ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
صفحہ111
اس کے بعد وہ قرآن کریم کی کوئی سورۃ یا کم سے کم کسی سورۃ کا اتنا حصہ جو تین آیات پر مشتمل ہو پڑتا ہے او رپھر اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر رکوع میں چلا جاتا ہے (رکوع اُسے کہتے ہیں کہ انسان اس طرح کمر سیدھی کرے کہ اس کا سر اور لاتوں کا اوپر کا حصہ ایک دوسرے کے متاوزی ہو جائیں جھک جاتا ہے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتا ہے اور لاتیں بالکل سیدھی رکھتا ہے اور لاتیں بالکل سیدھی رکھتا ہے ان میں خم پیدا نہیں ہونے دیتا (نسائی کتاب افتتاح الصلوۃ باب الاعتدال فی الرکوع) پھر اس حالت میں وہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کا فقرہ کہتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ میرا رب جو اپنی شان کی وسعت میں سب سے بڑھ کر ہے تمام نقائص سے پاک ہے۔ یہ فقرہ کم سے کم تین بار یا اس سے زیادہ طاق عدد میں وہ دہراتا ہے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع) پھر سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس فقرہ کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر اس شخص کود عا کو سنتا ہے جو سچے دل سے اس کی تعریف بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ پوری طرح کھڑا ہو کر ہاتھ سیدھے چھوڑ کر یہ دعا مانگتا ہے کہ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ حَمَدً اکَثِیْراً طَیِّبًا سُبَارَکًافِیْہِ (نسائی کتاب الافتتاح مایقول الماموم اذارفع رأسہ من الرکوع) یعنی اے میرے رب سب تعریف تیرے ہی لئے ہے کثرت سے تعریف اور پاک تعریف جو سب تعریفوں کی جامع ہے۔ اس کے بعد وہ پھر اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر سجدہ میں چلا جاتا ہے۔ سجدہ اسے کہتے ہیں کہ انسان اپنی سات ہڈیوں پر زمین پر جھک جاتا ہے یعنی اس کا ماتھا زمین پر پوری طرح لگا ہوا ہو اس کے دونوں ہاتھ قبلہ رُو زمین پر رکھ ہوئے ہوں اور اس کے گھٹنے بھی زمین پر لگے ہوئے ہوں اور اس کے دونوں پائوں بھی زمین پر لگے ہوئے ہوں اس طرح کہ دونوں پائوں کی انگلیاں دبا کر قبلہ رُو کی ہوئی ہوں (مسلم جلد اول کتاب الصلوۃ باب فی اعضاء السجود) اس حالت میں مسلمان سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ کہتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اے میرے رب تو اپنی شان کی بلندی کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔ یہ فقرہ وہ کم سے کم تین دفعہ یا اس سے زیادہ کسی طاق عدد کے مطابق کہتا ہے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی التسبیح فی السجود) اس کے بعد وہ اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کربیٹھ جاتا ہے۔ اس طرح کہ اس کی بائیں لا سے تو تہہ کی ہوئی مگر اس کا پائوں اس طرح کھڑا ہو کہ انگلیاں قبلہ رخ ہوں۔ اس وقفہ میں وہ یہ دعا پڑھتا ہے اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَارْ حَمْنِیْ وَاھْدِ نِیْ وَعَا فِنِیْ وَارْزُقْنِیْ (ابو دائود بحوالہ مشکوۃ کتاب الصلوۃ باب السجود و فضلہ) جس کے یہ معنے ہیں کہ اے میرے رب میرے گناہ معاف کر اور مجھ پر رحم کر اور مجھے سب صداقتوں کی طرف رہنمائی بخش اور مجھے تمام عیبوں سے محفوظ رکھ اور مجھے اپنے پاس سے حلال و طیب رزق عطا فرما۔ (بعض احادیث میں وَاجْبُرْنِیْ اور بعض میں وَارْفَعْنِیْ آتا ہے یعنی اے میرے رب میری تمام کمزوریوں کو دُور کر اور تمام نقصانات سے بچا۔ اور میرا قدم ہر گھڑی ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہے) اس کے بعد وہ پھر بآواز بلند اللّٰہُ اَکْبَرْ کہ کر پہلے کی طرح سجدہ میں چلا جاتا ہے۔ اور پہلے سجدہ کی طرح دعا کر کے پھر اللّٰہُ اَکْبَرْکہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسے ایک رکعت کہتے ہیں اس کے بعد وہ پہلے کی طرح پھر ایک رکعت ادا کرتا ہے صرف اس فرق کے ساتھ کو سُبْحَانَکَ اللّٰھُمْ وَبِحَمْدِکَ والی دعا جس سے اُس نے نماز شروع کی تھی وہ اسے حذف کر دیتا ہے اور صرف سورۂ فاتحہ سے نماز شروع کرتا ہے۔ اس دوسری رکعت کے ختم کرنے پر وُہ اس طرح بیٹھ جاتا ہے جس طرح کہ پہلے سجدہ اور دوسرے سجدہ کے درمیان بیٹھا تھا اور تشہد پڑھتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں اَلتَّحِیَّاتُ للّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ (بخاری کتاب الصلوۃ باب التشہد فی الآخرۃ) یعنی تمام وہ کلمات جو تعظیم کے لئے زبان سے نکل سکتے ہیں اور تمام وہ عبادات
صفحہ112
جو جسم انسانی بجالا سکتا ہے اور تمام وہ مالی قربانیاں جو کسی پاک ذات کے لئے پیش کی جا سکتی ہیں خدا تعالیٰ کا ہی حق ہیں اس کے سوا اور کوئی ہستی ان کی مستحق نہیں اور اے نبی تجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور اللہ تعالیٰ کا رحم تجھ پر اُترتا رہے اور اس کی برکتوں سے تو حصّہ پاتا رہے اور ہم پر جو اس نماز میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندے جو پہلے گذر چکے ہیں یا اس وقت موجود ہیں یا آئندہ آنے والے ہیں ان سب پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور یہ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور یہ کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
اس کے بعد وہ دُرود پڑھتا ہے جو مختلف الفاظ میں آتا ہے مگر مختصر دورد یہ ہے کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدً وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِلَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ (بخاری جلد دوم کتاب بدء الخلق باب یزفون النسلان نے المشی و مشکوۃ کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے معنے یہ ہیں کہ اے اللہ محمد پر اپنے فضل اور رحمتیں نازل کر اور اسی طرح تمام ان لوگوں پر جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھتے ہیں جس طرح تو نے ابراہیم پر اور ابراہیم سے تعلق رکھنے والوں پر فضل اور رحمت نازل کی تھی اور اے اللہ محمد صلعم پر اپنی برکتیں نازل کر اور ان پر بھی جو آپؐ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس طرح تو نے ابراہیم پر اور اس سے تعلق رکھنے والوں پر برکتیں نازل کی تھیں۔ اس کے بعد وہ بعض دعائیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں پڑھتا ہے مثلاً یہ کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ وَاٰعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَانْکُسَلِ وَاٰعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَاٰعُوْ ذُبِکَ مِنْ غَلْبَۃِ الدَّیْنِ وَ قَھْرِ الرِّجَالِ (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب الاستعاذہ) یعنی اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ مجھے کوئی گھبرا دینے والی مصیبت پہنچے یا مجھے غم فکر دبالیں اور اے میرے رب میں تیری پناہ چاہات ہوں اس بات سے کہ میں وہ سامان کھو بیٹھوں جن سے میری زندگی کے کام چلتے ہیں یا وہ طاقتیں میری جاتی رہیں جنکی مجھے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ضرورت ہے اور اس سے بھی پناہ چاہتا ہوں کہ میرے پاس ترقی میں مدد دینے والے سامان تو موجود ہوں یا ترقی میں مدد دینے والی طاقتیں تو مجھے حاصل ہوں مگر اُن کے استعمال سے میں گریز کروں اور سستی اور کاہلی کا شکار ہو جائوں اور اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں بزدلی اور بخل کی اخلاقی امراض سے۔ اور اے میرے رب اس بارہ میں بارہ میں بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے قرض دبالے اور میں لوگوں کی نظروں میں قرض نہ ادا کرنے کی وجہ سے ذلیل ہو جائوں اور اس سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ ایسے انسان مجھ پر مسلط ہو جائیں جو میرے حقوق کو تلف کریں اور مجھے ان ترقیات کے حصول سے روک دیں جو ہر انسان کے لئے تو نے اپنے فضل سے مقدر کر چھوڑی ہیں۔
یہ اور اسی قسم کی اور دعائیںہیں جو رسول کریم صلی اللہ سے ثابت ہیں ان دعائوں کو اس موقع پر مسلمان پڑھتا ہے یا جو اور دعائیں اپنی ضرورت کے مطابق مناسب سمجھتا ہے مانگتا ہے پھر وہ پہلے دائیں طرف منہ کر کے الَسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ کہتا ہے اور اس کے بعد بائیں طرف منہ کر کے الَسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ کہتا ہے اور اس کی نماز ختم ہو جاتی ہے۔
یہ اس صورت میں ہے کہ نماز دو رکعت کی ہو اگر دو رکعت سے زائد کی نماز ہو تو بجائْ اِدھر اُدھر منہ پھیر کر السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہنے کے مسلمان اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر پھر کھڑا ہو جاتا ہے اور تین رکعت کی نماز ہو تو ایک رکعت او رپڑھ کر دوبارہ تشہد پڑھ کر سلام پھیرتا ہے اور اگر چار رکعت کی نماز ہو تو دو رکعت اور پڑھ کر پھر تشہد میں بیٹھ کر اور اوپر کی دعائیں اور کلمات پڑھ کر سلام پھیر دیتا ہے۔ جب دو رکعت سے زائد کی نماز ہو تو پہلے تشہد کے بعد ایک یا دو رکعت جو دو پڑھتا ہے ان میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھتا
صفحہ113
ہے قرآن کریم کی زائد آیات نہیں پڑھتا۔
نماز مسلمانو ںپر پانچ وقت فرض ہے ایک نماز صبح کی جس کا وقت پوپھٹنے سے لے کر سورج نکلنے کے وقت تک ہوتا ہے یعنی سورج نکلنے سے پہلے یہ نماز ختم ہو جانی چاہیئے اس نماز کی دو رکعت ہوتی ہیں ایک نماز سورج ڈھلنے سے لے کر اندازًا پونے تین گھنٹہ بعد تک پڑھی جاتی ہے گرمیوں میں یہ وقت ہندوستان میں کوئی تین گھنٹہ تک چلا جاتا ہے اس نماز کو ظہر کی نماز کہتے ہیں اور اس کی چار رکعت ہوتی ہیں اس کے بعد تیسری نماز کا وقت شروع ہوتا ہے یہ نماز دھوپ کے زرد ہونے کے وقت تک پڑھی جا سکتی ہے اسے عصر کی نماز کہتے ہیں اور اس کی بھی چار رکعت ہوتی ہیں اس کے بعد سورج ڈوبنے سے لے کر شفق یعنی مغرب کی طرف کی سرخی کے غائب ہونے تک چوتھی نماز کا وقت ہوتا ہے اور اسے مغرب کی نماز کہتے ہیں اس کی رکعتیں تین ہوتی ہیں پہلی دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھتے ہیں اور پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھتے ہیں اور دونوں سجدوں کے بعد تشہد میں بیٹھ کر اور جو دعائیں اوپر بیان ہو چکی ہیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے ہیں اس کے بعد پانچویں نماز کا وقت شروع ہوتا ہے جسے عشاء کی نماز کہتے ہیں اس کا وقت ہندوستان کے اوقات کے لحاظ سے غروب آفتاب سے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بعد سے شروع ہوتا ہے اور نصف شب تک اور بعض کے نزدیک اس کے بعد تک بھی چلا جاتا ہے اس نماز کی رکعتیں بھی چار ہوتی ہیں جو رکعتیں بیان کی گئی ہیں یہ اس وقت کے لئے ہیں جبکہ انسان وطن میں موجود ہو یا ایسی جگہ پر ہو جہاں اس کی مستقل اقامت ہو۔ جب سفر میں ہو تو اس صورت میں صبح اور مغرب کی نمازوں کے سوا دوسری نمازیں آدھی پڑھی جاتی ہیں یعنی بجائے چار رکعتوں کے دو دو رکعت پڑھی جاتی ہیں بعض لوگوں میں غلطی سے یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ سفر میں آدھی نماز رہ گئی ہے لیکن اصل بات یہ نہیں بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے جسے امام مالکؓ نے نقل کیا ہے (موطا امام مالک قصر الصلوۃ فی السفر) ثابت ہے کہ جب نماز فرض ہوئی ہے تو ظہر عصر اور عشاء کی دو رکعتیں ہی تھیں مگر بعد میں سفر کی حالت میں دو دو رکعتیں ہی رہنے دی گئیں لیکن حضر یعنی اقامت کے ایام میں دگنی نماز کر دی گئی۔ یعنی دو دو کی جگہ چار چار کعتوں کا حکم ملا۔
ان نمازوں میں سے صبح کی نماز باجماعت ہو تو امام سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کا حصہ بلند آواز سے پڑھتا ہے اور مقتدی سورۃ فاتحہ ساتھ ساتھ آہستہ پڑھتے ہیں اور باقی قرارء ت صرف سنتے ہیں باقی حصہ نماز کا امام بھی آہستہ پڑھتا ہے سوائے تکبیروں اور سَمعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور آخری سلاموں کے ظہر کی نماز میں تمام رکعتوں میں امام آہستہ پڑھتا ہے اور اس کے پیچھے کے نمازی بھی اپنے طور پر سورہ فاتحہ اور قرآن کریم پڑھتے ہیں ۔ عصر کی نماز بھی اسی طرح ہوتی ہے مغرب کی نماز میں پہلی اور دو رکعتوں میں امام سورہ فاتحہ بلند پڑھتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کے مقتدی آہستہ آہستہ منہ میں سورہ فاتحہ پڑھتے جاتے ہیں سورۂ فاتحہ کے بعد امام قرآن کریم کا کچھ حصہ جب پڑھتا ہے تو مقتدی خاموش اس کے پڑھے ہوئے کو سنتے ہیں خوہ کچھ نہیں پڑھتے۔ آخری رکعت میں امام بھی دل میں سورہ فاتحہ پڑھتا ہے اور مقتدی بھی۔ عشاء کی نماز میں بھی پہلی دو رکعتو ںمیں اسی طرح امام بلند آواز سے سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کا کچھ اور حصہ پڑھتا ہے اور مقتدی سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کا کچھ اور حصہ پڑھتا ہے اور مقتدی سورہ فاتحہ منہ میں دہراتے ہیں اورقرآن کریم کا دوسرا حصہ صرف سنتے ہیں مگر آخری دو رکعتوں میں قیام کی حالت میں امام صرف سورہ فاتحہ پڑھتا ہے اور وہ بھی آہستہ آہستہ منہ میں اور مقتدی بھی اپنے اپنے طور پر آہستہ آہستہ ہی منہ میں سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں تمام نمازو ںمیں باجماعت ہوں تو امام تکبیریں اور سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ رکوع سے کھڑے ہوتے وقت اور نماز کے خاتمہ کے بعد کا سلام بہرحال بلند آواز سے کہتا ہے کیونکہ مقتدیوں کو ساتھ چلانا بدنظر ہوتا ہے۔
ان پانچ فرض نمازوں کے علاوہ ایک نماز تر کہلاتی ہے اس نماز کی بھی مغرب کی طرح تین رکعتیں ہیں مگر فرق یہ ہے کہ مغرب کی نماز میں پہلے تشہد کے بعد جو تیسری رکعت پڑھی جاتی ہے اس میں سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی زائد تلاوت نہیں کی جاتی لیکن و ترکی نماز میں تیسری رکعت میں بھی سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی چند آیات یا کوئی چھوٹی سورۃ پڑھی جاتی ہے (ترمذی جلد اول کتاب الصلوۃ ابواب الوترباب ماجاء مایقرافی الوتر)
صفحہ114
دوسرا فرق اس میں یہ ہے کہ اس نماز کو مغرب کی نماز کے برخلاف دو حصوں میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی یہ بھی جائز ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک رکعت الگ پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک رکعت الگ پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے (نسائی کتاب قیام اللیل و تطوع النہار باب کیف الوتر ثبلاث و باب یف الوتر بواحدۃ وکیف الوتربثلاث) یہ نماز عشاء کے بعد بھی پڑھی جا سکتی ہے اور تہجد کی نماز کے بعد بھی جس کا ذکر آگے آتا ہے۔
ان نمازوں کے علاوہ کچھ سنتیں ہوتی ہیں یعنی ایسی زائد نماز جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالالتزام ادا فرمایا کرتے تھے اور گو آپؐ ان کو فرض قرار نہ دیتے تھے لیکن ان کی تاکید کرتے رہتے تھے صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں ہیں اور بعد میں بھی چار رکعتیں ہیں۔ چار کی جگہ دو دو بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ عصر کے ساتھ کوئی ایسی سنتیں نہیں ہیں مغرب کے بعد دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اور عشاء کے بعد بھی دو یا چار رکعتیں پڑھی جاتی ہیں (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی من صلی فی یوم و لیلۃ ثنتی عشرۃ رکعۃ من السنتہ مالہ من الفضل۔ وباب ماجاء فی الرکعتین بعد الظہر) اور انہی کے بعد مذکورہ بالا و تر پڑھے جاتے ہیںان سنتوں کے علاوہ ایک نماز تہجد کہلاتی ہے نصف سب کے بعد کسی وقت پوپھٹنے سے پہلے یہ نمار پڑھی جا سکتی ہے مگر جیسا کہ تہجد کے معنوں سے ظاہر ہے یہ نمار سو کر اُٹھنے کے بعد پڑھنی جانی چاہیئے گو کسی وقت سونے کا وقت نہ ملے اور نصف شب گذر جائے تو یوں بھی پڑھ سکتا ہے مگر قرآن کریم نے جو اس کا نام رکھا ہے اس سے بھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ عشاء کے بعد آدمی سو جائے اور سونے سے اُٹھ کر یہ نمار ادا کرے اس نماز کا روحانی ترقیات سے بہت گہرا تعلق ہے اور قرآن کریم میں اس کی خاص تعریف آئی ہے (دیکھو سورۂ مزمل آیت ۱ تا ۶) ان کے علاوہ بعض اور سنتیں بھی ہیں جو موکد تو نہیں یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خاص تاکید تو نہیں فرمائی مگر آپ جب موقع ملتا انہیں ادا کرتے تھے ان میں سے ایک اشراق کی نماز ہے یعنی جب سورج نیزہ دو نیزے اوپر آ جائے اسی طرح اور بعض نوافل ہیں لیکن حکم یہ ہے کہ جب سورج نکل رہا ہو یا ڈوب رہا ہو یا نصف النہار کا وقت ہو تو نماز ناجآئر ہے اور جب دھوپ زرد ہو جائے تب بھی ناپسندیدہ ہے۔
نمازوں کو ان کے مقررہ وقت پر پڑھنے کا حکم ہے لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے مثلاً بارش ہ اور بار بار مسلمانوں کا جمع ہونا مشکل ہو یا کوئی ایسا اجتماعی کام ہو جسے درمیان میں نہ چھوڑا جا سکتا ہو یا سفر ہو تو جائز ہے کہ ظہر اور عصر کی نمازوں کو ملا کر پڑھ لیا جائے اس صورت میں بعض کے نزدیک درمیانی سنتیں معاف ہوتی ہیں اور بعض کے نزدیک پہلی اور پچھلی سنتیں بھی معاف ہوتی ہیں اور میرے نزدیک یہی آخری بات درست ہے معرب اور عشاء کو ملا کر پڑھنا بھی انہی حالات میں اور اسی طرح جائز ہے جس طرح کہ ظہر اور عصر کا۔ مگر صبح ظہر یا عصر مغرب یا عشاء صبح کا ملا کر پڑھنا جائز نہییں سوائے اس کے کہ کوئی ایسے شدید کام میں ہو کہ اس کا ترک جان کے لئے پر خطرہ ہو جیسے جہاد میں کہ اگر لڑائی سے ہٹ کر نماز پڑھے تو دشمن قتل کر دے گا یا مثلاً نہر یا دریا کا بند ٹوٹ جائے اور اس کے بند کرنے میں لوگ مشغول ہوں یا آگ لگ جائے اور اس کے بجھانے میں لوگ مشغول ہوں تو ایسے مواقع پر ان نمازوں کو بھی جمع کیا جا سکتا ہے جن کو امن کی حالت میں جمع نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ آفات ملک اور قوم اور شہر کی تباہی کا موجب ہوتی ہیں اس صورت میں بھی ان نمازوں کو جو عام طور پر جمع نہیں ہو سکتیں جمع کرنا جائز ہے کہ کوئی شخص بیہوش ہو جائے اور اس وقت ہوش آئے کہ دوسری نماز کا وقت آ جائے مثلاً عصر کی نماز کے وقت بیہوش ہو اور عشاء کے وقت ہوش آئے تو عصر اور مغرب جمع کر کے پڑھ لے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ کے موقعہ پر ظہر، عصر مغرب اور عشاء جمع کیں مگر ان مجبوریوں کی وجہ سے جو اوپر بیان ہوئیں ان نمازوں کا جمع کرنا بھی جائر ہے جو عام طور ہر جمع نہیں کی جا سکتیں لیکن جو نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی جائے اسے دوسرے موقعہ پڑھنا جائز نہیں یعنی وہ نماز کے طو رپر قبول نہ ہو گی اس کا علاج صرف توبہ اور استغفار ہے ہاں بھول اور نسیان کے سبب سے یا سوتے رہنے کی وجہ سے جو نماز چھت جائے جب بھی یاد آ جائے یا آنکھ
صفحہ115
کھلے اس کا پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ ممنوع وقت نہ ہو جیسے سورج نکل رہا ہو تو سو کر اٹھنے والا انتظار کرے اور جب سورج پوری طرح نکل چکے تو اس وقت نماز ادا کرے۔
ان نمازوں کے علاوہ ایک جمعہ کی نماز ہے جو جمعہ کے دن ظہر کے وقت پڑھی جاتی ہے اس دن ظہر کی نماز نہیں پڑھی جاتی جمعہ کی نماز سے پہلے امام خطبہ پڑھتا ہے جس میں جب موقعہ کسی اسلامی مسئلہ یا مسلمانوں کی کسی ضرورت کے متعلق وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اس کے بعد وہ دو رکعت نماز پڑھاتا ہے جس میں برخلاف ظہر کی نماز کے سورۂ فاتحہ اور قرآن کریم کا حصہ بلند آواز سے پڑھا جاتا ہے سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے وقت مقتدی ساتھ ساتھ سورۂ فاتحہ کے الفاظ منہ میں آہستہ طور پر دہراتے جاتے ہیں ا ور دوسری قراء ت کے وقت صرف کلامِ الٰہی سنتے ہیں۔
اس کے علاوہ دو اور نمازیں ہوتی ہیں ایک رمضان کے بعد کی عید کی نماز او رایک حج کے موقعہ کی عید کی نماز۔ رمضان کے بعد کی عید پہلی شوال کو ہوتی ہے اس میں دو رکعت ہوتی ہیں اور سورۂ فاتحہ اور تلاوت بلند آواز سے امام پڑھتا ہے اور حج کے موقعہ کی عید حج کے دوسرے دن دسویں ذی الحجہ کو ہوتی ہے اس میں بھی دو رکعتیں ہوتی ہیں اور امام سورۂ فاتحہ اور مزید حصہ قرآن کریم کا بلند آواز سے پڑھتا ہے۔
یہ دونوں نمازی دن کے ابتدائی حصہ میں ہوتی ہیں روزوں کے بعد کی عید جسے عیدالفطر کہتے ہیں ذرا دیر سے پڑھی جاتی ہے اور حج کے بعد کی جسے عیدالاضحیہ کہتے ہیں ذرا سویرے پڑھی جاتی ہے۔
ان دونوں نمازوں کے ساتھ بھی خطبہ ہوتا ہے مگر جمع کے خطبہ کے برخلاف ان عیدو ںمیں خطبہ نماز کے بعد ہوتا ہے ان دونوں نمازوں سے پہلے اقامۃ نہیں کہی جاتی۔
ان نمازوں کے علاوہ ایک ضروری نماز جنازہ کی نماز ہے یہ فرض کفایہ ہے یعنی جب کوئی مسلمان فوت ہو اور کچھ مسلمان اس کا جنازہ پڑھ لیں تو سب کی طرف سے فرض کا ادا ہونا سمجھ لیا جاتا ہے اور اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ کوئی مسلمان بھی ادا نہ کرے تو سب مسلمان جن کو علم ہوا اور وہ شامل نہ ہوئے مجرم سمجھے جاتے ہیں گویا جنازہ کی ادائیگی انفرادی ذمہ داری نہیں بلکہ قومی ذمہ داری ہے۔
جنازہ کی نماز میں دوسری نمازوں کے برخلاف رکوع اور سجدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے سب حصے کھڑے کھڑے ادا کئے جاتے ہیں (بخاری جلد اول باب فی الجنائز باب سنۃ الصلوۃ علی الجنائز) اور یہ جنازہ کی نماز میت کو سامنے رکھ کر پڑھائی جاتی ہے اور یہی وجہ اس میں رکوع اور سجدہ نہ ہونے کی ہے کیونکہ میت کے سامنے پڑے ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا لگ سکتا ہے کہ یہ رکوع اور سجدہ اس میت اس میت کو کیا جا رہا ہے اور ایسی لاش جو کسی بزرگ کی ہو اس کا جنازہ پڑھتے ہوئے کئی کمزور طبائع خود بھی اس خیال میں مبتلا ہو سکتی ہیں پس نماز جنازہ سے رکوع اور سجدہ کو اڑا دیا گیا تا شرک کا قلع قمع ہو۔
اس نماز کے چار حصے ہوتے ہیں امام قبلہ رو کھڑا ہو کر بلند آواز سے سینہ پر ہاتھ باندھ کر تکبیر کہہ کر اس نماز کو شروع کرتا ہے اس نماز سے پہلے اقامۃ نہیں کہی جاتی۔ پہلی تکبیر کے بعد منہ میں آہستہ آواز سے امام اور مقتدی اپنے اپنے طور پر سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں اس کے بعد امام پھر بلند آواز سے تکبیر کہتا ہے اور بغیر رکوع میں جانے کے اسی طرح کھڑے ہوئے منہ میں آہستہ آواز سے درود پڑھتا ہے اور مقتدی بھی اپنے اپنے طور پر ایسا ہی کرتے ہیں اس کے بعد امام پھر تکبیر کہتا ہے اور اسی طرح کھڑے کھڑے میت کی بخشش کے لئے اگر وہ بالغ ہو دعا کرتا ہے اسی طرح دوسرے مسلمان مردوں عورتوں بڑوں چھوٹوں سب کے لئے عممواً اور میت کے پسماندگاں کے لئے خصوصاً دعا کرتا ہے اور مقتدی بھی یہی کام کرتے ہیں میت نابالغ ہو تو اس کے ماں باپ کے صبر اور نعم البدل کے لئے دعا کی جاتی ہے اور اس امر کے لئے کہ مرنے والے کو خدا تعالیٰ اس کے رشتہ داروں کے لئے اگلے جہاں میں رحمت اور بخشش کا ذریعہ بنا دے بعض مقررہ دعائوں کے علاوہ اپنے طور پر اپنی زبان میں بھی دُعا کی جا سکتی
صفحہ 116
ہے اور کی جاتی ہے اس کے بعد امام پھر بلند آواز سے تکبیر کہتااور تھوڑے سے وقفہ کے بعد سلام پھیر کر نماز کو ختم کر دیتا ہے۔
بعض اور قسم کی نمازیں بھی اسلام میں ہیں مثلاً استسقاء کی نماز جو قلت باراں اور خطرہ قحط کے وقت میں پڑھی جاتی ہے کسوف و خسوف کے موقعہ کی نماز۔ صلوٰۃ الحاجۃ یعنی کسی بڑی مصیبت کے دُور ہونے کے لئے یا دُور ہونے پر شکریہ کے طور پر یہ نماز پڑھی جاتی ہے مگر یہ نمازیں چونکہ کبھی کبھی ادا ہوتی ہیں میں ان کے بارہ میں اس جگہ کچھ لکھنا نہیں چاہتا فقہ کی کتابوں میں ان کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔
تمام باجماعت ادا ہونے والی نمازوں کے لئے حکم ہے کہ امام آگے کھڑا ہو اور مقتدی اس کے پیچھے اتنے اتنے فاصلہ پر صفیں باندھ کر کھڑے ہوں کہ سب آسانی سے سجدہ کر سکیں صفوں کو درست کرنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاص طو رپر زور دیتے تھے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ما جاء فی اقامۃ الصفوف) قرآن کریم سے بھی اس بارہ میں استدلال ہوتا ہے۔
نماز میں سجدہ اور قعدہ کے علاوہ باقی سب حصے کھڑے ہو کر ادا کئے جاتے ہیں لیکن بیمار کے لئے بیٹھ کر اور بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر اشارہ سے نماز پڑھنا جائر ہے۔
نماز کے وقت ادھر اُدھر دیکھنا نظر پھرانا بات کرنا یا نماز سے باہر والے کی بات کی طرف توجہ کرنا اور اسی قسم کے اور کام جو نماز کے فعل میں خلل ڈالیں منع ہوتے ہیں (ابو دائود کتاب الصلوۃ باب الالتفات فی الصلوۃ و باب النظر فی الصلوۃ و باب تشمیت العاطس فی الصلوۃ) بلاوجہ کھانسنا ادھر ادھر ہلنا بھی ناجائز ہے یہ حکم پہلی تکبیر سے لے کر سلام تک کے وقت کے لئے ہے۔
جب نماز ایسے خوف کے وقت پڑھی جائے کہ نماز پڑھی تو جا سکتی ہو لیکن پورے اطمینان سے نہ پڑھی جا سکتی ہو جیسے مثلاً جنگ کا میدان ہو اور عملاً لڑائی نہ ہو رہی ہو لیکن دشمن حملہ کی تیاری میں ہو یا حملہ کا خوف ہو تو اس صورت میں کئی طرح نماز میں تخفیف جائز ہے ایک مسنون طریق یہ ہے کہ ایک حصہ امام کے ساتھ دو رکعتیں اور زیادہ خطرہ ہو تو ایک رکعت ادا کرے دوسرا حصہ دشمن کی طرف منہ کر کے کھڑا رہے جب پہلا حصہ ایک یا دو رکعت جیسا بھی موقعہ ہو ختم کرے تو جو حصہ کھڑا تھا وہ امام کے پیچھے آ جائے اور پہلا پیچھے ہٹ کر دشمن کی طرف منہ کر کے کھڑا رہے اگر دشمن قبلہ کی طرف ہو تو بہرحال سب کا منہ ایک ہی طرف ہو گا (مسلم جلد اول کتاب الصلوۃ باب صلوۃ الخوف) اس نماز کی مختلف صورتیں ہیں جو گیارہ تک پہنچتی ہیں اور خطرہ کی مختلف حالتوں کے مطابق ہیں اس جگہ ان سب کے بیان کا موقعہ نہیں خلاصہ یہ ہے کہ نماز باجماعت کا حکم خطرہ جنگ کی صورت میں مختلف صورتوں کے مطابق جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں بدلتا رہے گا اس نماز کا ذکر قرآن کریم میں سورہ نساء رکوع ۱۵ میں آتا ہے۔
اس کے علاوہ جب خطرہ شدید ہو اور سواری پر یا پیدل دوڑ کر دشمن کے مقابلہ کے لئے جانا پڑے یا پیچھے ہٹنا پڑے تو سواری پر ہی یا دوڑتے ہوئے بھی نماز جائز ہے اور اسے جلدی جلدی ادا کرنے کی بھی اجازت ہے اس کا ذکر بھی سورۂ نساء کے رکوع ۱۵ میں آتا ہے۔
نماز قبلہ رُخ ہو کر پڑھی جاتی ہے یعنی جہاں بھی کوئی ہو کعبہ کی طرف منہ کر کے جو کہ مکہ مکرمہ میں ہے کھڑا ہوتا ہے اس طرح تمام دنیا کے مسلمانوں کی توجہ ایک مرکز کی طرف جمع ہو جاتی ہے یہ کعبہ کی طرف منہ کرنا اس لئے نہیں کہ اسلام نے کعبہ کو کوئی خدائی صفت دی ہے بلکہ جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اوریہ اسی سورۃ میں آگے آئے گا ایسا اس لئے کیا گیا ہے کہ کسی نہ کسی طرح منہ کر کے کھڑے ہونے کا حکم باجماعت نماز کے لئے ضروری تھا اگر کوئی خاص جہت مقرر نہ کی جاتی اور صفوں میں کھڑے ہو کر ایک جگہ پر لوگ نماز نہ پڑھ سکتے کسی کا منہ کسی طرف ہوتا اور کسی کا کسی طرف تو نماز جماعتی عبادت کس طرح بنتی؟ پس جب جماعتی عبادت کے لئے کسی نہ کسی طرف منہ کرنا ضروری تھا تو اللہ تعالیٰ
صفحہ117
نے مسلمانوں کے لئے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دے دیا جس کی نسبت اسلام کا وعدہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا یہی ہے (آل عمران آیت ۹۶) یہ گھر حضرت ابراہیمؑ سے بھی پہلے کا بنا ہوا ہے مگر حضرت ابراہیمؑ سے پہلے کسی وقت منہدم ہو گیا تھا جس پر خدا تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ نے اپنے لڑکے اسماعیل کی مدد سے اسے دوبارہ بنایا (بخاری جلد ۲ کتاب بدا الخلق باب یزفون النسلان فی المشی) اور اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی تھی کہ کسی وقت یہ مقام تمام سچے پرستاروں کا مرکز ہو گا (سورہ بقرہ آیت ۱۲۵ و حج آیت ۲۶) چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی پوری کی (سورہ بقرہ آیت ۱۲۹ و سورہ جمعہ آیت ۲) اس لئے اسی مقام کو مسلمانوں کے ظاہری اجتماع کا مرکز بنایا گیا۔ تا انہیں ہمیشہ وہ فرض یاد رہے جو ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے جماعت مسلمین کے قیام کی غرض کے طو رپر مقرر کیا گیا تھا۔
اس کا ثبوت کہ کعبہ عبادت کا حصہ دار نہیں صرف اجتماع کا ذریعہ ہے یہ ہے کہ جب چلتی ہوئی کشتی یا کسی دوسرے سواری میں نماز ادا کرنی پڑے تو ایک دفعہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز شروع کر لینا کافی ہوتا ہے اس کے بعد سواری کا منہ کدھر بھی ہو جائے نماز میں خلل نہیں پڑتا (ترمذی جلد اول ابواب الصلوۃ باب الصلوۃ الی الراحلۃ و ابودائود کتاب الصلوۃ باب التطوع علی الراحلۃ) اور جب کعبہ کی طرف کا علم نہ ہو سکے تو نماز معاف نہیں ہو جاتی بلکہ جدھر منہ کر کے بھی نماز پڑھ لی جائے جائز ہے بلکہ ضروری ہے کہ نماز پڑھے خواہ کدھر ہی منہ کر کے نماز پڑھے (ترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی الرجل یصلی لغیر القبلۃ فی الغیم)
اگر وضو اور تمیم دونوں نہ کر سکے تو اس صورت میں بھی میرے نزدیک نماز ادا کر سکتا ہو تو ادا کر لے جیسے مثلاً جہاز عرق ہو جائے اور کوئی شخص لائف بلٹ پہن کر سمند رمیں کودے پڑے اور عرصہ تک اسے بچانے والا کوئی نہ آوے تو نہ یہ وضو کر سکے گا نہ تمیم اس سورۃ میں اس کا اشارہ کے ساتھ ہی نماز پڑھ لینا درس ہو گا اور جن فقہاء کے نزدیک اس طرح پانی میں ہونا وضو ہی کا مترادف ہے ان کے خیال کی رو سے تو اس کا وضو ہی ہو گا کیونکہ وضو والے سب اعضاء دُھل چکے ہونگے۔
نماز کی شکل میں حکمت:
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں جو قیام اور رکوع اور سجدہ اور قعدہ مقرر کئے گئے ہیں یہ ایک رسمی سی بات ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ہیئتوں کے اختیار کنے میں خاص کمتیں ہیں۔ جو نماز کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں اور نماز کا ان پر مشتمل ہونا اسے ایک رسمی عبادت نہیں بنات۔ ان ہیئتوں پر اس کا مشتمل ہونا اسے روحانیت کے لئے مکمل بناتا ہے اصل بات یہ ہے کہ انسانی بناوٹ اس قسم کی ہے کہ جسم کا اثر روح پر اور روح کا اثر جسم پر پڑتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جو رونی صورت بنائے اس کی آنکھو ںمیں کچھ دیر کے بعد آنسو آ جاتے ہیں اور دل بھی غمگین ہو جاتا ہے اور جس غمگین آدمی کے پاس بیٹھ کر لوگ ہنسیں او راسے ہنسائیں تھوڑی دیر کے بعد اس کے دل پر سے غم کا اثر کم ہونے لگتا ہے او راس کے اُلٹ یہ بھی ہوتا ہے کہ دل کے غم اور خوشی کا اثر انسان کے چہرہ اور دوسرے اعضاء پر پڑتا ہے حتیٰ کہ بعض دفعہ ایک رات کے صدمہ سے بعض لوگوں کے بال تک سفید ہو گئے ہیں اس طبعی قانوان کے مطابق اسلام نے عبادت الٰہی میں چند جسمانی افعال بھی شامل کئے ہیں تاکہ وہ ظاہری ہیئتیں جو ادب کا اظہار کرتی ہیں اس کے باطن میںبھی اسی قسم کاجذبہ پیدا کر دیں۔
ہم دیکھیت ہیں کہ دُنیا میں ادب اور احترام کے اظہار کے لئے محتلف اقوام نے مختلف شکلو ںکو اختیار کیا ہے بعض قوموں میں ادب کے اظہار کا طریق یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کے
صفحہ118
سامنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور بعض قوموں میں ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہونا ادب کے اظہار کی علامت ہے بعض میں رکوع کی طرح جھک جانا ادب کے اظہار کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور بعض قومو ںمیں سجدہ کے طور پر گر جانا ادب کے انتہائی اظہار کے لئے دلامت مقرر کیا گیا ہے اور بعض قوموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھنا انتہائی ادب کے لئے علامت قرار دیا گیا ہے چنانچہ اسی وجہ سے مختلف اقوام میں عباد تکے وقت ان مختلف اقوام میں عبادت کے وقت ان مختلف صورتوں کو اختیار کیا جاتا ہے ایرانی لوگ اپنے بادشاہ کے سامنے جسے وہ خدا تعالیٰ کا مظہر قرار دیتے تھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے اسی طرح بعض حالات میں ہو ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہوتے تھے مغربی ممالک میں گھٹنوں کے بل گرنیپ کی انتہائی تذلل کا مقام سمجھا جاتا ہے ہندوستان میں رکوع کی طرح جھکنا ادب کے اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح اپنے قابل تحریم بزرگوں اور بُتوں کے آگے سجدہ کیا جاتا ہے اسلام چونکہ سب دُنیا کے لئے ہے اس نے اپنی عبادت میں ان سب ط۔ریقوں کو جمع کر دیا ہے تاکہ ہر قوم کے لوگوں کے دلوں میں اس طریقِ عبادت سے وہ خشیت پیدا ہو جو عبادت میں پیدا ہنوے چاہیئے کیونکہ ایک تو اپنی قومی عادت کے ماتحت وہ اس خاص ہیئت سے زیادہ متاثر ہونگے دوسرے اپنی قلبی کیفیت کے ماتحت وہ ان مختلف ہیئتوں سے موقعہ کے مناسب زیادہ متاثر ہونگے کیونکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ انسان کے اندر جو مختلف تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ان کے ماتحت وہ کبھی تو شدت محبت اور شدتِ ادب کے وقت جھک جاتا ہے کبھی دوزانو ہو جاتا ہے کبھی سامنے کھما ہو جاتا ہے اور کبھی سجدہ میں گر جاتا ہے پس اس کے قلب کی جو بھی کیفیت ہو گی اس کے مطابق ہیئیت کے وقت اس کے قلب میں جوش پیدا ہو جائے گا اور وہ اپنی عبادت سے پورا فائدہ اُٹھا سکے گا۔
علاوہ طبعی کیفیت کے محتلف جسمانی کیفیتوں کے ماتحت بھی ان مختلف حرکات کا اثر انسانی دل پر مختلف پڑتا ہے مثلاً ایک نزلہ کا مریض سجدہ میں تکلیف پاتا ہے او راس حالت میں اسے پورا جوش نہیں آتا لیکن کھڑے ہونے یا قعدہ کی حالت میں اسے پورا جوش دعا کے لئے پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اس کی صحت کے زیادہ مطابق ہوتی ہے مگر ایک دوسرا آدمی جس کی مثلاً لاتوں میں ضعف محسوس ہو رہا ہو سجدہ میں زیادہ جوش پاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اسلام نے چونکہ عبادت کو ایک اجتماعی فعل قرار دیا ہے اور چونکہ اس نے سب قوموں کو جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اس لئے اس نے اپنی عبادت میں ان تمام ہیئتوں کو جمع کر دیا ہے جن کے ذریعہ مختلف اقوام کو ادب و محبت کے اظہار کی عادت ہے اور جو مختلف حالتوں میں مختلف انسانوں کے دل میں عقیدت اور ادب کے جذبات کو اُبھار دیتی ہیں اور اس کی نماز ایسی جامع اور کامل ہے کہ اور کسی مذہب کی نماز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اس خصوصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے اجتماعی نمازوں کا حکم دیا ہے کیونکہ جب مختلف استعدادوں کے لوگ ایک جگہ جمع ہوںتو ایک دوسرے کے قلب کی حالت کا اثر دوسرے پر پڑتا ہے اور کمزور قوی کی قوت ایمان کو اپنے دل پر تاثیر ڈالتا ہوا محسوس کرتا ہے۔
چونکہ کبھی کبھی انسان کے دل میں خلوت میں عبادت کا جوش بھی پیدا ہوتا ہے اس لئے اسلام نے فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جیسا کہ تہجد کی نماز ہے اور اس طرح انسان کی اس مخصوص ضرورت کو بھی پورا کر دیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی نماز ان تمام طریقوں کی جامع ہے جو مختلف اقوام کے دلوں میں اس کیفیت کو پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے چلے آئے ہیں جو عباد ت کے لئے ضروری ہے اور اس میں ہر قوم ہر فرد کی قلبی حالت کو درست کرنے اور عبادت کا سچا جذبہ پیدا کرنے کی قوت موجود ہے او رجن ظاہری ہیئتوں کا اختیا رکرنا نماز میں لازمی قرار دیا گیا ہے ان سے نماز کی عظمت میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ اان کے ذریعہ سے مکمل ہوتی ہے اور دوسری عبادت پر اسے فضیلت حاصل ہوتی ہے۔
ان ظاہری افعال کے علاوہ اسلامی نماز اللہ تاعلیٰٖ
صفحہ119
کی تسبیح تحمید اور تعظیم کے ایسے مضامین پر مشتمل ہے جو سنگدل سے سنگدل انسان کے دل کو بھی نرم کر دیتی ہے اور اس میں ایسی دعائیں رکھی گئی ہیں جو انسانی فکر کو بہت بلند کر دیتی ہیں اور اس کے مقاصد کو اونصا کر دیتی ہیں اور اس کے جذبات کو نیکی او ر تقویٰ کے لئے اُبھار دیتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ بھڑکا دیتی ہیں اور روحانی حصہ نماز کا وہی ہیں او ران کا دوسری اقوام کی عبادات سے اگر مقابلہ کیا جائے تو دونو ںمیں وہی نسبت معلوم ہوتا ہے جیسے سورج کے مقابلہ پر مٹی کا ایک دیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اسلام نے عبادت کو تمام ظاہری دلکشیوں سے خالی رکھا ہے۔ نہ اس وقت گانا ہوتا ہے نہ باجا ہوتا ہے جیسا کہ عام طور پر دوسری اقوام کی اجتماعی عبادتوں میں ہوتا ہے بلکہ فقط سنجیدگی سے اللہ کے بندے اس کے حضور میں اپنی عقیدت کے پھول پیش کرتے ہیں اور اس کی محبت کی بھیک مانگتے ہیں اور باوجود اس کے کہ نماز ہفتہ میں ایک وقت ادا نہیں کی جاتی جیسا کہ اکثر مذاہب میں ہے بلکہ دن میں کم سے کم پانچ بار پڑھی جاتی ہے مگر پھر بھی اس بے دینی کے زمانہ میں بھی اس قدر مسلمان پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتے ہیں کہ دوسرے تمام مذاہب کے افراد ملا کر ہفتہ میں ایک دفعہ کی عبادت بھی اس تعداد میں ادا نہیں کرتے یہ نماز کی روحانی کشش کا ایک بین ثبوت ہے اور مشاہدہ اس پر گواہ ہے۔
دوسری عبادت گاہوں میں باجے بجتے ہیں گانے گائے جاتے ہیں آرام کے لئے کرسیاں اور صوفے مہیا کئے جاتے ہیںاور صرف ہفتہ میں ایک بار بلایا جاتا ہے لیکن لوگ ہیں کہ پھر بھی ان سے دور بھاگتے ہیں لیکن یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے مخاطب سخت زمین پر سجدہ کرنے کے لئے پانچ وقت مساجد میں شوق سے جمع ہوتے ہیں اور بغیر کسی ظاہری دلکشی کے اور بغیر کسی مادی آرام کے کے سامان کے موجود ہونے کے وہ لذت اور سرور محسوس کرتے ہیں کہ دُنیا کی سب نعمتیں اس کے آگے مات ہوتی ہیں اس مشاہدہ کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ اسلامی عبادت صرف چند ظاہری رسوم کا مجموعہ ہے اور اس میں روحانیت کی نسبت جسمانی ہیئتوں کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے علم النفس اس پر شاہد ہے اور تجربہ بتا رہا ہے کہ اسلامی عبادت کی ظاہری شکل صرف ایک برتن کی حیثیت رکھتی ہے ورنہ اس کا مغز تو وہ پر معارف مضامین ہیں جو اس میں دہرائے جاتے ہیں اور وہ پر شوکت دعائیں اور وہ پر سوز التجائیں ہیں جو اس میںکی جاتی ہیں۔
بعض لوگ اعتراض کریت ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کا حکم دینے سے کیا فائدہ۔ کیا وہ بندوں کی عبادت کا محتاج ہے تعظیم اور تکریم سے تو نادان انسان خوش ہوا کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی ذات کو تو اس سے ارفع ہونا چاہیئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت کا فائدہ یہ نہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی شان بڑھتی ہے بلکہ عباد ت کی غرض اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایسا اتصال پیدا کرنا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے نور کو اپنے اندر اخذ کر لے اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ صرف فکر انسان کے اندر وہ جذبہ نہیں پیدا کر سکتا جس سے وہ خدا تعالیٰ کی ذات میں اپنے آپ کو محو کرنے کی کوشش کرے ایسا جذبہ تو محبت کام سے ہی پیدا ہو سکتا ہے او رمحبت کامل محسن ہستی کے احسانوں کے کامل انکشاف سے پیدا ہوتی ہے اور نماز اس غرض کو پورا کرتی ہے کیونکہ نماز میں اللہ تعالیٰ کی حقیقی شان کو سامنے لانے کے سامان مہیا کئے جاتے ہیں اگر کہو کہ جو انسان خدا تعالیٰ کی محبت پیداکرنا چاہے گا وہ خود ہی اپنے لئے اس کا موقع نکال لے گا اس کے لئے پانچ وقت کی نماز مقرر کرنے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض قلت تدبر سے پیدا ہوا ہے انسانی طبیعت اس قسم کی ہے کہ اگر باقاعدگی سے اسے اس کے مقصد کی طرف توجہ نہ دلائی جائے تو وہ سستی کرنے لگتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے کمزور اور قوی سب کو اس اعلیٰ مقام تک پہنچانے کے لئے نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ کمزور بھی قوی کے ساتھ مل کر ان مواقع کو پاتے رہیں جو ان کے دلوں کے اندر صفائی پیدا کریں
صفحہ120
اور قومی ایمان والوں کے دلوں سے نکلنے والی مخفی تاثیرات کو اپنے اندر جذب کر کے صفائی قلب پیدا کر سکیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ پانچ وقت کی نماز کا کیوں حکم دیا گیا ہے حالانکہ اس زمانہ میں مشاغل اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ انتا وقت نمازوں کے لئے نکالنا مشکل ہے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر نماز کی غرض محبت الٰہی کی آگ بھڑکا کر اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے سہولت بہم پہنچانا ہے تو جس زمانہ میں مشاغل بڑھ جائیں اس زمانہ میں نماز کی ضرورت بڑھ جاتی ہے نہ کم ہوت جاتی ہے ظاہر ہے کہ جب مقصد کو بھلا دینے کے سامان کم ہوں گے اس وقت بار بار مقصد کی طرف توجہ دلانے کی اس قدر ضرورت نہ ہو گی جس قدر کہ اس وقت جب مقصد کو بھلا دینے کے سامان یادہ ہوں پس اگر اس زمانہ میں دنیوی مشاغل بڑھ گئے ہیں تو نماز کی ضرورت بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر نماز صرف ایک اظہار عقیدہ کا ذریعہ ہوتا تب یہ اعتراض کچھ وزن بھی رکھتا مگر جیسا کہ بتایا گیا ہے نماز کی غرض صرف اقرار عبودیت نہیں بلکہ اس کی غرض تو انسانی نفس میں وہ استعداد پیدا کرنا ہے جس کی مدد سے وہ مادی دُنیا سے اُڑ کر روحانی عالم میں پہنچ سکے اور اس کا دماغ جسمانی خواہشات میں ہی الجھ کر نہ رہ جائے بلکہ اعلیٰ اخلاق کو حاصل کرے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ (العنکبوت ع ۵) یعنی نماز صرف عبودیت کا اقرار نہیں بلکہ قلب انسانی کو جلا دینے والی شے ہے اور اس کی مدد سے انسان بدیو ںاور بد کرواریوں سے بچتا ہے اور اس کا وجودبنی نوع انسان کے لئے مفید بنتاہے اور وہ ملت و قوم کا ایک فائدہ بخش جزو ہو جاتا پس جو عمل کہ یہ خوبیاں رکھتا ہو مادی اشغال کی کثرت کے زمانہ میں اس کی ضرورت کم نہیں ہوتی بلکہ بہت بڑھ جاتی ہے اور حق تو یہ ہے کہ اس زمانہ میں بدامنی اور شورش اور نفسانفسی اور قوموں کی قوموں پر چڑھائی کا اصل سبب یہی ہے کہ لوگ سچی عبادت کا طریق لوگوں میں رائج ہوتا تو اس دُنیا کو پیدا کرنے والے مہربان آقا سے اتصال کی وجہ سے بغض اور نفرت کی جگہ محبت اور ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا۔
وَمِمَّا رَزَقْہٰمُ یُنْفِقُوْنَ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ رَزَقَ کے معنے دینے کے ہیں نہ کہ کھانے دینے کے رَزَقَہٗ کے یہ معنے نہیں کہ اسے کھانا کھلایا۔ بلکہ یہ ہیں کہ اسے کچھ دیا حواہ وہ کوئی ہی چیز کیوں نہ ہو عربی زبان میں دینے کے لئے کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں رزق بھی اور ھبہ بھی اور ایتاء بھی او ربھی کئی الفاظ ہیں لیکن قرآن کریم میں یہی سات لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں ایتائِ تو صرف دینے کے معنے کسی کے پاس آنے کے ہوتے ہیں اور ایتاء کے معنے کسی کے پاس لانے کے ہوتے ہیں جس سے آگے دینے کے معنے ہو گئے کیونکہ کسی کے پاس کوئی چیز لانے سے مُراد غالب طور پر اسے وہ چیز دینا ہوتا ہے۔ غرض یہ لفظ محض دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے خواہ وہ چیز بڑی ہو یا چھوٹی اچھی ہو یا بُری اور قرآن کریم میں متعدد بار ان معنو ںمیں استعمال ہوتا ہے۔ دوسرا لفظ عطاء ہے یہ لفظ آئی ہے زیادہ اہم مفہوم بیان کرتا ہے اور معمولی دینے کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ بالعموم ایسی چیز کے دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جسے اس چیز کا حاصل کرنے والا ایک نعمت خیال کرتا ہو اور اسے شوق سے لے اس لفظ کو اسی موقعہ پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وہ چیز جو دی جائے اس کے لئے جسے دی جائے مفید اور کار آمد ہو چنانچہ عطاء کے معنی خدمت کے بھی ہوتے ہیں اور تعاطیٰ کے معنی ایڑیاں اُٹھا کر اور ہاتھ بلند کر کے کسی چیز کے لینے کے ہوتے ہیں من احسان اور