صفحہ31
کہ جسے چاہے نیک بنائے اور جسے چاہے بدکار بنائے۔سو اس نے بعض کو نیک اور بعض کو بدکار بنایا ہے۔ مسیحیوں نے ورثہ کا گناہ تسلیم کر کے جبر کے مسئلہ کو رائج کیا ہے۔ کیونکہ جب انسان ورثہ کے گناہ سے کفارہ کے بغیر آزاد نہیں ہو سکتا تو جس قدر لوگ کفارہ پر ایمان نہیں لاتے گنہگار ہونے پر مجبور ہیں۔ تناسخ کا مسئلہ بھی جبر کی تائید میں ہے۔ کیونکہ جو جون سابق گناہ کی سزا میں ملی ہے لازماً ان دح بندیوں کے نیچے رہے گی جو ساقبہ گناہ کی وجہ سے اس پر لگا دی گئی ہیں فلسفیوں کے عقیدہ کی بنیاد صرف تجربہ پر تھی کہ باوجود کوشش کے بعض لوگ گناہ سے بچ نہیں سکتے۔ لیکن ڈاکٹر فرائڈ نے اس مسئلہ کو علمی مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ چونکہ انسان کی تعلیم ک زمانہ اس کے ارادہ کے زمانہ سے پہلے شروع ہوتا ہے یعنی بچپن سے۔ اور ارادہ اور اختیار بلوغ کے وقت پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اس کا ارادہ آزاد ہے۔ بلکہ جس چیز کو ہم ارادہ کہتے ہیں در حقیقت وہ وہی میلان ہے جو بچپن کے اثرات کے نتیجہ میں اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ انسان اپنے افعال کو با ارادہ اور خیالات کو آزاد سمجھتا ہے لیکن در حقیقت وہ صرف بچپن کے تاثرات کے نتائج ہیں۔ اور چونکہ وہ اس کے نفس کا جزو بن گئے ہیں۔ وہ اسے بیرونی اثر خیال نہیں کرتا بلکہ اپنا ارادہ سمجھتا ہے۔ڈاکٹر فرائڈ کے یہ خیالات نئے نہیں اسلام میں ان کی سند ملتی ہے جیسے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ کہ بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ مگر اَبَوَاہُ یُہَوِّدَاِنہِ اَوْیُنَصِّرانِہِ (بخاری کتاب الجنائز باب ماقیل فی اولاد المشرکین) اس کے ماں باپ اسے یہودی یا مسیحی بنا دیتے ہیں۔ یعنی ان کی تربیت کے اثر سے وہ بڑا ہونے سے پہلے ان کے غلط خیالات کو قبول کر لیتا ہے او ربے سمجھے بوجھے ان کے راستہ پر چل کھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچہ کی پیدائش پرع اس کے کان میں اذان کہنے کا حکم دے کر بچپن کے اثرات کی وسعت اور اہمیت کو ظاہر کیا ہے۔
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں قرآن کریم نے ان خیالات کو غلط حصہ کی تردید کی ہے کیونکہ جبر کی صورت میں جزآء سزاء ایک بے معنی فعل ہو جاتا ہے اور اِیَّاکَ نَعْبُدُکہہ کر بتایا ہے کہ انسانی ارادہ اپنی ذات میں آزاد ہے۔ گو ایک حد تک وہ محدود ہو لیکن اس کے اس حد تک آزاد ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ کہ وہ ہدایت کو دیکھ کر اپنے لئے ایک نیا راستہ اختیار کرلے مثلاً گو انسان برے اثرات کے تابع ہو لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی صفات پر وہ غور کرے تو اِیَّاکَ نَعْبُدُ کی آواز اس کے اندر سے پیدا ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے اور اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر فرائڈ اور ان کے شاگرد اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں۔ کہ حالات بدلتے رہتے ہیں اور خیالات بھی بدلتے رہتے ہیں دنیا کبھی ایک حال پر قائم نہیں رہتی۔ اگر بچپن کے اثرات ایسے ہی زبردست ہوتے کہ ان سے انسان آزاد نہ ہو سکتا تو چاہیئے تھا۔ کہ آدم سے لے کر اس وقت تک دنیا ایک ہی راہ پر گامزن رہتی۔ لیکن اس میں بار ہا تغیر ہوا ہے۔ اور ہو رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ایسے تغیرات ممکن ہیں۔ جو انسان کے خیالات کی رو کو اس سمت سے بدل دیں۔ جن پر اس کے بچپن کے تاثرات اسے چلا رہے تھے قرآن کریم نے اس کے نہایت زبردست دلائل دیئے ہیں۔ مگر اس جگہ ان کی تفصیل کا موقعہ نہیں یہاں صرف اجمالی طور پر اس آیت سے جو استدلال ہوتا تھا۔ اسے بیان کر دیا گیا ہے۔
جبر کے عقیدہ کے بالکل مخالف ایک اور خیال بھی ہے اور یہ ہے کہ انسان اپنے خیالات میں بالکل آزاد ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس کے کاموں میں کوئی دخل نہیں دیتا۔ اسلام اس خیال کو بھی رد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ