• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر کبیر قادیانی خلیفہ زانی مرزا بشیر الدین محمود جلد نمبر1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ81

کی تفصیلات کا ذکر ہے۔ (انشاء اللہ)
اسی طرح قرآن کریم کرنے اللہ تعالیٰ کی صفات کو بالتفصیل بیان کیا ہے جس کی مثال اور کسی کتاب میں نہیں ملتی اور اس طرح ان تمام اتہاموں سے جو مختلف صفات کے ناقص بیان سے یا ناقص طو رپر سمجھنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف مختلف مذاہب یا مختلف فلسفے منسوب کرتے چلے آئے ہیں اللہ تعالیٰ کو بری قرار دیا ہے۔ غرض قرآن کریم کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کے درجہ کو مدنظر رکھتے ہوئے جن امور کو اس کی طرف منسوب کرنے سے اس کی کسر شان ہوتی ہے انکو اس کی طرف منسوب کرنے سے قرآن کریم نے اجتناب کیا ہے بلکہ اُن کا بادلیل رد کیا ہے۔ اور جن امور سے اس کی وہ شان جو ایک معبود او رکامل الصفات خدا تعالیٰ میں ہونی چاہیئے ظاہر ہوتی ہے ان امو رک واس کی طرف منسوب کیا ہے اور نہایت بسط اور عمدگی سے اُن کا ذکر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بعد کارخانۂ قدرت کے چلانیوالی ابتدائی علتوں میں ملائکہ کا وجود ہے۔ ملائکہ کو بھی قرآن کریم نے تمام نقائص اور عیوب سے جو ان کی ذات کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں پاک قرار دیا ہے۔ مثلاً فرماتا ہے لَایَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْحَلُوْنَ مَایُؤْمَرُوْنَ (التحریم ع ۱) یعنے ملائکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اس کی پوری طرح اطاعت کرتے ہیں اور اس طرح ان تہمتوں کا رد کر دیا ہے جو مثلاً یہود کی طرف سے ملائکہ پر لگائی جاتی ہیں کہ فرشتوں نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اُس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا۔ ہندوئوں میں ہے کہ دیوتائوں نے فلاں فلاں گناہ کیا اور اس تہمت سے فرشتوں کو بچانا ایک ضروری امر تھا کیونکہ فرشتے نیکی کی تحریرکوں کا سرچشمہ ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ اگر ایک مصطفی پانی کے چشمہ کے متعلق شک اور شبہ پیدا ہو جائے تو انسان اُس سے فائدہ اُٹھانے سے محروم رہ جائے گا اور نیکی کا وہ دروازہ اس کے لئے بند ہو جائے گا۔
تیسرا ستون انسان کی روحانی اور اخلاقی عمارت کی تکمیل کے لئے کلام الٰہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے انسان یقین اور معرفت حاصل کرتا ہے۔ اس پر بھی مختلف مذاہب اور فلسفوں نے تہمت دھرنے سے دریغ نہیں کیا تھا مثلاً بعض یہ کہتے تھے کہ الہام صرف خیالاتِ صافیہ کا نام ہے حالانکہ محض خیالات کا نام الہام رکھ کر اس یقین اور اعتماد کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے جو لفظی الہام کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں ہر شخص اپنے خیال کا نام الہام رکھ سکتا ہے۔ اس بارہ میں قرآن کریم فرماتا ہے۔ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسیٰ تَکْلِیْمًا (نساء ع ۲۳) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے بالمشافہ اور الفاظ میں باتیں کی تھیں۔ اسی طرح قرآن کریم کی نسبت فرماتا ہے۔ وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلَامَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ (التوبہ ع ۱) یعنی اگر ان مشرکوں میں سے جو تجھ سے برسرِ جنگ ہیں کوئی شخص تجھ سے پناہ مانگے تو اُسے پناہ دے تاکہ وہ اس کتاب کو سُن سکے جو تجھ پر نازل ہوئی ہے اور ساری کی ساری کلام اللہ سے ہے نیز کسی بندہ کا بنایا ہوا کوئی لفظ بھی اس میں شامل نہیں۔ پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے لام کو سُن لے اور چاہے کہ اپنے لوگوں کے پاس واپس جائے تو چاہیئے کہ حکومت کی حفاظت میں اُسے اس علاقہ میں جو اس کی اپنی قوم کا ہے اور اس کے لئے امن کی جگہ ہے تو اُسے واپس پہنچا دے۔
غرض قرآن کریم نے کتب سماویہ کو بھی اس تہمت سے بچایا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ بعض بڑے لوگوں کے خیالات ہیں جو انہو ںنے خدا تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ بعض بڑے لوگوں کے خیالات ہیں جو انہوں نے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیئے ہیں۔
چوتھا ستون مذہب کی عمارت کا انبیاء کا وجود ہے ان کے متعلق بھی قرآن کریم نے جو تعلیم دی ہے وہ ہر اک اتہام سے پاک ہے۔ مثلاً ایک تو اصولی طو رپر قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ انبیاء خدا تعالیٰ کے مقرب اور پاک لوگ ہوتے ہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ وَ اِذَا جَآئَ تْھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَٓا أوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِط اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَ مُوْا صَغَارٌ عِنْدَاللّٰہِ وَعَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا کَا نُوْایَمْکُرُوْنَ ( انعام ع ۱۵)
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ82

یعنی جب انبیاء خدا تعالیٰ کا معجزانہ کلام یا اس کے آسمانی نشانات دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں تو گنہگار لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی براہ راست وہی نعمت ملے جو اللہ کے رسولوں کو ملی ہے تب ہم ایمان لائیں گے یہ لو گاپنے اعمال کو نہیں دیکھتے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا پاکیزہ کلام کس طرح نازل کر سکتا ہے جبکہ یہ گہنگار اور مجرم ہیں اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کا بارکس پر رکھے یعنی اُسی کو یہ خلعت دیتا ہے جو پاکباز اور نیکوکار ہو مجرم نہ ہو۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ گنہگار لوگ انبیاء والے انعامات کے طالب ہیں حالانکہ گنہگارو ںکو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے بدارادوں اور منصوبہ بازیوں کی وجہ سے ذلت اور سخت عذاب پہنچیگا۔ اس آیت میں اصولی طو رپر انبیاء کی پاکیزہ زندگی اور اُن کے تقدس کی شہادت دی گئی ہے اور اس طرح ان تمام خیالات کی تردید کر دی گئی ہے جو اللہ کے انبیاء پر لگائے جاتے ہیں خواہ اُن کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ جسیا کہ مثلاً کرشن جی علیہ السلام کے بارہ میں خود اُنہی کے متبع کہتے ہیں کہ وہ مکھن چرایا کرتے تھے اور عورتوں کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ چنانچہ ’’شریمد بھاگوت پر ان‘‘ اسکندھ صفحہ ۱۰ نمبر ۸؍۱۰ میں لکھا ہے کہ شری کرشن جی کی والدہ انہیں کہتی ہیں کہ:
’’بیٹا نو لاکھ گائیں میرے یہاں دُودھ دینے والی ہیں جتنا دُودھ ماکھن چاہیئے کھایا اور لٹایا کرو۔ دوسروں کے گھر ماکھن کھانے اور چرانے مت جایا کرو۔‘‘
اسی طرح برہم وی ورت پُورا ان کرشن جنم کھنڈ صفحہ ۴ ادھیائے ۷۲ میں تحریر ہے کہ۔
’’دن کے چھپنے پر اکرور جی اپنے گھر چلے گئے اور کرشن جی بھی کسی کے گھر چلے گئے۔ نند اور بلدیو سمیت کرشن جی گوبند بھگت کے ہاں ٹھیر۔ بھگت نے سب کاستکار (عزت) کیا جب سب پلنگوں پر سو گئے اور (مسماۃ) کبجا بھی سو گئی۔ تب کرشن جی بھی کبجا کے گھر چلے گئے۔ وہاں پر جا کر کبجا کو پلنگ پر سوئی ہوئی دیکھا۔ کرشن جی نے داسیوں (لونڈیوں) کو نہیں جگایا صرف کبجا کو جگا لیا۔ اس سے کرشن جی نے کہا اے سندوی نیند کو چھوڑ کر مجھ کو شرنگاہ دان (داد عیش) دے۔‘‘
اور اس عبارت کے بعد اور بہت کچھ خرافات ہیں جن کی نقل سے شرم و حیا اور حضرت کرشن کا ادب مانع ہے۔ مگر یہ سب من گھڑت باتیں دوسرے لوگوں کی ہیں۔ کرشن جی علیہ السلام ان باتوں سے پاک تھے۔ جیسا کہ قرآن کریم سے اصولی طور پر سب ربانی مصلحین کی پاکیزگی کا ثبوت ملتا ہے۔
اسی طرح رامچندر جی کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ سیتا جی سے آخری عمر میں بلاوجہ ناراض ہو گئے اور قطع تعلق کیا۔
(رامائن اتر کانڈ سرگ ۵۳)
جن انبیاء کا ذکر خاص مصالح کے ماتحت اور فوائد جلیلہ کے لئے قرآن کریم نے نام لے کر کیا ہے اُن کی شان کو قرآن کریم نے خاص طو رپر ذکر کیا ہے اور ان پر لگائے ہوئے اتہامات کو خاص طور پر ردّ کیا ہے۔ مثلاً بائبل کہتی ہے کہ آدم نے گناہ کیا اور دیدہ دانستہ اللہ تعالیٰ کی نافرمائی کی۔ قرآن کریم فرماتا ہے وَلَقَدْ عَہِدْ نَآ اِلٓیٰ اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَسَِیَ وَلَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا (طہ ع ۶) یعنی اے محمد رسول اللہ تجھ سے پہلے ہم نے آدم کو بھی بعض امور شریعت سے اطلاع دی تھی مگر ایک موقعہ پر وہ ایک حکم کے بارہ میں بھول گیا مگر اس کا ارادہ ہماری نافرمانی کرنے کا نہ تھا۔ یعنی آدم سے جو غلطی ہوئی تھی وہ بھول چوک کی قسم سے تھی جو گناہ نہیں کہلاتی اور دل کی تاریکی پر دلالت نہیں کرتی۔ اسی طرح بائبل میں لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے نعوذ باللہ منہ بعض پر جھوٹ بولا۔ مسلمانوں کی ایک جماعت نے بھی بعض احادیث سے دھوکا کھا کر اسی قسم کا عقیدہ بنا رکھا ہے مگر قرآن کریم فرماتا ہے وَابْرَاھِیْمَ اَلَّذِیْ وَفّی (النجم ع ۳) یعنی ابراہیم نے جو وعدہ اللہ تعالیٰ سے کیا تھا اُسے کامل طو رپر پورا کر دیا۔ یعنی تمام اخلاق حسنہ کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ کیا عدل اور کیا احسان اور کیا عفو اور کیا ستاری اور کیا رأفت اور کیا شفقت علیٰ خلق اللہ اور کیا سچائی اور کیا معاملہ کی صحت۔ ہر ایک حکم جو خدا کی طرف سے اُسے دیا گیا تھا
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ83

اُسے اُس نے پورا کیا اور معمولی طو رپر ہی نہیں بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ احکام الٰہی کے پوار کرنے میں دکھایا۔
بعض لوگوں نے کہا تھا کہ موسیٰ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے مصریوں سے دھوکا سے اُن کے زیور مانگ لئے (خروج ب ۱۱ آیت ۲) اور پھر ان کو لے کر مصر سے بھاگ گئے۔ مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ وَلٰکِنَّا حُمِّلْنَٓا اَوْزَارً امِّنْ زِیْنَۃِ الْقَوْمِ فَقَذَ فْنٰھَا (طہ ع ۴) یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہاڑ پر جانے کے بعد اُن کی قوم کے ایک حصہ نے شرک کیا اور حضرت موسیٰ نے آ کر اُن پر ناراضگی کا اظہار کیا تو اُن کی قوم نے جواب دیا کہ ہم نے اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ سامری کے ورغلانے سے کیا ہے۔ اور بات یُوں ہوئی ہے کہ مصری قوم کے زیورات جو ہمیں زبردستی دے دئے گئے تھے ہم اُنہیں اپنے پاس رکھنا نہیں چاہتے تھے سامری کے کہنے پر ہم نے وہ زیورات اُسے دیدئے۔ اس عبارت سے ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے تو الگ رہا بنی اسرائیل نے خود اپنے ارادہ سے بھی مصریوں کو دھوکا دینا نہ چاہا تھا بلکہ مصریوں نے خود ہی غدابوں سے گھبرا کر بنی اسرائیل کو اپنے زیورات دئے تھے تاکہ کسی طرح وہ چلے جائیں اور ان سے مصریوں کا پیچھا چھوٹے اور یہ کہ ان زیورات کو اپنے پاس رکھنے کی بنی اسرائیل کو بالکل کوئی خواہش نہ تھی۔
تورات میں کہا گیا تھا کہ موسیٰ کا ہاتھ معجزہ کی وجہ سے مبروص ہو گیا تھا (خروج باب ۴ آیت ۶) حالانکہ خود تورات ہی مبروص کو ناپاک قرار دیتی ہے (احباب باب ۱۳ آیت ۹،۱۰) اور برص ایک گھنائونی مرض ہے۔ مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ تَخْرُجُ بَیْضَٓائَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ (طہ ع ۱) یعنی ہاتھ کے سفید ہونے کا معجزہ کسی بیماری سے مشابہ نہ ہو گا بلکہ معجزانہ رنگ میں ہاتھ میں چمک پیدا ہو گی۔
تورات میں کہا گیا تھا کہ ہارون نے نعوذ باللہ من ذالک بنی اسرائیل کو ھچھڑا بنا کر دیا اور شرک کی راہ پر چلایا لیکن قرآنکریم فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ قَالَ لَھُمْ ھَارُوْنُ مِنْ قَبْلُ یَا قَوْمِ اِنَّمَا فُیِّنْتُمْ بِہٖ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ (طہ ع ۵) یعنی موسیٰ کے پہاڑ سے واپس آنے سے پہلے حضرت ہارونؑ بھی اپنی قوم کو شرک سے روکت رہے تھے اور اُن سے کہتے تھے کہ اے قوم اس بچھڑے کے ذریعہ سے تمہارا ایمان خراب کیا گیا ہے اور تمہارا رب تو رحمن ہے یہ بے حقیقت بچھڑا رب کس طرح ہو سکتا ہے پس تم میری فرمانبرداری کرو اور میرے حکم پر چلو۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون شرک کرانے والوں میں سے نہ تھے بلکہ شرک کے روکنے والوں میں سے تھے۔ حضرت سلیمان پر یہود شرک کا الزام لگاتے ہیں اور گنہگار قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے’’جب سلیمان بوڑھا ہوا تو اس کی جورئووں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کیا۔‘‘ (اسلاطین باب ۱۱ آیت ۴) قرآن کریم اس الزام کو بھی ردّ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْ ا (البقرہ ۱۲ ع ۱۲) یعنی سلیمان نے کوئی کفر والی بات نہیں کی بلکہ اس کا انکار کرنے والے اور اس پر الزام لگانے والے کافر تھے۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہود نے الزام لگایا تھا کہ نعوذ باللہ من ذالک اُن کی پیدائش بدکاری کے نتیجہ میں تھی اور یہ کہ وہ نعوذ باللہ من ذالک یوسف کے نطفہ سے بغیر شادی کے پیدا ہوئے تھے (انسائیکلو پیڈیا ٹینکا جلد ۵ صفحہ ۱۰۲ زیر لفظ CELSUS نیز دیکھو جوئش لائف آف کرائسٹ صفحہ ۱۲) اسی طرح بعض یہودی یہ الزام لگاتے تھے کہ وہ نعوذ باللہ من ذالک ایک رومی سپاہی پینتھرا PENTHERA کے بیٹے تھے جن کا ناجائز تعلق حضرت مریم صدیقہ سے تھا (جوئش انسائکلو پیڈیا جلد ۷ صفحہ ۱۷۰ کالم اول) اسی طرح یہود کا یہ اعتراض تھا کہ انہیں شیطانی الہام ہوتا تھا اور ان کا تعلق بعل سے تھا جس کے معنے اُن کے محاورہ میںشیطان کے تھے۔ چنانچہ لکھا اور فقیہہ جو یروشلم سے آئے تھے کہتے تھے کہ اس کے ساتھ بعل زبول کا تعلق ہے اور یہ بھی کہ وہ بدروحوں کے سردار کی مدد سے بدروں کو نکالتا ہے (مرقس باب ۲ آیت ۲۲) قرآن کریم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو ان سب تہمتوں سے پاک قرار دیا ہے۔ اُن کی پیدائش کے متعلق فرماتا ہے وَالَّتِّیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْھَا
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ84

مِنْ تُروْحِنَا وَجَعَلْنٰھَا وَابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (الانبیاء ۶ ع ۶) یعنی مریم جو حضرت عیسیٰ کی والدہ تھیں انہو ںنے اپنے تمام سوراخوں کو گناہ سے محفوظ رکھا تھا اور ان کو جو حمل ہوا تھا وہ ناپاک اور شیطانی روح کا نہ تھا بلکہ ایک پاک جو ہماری طرف سے تھی ان کے اندر داخل ہوئی تھیک اور ہم نے اس کو اور اس کے بیٹے عیسیٰ کو دنیا کے لیے ایک نشان بنایا تھا۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے شیطان سے تعلق کے ازالہ کیلئے فرماتا ہے۔ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَاَیَّدْ نَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (البقرہ ۱۱ ع ۱۱) یعنی ہم نپے عیسیٰ بن مریم کو کھلے کھلے نشانات عطا فرمائے تھے اور اس کو روح القدس یعنی پاک الہام لانے والے فرشتے سے مدد دی تھی یعنی اُن کا الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا اور فرشتے اس پر نازَ ہوتے تھے شیطان سے اُن کا تعلق نہ تھا۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے اپنے تبعین نے بھی ایک شدید الزام اُن پر لگایا تھا کہ وہ نعوذ باللہ من ذالک صلیب پر مر گئے تھے حالانکہ صلیبی موت تورات کے مطابق *** موت ہوتی ہے۔ چنانچہ عہد نامہ جدید میں لکھا ہے۔ ’’مسیح جو ہمارے لئے *** باا اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی *** سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ *** ہے‘‘ (گلتیوں باب ۲ آیت۱۳) قرآن کریم اس الزآم کو بھی رد فرماتا ہے چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی فرماتا ہے وَالسَّلاَمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا (مریم ۵ ع ۲) یعنی جو لوگ مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا میری پیدائش حرامکاری کے نتیجہ میں تھی وہ بھی غلط کہتے ہیں کیونکہ میری پیدائش پر خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہوئی تھی۔ اور جو لوگ کہینگے کہ میں صلیب پر لٹکایا جا کر *** موت مرا ہوں وہ بھی غلطی کریں گے کیونکہ میری موت بھی خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہو گی اور *** کی موت سے میں بچایا جائوں گا۔ اور جو لوگ یہ کہیں گے کہ میں دوسروں کے گناہ اٹھا کر (نعوذ باللہ من ذالک) تین دن سزا بھگتوں گا وہ بھی غلطی کریں گے کیونکہ میرا بعث بعد الموت بھی خدا تعالیٰ کی سلامتی سے شروع ہو گا۔
حضرت مسیح کا مسیحیوں کی مزعومہ صلیبی موت کے بعد دوزخ میں جانا اور گویا اُن کی موت کی *** کے اثر کے نیچے ہونا انجیل نقودیمس کے باب ۲۱ سے ثابت ہے۔ نیز اپطرس ۱۸م۲۰؍۳ میں لکھا ہے۔ ’’کیونکہ مسیح نے بھی ایک بار گناہو ںکے واسطے دکھ اٹھایا یعنی راستباز نے ناراستوں کے لئے۔ تاکہ وہ ہم کو خدا کے پاس پہنچائے۔ کہ وہ جسم کے حق میں تو مارا گیا لیکن روح میں زندہ کیا گیا جس میں ہو کے اس نے ان روحوں کے پاس جو قید تھیں جا کے منادی کی جو آگے نافرمانبردار تھیں۔ جس وقت کہ خدا کا صبر نوح کے دنو ںمیں جب کشتی تیار ہوتی تھی انتظار کرتا رہا۔‘‘
بائبل کی تفسیر میں جو متھیو پول MATTHEW POOL کی تصنیف شدہ ہے قید مراد دوزخ لیا گیا ہے۔
(تفسیر بائبل مصنفہ متھیوپول جلد صفحہ ۳ صفحہ ۹۱۱)
پانچوان ستون مذہب کا خود انسان کا وجود ہے کیونکہ وہ مہبط وحی ہے۔ اس ستون کو بھی بعض مذاہب نے گرانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً مسیحی مذہب کہتا ہے کہ انسانی روح آدم علیہ السلام کے گناہ کی وجہ سے گنہگار ہو گئی ہے او رانسان طبعاً میلان گناہ رکھتا ہے۔ رومیوں باب ۵ میں لکھا ہے۔ ’’پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا۔ اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی۔ اس لئے کہ سب نے گناہ کیا۔‘‘ (آیت ۱۲)
او رہندو مذہب بھی ظاہر کرتا ہے کہ گویا انسان تمام کوششوں کے باوجود پاک نہیں ہو سکتا اور بار بار جونوں میں ڈالا جاتا ہے۔
(ستیارتھ پرکاش مصنفہ پنڈت دیانند جی بانی آریہ سماج ب ۹)
قرآن کریم نے ان مذاہب کے برخلاف انسانی فطرت کی براء ت کی ہے اور وہ فرماتا ہے۔ وَنَفْسٍ وَّمَاسَوّٰھَا فَاَ لْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْو ٰھَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْخَابَ مَنْ دَسّٰھَا ( الشمس ۱۶ ع ۱) یعنی ہم نفسِ انسانی کو بطور شہادت کے پیش کرتے ہیں کہ اسے ہم نے سب عیوب سے پاک پیدا کیا ہے اور اس کی فطرت میں نیکی اور
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ85

بدی کے پہچاننے کی طاقت رکھی ہے۔ چنانچہ جو شخص اپنی روح کو بیرونی ملونیوں سے پاک رکھتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو شخص اس کی جبلی پاکیزگی کو دنیاوی آلائشوں سے گدلا کر دیتیا ہے اور اسے اس کے اعلیٰ مقام سے نیچے گرا دیتا ہے وہ ناکام ہو جاتا ہے یعنی انسانی روح اصل میں پاکیزگی لے کر آتی ہے اور بعد میں لوگ اُسے گندہ کر دیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ آدم یا کسی اور کے گناہ کی وجہ سے وہ ناپاک ہو گئی ہے۔ اسی طرح تناسخ کے چکر کا اس طرح ردّ کرتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ تَتَوَ فّٰھُمُ الْمَلآَئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلَامٌ عَلَیْکُمُ ادْخلوا ابعنۃ بما کنتم معملون (النحل ۱۰ ع ۴) یعنی وہ لوگ جن کی جان فرشتے اس حالت میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں فرشتے اُن سے کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دائمی سلامتی تم کو ملیگی (سلام کا لفظ جو اسم ہے دائمی سلامتی پر دلالت کرتا ہے) جائو اور اپنے اعمال کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی جنت میں داخل ہو جائو۔ اسی طرح فرماتا ہے کہ وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُ وْافِفِی الْجَنَّۃِ خَالِدِیْنَ فِیْھَا مَادَا امَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّامَاشَٓائَ رَبُّکَ عَطَائً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ (ہود ۹ ع ۹) یعنی جو لوگ سعید اور نیک ہونگے وہ جنت میں جائیں گے اس میں جنت کے آسمان زمین کے قیام تک اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع رہتے چلے جائیں گے۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیئت کا فیصلہ بھی کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ان کو کبھی جنت سے نہیں نکالے گا اور اُن کو ایسا انعام بخشے گا جو کبھی بند نہ ہو گا۔
اس آیت سے انسانی فطرت کے اس حق کو جو دائمی نجارت کے متعلق ہے اور جسے آریہ صاحبان نے تناسخ کے عقیدہ سے باطل کر دیا ہے، قائم کر دیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ تمام اہم ہور جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اُن کے متعلق جو جو تہمتیں مختلف مذاہب کے پیرووں یا فلاسفروں نے لگائی تھیں اسلام نے ان کو دُور کیا ہے اور ہر اک تہمت سے خدا تعالیٰ کو ملائکہ کو کلام الٰہی کو انبیاء کو اور فطرتِ انسانی کو بری کیا ہے اور یہ ایسی خوبی ہے جو اور کسی کتاب میں اس کی موجودہ حالت میں نہیں پائی جاتی اور صرف قرآن کریم ہی ہ جو سب تہمتوں سے ان مبارک وجودوں اور اصولوں کو پاک کرتا ہے جو مذہب کے لئے بمنزلہ ستون کے ہیں اور یہ ایسا امر ہے کہ اگر قرآن کریم اس کے سوا اور کوئی کام نہ بھی کرتا تو صرف یہی کام دوسرے ادیان کی موجودگی کے باوجود اس کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لیے کافی تھا۔
ظاہر ہے کہ جس کے دل میں خدا تعالیٰ کی نسبت بدظنی ہو گی اور وہ اس کی طاقتوں کے بارہ میں شک میں ہو گا وہ اس سے کامل تعلق پیدا کر کے اس کی بے پایاں رحمت سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے گا۔ اور جو ملائکہ کی نسبت بدظن ہو گا وہ ملائکہ سے تعلق جوڑ کر ان کی پاکیزہ تحریکوں سے فائدہ نہ اٹھا سکے گا۔ اور جو انبیاء سے یا اُن میں سے کسی سے بدظن ہو گا اور وہ ان کے اعلیٰ نمونہ سے فائدہ نہ اُٹھا سکے گا۔ اور جو کلام الٰہی کے متعلق شبہ میں ہو گا وہ اس کی پاک کرنے والی تاثیرات سے محروم رہے گا۔ اور جو انسانی فطرت سے بدظن ہو گا وہ اپنے نفس کو پاک کرنے کی جدوجہد میں اس عزم اور ارادہ سے محروم رہے گا جو پاکیزگی کے حصول کے لئے ضروری ہے۔ پس لَ ارَیْبَ فِیْہِ کے مطابق تعلیم دے کر قرآن کریم نے انسان کو نیکی کے سر چشموں سے فائدہ اٹھانے، نیک نمونوں کو خضرِ راہ بنانے اور نہ ٹوٹنے والی امید کو اپنے دل میں جگہ دینے کی ایک ایسی راہ کھول دی ہے جو اس کی نجات کی ضامن اور اس کی کامیابی کی کفیل ہو جاتی ہے۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے رَیْب کے دوسرے معنے شک کے ہیں۔ پس لَارَیْبَ فِیْہِ کے یہ معنے بھی ہیں کہ قرآن کریم کی صداقت کا ایک مزید ثبوت اور اس کی ضرورت حقہ کا ایک زبردست گواہ یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک نہیں۔
جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود قرآن کریم پر اعتراض کرنے میں جلدی کرتے ہیں انہوں نے اس جملہ کے صرف یہی معنے کئے ہیں اور پھر اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کر کے کہ اس میں کوئی شک نہیں گویا خود اپنے مشکوک ہونے کا اعتراض کیا ہے کیونکہ جب دل میں چور نہ ہو
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ86

تو انسان کو یہ خیال ہی نہیں ہو سکتا کہ لوگ مجھ پر جھوٹا ہونے کا الزام لگائیں گے (ویری بحوالہ رومن قرآن) اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس نادان معترض کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سورۂ بقرہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی وحی نہیں ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ اپنے دل کے خدشہ کی وجہ سے سے شک کی نفی کی گئی ہے بلکہ یہ سورۃ تو مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے جبکہ قرآن کریم کو نازل ہوتے ہوئے تیرہ سال سے زائد گذر چکے تھے اور اس عرصہ میں کفار ہزاروں شبہات قرآن کریم کے بارہ میں پیش کر چکے تھے۔ پس اس قدر عرصہ تک دشمنوں کے اعتراضات لینے کے بعد بھی اگر قرآن کریم کا حق نہیں کہ وہ یہ کہے کہ اس میں کوئی شک کی بات نہیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جو سچا ہو اُسے کبھی یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ سچا ہے ورنہ اس کی سچائی میں شک پڑ جائیگا۔ یہ دعویٰ بالبداہت باطل ہے اور کبھی کسی عقلمند نے اسے قبول نہیں کیا نہ کبھی کسی صادق نے اس پر عمل کیا ہے اور یہ نکتہ صرف رومن قرآن کے مصنف کے ہی ذہن میں آیا ہے اور ریورنڈویری ہی ایک ایسے شخص ہیں جن کو اس خلاف عقل دعویٰ کی تصدیق کی توفیق ملی ہے۔
مگر افسوس ہے کہ ان دونوں پادریوں کو خود اپنی مذہبی کتب پر غور سے مطالعہ کرنے کا کبھی موقعہ نہیں ملا۔ اگر وہ اپنی مذہبی کتب کا غور سے مطالعہ کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ وہ یہ اعتراض قرآن کریم کی صداقت کے خلاف نہیں کر رہے بلکہ خود اپنی کتب کے خلاف کر رہے ہیں چنانچہ مندرجۂ ذیل حوالے جو بہت سے حوالوں میں سے چند ہیں ثابت کرتے ہیں کہ بالکل اس قسم کے محاورات بائبل میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ ا مثال ۸؍۸ ’’میرے منہ کی ساری باتیں صداقت سے ہیں ان میں کچھ ٹیڑھا ترچھا نہیں۔‘‘ بیعیاہ ۱۹؍۴۵ ’’میں خداوند سچ کہتا ہوں اور راستی کی باتیں فرماتا ہوں۔‘‘ تمطائوس (۱) طیطس ۸؍۳ ’’یہ بات سچ ہے۔‘‘ مکاشفات ۵؍۲۱، ۶؍۲۲ ’’یہ باتیں سچ اور برحق ہیں۔‘‘
ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ اپنی سچائی پر زور دینے کے لئے عہد نامہ قدیم اور جدید دونوں نے بالکل قرآن کریم کے مشابہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اور اگر اس قسم کے محاوروں کے استعمال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قائل اپنی سچائی کی نسبت شبہ رکھتا ہے تو یہ شبہ بہت زیادہ مصنفین عہد نامہ قدیم اور جدید کے دل میں پایا جاتا تھا۔ مگر حق یہ ہے کہ یہ اعتراض نہ بائبل پر پڑتا ہے نہ قرآن کریم پر۔ کیونکہ جب شبہات پیش کئے جائیں تو اپنے دعویٰ کی سچائی پر زور دینے کے لئے ایسے کلمات کا استعمال شک پر نہیں بلکہ یقین پر دلالت کرتا ہے۔ اور قرآن کریم میں یہ الفاظ ابتدائی سورتوں میں استعمال نہیں کئے گئے بلکہ ایک لمبے عرصہ کی محالفت کے بعد استعمال کئے گئے ہیں۔
اوپر کا جواب امر واقعہ کے لحاظ سے ہے ورنہ میرے نزدیک اس کتاب میںجو عالم الغیب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہو اگر شروع میں بھی ایسے کلمات پائے جائیں تو کسی شک پر دلالت نہیں کرتے۔ کیونکہ گو بندہ نہیں جانتا کہ اس کے دعویٰ کو لوگ کس نگاہ سے دیکھیں گے مگر خدا تعالیٰ تو جانتا ہے ہ اُس کے نازل کردہ کلام سے لوگ کس طرح پیش آئیں گے اور وہ اپنے علم کی بنا ئپر ایسے کلمات شروع میں ہی استعمال کر سکتا ہے او راس کا ایسا کرنا اس کے متشکک ہونے کا ثبوت نہ ہو گا بلکہ اس کے عالم الغیب ہونے کا ثبوت ہو گا۔
اوپر کے جوابات اس امر کو تسلیم کر کے دئے گئے ہیں کہ لَارَیْبَ فِیْہِ کا فقرہ محض صداقت قرآن کریم کی تاکید کیلئے استعمال ہوا ہے۔ مگر میرے نزدیک ریب کے معنے اگر صرف شک کے کئے جائیں تو اس صورت میں بھی یہ صرف صداقت کی تاکید کے طور پر استعمال نہیں ہوا بلکہ اپنے اندر مزید صداقتیں رکھتا ہے جو قرآن کریم کے سچے ہونے کے دلائل پر مشتمل ہیں چنانچہ ’’اس میں کوئی شک نہیں‘‘ کے ایک تو یہ معنے ہیں کہ یہ کلام ضرور سچا ہے اور دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ اس میں کوئی شکی بات نہیں۔
میں حل لغات کے موقعہ پر ثابت کر چکا ہوں کہ ریب اس شک کو نہیں کہتے جو تحقیقی کے راستہ میں حمد ہوتا ہے اور
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ87

جس پر علمی ترقی کا مدار ہے بلکہ ریب اس شک کو کہتے ہیں جو بلاوجہ اور بدظنی پر مبنی ہو اور ان معنوں کی رُو سے ’’اس میں کوئی ریب نہیں‘‘ کے یہ معنے ہوئے کہ قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جو بدظنی اور صداقت کے انکار پر مشتمل ہو یعنی اس میں جس قدر امور ہیں وہ تحقیقی ہیں ظنی نہیں۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ اس میں جس قدر امور ہیں تحقیقی ہیں ظنی نہیں کوئی معمولی دعویٰ نہیں بلکہ اگر یہ دعویٰ ثابت ہو جائے تو اس سے قرآن کریم کی صداقت پر ایک زبردست شاہد مہیا ہو جاتا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں جس قدر امور بھی بیان کئے گئے ہیں سب کے لئے دلائل مہیا کئے گئے ہیں۔ مثلاً بائبل وید اور دیگر کتب خدا تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتی ہیں مگر اس کو ایک دعویٰ کے طو رپر پیش کرتی ہیں اس کے لئے کوئی دلیل نہیں دیتیں۔ مگر قرآن کریم اگر خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے توایسا مطالبہ کرنے کی تائید میں دلائل بھی دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے وجود کو زبردست شواہد سے ثابت کرتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ ملائکہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے تو ملائکہ کے موجود ہونے کا ثبوت بھی دیتا ہے۔ اگر وہ قبولیت دعا کا عقیدہ پیش کرتا ہے تو اس کی تائید میں دلیلیں بھی دیتا ہے۔ اگر انبیاء پر ایمان لانے کو کہتا ہے تو ان کی صداقت کے ثبوت بھی بہم پہنچاتا ہے۔ اگر بعث بعد الموت منواتا ہے تو اس عقیدہ کو براہین تو یہ سے ثابت بھی کرتا ہے۔ غرض کوئی ایسا عقیدہ نہیں جسے قرآن کریم پیش کرتا ہو اور اس کی صداقت کے ثبوت میں اس نے دلائل بھی نہ دئے ہوں۔ چنانچہ ان امور کی تفصیل قرآن کریم کی مختلف آیات کی تفسیر میں آگے چل کر بیان ہو گی۔ پس لَ ارَیْبَ فِیْہ کہہ کر قرآن کریم نے اس امر کو پیش کیا ہے کہ گو قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے یعنی ہر ضروری امر کے متعلق اس میں بحث کی گئی ہے پھر بھی وہ ظنی اور شکی امور کو پیش نہیں کرتا بلکہ ہر امر کی دلیل ساتھ دیتا ہے اور تحقیق کے ساتھ ہر مسئلہ کو پیش کرتا ہے اور یہ امر قرآن کریم کی افضلیت کا ایک زبردست ثبوت ہے کیونکہ یہ امر تو آسان ہے کہ ایک دو امور جو تحقیقی طور پر ثابت ہو چکے ہوں ان کو با دلائل بیان کر دیا جائے لیکن یہ امر نہایت مشکل ہے کہ ہر ضروری امر کے متعلق بحث بھی کی جائے اور پھر ہر بات کا دلائل کے ساتھ ثابت بھی کیا جائے اور ظن اور گمان کی دح سے نکال کر یقین اور وثوق کے مقم پر کھڑا کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ جو کتاب اپنے تمام دعاوی کو اس طرح پیش کرے گی اس کے سچا ہونے میں کسی منصف مزاج کو شک اور تردد نہ ہو سکے گا۔
لَارَیْبَ فِیْہ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ قرآن کریم کے محفوظ ہونے میں کوئی شک نہیں اور ذَالِکَ الْکِتَابُ کے بعد یہ الفاظ اس مضمون پر دلالت کرتے ہیں کہ اس کتاب کے بعد کوئی اور کتاب نازل نہ ہو گی اور یہ دنیا کے لئے آخری ہدایت نامہ ہے۔ کیونکہ جیسا کہ بتایا جا چکاہے ذَالِکَ الْکِتٰبُ کا ایک مفہوم یہ ہے کہ یہ کام کتاب ہے اور تمام انسانی ضروریات کے پورا کرنے کا سامان اس میں موجود ہے اس قسم کی کتاب کے بعد دوسری کتاب اسی صورت میں نازل ہو سکتی ہے جب وہ محفوظ نہ رہے۔ کیونکہ نئے قانون کی دو ہی صورت میں ضرورت ہوتی ہے یا تو اس وقت جبکہ پہلا قانون ناقص ہو اور کسی وقت جا کر لوگوں کی ضروریات کے پورا کرنے سے قاصر ہو جائے یا پھر اس صورت میں کہ پہلا قانون دنیا سے کلی طور پر یا جزوی طور پر مفقود ہو جائے اور اسے دوبارہ تازہ کرنے کی ضرورت ہو سوذَالِکَ الْکِتٰبُ کے بعد لَ ارَیْبَ فِیْہِ فرما کر یہ بتایا کہ یہ کامل کتاب ہمیشہ زمانہ کی دست بُرد سے محفوظ رہے گی اور کوئی زمانہ ایسا نہ آئے گا کہ اس کے بارہ میں یہ شک کیا جا سکے کہ آیا اس کے الفاظ وہی ہیں جو کسی وقت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے تھے یا ان میں کوئی تغیر تبدل ہو گیا ہے؟ اور چونکہ ایسا زمانہ اس پر کوئی نہ آئے گا یہ کتاب منسوخ نہ ہو گی اور آئندہ سب زمانوں میں اسی کے مطابق لوگوں کو رُوحانی زندگی بسر کرنی پڑے گی۔ یہ مفہوم بھی قرآن کریم کی ایک زبردست خوبی پر دلالت کرتا ہے اور آج بھی جبکہ قرآن کریم کے نزول پر تیرہ سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے دوست تو الگ رہے دشمن بھی اس کے محفوظ ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ اور قرآن کریم اندرونی اور بیرونی شواہد بھی ایسے رکھتا ہے جو اُس
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ88

کے محفوظ ہونے پر گواہ ہیں۔ چنانچہ سرولیم میور جیسا شحص بھی اس کے بارہ میں گواہی دیتا ہے کہ:
THERE IS OTHERWISE EVERY SECURITY INTERNAL AND EXTERNAL THAT WE POSSESS THAT TEXT WHICH MOHAM-MAD HIMSELF GAVE FORTH AND USED.
یعنی ’’ہمارے پاس ہر ایک قسم کی ضمانت موجود ہے۔ اندرونی شہادت کی بھی اور بیرونی کی بھی۔ کہ یہ کتاب جو ہمارے پاس ہے۔ وہی ہے جو خود محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش کی تھی اور اُسے استعمال کیا کرتے تھے۔‘‘
(لائف آف محمد)
قرآن کریم کی یہ فضیلت ایسی ہے جو دوسری کتب کے مقابلہ پر اس کی ضرورت کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیتی ہے کیونکہ جس کلام کے محفوظ ہونے میں شک پڑ جائے اس پر عمل کرنے کے لیے انشراح صد رپیدا نہیں ہوتا اور مذہب کیلئے کامل انشراح کا ہونا ضروری ہے۔
بے شک قرآن کریم کے وقت میں عہد نامہ قدیم موجود تھا عہد نامہ جدید موجود تھا۔ وید موجود تھے۔ ژند اور اس کی شرح اوستا موجود تھی۔ مگر ان میں سے ایک کتاب بھی تو نہ تھی جو اس طرح محفوظ ہو جس طرح کہ وہ نازل ہوئی تھی۔ ژند اوستا کے متعلق تو خود پارسی بھی مقر ہیں کہ اس کے بہث سے حصے ضائع ہو چکے ہیں اور موجودہ ژند ایسی نامکمل صورت میں ہے کہ اس کے غیر محفوظ ہونے میں کوئی شک ہی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ انسائیکلو پیڈیا آف ایلیجن اینڈ ایتھکس جلد ۲ صفحہ ۲۶۷ پر لکھا ہے کہ شاہ یساسپ (VISHTASPA) زر تشت مذہب کا سر پرست تھا۔ اوستا کے دو نسخے سنہری حروف میں لکھوا کرا صطخرہ اور سمرقند میں رکھوائے ہوئے تھے۔ لیکن ۳۳۰ قبل مسیح سکندر کے حملہ کے دوران میں وہ دونوں نسخے تباہ کر دیئے گئے اور سکندراعظم کی تاخت و تاراج نے رر تشتی مذہب کی طاقت کو توڑ دیا۔ اور ان پانچ صدیوں میں جو اس کے بعد آئیں۔ سیلیسڈ SELEUCIDاور پارتھینPARTHIANکا عہد حکومت زر تشتی مذہب کی تاریخ میں تاریکی اور پستی کا زمانہ ہے جس کے نتیجہ میں اصل مذہبی کتابوں کا بہت بڑا حصہ ضائع ہو گیا۔ باوجود اس غفلت کے جو اس کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔ مذہبی کتب کے معتدبہ حصے متفرق کتابوں میں اور علماء کے حافظہ میں یاد رہے۔
وید بھی غیر محفوظ ہیں اُن کے مختلف نسخے آپس میں اس قدر اختلاف رکھتے ہیں کہ اُن کے متغیر ہونے کی ایک کھلی دلیل ہیں حتیٰ کہ منتروں کے منتر بعض نسخوں میں موجود ہیں اور بعض میں نہیں اور بعض میں عبارت کسی طرح ہے اور بعض میں کسی طرح ہے چنانچہ زمانہ قدیم کے ہندو علماء میں سے ایک عالم نے آج سے کئی صدیاں قبل وید کے محروم ہونے کے متعلق ان الفاظ میں گواہی دی ہے کہ ’’وید بیاس نے تودو اپریگ میں چاروں ویدوں کا ذکر کیا ہے لیکن رشیوں کی اولاد نے علم کی خامی کی وجہ سے ویدو ں کو ایک دوسرے سے مختلف بنا دیا۔ کہیں منتروں کے ساتھ براہمن بھاگ (تفسیری حصہ) شامل کر دیا۔ اور کہیں اعراب اور الفاظ کے فرق سے رگ یجر اور سام وید کو کئی طرح کا بنا دیا۔ بعض جگہ ازراہِ تشریح و عام خیالات کے ذریعہ۔ نیز کلپ سوتروں کو ایشوری کلام میں شامل کر کے انہیں مختلف شکلوں میں تبدیل کیا گیا ہے‘‘ (کورم پوران پُورو آردھ۔ ادھیائے صفحہ ۲۰ شلوک صفحہ ۴۴ نا صفحہ ۴۶) ویدوں کے غیر محفوظ ہونے کے متعلق جو کچھ اُوپر لکھا گیا ہے اس کی تائید زمانہ حال کے ہندو اور آریہ سماجی پنڈت بھی کرتے ہیں جس سے وید کی موجودہ حالت کا پتہ لگتا ہے ۔ چنانچہ پنڈت جے دیو شرما اپنے سام وید بھاش (تفسیر) کے صفحہ ۲۹۵ میں لکھتے ہیں کہ ’’سام وید کے کئی نسخوں میں آرنیکت کانڈ (باب) نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح پنڈت تلسی رام سوامی اپنے سام وید بھاش جلد صفحہ ۲ صفحہ ۸۳۴ میں لکھتے ہیں کہ ’’سام وید کا جو نسخہ پنڈت ستیہ برت سام شرمی نے شائع کیا ہے اس میں ’’مہانامی منی سوکت‘‘ نہیں ہیں حالانکہ یہ آرنیک کا نڈ ار صانامنی سوکت آریوں کے شائع کردہ نسخہ مطبوعہ اجمیر میں موجود ہیں۔ مگر جو سام وید بنار س میں شائع
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ89

ہوا ہے اس میں یہ دونوں باب نہیں پائے جاتے۔ ان دونوں میں ۶۵ منتر ہیں جو بعض نسخوں میں ہیں اور بعض میں نہیں یہی حالت رگوید، یجروید اور اتھروید کی ہے۔ چنانچہ اتھروید کی تحریف کے متعلق پنڈت ویدک منی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ ’’حقیقت میں جتنی بری حالت اتھروید کی ہوئی ہے اتنی اور کسی ویدکی نہیں ہوئی سائن آچاریہ کے بعد بھی کئی سوکت (باب) اس میں شامل کئے گئے ہیں۔‘‘ (وید ستر دسو صفحہ ۹۷)
تورات بھی اپنے غیر محفوظ ہونے پر شاہد ہے مثلاً تورات میں جو حضرت موسیٰ کی کتاب ہے لکھا ہے۔ ’’سو خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق مو آب کی سر زمین میں مر گیا اور اُس نے اُسے مو آب کی ایک وادی میں بیت ففور کے مقابل گاڑا۔ پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا۔‘‘ (استثنا باب ۳۴ آیت ۵،۶) پھر آیت۱۰ میں لکھا ہے کہ ’’اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں اٹھا جس سے خداوند آمنے سامہنے آشنائی کرتا۔‘‘
اب ہر اک شخص سمجھ سکتا ہے کہ موسیٰ پر یہ کلام نازل نہیں ہو سکتا تھا کہ پھر موسیٰ مر گیا اور اب تک اس جیسا شحص کوئی پیدا نہیں ہوا۔ ضرور ہے کہ یہ فقرہ تورات میں موسیٰ کی وفات کے لمبے عرصہ بعد بڑھایا گیا ہو۔
واضح الحاقی عبارتوں کے علاوہ بائبل میں ایسے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں کسی صورت میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کتاب اس شکل میںموجود ہے جس شکل میں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر اختلافات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
پیدائش باب ۱ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے حشرات الارض اور جنگلی جانور پیدا کئے اور اس کے بعد انسان کو پیدا کیا۔ (آیت ۶۴ و ۲۵،۲۶) لیکن پیدائش باب ۲ میں لکھا ہے کہ آدم کی پیدائش کے بعد جانور اور آسمان کے پرندوں کو بنایا گیا۔ آیت ۱۹ اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق پیدائش باب ۷ میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو کہا کہ سب پاک جانوروں میں سے سات سات نر اور ان کے مادے اپنی کشتی میں رکھ لے اور نوح نے ایسا ہی کیا (آیت او ۲، ۵) لیکن اسی بات کی ۸ اور ۹ آیت میں لکھا ہے کہ پاک چار پایوں میں سے دو دو نر اور مادے نوح کی کشتی میں داخل ہوئے جیسے کہ خدا نے فرمایا تھا۔ گویا ایک ہی جگہ پر دو تین آیتوں کے فرق پر اس قدر اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ دو تین آیتوں پہلے تو کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے سات سات جانور رکھنے کا حکم دیا اور نوح نے سات سات جانور ہی رکھے۔ لیکن دو تین آیتوں بعدیہ کہا گیا ہے کہ خدا نے دو دو جانور رکھنے کا حکم دیا تھا اور نوح علیہ السلام نے دو دو جانور ہی رکھے۔ اس قسم کے میسیوں اختلافات تورات میں پائے جاتے ہیں جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب اس شکل میں موجود نہیں جس شکل میں کہ موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی ورنہ ایسے صریح اختلافات پائے نہ جاتے۔
انا جیل کی بھی یہی حالت ہے اول تو اس امر کا ہی کوئی ثبوت نہیں کہ کون سی انجیل الہامی ہے اور کون سی نہیں کیونکہ اناجیل کئی ہیں۔ ان میں سے ہلاک کسی دلیل کے محض قرعہ ڈال کر چار انجیلوں کا انتخاب کر لیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ یہ زیادہ معتبر ہیں۔ پھر جو چار انجیلیں منتخب کر کے بنیادی کتب قرار دی گئی ہیں ان میں بھی مسیح کا کلام بہت تھوڑا ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام تو اس میں کوئی ہے ہی نہیں ہاں مسیح کی زبانی چند فقرات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ملتے ہیں۔ پس حقیقتاً ذخدا تعالیٰ کا الہام خواہ اس کے الفاظ میں ہو یا مسیح کے الفاظ میں انا جیل میں بہت کم ہے۔ ہاں تاریخی واقعات پر یہ کتاب مشتمل ہے جو کسی صورت میں الہام نہیں کہلا سکتے۔ بلکہ صرف بعض مورخوں کا نقطہ نگاہ ہے مگر اسی پریس نہیں ان اناجیل میں بھی کہ جو عہد نامہ جدید میں شامل کی گئی ہیں (۱) شدید اختلاف ہے اور (۲) اس کے مختلف زمانوں کے ترجموں میں بھی باہم شدید اختلاف ہے۔
پہلے دعویٰ کی تائید میں مندرجہ ذیل مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ متی باب ۱۰ آیت ۹، ۱۰ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے حواریوں کو یہ نصیحت کی کہ ’‘نہ سونا، نہ روپا، نہ تائیا اپنے کمر بندوں میں رکھو راستے کے لئے نہ جھولی نہ دو کرتے نہ جوتیاں نہ لاٹھی لو‘‘ لیکن
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ90

پہلے دعویٰ کی تائید میں مندرجہ ذیل مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ متی باب ۱۰ آیت ۹، ۱۰ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے حواریوں کو یہ نصیحت کی کہ ’‘نہ سونا، نہ روپا، نہ تائیا اپنے کمر بندوں میں رکھو راستے کے لئے نہ جھولی نہ دو کرتے نہ جوتیاں نہ لاٹھی لو‘‘ لیکن مرقس باب ۶ میں حضرت مسیح کی نصیحت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ’’اور حکم کیا کہ سفر کے لیے سوالاٹھی کے کچھ نہ لو نہ جھولی، نہ روٹی، نہ اپنے کمر بند میں پیسے۔ مگر جوتیاں پہنو پردہ کرتے مت پہنو‘‘ (آیت ۸،۹) یہ کیسا صریح اختلاف ہے۔ متی کا بیان ہے کہ مسیح نے کہا نہ جوتی لو نہ لاٹھی لومرقس کہتا ہے کہ مسیح نے یوں کہا کہ لاٹھی کے سوا کچھ نہ لو ہاں جوتی ضرور پہنو۔اسی طرح متی باب ۶۷ آیت ۴۴ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح کو صلیب کے موقعہ پر ان کے دو نو مصلوب ساتھیوں نے ملامت کی اور طعنے دئے۔ مرقس باب ۱۵ آیت ۳۹، ۴۰ میں لکھا ہے کہ ان چوروں میں سے جو اس کے ساتھ صلیب دئے گئے ایک نے اُسے طعنہ دیا لیکن دوسرے نے نہ صرف یہ کہ طعنہ نہیں دیا بلکہ طعنہ دینے والے کو ملامت کی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ان دو صلیب والوں میں سے ایک چور نے مسیح سے کہا ’’کہ اگر تو مسیح ہے تو آپ کو اور ہم کو بچا۔ دوسرے نے اُسے ملامت کر کے جواب دیا۔ کیا تو بھی خدا سے نہیں ڈرتا جس حال کہ اسی سزا میں گرفتار ہے‘‘ پھر آگے لکھا ہے ’’اور اُس نے یسوع سے کہا اے خداوند جب تو اپنی بادشاہت میں آوے مجھے یاد کیجئو‘‘ (آیت ۴۲) اس پر یسوع نے اُسے کہا کہ میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ آج تو میرے ساتھ بہشت میں ہو گا‘‘ (آیت ۴۳) اسی طرح مرقس باب ۱۵ آیت ۲۵ میں لکھا ہے کہ مسیح کو صلیب تیسرے گھنٹے میں دی گئی۔ لیکن یوحنا باب ۱۹ آیت ۱۴ میں لکھا ہے کہ چھٹی گھڑی تک ابھی مسیح پیلا طوس کی کچہری میں موجود تھا۔ اسی طرح متی باب ۶۷ آیت ۵ میں لکھا ہے کہ یہوداہ اس کر یوطی جس نے مسیح علیہ السلام کو پکڑ وایا تھا۔ اُس نے پھانسی کے ذریعہ خود کشی کر لی لیکن اعمال باب ۱ آیت ۱۸ میں لکھا ہے کہ وہ اوندھے منہ گر گیا اس کا پیٹ پھٹ گیا اور اس کی ساری انتڑیاں نکل گئیں۔ اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب دئے جانے کے دوسرے دن کے متعلق اناجیل میں عجیب و غریب اختلاف پایا جاتا ہے۔ یوحنا باب ۲۰ آیت ۱ میں لکھا ہے کہ ہفتہ کے پہلے دن (یعنی اتوار کو) مریم میگدلینی قبر پر آئی لیکن متی باب ۲۷ آیت ۱ میں لکھا ہے کہ سبت کے بعد (یعنی اتوار کے دن) پوپھٹنے کے بعد مریم میگدلینی اور دوسری مریم اس کی قبر کو دیکھنے آئیں۔ یعنی قبر پر آنیوالی دو عورتیں تھیں۔ مرقس باب ۱۶ آیت ۱ میں سا سے بھی اختلاف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اتوار کے دن مریم میگدلینی یعقوب کی ماں مریم اور سلومی یعنی تین عورتیں قبر پر آئیں۔ لیکن لو قا باب ۶۴ آیت ۱۰ میں کہا گیا ہے کہ مریم میگدلینی اور یوحنا اور مریم یعقوب کی ماں اور اَور عورتیں ساتھ تھیں۔ اور یہ سب مل کر قبر پر گئیں۔ گویا ہر ایک انجیل دوسری انجیل کے مخالف بیان دے رہی ہے۔ یوحنا ایک عورت کا جانا بیان کرتا ہے۔ متی دو عورتوں کا جانا بیان کرتا ہے۔ مرقس تین عورتوں کا جانا بیان کرتا ہے۔ اب یہ کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ یہ سب کلام خدا تعالیٰ کا ہے۔ یہ اور اسی قسم کے بہت سے اختلافات اناجیل میں پائے جاتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ موجودہ اناجیل شک و شبہ سے خالی نہیں۔
دوسرے دعویٰ کی تائید میں مندرجہ ذیل مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ متی باب ۱۷ میں ایک آیت نمبر ۲۱ یوں ہوا کرتی تھی۔ ’’مگر اس طرح کے دیو بغیر دعا و روزہ کے نہیں نکالے جاتے۔‘‘ ۱۹۳۰؁ء کے پہلے کی تمام اناجیل میں یہ آیت پائی جاتی تھی مگر ۱۹۳۰؁ء اور اس کے بعد کی اناجیل میں سے یہ آیت کی آیت ہی نکال دی گئی۔ متی باب ۱۹ آیت ۱۷ کے الفاظ پہلے انا جیل میں یوں ہوا کرتے تھے ’’تو کیوں مجھے نیک کہتا ہے‘‘ لیکن ۱۹۳۰؁ء کی اناجیل میں اس فقرہ کو بدل کر یوں کر دیا گیا ہے ’’تو مجھ سے نیکی کی بات کیوں پوچھتا ہے‘‘ متی باب ۲۳ میں ایک آیت ۱۴ ہوا کرتی تھی جس کے الفاظ یوں تھے ’’اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس کہ بیوائوں کے گھر نگل جاتے اور مکر سے لمبی نمازیں پڑھتے ہو اس سبب سے تم زیادہ تر سزا پائو گے۔‘‘ ۱۹۳۰؁ء کے نسخوں میں سے یہ آیت بالکل نکال دی گئی ہے۔ متی باب ۲۷ میں ایک آیت ۳۵ ہوتی تھی جس کے الفاظ یہ تھے ’’تاکہ جو نبی نے کہا تھا پورا ہو۔ کہ انہوں نے میرے لباس آپس میں بانٹ لئے اور میرے لباس پر چٹھی ڈالی۔‘‘ مگر یہ آیت ۱۹۳۰؁ء کے نسخوں میں موجود نہیں۔ یوحنا باب ۵ میں ایک آیت ۴ ہوتی تھی جس کے الفاظ یہ تھے ’’کیونکہ ایک فرشتہ بعضے وقت اس حوض میں اُتر کے اس پانی کو ہلاتا تھا۔ او رپانی کے ہلنے کے بعد جو کوئی کہ پہلے اس میں اُترتا کسی
 
Top