• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر کبیر قادیانی خلیفہ زانی مرزا بشیر الدین محمود جلد نمبر1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 11

بعض نے محذوف نکالا ہے یعنی پڑھ یا شروع کر۔ اور اس کی وجہ سورۃ علق کی یہ آیت بیان کی ہے۔ اَقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّک الَّذِیْ خَلَق ۔ پس جو لفظ وہاں بیان ۂوا ہے وہی یا اس کے ہم معنی لفظ یہاں نکالا جائے گا۔ زمخشری نے اِقْرَاْ یا اِشْرَعْ کی جگہ جو امر کے صیفے ہیں اِقْرَاْ یا اِشْرَعْ جو مضارع کے صیغے ہیں محذوف نکالے ہیں یعنی میں پڑھتا ہوں یا شروع کرتا ہوں۔ اور اس کی جگہ بِسْمِ اللّٰہ کے بعد تجویز کی ہے یعنی میں پڑھتا ہوں اللہ کا نام لیکر کی بجائے میں اللہ کا نام لے کر پڑھتا ہوں۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں اللہ کے نام پر زور پیدا ہوتا ہے لیکن اگر پڑھتا ہوں پہلے رکھا جائے تو پڑھتا ہوں پر زور آ جاتا ہے۔ زمخشری کے یہ معنی لطیف ہیں میں نے ترجمہ میں انہی معنوں کو اختیار کیا ہے۔ زمخشری نے سورۃ علق میں جو اِقْرأْ پہلے آتا ہے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس موقعہ پر اِقْرأْ پر زور دینا منظور تھا کیونکہ رسول کریم صلعم پڑھنے سے ہچکچاتے تھے (بخاری) لیکن بِسْمِ اللّٰہ میں پڑھنے پر زور دینا مقصود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر پڑھنے پر زور دینا مقصود ہے۔ اس لئے اس جگہ پڑھنے کا لفظ بعد میں مخدوف قرار دینا زیادہ مناسب ہے۔ زمخشری کی یہ تشریح بھی نہایت لطیف ہے۔ اور میں نے جو بِسْمِ اللّٰہ کے دہرانے کے دلائل بیان کئے ہیں۔ ان کے بالکل مطابق آتی ہے۔
(اسم) بسمن باء اور اسم سے مرکب ہے اسم کا ہمزہ گر کر بسم ہو گیا۔ عربی زبان میں بعض ہمارے بولے نہیں جاتے انہیں وصلی ہمزے کہتے ہیں۔ لیکن بسم اللہ میں ہمزہ لکھا بھی نہیں گیا۔ اس کی وجہ علمائِ صرف ونحو کثرت استعمال بتاتے ہیں۔ نسائی اور اخفش کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام ناموں سے پہلے جہاں بھی اسم کا لفظ آئے گا اس کا ہمزہ لکھا نہیں جائے گا لیکن فراّء کا خیال ہے کہ اس جگہ حذف چونکہ نقلاً ثابت ہے۔ ہم بسم اللہ میں تو حذف کر دیں گے۔ لیکن دوسرے صفات آلٰہیہ سے پہلے چونکہ ایسا کرنا نقلاً ثابت نہیں۔ ہم اس کے ہمزہ کو لکھنے میں ترک نہیں کریں گے (بحر محیط ۱۶؎)
اسم کے معنی صفت یا نام کے ہوتے ہیں (قاموس) اور یہ اس مر سے نہیں بلکہ وس م یا س م و سے بنا ہے وائو الف سے بدل گئی ہے جنہوں نے اسے وس م سے بنا ۂو اقرار دیا ہے انہو ںنے اس کے معنی نشان اور علامت کے قرار رویئے کیونکہ وسم کے معنی نشان اور علامت کے ہوتے ہیں مگر جنہوں نے اسے س م و سے بنا ہوا اقرار دیا ہے انہو ںنے اس کے معنی اونچا ہونے کے کئے ہیں۔ (اقرب)
(اللّٰہ)اللہ اس ذات پاک کا نام ہے جو ازلی ابدی اور الحی القیوم ہے او رمالک اور خالق اور رب سب مخلوق کا ہے اور اسم ذاتی ہے نہ کہ اسم صفاتی۔ عربی زبان کے سوا کسی اور زبان میں اس خالق و مالک کل کا کوئی ذاتی نام نہیں پایا جاتا۔ صرف عربی میں اللہ ایک ذاتی نام ہے جو صرف ایک ہی ہستی کے لوے بولا جاتا ہے اور بطور نام کے بولا جاتا ہے۔ اللہ کا لفظ بھی اسم جامد ہے مشتق نہیں۔ نہ یہ اور کسی لفظ سے بنا ہے اور نہ اس سے کوئی اور لفظ بنا ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لاۃ یلینہ سے مشتق ہے جس کے معنی تستّر علو اور ارتفاع کے ہیں (اقرب) لیکن یہ درست نہیں بعض لوگ کہتے ہیں اللہ لاہ یلوہ سے نکلا ہے جس کے معنی چمکنے کے ہیں اور لاہ اللہ الخلق کے معنی ہیں۔ اللہ نے مخلوق پیدا کی۔ لیکن لسان العرب میں لکھا ہے کہ یہ معنی غیر معروف ہیں۔ پس یہ قیاس کہ یہ لاہَ یلُوہُ سے نکلا ہے بالکل غلط ہے۔ بعض لوگ اسے غیر زبان کا لفظ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سریانی کے لفظ لاھا سے نکلا ہے لیکن یہ بھی بالکل غلط ہے بلکہ سریانی زبان سے ناواقفیت کے نتیجہ میں ہے چنانچہ یورپین محققین کی رائے ہے کہ عربی کا لفظ الٰہ ابتدائی مادہ سے زیادہ قریب ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 12

جرمن عالم NOLDEKEلکھتا ہے کہ عربی کا الٰہ اور عبرانی کے ایل پرانے زمانہ سے پہلو بہ پہلو چلے آتے ہیں اور عبرانی زبان جب عربی سے علیحدہ ہوئی ہے اس سے بھی پہلے سے یہ لفظ سامی زبانو ںمیں استعمال ہوتا تھا (انسائیکلو پیڈیا ببلیکا جلد ۳ زیر عنوان نیمز یعنی اسماء کی بحث)
( الرحمٰن ) رحم سے ہے اور فَعْلان کے وزن پر ہے۔ اس وزن کے الفاظ امتلاء اور غلبہ پر دلالت کرتے ہیں (بحرِ محیط ۲۷؎) پس رحمن کے معنی یہ ہوئے کہ وسیع رحم کا مالک جو ہر اک پر حاوی ہے اور یہ رحم وہی ہو سکتا ہے جو بلا مبادلہ اور بغیر کسی استحقاق کے ہو کیونکہ ہر شخص حق کے طو رپر رحم کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔
( اَلْرَّحِیْم ) بھی رحم سے نکلا ہے اور فیصل کے وزن پر ہے جس کے معنوں میں تکرار اور استحقاق کے مطابق سلوک کا مفہوم پایا جاتا ہے (بحر محیط ۱۷؎) پس اس کے معنی ہوئے جو رحم کے حقدار کو اس کے کام کی اچھی جزاء دیتا ہے اور بار بار اس پر رحم نازل کرتا جاتا ہے۔
علم صرف کے زبردست امام ابو علی فارسی کہتے ہیں۔ اَلّْرَحْمٰنِ اِسْمٌ عَامٌ فِیْ جَمِیْعِ اَنْوُاعِ الہَّحْمَۃِ یَخْتَصُّ بِہٖ اللّٰہُ تَعَالیٰ وَالْرَّحِیِمُ اِنّما ھُوَ فِی جِہَۃ الْمُؤمِنینَ وَ قَالَ تَعَالیٰ کَانَ بِالموُمِنینَ رَحیماً (فتح البیان ۲۵؎) یعنی الرحمٰن اسم عام ہے او رہر قسم کی رحمتوں پر مشتمل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے مخصوص ہے اور الرّحیم مومنوں کی ذات سے تعلّق رکھتا ہے یعنی الرحیم کی رحمت نیکو کاروں سے مخصوص ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت قرآن کریم کی آیت وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِینَ رَحِیْماً ہے۔ (احز اب ع۶)
ابن مسعودؓ اور ابو سعید خدریؓ کی روایت ہے کہ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلرَّحْمٰنُ رَحْمٰنُ الدُّنْیا۔ وَالْرَّحیمُ۔ رَحِیْمُ الاٰخِرَۃِ (محیط ۱۷؎) رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ رحمن دُنیا کی رحمتوں پر نظر رکھتے ہوئے ہے اور الرحیم کا نام آخرت کی رحمتوں پر نظر کرتے ہوئے ہے۔ اس سے بھی معلوم ۂوا کہ رحمن کے معنے بلا مبادلہ اور بغیر استحقاق رحم کے ہیں کیونکہ اس قسم کا رحم زیادہ تر اس دُنیا میں جاری ہے اور رحیم کے معنی نیک کاموں کے اعلیٰ بدلہ کے ہیں کیونکہ آخرت مقام جزا ہے۔
تفسیر
قرآن کریم کی سب سورتیں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے شروع ہوتی ہیں۔ سوائے سورۃ برائۃ کے مگر اس کے بارہ میں زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ وہ الگ سورۃ نہیں بلکہ سورۃ انفال کا تتمہ ہے اور اس لئے اس میں الگ بسم اللّٰہ نہیں لکھی گئی۔ چنانچہ ابو دائود میں ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ان رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لَایَعْرِفُ فَصْلَ السُّورَۃِ حَتَّیٰ یَنْزِلُ عَلَیْہِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (ابو دائود کتاب الصّلوٰۃ باب مَنْ جَہُہ بِبِسمِ اللّٰہِ) یعنی جب ایک سورۃ کے بعد دوسری سورۃ نازل ہوتی تھی تو پہلے بسم اللہ نازل ۂوا کرتی تھی اور بسم اللہ کے بغیر رسول کریم صلعم کسی وحی کو دوسری سورۃ قرار نہیں دیا کرتے تھے۔ حاکم نے مستدرک میں بھی یہ روایت بیان کی ہے۔ (ابن کثیر) اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ہر نئی سورۃ سے پہلے بسم اللہ نازل وہتی تھی او رپہلی سورۃ کا اختتام ہی تب سمجھا جاتا تھا۔ جب بسم اللہ کے نزول سے دوسری سورۃ کے ابتداء کا اعلان کر دیا جاتا تھا۔ پس جبکہ بَرَاء ۃ سے پہلے بسم اللہ نازل نہیں ہوئی یا یُوں کہو کہ انفعال کے بعد بسم اللہ نازل ہو بَرَاء ۃکی آیات نازل نہیں ہوئیں تو یقینا وہ الگ سورۃ نہیں ہے بلکہ انفال کا حصّہ ہی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ تمام سورتوں سے پہلے جو بسم اللہ درج ہے وہ وحی الٰہی سے ہے اور قرآن کریم کا حصّہ ہے زائد نہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 13

بسم اللہ کے متعلق بعض علماء نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ہر سورۃ کا حصہ بسم اللہ نہیں بلکہ صرف سورۃ فاتحہ کا حصّہ بسم اللہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ کسی سورۃ کا حصّہ بھی بسم اللہ نہیں ہے لیکن یہ خیال درست نہیں۔ اوّل تو مذکور بالا حدیث ہی اس خیال کو ردّ کرتی ہے دوسرے بہت سی اور احادیث ہیں جن میں بسم اللہ کو رسول کریم صلعم نے سورتوں کا جزو قرار دیا ہے۔ مثلاً سورۃ فاتحہ کا حصّہ ہونے کے متعلق دارقطنی نے مرفوعاً ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیہ وَسَلّم اِذَا قَرَأْ تُمْ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاقْرَؤُا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اِنَّہام اُمُّ القُرْانِ و اُمُّ الْکِتَاب وَالسَّبْعُ المَثَانِی وَ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمِٰن الرَّحیم احدٰی آیہا (دار قطنی جلد اوّل باب و جوب قراء ۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم فی الصّلوٰۃ) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم الحمدللہ پڑھو تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرو کیونکہ سورۃ فاتحہ امّ القرآن ہے اور امّ الکتاب ہے اور سبع مثانی ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم اس کی آیتوں میں سے ایک آیت ہے۔ امام بخاری نے اپنی کتاب تاریخ میں بھی یہ روایت نقل کی ہے (مرفوع بھی اور موقوف بھی) (فتح البیان جلد اوّل)
اس حدیث میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دوسری سورتوں کا بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم حصّہ ہے۔ کیونکہ رسول کریم صلعم نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ فاتحہ کا حصہ ہے بلکہ اس کے حصّہ ہونے کی دلیل دی ہے اور وہ یہ کہ چونکہ یہ اُمّ الکتاب او رامّ القرآن ہے اس لیے بسم اللہ اس کے ساتھ ضرور پڑھنی چاہیئے اور یہ دلیل اسی صورت میں ٹھیک ہوتی ہے جب یہ آیت باقی سورتوں کا بھی حصّہ ہو اور دلیل بالاولیٰ کے طور پر کہا گیا ہو کہ جب باقی سورتوں کا بسم اللہ الرحمن الرحیم حصہ ہے۔ تو تم سمجھ سکتے ہو کہ سورۃ فاتحہ جو اُمّ الکتاب اور اُمّ القرآن ہے اس کا حصّہ بھی ضرور ہو گی پس اس کی تلاوت سے پہلے اس آیت کو ضرور پڑھا کرو۔
اس استدلال کے علاہو اور دلائل بھی اس بارہ میں ہیں مثلاً مسلم کی روایت ہے عن انس قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیہ وَسَلّم اُنْزِلَتْ عَلَیَّ سُورَۃٌ آنفَّا فَقَرَأْ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمِٰن الرَّحیم انا اعطیناک الکوثر (مسلم باب حجتہ مَنْ قَالَ البسْمِلَۃُ اٰیۃٌ مِنْ اوّلِ کلِّ سورۃٍ) یعنی انسؓ کہتے ہیںکہ رسول کریم صلعم نے ایک دفعہ فرمایا کہ مجھ پر ابھی ایک سورۃ اُتری ہے جو یہ ہے بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمِٰن الرَّحیم انا اعطیناک الکوثرپس آپؐ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو سورزہ کوثر کا حصہ قرار دیا ہے بعض اور سورتوں کے متعلق بھی ایسی روایات ہیں۔
اس روایت پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے او رانسؓ انصاری ہیں جو ہجرت کے وقت آٹھ نو سال کے بچے تھے۔ حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ آپؐ نے یہ بات سوزہ کے نازل ہوتے ہی فرمائی تھی پھر انسؓ نے اس کو کیونکر سن لیا۔ اگر دوسرے دلائل اس قول کی تائید میں نہ ہوتے تو یہ اعتراض یقینا اس حدیث کو ضعیف بنا دیتا لیکن دوسرے دلائل کی موجودگی میں اس اعتراض کو زیادہ وقعت حاصل نہیں کیونکہ صحابہ بعض دفعہ دوسرے صحابہ سے سن کر بھی روایات بیان کر دیتے تھے اور یہ امر مسلم ہے کہ جب کوئی روایت رسول کریم صلعم کی طرف کوئی صحابی منسوب کرے تو وہ بہرحال درست ہے کیونکہ کسی صحابی پر جھوٹ کا الزام ثابت نہیں ہوتا۔ اگر انسؓ نے رسول کریم صلعم کی طرف یہ قول منسوب فرمایا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ آپؐ نے کسی مہاجر صاحب سے یہ روایت سنی ہے اور جب صحابی تک روایت پہنچ گئی تو اس کے سچا ہونے میں شبہ نہ رہا۔
احناف کے متعلق جو بعض لوگ یہ خیال کرتے کہ وہ بسم اللہ کو گویا قرآن کریم کا حصہ نہیں سمجھتے یہ غلط ہے امام ابو حنیفہؓ کا یہ مذہب نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ آیت مستقل آیت ہے اور سورۃ کا حصہ نہیں۔ امام ابوبکر رازی جو حنفیوں کے آئمہ سے ہیں اپنی کتاب احکام القرآن جزء اوّل میں لکھتے ہیں۔ وَلَمَّا ثَبَتَ اَنَّہاَ لَیْسَتْ مِنْ اَوَائِلِ السُّوَرِواَنْ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 14
کَانَتْ آیۃً فِی مَوْضِعِہَا عَلَی وَجْہِ الْفصَلِ بَیْنَ السُّوْرتَیْنِ اُمِرْنَا بِالْاِبتِدَائِ بِہَا تَبَرّکاً۔ ترجمہ۔ اس وجہ سے کہ یہ ثابت ہو گیا ہیں کہ یہ آیت کسی سورۃ کا حصہ نہیں گو دو سورتوں کا فاصلہ بتانے کے لئے ایک مستقل آیت کے طور پر اُتاری گئی ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ نماز شروع کرنے کا حکم بطور تبرک کے دیا گیا ہے۔ پس یہ محض ناواقفوں کا خیال ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو احناف قرآن کا حصہ نہیں قرار دیتے بیشک وہ اسے کسی سورۃ کا حصہ نہیں قرار دیتے۔ لیکن قرآن کریم کا حصہ ضرور قرار دیتے ہیں۔ گو میرے نزدیک ان کا یہ عقیدہ بھی درست نہیں اور حق یہی ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورۃ کا حصہ ہے اور جیسا کہ آگے بیان ہو گا۔ ہر سورۃ کے پہلے اس کے رکھنے میں بہت سی حکمتیں ہیں۔
بسم اللّٰہ کی فضیلت
بسم اللہ کی فضیلت پر رسول کریم صلعم نے خاص زور دیا ہے آپؐ فرماتے ہیں کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَایُبْدَأُ فِیہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَقُطَعُ (اربعین حافظ عبدالقادر عن ابی ھریرۃ بحوالہ الدر رالمنشور) یعنی جس بڑے کام کو بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکت ہوتا ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلعم نے یہ سنت قائم کی ہے کہ مسلمان اپنے سب کاموں کو بسم اللہ سے شروع کیا کریں۔ چنانچہ ایک حدیث ہے۔ أغْلُقْ بَابَک وَ اْ ذکُر اسْمَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَاَنَّ الشَّیْطٰنَ لاَیَفْتَحْ بَابَا مُغْلَقًا وَاْ طِفیْٔ مِصْبَا حَکَ وَاْ ذکُرْ اِسْمَ اللّٰہِ وَخَمِّرْ اِنَائَ کَ وَلَوْ بِعُوْدٍ تعرضہ و اذکُرْ اسمَ اللّٰہِ وَاوکِ سِقائَ کَ وَا ذَکُرْ اسْمَ اللّٰہِ عُزَّوَجَلّ (مسند احمد بن حنبل جلد ثالث صفحہ ۳۱۹) یعنی اپنا دروازہ بند کرتے ہوئے بھی بسم اللہ کہہ لیا کرو اور چراغ بجھاتے ہوئے بھی۔ اور برتن کو ڈہانکتے ہوئے بھی۔ او راپنی مشک کا مُنہ باندھتے ہوئے بھی۔ اسی طرح بیوی کے پاس جاتے ہوئے۔ وضو کرتے ہوئے کھانا کھاتے ہوئے۔ پاخانے میں داخل ہونے سے پہلے۔ لباس پہنتے ہوئے بسم اللہ کا کہنا دوسری احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان کے ایک خط کا ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے بھی اپنا خط بسم اللہ سے شروع کیا تھا۔ چنانچہ آتا ہے اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمَانَ وَ اِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (نمل ع ۲) یعنی یہ خط سلیمان کی طرف سے ہے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت نوحؒ کا ٍکر کر کے بھی قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے کشتی میں چڑھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ ازُ کَبُوْا فِیْہَا بِسْمِ اللّٰہِ مَحْرٖر مَا وَ مُرْسٰہَا (ہود ع ۴؍۴)
ہر سورۃ کے پہلے بِسْمِ اللّٰہ اس لئے رکھی گئی ہے کہ قرآن کریم کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایک خزانہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں کھولا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَایَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ (الواقعہ ع ۳) سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ اس امر کے لئے چُن لے۔ دوسرے لوگ قرآنی اسرار کو نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح فرماتا ہے یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا (بقرہ ع ۳) قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ بعض کے لئے ہدایت کا موجوب اور بعض کے لئے گمراہی کا موجب بنا دیا ہے گویا لفظ اور عبادت تو سب کے لئے ایک ہے مگر اثر جُدا جُدا رنگ کا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اچھے اثر کو حاصل کرنے اور بُرے سے بچنے کے لئے اور اس کے اسرار کو سمجھنے کے لئے کیا ذریعہ اختیار کرنا چاہیئے سو اس کا جواب اِذَا اقَرَأتَ الْقُرْآنَ فَا سْتَعِذْ بِاللّٰہِ (نحل ع ۱۸) کے حکم سے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورۃ کے پہلے رکھ کر دیا گیا ہے۔ یعنی قرآن کریم پڑھنے سے پہلے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ سے شیطان کے حملہ سے بچنے کے لئے دُعا کر لیا کرو۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کا واسطہ دیکر اس کی مدد حاصل کر لیا کرو اس طرح گمراہی سے بچ جائو گے اور ہدایت حاصل ہو گی۔
دوسری وجہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ہر سورۃ کے پہلے رکھنے کی یہ ہے کہ بائبل میں لکھا تھا۔ کہ آخری زمانہ میں جو موسیٰ کا ایک مثیل آنے والا ہے۔ اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہو گا
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 15
کہ ’’جو کوئی میری باتو ںکو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لونگا‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۹) اس پیشگوئی کے مطابق مثیل موسیٰ کے لئے مقدر تھا کہ جب وہ خدا تعالیٰ کی باتیں کرے اس سے پہلے کہہ لے کہ میں یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے نام پر کہہ رہا ہوں اپنی طرف سے نہیں ۔ پس ضروری تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ رکھی جاتی۔ تاکہ ایک طرف تو موسیٰ کی پیشگوئی پوری ہو اور دوسری طرف یہود اور نصاریٰ کو تنبیہہ ہوتی رہے کہ اگر وہ اس کلام کو نہ سنیں گے تو موسیٰ علیہ السلام کے الہام کے مطابق اللہ تعالیٰ کی سزا کے مورد بنیں گے۔
تیسری وجہ اس آیت کو ہر سورۃ کے شروع میں رکھنے کی یہ ہے کہ بائبل میں لکھا تھا’’وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اُسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۲۰) اس آیت میں بتایا گیا ہے جو شخص خدا تعالیٰ کا نام لے کر کوئی جھوٹی بات کہے گا اسے اللہ تعالیٰ ہلاک کر دے گا۔ پس اس حکم کے مطابق قرآن کریم کی ہر سورۃ کی ابتداء میں بسم اللہ رکھی گئی تاکہ یہود و نصاریٰ پر خصوصاً اور باقی دُنیا پر عموماً حجت ہو اور اس حُکم کی موجودگی میں رسول کریم صلعم کی کامیابی اور ترقی کو دیکھ کر مرحق کا مثلاشی یہ سمجھ لے کہ آپؐ نے جو کچھ کہا خدا تعالیٰ کی طرف سے کہا۔ اگر ایسا نہ ہوتو جب خدا تعالیٰ کا نام لے کر آپؐ نے اس کلام کو پیش کیا تھا کیوں آپؐ ہلاک نہ ہوتے۔ پس بسم اللہ یہود پر خصوصاً حجت ہے ہر سورۃ کے پہلے بسم اللہ رکھ کر گویا ایک سو چودہ دفعہ یہود کو ملزم بنایا گیا ہے اور محمدؐ رسول اللہ صلعم کی صداقت کی ایک سو چودہ دلیلیں پیش کی گئی ہیں۔ اگر صرف قرآن کریم کے شروع میں یہ آیت ہوتی تو یہ بات حاصل نہ ہو سکتی تھی۔
چوتھی وجہ اس آیت کو ہر سورۃ کے شروع میں رکھنے کی یہ ہے کہ قرآن کریم کو پڑھنے والا تین حال سے خالی نہیں یا تو وہ تہی دست اور بے سرمایہ ہو گا یا گناہوں کے ارتکاب سے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو بھڑکا چکا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچنے کا کوئی طبعی ذریعہ اس کے پاس نہ ہو گا یا پھر وہ دین کی راہ میں قربانی کرنے والا ہو گا۔ یہ ظاہر ہے کہ ان تینوں قسم کے لوگوںکی قلبی کیفیت الگ الگ ہو گی۔ پہلی قسم کا انسان حیران دوسری قسم کا مایوس اور تیسری قسم کا مغرور ہو سکتاہے۔ پہلی قسم کا انسان اس حیرانی میں مبتلا ہو گا کہ میں کہاں سے صداقت تلاش کروں۔ دوسری قسم کا انسان اس غم میں گھلا جا رہا ہو گا کہ میں کس منہ سے مانگوں۔ اور تیسری قسم کا اس اثر کے نیچے ہو گا کہ جو کچھ حاصل ہو سکتا تھا مجھے حاصل ہو گیا۔ دل کی ان تینوں کیفیتوں کے ماتحت انسان نفع حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ پس ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم رکھا گیا۔ تا جو تہی دست ہے اسے راستہ بتایا جائے کہ تہی دستوں کی مدد کرنے والا ایک خدا موجود ہے جو بغیر استحقاق کے فضل کرتا ہے اور جو نافرمانی کر کے اپنا حق کھو چکا ہے اسے توجہ دلائی جائے کہ مایوس نہ ہو۔ جس خدا نے یہ سورۃ اُتاری ہے وہ گناہوں کو بخشنے پر بھی آمادہ رہتا ہے اور جو قربانی کی وجہ سے مغرور ہو رہا ہو اسے توجہ دلائی جائے کہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے خزانے غیر محدود ہیں۔ پس کسی ایک جگہ پر قدم نہ روک کہ ابھی غیر متناہی ترقیات باقی ہیں۔ ظاہر ہے کہ دل کی اس قسم کی اصلاح کے بغیر قرآنی مطالب جس طرح کھل سکتے ہیں اس کے بغیر نہیں کھل سکتے۔ پس ہر سورۃ سے پہلے اس آیت کو رکھ کر قرآنی مطالب کے اظہار کا ایک زبردست ذریعہ مہیا کیا گیا ہے۔
پانچویں وجہ اس آیت کو ہر سورۃ سے پہلے رکھنے کی یہ ہے کہ یہ ہر سورۃ کے لیے کنجی کا کام دیتی ہے تمام دینی اور رُوحانی مسائل رَحْمٰن اور رَحِیْم دو صفات کے گرد چکر کھاتے ہیں۔ چونکہ غلط دو طرح دور ہوتی ہے کبھی تفصیل سے اور کبھی اجمال سے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر سورۃ کے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 16
شروع میں بسم اللہ رکھ دی تاکہ سورۃ کے مطالب میں جو اشتباہ پیدا ہوا سے پڑھنے والا بسم اللہ سے دُور کر لے یعنی جو مطلب وہ سمجھاتا ہے اگر رحمن اوررحیم کے مطابق ہو تو اسے درست سمجھے اور اگر اس کے خلاف ہو تو اسے غلط قرار دے۔ اس طرح بسم اللہ کی شارح سورۃ ہو جاتی ہے اور سورۃ کی مفسر بسم اللہ اور دونو ںکی مدد سے صحیح مفہوم پڑھنے والے کے ذہن نشین ہو جاتا ہے۔
بسم اللہ کی پہلی کتاب میں
بعض معترضین کہتے ہیں کہ بسم اللہ جس پر تم کو اس قدر ناز ہے پہلی کتب میں بھی پائی جاتی ہے مثلاً زر شتی کتب میں بھی لکھا کہ بنام یزدان بخشائش گردا دار بعد کی فارسی میں اس کا اس طرح ترجمہ کیا ہے۔ بنام خداوند بخشا یندہ بخشائش گر (تفسیر ریورنڈوھیری) یا یہ کہ یہود میں بھی بسم اللہ کا رواج تھا۔ ان سے یکھ کر عربوں میں رائج ہوا اور پہلے پہل طائف کے امیر نے اس کا رواج دیا (راڈول ترجمہ قرآن) راڈول کا جواب تو یہ ہے کہ یہ قطعاً غلط ہے کہ عربوں میں اس صورت میں بسم اللہ کا رواج تھا عرب تو الرَّحْمٰن کے کثرت استعمال کو پسند ہی نہ کرتے تھے بہرحال اس کا کوئی تاریخی ثبوت چاہیئے کہ ان میں بسم اللہ اس شکل میں رائج تھی مگر ایسا ثبوت ہر گز موجود نہیں۔ باقی رہا کہ یہود میں بھی اس کا رواج تھا اگر اس سے یہ مراد ہے کہ زمانہ نبوی یا قریب زمانہ میں یہود کی قوم اس عبارت کو استعمال کیا کرتی تھی یا ان کی تاریخ میں اس کا ثبوت ملتا ہے تو یہ بالکل خلاف واقعہ ہے اور اگر یہ مراد ہے کہ خود قرآن کریم میں ہی لکھا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اس آیت کو اپنے خط میں استعمال کیا تو یہ اول درجہ کی بددیانتی ہے کہ قرآن کریم کے حوالہ کو دوسروں کی طرف منسوب کر کے قرآن کریم پر اعتراض کا ذریعہ بنایا جائے۔ جب خود قرآن کریم حضرت سلیم علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے کہ انہوں نے ملکہ سباء کو جو خط لکھا تھا اس میں یہ عبارت بھی تھی کہ اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمَانَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (سورۃ نمل ع ۲) تو پھر یہ کہنا کہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اس سے پہلے اس آیت کا مضمون دُنیا میں رائج نہ تھا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ اسلام کا یہ دعویٰ نہیں کہ اس آیت کا مضمون نیا ہے۔ اللہ۔ رحمن۔ رحیم یہ سب ہی لفظ پہلے موجود تھے اور استعمال ہوتے تھے۔ اسلام کا تو یہ دعویٰ ہے کہ اس کا وہ استعمال جو قرآن کریم میں ہوا ہے اس سے پہلے موجود نہیں۔ اگر کوئی دشمن اسلام اس کا ثبوت پیش کرے تو بیشک اس کی بات قابل توجہ ہو سکتی ہے مگر یہ ناممکن ہے کیونکہ قرآن کریم سے پہلے کوئی بھی ایسی کتاب نہیں جس کی نسبت دعویٰ کیا گیا ہو کہ اس کا ہر ہر لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس کوئی آسمانی کتاب نہیں جس کے ہر ٹکڑے سے پہلے یہ عبارت درج کی جا سکے سوائے قرآن کریم کے۔ بارقی رہا تبرک کے طو رپر اللہ اور اس کی صفات کا ذکر اپنے خطوں یا مضمونوں سے پہلے کرنا۔ سو یہ عام بات ہے۔ اس کا نہ اسلام کو انکار ہے نہ مسلمانو ںکو۔ اس امر میں اگر دوسرے لوگ مسلمانوں کے شریک ہوں توہزار دفعہ ہوں۔
باقی رہا ریورنڈوھیری کا اعتراض۔ سو اس کا بھی ایک جواب اوپر آ چکا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ دونوں عبارتوں کے معنوں میں اس قدر فرق ہے کہ وہی ان کو ہم معنی قرار دے سکتا ہے جو عربی زبان سے ناواقف ہو۔ بخشائش گر اور دادار کا مفہوم رحمن اور رحیم کے مفہوم کا بیسواں حصہ بھی تو نہیں۔ (جیسا کہ اس سورۃ کے متعلق تفسیری نوٹوں سے معلوم ہو جائے گا) لیکن جس حد تک اس میں خوبی ہے اس کا ہمیں انکار نہیں۔ اسلام کا دعویٰ ہے کہ پہلی سب قوموں میں نبی گذرے ہیں اور آیت وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّاخَلَا فَیْہَا لَذِیْرٌ (فاطر ع ۳) اس پر شاہد ہے پھر اگر کوئی اچھا فقرہ زرد شتیوں کی کتب میں موجود ہو۔ تو مسلمانوں کو کیوں بُرا لگنے لگا۔ بُرا تو ریورنڈوھیری یا ان کے ہم مذہب لوگوں کو لگے گا۔ جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اور بنو اسرائیل کی قوم سے باہر نبوت او رالہام کا نشان انہیں کہیں نہیں ملتا۔ اسلامی نقطہ نگاہ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 17
سے زردشت خدا کا پیغامبر ہے اور ہمارے لئے واجب صدا احترام۔ اس کے کلام کا منبع قرآن کا منبع ہے۔ پس ان دونوں میں اشتراک یا موافقت کونسا قابلِ تعجب امر ہے۔
پہلے حل لغات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اللہ کے لفظ کے بارہ میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسم مشتق ہے مگر جیسا کہ وہاں پر ثابت کیا جاچکا ہے یہ سب خیال غلط ہیں اور ائمہ نحوان کو ردّ کرتے ہیں چنانچہ سیبویہ اور خلیل دونوں کا خیال ہے کہ اللہ علم ہے اور کسی دوسرے لفظ سے مشتق بھی نہیں ہے (تفسیر کبیر جلد اول صفحہ ۱۵۶ المطبعۃ المصریہ اور صفحہ ۸۵ طبع قدیم) اس کے دلائل مختلف علماء نے یہ دیئے ہیں کہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے لئے مستعمل نہیں ہے حتیّٰ کہ عرب کے مشرک بھی اور کسی معبود کے لئے یہ لفظ نہیں بولتے تھے۔ اگر ال اور الٰہ یا ال اور لٰہ سے یہ لفظ بنا ہوتا تو جس طرح یہ لفظ اوروں کے لئے بولے جاتے ہیں۔ اللہ کا لفظ بھی بولا جاتا مگر عرب ایسا ہر گز نہ کرتے تھے (۲) صفات الہٰیہ ہمیشہ اللہ کے لئے بطور صفت کے استعمال ہوتی ہیں لیکن اللہ کا لفظ اور کسی اسم کے لئے بطور صفت استعمال نہیں کیا جاتا اور یہی اصل علامت علم کی ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ سورۃ اربراہیم میں ہے اَلْعِزِیْز الْحَمِیْدِ اللّٰہِ (ابراہیم ع ۱) اس میں اللہ بطور صفت استعمال ہوا ہے لیکن یہ درست نہیں۔ اس میں صفت کے طور پر نہیں بلکہ عطف بیان کے طور پر ساتعمال ہوا ہے او راس موقعہ پر علم کا استعمال جائز ہے۔ جیسے کہتے ہیں ھٰذِہِ الدَّارُ مِلْکٌ لِلْعَالِمِ الْفَاضِلِ زَیْدٍ۔ ایسے موقعہ پر علم کا استعمال اشتباہ کے دُور کرنے کے لئے ہوتا ہے اور آیت کا یہ مطلب ہے کہ عزیر اور حمید سے مراد ہماری اللہ ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ ھُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (انعام ع ۱) سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ علم نہیں بلکہ صفاتی نام ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی نام اپنی صفات کے ساتھ مشہور ہو جاتا ہے تو وہ بھی صفاتی رنگ میں استعمال ہونے لگتا ہے جیسے حاتم۔ رستم کہ ہیں توخاص اشخاص کے نام۔ لیکن ایک سخاوت اور دوسرا بہادری کے لئے مشہور ہو گیا ہے اور اب حاتم کو سخی کی جگہ اور رستم کو بہادر کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً فلاں شخص رستم ہے فلاں حاتم ہے۔ اسی طرح اللہ کا لفظ چونکہ اپنی صفات کے ساتھ ایک کامل ہستی پر دلالت کرنے لگ گیا اس لئے یُوں کہنا جائز ہو گیا کہ آسمان میں وہی اللہ ہے یعنی تمام صفات میں کامل ذات جس کا نام اللہ ہے ایک ہی ہے اور دوسرا کوئی اس کے نام میں شریک نہیں اور نہ کام ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لفظ فَعَّال کے وزن پر ہے پس اس پر تنوین آنی چاہیئے لیکن استعمال میں تنوین نہیں آئی پس معلوم ہوا کہ ال اس کے اصلی حروف سے نہیں بلکہ ال تعریف کا ہے پس یہ لفظ مرکب ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر قاعدہ میں استثناء ہو ہوتے ہیں۔ اللہ کے لفظ پر تنوین کا نہ آنا بھی ایک استثناء ہوتے ہیں۔ اللہ کے لفظ پر تنوین کا نہ آنا بھی ایک استثناء کی صورت ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ال پر اگر ندی کا حرف آئے تو اس کے بعد ایہا کا لفظ بڑھایا جاتا ہے۔ مثلاً اگر النّاس کو بلانا ہو تو کہیں گے یا یّہا الناس لیکن یا ایہا اللّٰہ نہیں کہا جاتا جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اللّٰہ کا ال اصلی ہے ال تعریف کا نہیں ہے۔
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں۔ کہ چونکہ اللہ کے لفظ کا ہمزہ وصلی ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ اصلی ہمزہ نہیں بلکہ زائد ہے اسی طرح جب اللہ پر لام آتا ہے یعنی لِللّٰہ کہتے ہیں۔ تو الف گر جاتا ہے یہ بھی ثبوت ہے کہ یہ اصلی ہمزہ نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمزہ کا گر جانا زائد ہمزہ کی علامت نہیں۔ اسم اور ابن کے ہمزے زائد نہیں ہیں بلکہ دوسرے حرف کے قائم مقام ہیں اور یہ بھی گر جاتے ہیں۔ چنانچہ بسم اللہ میں اسم کا ہمزہ گر گیا ہے حالانکہ وہ ہمزہ زائد نہیں بلکہ تبدیل شدہ ہے پس معلوم ہوا کہ ہمزہ کا وصلی ہونا یا گر جانا اس کے زائد ہونے کا ثبوت نہیں۔
غرض اللہ کے لفظ کا استعمال اسلام اور اسلام سے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 18
پہلے دونوں ہی زمانہ میں اس کے علم اور غیر مشتق ہونے پر دلالت کرتا ہے او رجو دلائل اس کی بعض خصوصیات کی وجہ سے اس کے مشتق ہونے کے دیئے گئے ہیں وہ درست نہیں ہیں بلکہ دوسری مثالوں سے ان کی غلطی ثابت ہے۔
بسم اللہ میں اسم کی زیادتی
ایک اور سوال اس جگہ پیدا ہوتا ہے کہ کہنا تو یہ چاہیئے تھا کہ اللہ کی مدد مانگتے ہوئے قرآن کریم پڑھتا ہوں او رکہا یہ گیا ہے کہ اللہ کے نام کی مدد سے پڑھتا ہوں۔ نام کا لفظ کیوں زیادہ کیا گیا ہے اس کے مفصلہ ذیل جواب ہیں۔
(۱) باء استعانت کے علاوہ قسم کے لئے بھی آتی ہے اگر خالی یاللّٰہ ہوتا تو شُبہ ہو سکتا تھا کہ شائد قسم کھائی گئی ہے پس اس شبہ کے ازالہ کے لئے اسم کا لفظ بڑھایا گیا (۲) اللہ تعالیٰ کی ذات مخفی ہے اور صفات ہی سے وہ پہچانا جاتا ہے۔ اس لئے اسم کا لفظ بڑھایا گیا۔ الرَّحْمٰن الرّحِیْم کے ذکر سے مُراد بھی یہی ہے کہ میں خدا تعالیٰ سے اس کی رحمانیت اور رحیمیت کا واسطہ دے کر مدد طلب کرتا ہوں (۳) یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں بھی برکت ہے اور ان کی طرف انسان کو توجہ رکھی چاہیئے (۴) قرآن کریم ایک بند خزانہ ہے اور جب کوئی کسی ایسے مکان میں جس میں داخلہ بلا اجازت ممنوع ہو داخل ہوتا ہے تو اس کے محافظوں کو … کو مالک کا حکم یا اجازت دکھاتا ہے یا اس کا ذکر کرتا ہے چنانچہ پولیس جب کسی کے گھر میں داخل ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ حکومت کے نام پر ہم داخل ہو رہے یا فلاں مال پر قبضہ کرتے ہیں پس اس جگہ نام کا لفظ بڑھا کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو شخص بسم اللہ پڑھ کر قرآن کریم پڑھتا ہے وہ گویا قرآن کریم کی خدمت پر مامور فرشتوں سے کہتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے خود اس سورۃ کے پڑھنے کا حکم دیا ہے پس میرے لئے اس کے مطالب کے دروازے کھول دو اور وہ اختصاراً اس مضمون کو یُوں ادا کرتا ہے کہ اللّٰہ رحمٰن رحیم کے نام پر اس خزانہ کے کھولے جانے کی میں درحواست کرتا ہوں ظاہر ہے کہ جو اس طرح خدا تعالیٰ کے اذن سے قرآن کریم کی طرف متوجہ ہو گا۔ اس کے علوم سے حصہ پائے گا۔ لیکن جو اس کے اذن اور اس کے نام سے توجہ نہیں کرے گا بلکہ شرارت اور بعض سے توجہ کرے گا اس کے لئے اس کے خزانے نہیں کھولے جائینگے۔
پانچویں اور چھٹی حکمت اس کی ان دو پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کرنا ہے جو استثناء باب ۱۸۔ اور آیت ۲۰ میں مذکو رہیں او رجن کا ذکر میں اس سوال کی بحث میں کر آیا ہوں کہ ہر سورۃ کے شروع میں بسم اللہ کیوں دہرائی گئی ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ ان پیشگوئیوں میں لکھا تھا کہ وہ خدا کا نام لیکر کلام الٰہی سنائے گا پس ان پیشگوئیوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ضروری تھا کہ اسم کا لفظ اس جگہ بڑھایا جاتا
۳؎ حل لغات
اَلْحَمْدُ۔ حمد کے معنی تعریف کے ہیں۔ عربی میں تعریف کے لئے کئی الفاظ آتے ہیں۔ حمد۔ مدح شکر۔ ثناء۔ اللہ تعالیٰ نے حمد کا لف؍ چنا ہے جو بلاوجہ نہیں۔ شکر کے معنی احسان کے اقرار اور اس پر قدردانی کے اظہار کے ہوتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ لفظ استعمال ہو تو صرف قدردانی کے معنی ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ حمد اس سے زیادہ 19مکمل لفظ ہے کیونکہ حمد صرف احسان کے اقرار کا نام نہیں ہے بلکہ ہر حسین شے کے حسن کے احساس کے اقرار کا نام نہیں ہے بلکہ ہر حسین شے کے حسن کے احساس اور اس پر اظہار پسندیدگی اور قدردانی کا نام بھی ہے۔ پس یہ لفظ زیادہ وسیع ہے۔
دوسرا لفظ ثناء ہے۔ ثناء کے اصل معنے دُہرانے کے ہوتے ہیں اور تعریف کو ثناء اس لئے کہتے ہیں کہ ذکر خیر لوگوں میں پھیل جاتا ہے اور لوگ وقتاً فوقتاً اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں (مفردات) یہ ظاہر ہے کہ ثناء میں ذاتی تجربہ سے زیادہ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 19
لوگوں میں ذکر خیر کے پھیلنے کی طرف اشارہ ہے اور گو یہ ایک خوبی ہے لیکن بندہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو ذاتی تعلق ہوتا ہے اس پر یہ لفظ اس قدر روشنی نہیں ڈالتا جس قدر کہ مدح کا لفظ ڈالتا ہے کیونکہ یہ لفظ ذاتی تشکر اور احسان مندی پر زیادہ دلالت کرتا ہے۔
اب رہا مدح سو مدح کا لفظ جھوٹی اور سچی دونوں قسم کی تعریف کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن حمد صرف سچی تعریف کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے اُحْثُوا فی وجوہِ الْمَدّ احِیْنَ التُّرَابَ (مسند احمد بن صنبل جلد ۶) جھوٹی تعریف کرنے والوں کے مونہوں پر مٹی ڈالو۔ اسی طرح مدح ان اعمال کے متعلق بھی ہو سکتی ہے جو بغیر اختیار کے ہوں لیکن حمد انہی اعمال کے متعلق ہوتی ہے جو اختیار اور ارادہ سے کئے جائیں (مفردات) پس حمد کا لفظ مدح سے بہرحال افضل ہے اور اللہ تعالیٰ کے متعلق زیادہ مناسب یہ جو میں نے کہا تھا کہ ثنا ایسی تعریف پر دلالت کرتا ہے جو لوگوں میں پھیل جائے اور یہ بھی ایک خوبی تو پیدا نہ ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ الحمد کے الفاظ سے یہ خوبی بھی پیدا ہو گئی ہے کیونکہ ال استغراق کے معنی دیتا ہے یعنی تمام افراد کو اپنے اندر شامل کر لیتا ہے پس اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کے معنے ہوئے۔ سب قسم کی تعریف۔ اور ہر شخص کی تعریف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے اور اسی کا حق ہے ان معنوں میں ذکر خیر کی کثیر اشاعت آ جاتی ہے بلکہے ثناء سے بھی زیادہ اس عبارت سے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اشاعت کا مفہوم نکلتا ہے۔
رب۔ رب کے معنی اِنْشَائُ الشیِٔ حالاً فحالاً الی حدِّ التَّمامِ کے ہیں۔ (مفردات) یعنی کسی چیز کو پیدا کر کے تبدیلی طور پر کمال تک پہنچانا۔ خالی تربیت کے معنی بھی یہ دیتا ہے۔ خصوصاً جبکہ انسان کی طرف منسوب ہو مثلاً قرآن کریم میں ماں باپ کی نسبت آتا ہے کَمَادَ بَّیٰنِیْ صَغیْرًا (بنی اسرائیل ع ۳) یا اللہ میرے ماں باپ پر رحم فرمایا۔ جس طرح انہوں نے اس وقت میری تربیت کی جبکہ میں چھوٹا تھا۔ رب کے معنی مالک کے بھی ہوتے ہیں۔ (اقرب) اسی طرح سردار اور مطاع کے بھی (اقرب) جیسے قرآن کریم میں حضرت یوسفؑ کا قول ہے أُذْکُرْ فِیْ عِنْدَ رَبِّکَ۔ اور مصلح کے بھی معنی ہیں (اقرب) ان معنوں میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہو سکتا ہے۔ لیکن بغیر اضافت کے مطلق رب کا لفظ کبھی غیر اللہ کے َلئے استعمال نہیں ہو سکتا ۔ مثلاً ربّ الدّار۔ گھر کا مالک یا رِبَّ الْفَرَسِ۔ گھوڑے کا مالک تو انسان کو کہہ سکتے ہیں مگرجب خالی یہ کہیں کہ رب نے یوں کہا ہے یا کیا ہے تو اس کے معنے صرف اللہ تعالیٰ کے ہونگے (مفردات) رب کے معنے مفسرین نے خالق کے بھی کئے ہیں (بحر محیط)
العلمین۔ عَالَم کی جمع ہے اور مخلوق کی ہر صنف اور قسم عالم کہلاتی ہے۔ (مفردات) اور عَالَمُوْنَ یا عَالَمِیْن کے سوا اس کی جمع عَلاَلِم یا عَوَالِم بھی آتی ہے اور غیر ذوی العقول کی صفات میں سے ون یا یان کے صرف عالم یا یاسم دو لفظوں کی جمع بنتی ہے۔ اور عالم مخلوق کو اس لئے کہتے ہیں۔ کہ اس کے خالق کا پتہ لگتا ہے (اقرب) بعض مفسرین نے کہا کہ عالم کی جمع المون یا عالمین تب بنائی جاتی ہے جبکہ ذوی العقول کا ذکر ہو۔ مثلاً انسان فرشتے وغیرہ۔ مگر یہ قاعدہ لغت کے بھی خلاف ہے۔ اور قرآن کریم کے محاورہ کے بھی خلاف۔ لغت کا حوالہ اوپر گرر چکا ہے۔ قرآن کریم کی یہ آیت اس پر شاہد ہے۔ قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِیْنَ۔ قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَۂمَا اِنْ کُنتُمْ مُوْقِنِیْنَ۔ قَالَ لِمَنْ حَوْلَہٗ اَلَاتَسْمَّعُوِنَ قَالَ رَبُّکُمْ وُ ربُّ اٰبَآئِکُمُ الُاَ وَّلِیْنَ۔ قَالَ اِنَّ رَسُوْ لَکْمُ الَّذِیْ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْنَہُمَا اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ (شعر اء ع ۲) اس آیت میں عالمین میں انسانوں کے سوا آسمان زمین اور ان کے درمیان کی سب اشیاء اور مغرب اور مشرق اور
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 20

ان کے درمیان کی سب اشیاء کو عالمین میں شامل بتایا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ حٰمّ سجدہ میں ہے قُلْ اَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَ تَجْعَلُوْنَ لَہٗ اَنْدَادًا ذٰلکَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ۔ وَ جَعَلَ فِیْھَا رَوَ اسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَ بَارَکَ فِیْہَا وَ قَدَّرَ فِیْہَآ اَقْوَ اتَھَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَآئً لِّلعَّآئِلِینَ (حٰمٓ سجدہ ع ۲) اس آیت میں بھی زمین اور پہاڑوں وغیرہ کو عالمین میں شامل کیا گیا ہے حضرت مسیح موعودؑ بھی تحریر فرماتے ہیں۔ اِنَّ الْعَالِمَیْنَ عِبَارَۃٌ عَنْ کُلِّ مَوْجُوْدٍ سِوَی اللّٰہِ … سَوَائً کَانَ مِنْ عَالَمِ الْاَرْوَاحِ اَوْمِنْ عَالَمِ الْاَجْسَاِم… اَوْ کَالْشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَغَیْرِ ھَما مِنَ الْاَجْرامِ (اعجاز المسیح صفحہ ۴۸ طبع مصر) یعنی عالم سے مراد جاندار اور غیر جاندار سب اشیاء ہیں۔ اسی طرح سورج چاند وغیرہ کی قسم کے اجارم فلکی۔ غرض سب جاندار یا غیر جاندار اس میں شامل ہیں۔
جو صرف ذوی العقول کے لئے اسے قرار دیتے ہیں۔ وہ مَاھُوَ اِلاَّ ذِکْرِ لِّلْعَالَمِیْنَ (قلم ع ۲) کی آیات سے استدلال کرتے ہیں مگر یہ استدلال درست نہیں۔ کیونکہ جب اس کا استعمال غیر ذوی العقول کے لئے قرآن کریم میں موجود ہے۔ تو اس آیت کے متعلق صرف یہ کہا جائے گا کہ عام لفظ خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے چنانچہ قرآن کریم میں یہی لفظ اس سے بھی خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے فرمایا ہے وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ (بقرہ ع ۶) اے یہود ہم نے تم کو سب جہانوں پر فضیلت دی ہے حالانکہ مراد صرف اپنے زمانہ کے لوگ ہیں نہ کہ ہر زمانہ کے لوگ۔ کیونکہ خیر الامم مسلمانوں کو کہا گیا ہے۔ پس خاص معنوں کا استعمال جبکہ عام معنوں میں یہ لفظ استعمال ہو چکا ہے اس کے معنوں کو محدود نہیں کرتا۔ اور حق یہی ہے کہ عالَمِیْن میں ہر قسم کی مخلوق شامل ہیں۔ خواہ جاندار ہو یا غیرجاندار۔
تفسیر۔ اَلْحَمْدُلِللّٰہِ۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ میں اللہ کی حمد کرتا ہوں نہ یہ کہ ہم کرتے ہیں۔ بلکہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ فرمایا ہے۔ اس طرح کئی معانی پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ اوّل مصدر کے استعمال سے عروف اور مجہول دونوں معنی پیدا کر دیئے گئے ہیں یعنی یہ بھی کہ سب حمد جو مخلوق کر سکتی ہے یا کرتی ہے خدا تعالیٰ کو ہی پہچنتی ہے اور وہ سب قسم کی تعریفوں کا مستحق ہے۔ کوئی اچھی بات نہیں جو اس میں نہ پائی جاتی ہو اور کوئی بری بات نہیں جس سے وہ پاک نہ ہو اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کی صحیح حمد کر سکتا ہے کیونکہ وہ عالم الغیب ہے۔ بندے بندے کی تعریف کرتے ہیں لیکن بسا اوقات وہ غلط ہوتی ہے بعض دفعہ جس قدر کسی میں خوبی ہوتی ہے۔ اس کا اظہار نہیں کر سکتے اور بعض دفعہ ایسی تعریف کرتے ہیں۔ جو موصوف میں پائی نہیں جاتی۔ پس اصل حمد وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو بلکہ دوسرے لوگ تو الگ رہے انسان خود اپنی نسبت رائے قائم کرنے میں غلطی کر جاتا ہے اور اپنی طاقتوں کا غلط اندازہ لگا لیتا ہے۔ مگر جو بات خدا تعالیٰ بندہ کے متعلق فرماتا ہے نہ اس میں کوئی کمی ہوتی ہے نہ زیادتی۔ اگر الحمد کی بجائے احمد یا نحمد کے الفاظ ہوتے تو یہ معنی پیدا نہ ہو سکتے تھے۔
نیز اگر حمد کا صیغہ فعل استعمال کیا جاتا یعنی یہ کہا جاتا کہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں تو یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ شائد انسان اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو سمجھنے کی قابلیت رکھتا ہے لیکن یہ درست نہیں۔ انسان کی حمد محدود ہوتی ہے اور وہ صرف اپنے علم کے مطابق حمد کرتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ میں اس کے سوا غیر محدود اسباب حمد کے اور بھی پائے جاتے ہیں۔
غرص اَحْمَدُ یا نَحْمَدُ سے جو معنے پیدا ہو سکتے تھے وہ بھی الحمد میں پائے جاتے ہیں اور ان سے زائد بھی۔ اس لئے الحمدللّٰہ کے الفاظ کا اس مختصر سورۃ میں رکھنا جو سب مطالب کی جامع ہے ضروری تھا۔ بیشک قرآن کریم میں حمد مخلوق کی طرف بھی منسوب ہوئی ہے جیسا کہ فرمایا وَنَحْنُ
 
Top