• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر کبیر قادیانی خلیفہ زانی مرزا بشیر الدین محمود جلد نمبر1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ121
انعام زیادہ تر حسن سلوک کے معنوں پر دلالت کرتے ہیں اور لینے والے کی کسی خاص حالت کو ظاہر کرنے کی بجائے دینے والے کے نیک جذبات پر دلالت کرتے ہیں۔ وطب کے معنوں میں اس امر پر زور ہے کہ دینے والے نے جو کچھ دیا ہے اس کے بدلہ میں کسی عوض یا بدلہ کی امید نہیں رکھی۔ رزق کا لفظ جو آیت زیر بحث میں استعمال ہوا ہے اس کے معنے بھی دینے کے ہیں لیکن اس کے معنوں میں یہ اشادہ پایا جاتا ہے کہ جو چیز دی گئی ہے اس نے لینے والے کی ضرورت کو پورا کیا ہے۔ گویا علاوہ دینے کے معنوں کے اس میں پانے والے کی ضرورت کی طرف بھی اور اس کے پوار ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے اور چونکہ انسانی ضرورت بار بار پیدا ہوتی ہے رزق اس عطاء کو کہتے ہیں جو بار بار ضرورت کے مطابق نازل ہو چناچہ مفردات راغب میں لکھا ہے کہ الرِّزْقُ یُقَالُ لِلْعَطائِ الْجَارِی رزق اس عطاء کو کہتے ہیں جو بار بار نازل ہوتی رہے وَیُفَالُ لِلنَّصِیْبِ اور حصہ کو بھی کہتے ہیں یہ حصہ کے معنے بھی اسی وجہ سے پیدا ہوئے کہ رزق در حقیقت قدرِ کفایت کا نام ہے اور حصہ بھی اسی کا نام ہے کہ جس جس قدر کسی کو ضرور ت ہو اس کے مطابق اسے چیز مل جائے قرآن کریم میں آتا ہے وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ یعنی ہر جنس کی ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کر دیئے ہیں۔
محض اردو دان طبقہ میں یہ طبقہ میں یہ غلط خیال رائج ہے کہ رزق کے معنی صرف کھانے پینے کی چیزوں کے ہیں حالانکہ اصل میں رزق کے معنے بقدر ضرورت سامان مہیا کر دینے کے ہیں بیشک انہی معنوں سے غذا کے معنے بھی پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ وہ بھی انسان کا ضروری حصہ ہیں مگر وہ اصل معنی نہیں ہیں بلکہ بعد میں ضمناً پیدا ہو گئے ہیں پس وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْقِقُوْنَ کے معنے یہ ہیں کہ جو کچھ بھی تم کو ہم نے دیا ہو خواہ علم ہو عزت ہو عقل ہو مال ہو دولت ہو اس میں سے ایک حصہ تم کو خرچ کرنا چاہیئے پس اس جملہ کے یہ معنے نہیں کہ جو کچھ تم کو کھانے پینے کی اشیاء ملی ہیں ان میں سے کچھ غریبو ںکو بھی کھلائو کیونکہ نہ تو اس جملہ میں غریبوں کا ذکر ہے نہ اس چیز کی تعیین ہے جسے خرچ کرنا ہے اور ہمارا کوئی حق نہیں کہ جن اشیاء کو خدا تعالیٰ نے بغیر حد بندی کے چھوڑ دیا ہے ہم ان کے لئے اپنے پاس سے حد بندی مقرر کریں۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں رف اس قدر فرماتا ہے کہ جو کچھ ہم نے تمہاری ضرورتوں کے مطابق دیا ہے اسے خرچ کرو یہ ضرورت کے مطابق ملنے والی چیز علم بھی ہو سکتا ہے عقل بھی جرأت بھی غیرت بھی وفا بھی ہاتھ پائوں کی خدمت بھی آنکھ ناک کی خدمت میں روپیہ پیسہ کی خدمت بھی۔ غرض کوئی چیز جس کی نسبت کہا جا سکے کہ خدا تعالیٰ نے دی ہے اور کسی ضرورت کے پورا کرنے کے لئے دی ہے اس کے خرچ کرنے کاحکم ہے اور اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ روپیہ تو دوسروں کو امداد کے طو رپر دیتا ہو لیکن مثلاً کھانا نہ دیتا ہو لیکن مکان نہ دیتا ہو یا مکان تود یتا ہو مگر اپنے ہاتھوں سے خدمت نہ کرتا ہو یا ہاتھوں سے خدمت تو کرتا ہو مگر اپنے علم سے لوگوں کو فائدہ نہ پہنچاتا ہو تو وہ اس آیت پر پوری طرح عامل نہ سمجھا جائے گا اور اسی طرح اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہی اس آیت پر عامل نہیں جو غریبوں کو روپیہ دیتا ہے بلکہ وہ بھی عامل ہے جو لوگو ںکو علم پڑھاتا ہے اور وہ بھی عامل ہّے جو مثلاً بیوائوں یتیموں کے کام کر دیتا ہے اور وہ سپاہی بھی عامل ہے جو میدانِ جنگ میں ملک کی خاطر جان دینے کی نیت سے جاتا ہے اور وہ موجد بھی عامل ہے اور وہ موجد بھی عامل ہے جو رات دن کی محنت سے دُنیا کے فائدہ کے لئے کوئی ایجاد کرتا ہے۔
اس آیت پر غور کرنے والے لوگ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ہر طاقت اور ان کے قبضہ ہر سامان ایک حد تک دوسروں کے کام آئے ان فقہا نے اسلام کی ایک بڑی صداقت کو پا لیا جنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ عورت کا وہ زیور جو پہنا جائے اور کبھی کبھی دوسری غریب عورتوں کو پہننے کے لئے دیا جائے اس پر زکوٰۃ نہیں
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ122
یہ ایک نہاتی سچی بات ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کو پاک کرنے کے لئے ہے او رجو مال خرچ ہو رہا ہو وہ جاری پانی کی طرح ہے اور کوئی چیز اسے گندہ نہیں کر سکتی۔ جو مال آج ایک فائدہ دے رہا ہے کل دوسرے کو وہ بہتے چشمے کی طرح ہے جس کا پانی اس وقت یہاں ہوتا ہے تو دوسرے منٹ آگے اسی لئے اسلام نے زمینداری تجارت وغیرہ سے منع نہیں کیا لیکن روپیہ یا سونا چاندی جمع کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ زمینداری تجارت وغیرہ سے زمیندار یا تاجر کے علاوہ دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کا سرمایہ بھی ایک طرح خرچ ہو رہا ہوتا ہے مگر جو روپیہ جمع پڑا رہے وہ چونکہ دوسروں کے کام نہیں آتا اسے گناہ کا موجب قرار دیا اور یہاں تک فرما دیا کہ اس مال کو گرم کر کے اُن کے جمع کرنے والوں کے ہاتھوں پر داغ لگائے جائینگے (التوبہ آیت ۳۵)
دوسری شق خرچ کرنے کے مقام کی ہے اس آیت میں یہ کوئی ذکر نہیں کہ جو چیز خرچ کی جائے وہ کس پر خرچ کی جائے اس آیت میں کوئی لفظ غریب یا مسکین کا نہیں بلکہ محض یہ ہے کہ وہ اس عطیہ کو جو ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دیا گیا ہے خرچ کرتے ہیں۔
اس آیت میں غریبوں کا تو کیا ذکر ہے یہ بھی کوئی حد بندی نہیں کہ غیروں کو دیتے ہیں نہ یہ کہ اپنے عزیزوں کو دیتے ہیں اور نہ یہ کہ اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں پس جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے وہ شخص ہی اس آیت پر عمل نہیںکرتا جو اپنے مال میں سے کچھ غریبوں کو دیتا ہو بلکہ اس آیت کے مفہوم کے مطابق وہ باپ جو اپنی اولاد پر خرچ کرتا ہے اور وہ ماں جو اپنے بچہ کو دودھ پلاتی ہے او روہ خاوند جو اپنی بیوی کو ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور وہ اولاد جو اپنے ماں باپ کا خیال رکھتا ہے سب ہی اس آیت کے احکام میں سے بعض احکام کو پورا کرتے ہیں کیونکہ اس آیت کے مفہوم میں ان سب لوگوں پر خرچ کرنا شامل ہے بلکہ اس آیت کے مفہوم میں وہ خرچ بھی شامل ہے جو ایک شخص خود اپنی ذات پر کرتا ہے۔ وہ شخص جو اپنے نفس کو اس کی ضرورت کے مطابق کھانا کھلاتا ہے اس آیت کے مفہوم کے ایک حصہ کو پورا کرنے والا ہے وہ شخص جو اپنے جسم کے لئے ضرورت کے مطابق کپڑا بناتا ہے اس آیت کے مفہوم کو پورا کرنے والا ہے۔
ہر وہ شحص جو اپنے نفس کے بارہ میں بحل سے کام لیتا ہے اور ضِرورت اور صحت کے مطابق کھانا نہیں کھاتا وہ اس حکم کو توڑنے والا ہے خواہ وہ دوسروں پر کس قدر ہی کیوں نہ خرچ کرے کیونکہ یہ آیت یہ نہیں کہتی کہ غریبوں پر خرچ کرو بلکہ یہ آیت کرنے کے مقام کو بلا تعیین چھوڑکر خود انسان کے نفس کو بھی اس میں شامل کرتی ہے اور اس کی بیوی کو بھی اور اس کے بچے کو بھی۔ اور اس کے دوستوں کو بھی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے اس آیت کے اس مفہوم کی خوب تشریح ہوتی ہے آپؐ کے پاس ایک دفعہ ایک شخص کی شکایت کی گئی جو ہر روز روزہ رکھتا تھا رات بھر عبادت کرتا تھا اور اپنے بیوی بچوں کی طرف سے غافل تھا اس پر آپؐ نے فرمایا اِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَ لِضَیْفِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِاَ ھْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا فَاعْطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ یعنی تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے رب کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا بھی پر حق ہے اور تیری بیوی اور بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے پس ہر حق والے کو اس کا حق دے او رکسی کو محروم نہ کر۔ (ترمذی جلد دوم ابواب الزھد)
اس آیت نے ان تمام اقسام رہبانیت کو جن میں گندہ رہنے بھوکا رہنے اپنے عزیز رشتہ داروں کو حقوق سے غافل رہنے کا نام نیکی قرار دیا گیا ہے رد کر دیا ہے کیونکہ اسلام کے نزدیک متقی وہ ہے جو ان سب چیزوں کو خرچ کرے جو اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں اور اس کی عطاء اس کے نفس کے لئے بھی ہو اور اس کے عزیزوں کے لئے بھی اور اس کے دوستوں کیلئے بھی ہو اور اسکے ہمسائیوں
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
صفحہ123
کے لئے بھی ہو اور غریبوں کے لئے بھی ہو اور امیروں کے لئے بھی ہو اور جان پہچان لوگوں کے لئے بھی ہو اور اجنبیوں کے لئے بھی ہو اور ہم وطنو ںکیلئے بھی ہو اور دُور سے آئے ہوئے مسافروں کے لئے بھی ہو اور انسانوں کے لئے بھی ہو اور حیوانوں کے لئے بھی ہو کیونکہ وہ حکم دیتا ہے کہ ہر نعمت سے خرچ کرو اور ہر ضروری مقام پر خرچ کرو۔
اس آیت سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ خدا کے دیئے ہوئے میں سے کچھ حصہ خرچ کرنے کا حکم ہے نہ یہ کہ سب ہی خرچ کر دے قرآن کریم کی دوسری آیات اس امر کی وضاحت کرتی ہیں کہ اس طرح اپنے مال کو خرچ کرنا کہ اس کے پاس اپنے گزارہ کا سامان ہی ختم ہو جائے ناجائز ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْ لَۃً اِلیٰ عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُورًا (بنی اسرائیل ع ۳)یعنی نہ تو اپنے ہاتھوں کو اپنی گردن سے باندھ دے کہ خدا کی نعمتوں کا خرچ بالکل روک دے اور نہ ہاتھ ایسا کھول کہ سب مال ضائع ہو جائے اور لوگ تجھ کو ملامت کریں اور تو آئندہ مال کمانے کے سامانوں سے محروم رہ جائے مَحْسُوْرا سے کہتے ہیں جس کی طاقت ضائع ہو جائے اور اس کی کمزوری ظاہر ہو جائے اور اس آیت میں اس شخص سے مراد ہے جو آئندہ کی ترقی کے سامانوں سے محروم ہو جائے۔
اس جگہ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ تمام مال کا خرچ تو بُرا کہلا سکتا ہے مگر اس آیت میں تو علم اور فہم وغیرہ کے اخراجات کو بھی شامل کیا گیا ہے ان چیزوں میں سے کچھٖ خرچ کرنے کے کیا معنے ہیں کیا انسان اپنا سارا علم لوگوں کو نہ سکھائے یا اپنی عقل سے پوری طرح لوگو ںکو فائدہ نہ پہنچائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ علم اور فہم اور عقل خرچ کرنے سے بڑھتے ہیں پس ان میں سے کچھ خرچ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اس طرح علم مے لوگوں کو فائدہ نہ پہنچائے یا فہم سے یا عقل سے کہ انکے بڑھنے کا منبع خراب ہو جائے مثلاً یہ ہلاک ہو جائے یا اس کی صحت ایسی طرح بگڑ جائے کہ اس کا علم یا فہم یا عقل کام دینے سے رُک جائیں مثلاً دماغ خراب ہو جائے۔ غرض علم اور فہم اور عقل کا بھی اسی قدر استعمال ہونا چاہیئے کہ ان کا چشمہ نہ سوکھ جائے کیونکہ جو شخص اپنے علم اور عقل سے لوگوں کو اس طرح فائدہ پہنچاتا ہے یا اپنے آپ کو اس طرح فائدہ پہنچاتا ہے کہ ان کے منبع میں خرابی واقع ہو جاتی ہے وہ اس آیت کے حکم کے خلاف عمل کرتا ہے۔
اگر کہا جائے کہ کیا سارا مال حدا کی راہ میں خرچ کرنے والا گنہگار ہو گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح علم اور فہم اور عقل کا منبع ہوتا ہے اور وہ اس کا راس المال ہوتا ہے اسی طرح مال کا بھی ایک منبع ہوتا ہے پس سارا مال خرچ کرنے سے یہی مراد ہو گی کہ وہ اس منبع تک کو خرچ نہ کر دے مثلاً ایک شخص کا رائس المال اگر اس کی قوت بازو اور اس کی عقل یا اس کا فن ہے تو ہ اگر اپنا وہ مال جو روپیہ کی صورت میں اس کے پاس ہے سب کا سب خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں کیونکہ اس کا رائس المال موجود ہے وہ اس سے اور مال کما لے گا لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ اس کا رائس المال اس کی دماغی قوت یا جسمانی قوت نہیں بلکہ اسے اپنی روزی کمانے کے لئے کسی قدر مال کی ضرورت ہے تو اس کے لئے اپنا سارا مال خرچ کر دنیا جائز نہ ہو گا حضرت ابوبکرؓ تجارتی کامو ںمیں بہت ہوشیار تھے وہ اپنی عقل سے پھر مال پیدا کر لینے کا ملکہ رکھتے تھے مکہ سے نکلتے ہوئے ان کا سب مال قریباً ضائع ہو گیا لیکن مدینہ میں آ کر انہوں نے نے پھر اور مال کما لیا ایک دفعہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص چندہ کی تحریک کی آپؓ نے اپنے گھر کا سب اثاثہ چندہ میں دے دیا اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ابوبکرؓ اپنے گھر میں کیاچھوڑا ہے تو انہوں نے جواب دیا حضور اللہ اور اس کے رسول کا نام چھوڑا ہے (ترمذی جلد دوم ابواب المناقب مناقب ابی بکر الصدیقؓ) ایسے شخص کے لئے اپنا سارا مال دے دیناکوئی گنہ نہیں کیونکہ اس کا رائس المال اس کا دماغ ہے چنانچہ اس کے بعد بغیر اس کے کہ حضرت ابوبکرؓ لوگوں سے سوال کرتے آپ نے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ124

پھر اور مال کما لیا اور اپنا گزارہ اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کرتے رہے کسی کے دست نگر نہ ہوئے پس سارے مال کی تعریف ہر شخص کے حالات کے لحاظ سے مختلف ہو گی پیشہ ور کے لحاظ سے اور تاجر کے لحاظ سے اور اور اس تاجر کے لحاظ سے او رجو تجارت صرف روپیہ کہ زور سے نہیں کرتا بلکہ اپنے وسیع تجارتی علم اور تجربہ کے زور سے کرتا ہے او رمزید سرمایہ پیدا کر لینا اس کے لئے مشکل نہیں ہوتا بلکہ دوسرے لوگ اسے حود اپنا سرمایہ پیش کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ اس کو سرمایہ دے کر خود اپنے مال کو بڑھائیں گے۔
مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ انسان کو حلال اشیاء خرچ کرنی چاہئیں یہ نیکی نہیں کہ حرام مال یا حرام اشیاء خرچ کرے بعض لوگ رشوتیں لے کر اور بعض ڈاکے ڈال کر مال جمع کرتے ہیں اور غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ نیکی کرتے ہیںحالانکہ بدی سے بدی پیدا ہو سکتی ہے نیکی نہیں ایسے لوگ بدیوں کی بنیاد رکھتے ہیں ان کا صر ف اس قدر کام تھا کہ جو خدا تعالیٰ نے ان کو دیا تھا اس میں سے خرچ کرتے اگر کوئی شخص دوسرے کے مال سے جس پر اس کا حق نہیں دوسرے کو کچھ دے دیتا ہے وہ اس حکم کا پورا کرنے والا نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہ اس رزق میں سے خرچ نہیںکرتا جو خدا تعالیٰ نے اسے دیا تھا بلکہ اس میں سے خرچ کرتا ہے جو خدا تعالیٰ نے اسے نہیں دیا تھا اور یہ آیت کہتی ہے کہ جو ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے حرچ کرتے ہیں۔
اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مال خرچ کرنے پر گھبرانا عقل کے خلاف ہے کیونکہ یہاں خدا تعالیٰ کی نعمت کا نام رزق رکھا گیا ہے اور رزق اس عطاء کو کہتے ہیں جو جاری ہو اور جو ایک ہی دفعہ ختم نہ ہو جائے پس رزق کا لفظ استعمال کر کے اس جگہ یہ اشارہ کیا گیاہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق جو خرچ کرے گا اس کا مال بڑھے گا کم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس پر بار بار انعام کر لے گا۔ علم اور فہم اور عقل اور جسمانی قوتوں کے خرچ کرنے سے ان اشیاء کا بڑھنا تو ظاہرہی ہے جو شخص اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے اس کا علم ہمیشہ بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا جو لوگ درس و تدریس میں مشغول رہتے ہیں ان کا علم ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے اسی طرح جو لوگ اپنی عقل اور اپنے فہم سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں ان کی عقل اور ان کا فہم بڑھتا ہے گھٹتا نہیں اسی طرح جسمانی قوتوں کو صحیح طرح خرچ کرنے والے کی قوت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں اسی طرح مال خرچ کرنے والے کا مال بھی بڑھتا ہے مثلاً یہ ظاہر امر ہے کہ جو شخص اپنے مال کا کچھ حصہ اپنے نفس پر خرچ کرے گا اس کے جسم میں زیادہ کما سکے گا اسی طرح جو شخص صحیح طو رپر اپنی بیوی اور اپنی اولاد پر خرچ کرے گا اس کے ہاں کمانے والوں کی تعداد بڑھے گی جو اپنے ہمسائیوں پر اور دوستوں پر مال حرچ کرے گا اس کے معاون اور مددگار بڑہیں گے جو غربار پر خرچ کرے گا اس کی قوم کی مالی حالت ترقی کرے گی اور اس کا رد عمل خود اس کے مال کے بڑھنے کی صورت میں ہو گا غرض مال کا صحیح خرچ کبھی مال کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ اسے بڑھاتا ہے پس علاوہ اس کے کہ خدا تعالیٰ کا فضل اس شحص پر روحانی طو رپر نازل ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے طبعی قوانین بھی اسی طرح بنائے ہیں کہ اُن کی مدد سے بھی ایسے حالات میں مال بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا اور صرف کم عقل لوگ اس قسم کے خرچ سے گھبراتے ہیں وہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح وہ اپنے مالوں کو نقصان پہنچاتے ہیں محفوظ نہیں کرتے۔
شائد کوئی اعتراض کرے کہ خدا تعالیٰ کو اس کی کیا ضرورت پیش آئی کہ بندوں کی وساطت سے دوسروں پر خرچ کر وائے کیوں نہ اس نے سب انسانوں کو براہِ راست ان کا حصہ دے دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ محض طمت تدبر کا نتیجہ ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ بعض لوگ خرچ کرنے والے ہیں اور بعض دوسروں کی امداد پر گزارہ کرتے ہیں کیونکہ در حقیقت سب ہی لوگ ایک دوسرے پر خرچ کرنے والے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ125

ہیں امراء ظاہر میں غربا پر مال خرچ کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ غرباء بھی امراء پر خرچ کر رہے ہوتے ہیں ایک مالدار جو ایک گائوں میں رہتا ہے اس کے مال کی حفاظت ان سینکڑوں غرباء کی ہمسائیگی سے ہو رہی ہوتی ہے جو اس کے ساتھ گائوں میں رہتے ہیں ورنہ ڈاکو اور چور اس کو لوٹ لیں اگر اس کے گھر پر چور اور ڈاکو حملہ نہیں کرتے تو اس کا موجب صرف اس کے ملازم نہیں کرتے بلکہ اسی بستی میں رہنے والے سب لوگ ہوتے ہیں جن کے خوف سے ڈاکو اس کے گھر پر حملہ نہیں کرتے ایک امیر اپنی امارت غرباء کی مدد کے بغیر قائم ہی نہیں رکھ سکتا کیونکہ دولت مزدور کی مدد سے آتی ہے مزدور نہ ہو تو دولت کہاں سے آئے پس امیر ہی غریب کی مدد نہیں کرتا بلکہ غریب بھی امیر کی مدد کرتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے تعاون اور محبت کے قیام اور زیادتی کے لئے دنیا میں ایسا انتظام کیا ہے کہ ہر شخص کے مال میں کچھ دوسروں کا حصہ بھی رکھ دیا ہے تاباہمی ہمدردی اور تعاون سے محبت بڑھے اور تمدن ترقی کرے اگر ہر اک آزاد ہوتا تو مدنیت کبھی ترقی نہ کرتی اور وہ علوم جو انسان کو حیوانوں سے ممتاز کرتے ہیں کبھی پیدا نہ ہوتے پس رزق کا باہم ملا دینا ایک بڑی حکمت پر مبنی ہے۔
اس جگہ میں مالی خرچ کے متعلق کسی قدر تفصیل سے قرآنی تعلیم کو بیان کر دینا چاہتا ہوں تاکہ قرآن کریم نے جو اس بارہ میں احکام دیئے ہیں اجمالی طور پر ذہن نشین ہو جائیں۔
قرآن کریم میں مالی خرچ کئی قسم کا بیان ہوا ہے۔ (۱) زکوٰۃ جو فرض ہے (۲) صدقہ جو نفلی ہے اور انسان کے اندرونی تقوی کے فیصلہ پر اسے چھوڑ دیا گیا ہے یہ آگے دو قسم کا ہے (الف) ان کے لئے صدقہ جو اپنی ضرورتوں کو پیش کر کے مطالبہ کر لیتے ہیں (باء) ان کے لئے صدقہ جو اپنی ضرورتوں کو پیش نہیں کرتے یہ آگے دو قسم کا ہے (۱) جو اپنی ضرورتوںکو پیش نہیں کرتے (۲) جو اپنی ضرورتوں کو پیش نہیں کر سکتے (۳) وہ خرچ جو انسان قومی ضروریات کے لئے کرتا ہے (۴) شکرانہ (۵) فدیہ (۶) کفارہ (۷) تعاونی خرچ جو مدنی نظام کی ترقی کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے (۸) حق الخدمت (۹) ادا احسان (۱۰) تحفہ یہ دس قسم کے حرچ ہیں جو قرآن کریم سے ثابت ہیں اور جن خرچوں میں سے کسی ایک کا ترک بھی جب موقعہ اس کا مقتضی ہو اس آیت پر عمل کرنے سے انسان کو محروم کر دیتا ہے اور اس کے تقویٰ میں کمزوری پیدا کر دیتا ہے دُنیا میں بہت سے لوگ اس تقسیم کو مدنظر نہ رکھ کر اعلیٰ ثوابوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
(۱) زکوٰۃ وہ خرچ ہے جو قرآن کریم میں فرض کیا گیا ہے اور اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ تمام انسانوں کی دولت دوسرے لوگوں کی مدد سے کمائی جاتی ہے اور اس کمائی میں بہت دفعہ دوسروں کا حق شامل ہوتا ہے جو باوجود انفرادی طور پر دوسروں کا حق ادا کر دینے کے پھر بھی دولتمند کے مال میں باقی رہ جاتا ہے مثلاً ایک مالدار آدمی ایک کان سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ کان کے مزدوروں کو ان کی مزدوری پوری طرح ادا بھی کر دے تو بھی وہ جو کچھ ان کو ادا کرتا ہے وہ ان کی مزدوری ہے مگر قرآنی تعلیم کے مطابق وہ لوگ بھی اس کان میں حصہ دار تھے کیونکہ قرآن کریم بتاتا ہے کہ دُنیا کے سب خزانے تمام بنی نوع انسان کے لئے پیدا کئے گئے ہیں نہ کہ کسی خاص شخص کے لئے پس مزدوری ادا کر دینے کے بعد بھی حق ملکیت جو مزدوروں کو حصال تھا ادا نہیں ہوتا اس کی ادائیگی کی یہ صورت ہو سکتی تھی کہ ان مزدوروں کو کچھ زائد رقم بھی دی جائے مگر اس سے بھی وہ حق ادا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس طرح ان چند مزدوروں کو تو ان کا حق ادا ہو جاتا مگر باقی دنیا بھی تو اس میں حصہ دار تھی ان کا حق ادا ہونے سے رہ جاتا۔ پس اسلام نے یہ حکم دیا کہ اس قسم کی کمائی میں سے کچھ حصہ حکومت کو ادا کیا جائے تاکہ وہ اسے تمام لوگوں پر مشترک طو رپر خرچ کرے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ126

اسی طرح زمیندار جو زمین میں سے اپنی روزی پیدا کرتا ہے گو اپنی محنت کا پھل کھاتا ہے مگر وہ اس زمین سے بھی تو فائدہ اٹھاتا ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی تھی پس اس کی آمد میں سے بھی ایک حصہ حکومت کو قرآن کریم دلواتا ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے اسے خرچ کیا جائے اسی طرح تجارت کرتنے والا بظاہر اپنے مال سے تجار تکرتا ہے لیکن اس کی تجارت کا مدار ملکی امن پر ہے اور اس امن کے قیام میں ملک کے ہر شخص کا حصہ ہے پس اس حصہ کو دلانے کے لئے اس کے مال پر بھی اسلام نے زکوٰۃ مقرر کی ہے تاکہ حکومت کے ذریعہ سے باقی لوگوں کا حق ادا ہو جائے اسی طرح جو شخص مال جمع کرتا ہے اس کے مال جمع کرنے کی وجہ سے دوسرے لوگ اس مال سے نفع حالص کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں جو اس مال میں ازل سے شریک مقرر کئے گئے تھے پس اس مال پر بھی شریعت نے زکوٰۃ مقر ر کی ہے گو جس وقت وہ مال کمایا گیا تھا اس پر زکوٰۃ دی گئی تھی لیکن پہلی زکوٰۃ تو اس حق کے بدلہ میں تھی جو اس مال میں دوسروں کو حاصل تھا اور دوسری زکوٰۃ اس وجہ سے ہے کہ اس مال کو بند رکھنے کی وجہ سے وہ اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیئے گئے۔
زکوٰۃ کے یہ تمام احکام قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں اور بعض کی تشریح بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے ہوتی ہے وہ سب اپنے اپنے موقعہ پر تفسیر میں انشاء اللہ بیان ہوں گے اس جگہ زکوٰۃ کے اس اجمالی حکم کی طرف اشارہ کرنا کافی ہے جس میں اس حکم کی حکمت کو بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ خُذْ مِنْ اَمْوَا الِھِمْ صَدَقَۃً تُطَہِرُ ھُمْ وَتُزِکِّیْھِمْ بِھَا (توبہ رکوع ۱۳) یعنی تمام ان مومنوں سے جو اسلامی حکومت تلے رہتے ہیں صدقہ لے اس طرح تو ان کے دلوں کو پاک کرے گا اور ان کے مالوں کو بھی دوسرے لوگوں کے مالوں کی طونی سے صاف کر دے گا اور قومی ترقی کے سامان پیدا کرے گا صدقہ سے مُراد اس جگہ زکوٰۃ مفروضہ ہے یہ لفظ صدقہ کا علاوہ ان متد اول معنوں کے جن بھی استعمال ہوتا ہے جن میں سے ایک زکوٰۃ مفروضہ بھی ہے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ بغیر اس قسم کی زکوٰۃ لینے کے لوگوں کے مال پاک نہیں ہو سکتے کیونکہ جب تک لوگوں کا حق ادا نہ ہو مال پاک نہیں ہو سکتا اور نہ مالدار کا تقویٰ مکمل ہو سکتا ہے یہ زکوٰۃ حکومت لیتی ہے اور ایس کی معرفت خرچ ہو سکتی ہے یا حکومت نہ ہو تو اسلامی نظام اس کے وصول کرنے اور خرچ کرنے کا حقدار ہے جیسے کہ خذ یعنی لے کے لفظ سے ظاہر ہے (۲) نفلی صدقہ جس کی بناء رحم اور شفقت پر ہے یہ کسی مقدار معین معین میں فرض نہیں بلکہ ہمسائیوں کی ضرورت اور دینے والے کی مالی حالت او راس کے دل کے تقویٰ پر اسے چھوڑا گیا ہے صدقہ کا حکم اس شکل میں اس لئے دیا گیا ہے تا ہر شخص اپنے تقویٰ اور اپنی مالی حالت کے مطابق اسے ادا کرے چونکہ اس کی حکمت تعاون باہمی کی روح کو پیدا کرنا ہے اس لئے یہ خرچ حکومت کی وساطت سے نہیں رکھا گیا بلکہ ہر فرد کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ خود اس قسم کا خرچ کرے اس کا ارشاد قرآن کریم کی اس آیت میں اجمالاً کیا گیا ہے۔ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَا لَھُمْ بِا لَّیْلِ وَالنَّھَارِ سِرًّا وَّعَلَا نِیَۃً فَلَھُمْ اَجْرُ ھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo(برقرہ رکوع ۳۸) یعنی جو لوگ اپنے مال رات اور دن خرچ کرتے ہیں اور پوشیدہ بھی خرچ کرتے ہیں اور ظاہر بھی خرچ کرتے ہیں وہ اپنے اجر اپنے رب کے پاس پائیں گے اور انہیں نہ آئیندہ کا خوف لا حق ہو گا اور نہ سابق کوتاہیوں پر انہیںکوئی گھبراہٹ لاحق ہو گی اس آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہاں زکوٰۃ کا ذکر نہیں جو فرض ہے اور حکومت کو ادا کی جاتی ہے کیونکہ زکوٰۃ مخفی خرچ نہیں کی جا سکتی پس یہ خرچ نفلی صدقہ کا ہے جو انسان خود کرتا ہے اور حسب موقعہ کبھی مخفی کرتا ہے کبھی
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ127

ظاہر مخفی اس لئے تاکہ جس کی امداد کرتا ہے لوگوں میں شرمندہ نہ ہو اور ظاہر اس لئے کہ تا ان لوگوں کو بھی صدقہ کی تحریک ہو جو اس نیکی میں ابھی کمزور ہیں ورنہ اسے اپنی ذات کے لئے کسی شہرت کی تمنا نہیںہوتی ایسے لوگوں کی نبست فرماتا ہے کہ وہ اپنے اس فعل کا بدلہ خدا سے پائیں گے۔
جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اس حرچ کے دو مواقع قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں (۱) ان افرا دپر خرچ کیا جائے جو اپنی ضرورتوں کے لئے مطالبہ کر لیتے ہیں جیسے کہ وہ غرباء جو سوال کر لیتے ہیں اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اس اسلام ان پر بھی حسب موقعہ خرچ کرنے کو پسند کرتا ہے۔ چناچنہ فرماتا ہے وَفِٓیْ اَمْوَ الِھِمْ حَقٌ لِلسَّآئِلِ (ذاریات رکوع ۱) مومنوں کے اموال میں سائلوں کا بھی حق ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ قرآنی محاورہ میں مسائل سے مراد وہ عادی گدا گر نہیں کہ جنہوں نے سوال کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے کیونکہ اسلام ساول کو ناپسند کرتا ہے اور ایسا گداگر اسلامی نظام کی کسی شق میں بھی انہیں آ سکتا کیونکہ قرآن کریم تو کل علی للہ پر بڑا زور دیتا ہے اور سوال کرنا تو کل کے باکل بر خلاف ہے پھر قرآن کریم انسانی زندگی کو مفید طو رپر حرچ کرنے پر زور دیتا ہے اور عادی سوالی اپنی زندگی کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال سے سختی سے منع فرمایا ہے اور حضرت عمرؓ تو اس حکم پر عمل کرانے میں اس قدر شدت سے کام لیتے تھے کہ اگر کوئی ایسا سوالی ملتا تو آپ اس کی مانگی ہوئی چیزوں کو پھینک دیتے تھے او راسے محنت مزدوری کرنے کی تلقین کرتے تھے۔
سوالی سے مُراد وہ لوگ بھی نہیں جو معذور ہو ںاور کما نہ سکیں کیونکہ ان کا بوجھ اسلام نے قوم پر تسلیم کیا ہے اور زکوٰہ بھی ان لوگوں کے اخراجات کی متحمل ہے۔
پس جب ہم اسلام کے دوسرے احکامات کو ملا کر دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک سوالی وہ ہے جو در حقیقت محنت او رمزدوری سے کام تو لیتا ہے لیکن مثلاً اس کا پیشہ ایسا ہے کہ اس سے کافی آمدن نہیں ہو سکتی یا یہ کہ اس کے عیال زیادہ ہیں ایسے اشخاص میں سے اگر کوئی اپنے دوستوں سے سوال کرے تو گو اسلام نے اسے پسند تو نہیں کیا لیکن اسے منع نہیں کیا کیونکہ پوری محنت کے بعد بھی اگر اسکی ضرورت پوری نہ ہوتی تو گو اس کا سوال کرنا معیوب ہو مگر اسے حرام یا ممنوع نہیں کہا جا سکتا کیونکہ آخر بھائی بھائیو ںکے بوجھ اُٹھاتے ہیں۔
دوسرا مصرف قرآن کریم نے ایسے صدقہ کا محروم لوگوں کا گروہ بتایا ہے چنانچہ اوپر کی آیت پوری اس طرح ہے وَفِٓیْ اَمْوَ الِھِمْ حَقٌ لِلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمرِ (ذاریات ع ۱) یعنی مومنوں کے مالوں میں سائلوں کا بھی حق ہوتا ہے اور محروم لوگوں کا بھی یعنی جو باوجود غربت کے ساول نہیں کرتے اور اس طرح ان لوگوں کی توجہ میں نہیں آتے جو گہری نگاہ سے اپنے ہمسائیوں کو دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔
ان لوگوں کا ذکر قرآن کریم کی ایک اور آیت میں ان الفاظ میں آیا ہے لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْوصرُ وْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَایَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَا ھُمْ لَایَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا (بقرہ رکوع ۳۷) یعنی اے مومنو جو مال تم خرچ کرو اس میں سے ان بے مایہ لوگوں کو بھی دیا کرو جو دین یا ملت کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور اس شغل کی وجہ سے اِدھر ادھر پھر کر اپنی کمائی میں زیادتی نہیں کر سکتے لیکن باوجود مال کی کمی کے وہ اپنے نفس کو سوال کی وفات سے بچاتے اور خاموش رہتے ہیں اور اس وجہ سے وہ لوگ جو غور کرنے کے عادی نہیں انہیں خوشحال سمجھ لیتے ہیں حالانکہ تو اگر دیکھے تو ان کو ان کے چہروںسے پہچان لے گا وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے۔
اس کے آخری فقرہ سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیئے کہ وہ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ128

نرمی سے مانگ لیتے ہیں کیونکہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ وہ سوال کرتے ہی نہیں پس چمٹ کر نہیں مانگتے سے یہ مراد ہے کہ وہ اپنی غربت کو چھپانے کے لئے امرا ئکا سایہ بننے سے بھی گریز کرتے ہیں اور اس طرح سوال مجسم ہو کر انسان لوگوں سے جو فائدہ اٹھا سکتا ہے اس سے بھی محروم رہتے ہیں ایسے لوگوں پر خرچ کرنے پر قرآن کریم نے خاص زور دیا ہے۔
محروم کے دوسرے معنے یہ بھی ہیں کہ وہ سوال کر ہی نہ سکتے ہوں سو ان معنوں کے روسے اس میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو مثلاً گونگے بہرے ہیں یا پردہ دار عورتیں ہیں یا چھوٹے بچے ہیں یا پھر جانور ہیں کہ زبان ان کو قدرت نے عطا ہی نہیں کہ ان سب پر خرچ کرنا بھی صدقہ کی اقسام میں شامل ہے۔
قرآن کریم سے ثابت ہے کہ صدقہ رد بلا کے لئے مفید ہوتا ہے او راسلام آفات اور مصائب کے وقت اس قسم کے صدقات کی تحریک متواتر کرتا ہے۔
صدقہ میں وہ تمام اخراجات شامل ہیں جو ردِّ بلا کی غرض سے او رمصیبت کے وقت میں یا مصیبتوں کو دُور رکھنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں اسی کی ایک قسم کو نذر کہتے ہیں اس میں اور عام صدقہ میں یہ فرق ہے کہ عام صدقہ تو اس خرچ کو کہتے ہیں جو ردِّ بلاء کی امید میں کیا جاتا ہے اور نذر اس صدقہ کو کہتے ہیں جس کا وعدہ اس صورت میں کیا جائے کہ اگر فلاں مشکل دُور ہو جائے یا فلاں کام ہو جائے تو یہ خرچ کروں گا یا فلاں عبادت بجا لائوں گا۔ اس کا ذکر سورۂ دھر رکوع اول میں ہے جہاں فرماتا ہے وَیُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ مومن نذر کو پورا کرتے ہیں یعنی جب کسی خیرات یا نیک عمل کا عہد کرتے ہیں صلحاء امت میں سے جو بڑے پایہ کے صلحاء گزرے ہیں ان کا خیال ہے کہ گو نذر کا پوار کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک عہد ہے جو بندہ خدا تعالیٰ سے کرتا ہے لیکن اس طرح عہد کرنے سے کہ اگر خدا تعالیٰ فلاں مصیبت کو ٹلا دے تو اس اس قدر صدقہ کرونگا یہ بہتر ہے کہ پہلے ہی صدقہ کر کے اللہ تعالیٰ پر توکل کر لے بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ سے سودا کرنے کی کوشش کرے اور یہ خیال ان کا درست اور صحیح ہے امام بخاری نے امام مالک کے واسطہ سے حضرت عائشیہؓ سے روایت کی ہے قال مَنْ نَذَرَ اَنْ یُّطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ اَنْ یَعْصِیَہٗ فَلَا یَعْصِہًٖ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ایسی نذر مانے جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہو تو اسے پورا کرے اور جو ایسی نذر مانے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو وہ نذر کو پورا کرکے نافرمانی نہ کرے۔ (بخاری جز رابع کتاب الغذور باب النذر فی الطاقہ)
(۳) تیسری قسم خرچ کی جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے وہ اخراجات ہیں جو قومی اور ملی ضرورتوں کے مواقع پر اچھے اور نیک افراد کرتے ہیں یہ اخراجات صدقہ نہیں کہلا سکتے کیونکہ ان سے مساکین کی ضرورتیں پوری نہیں کی جاتیں بلکہ غریب و امیر ان سے متمتع ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ساری قوم ان سے فائدہ اٹھاتی ہے جیسے گھر سے خرچ کر کے جہاد کے لئے جانا یا دوسرے کسی سپاہی کے اخراجات مہیا کرنا کہ وہ خرچ اس سپاہی پر نہیں ہوتا بلکہ قوم پر ہوتا ہے کیونکہ کوئی شخص اس لئے سواری طلب نہیں کرتا کہ تامیدانِ جنگ میں جا کر جان دے یا پانچ دس دن کے لئے روٹی نہیں مانگتا کہ اتنے دنوں میں اپنی موت کا سامان کرے پس اگر سپاہی کو ایام جنگ کے لئے کھانا مہیا کر دیا جائے یا اس کے لئے سواری مہیا کر کے دی جائے تو یہ قومی خرچ ہے فرد کی امداد نہیں کیونکہ جنگ اس شخص کا ذاتی کام نہیں بلکہ ملت کے فائدہ کا کام ہے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ129

اسلام نے ان اخراجات پر زور دیا ہے اور یہ حکم زکوٰۃ و صدقہ سے الگ ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَا لًاوَّجَاھِدُ وْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذَا لِکُمْ خَیْرٌ تَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (توبہ ع ۶) کہ اگر ہلکے پھلکے ہو یعنی سواری مہیا ہے یا گھر کا انتظام مکمل ہے تب بھی جہاد کے لئے گھروں سے نکلو اور اگر بوجھ ہو یعنی خود بوجھ اٹھا کر جانا پڑے سواری نہ ہو یا پیچھے گھر کا کوئی انتظام نہ ہو تب بھی جماد کے لئے گھروں سے باہر نکلو اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرو یہ تمہارے لئے اگر تم جانو تو بہتر ہو گا۔
اس آیت میں جو جان و مال کے خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ضروری نہیں کہ دوسروں پر خرچ کیا جائے۔ جو شخص صرف اپنے لئے سواری مہیا کرتا ہے تاکہ جہاد میں شامل ہوسکے یا اپنے لئے تلوار خریدتا ہے تاجہاد میں شریک ہو سکے یا اپنے لئے کچھ غلہ خریدتا ہے تاجہاد کے دنوں اسے کھا کر گزارہ کر سکے وہ ہر ایک چیز اپنے لئے خریدتا ہے۔ پس یہ معروف صدقہ نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس کا فاودہ وہ خود اٹھاتا ہے۔ مگر چونکہ یہ خرچ جو اس نے اپنے نفس پر کیا اپنے کسی شوق کو پورا کرنے کے لئے نہیں کیا بلکہ دین و ملت کی خدمت کیلئے کیا اور ایسی حالت میں کیا کہ بجائے لذت کا سامان مہیا کرنے کے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا۔ یہ خرچ خدا تعالیٰ کی رضاء کے مطابق خرچ ہے اور ثوابِ عظیم کا مستحق اس شخص کو بناتا ہے۔
اسی طرح اگر جہاد کی غرض سے یا کسی قومی خدمت کیلئے جو براہ راست اس سے متعلق نہیں۔ کوئی شخص کسی بھائی کی امداد کرتا ہے تو اس کا وہ خرچ بھی صدقہ نہیں۔ کیونکہ اس خرچ سے دوسرے بھائی کی ذاتی ضرورت پوری نہیں کی گئی بلکہ اس کے بدلہ میں اس سے ایک قومی کام لیا گیا ہے۔ سو یہ تیسری قسم کا خرچ ہے جو نہ زکوٰۃ ہے نہ صدقہ۔ مگر ہے نہایت ضروری۔ اور انسان کو بہت بڑے ثواب کا مستحق بنتا ہے۔ آج کل تلوار کا جہاد تو ہے نہیں۔ پس اشاعت اسلام یا تعلیم یا نظام جماعت کی مضبوطی اور اسی قسم کے دوسرے کاموں کے لئے جو رقوم دی جاتی ہیں وہ اسی مد میں شامل ہیں۔ اور جَاھِدُرْا بِاَ مْرَا لِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ کے حکم کے پہلے نصف کے پورا کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ مگر دوسرا نصف اسی صورت میں پوار ہو سکتا ہے کہ مال خرچ کرنے کے علاوہ کبھی کبھی اپنے کاموں کا حرج کر کے خود بھی کچھ دن تبلیغ کے لئے دے۔ یا ملی ترقی کی غرض سے تعلیم و تربیت کے کام میں حصہ لے۔
(۴) چوتھی قسم خرچ کی جسے اسلام نے پسند کیا ہے اور اس کا حکم دیا ہے وہ خرچ ہے جو بطور شکرانہ کیا جاتا ہے۔ اس میں اور صدقہ میں یہ فر قہے کہ صدقہ تو کسی مصیبت کے دور کرنے یا کسی مقصد کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے۔ مگر شکرانہ کا خرچ حصول مقصد کے بعد یا بلا کے دُور ہونے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں ہے کُُلْوا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ (انعام ع ۱۷) یعنی جو پھل یا غلہ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اس میں سے کھائو۔ اور جس وقت اس پھل یا غلہ کو کاٹو اس وقت خدا تعالیٰ کا حق بھی ادا کرو۔ یا یہ کہ اس غلہ یا پھل کو کاٹ کر اپنے قبضہ میں لانے کا حق بھی ادا کرو یعنی کچھ حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں بطور شکر تقسیم کرو۔ بعض لوگوں نے اس کے معنے زکوٰۃ کے کئے ہیں اور بعض نے اس حکم کو زکوٰۃ سے منسوخ قرار دیا ہے۔ مگر حق یہی ہے جیسا کہ اس آیت کے موقعہ پر لکھا جائے گا۔ کہ نہ اس جگہ زکوٰۃ کا حکم ہے او رنہ یہ حکم زکوٰۃ سے منسوخ ہے بلکہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور تمہاری محنت ٹھکانے لگے تو اس شکریہ میں کہ خدا تعالیٰ نے تم کو اس قابل بنایا اللہ تعالیٰ کے غریب بندوں کو بھی اس میں سے کچھ حصہ دو۔ اس حکم پر بھی مسلمانوں میں بہت کم عمل رہ گیا ہے۔ حالانکہ یہ خرچ ایسا طبعی خرچ ہے کہ اسے بھولنا نہیں چاہیئے۔ او رہر کامیابی پر خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ نہ کچھ بطور شکرانہ خرچ کرنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ کامیابی پر الحمد للہ کہنے کا ایک عملی نمونہ ہے۔
(۵) خرچ کی پانچویں قسم جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ130

فدیہ ہے۔ فدیہ کے معنے صدقہ کے بھی ہیں۔ لیکن اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ جو کمی کسی نیک عمل میں رہ جائے۔ اُسے خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ مال خرچ کر کے پورا کیا جائے۔ چنانچہ سورۃ بقرہ ع ۲۴ میں حج کے احکام میں لکھا ہے کہ ایام احرام میں سر نہیں منڈانا چاہیئے۔ لیکن اگر کسی کے سر میں کوئی بیمار ہو اور سر منڈوانا پڑے تو بطور فدیہ کچھ صدقہ کرے یا روزے رکھے یا قربانی دے۔ پس فدیہ وہ خرچ ہے جو کسی عمل میں کمی رہ جانے کے خیال سے دیا جاتا ہے۔ اور گویا عبادت کی اس کمی کو اس خرچ سے پورا کیا جاتا ہے۔
(۶) خرچ کی ایک چھٹی قسم قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کا نام کفارہ ہے۔ کفارہ کا لفظ و بلا کرنے والے فعل کے بھی ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور اصطلاح بھی قرآن کریم کی ہے۔ اور اس کے رُو سے کفارہ اس خرچ یا اس عبادت کا نام ہے جو کسی گناہ کا وبال دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ان معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم مںی سورۃ مائدہ کے بارہویں اور تیرہویں رکوع میں آتا ہے۔ اس میں اور فدیہ میں یہ فرق ہے کہ فدیہ تو اس صورت میں ادا کیا جاتا ہے جب کوئی فعل اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کیا جائے اور اس اجازت سے کوئی حکم جو دسری صورت میں ضروری تھا ترک کرنا پڑے۔ یا جب کوئی عمل کر تو لیا جائے مگر اس خیال سے کہ اس میں کوئی کمی نہ رہ گئی ہو کچھ صدقہ کر کے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر کفارہ اس صور ت میں دیا جاتا ہے کہ جب کوئی گناہ صادر ہو جائے۔ یا گناہ تو صادر نہ ہو لیکن گناہ کے صدور کے قریب ہو جائے اور اس کی غرض اس گناہ کے وبال سے بچنا اور توبہ کا ایک عملی نشان قاوم کرنا ہوتی ہے (اس مضمون کو تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ آیاتِ متعلقہ کے ماتحت بیان کیا جائے گا)
اس جگہ ایک لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ کہ قرآن کریم تو کفارہ کا مفہوم یہ لیتا ہے کہ ایک تائب اپنی توبہ کا عملی ثبوت دلی ندامت اور زبانی اقرار کے علاہو کچھ مالی یا جسمانی قربانی کے ذریعہ سے دے۔ لیکن مسیحیوں کے نزدیک کفارہ کا یہ مفہوم ہے کہ ایک اعلیٰ وجود نے اپنے آپ کو گنہگار کے پیدا ہونے سے بھی پہلے قربان کر دیا۔ گویا توبہ کا اس سے کوئی تعل ہی نہیں۔ کیونکہ توبہ تو الگ رہی مسیحیوں کا کفارہ گناہ بلکہ گہنگار کے پیدا ہونے سے بھی پہلے اداکیا جا چکا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے کفارہ کو توبہ سے دُور کا تعلق بھی نہیں ہو سکتا۔
(۷) ساتویں تقسم خرچ کی قرآن کریم سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ مدنی نظام کی ترقی کے لئے کچھ اخراجات انسان پر واجب کئے گئے ہیں۔ جیسے خاوند کا بیوی پر خرچ اور باپ کا اولاد پر خرچ۔ ان اخراجات کو بھی قرآن کریم نے ضروری اور فرض مقرر کیا ہے۔ اور اگ رکوئی ان اخراجات سے گریز کرے تو اُسے گنہگار قرار دیا گیا ہے۔ اور اگر اسلامی حکومت ہو یا اسلام نظام ہو تو اس کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ یہ اخراجات جبراً کرائے۔ اس خرچ کی تفصیلات بھی آئندہ حسب موقع بیان ہوں گی۔
(۸) آٹھویں قسم خرچ کی جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے۔ حق الخدمت ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی کا کام کرے تو اس کا مناسب اجر اُسے دیا جائے اور اس سے نیک سلوک کیا جائے۔ اس خرچ کی ایک مثال قرآن کریم کا وہ حکم ہے جو اولاد کو دُودھ پلوانے کے متعلق آتا ہے۔ اس بارے میں قرآن کریم کا حکم ہے کہ اگر اپنے کسی بچہ کو کسی دوسرے عورت سے دُودھ پلوانا چاہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ دودھ پلانے والی عورت کو سَلَّمْتُمْ مَا اَتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ (بقرہ ع ۳۰) یعنی جو حق الخدمت حسب دستور اور ملک کے اقتصادی حالات کے مطابق اور اپنی مالی حالت کے مطابق تم اُسے دینے کا وعدہ کرو اُس کے سپرد کر دو۔ اس حکم میں بتایا گیا ہے کہ حق الخدمت کے لئے ضروری ہے کہ (۱) بلا حجت ادا کر دیا جائے او راس کے ادا کرنے کا انسان ایسا عہد کر لے کہ گویا اداکر ہی دیا ہے (۲) اس کے ادا کرنے میں معروف کو مدنظر رکھا جائے یعنی (الف) کی اقتصادی حالت کے مطابق ادا کیا جائے یعنی اس قدر کم نہ ہو کہ اس وقت کی اقتصادی حالت کے مطابق اس کے دُودھ پلانے والی کا گذارہ نہ ہو سکے (ب) پہلی حد بندی تو کم سے کم تھی اس سے زائد یہ بھی مدنظر رکھو کہ اگر تمہاری مالی حالت عام لوگوں سے اچھی ہو تو ایسا حق الخدمت اداکرو جو
 
Top