صفحہ 61
جیسے ضروری امور حاصل ہوتے ہیں۔اگر کوئی ان نوٹوں کی مدد سے سورۂ بقرہ کو پڑھے گا تو میں سمجھتا ہوں اسے اس سورۃ میں ایک نیا لطف آئے گا اور اس کے مطالب کا ایک وسیع دروازہ اس کے لئے کھل جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ
سُورۃ بقرہ کا تعلق سُورہ فاتحہ سے
سورۃ فاتہ کا تعلق تو کلام الٰہی کا خلاصہ ہونے کے وجہ سے سب ہی سورتوں سے ہے لیکن سورۃ بقرہ کو چونکہ اس کے معاً بعد رکھا گیا ہے اس سورۃ کا تعلق سورۃ فاتحہ سے یقینا سب سے زیادہ ہے چنانچہ اوّل تعلق تو اس کا اس سے یہ ہے کہ جس طرح سورۃ فاتحہ خلاصہ ہے سارے قرآن کریم کا۔ اسی طرح یہ سورۃ بھی خلاصہ ہے سب قرآن کا کیونکہ اس میں دلائل و براہین بھی بیان کئے گئے ہیں شریعت بھی اور فلسفۂ شریعت بھی اور پاکیزگی اور طہارت کے گر بھی بیان کئے گئے ہیں اور ابراہیمی دُعا میں آخری موعود کی بعثت کا یہی مقصد بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا تعلق سورۃ فاتحہ کا سورۃ بقرہ سے یہ ہے کہ اس میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دُعا سکھائی گئی تھی اور سورۂ بقرہ کی ابتداء بھی آیت ذٰلِک الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدیً لِّلْمُتَّقِیْنَ سے ہوئی ہے یعنی یہ سورۃ صراط مستقیم کی طرف لے جانے کے مقصد کو پورا کرتی ہے اور فاتحہ کی دُعا کی قبولیت کا ظاہری نشان ہے۔
۲؎ سورۃ البقرہ
چونکہ یہ حروف الگ الگ بولے جاتے ہیں انہیں حروف مقطعات کہتے ہیں جو ایک سے لے کر پانچ کی تعداد تک بعض سورتوں کے شروع میں بیان کئے گئے ہیں حروف کی اقسام کے لحاظ سے یہ چودہ حرف ہیں اور ان کی تفصیل یہ ہے ا۔ ل۔ م۔ ص۔ ر۔ ک۔ ہ۔ ع۔ ع۔ ط۔ س۔ ج۔ ق۔ ن۔ ان میں سے ق اور نون اکیلا اکیلا ایک سورۃ کے پہلے آیا ہے۔ باقی دو دو یا زیادہ مل کر آئے ہیں ان کے معنوں کے بارہ میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے بعض نے تو لکھا ہے کہ یہ حروف خدا تعالیٰ کے اسرار میں سے ہیں اس لئے ان کے معنوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ بعض نے لکھا ہے کہ ان سے یہ مراد ہے کہ قرآن کریم بھی حروف ہجاء سے بنا ہے مگر پھر بھی معجزانہ کلام ہے اگر یہ انسانی کلام ہوتا تو کیوں عرب انہی حروف سے ایسا ہی کلام نہ بنا لیتے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ قسمیں ہیں جو سورۃ کے مضمون پر اللہ تعالیٰ نے کھائی ہیں۔ مگر سب مطالب ایسے معمولی ہیں کہ ان کی خاطر حروف مقطعات کا قرآنی سور کے شروع میں رکھنا نظر میں جنچتا نہیں۔ بعض نے ان کو بامعانی کلام کا خلاصہ قرار دیا ہے مثلاً الف لام میم کے معنے یہ کئے ہیں کہ اللہ جبریل محمدؐ یعنی اللہ تعالیٰ نے جبریل کے ذریعہ سے محمد (صلیٰ اللہ علیہ وسلم) پر یہ کلام نازل کیا ہے۔ یہ معنے الف لام میم کے حروف پر تو چسپان ہو جاتے ہیں۔ لیکن تمام حروف مقطعات کی اس طرح تشریح نہیں ہو سکتی۔ بعض نے ان حروف کے معنی یہ کئے ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر ہے جن کی تشریح بعد کی سورۃ میں کی گئی ہے اور صفات کے پہلے حروف یا بعض اہم حروف کو مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بیان کر دیا گیا جیسا کہ میں آگے چلے کر بیان کروں گا یہی معنی سب سے زیادہ درست اور شانِ قرآن اور شہادت قرآن