صفحہ 11
بعض نے محذوف نکالا ہے یعنی پڑھ یا شروع کر۔ اور اس کی وجہ سورۃ علق کی یہ آیت بیان کی ہے۔ اَقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّک الَّذِیْ خَلَق ۔ پس جو لفظ وہاں بیان ۂوا ہے وہی یا اس کے ہم معنی لفظ یہاں نکالا جائے گا۔ زمخشری نے اِقْرَاْ یا اِشْرَعْ کی جگہ جو امر کے صیفے ہیں اِقْرَاْ یا اِشْرَعْ جو مضارع کے صیغے ہیں محذوف نکالے ہیں یعنی میں پڑھتا ہوں یا شروع کرتا ہوں۔ اور اس کی جگہ بِسْمِ اللّٰہ کے بعد تجویز کی ہے یعنی میں پڑھتا ہوں اللہ کا نام لیکر کی بجائے میں اللہ کا نام لے کر پڑھتا ہوں۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں اللہ کے نام پر زور پیدا ہوتا ہے لیکن اگر پڑھتا ہوں پہلے رکھا جائے تو پڑھتا ہوں پر زور آ جاتا ہے۔ زمخشری کے یہ معنی لطیف ہیں میں نے ترجمہ میں انہی معنوں کو اختیار کیا ہے۔ زمخشری نے سورۃ علق میں جو اِقْرأْ پہلے آتا ہے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس موقعہ پر اِقْرأْ پر زور دینا منظور تھا کیونکہ رسول کریم صلعم پڑھنے سے ہچکچاتے تھے (بخاری) لیکن بِسْمِ اللّٰہ میں پڑھنے پر زور دینا مقصود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر پڑھنے پر زور دینا مقصود ہے۔ اس لئے اس جگہ پڑھنے کا لفظ بعد میں مخدوف قرار دینا زیادہ مناسب ہے۔ زمخشری کی یہ تشریح بھی نہایت لطیف ہے۔ اور میں نے جو بِسْمِ اللّٰہ کے دہرانے کے دلائل بیان کئے ہیں۔ ان کے بالکل مطابق آتی ہے۔
(اسم) بسمن باء اور اسم سے مرکب ہے اسم کا ہمزہ گر کر بسم ہو گیا۔ عربی زبان میں بعض ہمارے بولے نہیں جاتے انہیں وصلی ہمزے کہتے ہیں۔ لیکن بسم اللہ میں ہمزہ لکھا بھی نہیں گیا۔ اس کی وجہ علمائِ صرف ونحو کثرت استعمال بتاتے ہیں۔ نسائی اور اخفش کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام ناموں سے پہلے جہاں بھی اسم کا لفظ آئے گا اس کا ہمزہ لکھا نہیں جائے گا لیکن فراّء کا خیال ہے کہ اس جگہ حذف چونکہ نقلاً ثابت ہے۔ ہم بسم اللہ میں تو حذف کر دیں گے۔ لیکن دوسرے صفات آلٰہیہ سے پہلے چونکہ ایسا کرنا نقلاً ثابت نہیں۔ ہم اس کے ہمزہ کو لکھنے میں ترک نہیں کریں گے (بحر محیط ۱۶؎)
اسم کے معنی صفت یا نام کے ہوتے ہیں (قاموس) اور یہ اس مر سے نہیں بلکہ وس م یا س م و سے بنا ہے وائو الف سے بدل گئی ہے جنہوں نے اسے وس م سے بنا ۂو اقرار دیا ہے انہو ںنے اس کے معنی نشان اور علامت کے قرار رویئے کیونکہ وسم کے معنی نشان اور علامت کے ہوتے ہیں مگر جنہوں نے اسے س م و سے بنا ہوا اقرار دیا ہے انہو ںنے اس کے معنی اونچا ہونے کے کئے ہیں۔ (اقرب)
(اللّٰہ)اللہ اس ذات پاک کا نام ہے جو ازلی ابدی اور الحی القیوم ہے او رمالک اور خالق اور رب سب مخلوق کا ہے اور اسم ذاتی ہے نہ کہ اسم صفاتی۔ عربی زبان کے سوا کسی اور زبان میں اس خالق و مالک کل کا کوئی ذاتی نام نہیں پایا جاتا۔ صرف عربی میں اللہ ایک ذاتی نام ہے جو صرف ایک ہی ہستی کے لوے بولا جاتا ہے اور بطور نام کے بولا جاتا ہے۔ اللہ کا لفظ بھی اسم جامد ہے مشتق نہیں۔ نہ یہ اور کسی لفظ سے بنا ہے اور نہ اس سے کوئی اور لفظ بنا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لاۃ یلینہ سے مشتق ہے جس کے معنی تستّر علو اور ارتفاع کے ہیں (اقرب) لیکن یہ درست نہیں بعض لوگ کہتے ہیں اللہ لاہ یلوہ سے نکلا ہے جس کے معنی چمکنے کے ہیں اور لاہ اللہ الخلق کے معنی ہیں۔ اللہ نے مخلوق پیدا کی۔ لیکن لسان العرب میں لکھا ہے کہ یہ معنی غیر معروف ہیں۔ پس یہ قیاس کہ یہ لاہَ یلُوہُ سے نکلا ہے بالکل غلط ہے۔ بعض لوگ اسے غیر زبان کا لفظ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سریانی کے لفظ لاھا سے نکلا ہے لیکن یہ بھی بالکل غلط ہے بلکہ سریانی زبان سے ناواقفیت کے نتیجہ میں ہے چنانچہ یورپین محققین کی رائے ہے کہ عربی کا لفظ الٰہ ابتدائی مادہ سے زیادہ قریب ہے۔