ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
(۱) مَنْذِلَۃٌ یعنی درجہ (۲) شَرَفٌ یعنی بزرگی بڑائی (۳) عَلاَمَۃٌ یعنی نشان (۴) اونچی دیوار یا عمارت جو خوبصورت بھی ہو۔ (اقرب) (۵) یہ لفظ سُؤْرَۃ سے بھی ہو سکتا ہے یعنی اس میں ہمزہ ہے جو ماقبل مضموم کی وجہ سے وائو سے بدل گیا ہے۔ اس لفظ کے معنی بقیہ کے ہیں عرب کہتے ہیں ھوفی اَشأَر، النّاسِ یعنی وہ قوم کے بقیہ لوگوں میں سے ہے (
الجامع لاحکام القرآن للقرطبی)
(۶) ایسی شے جو پُوری اور مکمّل ہو۔ عرب جوان تندرست اونٹنی کو سورۃ کہتے ہیں (
الجامع لاحکام القرآن للقرطبی
) (آیندہ اس تفسیر کا حوالہ دیتے وقت سارے نام کی جگہ صرف قرطبی لکھا جائیگا)سُوْرَۃ کی جمع سُوَرٌہے یعنی سورتیں۔
قرآن کریم کے بعض ٹکڑوں کو سُوْرۃٌکیوں کہتے ہیں اس کے متعلق مختلف علماء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں بعض کے نزدیک اس لئے کہ ان کے پڑھنے سے انسان کا درجہ بڑھتا ہے بعض کے نزدیک اس لئے کہ اس سے بزرگی خالص ہوتی ہے بعض کے نزدیک اس لئے کہ سورتیں مضامین کے ختم ہونے کا نشان ہیں بعض کے نزدیک اس لئے کہ وہ ایک بلند اور خوبصورت روحانی عمارت کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ بعض کے نزدیک اس لئے کہ وہ سارے قرآن کا بقیہّ یا حصّہ ہیں۔ بعض کے نزدیک اس لئے کہ ان کے اندر ایک مکمل او رپورا مضمون آ جاتا ہے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ یہ اختلاف صرف ذوقی ہے ورنہ سورۃ کے چھ معنی جو بیان ہوئے ہیں وہ چھ کے چھ ہی اس جگہ چسپا ہوتے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کے معیّن ٹکڑوں کو سورۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ (۱) قرآن کریم کا حصّہ ہیں (۲) اور ان میں سے ہر اک میں ایک مکمّل او رپورا مضمون بیان ہوا ہے (۳) وہ بلند اور خوبصُورت روحانی تعمیر پر مشتمل ہیں جن میں داخل ہونے والا (۴) اعلیٰ مرتبہ اور (۵) بزرگی پاتا ہے اور (۶) ان پر عمل کرنے والے کو دوسرے لوگوں کے مقابل پر ایک خاص امتیاز حاصل ہو جاتا ہے۔)
سُورۃکا لفظ جو قرآن کریم کے خاص ٹکڑوں کی نسبت استعمال ہوا ہیں۔ یہ الہامی نام ہے، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کردہ ہے قرآن کریم میں اتا ہے۔
اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّانَزَّ لْنا عَلیٰ عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ
(بقرہ ع ۳) پس سورۃ کا لفظ خود قرآن کریم نے استعمال فرمایا ہے اور الہامی نام ہے رسول کریم صلعم بھی یہ لفظ استعمال فرماتے تھے صحیح مسلم میں انسؓ سے روایت ہے
قَالَ رَسُولُ اللّٰہ صَلّے اللّٰہ علیہ وسلّم اُنْزِلَتْ عَلَیَّ اٰنِفاً سُوَرۃٌ فَقَرَأَ بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الکَوثَرَ (مسلم کتاب الصّلوۃ باب حجتہ من قال اَلْبسملۃُ اٰیۃٌ مِنْ اَوَّلِ کُلِّ سُورَۃٍ سِوَی بَرَاء ۃ
) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی مجھ پر ایک سورۃ اُتری ہے اور وہ یہ ہے
بِسْمِ اللّٰہِ الرّحمٰنَ الرّحیمِ اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الْکَوثَر الخ
اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلعم بھی قرآن کریم کے ان حصّوں کو جن کو آج مسلمان سورتیں کہتے ہیں سورۃ ہی کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے اور یہ بعد کا رکھا ہوا نام نہیں۔
سُورۃ الفاتحۃ
قرآن کریم کے ابتدا میں رکھی ہوئی اس مختصر سی سورۃ کا نام فاتحۃ الکتاب ہے جو مختصر ہو کر سورۃ الفاتحہ بن گیا ہے اردو دان لوگوں نے آگے اسے فارسی اسلوب پر سورۃ فاتحہ بنا دیا ہے اس کا یہ نام ترمذی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مروی ہے۔
عَنْ عُبَادَۃِ بنِ الصَامِتِ عَن النبیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰٓیہِ وسلّم قَالَ لاَصَلوٰۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرأ بِفَاتِحۃِ الکِتَابِ (ترمذی ابواب الصلوۃ ماجاء انہ لا صلوۃ الابفاتحۃ الکتاب)
یعنی جب تک فاتحۃ الکتاب یعنی سورۃ فاتحہ نماز میں نہ پڑھی جائے نماز نہیں ہوتی۔ یہی روایت اس صحابی سے انہی الفاظ میں مسلم کتاب الصلوٰۃ باب و جوب قراء ۃ الفاتحہ میں بھی مروی ہے۔
اس سورۃ کے کئی نام ہیں جن میں سے مشہور نام جو بعض قرآن کریم سے اور بعض رسول کریم صلعم سے ثابت ہیں ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔ سُورۃ الصّلوۃ
حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
قَسَمْتُ الصَّلوٰۃَ بَیْنِی وَ بَیْنَ عَبْدِی نِصْفَینِ (مسلم باب و جوب قراء ۃ الفاتحتہ فی کل رکعتۃ)
یہ روایت جابر ابن عبداللہؓ سے ابن جریر نے بھی نقل کی ہے (مصری جلد اوّل صفحہ ۶۶) میں نے صلوۃ (یعنی سورۃ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف کر کے تقسیم کر لیا ہے یعنی آدھی سورۃ میں صفات الہٰیہ کا ذکر ہے اور آدھی میں بندے کے حق میں دُعا ہے۔
سُورۃ اُلْحَمْد
ابو دائود میں حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے
قَالَ رسولُ اللّٰہ صلَّی اللّٰہُ علیہِ وسلّمَ اَلْحَمْدُللّٰہِ اُمُّ القُرْاٰنِ وَاُمُّ الْکِتَاِب وَالسَّبْعُ المَثَانِی
یعنی سورۃ الحمدللہ کے دوسرے نام ام القرآن اور ام الکتاب اور السبع المثانی بھی ہیں۔ (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب فاتحتہ الکتاب)
(۳و۴و۵) امّ القرآن۔ القرآن العظیم اور السبع المثانی یہ تین نام بھی اس سورۃ کے ہیں مسند امام احمد بن حنبل میں ابوہریرۃؓ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھی
امر القرآن وھی السبع المثانی وھی القرآن العظیم۔ سورۃ فاتح امّ القرآن بھی ہے اور السبع المثانی بھی ہے اور القرآن العظیم بھی ہے
(جلد دوم صفحہ ۴۴۸)
السبع المثانی کا لفظ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے فرماتا ہے وَلَقَدْ اٰتَیْفَاکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ (الحجر ع۶) پس یہ نام قرآن کریم کا رکھا ۂوا ہے۔
(۶)
اُمُّ الْکِتاب
۔ اس نام کا ذکر ابودائود میں حضرت ابوہریرۃؓ کی روایت میں موجود ہے اور اوپر نمبر ۶ میں اس کا ذکر آ چکا ہے۔
(۷)الشفاء ۔ یہ نام حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں۔ قَالَ رسولُ اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وسَلَّمَ
فَاتَحِہُ الکِتَابِ شِفَائٌ مِنْ کُلِّ دَائٍ
۔ سورۃ فاتحہ ہر بیماری سے شفا دیتی ہے (دارمی) بیہقی فی شعب الایمان میں یہی روایت مروی ہے لیکن من کل داء کی جگہ من کل سم کے الفاظ ہیں یعنی ہر زہر کا علاج ہے۔
(۸) الرُّقْیَہ۔ یعنی دم کرنے والی سورۃ۔ یہ نام بھی حضرت ابو سعید خدری کی روایت مذکورہ مسند احمد بن حنبل و بخاری میں درج ہے (بخاری فضائل القرآن باب فاتحہ الکتاب اور مسند احمد بن حنبل جلد ۳) ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ کسی کو سانپ نے ڈس لیا تھا اس پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا اور اسے شفا ہو گئی اس پر آپؐ نے فرمایا۔ تم کو کس طرح معلوم ہوا کہ یہ دم کرنے والی سورۃ ہے۔ اس صحابی نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ بس میرے دل میں ہی یہ بات آ گئی۔
(۹)سورۃ الکنز بیہقی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے (فتح البیان صفحہ ۱۹) یعنی رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے جو احسان فرما کر مجھے انعام دیئے ہیں ان میں سے ایک فاتحۃ الکتاب بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے سے فرمایا کہ یہ میرے عرش کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ فاتحہ نام میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ پس یہ نو نام قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ ان کے علاوہ اور نام بھی اس سورۃ کے صحابہ سے مروی ہیں۔ امام سیوطیؒ نے ان کی تعداد پچیس تک لکھی ہے۔ علاّمہ قرطبی تے بارہ نام لکھے ہیں۔ لیکن باقی نامو ںکا ثبوت چونکہ قرآن و حدیث سے مجھے نہیں ملا۔ میں نے انہیں بیان نہیں کیا۔
فاتحہ نام جو اس سورۃ کا بیان ۂوا ہے اس کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ یہ نام پیشگوئی کے طو رپر پہلی کتاب میں بھی آیا ہے۔ چنانچہ مکاشفات باب ۱۰ آیت ۲ میں لکھا ہے۔
’’اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کتاب کھلی ہوتی تھی اور اس نے اپنا داہناں پاووں سمندر پر اور بایاں خشکی پر دھرا اور بڑی آواز سے جیسے ببر گرجتا ہے پُکارا۔ او رجب اس نے پکارا تب بادل نے گرجنے کی اپنی سات آوازیں دیں۔‘‘
اس سورۃ کا نام اور اس کی آیات کی تعداد بطور پیشگوئی مرقوم ہے۔ مترجم نے پیشگوئی کی اصل حقیقت سے ناآشنا ہونے کے باعث عبرانی لفظ فتوحہ کا ترجمہ کھلی ہوئی کتاب کیا ہے حالانکہ فتوحہ یعنی فاتحہ سورۃ کا نام بتایا گیا تھا اس پیشگوئی میں جو گرج کی سات آوازوں کا ذکر ہے ان سے مُراد اس سورۃ کی سات آیات ہیں۔ مسیحی مصنفین بالاتفاق تسلیم کرتے ہیں کہ مکاشفات کے مذکورہ بالا حوالہ میں مسیح کی آمد ثانی کے متعلق پیشگوئی ہے اور یہ بات بالکل درست ہے۔ پیشگوئی کے الفاظ سے ثابت ہے کہ آنے والے مسیح کے زمانہ تک یہ سورۃ مقفل رہے گی یعنی اس کا تفصیلی مفہوم مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہو گا۔ چنانچہ مکاشفات میں لکھا ہے کہ نبی کو ایک آسمانی آواز نے کہا کہ ’’بادل کی ان سات رعدوں سے جو بات ہوئی اس پر مُہر کر رکھ اور مت لکھ‘‘ (باب ادر س ۴)
میں نے تفصیلاً سورۃ فاتحہ کے نام اس لئے گنوائے ہیں تایہ بتائوں کہ سورتوں کے نام بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکھے ہوئے ہیں اور جیسا کہ سورۃ فاتحہ کے بعض ناموں سے ثابت ہے آپؐ نے بھی وہ نام الہاماً اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر رکھے ہیں۔
دوسرے میری غرض ان ناموں کے گنوانے سے یہ ہے کہ ان سے سورۃ فاتحہ کے وسیع مطالب پر روشنی پڑتی ہے یہ تو نام در حقیقت دس مضمون ہیں جو سورۃ فاتحہ بیان کرتی ہے وہ فاتحۃ الکتاب ہے۔ یعنی قرآن کریم میں سب سے پہلے اس کے رکھنے کا حکم ہے دوسرے وہ مطالب قرآنی کے لیے بمنزلہ ایک کلید کے ہے کہ اس کے ذریعہ سے قرآن کریم کے
مطالب کھلتے ہیں۔ پھر سورۃ فاتحہ سورۃ الحمد ہے یعنی اس سورۃ نے انسان اور بندہ کے تعلقات پر اور انسانی پیدائش پر اس رنگ میں روشنی ڈالی ہے کہ اس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ انسانی پیدائش اعلیٰ ترقیات کے لئے ہے اور یہ کہ خدا تعالیٰ کا تعلق بندوں سے رحم اور فضل کی بنیادوں پر قائم ہے۔ پھر وہ الصّلوٰۃ ہے یعنی کامل دعا اس میں سکھائی گئی ہے جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی اور وہ امّ الکتاب ہے اس میں وہ تمام علوم جن کے ذریعہ سے دوسروں کو خطاب کیا جاتا ہے بیان کروئے گئے ہیں اور یہ بھی کہ وہ کتاب کریم یعنی قرآن مجید کے لئے بمنزلہ ماں کے ہے یعنی قرآن کریم کے نزول کا موجب وہ دعائیں ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں اور جو درد مند دلوں سے اُٹھ کر عرض عظیم سے قرآن کریم کو لائی ہیں اور وہ امّ القرآن ہے اس میں وہ تمام علوم جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بیان کر دیئے گئے ہیں اور وہ السبع المثانی ہے یعنی گو صرف سات آیتیں اس میں ہیں لیکن ہر ضرورت ان سے پُوری ہو جاتی ہے۔ روحانیت کا کوئی سوال ہو کسی نہ کسی آیت سے اس پر روشنی پائی جائیگی گویا علمی سوالوں کے حل کرتے وقت بار بار حوالہ کے طو رپر اس کی سات آیتیں دُہرائی جائیں گی اور اس لئے بھی وہ مثافی ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں اسے پڑھا جاتا ہے۔
وہ قرآن عظیم بھی ہے یعنی باوجود ام الکتاب اور امّ القرآن کہلانے کے وہ قرآن کریم کا حصہ بھی ہے اور اس سے الگ نہیں جیسا کہ بعض لوگوں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے قرآن عظیم سورۃ فاتحہ کو انہی معنوں سے کہا گیا ہے جس طرح ہم کسی سے کہتے ہیں قرآن سُنائو اور مراد اس سے ایک سورۃ ایک رکوع ہوتا ہے۔
سورۃ فاتحہ شفا ہے کہ اس میں تمام ان وساوس کا رد ہے جو انسان کے دل میں دین کے بارہ میں پیدا ہوتے ہیں او روہ رُقْیَۃ ہے کہ علاوہ دم کے طور پر استعمال ہونے کے اس کی تلاوت شیطان اور اس کی ذریت کے حملوں سے انسان کو کو بچاتی ہے اور دل میں ایسی قوت پیدا کرتی ہے کہ شیطان کے حملے بے ضرر ہو جاتے ہیں اور وہ کنز بھی ہے کہ علوم و فنون کے اس میں دریا بہتے ہیں۔ اُردو میں دریا کوزے میں بند کرنے کا ایک محاورہ ہے اس کا صحیح مفہوم شاید سورۃ فاتحہ کے سوا اور کسی چیز سے ادا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس سورۃ کے بارہ میں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ سمندر کوزہ میںبند کر دیا گیا ہے۔
غرض اسماء کے گنانے سے میرا منشاء پڑھنے والے کے ذہن کو ان وسیع مطالب کی طرف توجہ دلانا تھا جو رسول کریم صلعم نے مختلف ناموں کے ذریعہ سے اس سورۃ کے بیان فرمائے ہیں ورنہ حقیقت سے خالی نام کسی سورۃ کے نو چھوڑ سو بھی ہوں تو ان سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا اور رسول کریم صلعم ایسا بے فائدہ فعل ہر گز نہیں کر سکتے تھے۔ پس سوچنے والوں کے لئے ان ناموں میں ایک اعلیٰ روشنی اور کامل ہدایت ہے۔ فضائل سُورۃ فاتحہ اس سورۃ کے بہت سے فضائل حدیثوں میں بیان ہیں۔ جن میں سے بعض کی طرف تو میں اس کے ناموں میں اشارہ کر چکا ہوں اور بعض جو زیادہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ان کا ذکر اب کرتا ہوں۔ نسائی نے ابی بن کعب سے روایت کی ہے
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلّم مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی اْلِانْجِیْلِ مِثْلَ اُمِّ الْقُرآنِ وَھِیَ الْسَّبْعُ المَثَانِی وَھِیَ مَقْسْومَۃ بَیْنیِ وَبَیْنَ عَبْدِی وَلِعَبْدِی مَاسَأَلَ (کتاب الافتتاح فضل فاتحۃ الکتاب)
) یعنی رسول اللہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے نہ توراۃ میں نہ انجیل میں کوئی ایسی سورہ اُتاری ہے جیسے کہ امّ القرآن (یعنی سورۃ فاتحہ) ہے اور اس کا ایک نام السبع المثانی بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بارہ میں مجھے فرمایا ہے کہ وہ میرے اور میرے بندے کے
درمیان بحصّہ مساوی بانٹ دی گئی ہے اور اس کے ذریعہ سے میرے بندے جو دُعا مجھ سے کریں گے وہ ضرور قبول کی جائے گی۔ یہ فضیلت نہایت اہم ہے کیونکہ اس میں ایک عملی گر بتایا گیا ہے جو انسان کے لئے دین و دُنیا میں مفید ہے یعنی جو دُعا اس کے ذریعہ سے کی جائے وہ قبول کی جاتی ہے۔
ظاہر ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو ذریعہ دُعا کو قبول کر وا دیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ ذریعہ کیا ہے؟ جیسا کہ اس سورۃ کی عبارت سے ظاہر ہے وہ ذریعہ اوّل
بِسْمِ اللّٰہِ
دوم
اَلْحَمْدُللّٰہِ
سوم
الرَّحْمٰن
۔ چہارم الرَّحْیِم او رپنجم
مٰلکِ یَوْمِ الدِّیْن
اور ششم اور ہفتم
ایّاک نَسْتَعِیْن
ہے گویا جس طرح سات آیتوں کی یہ سورۃ ہے اسی طرح سات اصول دُعا کی قبولیت کے لیے اس میں بیان کئے گئے ہیں بِسْمِ اللّٰہ یہ بتایا گیا ہے کہ جس مقصد کے لئے دُعا کی جائے وہ نیک ہو یہ نہیں کہ جو چوری کے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرے تو وہ بھی قبول کر لی جائے گی۔ خدا کا نام لیکر اور اس کی استعانت طلب کر کے جو دُعا کی جائے گی لازماً ایسے ہی کام کے متعلق ہو گی جس میں اللہ کی ذات بندہ کے ساتھ شریک ہو سکتی ہو۔ دیکھو ان مختصر الفاظ میں دُعا کے حلقہ کو کس طرح واضح کر دیا گیا ہے۔ میں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے۔ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی دُعائیں کرتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ ہماری دُعاقبول نہیں ہوئی۔ اسی طرح ناجائز مطالب کے لئے دُعائیں کرتے ہیںاور پھر شکایت کرتے ہیں کہ دُعا قبول نہیں ہوئی۔ بعض لوگوں نے جھوٹا جامہ زہد و اتقا کا پہن رکھا ہے اور ناجائر امور کے لئے تعویذ دیتے اور دُعائیں کرتے ہیں حالانکہ یہ سب دُعائیں اور تعویذ عاملوں کے مُنہ پر مارے جاتے ہیں۔ دوسرا اصلی
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن
میں بتایا ہے یعنی دُعا ایسی ہو کہ اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے دوسرے بندوں کا بلکہ سب دُنیا کا فائدہ ہو یا کم سے کم ان کا نقصان نہ ہو اور اس کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کے حمد ثابت ہوتی ہو اور اس پر کسی قسم کا الزام نہ آتا ہو۔ تیسرے یہ کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو جنبش دی گئی ہو اور اس دُعا کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ظاہر ہوتی ہو۔ چوتھے یہ کہ اس دُعا کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے بھی ہو یعنی وہ نیکی کی ایک ایسی بنیاد ڈالتی ہو جس کا اثر دُنیا پر ایک لمبے عرصہ تک رہے اور جس کی وجہ سے نیک اور شریف لوگ متواتر فوائد حاصل کریں یا کم سے کم ان کے راستہ میں کوئی روک نہ پیدا ہوتی ہو۔ پانچویں یہ کہ دُعا میں اللہ تعالیٰ کی صفت مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کا بھی خیال رکھا گیا ہو یعنی دُعا کرتے وقت ان ظاہری ذرائع کو نظر انداز نہ کر دیا گیا ہو جو صحیح نتائج پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تجویز کئے ہیں کیونکہ وہ سامان بھی اللہ تعالیٰ نے ہی بنائے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے طریق کو چھوڑ کر اس سے مدد مانگنا ایک غیر معقول بات ہے گویا جہاں تک اسباب ظاہری کا تعلق ہے بشرطیکہ وہ موجود ہو ںیا ان کا مہیّا کرنا دُعا کرنے والے کے لئے ممکن ہو ان کا استعمال بھی دُعا کے وقت ضروری ہے ہاں اگر وہ موجود نہ ہو ںتو پھر
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن
کی صفت اسباب سے بالا ہو کر ظاہر ہوتی ہے ایک اشارہ اس آیت میں یہ بھی کیا گیا ہے کہ دُعا کرنے والا دوسروں سے بخشش کا معاملہ کرتا ہو اور اپنے حقوق کے طلب کرنے میں سختی سے کام نہ لیتا ہو۔ چھٹا اصل یہ بتایا ہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق ہو اور اس سے کامل اخلاص حاصل ہو اور وہ شرک اور مشرکانہ خیالات سے کلی طو رپر پاک ہو۔ اور ساتویں بات یہ بتائی ہے کہ وہ خدا کا ہی ہو چکا ہو اور اس کا کامل توکل اسے حاصل ہو اور غیر اللہ سے اس کی نظر بالکل ہٹ جائے اور وہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ خواہ کچھ ہو جائے اور کوئی بھی تکلیف
ہو۔ مانگوں گا تو خدا تعالیٰ ہی سے مانگوں گا۔
یہ سات امور وہ ہیں کہ جب انسان ان پر قائم ہو جائے تو وہ لعبدی ماسأل کا مصداق ہو جاتا ہے اور حق بات یہ ہے کہ اس قسم کی دُعا کا کامل نمونہ رسول کریم صلعم یا آپؐ کے کامل اتباع نے ہی دکھایا ہے اور انہی کے ذریعہ سے دُعائوں کی قبولیت کے ایسے نشان دُنیا نے دیکھے ہیں جن سے اندھوں کو آنکھیں اور بہروں کو کان اور گونگوں کو زبان عطا ہوئی ہے مگر اتباع رسول کا مقام بھی کسی کے لئے بند نہیں جو چاہے اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کر سکتا ہے اور اس مقام کو حاصل کر سکتا ہے۔
بخاریؒ نے سعید ابن المعلّی سے ایک روایت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ آو۔ میں تمہیں قرآن کریم کی سب سے بڑی سورۃ سکھائوں اور پھر سورۃ فاتحہ سکھائی (بخاری کتاب فضائل القرآن باب فاتحہ الکتاب) آپؐ نے جو اسے اعظم السُّوَر فرمایا تو اس کے یہی معنی ہیں کہ اس کے معانی اور مطالب لمبی لمبی سورتوں سے بھی زیادہ ہیں اور کیوں نہ ہو کہ یہ سارے قرآن کریم کے لئے بطور متن کے ہے۔
میں اس جگہ ایک اپنا مشاہدہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ میں چھوٹا ہی تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا۔ میں مشرق کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوں اور سامنے میرے ایک وسیع میدان ہے۔ اس میدان میں اس طرح کی ایک آوار پیدا ہوئی جیسے برتن کو ٹھکورنے سے پیدا ہوتی ہے یہ آواز فضا میں پھیلتی گئی اور یُوں معلوم ہوا کہ گویا وہ سب فضاء میں پھیل گئی ہے اس کے بعد اس آواز کا درمیانی حصہ متمثل ہونے لگا او راس میں ایک چوکھٹا ظاہر ہونا شروع ہوا جیسے تصویروں کے چوکھٹے ہوتے ہیں پھر اس چوکھٹے میں کچھ ہلکے سے رنگ پیدا ہونے لگے آخر وہ رنگ روشن ہو کر ایک تصویر بن گئے اور اس تصویر میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ ایک زندہ وجود بن گئی اور میں نے خیال کیا کہ یہ ایک فرشتہ ہے۔ فرشتہ مجھ سے مخاطب ہوا اور اس نے مجھے کہا کہ کیا میں تم کو سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھاووں تو میں نے کہا کہ ہاں آپ مجھے ضرور اس کی تفسیر سکھائیں پھر اس فرشتہ نے مجھے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کی یہاں تک کہ وہ
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ ایَّاکَ نَسْتَعِیْن
تک پہنچا۔ یہاں پہنچ کر اس نے مجھے کہا کہ اس وقت تک جس قدر تفاسیر لکھی جا چکی ہیں وہ اس آیت تک ہیں۔ اس کے بعد کی آیات کی کوئی تفسیر اب تک نہیں لکھی گئی۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا۔ کیا میں اس کے بعد کی آیات کی تفسیر بھی تم کو سکھاووں اور میں نے کہا ہاںجس پر فرشتہ نے مجھے اِھْدِنَا
الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمْ
اور اس کے بعد کی آیات کی تفسیر سکھانی شروع کی اور جب وہ ختم کر چکا تو میری آنکھ کھل گئی اور جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ اس تفسیر کی ایک دو باتیں مجھے یاد تھیں۔ لیکن معاً بعد میں سو گیا اور جب اُٹھا تو تفسیر کا کوئی حصّہ بھی یاد نہ تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے ایک مجلس میں اس سورۃ پر کچھ بولنا پڑا اور میں نے دیکھا کہ اس کے نوے نئے مطالب میرے ذہن میں نازل ہو رہے ہیں اور میں سمجھ گیا کہ فرشتہ کے تفسیر سکھانے کا یہی مطلب تھا۔ چنانچہ اس وقت سے لیکر آج تک ہمیشہ اس سورۃ کے نئے نئے مطالب مجھے سکھائے جاتے ہیں۔ جن میں سے سینکڑوں میں مختلف کتابوں اور تقریریوں میں بیان کر چکا ہو ںاو راس کے باوجود خزانہ خالی نہیں ہوا۔ چنانچہ دُعا کے متعلق جوگر اس سورۃ میں بیان ہوئے ہیں اور جن کا ذکر میں اُوپر کر آیا ہوں وہ بھی انہی تجارت میں سے ہیں۔ کیونکہ سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھتے وقت میرے دل میں خیال گذرا کہ اس موقعہ پر بھی اللہ تعالیٰ کوئی نئے مطالب اس سورۃ کے کھولے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سات اصول کا انکشاف ہوا جو دُعا کے متعلق اس سورۃ میں بیان ہیں۔
فالحمدللّٰہِ علیٰ ذٰلک
۔ اور جو کچھ لکھا گیا ہے محض خلاصہ کے طور پر لکھا گیا ہے ورنہ ان اصول میں بہت وسیع مطالب پوشیدہ ہیں۔
ذٰالِکَ فَضْلُ اللّٰہ یُؤْتِیْمَنِْ یَّشَائِ۔
سُورۃ فاتحہ کا نزول اس سورۃ کے نزول کے بارہ میں ابن عباسؓ قتادہ اور ابو العالیہ کا بیان ہے کہ یہ مکی سورۃ ہے اور ابوہریرۃؓ اور مجاہد اور اور عطاء اور زہری کا قول ہے کہ یہ مدنی ہے لیکن قرآن کریم سے ظاہر ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہو چکی تھی۔ کیونکہ اس کا ذکر سورہ الحجر میں جو بالا جماع مکی سورۃ ہے ان الفاظ میں آ چکا ہے۔
وَلَقَدْ آیَتَنَاکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَاِنِیْ وَ الْقُرْآنِ الْعَظِیْم (الحجر ع ۶) (قرطبی
) بعض آئمہ کا خیال ہے کہ دو دفعہ یہ سورۃ نازل ہوئی ہے ایک دفعہ مکہ میں اور دوسری دفعہ مدینہ میں پس یہ مکی بھی ہے او رمدنی بھی (قرطبی میں بحوالہ ثعلبی یہ روایت لکھی ہے مگر ثعلبی کی تفسیر میں جو مطبوعہ الجزائر ہے یہ رائے درج نہیں۔ شائد ثعلبی کی کسی اور کتاب سے یہ رائے قرطبی نے درج کی ہو) میرے نزدیک یہی خیال درست ہے۔ اس کا مکی ہونا یقینی ہے اور اس کا مدنی ہونا کبھی معتبر رواۃ سے ثابت ہے۔ پس حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ دس دفعہ نازل ہوئی ہے اور جب دوسرے نزول کا رسول کریم صلعم نے کسی مجلس میں ذکر کیا تو بعض لوگوں نے سمجھا کہ یہ سورۃ نازل ہی مدینہ میں ہوئی تھی۔ حالانکہ آپؐ کا مقصد اس سے لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ یہ سورۃ مدینہ میں بھی نازل ہوئی ہے۔ اس کے مکی ہونے کا یہ ثبوت بھی ہے کہ تمام روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ ہمیشہ سے نماز میں پڑھی جاتی رہی ہے اور نماز باجماعت مکہ میں ہی پڑھی جانی شروع ہو گئی تھی بلکہ شروع زمانہ سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ سُورۃ فاتحہ قرآن کا حصّہ ہے بعض لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سورۃ فاتحہ قرآن کریم کا حصّہ نہیں ہے اور اس خیال کی دلیل یہ بتاتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے اپنے نسخہ میں سورۃ فاتحہ کو نہیں لکھا تھا مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے سورۃ فاتحہ اور معوذ تین یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس تینوں سورتیں قرآن کریم میں نہیں لکھی تھیں او ران کا یہ خیال تھا کہ سورۃ فاتحہ ہر سورۃ کے ساتھ چونکہ نماز میں پڑھی جاتی ہے اس لئے یہ ہر سورۃ کی تمہید ہے اور غالباً معوذ تین کے بارہ میں بھی ان کا یہ خیال تھا کہ بوجہ اس کے کہ ان کا مضمون مختلف نقصانات اور شرور سے بچنے کی دُعا پر مشتمل ہے اس لئے وہ گویا باوجود قرآن عظیم کا حصّہ ہونے کے متن قرآن سے باہر ہیں اور وہ غالباً انہیں بھی ہر سورۃ سے متعلق سمجھتے تھے۔ سورۃ فاتحہ کے بارہ میں تو ان کے اس خیال کا ذکر احادیث سے ثابت ہے چنانچہ ابوبکر الانباری نے عن الاعمش عن ابراھیم ایک حدیث نقل کی ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنے نسخۂ قرآن میں سورۃ فاتحہ کیوں نہیں لکھی تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ
لَوْکَتَبَتُہَا لَکَتبتُہَا مَعَ کُلِّ سُورَۃٍ۔
یعنی اگر میں سورۃَ بقرہ سے پہلے اسے لکھتا تو سب سورتوں کے ساتھ لکھتا یعنی یہ سورۃ ہر سورۃ سے متعلّق ہے اس لئے میں نے اسے حذف کر دیا ہے تایہ غلط فہمی نہ ہو کہ صرف سورۃ بقرہ کے ساتھ اس کا تعلّق ہے (قرطبی) معلوم ہوتا ہے یہی استدلال معوذ تین کے بارہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کیا ہے ورنہ وہ سورہ جسے رسول کریم صلعم نے صاف طو رپر قرآن کریم کی سورتوں میں سے سب سے بڑی قرار دیا ہے (بخاری عن سعید بن المعلّی) اسے کس طرح قرآن کریم سے خارج قرار دے سکتے تھے۔
سورۃ افتحہ ہر نماز میں اور ہر رکعت میں پڑھنی ضروری ہے سوائے اس کے کہ مقتدی کے نماز میں شامل ہونے سے پہلے امام رکوع میں جا چکا ہو اس صورت میں اسے تکبیر کہہ کر بغیر کچھ پڑھے رکوع میں چلے جانا چاہیئے۔ امام کی قراء ت ہی اس کی قراء ت سمجھ لی جائے گی۔ سورۃ فاتحہ کے نماز میں پڑھنے کی تاکید مختلف احادیث میں آئی ہے۔ مسلم میں آتا ہے حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے کہ قَالَ (رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّے اللّٰہ علیہ وسلّم)
مَنْ صَلّٰی صَلوٰۃَّ لَمْ یَقْرَأَ فِیْہَا بِاُمِّ
الْقُرْآنِ فَھِیَ خِداجٌ (مسلم کتاب الصلوۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃٍ) یعنی جس نے نماز ادا کی مگر اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز
ناقص ہے اور بخاری مسلم میں عبادۃ بن الصامت کی روایت ہے کہ رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ یعنی جس نے فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی اور صحیح بن خزیمہ اور ابن حباب میں ابوہریرۃؓ سے بھی ایسی ہی روایت آتی ہے (قرطبی) نیز ابو دائود میں حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ
اَمَرَنِی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ اُنادِی اَنَّہٗ لَاصَلوٰۃَ اِلَّا بِقِراَء ۃِ فَاتِحَۃِ الکِتَابِ نَمَازَ ادَ (کتاب الصلوۃ باب من ترک القراء ۃ فی صلوتہ)
یعنی رسول کریم صلعم نے مجھے حکم دیا کہ میں لوگوں میں اعلان کر دوں کہ کوئی نماز بغیر اس کے نہیں ہوسکتی کہ سورۃ فاتحہ او راس کے ساتھ کچھ اور حصہ قرآن کریم کا پڑھا جائے۔
صحابہ میں سے حضرت عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ، ابوہریرۃؓ، ابی بن کعبؓ، ابو ایوب انصاریؓ، عبداللہ بن عمر بن العاصؓ، عبادۃ بن الصامت، ابو سعید ضدریؓ، عثمان بن ابی العاصؓ خوات بن جبیر اور عبداللہ بن عمر سے یہی عقیدہ احادیث میں مذکور ہے (قرطبی)
ابن ماجہ میں حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت آتی ہے کہ یعنی جو شحص ہر رکعت میں الحمدللہ اور کوئی اور سورۃ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور یہ حکم فرض نماز اور غیر فرض نماز سب کے متعلق ہے (ابن ماجہ کو محققین نے ضعیف کہا ہے مگر جبکہ صحابہ کا تعامل یہی ہے کہ اس کے مضمون کی صحت میں کلام نہیں ہو سکتا۔ ابو دائود کی ایک اور روایت بھی اس کی تائید میں ہے اور وہ عبادۃ بن الصامت سے مروی ہے۔ نافع بن محمود بن الربیع انصاری کہتے ہیں کہ ایک جگہ حضرت عبادۃ امام الصلوٰۃ تھے ایک دفعہ وہ دیر سے پہنچے اور ابو نعیم نے نماز شروع کر ا دی۔ نماز شروع ہو چکی تھی کہ عبادۃ بھی آ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا ہم صفوں میں کھڑے ہو گئے۔ ابو نعیم نے جب سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع کی۔ تو میں نے سنا کہ عبادۃ بھی آہستہ آہستہ سورۃ فاتحہ پڑھتے رہے۔ جب نماز ختم ہوئی۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ جبکہ ابو نعیم بالج ہر نماز پڑھا رہے تھے آپ بھی ساتھ ساتھ سورۃ فاتحہ پڑھتے جا رہے تھے یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہے کہ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے۔ رسول کریم صلعم نے ایک دفعہ ہمیں نماز پڑھائی اور سلام پھیر کر جب بیٹھے تو پوچھا کہ جب میں بلند آواز سے نماز میں تلاوت کرتا ہوں تو کیا تم بھی منہ میں پڑھتے رہتے ہو۔ بعض نے کہا ہاں۔ بعض نے کہا نہیں اس پر آپؐ نے فرمایا
لَاتَقْرَؤْا بِشیًٔ مِنَ القُرآنِ اِذَا جَھَرْتُ اِلَّابِاُمِّ القُرآنِ (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب من ترک القرأۃ فی صلوتہ)
جب میں بلند آواز سے قرآن کریم نماز میں پڑھوں تو سوائے سورۃ فاتحہ کے اور کسی سورۃ کی تلاوت تم ساتھ ساتھ نہ کرو۔ اس بارہ میں اور بہت سی احادیث بھی ہیں۔ مثلاً وار قطنی نے یزید بن شریک سے روایت کی ہے اور اسکے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے کہ
سَأَلْتُ عُمَرَ عَنْ الْقِرَائَ ۃِ خَلْفَ الْاِمَاِ فَاَمًر فِی اَنْ اَقْرَأَ قُلْتُ وَ اِنْ کُنْتَ اَنْتَ قَالَ وَاِنْ کُنْتُ اَنَا قُلْتُ وَاِنْ جَرْتَ قَالَ وَاِنْ جَرْتُ۔
یعنی میں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ کیا میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھا کروں انہوں نے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا کیا جب آپ نماز پڑھا رہے ہوں تب بھی۔ انہوں نے کہا خواہ میں نماز پڑھا رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ کیا جب بلند آواز سے پڑھا رہے ہوں۔ تب بھی انہوں نے کہا ہاں تب بھی۔ (دار قطی جلد اوّل کتاب الصلوۃ باب و جوب قراء ۃ ام لکتاب فی الصلوۃ) حضرت مسیح موعودؑ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے بھی پڑھنی چاہیے خواہ وہ جہرًا نماز پڑھا رہا ہو سوائے اس کے کہ مقتدی رکوع میں آ کر ملے۔ اس صورت میں وہ تکبیر کہہ
رکوع میں شامل ہو جائے اور امام کی قراء ت اس کی قراء ت سمجھی جائے گی۔ یہ ایک استثناء ہے استثناء سے قانون نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح یہ بھی استثناء ہے کہ کسی شخص کو سورۃ فاتحہ نہ آتی ہو۔ مثلاً نو مسلم ہے جس نے ابھی نماز نہیں سیکھی۔ یا بچہ ہو جسے ابھی قرآن نہیں آتا تو اس کی نماز فقط تسبیح و تکبیر سے ہو جائے گی خواہ وہ قرآن کریم کا کوئی حصہ بھی نہ پڑھے سورۃ فاتحہ بھی نہ پڑھے۔
سُورۃ فاتحہ کے مضامین کا خلاصہ
سورۃ فاتحہ مضامین جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے قرآن کریم کے لئے بطور دیباچہ کے ہیں۔ قرآن کریم کے مضامین کو مختصر طو رپر اس میں بیان کر دیا گیا ہے تاکہ پڑھنے والے کو شروع میں ہی قرآنی مطالب پر اجمالاً آگاہی ہو جائے۔ پہلے بسم اللہ سے شروع کیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ ایک مسلمان (۱) خدا تعالیٰ پر یقین رکھتا ہے (بسم اللہ) (۲) وہ اس امر پر بھی یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ فلسفیوں کے عقیدہ کے مطابق صرف دُنیا کے علّتِ اولیٰ کا کام نہیں دے رہا بلکہ دُنیا کے کام اس کے حکم اور اشارہ سے چل رہے ہیں اس لئے اس کی مدد اور اعانت بندہ کے لئے بہت کچھ کار آمد ہو سکتی ہے (بسم اللہ) (۳) وہ صرف ایک اندرونی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ مستقل وجود رکھتا ہے اور اس کا مستقل نام ہے اور مختلف صفات سے وہ متصف ہے (
اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم)
(۴) وہ منبع ہے سب ترقیات کا اور تمام سامان جن سے کام لے کر دُنیا ترقی کر سکتی ہے اسی کے قبضہ میں ہیں (
الرّحمٰن
) (۵) اس نے انسان کو اعلیٰ ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے۔ جب وہ اللہ کے پیدا کردہ سامانوں سے صحیح طو رپر کام لیتا ہے تو اس کے کام کے اعلیٰ نتائج پیدا ہوتے ہیں جو اسے مزید انعامات کے مستحق بنا دیتے ہیں اور بناتے چلے جاتے ہیں (
الرّحیم)
(۶) اس کے سب کاموں میں جامعیت اور کمال پایا جاتا ہے اور ہر حُسن سے وہ متصف ہے اور سب تعریفوں کا مالک ہے کیونکہ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے سب اسی کا پیدا کردہ ہے (
اَلْحَمُدلِلّٰہِ رَبٌ العٰلمیْنَ)
(۷) کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی نہیں جس کی ابتدا اور انتہاء یکساں ہو بلکہ اس کے سوا جس قدر اشیاء ہیں ادنیٰ حالت سے شروع ہوئی ہیں اور ترقی کرتے کرتے کمال کو پہنچی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ سب اشیاء کا خالق ہے او رکوئی چیز آپ ہی آپ نہیں
(ربّ العٰلمین)
(۸) یہ دنیا ایک متنوع دنیا ہے یعنی اس کی ہزاروں شاخیں ہیں اور ہزاروں قسم کے مزاج ہیں پس کسی چیز کے سمجھنے کے لیے اس کی جنس پر غور کرنا چاہیئے۔ نہ کہ دوسری جنس کی اشیاء پر خدا تعالیٰ کا معاملہ ہر جنس سے اس کی حیثیت کے مطابق ہے۔ پس دنیا میں خدا تعالیٰ کے سلوک میں اگر اختلاف نظر آئے تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے۔ وہ اختلاف حالات کے اختلاف کی وجہ سے ہے نہ کہ ظلم کی وجہ سے یا عدم توجہ کی وجہ سے (
رَبّ العٰالَمین)
(۹) جس طرح اللہ تعالیٰ ہر کام لینے والی شے کا خالق نظر اتا ہے وہ ہر سامان کا بھی خالق نظر آتا ہے پس ہر چیز ہر وقت اس کی مدد کی محتاج ہے۔ (
اَلرَّحْمٰن
) (۱۰) پھر جس طرح خدا تعالیٰ اشیاء اور ان سامانو ںکا خالق ہے جن سے ان اشیاء نے فائدہ اُٹھانا ہے اسی طرح وہ ان نتائج پربھی تصّرف رکھتا ہے جو سامانوں کے استعمال کرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں مثلاً انسان کو بھی اس نے پیدا کیا ہے اور اس کھانے کو بھی اس نے پیدا کیا ہے جو اس کی زندگی کے لئے ضروری ہے اور پھر وہ اچھا یا بُرا خون جو اس کھانے کے استعمال سے پیدا ہو گا وہ بھی اسی کے حکم اور امر سے ہی ہو گا
(اَلْرَّحِیم
) (۱۱) پھر اس نے جزا سزا کا بھی ایک طریق مقرر کیا ہے یعنی ہر چیز اپنے حالات کے مطابق اپنے کامو ںکے اچھے یا بُرے نتائج کا مجومعی نتیجہ ایک دن دیکھ لیتی ہے یعنی کاموں کے نتیجے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک درمیانی کہ ہر کام کا نتیجہ کچھ نہ کچھ نکلتا آتا ہے او رایک آخری
کہ سب کاموں کا مجموعی نتیجہ نکلتا ہے سو اللہ تعالیٰ نے صرف یہی انتظام نہیں کیا کہ ہر کام کا نتیجہ نکلے جس کی طرف رحیم کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے بلکہ اس نے یہ تدبیر بھی اختیار کی ہے کہ سب کاموں کا ایک مجموعی نتیجہ نکلے جس کے سبب سے وہ
مٰلِکِ یَوْمِ الذِّیْن
کہلاتا ہے۔ (۱۲) پس ایسی ہی ہستی اس امر کی مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسی سے محبت کا تعلق رکھا جائے (
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ)
(۱۳) پھر بتایا ہے کہ انسانی ترقی کا انحصار دو امر پر ہے۔ اعمالِ بدن اور اعمالِ قلب پر (اعمالِ قلب سے مُراد فکر خیال عقیدہ ارادہ وغیرہ ہیں) ان دونوں کی اصلاح ضروری ہے اور یہ اصلاح بغیر اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے نہیں ہو سکتی
(اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتِعِیْنُ)
(۱۴) پھر یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے بندوں سے ملنے کی اور ان کی اصلاح کی خود خواہش رکھتا ہے صرف اس امر کی ضرورت ہے کہ بندہ اس کی طرف جھکے اور اس کی ملاقات کے لیے اسی سے التجا کرے
(اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم)
(۱۵) پھر یہ بتایا ہے کہ بظاہر خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے بہت سے راستے نظر آتے ہیں لیکن صرف راستہ کا معلوم ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ (الف) وہ راستہ سب سے چھوٹا ہوتا انسان جدوجہد کے دوران میں ہی ہلاک نہ ہو جائے (
صِرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ)
(ب) وہ راستہ دیکھا بھالا ہو اور اس پر چل کر لوگوں نے خدا کو پایا ہو تاکہ درمیانی خطرات اور ان کے علاج کا بندہ کو پہلے سے علم ہو جائے تادل مطمئن رہے اور مایوسی پیدا نہ ہو اور اچھے ساتھیوں کی صحبت نصیب رہے پس ایسا راستہ اللہ تعالیٰ سے طلب کرنا چاہیئے (
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ
)(۱۶) ترقیات کے ملنے کی صورت میں دل میں کبر اور خود پسندی کے خیالات پیدا ہو کر انسان کو تباہ کر دیتے ہیں پس ان سے بچتے رہنا چاہیئے۔ اور ترقیات کو ظلم اور فساد کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیئے بلکہ امن اور خدمت کا ذریعہ بنانا چاہیئے۔ اور اللہ تعالیٰ ہے اس غرض کے لئے دُعائیں کرتے رہنا چاہیئے (
غَیْرِ الْمّغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ)(
۱۷) جس طرح انسان ترقیات کو ظلم کا ذریعہ بنا لیتا ہے کبھی وہ ادنیٰ اشیاء کو رحم اور ناجائز محبت کی وجہ سے اونچا درجہ بھی دے دیتا ہے۔ اس سے بھی بچنا چاہیئے اور اس نیکی کے حُصول کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے رہنا چاہیئے
(وَلَا الضّآلِّیْن)
۲؎ حل لغات
(باء) بسم اللہ کی ابتداء ہیں جو باء آوی ہے وہ حروف ہجاء کا حرف نہیں بلکہ بامعنی حرف ہے عربی زبان میں حروف سے ہجاء کا کام لینے کے علاوہ معنوں کا کام بھی لیا جاتا ہے اور بعض حروف ہجاء کی علامت ہونے کے علاوہ بعض معنے بھی دیتے ہیں۔ ان حروف میں سے باء بھی ہے۔ یہ حروف ہجاء کا دوسرا حرف بھی ہے اور بامعنی حرفوں میں سے بھی ہے اس کے معنی معیت اور استعانت کے ہیں اور اس کا لفظی ترجمہ سے اور ساتھ ہے مگر چونکہ ان لفظوں سے معنی واضح نہیں ہوتے اس لئے لیکر ترجمہ کیا گیا ہے جو دونوں معنوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے زیادہ مناسب ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پکڑتے ہوئے اور اس سے مدد مانگنے ہوئے میں یہ کلام پڑھنے لگا ہوں۔
باء حروف جارہ میں سے ہے یعنی جس اسم پر یہ حرف آتے ہیں اس کے آخری حرف پر زیریا زیر کی علامت آتی ہے۔ عربی قاعدہ کی رُوسے ان حروف سے پہلے اکثر ایک متعلق مخدوف ہوتا ہے جو عبارت کے مفہوم کے مطابق نکال لیا جاتا ہے۔ اس آیت سے پہلے
اِقرأْ یا اِشرَعْ