صفحہ81
کی تفصیلات کا ذکر ہے۔ (انشاء اللہ)
اسی طرح قرآن کریم کرنے اللہ تعالیٰ کی صفات کو بالتفصیل بیان کیا ہے جس کی مثال اور کسی کتاب میں نہیں ملتی اور اس طرح ان تمام اتہاموں سے جو مختلف صفات کے ناقص بیان سے یا ناقص طو رپر سمجھنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف مختلف مذاہب یا مختلف فلسفے منسوب کرتے چلے آئے ہیں اللہ تعالیٰ کو بری قرار دیا ہے۔ غرض قرآن کریم کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کے درجہ کو مدنظر رکھتے ہوئے جن امور کو اس کی طرف منسوب کرنے سے اس کی کسر شان ہوتی ہے انکو اس کی طرف منسوب کرنے سے قرآن کریم نے اجتناب کیا ہے بلکہ اُن کا بادلیل رد کیا ہے۔ اور جن امور سے اس کی وہ شان جو ایک معبود او رکامل الصفات خدا تعالیٰ میں ہونی چاہیئے ظاہر ہوتی ہے ان امو رک واس کی طرف منسوب کیا ہے اور نہایت بسط اور عمدگی سے اُن کا ذکر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بعد کارخانۂ قدرت کے چلانیوالی ابتدائی علتوں میں ملائکہ کا وجود ہے۔ ملائکہ کو بھی قرآن کریم نے تمام نقائص اور عیوب سے جو ان کی ذات کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں پاک قرار دیا ہے۔ مثلاً فرماتا ہے لَایَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْحَلُوْنَ مَایُؤْمَرُوْنَ (التحریم ع ۱) یعنے ملائکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اس کی پوری طرح اطاعت کرتے ہیں اور اس طرح ان تہمتوں کا رد کر دیا ہے جو مثلاً یہود کی طرف سے ملائکہ پر لگائی جاتی ہیں کہ فرشتوں نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اُس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا۔ ہندوئوں میں ہے کہ دیوتائوں نے فلاں فلاں گناہ کیا اور اس تہمت سے فرشتوں کو بچانا ایک ضروری امر تھا کیونکہ فرشتے نیکی کی تحریرکوں کا سرچشمہ ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ اگر ایک مصطفی پانی کے چشمہ کے متعلق شک اور شبہ پیدا ہو جائے تو انسان اُس سے فائدہ اُٹھانے سے محروم رہ جائے گا اور نیکی کا وہ دروازہ اس کے لئے بند ہو جائے گا۔
تیسرا ستون انسان کی روحانی اور اخلاقی عمارت کی تکمیل کے لئے کلام الٰہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے انسان یقین اور معرفت حاصل کرتا ہے۔ اس پر بھی مختلف مذاہب اور فلسفوں نے تہمت دھرنے سے دریغ نہیں کیا تھا مثلاً بعض یہ کہتے تھے کہ الہام صرف خیالاتِ صافیہ کا نام ہے حالانکہ محض خیالات کا نام الہام رکھ کر اس یقین اور اعتماد کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے جو لفظی الہام کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں ہر شخص اپنے خیال کا نام الہام رکھ سکتا ہے۔ اس بارہ میں قرآن کریم فرماتا ہے۔ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسیٰ تَکْلِیْمًا (نساء ع ۲۳) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے بالمشافہ اور الفاظ میں باتیں کی تھیں۔ اسی طرح قرآن کریم کی نسبت فرماتا ہے۔ وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلَامَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ (التوبہ ع ۱) یعنی اگر ان مشرکوں میں سے جو تجھ سے برسرِ جنگ ہیں کوئی شخص تجھ سے پناہ مانگے تو اُسے پناہ دے تاکہ وہ اس کتاب کو سُن سکے جو تجھ پر نازل ہوئی ہے اور ساری کی ساری کلام اللہ سے ہے نیز کسی بندہ کا بنایا ہوا کوئی لفظ بھی اس میں شامل نہیں۔ پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے لام کو سُن لے اور چاہے کہ اپنے لوگوں کے پاس واپس جائے تو چاہیئے کہ حکومت کی حفاظت میں اُسے اس علاقہ میں جو اس کی اپنی قوم کا ہے اور اس کے لئے امن کی جگہ ہے تو اُسے واپس پہنچا دے۔
غرض قرآن کریم نے کتب سماویہ کو بھی اس تہمت سے بچایا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ بعض بڑے لوگوں کے خیالات ہیں جو انہو ںنے خدا تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ بعض بڑے لوگوں کے خیالات ہیں جو انہوں نے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیئے ہیں۔
چوتھا ستون مذہب کی عمارت کا انبیاء کا وجود ہے ان کے متعلق بھی قرآن کریم نے جو تعلیم دی ہے وہ ہر اک اتہام سے پاک ہے۔ مثلاً ایک تو اصولی طو رپر قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ انبیاء خدا تعالیٰ کے مقرب اور پاک لوگ ہوتے ہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ وَ اِذَا جَآئَ تْھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَٓا أوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِط اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَ مُوْا صَغَارٌ عِنْدَاللّٰہِ وَعَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا کَا نُوْایَمْکُرُوْنَ ( انعام ع ۱۵)