ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
صفحہ51
تین آیتیں ہیں) (ابن کثیر)
بظاہر سورتوں کے ذاتی فضائل کا ذکر ایک تعلیم یافتہ آدمی پر گراں گزرتا ہے کیونکہ کسی سورۃ کا صرف سورۃ کے ہونے کے لحاظ سے کوئی خاص اثر رکھنا بے معنی سا معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اس امر کو اس نگہ سے دیکھا جائے کہ ہر سورۃ خاص مضمون پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ مضمون ضرور قلب پر کوئی اثر چھوڑتا ہے تو فضائل کا بیان آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سورۃ بقرہ کے یاد کرنے پر ایک نوجوان کو لشکر کا امیر بنا دیا۔ اس میں کئی حکمتیں تھیں۔ اوّل آپؐ نے اس طرح دوسرے لوگوں کے دلوں میں زیادہ سے زیادہ قرآن یاد کرنے اور یاد رکھنے کی خواہش پیدا کی۔ اسلامی لشکروں کی سرداری مالی لحاظ سے منفعت بخش نہ تھی مگر اپنے روحانی باپ کی خوشنودی کی جو قدر صحابہ کے دل میں تھی اسے صرف محبت کی چاشنی سے واقف لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں دوسرے اس میں یہ بھی حکمت تھی کہ اس زمانہ میں جو سردار لشکر ہوتا تھا وہی عام طو رپر امام الصلوٰۃ بھی ہوتا تھا اور اسی سے لوگ مسائل وغیرہ بھی دریافت کرتے تھے۔ اور سورۃ بقرہ میں باقی سب سورتوں سے زیادہ مسائل بیان ہوئے ہیں یہاں تک کہ حضرت ابن العربی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استادوں میں سے ایک اُستاد سے سُنا ہے کہ سورۃ بقرہ میں ایک ہزار حکم ہے اور ایک ہزار مناہی ہے اور ایک ہزار فیصلے اور ایک ہزار خبریں ہیں (قرطبی) یہ صوفیانہ رنگ کی بات ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں ہو سکتا کہ سورۃ بقرہ میں مضامین کی نوعیت اور احکام اسلام کی وسعت اس قدر ہے کہ دوسری سورتوں میں سے کسی میں بھی اس قدر نہیں ہے۔
یہ جو آپؐ نے فرمایا کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے اس میں شیطان نہیں آتا اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ اس سورۃ میں شیطانی وساوس کا ایسا رد موجود ہے کہ اس پر غور کرنے کے بعد شیطان گھر میں نہیں آ سکتا اور یہ جو فرمایا کہ صبح تک شیطان نہیں آتا اس سے اس طرف اشارہ کیا کہ تعلیم خواہ کیسی اعلیٰ ہو جب تک بار با دہرائی نہ جائے دل پر پورا اثر نہیں ہوتا اور نیک اثر خواہ کس قدر اعلیٰ ہو کچھ عرصہ کے بعد اگر اس کی تجدید نہ کی جائے زائل ہو جاتا ہے۔
اور یہ جو فرمایا کہ جو شخص سورۂ بقرہ کی پہلی چار آیتیں اور آیۃ الکرسی اور اس کے ساتھ کی دو آیتیں اور سورۂ بقرہ کی آخری تین آیتیں پڑھے اس کے گھر سے بھی شیطان بھاگ جاتا ہے اس سے بھی یہی مراد ہے کہ ان آیتوں میں اسلام کا خلاصہ ہے سورہ بقرہ کی پہلی آیتوں میں پاک عملی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے آیتہ الکرسی میں صفات باری کا نہایت لطیف نقشہ ہے اور سورۂ بقرہ کی آخری آیتوں میں دل کو پاک کر دینے والی دُعائیں ہیںاور یہ تین چیزیں یعنی (۱) الٰہی کلام کی متبع میں نیک اعمال کا بجا لانا (۲) صفات الٰہیہ پر غور کرنا (۳) او ران دونوں باتوں کے ساتھ دعا میں مشغول رہنا اور اپنے آپ کو آستانہ الٰہی پر گرا دینا جب اکٹھی ہو جائیں تو انسان کہ دل پاک ہو جاتا ہے اور شیطان بھاگ جاتا ہے۔
سورتوں کی ترتیب
یہ سورۃ قرآن کریم کی تفصیل سورتوں میں سے پہلی سورۃ ہے لیکن نزول کے لحاظ سے یہ سورۃ کلام الٰہی کے نزول کے چودھویں سال میں جا کر نازل ہونی شروع ہوئی اور کئی سال تک نازل ہوتی رہی۔ بالآخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے کچھ ہی عرصہ پہلے مکمل ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیوں نہ قرآن کریم کو اسی ترتیب سے جمع کیاگیا جس ترتیب سے کہ قرآن کریم نازل ہوا تھا؟ بعض دشمنانِ اسلام اور بعض مسلمانوں تک نے اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ سورتوں کی لمبائی چھوٹائی کے لحاظ سے
صفحہ52
قرآن کریم کو جمع کر دیا گیا ہے اور کسی معنوی ترتیب کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ یہ دعویٰ ایک نہایت لغو اور حقیقت سے دُور دعوی ہے کہ کیونکہ (۱) قرآن کریم کی سورتوں کی موجودہ ترتیب خود اس دعویٰ کو باطل کرتی ہے پہلی سورۃ فاتحہ ہے جو نہایت چھوٹی اور سات آیتوں کی سورۃ ہے۔ دوسری بقرۃ نہایت لمبی ہے تیسری آل عمران ہے جس کے بیس رکوع ہیں لیکن چوتھی نساء کے چوبیس رکوع ہیں اسی طرح اگلی سورتوں میں بھی کئی جگہ پر فرق ہے پس یہ کہنا کہ لمبائی کے مطابقوں سورتوں کو آگے پیچھے رکھ دیا گیا ہے درست نہیں۔ (۲) قرآن کا جمع کرنا کسی بندہ کا فعل نہیں بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فعل نہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰنَہٗ (القیامتہ ع ۱) یعنی قرآن کریم کا جمع کرنا اور اس کا دُنیا میں پھیلانا یہ دونو ںکام میں خود کروں گا اور میرے خاص حکم اور نگرانی سے یہ کام ہوں گے پس ایک مسلمان کے نزدیک تو یہ انسانی کام ہو ہی نہیں سکتا اور غیر مسلموں کے لئے وہ جواب ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے (۳) تیسرا جواب یہ ہے کہ سب سورتوں کے مضامین میں ترتیب موجود ہے اگر صرف لمبائی اور اختصار پر انہیں آگے پیچھے رکھا گیا تھا تو پھر سورتوں کے مضامین میں جوڑ اور اتصال کیونکر پیدا ہو گیا۔ جیسا کہ آگے چل کر تفسیر میں انشاء اللہ ثابت کیا جائے گا اور جس کا علم ہر سورۃ کے شروع اور آخر کے نوٹوں کو پڑھنے سے اس تفسیر کا مطالعہ کرنے والو ںکو ہو جائے گا۔ پس عیاں راچہ بیاں۔
بیشک یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگرموجودہ ترتیب خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو کیوںنہ اسی تریب میں اُتارا جو اس وقت موجود ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کلامِ حکیم کے لئے یہ امر لازمی ہے کہ اس کے اُترنے کی ترتیب اور اس کے جمع کرنے کی ترتیب الگ الگ ہو جب کوئی ایسا نبی دنیا میں آئے جو نئی شریعت لانے والا ہو اور جس نے عقائد اور اعمال کے متعلق ایک مکمل ہدایت نامہ دُنیا کو دینا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ترتیب نزول کے لحاظ سے اس کے الہام کا ابتدائی حصہ ترتیب تدوین کے لحاظ سے ابتدائی نہ ہو کیونکہ جن باتو ںکی ابتدائی دعویٰ کے وقت جبکہ لوگ اس نئے دین سے بالکل ناواقف ہوں گے سب سے پہلے پیش کرنے کی ضرور ت ہو گی ان باتوں کو اس وقت سب سے پہلے پیش کرنے کی ضرورت ہو گی جبکہ لوگ اس کے کلام سے ایک حد تک واقف ہو چکے ہونگے۔ پس اسی حکمت کے مطابق قرآن کریم کے نزول کی ترتیب او رہے اور اس کے جمع کرنے کی ترتیب اور ہے چناچنہ سورتوں کے نزول کا سوال آیتوں کے نزول کی کیفیت سے حل ہو جاتا ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپؐ کا بتوں کو بلوا کر حکم فرما دیتے تھے کہ فلاں آیت کو فلاں جگہ پر رکھو او رفلاں کو فلاں جگہ پر (ابو دائود۔ ترمذی۔ احمد بحوالہ مشکوٰۃ کتاب فضائل القرآن نیز فتح الباری جلد ۹ صفحہ ۱۹،۲۰،۳۹) اگر صرف نزول کی ترتیب کافی ہوتی تو جب کوئی آیت نازَ ہوتی اسے اس سے پہلے کی نازل شدہ آیتوں کے ساتھ رکھ دیا جاتا۔
سورۃ بقرہ ہی کو دیکھ لو۔ اس کی رباء کی آیات قرآن کریم کے سب سے آخر میں نازل ہونے والے ٹکڑوں میں سے ایک ہیں لیکن وہ سورۃ بقرہ کے آحر میں نہیں رکھی گئیں۔ بلکہ کئی رکوع پہلے رکھی گئی ہیں۔ اسی طرح وَاتَّقُوْا یَوْمًا والی آیت جس کی نسبت احادیث میں آتا ہے کہ حجتہ الوداع میں نازل ہوئی سورۃ کے آخر میں نہیں رکھی گئی۔ پس معلوم ہوا کہ آیتیں جس ترتیب سے نازَ ہوتی تھیں اسی ترتیب سے انہیں سورتوں میں نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ مضمون کے لحاظ سے رکھا جاتا تھا۔ بعینہٖ یہی صورت سورتوں کی ترتیب کی ہے وہ بھی مضامین کے لحاظ سے جمع کی گئی ہے نہ کہ نزول کے وقت کے لحاظ سے۔
یاد رہے کہ بس سے پہلے جو سورۃ نازل ہوئی یا یُوں
صفحہ 53
کہو کہ جس سورۃ کی بعض آیات نازل ہوئی وہ سورۃ العلق ہے۔ اس کی جو آیات سب سے پہلے نازل ہوئیںیہ ہیں اِقْرَاْبِا سْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقِ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَ کْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ۔ ان آیات میں تبلیغ کے شروع کرنے کا حکم ہے اور بتایا گیا ہے کہ تبلیغ کا حق انسان پر اس لئے ہے کہ اس کا ایک رب ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں محبت اور تعلق کا مادہ پیدا کیا ہے نیز اس نے انسان کے اندر ترقی کی قوتی رکھیں ہیں اور وہ اپنے بندے پر فضل کر کے اسے بڑھانا چاہتا ہے اور اس غرض سے اس نے انسان کو تحریر و تصنیف کا مادہ عطا کیا ہے تاکہ وہ اپنے علم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھائے بلکہ دوسروں تک بھی اسے پہنچائے اور آیندہ کے لئے بھی ان علوم کو محفوظ کر دے پھر فرماتا ہے کہ علمی ترقی کا مادہ اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی طاقت اس کے اندر رکھ کر اور علم کے محفوظ کرنے کا طریقہ بتانے کے بعد اس نے علم کی ترقی کے لئے ایسے سامان پیدا کئے ہیں جو ہر زمانہ میں علم کی ترقی کا موجب ہوتے رہیں گے اور انسان نئی سے نئی باتیں معلوم کرتا رہے گا جو اس کے باپ دادوں کو معلوم نہیں تھیں۔ ان آیات میں قرآن کریم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ بتایا ہے کہ زمین و آسمان کا ایک خالق ہے یہ بتایا ہے کہ انسان ہدایت کا محتاج ہے او راس کے اند رہدایت پانے اور ترقی کرنے کی قوت پیدا کی گئی ہے جس کے ابھارنے کے لئے یہ الہام نازل ہوا ہے۔ یہ سب باتیں وہ ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرتے وقت سب سے مقدم ہیں سب سے پہلا مخاطب انسان کا اپنا نفس ہوتا ہے جب تک اس کا اپنا دل جوش اور اخلاص اور کام کی اہمیت اور ضرورت کے احساس سے پُر نہ ہو وہ کبھی ایسے کامو ںکے لئے آمادہ نہیں ہو سکتا۔ جو اس کی جان اور اس کے آرام کی قربانی کا مطالبہ کرتے ہوں۔ چنانچہ سب سے پہلی قرآنی آیات میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے صرف اسی سورۃ میں نہیں بلکہ دوسری سورتیںجو ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی ہیں ان میں بھی یہی مضمون ہے۔ مثلاً سورۂ مُدَّثّر پہلی سورتوں میں سے ہے اس کی ابتدائی آیات بھی اسی مضمون کی ہیں فرماتا ہے یٰٓا اَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَانْدِرْ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ اے ماموریت کا خلعت پہننے والے اُٹھ اور لوگوں کو ہوشیار کر اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر سورۂ مُزَّمِّل بھی ابتدائی سورتوں میں سے ہے اس کی ابتداء بھی اسی طرح کی ہے۔ یٰٓاَ یُّھَا الْمُزَّمِّلُ قَمِ الَّیْلَ اِلاَّ قَلِیْلاً نِّصْفَہٗ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً اَوْزِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاًo اِنَّا سَنُلُقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًاoیعنی اے نبوت کی چادر اوڑھنے والے راتوں کو جاگ کر عبادت کیا کر۔ نصف رات یا نصف سے کم یا نصف سے زیادہ عبادت میں گذار۔اور قرآن کو پڑھتا رہا کر کیونکہ ہم تجھ پر ایک ایسی ذمہ داری نازل کرنے لگے ہیں جس کا اُٹھانا آسان کام نہیں۔
ان ابتدائی سورتوں کے مضامین سے ظاہ رہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی صفات۔ انسانی پیدائش کی غرض عبادت کی ضرورت۔ دُنیا میں شرارت اور گناہ کی ترقی وغیرہ کے مضامین بیان کرنے کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ پر آمادہ کرنے اور اس کے لئے آپؐ کے دل میں جوش پیدا کرنے پر خاص زور دیا گیا ہے۔ گویا ان آیات میں محمد رسول اللہ کو نبوت کے عظیم الشان کام کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ بغیر اس تیاری کے نہ تو آپؐ اس کام کی اہمیت کو سمجھ سکتے تھے جو آپ کے سپرد ہونے والا تھا۔ اور نہ آپ اس کام کو عمدگی سے انجام دے سکتے تھے پس ابتداء میں ایسے ہی کلام کی ضرورت تھی اسی طرح اس مضمون کے بعد خدا تعالیٰ کی صفات۔ ضرورِ نبوت تقویٰ اور پاکیزگی کے مضامین۔ ضرورت دعا۔ قضا و قدر بعث بعد الموت وغیرہ مضامین کے متعلق تعلیمات کے بیان کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ اس وقت تک کوئی جماعت قائم نہ ہوئی تھی او رنہ دین مکمل ہوا تھا پس ضروری تھا کہ اتبدائی ضروری امور
صفحہ 54
کو اختصار کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھ دیا جائے تاکہ وہ اصولی باتیں جو اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق کرنے والی تھیں لوگوں کے سامنے آ جائیں۔
لیکن جب قرآن مکمل ہو گیا جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی جب ان کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے بہت سے مضامین سے غیر مسلموں کو بھی واقفیت ہو گئی اور مسلمانوں کی نسل بھی چل پڑی جس نے ابتدائی اور اصولی باتیں اپنے ماں باپ سے بچپن میں ہی سیکھ لیں تو اب قرآن کریم کے پڑھنے والے کے لئے ایک اور تریب کی ضرورت پیش آئی جو آیندہ زمانہ میں ہمیشہ کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ اب اس مضمون کے ابتداء میں بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ اے محمدؐ رسول اللہ تیری قوم کی حالت خراب ہے اور گو ان میں قابلیت موجودہ مگر اس قابلیت سے وہ فائدہ نہیں اٹھا رہے پس تو اُٹھ اور اُن میں تبلیغ کر اور انہیں خدا تعالیٰ کی طرف بلا۔ اب تو قرآن کریم کے پہلے مخاطب وہ لوگ ہونگے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جن کے زمانہ میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا ہے اب اس مضمون سے قرآن کریم کا شروع ہونا ضروری ہے جس میں مومنوں کو بتایا جائے کہ قرآن کریم کے نزول کی غرض کیا ہے اور مسلمان ہونے کے لحاظ سے ان پر کیا ذمہ داریاں ہیں اسی طرح اس زمانہ میں غیر مسلم بھی قرآن کو فلسفیانہ نگہ سے دیکھنے کی کوشش کرینگے اور یہ پوچھیں گے کہ دوسرے مذاہب کی موجودگی میں اسلام کی کیا ضرورت ہے۔ ایک مسلمان کونسی ایسی غرض پُوری کر رہا ہے جو پہلی اقوام کے لوگ نہیں کر سکتے تھے۔ اسی طرح وہ پہلی کتب کی تعلیمات اور اسلام کی تعلیم کا فتفصیلی مقابلہ کر کے دیکھنا چاہیں گے نیز اس پر بحث کرینگے کہ پہلے انبیاء نے جو خاتم النبین کے بارہ میں پیشگوئیاں کی ہیں اسلام اور بانئی اسلام ان پیشگوئیوں کے مصداق ٹھہرتے ہیں یا نہیں۔ غرض قرآن کریم کی تکمیل کے بعد اس کی طرف توجہ کرنے کا طریقہ ماننے والوں اور نہ ماننے والوں دونوں ہی کے لئے مختلف ہو جاتا ہے اور ایک کامل کتاب تبھی اپنے کمال کو قائم رکھ سکتے ہے جبکہ وہ ان تبدیل شدہ حالات کو مدنظر رکھے اور قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس نے اس ضرورت کو پورا کیا ہے۔ نہ تورا نہ انجیل اور نہ اور کسی کتاب میں یہ حکمت مدنظر رکھی گئی ہے کہ ابتداء نزول میں پہلے مخاطبین کو مدنظر رکھ کر اور طرح ترتیب ہو اور مذہب کی اشاعت کے بعد اس وقت کے لوگوں کا خیال کرتے ہوئے کتاب کے مضامین کی ترتیب بدل دی گئی ہوتا ان تبدیل شدہ حالات کے مطابق وہ مضامین زیادہ سے زیادہ مؤثر ثابت ہوں پس قرآن کریم کی نزول کی ترتیب اور جمع کی ترتیب میں جو فرق ہے یہ قابلِ اعتراض امر نہیں بلکہ قرآن کریم کی فضیلت او ربرتری کی ایک علامت ہے۔
سورۂ بصرہ میں جیسا کہ اس کی تفسیر کے پڑھنے سے ثابت ہو گا فطرت انسانی کے پیدا کردہ ان طبعی سوالات کو حل کیا گیا ہے جو فلسفیانہ طور پر ایک مکمل مذہب کے متعلق پیدا ہو سکتے ہیں اور اس کا مضمون ہی بتاتا ہے کہ یہ سورۃ ابتداء میں رکھنے کے لئے ہی نازل کی گئی تھی بلکہ جیسا کہ بتایا جائے گا سورۃ فاتحہ کے مضامین کا اس میں جواب دیاگیا ہے اور اس کے مضامین سے اس کا خاص تعلق ہے جو اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ اس کو سب سے پہلے رکھنا اس کی لمبائی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ سورۃ فاتحہ کے مضامین سے اس کے گہرے تعلق کی وجہ سے ہے۔
اس سورۃ کے متعلق ایک ادبی لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ لبید بن ربیعہ عامری جاہلیت کے مشہور شعراء میں سے گزرا ہے ہے اس کا ایک قصیدہ سبع مطلقہ میں شامل ہے یعنی اس کے کلام کو عرب کے بہترین سات قصائد میں شمار کیا گیا ہے۔ یہ شاعر آخر عمر میں اسلام لے آیا۔ اور سورۂ بقرہ کی فصیح زبان سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے شعر کہنا ہی چھوڑ دیا۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے اس سے اپنا نیا کلام سنانے کی فرمایش کی اس نے اس کے جواب میں سورۃ بقرہ کی تلاوت
صفحہ 55
شروع کر دی حضرت عمرؓ نے اسپر اسے کہا کہ میں نے تم سے اپنے شعر سنانے کو کہاہے۔ اس نے جواب دیا کہ مَاکُنْتُ لاقول بَیْتًا مِّنَ الشعر بعد اِذ عَلَّمَنِیَ اللّٰہُ البَقَرَۃ وَاٰلَ عِمْران یعنی جب اللہ تعالیٰ نے مجھے سورۃ بقرہ اور آل عمران سکھا دی ہیں تو اب کس طرح ممکن ہے کہ اس کے بعد میں ایک شعر بھی کہوں۔ حضرت عمرؓ کو اس کا یہ جواب اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اس کا وظیفہ جو دو ہزار درہم سالانہ تھا بڑھا کر اڑھائی ہزار کر دیا (اسد الغابہ جلد چہارم حالات لبید بن ربیعہ صفحہ ۲۶۲) بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ معلوم ہوتا ہے مگر جب ہم لبید کے اس مرتبہ کو دیکھتے ہیں جس اسے عرب کے ادبی حلقہ میں اس زمانہ میں حاصل تھا جو عربی علم ادب کے کمال کا زمانہ کہلاتا ہے او رجس زمانہ کے شعراء کے کلام کو آج تک بہترین کلام سمجھا جاتا ہے اور پھر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اتنا زبردست شاعر جو خود بادشاہِ سخن کہلاتا تھا سورۂ بقرہ کی زبان سے اس قدر متاث رہوا کہ اس نے شعر کو جو اس کی رُوح کی غذا تھی جو اس کی عزت کا ذریعہ تھا جس نے اسے عرب کے حکمران حلقوںمیں صدر مقام پر بٹھا رکھا تھا سورۂ بقرہ کی زبان سے مرعوب ہو کر بالکل ترک کر دیا اور جب اس سے اپنا تازہ کلام سنانے کو کہا گیا تو اس نے حیرت سے جواب دیا کہ کیا سورۂ بقرہ کے بعد بھی کسی اور کلام کی ضرورت رہ جاتی ہے تو ہمیں مالنا پڑتا ہے کہ ایک معجزانہ کلام کے سوا یہ تاثیر اور کسی کلام سے پیدا نہیں ہو سکتی۔
خلاصۂ سورۂ بقرہ
پیشتر اس کے کہ میں سورۂ بقرہ کی آیات کا مطلب الگ الگ بیان کروں۔ میں سورۂ بقرہ کے مصامین کا خلاصہ بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے یہ بھی ثابت ہو جائیگا کہ سورۂ بقرہ کو باوجود آخر میں نازل ہونے کے پہلے کیوں رکھا گیا ہے اور اس کے مضامین کی ترتیب بھی مختصر طورپر ذہن میں آ جائے گی جس سے اس کے مطالب کا سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
میں سورۂ فاتحہ میں بیان کر چکا ہوں کہ اس کی تفسیر مجھے ایک فرشتہ نے رویا میں سکھائی تھی سورۂ بقرہ کی تفسیر مجھے اس طرح تو حاصل نہیں ہوئی لیکن اس میںکوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک القاء کے طو رپر مجھے اس کی تفسیر بھی سکھائی ہے اور جو شخص بھی ذرا غور سے دیکھے گا اسے معلوم ہو گا۔ کہ جو نکتہ اس بارہ میں مجھے بتایا گیا ہے وہ ساری سورۂ بقرہ کو ایک باترتیب مضمون کی صورت میں بدل دیتا ہے اور اس امر کے تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یہ تفہیم صرف اور صرف فضل الٰہی سے حاصل ہوئی ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ستائیس سال کا عرصہ گذرا کہ میں چند دوستوں کو قرآن کریم پڑھا رہا تھا سورۂ بقرہ کا درس تھا جب میں اس آیت پر پہنچا کہ رَبَّنَا وَا بْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَ کِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (بقرہ ع ۱۵) تو یکدم میرے دل پر القاء ہوا کہ یہ آیت اس سورۃ کے مضامین کی کنجی ہے اور اس سورۃ کے مضامین اس آیت کے مضامین کے مطابق اور اسی ترتیب سے بیان ہوئے ہیں میں جب اس علم سے فائدہ اُٹھا کر سورہ بقرہ کا مطالعہ کیا تومیری حیرت اور عقیدت کی کوئی حد نہ رہی کیونکہ سورۂ بقرہ کو میں نے نہ صرف اس آیت کے مضامین کے مطابق پایا بلکہ اس کے مضامین باوجود مختلف قسم کے ہونے کے میرے ذہن میں ایسے مستحضر ہو گئے کہ مجھے یُوں معلوم ہوا کہ گویا اس کے مضامین موتیوں کی لڑی کی طرح پروئے ہوئے ہیں۔
اس آیت کو دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے مکہ میں ایک نبی کے مبعوث ہونے کے لئے کی ہے اور اس دعا کا مضمون یہ ہے کہ اس شہر اور اس قوم میں ایک
صفحہ 56
ایسا نبی مبعوث ہو جو (۱) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان اور یقین کو درست اور مضبوط کرنے والے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے دلائل لوگوں کے سامنے بیان کرے جو دُنیا کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے راستہ کے نشان اور شمع ہدایت ثابت ہوں (۲) وہ لوگوں کے سامنے ایک مکمل کتاب پیش کرے (۳)جو شریعت وہ دُنیا کے سامنے پیش کرے اس کے اندر احکام او رمذہب کی اور ان تمام دینی امور کی جن پر مذہب کی ترقی کا مدار ہے حکمت بھی بیان کی گئی ہو (۴) وہ ایسے ذرائع اختیار کرے اورایسے طریق بتائے جن سے قوم کی ترقی اور پاکیزگی کے سامان پیدا ہوں۔
ان مضامین کو سامنے رکھ کر جب میں نے سورۂ بقرہ کو دیکھا تو اس کے مضامین کو لفظاً لفظاً ان مضامین کے مطابق پایا بلکہ میں نے دیکھا کہ وہ مضامین بیان بھی اسی ترتیب سے ہوئے ہیں جس ترتیب سے ان کا اس آیت میں ذکر ہے اور ہر حصہ میں اس آیت کے الفاظ کی طرف اشارہ بھی کر دیا گیا ہے یعنی آیات کے مضمون میں آیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پھر کتاب اور حکمت کا مضمون بیان کیا ہے اور کتاب اور حکمت کے الفاظ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر تزکیہ کا مضمون بیان کیا ہے تو اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے چنانچہ مضامین کے لحاظ سے یُعَلِّمْھُمُ الْکِتٰبَ کا مضمون اکتیس رکوع تک بیان ہوا ہے اور پھر تزکیہ کا مضمون اکتیسویں رکوع سے شروع ہو کر آخر سورۃ پر یعنی پر یعنی چالیسویں رکوع پر ختم ہوا ہے جو شخص اس امر کو مدنظر رکھ کر سورۂ بقرہ کو پڑھے گا اس کے مطالب کی وسعت اور جامعیت اور ترتیب کی خوبی اور تاثیر کا حیرت انگیز مطالعہ کرے گا۔
خلاصہ رکوع اوّل
سورۂ بقرہ سورۂ فاتحہ کے بعد شروع ہوتی ہے۔ سورۂ فاتحہ میں طلبِ ہدایت کی دُعا سکھائی گئی تھی۔ سورۂ بقرہ کی پہلی آیات میں اس دُعا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم نے سورۃ فاتحہ میں جس ہدایت کو طلب کیا تھا اور جو گزشتہ زمانہ کے منعم علیہ گروہ کی ہدایت ہے وہ یہی کتاب یعنی قرآن شریف ہے اور اس کے نزول کے ذریعہ سے فطرت کی اس پکار کو اللہ تعالیٰ نے پورا کیا ہے جو سابق ہدایتو ںکے مٹ جانے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے پیدا ہو کر عرش الٰہی کو ہلا رہی تھی پھر فرماتا ہے کہ قرآن کریم نے نہ صرف دنیا کے لئے ایک ہدایت نامہ پیش کیا ہے بلکہ ایک ایسا مکمل ہدایت نامہ پیش کیا ہے جو سب مذاہب کی صداقتوں پر مشتمل ہے اور اسی وجہ سے اس کے دعویٰ کی بنیاد اس پر نہیں کہ دوسرے مذاہب پر اعتراض کرے او ران کے متعلق دلوں میں شکوک پیدا کرے اور یہ کتاب انسان کے اخلاق اور اعملا ہی کو درست نہیں کرتی بلکہ ایسے ایسے مقام پر پہنچاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اسے محبت خالص والا تعلق پیدا ہو جائے۔ اس کتاب کو ماننے والوں کے لئے امور اعتقادیہ بھی بیان کئے جائیں گے جن پر ایمان لانا ان کے لئے ضروری ہو گا اور ان کے لئے عبادات کے طریق بھی بیان کئے جائیں گے جن پر عمل پیرا ہونا ان کے لئے ضروری ہو گا ان کے لئے حقوق العباد بھی بیان کئے جائیں گے اور ان پر چلنا بھی ان کے لئے ضروری ہو گا اور ان کے لئے سب صداقتوں اور سب سچے مذاہب کے بانیوں اور سب سچائیوں کا جو گزشتہ یا آیندہ زمانہ سے متعلق ہوں اس کتاب میں ذکر کیا جائے گا اور ان سب پر ایمان لانا ان کے لئے ضروری ہو گا او ریہ ایمان رسمی نہ ہو گا بلکہ اس کے لئے انہیں قربانیاں کرنی پڑے گی اور لوگ مخالفت کریں گے لیکن وہ اپنی محالفت میں ناکام رہیں گے۔
خلاصہ رکوع دوم
اور کچھ لوگ منافقت سے تعلق پیدا کریں گے حالانکہ ان کے دلوں میں ایمان نہ ہو گا۔ اور کچھ لوگ ایمان تو رکھتے ہونگے مگر ان کے دل بزدلی سے پُر ہونگے پس بزدلی کی وجہ سے وہ اس کے دشمنوں سے ساز باز رکھیں گے ان دونوں گروہوں کی مخالفت اور منصوبہ بازی بھی اسلام کا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔
خلاصہ رکوع تیسرا
پس جو بھی خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتا پہے
صفحہ57
ہے اسے اس مذہب میں داخل ہو کر خدائے واحد کی عبادت میں حصہ لینا چاہیئے اور تقویٰ کا مقام حاصل کرنا چاہیئے تا وہ قرآن کریم کی مدد سے خدا تعالیٰ تک رسائی پائے کہ پیدائش عالم کی غرص ہی یہ ہے اور اگر کوئی کہے کہ قرآن کریم کے اس دعویٰ کو ہم کیونکر تسلیم کریں ت وانہیں کہوکہ کسی نہ کسی مذہب کو تو تم تسلیم کرتے ہو اسے اس کی تعلیم کے مقابل پر رکھ کر دیکھ لو اگر اس میں اس سے اعلیٰ تعلیم موجود نہ ہو تو اسے رد کر دو ورنہ تو کو خود اپنے مسلمات کے رو سے ماننا پڑے گا کہ یہ الٰہی کتاب ہے جس میں پہلی الٰہی کتب سے بہتر تعلیم موجود ہے۔ نیز آسامانی نشانات کے بارہ میں بھی تم اس کتاب کے ماننے والوں سے مقابلہ کرکے دیکھ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ کن کے ساتھ ہے لیکن اگر سوچنے کی کوشش نہ کرو او ربلاوجہ انکار کرتے جائو تو اس میں کیا شبہ ہے کہ تم کو عذاب ملے گا اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جو لوگ اس اعلیٰ تعلیم کو مانیں گے انہیں اعلیٰ انعامات عطا ہونگے جو متواتر انہیں دیئے جائینگے تاکہ کوئی شخص ان انعامات کو اتفاقی حادثہ نہ کہہ سکے اور گو ہم نے ان انعامات کی طرف مختصر الفاظ میں اشارہ کیا ہے مگر اپنے وقت پر ان پیشگوئیوں کی عظمت ظاہر ہو کر رہے گی۔ اور منکروں کے لئے اعتراض کا لیکن مومنوں کے لئے زیادتی ایمان کا موجب ہو گی۔ او رمنکروں کا فائدہ نہ اُٹھانا ایک طبعی نتیجہ ہے کیونکہ بیمار آنکھ نور کو نہیں دیکھ سکتی۔ پھر فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی صداقت کے سمجھنے میں مشکل ہی کیا ہے یہ پہلا کلام نہیں۔ اس سے پہلے خدا تعالیٰ کی طرف سے مردہ قوموں کی طرف ہدایت آتی رہی اور اس کے ذریعہ سے لوگ زندہ کئے جاتے رہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ یہ سلسلہ اب ختم ہو جائے پس اب بھی اسی سنت کے مطابق خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حق آیا ہے اور آیندہ ایسا ہی ہوتا رہے گا پھر کیا مشکل ہے کہ جن اصول پر سابق صداقتوں کو پرکھا گیا تھا انہی پر قرآن کریم کی صداقت کو بھی پرکھ لیا جائے۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ لوگ کیوں نظامِ عالم کو نہیں دیکھتے کہ وہ ایک ارتقاء پر دلالت کرتا ہے جس میں الٰہی ہاتھ نظر آتا ہے پھر کیوں یہ اس ارتقاء کی آخری کڑی کو ماننے میں عذر کرتے ہیںحالانکہ ارتقاء کی آخری کڑی ہی مقصودِ اعلیٰ ہوتی ہے اسے چھوڑ دیا جائے تو سب نظام ہی ناممکن رہ جاتا ہے۔
خلاصہ رکوع چہارم
پھر اس نظام کی پہلی کڑی یعنی آدمؑ یعنی ملہم اوّل کا ذکر فرماتا ہے کہ آخر آدم کو تم مانتے ہو اس کی سچائی کا کیا ثبوت تمہارے پاس ہے جس طرح اس کی سچاوی کو اس زمانہ کے لوگوں نے مانا۔ اسی طرح محمد رسول اللہ کی صداقت کو پرکھا جا سکتا ہے اس کی ذات پر بھی اعتراض ہوئے اور معمولی لوگوں کی طرف سے نہیں بلکہ ملائکہ صفت انسانوں کی طرف سے اعتراض ہوئے۔ مگر کیا اس سے اس کی سچائی میں فرق آیا اللہ تعالیٰ نے اسی کی تائید کی اور پھر وہی ملائکہ صفت رہ سکے جنہوں نے اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور اس کے آگے تذلل سے گر گئے باقی شیطان بن گئے۔ پھر فرمایا کہ یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ اگر آدم پر کلام نازل ہوا تھا تو پھر کسی اور کلام کی کیا ضرورت ہے کیونکہ آدم کے بعد اللہ تعالیٰ کیّ طرف سے متواتر اور حسبِ ضرورت کلام نازل ہوتا رہا ہے چنانچہ موجودہ زمانہ سے پہلے موسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوا ان کی قوم میں نبی کے بعد نبی اصلاح کے لئے آئے اور چونکہ اس قوم نے بغاوت پر بغاوت کی۔ اللہ تعالیٰ نے مرکز الہام بدلنے کا فیصلہ کر لیا اور بنو اسمعٰیل میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری کلام کا مورد بنایا اور اب بنی اسرائیل حسد کی وجہ سے آپؐ کی محالفت کرتے ہیں لیکن اس مخالفت کا بھی وہی نتیجہ ہو گا جو پہلے انبیاء کی مخالفت کا نتیجہ ہوا تھا۔
خلاصہ رکوع پانچ
پھر فرمایا بنی اسرائیل کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ان پر جو فضل ہوئے ہیں ہو حضرت ابراہیمؑ کے وعدوں کی وجہ سے ہوئے ہیں اور ابراہیمؑ سے جو وعدے ہوئے تھے وہ صرف بنو اسحاق کے بارہ میں نہ تھے بلکہ بنو اسمعٰیل کے حق میں بھی تھے۔ پس ضروری تھا کہ جب بنو اسحاق ذمہ داری کے ادا کرنے میں کوتاہی کریں تو بنو اسمعٰیل کے وعدہ کو پورا کیا جائے اور
صفحہ58
اسی وعدہ کے پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمعٰیل کو وادی غیر ذی زرع یعنی مکہ میں رکھا تھا آخر بنو اسمعٰیل کی قربانی کا بدلہ ملنے کا وقت آ گیا چنانچہ اب ان میں سے نبی مبعوث کیا گیا ہے جس کا یہ کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات لوگوں کو سنائے انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاکیزہ کرے۔ (خلاصہ رکوع ۱۶) بنو اسرائیل کو اس پر چڑنے کا حق نہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کے آباء ابراہیم اسحاق یعقوب علیہم السلام نے انہیں نصیحت کی تھی کہ اصل عزت کامل فرمانبرداری میں ہے پس نہیں فرمانبرداری کر کے خدا تعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنا چاہیئے اور باغی بنکر اس کے عذاب کو نہ بھڑکانہ چاہیئے۔
خلاصہ رکوع ۱۷،۱۸
پھر فرمایا کہ بنی اسرائیل محمدؐ رسول اللہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے گزشتہ نبیوں کا قبلہ ترک کر دیا ہے حالانکہ اوّل تو قبلہ مقصود بالذات شے نہیں صرف وحدت کے قیام کا ایک ذریعہ ہے دوسرے ابراہیم نے جو دُعا بنو اسمعٰیل کے حق میں کی تھی اس میں کعبہ کے قبلہ اور مکہ کے حج کی جگہ مقرر ہونے کی خبر دی گئی تھی۔ پس جب محمد رسول اللہ اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں تو ان کے لئے ضروری تھا کہ کعبہ کے قبلہ ہونے کا اعلان کریں ورنہ ان کی قوم ان برکات سے حصہ نہیں لے سکتی جو ابراہیمی دعا کے مطابق اس قبلہ سے وابستہ ہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ کعبہ کی ظاہری و باطنی صفائی کریں ظاہری صفائی اس مقام کو فتح کر کے اور وہاں سے آلاتِ شرک کو دُور کر کے اور باطنی صفائی شرک اور کفر کے خیالات کو مٹا کر اور کعبہ کو قبلہ عالم بنا کر (خلاصہ رکوع ۱۹) پھر فرمایا اس کام میں مشکلات ہونگی اور کفار تلوار کے زور سے مسلمانو ںکو اسکام سے روکیں گے لیکن انہیں اس سے ڈرتا نہیں چاہیئے بلکہ دُعا اور کوشش سے اس کام میں لگا رہنا چاہیئے او ریاد رکھنا چاہیئے کہ جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہی ابدی زندگی پاتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ کوشش ضرور بار آور ہو گی اور مکہ فتح ہو گا اور انہیں اس کی ظاہری باطنی صفائی کا موقع مل جائے گا۔ (خلاصہ رکوع ۲۰)اس رکوع میں خاص طور پر آیات کا لفظ استعمال فرما کر یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ جو باتیں ہم پہلے بیان کر آئے ہیں وہ یونہی نہیں بلکہ زمین و آسمان کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف اور قانون قدرت کے تمام مظاہروں سے انکی تصدیق ہوتی ہے یعنی اوّل تو قانون قدرت ایک روحانی قانون کے وجود اور اس کے ارتقاء کے ساتھ مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ دوسرے خود محمدؐ رسول اللہ کی تائید میں تم آسمان و زمین اور رات اور دن اور بادلوں اور ہوائوں اور خشکی اور تری کے سامانوں کو دیکھو گے اور تم کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کا پیارا ہے۔ تھی تو سب کائنات اس کی تائید میں لگی ہوئی ہے ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایک نئی راہ تجویز کرتا ہے وہ تو ذلیل ہوا کرتا ہے اس رکوع میں آیات پڑھ کر سنانے کے مضمون کو ختم کیا گیا ہے۔
خلاصہ رکوع ۱۲
اس رکوع سے ابراہیمی پیشگوئی کے دوسرے پہلو کو لیا ہے یعنی شریعت اور اس کی حکمتوں کے بیان کو اور سب سے پہلے حلال اور طیب کھانے کی تعلیم دی ہے کیونکہ انسانی اعمال اس کے ذہنی حالت کے تابع ہیں اور ذہنی حالت غذا سے متاثر ہوتی ہے حلال وہ ہے جس کّی شریعت اجازت دے اور طیب وہ جس کی اصول صحت اور روں ملی اور ذوق صحیح اجازت دے۔ ممنوع غذائوں کے بارہ میں چار اصول بتائے کہ وہ غذائیں استعمال نہ کرو جو مردار ہوں یعنی ان میں سڑاندھ شروع ہو گئی ہو یا جو خون کی مانند ہوں یعنی زہروں پر مشتمل ہوں یا جو سورٔ کے گوشت کی طرح ہوں کہ وہ بد اخلاق جانور ہے اور اس کے استعمال سے انسان اس کے اخلاق کو قبول کر لیتا ہے یا جو بے غیرتی پیدا کرنے والی ہوں جیسے مشرکانہ رسوم کے کھانے وغیرہ وغیرہ۔ (خلاصہ رکوع ۲۲) اس رکوع میں اسلامی تعلیم کا
صفحہ 59
خلاصہ بیان کیا ے اللہ۔ یوم آخر۔ کتب سماویہ۔ اور انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے تا کسی سچائی کا انکار نہ ہو اور بندوں سے حسن سلوک بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور قومی چندے بھی ضروری ہیں اور اخلاق حسنہ صبر اور ایفائے عہد بھی ضروری ہیں اور انصاف کا قیام اور اپنے رشتہ داروں کی جائز مدد اور قوانین تمدن کا قیام بھی ضروری ہے جس کے اہم قانونوں میں سے ایک قانون وراثت بھی ہے (خلاصہ ع ۲۳) اخلاقی قانون کو پورا کرنے کے لئے ظاہری ریاضت بھی ضروری ہے چنانچہ اس کے لئے اسلام نے روزے مقرر کئے ہیں اس سے اخلاق درست ہوتے ہیں اور دعائوں کی توفیق ملتی اور ان میں اثر پیدا ہوتا ہے (خلاصہ رکوع ۲۴، ۲۵) اس رکوع میں حج کے قواعد بیان کئے گئے ہیں جو اجتماع امت کا ذریعہ ہے اور بتایا ہے کہ ایسے پر امن مقام کے رستہ میں جو لوگ فساد پیدا کرتے ہیں ان سے جنگ کرنی فساد نہیں بلکہ امن کا قیام ہے پس مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے جنگ کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے اور بتایا ہے کہ ایک مرکز کے بغیر سب عالم ایک رسی میں نہیں بندھ سکتا پس حج کے حکم کو معمولی حکم نہ سمجھیں۔
خلاصہ رکوع ۲۶
اس میں احکام کی حکمتوں کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ شریعت کو فضول نہیں سمجھنا چاہیئے۔ ظاہر باطن کی درستی کا موجب ہوتا ہے اور شریعت کی محالفت کی اصل وجہ دُنیا کی محبت ہوتی ہے کہ انسان اپنے اوقات او راموال خدا کی راہ میں خرچ کرنا پسند نہیں کرتا اور بہانے بنا کر اس بوجھ سے بچنا چاہتا ہے ایسے ہی بہانو ںسے دُنیا میں اختلافات بڑھتے ہیں اور انبیاء کی لائی ہوئی تعلیم کو لوگ کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں حالانکہ روحانیت بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ پھر صدقہ خیرات کا ذکر کیا ہے کہ اس کا مصرف کیا ہے اور بتایا ہے کہ سب سے بڑا مصرف صدقہ کا جہاد فی سبیل اللہ ہے جبکہ لوگ دین میں دخل اندازی کریں اور حیرت ضمیر کو روکیں۔ (خلاصہ ع ۲۷) ایسے وقت میں جنگ ضروری ہوتی ہے اور مالی جانی قربانی لازمی۔ حتی کہ اگر دشمنانِ صداقت حج کے مہینوں میں بھی کہ عام حالتو ںمیں ان میں لڑائی منع ہے جنگ کریں تو تم کو بھی ان میں جنگ کر ناجائز ہو جائے گا۔ جنگ کے ایام میں لوگ جوئے اور شراب کی طرف رغبت کرتے ہیں تاکہ دل کو بہلائیں اور جنگ کے لئے روپیہ جمع کریں۔ فرمایا کہ مسلمانو ںکی جنگ تو ایک دینی جنگ ہے ان کے دل کے بہنے کا سامان تو اللہ تعالیٰ کی رضا میں موجود ہے۔ انہیں ان بُرے کاموں سے پرہیز چاہیئے۔ پھر بتایا کہ اموال کی قربانی کی حد کوئی نہیں جو زیادہ سے زیادہ قربانی جس سے دوسروں کے حقوق کو نقصان نہ پہنچتا ہو انسان کر سکے کرے۔ پھر فرمایا جنگوں کی وجہ سے کثرت سے تیامی رہ جائینگے ان کے بارہ میں حکم یاد رکھو کہ بہتر سے بہتر سلوک ان سے کرنا اور یاد رکھنا کہ مشرک عورتوں مردوں سے شادی نہ کرناکہ اس سے نظام میں خلل آتا ہے (خلاصہ رکوع ۲۸ تا ۳۱) پھر عورتوں کے عام احکام بیان فرمائے کہ حیض میں ان کے قریب نہ جائو اور ان سے حسنِ سلوک کرو اور اگر کسی مجبوری سے ان سے قطع تعلق کرنا پڑے تو چار ماہ سے زیادہ ایسا نہ کرو ہاں بالکل تعلق قائم نہ رکھ سکتے ہو تو طلاق دے دو۔ پھر طلاق کے احکام بیان کئے اور رضاحت اور بیوائوں کے بھی۔ اس جگہ کتاباور حکمت کا مضمون ختم ہوا (خلاصہ رکوع ۳۲، ۳۳) رکوع ۳۲ سے تزکیہ کے اصول بیان کرنے شروع کئے بتایا کہ قومی ترقی بغیر قربانی کے نہیں ہوتی پس یاد رکھو کہ وہی قوم زندہ ہو سکتی ہے جو اپنے لئے موت کو قبول کر لے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ احیاء موتیٰ اسی طرح کرتا ہے کہ ایسے احکام دیتا ہے جو قوم کو بمنزلہ موت نظر آتے ہیں مگر جب وہ ان پر عمل کر لیتی ہے تو اسے زندگی مل جاتی ہے۔
خلاصہ رکوع ۳۴
بتایا کہ زندگی کا اعتبار نہیں اس لئے جلد سے جلد نیکی طرف توجہ کرنی چاہیئے اور اللہ تعالی
صفحہ60
سے تعلق پیدا کرنا چاہیئے پھر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارہ میں ایک مختصر مگر جامع بیان دیا جو آیۃ الکرسی کہلاتا ہے اور جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی بہترین آیت قرار دیا ہے۔ پھر فرمایا ایسی اعلیٰ صفات والے خدا سے تعلق کسی جبر کا محتاج نہیں بلکہ اس کا حُسن خود دلوں کو موہ لیتا ہے او ریہی تعلق مفید ہو سکتا ہے پس دین کے بارہ میں جبر سے کام نہ لو کیونکہ مذہب کی غرض تزکیہ ہے اور جبر سے دلوں کا تزکیہ نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ جن کو اپنے قُرب میں جگہ دیتا ہے ان کے دلوں کی تاریکی کو دلائل و براہین سے دُور کرتا ہے صرف ظاہری اقرار کو وہ پسند نہیں کرتا (خلاصہ رکوع ۳۵) اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاکیزگی عطا کرنے کے دو طریق ہیں اول افراد کی پاکیزگی جو براہِ راست بندو ںکو عطا کی جاتی ہے جیسے انبیاء کو۔ دوسرے قوام کی پاکیزگی جو انبیاء کے ذریعہ سے انہیں حاصل ہوتی ہے پھر فرمایا کہ پاکیزگی کی یہ اقسام ابراہیمؑ کی اولاد کو چار زمانو ںمیں خاص طو رپر ملنی مقدر ہیں (خلاصہ رکوع ۳۶) پھر فرمایا کہ قومی پاکیزگی کے حصول کے لئے جدوجہد کی بھی اور تعاون باہمی کی بھی ضرورت ہوتی ہے ہاں کوئی یہ اعتراض کرے کہ تعاون باہمی تو ہر قوم کی ترقی کا ذریعہ ہے اس میں خدا تعالیٰ کے ماننے والوں کی کوئی شرط نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان سے آزاد ہو کر تعاون باہمی کرتے ہیں ان کے اعمال کے نتائج قربانیوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ایسا کرتے ہیں ان کی قربانیوں کے نتائج ان کی کوششوں کے مقابلہ پر بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی علامت یہ ہے کہ (۱)وہ قربانیاں خدا تعالیٰ کے احکام کے قیام کے لئے کرتے ہیں (۲) وہ اپنی قربانیوں کو خدا تعالیٰ کے لئے سمجھتے ہیں اور بندوں پر احسان نہیں جتاتے (خلاصہ رکوع ۳۷)جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے قربانیاں کرتے ہیں ان کے عمل کبھی ضائع نہیں ہو سکتے۔ اور ان کے دل قربانیوں پر مطمئن ہوتے ہیں اور ان کے اعمال میں پاکیزگی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ پھر بتایا کہ گو حُسن سلوک کسی سے بھی ہو اچھا کام ہے مگر جو لوگ دُنیا کی اصلاح میں مشغول ہوں ان سے حسنِ سلوک زیادہ ثواب کا موجب ہوتا ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ وہی حُسن سلوک مفید ہو گا جو جائز طور پر کمائے ہوئے اموال سے ہو (خلاصہ رکوع ۳۸) فرمایا کہ سود کا کاروبار حسنِ سلوک اور تعاون باہمی روح کے خلاف ہے اس سے مومن کو بچنا چاہیئے۔ چنانچہ سود کا کاروبار کرنے والی قومیںلڑائی پر دلیر ہوتی ہیں اور امن عامہ کی پرواہ نہیں کرتیں اس بات سے مت ڈرو کہ سود کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی دُنیا میں ایسے سامان پیدا کر دیئے جائینگے کہ سود خوار قومیں تباہ ہو جائینگی (خلاصہ رکوع ۳۹)حسنِ سلوک اور تعاون باہمی کا ایک طریق قرض بھی ہے جو اپنے اموال کلی طو رپر اپنے حاجتمند بھائی کو نہیں دے سکتا لیکن قرض سے اس کی مدد کر سکتا ہے اسے اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے مگر قرض کا چونکہ کچھ مدت بعد مطالبہ ہوات ہے اس لئے قرص کو لکھ لینا چاہیئے اور گواہ مقرر کر لینے چاہئیں تا فساد نہ ہو اور اگر لکھنے والا نہ ہو تو شہادت کے طور پر کوئی چیز رہن رکھ دینی چاہیئے (خلاصہ رکوع ۴۰) مگر سب سے بڑا گر پاکیزگی اور طہارت کا (۱) اللہ تعالیٰ کی صفات کو سامنے رکھنا (۲) کلام الٰہی پر ایمان اور تدبر (۳) انبیاء اور صلحاء اور اشخاص متعلقہ کی دُعا ہے۔
(یہ خلاصہ ہے سورۃ بقرہ کا اور اس میں بلاواسطہ تو یہود و نصاریٰ اور قریش پر اس رنگ میں حجت تمام کی گئی ہے کہ ابراہیم کی ایک دُعا کا جو مقبول بارگاہ الٰہی ہو چکی پورا ہونا باقی تھا محمد رسول اللہ علیہ اللہ علیہ وسلم کا وجود اس دُعا کو پُورا کرتا ہے پس اگر ان کے وجود کا انکار کیا جائے تو ابراہیم بھی جھوٹے بنتے ہیں اور ان کے جھوٹا ہونے سے موسویت اور مسیحیت بھی ساتھ ہی جھوٹی ہو جاتی ہیں اور بالواسطہ تمام دنیا پر اسلام کی صداقت ثابت کی گئی ہے کیونکہ انسان کی پیدائش بغیر مقصد کے نہیں ہو سکتی اور اس مقصد کو اگر کوئی کلام پورا کرتا ہے تو وہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا کلام ہے کیونکہ اسی سے معرفت الٰہی صحیح قانون اور فلسفۂ شریعت او رپاکیزگی قلب