اور معصیت ہیں بولا جاتا ہے۔
وَاللّٰہُ:۔ وائو اس جگہ حالیہ ہے یعنی جب کفار خدا کی گرفت تلے آ گئے ہیں اور تباہ ہونے والے ہیں پھر اُن سے ۔رنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ چونکہ دائو حالیہ ہے اس لئے ترجمہ ’‘حالانکہ‘‘ کیا گیا ہے۔
مُحِیْطٌ:۔ اَحَاطَ سے اسم فاعل ہے۔ اَحَاطَ بِالْاَمْرِ کے معنے ہیں۔ اَحدَتَہٗ مِنْ جَوَانبِہٖ۔ اس کو تمام طرفوں سے گھیر لیا۔ (اقرب) پس محیط کے معنے ہونگے گھیرنے والا۔

تفسیر۔ اس آیت میں دوسری قسم کے منافقوں کا ذک رہے جو دل سے کافر نہ تھے۔ مگر کمزوری ایمان کی وجہ سے قربانیوں کے مطالبہ یا دشمن کے حملہ کے وقت گھبرا جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی سزا کی نسبت بندوں کی سزا سے زیادہ خائف تھے اس لئے ایسے اوقات میں کفار کو خوش کرنے کے لئے ان سے مخفی تعلق رکھتے اور ایسی باتیں کرتے جس سے وہ ان کو اپنا خیر خواہ سمجھیں یا بعض خبریں مسلمانوں کی ان کو دیتے اور دل میں یہ سمجھ لیتے کہ اسلام سچا مذہب ہے ہماری اس کمزوری سے اسلام کو حقیقی نقصان تو پہنچ نہیں سکتا پھر کیا حرج ہے اگر ہم اس طرح اپنے آپ کو تکلیف سے بچا لیں۔ اسلام جیسے قربانی والے مذہب میں ایسے لوگوں کی بھی گنجائش نہیں اس لئے ابتداء قرآن میں ہی ایسے لوگوں کو بھی کھول کر بتا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو منافق ہی سمجھتا ہے اور منافقوں والا سلوک ان سے کرے گا۔ اسلام تو سب کچھ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے قربان کر دینے کا نام ہے جو اس رنگ میں مخلصانہ تعلق نہیں پیدا کر سکتا اسے ان انعامات کی امید نہیں رکھنی چاہیئے جو اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں۔

اس امر کا ثبوت کہ اس آیت اور اس کے بعد کی آیتوں میں کمزور ایمان والوں کا ذکر ہے جو کمزوری ایمان کی وجہ سے قومی کاموں میں جرأت سے حصہ نہیں لے سکتے اور وقت پر کمزوری دکھا جاتے ہیں یہ ہے کہ پہلی آیات میں تو منافقوں کے آگ جلانے کا ذکر ہے مگر ان آیات میں منافقوں کے اگ جلانے کا ذکر نہیں بلکہ آسمانی سامانوں کے ظہور کا ذکر ہے۔ پہلی مثال میں یہ ذکر ہے کہ روشنی کے وقت منافقوں کا نور جاتا رہا اور اس میں یہ ذکر ہے کہ روشنی ہو ت ویہ لوگ سنبھل جاتے ہیں اور چلنے لگ جاتے ہیں۔ پھر پہلی مثال میں تو یہ ذکر ہے کہ وہ مومن نہیں ہیں وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں لیکن اس مثال میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی نسبت یہ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ چاہتا تو انہیں بہرے اور اندھے کر دیتا مگر اب تک وہ ایسے ہوئے نہیں۔ ہاں ان کی یہ حالت قائم رہی تو بہرے اور اندھیر ہو جائیں گے اسی طرح پہلی مثال میں بتایا تھا کہ وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور دوسری مثال والوں کی نسبت یہ بتایا ہے کہ وہ مسلمانوں کو نقصدان نہیں پہنچانا چاہتے بلکہ ڈر کے مارے مصیبت کے وقت ان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس آیت سے پہلے جو اَوْ کا لفظ آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقوں پر یا پہلی مثال چسپان ہوتی ہے یا دوسری۔ اس عبارت سے شک ظاہر ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کو شک نہیں ہو سکتا پس یہ کلام انسان کا ہے۔ یہ اعتراض معترضین کے قلت تدبر پر دلالت کرتا ہے کیونکہ شک پر تو یہ آیت اس صورت میں دلالت کرتی۔ اگر اس کا یہ مطلب ہوتا کہ ہم کہہ نہیں سکتے کہ منافقوں کی حالت وہ ہے جو پہلے بیان ہوئی یا یہ ہے جو ہم اب بیان کرتے ہیں۔ مگر اس آیت میں تو کوئی ایسا لفظ نہیں جس سے یہ مطلب نکلتا ہو اَوْ کا لفظ بیشک استعمال ہؤا ہے جس کے معنے ’’یا‘‘ اور ’’اور‘‘ دونوں کے ہوتے ہیں
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ196

اور ان دونو ںمعنوں میں سے کوئی بھی اس جگہ لئے جائیں ان سے شک کا اظہار نہیں ہوتا۔ اگر اس کے معنے ’’اور‘‘ کے کئے جائیں تو بھی اس کے یہ معنے ہونگے کہ منافقوں کے گروں پر وہ مثال بھی صادق آتی ہے اور یہ بھی یعنی ان کے دو گروہ ہیں ایک پر پہلی مثال صادق آتی ہے اور دوسرے پر دوسری اور اگر اَوْ کے معنے یا کے کئے جائیں تو بھی اس کے یہ معنے ہونگے کہ منافقوں کی یا تو وہ حالت ہے جو اوپر بیان ہوئی اور یا پھر یہ حالت ہے جو ہم اب بیان کر رہے ہیں یعنی ان میں سے ایک گروہ کی وہ حالت ہے اور ایک کی یہ۔
حل لغات میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ اَوْ کا لفظ علاوہ شک یا ابہام کے معنوں کے تقسیم کے معنے بھی دیتا ہے یعنی اس سے شئے مذکور کی قسمیں بیان کرنی مطلوب ہوتی ہیں جیسے مثلاً یہ کہیں کہ الکَلِمَۃُ اِسْمٌ اَوْ فِعْلٌ اَوْحَرْفٌ تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ کلمہ اسم ہوتا ہے یا فعل یا حرف بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ کلمہ کئی قسم کا ہوتا ہے یا اسم ہوتا ہے یا فعل یا حرف پس اگر اَوْ کے معنے یا کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنی ہونگے کہ منافقو ںکی دو قسمیں ہیں یا تو وہ کافر جو ظاہر میں مسلمان بن گئے ہیں یا وہ مسلمان جو عقیدۃً تو مسلمان ہیں لیکن ایمان کی کمزوری کی وجہ سے کفار سے تعلق رکھتے اور ان کے ڈر سے اسلام کے لئے قربانیاں کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
حماسہ میں جعفر بن علبہ حارثی کا شعر لکھا ہے ؎
فَقَالُوْا الَنَا ثِنْتَانِ لَا بُذَّ مِنْھُمَا
صُدُوْرُرِ مَاجِ اُشْرِعَتْ اَوْسَلاسِلُ
جس کے یہ معنی ہیں کہ انہو ںنے کہا کہ ہمارے پاس دو چیزیں تمہارے لئے ہیں ان دونوں میں سے ایک کے لینے کے سوا تمہیں کوئی چارہ نہیں یا اُٹھائے ہوئے نیزوں کے سر لینے پڑیں گے یا زنجیریں۔ مطلب یہ کہ تم میں سے بعض کو ہم مار دیں گے اور بعض کو قید کر لینگے۔ اس میں شک کا کوئی شائبہ نہیں ہے بلکہ صرف مخالف کی تقسیم بتائی ہے کہ ہم اسے دو حصو ں میں تقسیم کر دیں گے یعنی مقتولوں اور قیدیوں میں۔
اسی طرح اَوْ کے ایک معنی لغت میں جمع مطلق کے بھی آتے ہیں یعنی یہ لفظ صر ف جمع کے معنے دیتا ہے اور یا کے معنی نہیں دیتا چنانچہ لغت میں اس کی مثال یہ مصرعہ لکھا ہے ؎
لِنَفْسِیْ تُقَا ھَا اَوْ عَلَیْھَا فُجُوْرُھَا
اس کے یہ معنے نہیں کہ یا میرے نفس کو تقویٰ ملے گا۔ یا فجور۔ بلکہ یہ معنے ہیں کہ میرے نفس کو اس کے تقویٰ کا بھی بدلہ ملے گا۔ اور اس کے گناہ کا بھی بدلہ ملے گا۔
پس اس آیت میں شک کا کوئی ذکر نہیں بلکہ صرف یہ بتایا ہے کہ منافق اوپر کی صفات والے بھی ہیں اور ان دوسری صفات والے بھی جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں۔ عرب کا ایک شاعر کہتا ہے ؎
قَوْمٌ اِذا سَمِعُوْ الصُّرَاخَ رَئَ یْتَہُمْ
مَابَیْنَ مُلْجِمِ مُھْرِ ہِ اَوْ سَافِعِ (لسان)
یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ جب کسی فریادی کی آواز سُنتے ہیں تو فوراً ان میں سے کچھ گھوڑوں کے مُنہ میں لگام دے رہے ہوتے ہیں اور کچھ گھوڑوں کی پیشانی کے بال پکڑ کر ان کو کھینچ رہے ہوتے ہیں یعنی سب کے سب فوراً فریادی کی فریاد کو پہنچنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں غرض ان آیات میں منافقوں کے دو گروہوں کا ذکر ہے نہ کہ کسی شک کا اظہار ہے۔
ان معترضین نے اس غور نہیں کیا کہ یہاں ایک فرد کا ذکر نہیں بلکہ ایک گروہ کا ذکر ہے جس کے مختلف افراد مختلف حالتوں کے ہیں ایسے موقعہ پر اَوْ شک کو ظاہر نہیں کرتا شک اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب ایک شخص کی ایک ہی حالت کے متعلق دو باتیں بتائی جائیں۔ مثلاً یہ کہا جائے کہ زید کھڑا ہے یا بیٹھا ہے لیکن جب قوم کی نسبت کہا جائے کہ وہ کھڑی ہے یا بیٹھی تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ اس میں سے کچھ کھڑے ہیں اور کچھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک فرد کی نسبت بھی اگر دو مختلف حالتوں کا ذکر ہو تب بھی اَوْ شک کے معنے نہیں دیتا مثلاً ہم بزدل انسان کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ جب خطرہ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ197

پیدا ہو وہ یا بھاگ جاتا ہے یا چھپ جاتا ہے اس کے معنی یہ نہ ہونگے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کیا کرتا ہے بلکہ ی معنی ہونگے کہ کبھی اس کے قلب کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ وہ بھاگ جاتا ہے اور کبھی ایسی کہ وہ چھپ جاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ان آیات میں شک کا اظہار نہیں بلکہ یہ بتایا ہے کہ منافقو ںکے ایک گروہ کی حالت یہ ہے کہ جیسے بادل سے باش نازل ہونے کے وقت جبکہ اس کے ساتھ تاریکی اور گرج اور بجلی ہو تو وہ خوب ڈرتے ہیں اور اگر کبھی بجلی گر پڑے تو پھر تو موت کے ڈر سے کانو ںمیں انگلیاں دے کر کھڑے ہو جاتے ہیں حالانکہ بارش تو خدا تعالیٰ کی رحمت کی علامت ہے او راس کے ساتھ اندھیروں اور گرج اور بجلی کا چمکنا لازمی امر ہے کبھی کبھی اس کے ساتھ بجلی کا گرنابھی ایک سنت ہے ان باتوں سے گھبرا کر بارش کے فوائد سے محروم ہو جانا بیوقوفی ہے۔ مثلاً ایک زمیندار اگر بارش کے وقت بجائے اس کے کہ اپنے کھیت کی مینڈھوں کو ٹھیک کرے اور پانی جمع کرنے کی کوشش کرے کانوں میں انگلیاں ڈال کر گھر بیٹھ جائے تو اسے کوئی شخص عقلمند نہیں کہہ سکتا۔ اسی طرح اسلام کا ظہور آسمانی بار ش کی طرح ہے۔ اس کے ساتھ بھی اندھیروں اور گرج اور بجلی کا وجود ضروری ہے مومن اس کو سمجھتے ہیں اور اس حالت سے ۔رنے کی بجائے قربانیاں کر کے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مگر عملی منافق اس حالت سے ڈر کر اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور ان فوائد سے بھی محروم رہ جاتے ہیں جو اسلام کی ظاہری ترقی کے ساتھ وابستہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی حاصل کرتے ہیں پھر فرماتا ہے وَاللّٰہُ مُحِیْطٌ بِالْکٰفِرِیْن۔ آخر یہ ڈرتے کن سے ہیں؟ کیا کافروں کی ایذاء سے ؟ کافروں کی تباہی کا تو اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے جن کی تباہی کا فیصلہ ہو چکا ہے اور جن کی تباہی کے لئے یہ سامان پیدا ہؤا ہے ان سے ڈرنے کا کیا مطلب؟
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خدائی سلسلے جب بھی دُنیا پر ظاہر ہوتے ہیں بارش برسانے والے بادلوں کی طرح ان کے ساتھ بھی تاریکیاں ہوتی ہیں گرج ہوتی ہے اور بجلیاں ہوتی ہیں یعنی شروع شروع میں تکالیف کا وجود ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے مثلاً تاریکیاں ہوتی ہیں کہ بُرے رشتہ داروں اور بُرے دوستوں سے قطع تعلق کا حکم ہوتا ہے کبھی ہجرت کا حکم ملتا ہے مالی قربانیوں کا مطالبہ ہوتا ہے جانی قربانیوں کا مطالبہ ہوتا ہے پھر ان کے ساتھ گرج بھی ہوتی ہے یعنی سب دُنیا سے مقابلہ کا اعلان ہوتا ہے اور بظاہر یُوں معلوم ہوتا ہے کہ سب دُنیا کو دشمنی کی دعوت دے کر اپنے مدمقابل کھڑا کر لیا گیا ہے پھر ان کے ساتھ بجلی بھی ہوتی ہے یعنے ایسے امور ظاہر ہوتے ہیں جو نظروں کو خیرہ کر دیتے ہیں۔
پھر یہ بجلیاں کبھی صواعق بن جاتی ہیں۔ یعنی دشمن مومنوں کو برباد کرنے کے لئے حملے کرتے ہیں یا مومن جو ابی ۔طور پر ان پر حملے کرتے ہیں اور بعض دفعہ ان حملوں کے نتیجے میں بعض مومن موت کا شکار بھی ہو جاتے ہیں جو کمزور دل کے لوگ ہوتے ہیں وہ یوں تو سب مشکلات سے ہی گھبراتے ہیں مگر اس آخری حصہ کے ڈر سے تو ان کی رُوح تھر آنے لگتی ہے۔
اس آیت میں ان لوگوں کا بھی جواب دیا گیا ہے جو انبیاء کی بعثت پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان کے آنے سے تو فساد پیدا ہو گیا ہے اور بتایا ہے کہ دیکھو بارش کیسی رحمت الٰہی ہے مگر اس کے نازل ہونے کے وقت بھی یہ پہلے سورج چھپ جاتا ہے اور تاریکی چھا جاتی ہے اور گرج اور بجلی نمودار ہوتی ہے۔ اسی طرح انبیاء کا وجود ہے ان کی امد پر جو شور و شر اُٹھتا ہے وہ نحوست کی علامت نہیں بلکہ آنے والی برکات کا اعلان ہوتا ہے اور انسانوں سے خدا تعالیٰ کے سلوک کا بدل جانا اسی نہج سے ہوتا ہے جس طرح بادل کے آنے پر سورج چھپ جاتا ہے اور روحانی بارش کے بعد الٰہی سورج پھر پہلے سے بھی زیادہ شان کے ساتھ چمکنے لگتا ہے۔
جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے صاعقہ کے معنی گرنے والی بجلی کے ہیں اور اس کے معنے موت اور عذاب کے بھی ہیں اور یہی وہ امور ہیں کہ جن سے کمزور دل لوگ زیادہ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ198

گھبراتے ہیں مگر فرماتا ہے کہ صاعقہ کی وجہ سے کان میں انگلی ڈالنے سے کیا ہوتا ہے اوّل تو صاعقہ کے گرنے کے بعد آواز پیدا ہوتی ہے جو بجلی گر چکی اس سے بچنے کے لئے کان میں اُنگلی دینے سے کیا فائدہ۔ دوسرے جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ ہو گیا تو پھر ان منافقوں کے ڈرنے سے اس میں تبدیلی تو ہو نہیں سکتی بہرحال کافر حملہ کریں گے تب بھی انہیں کچھ نہ کچھ ضرر پہنچے گا اور مومن حملہ کریں گے تب بھی کچھ نہ کچھ نقصان انہیں پہنچے گا۔ ان کے کانوںمیں اُنگلیاں ڈال لینے سے وہ اعلان جنگ تو نہ ٹل جائے گا۔ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہؤا ہے کفر و ایمان کی نبرد آزمائی ان بُزدلوں کے اظہارِ بُزدلی سے رُک تھوڑے ہی جائے گی۔
جیسا کہ اوپر کی تشریح سے ظاہر ہے صواعق ظلمات رعد اور برق کے علاوہ ایک تیسری شئے ہے ضروری نہیں کہ جب بجلی چمکے اس سے صاعقہ بھی گرے۔ صاعقہ کبھی گرتی ہے کبھی نہیں۔ اسی طرح کفر و ایمان کے ٹکرائو میں ہمیشہ جنگ کی صورت ہی پیدا نہیں ہوتی کبھی بجلی صرف روشنی کا کام دے جاتی ہے اس میں سے صاعقہ نہیں گرتی اور کبھی اس کے ساتھ صادقہ بھی گرتی ہے جب بجلی کی چمک کے ساتھ صاعقہ نہ ہو تو منافق نہیں گھبراتے کیونکہ خالی بجلی کا چمکنا اسلام کی شوکت کے اظہار کے لئے ہے ہاں جب اس کے ساتھ صاعقہ بھی ہو تب وہ بہت گھبراتے ہیں چنانچہ اگلی آیت میں اس فرق کو ظاہر کیا ہے۔
اس آیت کی ترکیب کچھ مشکل ہے نحویوں کو اس میں اختلاف ہے کہ مِنَ الصَّوَا عِقِ کا کیا مقام ہے اور حَذَرَ الْمَوْت کا کیا اکثر مفسر حَذَرَ الْمَوْت کو مفعول لہ قرار دیتے ہیں لیکن اس پر بعض مفسرین نے اعتراض کیا ہے کہ مِنَ الصَّوَا عِقِ کا پھر کیا مقام ہے اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ مِنَ اس جگہ سببیہ ہے اس پر معترض اعتراض کرتے ہیں کہ اگر مِنَ سببیہ ہے تو وہ بھی فی معنی مفعول لہ ہوا۔ اس صورت میں دونوں مفعولوں میں عطف چاہیئے تھا۔ اس کا جواب پہلا گروہ یہ دیتا ہے کہ فی معنی مفعول لہ ہونا اور بات ہیاور مفعول لہ ہونا اور بات۔ اس لئے عطف کی ضرورت نہ تھی (محیط) بعض نے حَذَرَ الْمَوْت کو مفعول مطلق قرار دے کر اس مشکل کو حل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ حَذَرَ الْمَوْت سے پہلے یَحْذَرُوْنَ کا فعل محذوف ہے اس کے مفعول موت کو وہاں سے اُٹھا کر حَذَر مصدر کو اس کی طرف مضاف کر دیا گیا ہے اور معنے یہ ہیں کہ صواعق کے ۔ر سے کانوں میں انگلیاں دیتے ہیں اور اس طرح ڈرتے ہیں جس طرح موت سے ڈرنا چاہیئے (املاء ابی البقاء) مِنَ الصَّوا عِقِ یَجْعَلُوْنَ کا متعلق ہے۔
(کشاف
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ199

؎ حل لغات

اَلْبَرْق:۔ کے لئے دیکھو حل لغات سورہ ہذا ۲۰؎
یَخْطَفُ: خَطَفَ سے مضارع ہے اور خَطَفَ کے معنے ہیں اِسْتَلَبَہٗ بِسُرْعَۃٍ جلدی سے اُچک لیا۔ خَطَفَ الْبَرْقُ الْبَصَرَ کے معنے ہیں ذَھَبَ بِہٖ بجلی اپنی چمک کے ذریعہ سے بینائی کو لے گئے (اقرب)
اَضَائَ: کے لئے دیکھو حل لغات ۱۸؎
اَظْلَمَ: اَظْلَمَ عَلَیْہ اللَیْلُ کے معنے ہیں رات نے ان پر اندھیرا کر دیا۔ (اقرب)
ذَھَبَ:۔ ذَھَبَ چلا گیا۔ ذَھَبَ بِہٖ لے گیا۔ نیز ذَھَبَ بِہٖ کے معنے اَزَالَہٗ کے بھی ہیں یعنی ضائع کر دے دُور کر دے (اقرب) قرآن کریم میں یہ لفظ کئی معانی میں استعمال ہؤا ہے مثلاً ذَھَبَ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ الرَّوْعُ (ہود ع ۷ آیت ۷۵) ابراہیم کا خو دُور ہو گیا۔ فَلَا تَذْھَبْ نَفْسُک عَلَیْھِمْ (فاط ع ۲ آیت ۹) تیرا نفس ان کے پیچھے ہلاک نہ ہو۔ اَذْھَبَہٗ بھی ذَھَبَ بِہٖ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن کریم میں ہے اِنْ یَّشَا یُذْ ھِبْکُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ (ابراہیم ع ۳) اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہیں ہلاک کر کے اور مخلوق پیدا کر دے۔ اس آیت میں ذَھَبَ بِہٖ ضائع کرنے اور تباہ کرنے کے معنوں میں ہی استعمال ہؤا ہے۔
شَیْئٌ:۔ شَائَ کا مصدر ہے عربی میں مصدر کبھی بمعنی اسم مفعول بھی استعمال ہوتا ہے اور شَیْء کا لفظ انہی معنوں میں ہے اور اس کے معنے ہیں چاہی ہوئی بات نیز اس کے ہیں مَایَصِحُّ اَنْ یُعْلَمَ وَیُخْبَرَعَنْہُ۔ وہ امر یا بات جس کے متعلق خبر دی جا سکے (اقرب) شَیْ کا ترجمہ امر۔ بات وغیرہ کیا جاتا ہے۔ مگر شَیْ کے مکمل معنے ہیں وہ چیز جسے کوئی فاعل چاہے یا جس کا وہ ارادہ کرے۔ ان معنوں کو واضح کرنے کے لئے خطوط میں بعض الفاظ بڑھا دیئے گئے ہیں۔ جب تک ان معنوں کو مدنظر نہ رکھا جائے ناواقفوں کو دھوکا لگ جاتا ہے حتی کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کیا خدا چوری پر قادر ہے مرنے پر قادر ہے حالانکہ خدا تعالیٰ چوری اور مرنے کو پسند نہیں کرتا اور نہیں چاہتا کیونکہ یہ امور اس کی ذات کے لئے نقص ہیں خوبیاں نہیں۔
قَدِیْر:۔ مبالعہ کا صیغہ ہے۔ قَدَرَ عَلَیہ (یَقْدِرُ) قَدْرًا وَ قُدْرَۃً کے معنے ہیں قَوِیَ عَلَیْہِ کسی چیز کے کرنے پر طاقت پائی اور اَلْقُدْرَۃُ کے معنے ہیں۔ اَلْقُوَّۃُ عَلَی الشَیْ والتَّمکُنُ مِنْہُ کسی چیز کے کرنے پر طاقت حاصل کرنا یا کسی پر قابو پا لینا قدرت کہلاتا ہے (اقرب) مفردات میں ہے کہ جب قُدْرَۃ کا لفظ انسان کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ اس کو کسی چیز کے کرنے کی طاقت حاصل ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو اس سے مراد ہر قسم کی کمزوری و عاجزی کی نفی ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے قدرت مطلقہ کا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو پوری قدرت حاصل نہیں۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ایسی ذات ہے جسے پوری پوری قدرت ہر بات پر حاصل ہے۔ قَدِیْر کے معنی کے ماتحت لکھا ہے ھُوَ الْفَاعِلُ لِمَا یَشَائُ عَلیٰ قَدْرٍ مَاتقَضِی الْحِکمَۃُ لَا زَائِدً اعَلَیْہِ وَلَا نَاقِصًا عنہٗ یعنے اپنی چاہی ہوئی بات کو اندازْ پر جس کا حکمت تقاضا کرتی ہے بغیر کمی یا بیشی کے کرنے والا قدیر کہلاتا ہے قدیر مبالغہ کا صیغہ ہے اور کثرت و عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ عام طو رپر بڑا قادر اور بہت قادر سے اس کا ترجمہ ہوتا ہے لیکن اردو میں جب اس کا مفعول بھی بیان کیا گیا ہو تو بڑا یا بہت کے الفاظ استعمال نہیں ہو سکتے بلکہ یہ مفہوم پورا پورا یا پوری طرح کی قسم کے الفاظ سے ادا کیا جاتا ہے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ200

تفسیر۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائیوں کو اُچک لے جائے یعنی بار بار صاعقہ کی حالت پیدا ہو ت وان کے ایمان بالکل ضائع ہو جائیں لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سامان پیدا کیا گیا ہے کہ کبھی تو بجلی صرف روشنی کا کام دیتی ہے یعنی صرف شوکت اسلام کے ظہور کے سامان پیدا ہوتے ہیں اس موقع پر یہ مسلمانوں کے ساتھ آشامل ہوتے ہیں مگر کبھی اس کے ساتھ صاعقہ بھی نازل ہوتی ہے اور اس وقت ان کی نگہ میں دنیا تاریک ہو جاتی ہے۔ اور یہ وہیں دبک کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور مسلمانو ںکاساتھ دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔

اس آیت سے ظاہر ہے کہ بجلی کی دو کیفیتوں کا الگ الگ اثر ان منافقو ںپر ہوتا ہے جب صرف روشنی ہو تب اور اثر ہوتا ہے جب صرف روشنی ہو تی اور اثر ہوتا ہے اور جب اس کے ساتھ موت اور ہلاکت ہو تو اور اثر ہوتا ہے۔ الفاظ آیت سے ظاہر ہے کہ روشنی اور تاریکی دونوں بجلی کا فعل ہیں کیونکہ جس طرح اَضَائَ کی ضمیر برق کی طرف راجع ہے اسی طرح اَظْلَمَ کی ضمیر بھی برق کی طرف راجع ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ روشنی تو بجلی سے ظاہر ہوتی ہے مگر بجلی سے اندھیرا نہیں ہوا کرتا پس اس جگہ اندھیریس ے مراد ظاہری اندھیرا نہیں بلکہ اس کے گرنے کے اثر کے نتیجہ میں جو تباہی اور ہلاکت پیدا ہوتی ہے وہ مراد ہے اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ اس آیت کے شروع میں فرمایا ہے کہ قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائیوںکو اچک کر لے جائے مگر ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ جب بجلی ان کے لئے دُنیا کو روشن کر دیتی ہے تو یہ چل پڑتے ہیں یعنی اس وقت یہ اپنے آپ کو مطمئن پاتے ہیں اور مسلمانو ںکے ساتھ مل کر کام کرنے لگ جاتے ہیں پس جبکہ روشنی کے وقت وہ اچھے ہو جاتے ہیں اور نقصان کو اچک لے جانے کا کونسا موقع ہوا۔ اگر کہا جائے کہ اس کا موقع وہ ہے جب وہ نہیں چمکتی اور اندھیرا ہو جاتا ہے تو یہ عقل کے خلاف ہے کیونکہ جب بجلی نہ چمکے تو وہ بینائیو ںکو ضائع نہیں کر سکتی پس معلوم ہوا کہ اس جگہ اندھیرے سے مراد معنوی اندھیرا ہے یعنی تکالیف اور مصائب کی شدت اور بجلی کے ساتھ مصائب اور شرائد کی نسبت اس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ گر کر ہلاک کرتی ہے پس مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب بجلی صرف یہ اثر ظاہر کرے کہ روشنی کرے گرے نہیں تب تو یہ لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں اور مسلمانو ںکے ساتھ چل پڑتے ہیں مگر جب بجلیظلمات پیدا کر دے یعنی صاعقہ کی صورت اختیار کر کے موت اور ہلاکت کا دروازہ کھول دے تب یہ لوگ ڈر کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَذَھَبَ بِسَمْعِہِمْ وَ اَبْصَارِ ھِمْ یعنی اگر اللہ چاہے تو ان کے نفاق کی وجہ سے ان کی شنوائی کو بھی زائل کر دے اور بینائیوں کو بھی۔ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ ذَھَبَ بِہٖ کے معنے دُور کر دینے اور ضائع کر دینے کے بھی ہوتے ہیں ار یہی معنے اس جگہ چسپان ہوتے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی شنوائی کو بھی برباد کر دے اور بینائیو ںکو بھی۔ یعنی اب تک تو ان کو یہ توفیق حاصل ہے کہ یہ قرآن سن کر اس پر ایمان لے آتے ہیں لیکن اگر یہ حالت رہی تو بالکل ممکن ہے کہ ان کا یہ ایمان بھی جاتا رہے اور قرآن کریم کو سن کر ان کے دل میںکوئی ایمان نہ پیدا ہو اسی طرح اگر یہ حالت لمبی چلی تو خطرہ ہے کہ ان کی بینائیاں بھی جاتی رہیں یعنی بوجہ بار بار صاعقہ کے نزول کے اور آفات اور مصائب کے آنے کے یہ مسلمانوں کا بالکل ساتھ چھوڑ دیں اور اب تو یہ حالت ہے کہ روشنی کے وقت مسلمانوں کے ساتھ مل جاتے ہیں پھر یہ حالت ہو جائے کہ روحانی بینائی کے ضآئع ہو جانے کے سبب سے ایسے مواقع پر بھی ان کو مسلمانوں کا ساتھ دینے کی توفیق نہ ملے اور یہ کلی طور پر مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیں۔
یہ آیت مشکل آیات میں سے ہے اور جن لوگوں نے
 
Top