• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر کبیر قادیانی خلیفہ زانی مرزا بشیر الدین محمود جلد نمبر1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ 61​
جیسے ضروری امور حاصل ہوتے ہیں۔
اگر کوئی ان نوٹوں کی مدد سے سورۂ بقرہ کو پڑھے گا تو میں سمجھتا ہوں اسے اس سورۃ میں ایک نیا لطف آئے گا اور اس کے مطالب کا ایک وسیع دروازہ اس کے لئے کھل جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ
سُورۃ بقرہ کا تعلق سُورہ فاتحہ سے
سورۃ فاتہ کا تعلق تو کلام الٰہی کا خلاصہ ہونے کے وجہ سے سب ہی سورتوں سے ہے لیکن سورۃ بقرہ کو چونکہ اس کے معاً بعد رکھا گیا ہے اس سورۃ کا تعلق سورۃ فاتحہ سے یقینا سب سے زیادہ ہے چنانچہ اوّل تعلق تو اس کا اس سے یہ ہے کہ جس طرح سورۃ فاتحہ خلاصہ ہے سارے قرآن کریم کا۔ اسی طرح یہ سورۃ بھی خلاصہ ہے سب قرآن کا کیونکہ اس میں دلائل و براہین بھی بیان کئے گئے ہیں شریعت بھی اور فلسفۂ شریعت بھی اور پاکیزگی اور طہارت کے گر بھی بیان کئے گئے ہیں اور ابراہیمی دُعا میں آخری موعود کی بعثت کا یہی مقصد بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا تعلق سورۃ فاتحہ کا سورۃ بقرہ سے یہ ہے کہ اس میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دُعا سکھائی گئی تھی اور سورۂ بقرہ کی ابتداء بھی آیت ذٰلِک الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدیً لِّلْمُتَّقِیْنَ سے ہوئی ہے یعنی یہ سورۃ صراط مستقیم کی طرف لے جانے کے مقصد کو پورا کرتی ہے اور فاتحہ کی دُعا کی قبولیت کا ظاہری نشان ہے۔
۲؎ سورۃ البقرہ
چونکہ یہ حروف الگ الگ بولے جاتے ہیں انہیں حروف مقطعات کہتے ہیں جو ایک سے لے کر پانچ کی تعداد تک بعض سورتوں کے شروع میں بیان کئے گئے ہیں حروف کی اقسام کے لحاظ سے یہ چودہ حرف ہیں اور ان کی تفصیل یہ ہے ا۔ ل۔ م۔ ص۔ ر۔ ک۔ ہ۔ ع۔ ع۔ ط۔ س۔ ج۔ ق۔ ن۔ ان میں سے ق اور نون اکیلا اکیلا ایک سورۃ کے پہلے آیا ہے۔ باقی دو دو یا زیادہ مل کر آئے ہیں ان کے معنوں کے بارہ میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے بعض نے تو لکھا ہے کہ یہ حروف خدا تعالیٰ کے اسرار میں سے ہیں اس لئے ان کے معنوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ بعض نے لکھا ہے کہ ان سے یہ مراد ہے کہ قرآن کریم بھی حروف ہجاء سے بنا ہے مگر پھر بھی معجزانہ کلام ہے اگر یہ انسانی کلام ہوتا تو کیوں عرب انہی حروف سے ایسا ہی کلام نہ بنا لیتے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ قسمیں ہیں جو سورۃ کے مضمون پر اللہ تعالیٰ نے کھائی ہیں۔ مگر سب مطالب ایسے معمولی ہیں کہ ان کی خاطر حروف مقطعات کا قرآنی سور کے شروع میں رکھنا نظر میں جنچتا نہیں۔ بعض نے ان کو بامعانی کلام کا خلاصہ قرار دیا ہے مثلاً الف لام میم کے معنے یہ کئے ہیں کہ اللہ جبریل محمدؐ یعنی اللہ تعالیٰ نے جبریل کے ذریعہ سے محمد (صلیٰ اللہ علیہ وسلم) پر یہ کلام نازل کیا ہے۔ یہ معنے الف لام میم کے حروف پر تو چسپان ہو جاتے ہیں۔ لیکن تمام حروف مقطعات کی اس طرح تشریح نہیں ہو سکتی۔ بعض نے ان حروف کے معنی یہ کئے ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر ہے جن کی تشریح بعد کی سورۃ میں کی گئی ہے اور صفات کے پہلے حروف یا بعض اہم حروف کو مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بیان کر دیا گیا جیسا کہ میں آگے چلے کر بیان کروں گا یہی معنی سب سے زیادہ درست اور شانِ قرآن اور شہادت قرآن
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ62​
قرآن کے مطابق ہیں بعض نے ان حروف سے ان آیات کے مضامین کے اوقات کی طرف اشارہ مراد لیا ہے یعنی حروف مقطعات سے جس قدر عدد نکلتے ہیں اس قدر عرصہ تک کے متعلق ان سورتوں میں واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ یا یہ کہ اس زمانہ کے حالات کی طرف ان سورتوں میں خاص طو رپر اشارہ کیا گیا ہے یہ معنی بھی جیسا کہ بتایا جائے گا درست معلوم ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کم سے کم ان کی تصدیق کرتی ہے بعض مغربی مصنفین نے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ ان کا بتوں کے نام ہیں جنہوں نے حضرت محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کے حکم سے یہ سورتیں لکھیں (سیہل بحوالہ گولیس) چنانچہ انہوں الف سے ابوبکر ع سے علی یا عمر س سے سعد ط سے طلحہ اور ھا سے ابوہریرہؓ وغیرہ مراد لئے ہیں یہ معنے اس ناواقفیت کا ایک اور ثبوت ہیں جس کے باوجود ہر مغربی مصنف اسلام کے بارہ میں علمیت کا دعویٰ کرنے پر تیار رہتا ہے لطف یہ ہے کہ ہ سے حضرت ابوہریرہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین سال پہلے اسلام لائے تھے جبکہ سورۂ مریم اور سورۂ طہ جن میں ہ آتی ہے دونوں ہی مکی ہیں اور ابوہریرہؓ کے اسلام لانے سے دس پندرہ سال پہلے نازل ہو چکی تھیں علاوہ ازیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے کہ یہ حروف بھی الہامی ہیں۔
نیز یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر یہ سورتیں دوسرے صحابہ سے تیار کروائی گئی تھیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر افراد کو اپنے جھوٹے ہونے کا (نعوذ باللہ من ذالک) گواہ بنا لیا آخر جب باقی قرآن آپ نے (نعوذ باللہ من ذالک) خود بنایا تھا تو ان سورتوں کو صحابہ سے بنوانے کی کیا خاص غرض تھی اور کیوں ان کو ایک افتراء کا گواہ بنایا۔ اور اگر بفرض محال ایسا کیا بھی تھا تو ان نامو ںکو شروع میں رکھ کر اس افتراء کا ثبوت کیوں بہم پہنچایا ایسا کام تو ایک نیم عقل کا انسان بھی نہیں کر سکتا۔
اس امر کا ثبوت کہ ان حروف کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی وحی کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس حدیث سے ملات ہے جو بخاری نے آپنی کتاب تاریخ میں نیز ترمذی اور حاکم نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں۔ قالَ رسولُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ علیہِ وسلَّمَ مَنْ قَرَئَ حرفًا من کتاب اللّٰہِ فَلَہُ بہِ حَسَنَۃٌ وَالْحَسنَۃُ بِعَشرِ امثا لِھَالا اَقولُ الٓمّٓ حرفٌ ولٰکن الف حرفٌ ولا حرفٌ و میم حرفٌ (ترمذی ابواب افضائل القرآن۔ باب ما جائَ فی من قَرَأ حرفاً من القرآن ما لہ من الاجر) اس روایت کو بزاز اور ابن شیبہ نے بھی عوف بن مالک الاشجعی کی سند پر نقل کیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن کریم کا ایک حرف بھی پڑھے وہ جنت کا مستحق ہو گا اور اس کی یہ نیکی دس گنے ثواب کا مستحق اسے بنا دیگی اور میں یہ نہیں کہتا کہ الٓمّٓ ایک حرف ہے بلکہ الٓمّٓ کا الف ایک مستقل حرف ہے اور لام ایک مستقل حرف ہے اور میم ایک مستقل حرف ہے۔ (اس جگہ حرف سے مُراد لفظ ہے قواعد نحو کے مدوّن ہونے سے پہلے حرف کا لفظ الفاظ کے لئے بھی عربی میں استعمال کیا جاتا تھا اسلامی زمانہ میں قواعد نحو کے مدوّن ہونے پر حرف کا لفظ حروف ہجاء یا ان الفاظ کے لئے مخصوص کر دیا گیا جو دوسرے لفظوں سے ملے بغیر مستقل معنی نہیں دیتے) اس شہادت کی موجودگی میں کون خیال کر سکتا ہے کہ یہ حروف کا بتو ںنے اپنے نام کے لئے بطور علامت کے سورتوں کے شروع میں رکھ دیئے تھے پھر لطف یہ ہے کہ دعویٰ تو یہ ہے کہ کا بتوں نے اپنے ناموں کی علامت کے طور پر یہ حروف لکھے تھے لیکن الٓمّٓ کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اَمَرَلی مُحمد مجھے اس کے لکھنے کا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حکم دیا ہے ان معنوں سے تو کسی شخص کا نام بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ پھر یہ علامت
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ63​
کس بات کی ٹھہرے۔ اس حدیث سے بھی جو جابر بن عبداللہ سے ابھی بیان کی جائے گی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الٓمّٓ کو کو وحی الٰہی کا حصہ قرار دیا ہے۔
میں نے ایک معنی ان حروف کے یہ بتائے تھے کہ ان کے عدد کے مطابق سالوں کے واقعات کی طرف ان کے بعد کی سورۃ میں اشارہ کیا گیا ہے یہ معنی ایک یہودی عالم نے کئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس نے ان کو دہرایا آپؐ نے اس کی تردید نہیں کی بلکہ ایک رنگ میں تصدیق کی۔ اس لئے یہ معنی بھی قابل غور ضرور ہیں اور تدبر کرنیوالوں کے لئے اس تفسیر سے کئی نئے مطالب کی راہ کھل جاتی ہے وہ حدیث جس میں اس تشریح کا ذکر آتا ہے یُوں ہے ابن اسحاق نے اور بخاری نے (اپنی تاریخ میں) نیز ابن جریر نے ابن عباس ے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے یوں روایت کی ہے مَرَٔاَ بُوْ یَاسِرِ بْنِ اَخْطَبَ فِیْ رِجَالٍ مِنْ یھود برَسولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ وَھُوَ یَتْلُوْ فَاتۃَ سودۃِ البقرۃ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ فَاَنٰی اَخَاہُ حُسَییّ بنَ اَخْطَبَ فِیْ رجَالٍ مِّنَ الْیَھُوْد فَقَالَ تَعْلَموُنَ وَاللّٰہِ لَقَدْ سَمِعْتُ محَّمدً ایَتْلُوْ فِیْمَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ فَقَّالَ اَنْتَ سَمِعْتَہ فَقال اَنْتَ سَمِعْہَ فَقَال نَعَمْ فَمَشَی حُییّ فِیْ اولٰٓک النَّفَرِ اِلیٰ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَا لُوْایَا مُحَمَّدُ اَلَمْ یُدْکَرْ اَنَّکَ تَتْلُوْ فِیْمَا اُنْزِلَ عَلَیْکَ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ قَالَ بَلیٰ قَالُوْا اَجَائَ کَ بِھٰدا جِبْرِیْل مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ قَالَ نَعَمْ قَالُوْا لَقَدْ بَعَثَ اللّٰہُ مِنْ قَبْلِکَ الْاَنْبِیَائَ مَانعلمہ بَیّن لِنبیٍّ مِنُھم مادّۃ مُلِکہٖ وَمَا اَجَل امّتہ غیرکَ فَقَالَ حُیییّ بنُ اَخْطب و اقبل عَلیٰ مَنْ کَانَ معہ الا لف واحدۃ والام ثلاثون والمیم اَرْبَعُوْنَ فَھٰدِہ احدٰی وَسَبْعُوْنَ سَنَۃً اَفَتَدْ خُلُوْنَ فِیْ دِیْن نَبیّ اِنَّمَاُدّۃ لُکہٗ وَاَجَل اُمَّتِہٖ احدٰی وَ سَبْعُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ فَقَالَ یَا مُحَمَّدَ ھَلْ مَعَ ھٰذا غَیْرُہٗ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَ مَا ذٰکَ قَال الٓمص قَالَ ھٰذِہٖ اَثْقَل وَ اَطْوَلَ الالف واحِدۃ واللَّام ثلثونَ وَالْمِیْم اَرْبَعُوْنَ وَالصَّاد تِسْعُوْن فَھٰذہ احدٰی وَّسِتُّونَ وَمأۃ سَنَۃً ھَلْ مَعَ ھٰذا یَا مُحَمَّد غَیْرہٗ قَالَ نَعَم قَالَ وَمَا ذٰکَ قَال الٓمٰ قَالَ ھٰذہ اثْقَلَ وَ اَطْوَلُ الالف واحدۃٌ وَاللَّامُ ثَلٰثُوْنَ والرّاء مأتان ھٰذہ احدٰی وَ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃً وَ مأتَانِ فَھَلْ مَعَ ھٰذا غَیْرُہ قَالَ نَعَمْ الٓمرٰ قَالَ فَھٰذہٖ اَثْقل وَ اَطْوَل الالف واحدۃ واللام ثَلاثُوْنَ وَالْمِیْم اَرْبَعُوْنَ وَالرّاء مأتانِ فَھذہ احدٰی وَ سَبْعُوْنَ سَنَۃً وَ مأتَان ثُمَّ قَالَ لَقَدْ لبس عَلَیْنَا اَمْرک یا مُحَمَّد حتّٰی مَانَدْدِیْ أقَلِیْلاً اُعْطَیْت اَمْ کَثِیْرًا ثُمَّ قَامُوْا فَقَالَ اَبُوْ یاسر لاَخِیْہ حییی ومن معہ من الاحبار مَاید رِیْکُمْ لَعَلّہٗ قَدْ جُمع ھٰذا لِمُحَمَّد کلّہ احدٰی وَ سَبْعُوْنَ واحدٰی وَسِتُّوْ ن ومأۃ واحدٰی و ثَلاَثُوْن و ماتُمَانِ واحدٰ ی وَ سِبْعُوْنَ وَ مأتانِ فَذا لِکَ سبع مأۃ وَ اَرْبَع وَ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃً فَقَالُوْا لَقَدْ تَشَا بَہَ عَلَیْنَا اَمْرُہ (بحوالہ فتح مصری صفحہ ۲۴) یعنی ابو یاسر بن اخطب (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مشہور یہودی علماء سے تھا) کچھ یہود سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزرا جبکہ آپؐ سورۂ بقرہ کیاابتدائی آیات پڑھ رہے تھے یعنی الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ وہ یہ سُن کر اپنے بھائی حُیَّیْی بن اخطب کے پاس جبکہ وہ یہود کی ایک جماعت کے پاس بیٹھا ہوا تھا آیااور کہا تم کو کچھ معلوم ہے میں محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا پڑھتے سنا ہے خدا کی قسم میں نے سنا ہے کہ وہ اپنے اوپر نازَ ہونے والے کلام میں سے یہ کلام پڑھ رہے تھے الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ اس پر حُیَّیْینے کہا کیا فی الواقع تم نے یہ کلام سنا ہے؟ اس نے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ64​
کہا کہ ہاں اسپر حُیَّیْی اپنے ساتھیوں کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کیا آپؐ کے متعلق یہ بات نہیں کہی جاتی کہ آپ اپنے اوپر نازل ہونے والے کلام میں سے ایک یہ وحی بھی سناتے ہیں کہ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ آپؐ نے فرمایا یہ درست ہے اس نے کہا کیا یہ کلام جبریل نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر نازل کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہا حُیَّیْی نے کہا کہ آپؐ سے پہلے بھی انبیاء آئے ہیں ہمیں معلوم نہیں کہ سوائے آپؐ کے ان میں سے کسی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حکومت کی مدت او راس کی قوم کا عرصہ بیان کیا ہو۔ پھر اس نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کیا اور کہا الف کا ایک لام کے تیس او رمیم کے چالیس یعنی کل اکہتر سال ہوئے کیا تم ایسے نبی کے دین کو قبول کرو گے جس کی حکموت کا عرصہ اور جس کی امت کا زمانہ کل اکہتر سال ہے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مخاطب ہوا اور پوچھا کہ اے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کیا ان کے علاوہ اور حرف بھی آپؐ پر نازل ہوئے ہیں آپؐ نے فرمایا ہاں اس نے پوچھا کیا آپؐ نے فرمایا الٓمّٓصٓ اس نے کہا یہ اس نے کہا یہ زیادہ گراں ہے اور ص کے نوے کل ایک سوا کاسٹھ ہوئے پھر پوچھا کیا ان کے سوا اور حروف بھی آپ پر نازل ہوئے ہیں آپ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا وہ کیا آپؐ نے فرمایا الٓرٰ اس نے کہا یہ اس سے بھی زیادہ گراں اور لمبا عرصہ ہے الف کا ایک لام کے تیس اور ر کے دوسو کل دوسو اکتیس ہوئے پھر کہنے لگا کیا ان کے سوا اور حروف بھی ہیں آپؐ نے فرمایا ہاں اور وہ الٓمّٓرٰ کے حروف ہیں اسپر وہ بولا کہ یہ تو پہلے سے بھی گراں اور لمبا عرصہ ہے الف کا ایک لام کے تیس میم کے چالیس اور ر کے دوسو ہوئے کل دو سواکہتر سال کا عرصہ ہوا پھر کہنے لگا اے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) آپؐ کا معامل ہم پر مشتبہ ہو گیا ہے پتہ نہیں لگتا آپؐ کو لمبی عمر عطا ہوئی ہے یا چھوٹی پھر وہ اور اس کے ساتھ اُٹھ کر چلے گئے راستہ میں ابو یاسر اے اپنے بھائی اور دوسرے یہودی علماء سے کہا کیا معلوم کہ یہ سب زمانے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کے لئے اکٹھے کر دئے گئے ہوں جن کی میزان سات سو چونتیس سال ہوتی ہے اس پر سب نے کہا کہ معاملہ کچھ مشتبہ ہی ہو گیا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود نے ان حروف سے سالوں کی تعداد مُراد لی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے خیال کا اظہار بھی کیا تھا اور آپؐ نے اُن کے خیال کی تردید نہیں فرمائی۔
یہود کا یہ خیال کہ ان حروف سے امت محمدؐیہ کا زمانہ بتایا گیا ہے ایک بالبداہت غلط بات ہے کیونکہ امت محمدؐیہ تردید نہ کرنا بھی کچھ معنے ضرور کھتا ہے اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اور سورتوں کے مضامین کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حروف اپنی عدوی قیمت کے لحاظ سے اس زمانہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے واقعات خاص طور پر اس سورۃ میں بیان کئے گئے ہیں جس کی ابتداء میں وہ حروف آئے ہیں خواہ اس لحاظ سے کہ بعثت نبوی کے بعد اتنے عرصہ کے اختتام پر وہ واقعات شروع ہوئے اگر اس خیال کو درست سمجھا جائے تو یہ بات تو واضح ہے کہ سورۂ بقرہ کے واقعات بعثت کے بعد کے اکتہر سال کے واقعات کا مختصر خاکہ ہیں حضرت معاویہ ۶۰ھ؁ میں فوت ہوئے ہیں اس میں تیرہ سال قبل ہجرت کے شامل کئے جائیں تو یہ ۷۳ھ؁ ہوتا ہے یزید کی بیعت حضرت معاویہ نے وفات سے ایک دو سال پہلے لی ہے چونکہ اسی وقت سے اصل فتنہ شروع ۂوا ہے اس لئے ابتدائے اسلام اور ترقی اسلام کا زمانہ اکتہر سال ہوتا ہے اور اسی زمانہ کا نقشہ سورۂ بقرہ کھینچا گیا ہے۔ دوسری سورۃ مریم ہے اس سے پہلے کھٰیٰعص کے الفاظ ہیں جن کی مجموعی رقم ۱۹۵ ہوتی ہے سورۂ مریم میں مسیحیت کی ترقی کا ذکر ہے اور خصوصاً دوسری
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ65​
ترقی کا جو اسلامی ترقی کے بعد ہونی تھی۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال سے مسیحیت نے دوبارہ سر نکالا ہی یہی سال ہے جس میں اسلامی تاریخ میں پہلی دفعہ کوشش کی گئی کہ جس وقت معتصم باللہ مسیحی رومی حکومت کے خلاف لڑ رہا تھا اسے معزول کر کے عباس بن مامون کو خلیفہ مقرر کر دیا جائے اور اس طرح مسیحیوں کے مقابل پر اسلام کو ضعف پہنچایا جائے اسی زمانہ کے قریب مسیحیوں نے دوبارہ سپین پر حملہ کر کے اس کے کچھ حصے واپس لے لئا اور اسی زمانہ کے قریب یہ بدبختی کا واقعہ دیکھنے میں آیا کہ خلاف انلس نے خلاف عباسیہ کے خلاف روما کے عیسائی بادشاہ سے خفیہ معاہدہ کیا اور عباسی حکومت نے شاہ فرانس سے سپین کی اسلامی حکومت کے خلاف دوستانہ تعلقات قائم کئے اور اس طرح اسلامی سیاست میں مسیحیوں کو داخل کر کے مسیحیت کی ترقی اور اسلام کے تنزل کی داغ بیل ڈالی۔ میری رائے میں اگر دوسری سورتوں پر بھی غور کیا جائے تو زمانہ کے لحاظ سے کافی روشنی ان مضامین پر پڑے گی۔
اب میں حروف مقطعات کے بارہ میں وہ تحقیق لکھتا ہوں جس کی بنیاد حضرت ابن عباسؓ اور حضرت علیؓ کے کئے ہوئے معنوں پر ہے اور وہ تحقیق یہ ہے۔
حروف مقطعات اپنے اندر بہت سے راز رکھتے ہیں ان میں سے بعض راز بعض ایسے افراد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کا قرآن کریم سے ایسا گہرا تعلق ہے کہ ان کا ذکر قرآن کریم میں ہونا چاہیئے لیکن اس کے علاوہ یہ الفاظ قرآن کریم کے بعض مضامین کے لئے قفل کا بھی کام دیتے ہیں کوئی پہلے ان کو کھولے تب ان مضامین تک پہنچ سکتاہے جس جس حد تک ان کے معنوں کو سمجھتا جائے۔ اسی حد تک قرآن کریم کا مطلب کھلتا جائے گا۔
میری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جب حروف مقطعات بدلتے ہیں تو مضمون قرآن جدید ہو جاتا ہے اور جب کسی سورۂ کے پہلے حروف مقطعات استعمال کئے جاتے ہیں تو جس قدر سورتیں اس کے بعد ایسی آتی ہیں۔ جن کے پہلے مقطعات نہیں ہوتے ان میں ایک ہی مضمون ہوتا ہے اسی طرح جن سورتوں میں وہی حروف مقطعات دُہرائے جاتے ہیں وہ ساری سورتیں مضمون کے لحاظ سے ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہوتی ہیں۔
اس قاعدہ کے مطابق میرے نزدیک سورۂ بقرہ سے لیکر سورہ توبہ تک ایک ہی مضمون ہے اور یہ سب سورتیں الٓمّٓ سے تعلق رکھتی ہیں۔ سورۃ بقرہ الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے پھر سورۃ ؑ العمران بھی الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے پھر سورہ نساء سورہ مائدہ اور سورہ انعام حروف مقطعات سے خالی ہیں اور اس طرح گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں جن کی ابتداء الٓمّٓ سے ہوتی ہے ان کے بعد سورہ اعراف الٓمّٓصٓ سے شروع ہوتی ہے اس میں بھی وہی الٓمّٓ موجود ہے ہاں حرف ص کی زیادتی ہوئی ہے اس کے بعد سورۃ افعال اور براء ۃ حروف مقطعات سے خالی ہیں۔ پس سورۃ براء ۃ تک الٓمّٓ کا مضمون چلتا ہے سورۃ اعراف میں جو ص بڑھایا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حرف تصدیق کی طرف لیجاتا ہے۔ سورہ اعراف انفال اور توبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی اور اسلام کی ترقی کا ذکر کیا گیا ہے سورۂ اعراف میں اصولی طور پر اور انفال اور توبہ میں تفصیلی طور پر تصدیق کی بحث ہے اس لئے وہاں ص کو بڑھا دیا گیا ہے۔
سورۂ یونس سے الٓمّٓ کی بجائے الٓرٰ شروع ہو گیا ہے ال تو وہی رہا اور مرکو بدلکرر کر دیا۔ پس یہاں مضمون بدل گیا۔ اور فرق یہ ہوا کہ بقرہ سے لیکر توبہ تک تو علمی نقطہ نگاہ سے بحث کی گئی تھی اور سورۂ یونس سے لیکر سورۂ کہف تک واقعات کی بحث کی گئی تھی اور سورۂ یونس سے لیکر سورۂ کہف تک واقعات کی بحث کی گئی ہے اور واقعات کے نتائج پر بحث کو منحصر رکھا گیا ہے اس لئے فرمایا کہ الٓرٰیعنی اَنَا اللّٰہُ اَرٰی میں اللہ ہوں جو سب کچھ دیکھتا ہوں اور تمام دُنیا کی تاریخوں پر نظر رکھتے ہوئے اس کلام کو تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔ غرض ان سورتوں میں رویت کی صفت
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ66​
پر زیادہ بحث کی گئی ہے اور پہلی سورتوں میں علم کی صفت پر زیادہ بحث تھی۔
میں فی الحال اس جگہ اختصاراً اتنی بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حروف مقطعات کے متعلق بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ بے معنی ہیں۔ اور انہیں یونہی رکھ دیا گیا ہے مگر ان لوگوں کی تردید خود حروف مقطعات ہی کر رہے ہیں چنانچہ جب ہم تمام قرآن پر ایک نظر ڈا ل کر یہ دیکھتے ہیں کہ کہاں کہا ںحروف مقطعات استعمال ہوئے ہیں تو ان میں ایک ترتیب نظر آتی ہے۔ سورۃ بقرہ الٓمّ سے شروعہ ہوتی ہہ پھر سورہ آل عمران الٓمّ سے شروع ہوتی ہے پھر سورۂ نساء سورۂ مائدہ سورہ انعام حروف مقطعات سے خالی ہیں پھر سورۂ اعراف الٓمّٓصٓ سے شروع ہوتی ہے اور سورۂ انفعال اور براء ۃ خالی ہیں ان کے بعد سورۂ یونس سورۂ ہود سورۂ یوسف الٓرٰ سے شروع ہوتی ہیں اور سورہ رعد میں مر بڑہا کر الٓھّٓوٰ کر دیا گیا ہے لیکن جہاں الٓمّٓصٓ میں ص آخرمیں رکھا یہاں مرکور سے پہلے رکھا گیا ہے۔ حالانکہ اگر کسی مقصد کے مدنظر رکھے بغیر زیادتی کی جاتی تو چاہیئے تھا کہ میم کو جو زائد کیا گیا تھا۔ ر کے بعد رکھا جاتا میم کو الٓرٰ کے درمیان رکھ دینا بتاتا ہے کہ ان حروف کے کوئی خاص معنے ہیںاور جب ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے الٓمّٓکی سورتیں ہیں۔ اور اس کے بعد الٓرٰ کی ۔ تو صاف طو رپر معلوم ہو جاتا ہے کہ مضمون کے لحاظ سے میم کو ر پر تقدم حاصل ہے اور سورۂ رعد جس میں میم او ر ر اکٹھے کروئے گئے ہیں اس میں میم کو ر سے پہلے رکھنا اس امر کو واضح کر دیتا ہے کہ یہ سب حروف خاص معنے رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان حروف کو حروف خاص معنے رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان حروف کو جو معنی تقدم رکھتے ہیں ہمیشہ مقدم ہی رکھا جاتا ہے۔ سورۂ رعد کے بعد ابراہیم اور حجر میں الٓرٰ استعمال کیا گیا نہیں ہوئے اور یہ سورتیں گویا پہلی سورتوں کے مضامین کے تابع ہیں۔ ان کے بعد سورۂ مریم ہے جس میں کھٰیٰعص کے حروف استعمال کئے گئے ہیں۔ سورۂ مریم کے بعد سورۂ طٰہٰ ہے اور اس میں طٰہٰ کے حروف استعمال کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد انبیاء حج مؤمنوں نور اور فرقان میں حروف مقطعات چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ گویا یہ سورتیں طٰہٰ کے تابع ہیں۔ آگے سورۂ شعراء طٰسم سے شروع کی گئی ہے گویا طاء کو قائم رکھا گیا ہے اور ھا کی جگہ س اور میم لائے گئے ہیں اس کے بعد سورہ نمل ہے جو طٰسٓ سے شروع ہوتی ہے اس میں سے میم کو اُڑا دیا گیا ہے اور طاء اور س قائم رکھے گئے ہیں اس کے بعد سورۂ قصص کی ابتدا پھر طٰسم سے کی گئی ہے گویا میم کے مضمون کو پھر شامل کر لیا گیا ہے۔ اس کے بعد سورہ عنکبوت کو پھر الٓمّٓ سے شروع کیا گیا ہے اور وہ دوبارہ علم الٰہی کے مضمون کو نئے پیرایہ اور نئی ضرورت کے ماتحت شروع کیا گیا ہے (اگرچہ میں ترتیب پر اس وقت بحث نہیں کر رہا۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ الٓمّٓ دوبارہ کیوں لایا گیا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سورۂ بقرہ سے الٓمّٓ کے مخاطب کفار تھے اور یہاں سے الٓمّٓ کے مخاطب مومن ہیں) سورۂ سجدہ کو بھی الٓمّٓ سے شروع کیا گیا ہے ان کے بعد سورۂ احزاب۔ سبا۔ فاطر۔ بغیر مقطعات کے ہیں اور گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ67​
ان کے بعد سورۂ یٰسٓ ہے جس کو یٰسٓ کے حروف سے شروع کیا گیا ہے اس کے بعد سورۂ صافات بغیر مقطعات کے ہے اس کے بعد سورہ صٓ حرف ص سے شروع کی گئی ہے پھر سورہ زمر حروف مقطعات سے خالی اور پہلی سورۃ کے تابع ہے اس کے بعد سورۂ مومن حٰمّٓ سے شروع کی گئی ہے اس کے بعد سورہ حٰمّٓ سجدہ کو بھی حٰمّٓ سے شروع کیا گیا ہے پھر سورۂ شوریٰ کو بھی حٰمّٓ سے شروع کیا گیا ہے لیکن ساتھ حروف عٓسٓقٓ بڑھائے گئے ہیں اس کے بعد سورۂ زخرف ہے اس میں بھی حٰمّٓ کے حروف ہی استعمال کئے گئے ہیں۔ پھر سورۂ دخان۔ جاثیہ اور احقاف بھی حٰمّٓ سے شروع ہوتی ہیں۔ ان کے بعد سورۂ محمد فتح اور حجرات بغیر مقطعات کے ہیں اور پہلی سورتوں کے تابع ہیں سورہ قٓ حرف ق سے شروع ہوتی ہے اور قرآن کریم کے آحر تک ایک ہی مضمون چلا جاتا ہے۔
یہ ترتیب بتا رہی ہے کہ یہ حروف یونہی نہیں رکھے گئے۔ پہلے الٓمّٓ آتا ہے پھر الٓمّٓصٓ آتا ہے جس میں ص کی زیادتی کی جاتی ہے۔ پھر الٓرٰ آتا ہے اور پھر الٓمّرٰٓ آتا ہے کہ جس میںمیم کی زیادتی کی جاتی ہے پھر کھٰیٰعص آتا ہے جس میں ص پر چار اور حروف کی زیادتی ہے پھر طٰہٰ لایا جاتا ہے۔ اور پھر اس میں کچھ تبدیلی کر کے طٰسٓمّٓ کر دیا جاتاہے۔ یہ ایک ہی قسم کے الفاظ کا متواتر لانا اور بعض کو بعض جگہ بدل دینا بعض جگہ اور رکھ دینا بتاتا ہے کہ خواہ یہ حروف کسی کی سمجھ میں آئیں جس نے انہیں رکھا ہے کسی مطلب کے لئے ہی رکھا ہے۔ اگر یونہی رکھے جاتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ کہیں ان کو بدل دیا جاتا کہیں زائد کر دیا جاتا کہیں کم کر دیا جاتا۔
علاوہ مذکورہ بالا دلائل کے خود مخالفین اسلام کے ہی ایک استد لال سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ مقطعات کچھ معنی رکھتے ہیں۔ مخالفین اسلام کہتے ہیں کہ قرآن کریم سورتوں کی ترتیب انکی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے ہے اب اگر یہ صحیح ہے تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ باوجود اس کے کہ سورتیں اپنی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے آگے پیچھے رکھی گئی ہے ایک قسم کے حروف مقطعات اکٹھے آتے ہیں الٓمّٓ کی سورتیں اکٹھی آ گئی ہی الٓرٰٓ کی اکٹھی طٰہٰاور اس کے مشترکات کی اکٹھی پھر الٓمّٓکی کٹھی حٰمّٓ کی اکٹھی۔ اگر سورتیں ان کے عجم کے مطابق رکھی گئی ہیں تو کیا یہ عجیب بات نہیں معلوم ہوتی کہ حروف مقطعات ایک خاص حجم پر دلالت کرتے ہیں اگر صرف یہی تسلیم کیا جائے تب بھی اس کے معنے یہ ہوں گے کہ حروف مقطعات کے کچھ معنی ہیں خواہ یہی معنی ہوں کہ وہ سورۃ کی لمبائی اور چھوٹائی پر دلالت کرتے ہیں مگر حق یہ ہے کہ ایک قسم کے حروف مقطعات کی سورتوں کا ایک جگہ پر جمع ہونا بتاتا ہے کہ ان کے معنوں میں اشتراک ہے اور یہ حروف سورتوں کے لئے بطور کنجیوں کے ہیں۔
میرے نزدیک حروف مقطعات کے معنوں کے لئے ہمیں قرآن کریم ہی کی طرف دیکھنا چاہیئے پہلی سورتوں میں الٓمّٓ آیا تھا چنانچہ سورہ بقرہ کے پہلے یہی حروف تھے اور ان کے بعد ذٰلِکَ الْکِتابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًیِ لِّلْمُتَّقِیْنِکا جملہ تھا اس کے بعد آل عمران میں الٓمّٓ آیا جس کے بعد اَللّٰہُ الَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ القَیُوْمُ نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ الحَقِّ آیا یاد رکھنا چاہیے کہ حقّ اور لَارَیْبَ کے دراصل ایک ہی معنے ہیں پس بقرہ میں بھی الٓمّٓ کے بعد ایسی کتاب کا ذکر تھا جس میں ریب نہ ہو اور اس جگہ بھی پھر اعراف میں الٓمّٓصٓ آیا اور اس کے بعد کِتَابٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلَایَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنْنِدَبِہٖ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ کی آیت رکھی گئی گویا یہاں بھی لَا رَیْبَ فِیْہِ والی کتاب کا ذکر ہوا ہے کیونکہ فَلَایَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ ایسی ہی کتاب پر دلالت کرتا ہے جو لَا رَیْبَ فِیْہِ کی صفت سے متصف ہو۔ ان ابتدائی سورتوں کے بعد وقفہ دے کر عنکبوت الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے فرماتا ہے الٓمّٓ o اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَ کُوْٓ اَنْ یَّقُوْ لُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَلَقَدْ مَّتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنْ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَ قُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَo ان آیات میں بھی ایک یقینی کتاب کا ذکر کیا گیا ہے چنانچہ امتحان شک اور ریب کے دُور کرنے پر ہی دلالت کرتا ہے۔ پس اس سورۃ میں بھی وہی مضمون ہے جو سورۃ بقرہ وغیرہ میں تھا صرف فرق یہ ہے کہ بقرہ میں انسان بحیثیت مجموعی مخاطب تھے اور یہاں مومنوں سے کہا گیا ہے کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ابھی شک تمہارے دلوں میں باقی ہو اور ہم تم سے معاملہ کا ملین والا شروع کر دیں۔ سورۂ روم میں بھی یہی مصمون ہے گو بہت باریک ہو گیا ہے فرماتا ہے الٓمّٓ o غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُوْنَo خدا تعالیٰ کا کلام روم کے متعلق نازل ہوا ہے اور وہ ضرور پُورا کر رہے گا
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ68​
گویا بجائے سب کتاب کی طرف اشارہ کرنے کے ایک خاص حصّہ کی طرف اشارہ اور اس کے یقینی ہونے پر زور دیا ہے جیسا کہ مِنْ اور س کے حروف سے ظاہر ہے۔
سورۂ روم کے بعد سورۂ لقمان الٓمّٓ o تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ oھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَo الَِذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَo اُولٰٓکَ عَلیٰ ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ اُولٰٓکَ ھُمْ الْمُفْلِحُوْنo اس سورۃ میں بھی حَکِیْم کا لفظ استعمال کر کے ایک یقینی امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور گویا بقرہ کے ابتدائی مضمون کو دُہرا دیا گیا ہے اور اس کے بعد سورہ سجدہ ہے اس میں آتا ہے الٓمّٓ o تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ َلارَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَo یہاں بھی ایک بے ریب کتاب کا ذکر ہے پس ان سب آیات سے ظاہر ہے کہ جہاں الٓمّٓ آتا ہے اس کے بعد ایک خاص مضمون آتا ہے اور ایک یقینی علم کے نزول کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اب اس امر کی موجودگی میں کس طرح سمجھ لیا جائے کہ یہ الفاظ یونہی رکھ دیئے گئے ہیں۔ پس حق یہی ہے کہ الٓمّٓ کے حروف ازالہ شک اور یقین پر دلالت کرنے کے لئے آتے ہیں اور وہ چیز جس سے شک دُور ہوتا ہے اور یقین پیدا ہوتا ہے کامل علم ہی ہوتا ہے پس الٓمّٓ کے معنی یہی ہیں اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ میں اللہ ہوں جو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں پس اگر شک کو دُور کرنا اور یقین حاصل کرنا چاہتے ہو تو میرے کلام کی طرف توجہ کرو اور میری کتاب کو پڑھو۔
اب میں الٓرٰ کو لیتا ہوں ان حروف سے جو سورتیں شروع ہوتی ہیں اگر ان پر غور کیا جائے تو وہ بھی ایک ہی مضمون سے شروع ہوتی ہیں سورۂ یونس میں آتا ہے الٓرٰٰ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتّبِ الْحَکِیْمِo اَکَانَ للِنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَٓا اِلیٰ رَجُلٍ مِّنْہُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسِ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْط قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا الَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ o پھر سورۂ ہود میں آتا ہے۔ الٓرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍہ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَط اِنَّنِیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌo وَّاَنِ اسْتَغْفِرُ وْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَتَاعًا حَسَنًا اِلیٰٓ اَجَلٍ مُّسَمًّی وُّ یُؤْتُ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗط وِانِْ تَوّلَّوْا فَاِنِیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍہo پھر سورۂ یوسف میں آتا ہے الٰٓرٰقف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُعِیْنِ o اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ o نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَٓا اِلَیْکَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَق وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ پھر سورۂ رعد میں آتا ہے الٓمّٓ قف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِط وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایُؤْمِنُوْنَo اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَط کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّیط یُدَبِّرُالْاَ مْرَیُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ بِلِقَآئِ رَبِّکُمْ تُوْقِنُوْنَo یہاں میم کا بھی اور راء کا بھی مضمون آ گیا۔ پھر سورۂ ابراہیم میں آتا ہے الٓرٰقف کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّہِمْ اِلیٰ صِرَاطِ الْعَزِیْزَ الْحَمِیْدِo اللّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِط وَ وَیْلٌ لِّلْکٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیْدٍo پھر سورہ حجر میں آتا ہے الٓرٰقف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ o رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَوْکَا لُوْا مُسْلِمِیْنَo… وَمَٓا اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا وَلَھَا کِتَابٌ مَّعْلُوْمٌo مَاتَسْبِقُ مِنْ اُمَّۃٍ اَجَلَھَا وَمَا یَسْتَاْ خِرُوْنَ۵ ان سب مقامات پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں دو مضامین پر زور دیا گیا ہے ایک پُرانی تاریخ پر جس میں سے خاص طو رپر شریروں کو سزا ملنے کے مضمون کو منتخب کر لیا گیا
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ69​
ہے اور دوسرے پیدائش عالم کے مضمون پر۔ سورۂ یونس میں استفہام انکاری کے استعمال سے بتایا گیا ہے کہ نذیر و بشیر انبیاء ہمیشہ ہی آتے رہے ہیں۔ سورۂ ہود میں اوّل تو یہ قاعدہ بتایا ہے کہ کوئی قوم ایک ہی حالت پر قائم نہیں رہتی بلکہ ایک دائرہ کے اندر چکر لگاتی ہے او رپیدائش عالم کا ذکر کر کے بتایا کہ دُنیا کی ترقی قانونِ ارتقاء کے ماتحت ہے اس کے بعد سورۂ یوسف میں صاف الفاظ میں تاریخ عالم کی طرف اشارہ کیا ہے سورۂ رعد میں چونکہ میم زائد تھا اس میں الٓمّٓ اور الٓرٰ دو مضمونوں کو جمع کر دیا اور پہلے تو میم کی مناسبت سے ایک یقینی کلام کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کے بعد پیدائشِ عالم کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلائل ہے سورۂ ابراہیم میں پھر قانونِ قدرت کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ اسے دیکھو اس میں تمہیں ایک بیدار آقا کا ہاتھ نظر آئیگا سورۂ حجر میں پھر پچھلی تاریخ کی طرف توجہ دلائل ہے یہ امر ظاہر ہے کہ واقعات اور قانون کا تعلق دیکھنے سے ہے حقیقت تک وہی پہنچ سکتا ہے جس کی آنکھو ںکے سامنے واقعات ہوںیا جس کی آنکھوں کے سامنے کوئی قانون ظاہر ہو رہا پس ان سورتوں کا رویت کے ساتھ تعلق ہے اور الٓرٰ میں یہی دعویٰ کیا گیا ہے کہ میں اللہ دیکھتا ہوں نہ ت وپُرانی تاریخ میری نظر سے پوشیدہ ہے اور نہ قانونِ قدرت کا اجراء یا پیدائش عالم میری نگاہ سے مخفی ہے پس رویت سے تعلق رکھنے والے اُمور میں میری ہی ہدایت کافی ہو سکتی ہے۔
ایک اور بات بھی حروف مقطعات کے متعلق یاد رکھنی چاہیئے کہ گو حروف مقطعات کے مضامین حروف کے اختلاف سے بدلتے رہتے ہیں لیکن ایک امر میں یہ سب حروف مشترک ہیں اور وہ یہ کہ جو سورتیں حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہیں ان کے مضمون کی ابتداء وحی الٰہی کے ذکر سے ہوتی ہے۔ اکثر میں تو صاف الفاظ میں کتاب یا قرآن کا لفظ ہی استعمال ۂوا ہے اور چند ایک میں کسی پرانی کتاب کی طرف اشارہ ہے جیسا سورۂ مریم میں یا کسی خاص کلام کی طرف اشارہ ہے جیسا سورۂ روم میں (یہ نوٹ جلد ۳ میں سورۂ یونس کی تفسیر میں چھپ چکا ہے لیکن چونکہ حالات کی مجبوری سے پہلی جلد بعد میں چھپ رہی ہے اس نوٹ کو سورۂ بقرہ میں درج کرنا پڑا۔ تاکہ شروع سے تفسیر پڑھنے والے پر بھی حروف مقطعات کی حقیقت واضح ہو جائے)
یہ دو معنے جو اوپر کئے گئے ہیں یعنی (۱) حروف مقطعات صفات الٰہیہ پر دلالت کرتے ہیں اور ہر حرف کسی ایسی صفت پر دلالت کرتا ہے جس کا ذکر اس سورۃ میں پایا جاتا ہے (۲) ان حروف سے اشارہ حروف کی عدوی قیمت کی طرف ہے اور جس قدرعہ دان حروف سے نکلتے ہیں اس قدر زمانہ کے حالات پر ان کے خاص طور پر روشنی پڑتی ہے دونو ںہی درست ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ایک کو درست اور دوسرے کو غلط کہا جائے اور اس بارہ میں ابتداء اسلام کے بعض آئمہ بھی مجھ سے متفق ہیں چنانچہ ابن ابی حاتم نے ابو جعفر رازی کی روایت سے ابو العالیہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے ایک حصّہ کا ترجمہ یہ ہے ’’ان حروف میں سے ایک حرف بھی ایسا نہیں (یعنی ال م اور دوسرے مقطعات میں سے) جو اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت کی گنجی نہ ہو اور نہ ان میں سے کوئی حرف ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمتو ںمیں سے نہ ہو اور اس کی روشنی سے حاصل نہ ۂوا ہو اور ان میں سے ایک حرف بھی ایسا نہیں جو بعض اقوام کی تاریخ اور ان کے زمانہ پر دلالت نہ کرتا ہو‘‘ یعنی ان حروف سے یہ تینو ںمعنے بیک وقت ظاہر ہوتے ہیں ان سے صفات الٰہیہ پر بھی دلالت کی گئی ہے اور مختلف زمانوں کے بارہ میں پیشگوئی بھی کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے معجزانہ کلام کا نمونہ بھی دکھایا گیا ہے اور ابو العالیہ کا یہ خیال نہایت درست اورمطابق حقیقت ہے۔ ابن جریر نے بھی اس روایت کو دوسرے لفظوں میں نقل کیا ہے اور اس کے مضمون کی تصدیق کی ہے۔
حروف مقطعات کی نسبت یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس غیر معمولی طریق کو قرآن کریم نے کیوں استعمال کیا کیوں نہ یہی مضمون سیدھی سادھی عبارت میں بیان کر دیا۔ تاکہ اوّل
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ70

عربوں پر او ربعد میں دوسرے لوگوں پر اس کا سمجھنا آسان ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ غیر معمولی طریق نہیں بلکہ عربوں میں یہ طریق کلامِ رائج تھا اور ان کے بڑے بڑے شاعر بھی اسے استعمال کرتے تھے اور نثر میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے ع قُلْنَا قِفِیْ لَنَا فَقَالَتْ قاف ہم نے اس سے کہا کہ تو ذرا ہماری خاطر ٹھہر جا تو اس نے جواب میں قاف کہا یعنی وقَفْتُ لو میں کھڑی ہو گئی ہوں۔ اسی طرح ایک دوسرا شاعر کہتا ہے۔
بِالْخَیْرِ خَیْرَاتٌ وَاِنْ شرًا فَا
وَلَا اُرِیْدُ الشَّرَّ اِلاَّ اَنْ تَا

یعنی نیکی کے بدلہ میں نیکی کرونگا۔ لیکن اگر تیرا ارادہ بدی کرنیکا ہو تو میں اس کیلئے بھی تیار ہو ںاور میں بدی کا ارادہ نہیں رکھتا سوائْ اس کے کہ تیرا ارادہ ہو۔ اس شعر میں فَشَرٌّ کی جگہ صرف حرف فا استعمال کیا گیا ہے اور تَشَائُ یعنی تو چاہے کی جگہ صرف حرفِ تا استعمال کیا گیا ہے۔
آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بھی ہے کہ ’’ مَنْ اَعَانَ علی قَتْلٍ مُؤْمنٍ بِشَطرِ کلمۃٍ لقی اللّٰہ عَزَّوجلَّ مکتوبٌ بَیْنَ عینیہ آیَسَ مِنْ رحمۃِ اللّٰہِ ‘‘ (ابن ماجہ ابواب الدیات) یعنی جو شخص کسی مسلمان کے قتل میں ایک لفظ کا حصّہ استعمال کرتے (یعنی اُقْتُلْ کی جگہ اُقْ کہہ دے) تو وہ قیامت کے دن اس حالت میں اُٹھے گا کہ اس کے ماتھے کے درمیان یہ لکھا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو گیا۔ پس عرب میں نظم و نثر میں جب قرینہ موجود ہو الفاظ کی جگہ حروف استعمال ہوتے تھے اور اس اسلوب کلام کا ایک لطیف نمونہ حروف مقطعات کے ذریعہ سے قرآن کریم نے دکھایا ہے۔ آج کل یورپ نے تو اس اسلوب کو بیحد استعمال کیا ہے ایم اے۔ بی اے۔ بی ٹی۔ ایم ڈی وغیرہ سینکڑوں ہزاروں حروف الفاظ کے قائم مقام استعمال ہو رہے ہیں۔ اور لوگ ان کے فائدہ کو سمجھتے ہیں۔
۱؎ حل لغات
ذٰلکت۔ اسم اشارہ ہے اور اشارہ بصید کے لئے آتا ہے جس کا ترجمہ اردو میں وہ ہے لیکن کبھی ھذا کے معنوں میں یعنی قریب کی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے چنانچہ زجاج کا قول ہے ذٰلِکَ الْکِتٰبُ اَیْ ھٰذَا الْکِتٰبُ یعنی ذٰلِکَ الُکِتٰبُ کے معنی ہیں یہ کتاب (تاج العروس) لیکن ذٰلِکَ کو اشارہ بعید کے لوے تصور کرتے ہوئے بھی فٰلِکَ کے معنی یہ کے کئے جا سکتے ہیں کیونکہ کبھی قریب کی چیز کے لئے نہیں بلکہ اس کی شان کی بلندی کے اظہار کے لئے بھی استعمال کر دیا جاتا ہے (فتح البیان)
الکتٰبُ ۔ ال اور کتاب کا مجموعہ ہے اور معنوں کے علاوہ ال حرف تعریف بھی ہے اس صورت میں یہ کبھی عہد کے لئے ہوتا ہے اور کبھی جنس کے لئے جب عہد کے لئے ہو تو کبھی ذکری ہوتا ہے اور کبھی ذہنی اور کبھی حضور یعنی جس لفظ پر ال آئے کبھی تو اس سے یہ بتانا مقصصود ہوتا ہے کہ یہ وہی امر ہے جس کا ذکر کر آئے ہیں اور کبھی یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ ہماری مُراد اس چیز سے ہے جو ہم اور تم دونوں اپنے دلوں میں جانتے ہیں اور کبھی یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ جو سامنے چیز پڑی ہے میں اسی کا ذکر کر رہا ہوں۔ اور جب جنسی ہو تو استغراقی ہوتا ہے یعنی اس سے یہ مُراد ہوتی ہے کہ اس جنس کے سب افراد اس لفظ میں شامل ہیں۔ استغراقی آگے کبھی حقیقی ہوتا ہے جیسے خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفاً ۔ انسان ضعیف ہی پیدا کئے گئے ہیں اور کبھی مجازی۔ مجازی کی صورت میں ال لا کر یہ بتایا جاتا ہے کہ کامل فرد یہی ہے ورنہ حقیقتہً اس قسم کے اور افراد بھی موجود
 
Top