• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر کبیر قادیانی خلیفہ زانی مرزا بشیر الدین محمود جلد نمبر1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ141

اس امر کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ انسانوں کی طرح حرکت کرے اور اس کام کے کرنے کے لئے چل کر جائے بلکہ وہ صرف یہ ارادہ کر لیتا ہے کہ ایسا ہو جائے پھر اسی ہو جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے کلام بھجوانے کے صرف یہ معنے ہیںکہ وہ اس کا ارادہ کر لیتا ہے اور اس ارادہ الٰہی سے آپ ہی آپ کلام الٰہی کے نزول کا ذمہ دار فرشتہ واقف ہو جاتا ہے پھر وہ اس حکم کی تعمیل کے لیے کائنات کی متعلقہ زنجیروں کو کھینچتاہے اور خود بخود ایک لطیف اور پر معارف کلام اللہ تعالیٰ کے اس بندہ کے کانوں یا دل یا آنکھوں پر نازل ہو جاتا ہے جس تک خدا تعالیٰ کے ہونٹ ہیں اور زبان ہے اور حلق اور تالو ہے کہ وہ ان کو حرکت دے کر کوئی آواز پیدا کرتا ہے یا انسانوں کی طرح کے ہاتھ ہیں کہ وہ ان سے لکھ کر فرشتوں کو دیتا ہے اور وہ اسے رسول تک پہنچا دیتے ہیں۔
اس آیت کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کا وچوتھا موجب یہ ہے کہ لوگوں نے نزول کے معنے غلط سمجھے ہیں۔ بے شک نزول کے عام معنے جسمانی طور پر اترنے کے ہیں لیکن یہ لفظ اور معانی میں بھی مستعمل ہے اور قرآن کریم میں کئی اور جگہ دوسرے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً (آل عمران ع ۱۶) کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر غم کے بعد امن کے سامان اتارے اور اس سے مراد امن کے سامان پیدا کرنا ہے کیونکہ نہ غم آسمان سے اترتا ہے نہ امن دونوں زمینی تغیرات سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میںہے وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِنَ الْاَ نْعَامِ ثَمَانِیَۃَ اَزْوَاج (زمر ع ۱) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے آٹھ قسم کے چوپائے اتارے ہیں۔ حالانکہ چوپائے آسمان سے اُتگرا نہیں کرتے بلکہ زمین میں پیدا کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے یَا بَنِٓیْ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَا سًا یُّو ارِیْ سَوْا تِکُمْ وَرِیْشًا۔ (اعراف ع ۳) اے بنی آدم ہم نے تمہارے لئے لباس اتارا ہے جو جو تمہارے ننگ کو ڈھانکتا ہے اور تمہارے لئے موجبِ زینت ہوتا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم فرماتا ہے وَاَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ الْمَنَّ وَا لسَّلْویٰ (بقرہ ع ۶) ہم نے تمہارے لئے ترنجبین او ربٹیرے اتارے تھے۔ اسی طرح قرآن کریم فرماتا ہے وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ (الحدید ع ۳) ہم نے لوہا اتارا ہے جس میں بہت بڑے جنگ کے سامان مخفی ہیں۔ اب ان تمام اشیاء میں سے ایک بھی نہیں جو آسمان سے اترتی ہو بلکہ سب ہی چیزیں زمین میں پیدا کی جاتی ہیں۔
خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے کہ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا رَّسُوْلًا (طلاق ع ۲) ہم نے تم پر ایک بڑے شرف کی بات یعنی اپنا رسول اتارا ہے۔
اوپر کی تمام آیات سے ثابت ہے کہ نزول کا لفظ پیدا کرنے کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور اس جگہ بولا جاتا ہے جبکہ اس چیز کی پیدائش کا ذکر کیا جائے جسے بطور احسان یا انعام کے پیش کیا جائے۔ چنانچہ جانوروں کی پیدائش کا ذکر بھی بطور احسان کیا گیا ہے لوہے کی پیدائش کا بھی اور من و سلویٰ کی پیدائش کا بھی اور لباس کی پیدائش کا بھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا بھی۔ پس ان معنوں کے رو سے کلام الٰہی کے اترنے کے اصل معنے صرف یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام بطور ایک خاص نعمت کے ہوتا ہے اور اس کی ناقدری اور ناشکری کرنا انسان کو خدا تعالیٰ کی نظروں سے گرا دیتا ہے۔ ورنہ یہ مراد نہیں کہ وہ کسی کاغذ پر لکھا ہوا آسمان سے اترتا ہے۔ بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا ایک خاص اذن ہے جو تمام ملاوٹوں اور وسوسوں سے پاک ہونے کی حالت میں اس کے مصریوں کا کانوں یا آنکھوں یا قلوب پر منکشف کیا جاتا ہے اور جسے الفاظ اور صوت دی جاتی ہے۔ صرف ایک خیال کا نام نہیں ہے جیسے کہ برہمو سماج یا بایی وغیرہ خیال کرتے ہیں۔
اس جملہ سے یہ دھوکا نہیںکھانا چاہیے کہ متقی کی تعریف صرف یہ ہے کہ جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لائے کیونکہ قرآن کریم سے پہلے زمانہ کے لوگوں میں بھی قرآن کریم متقیوں کا وجود تسلیم کرتا ہے مثلاً فرماتا ہے وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی وَھَارُوْنَ الْفُرْقَانَ وَضِیَآئً وَّذِکْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَ (انبیاء ع ۴)
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ142

یعنی ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان دیا تھا اور وہ تعلیم دی تھی جو متقیوں کے لئے روشنی اور شرف کا موجب تھی۔ پس جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زڑانہ میں بھی متقی تھے جبکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوئے تھے او رنہ قرآن کریم اترا تھا تو معلوم ہوا کہ متقی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانا دائمی شرط نہیں بلکہ ایک موقت شرط ہے جس کا وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد شروع ہوتا ہے اور ہونا بھی یہی چاہیئے کیونکہ خدا تعالیٰ کے تازہ احکام کو جو نہ مانے وہ متقی کیونکر ہو سکتا ہے۔ غرض موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے متقیوں کے لئے یہ شرط تھی کہ موسیٰ کی وحی پر ایمان لاتے ہوں حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں متیقوں کی یہ علامت تھی عیسیٰ علیہ السلام کی وحی پر ایمان لاتے ہوں اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد یہ علامت قرار پائی کہ آپ کی وحی پر ایمان لانے والے ہوں۔
وَمَاَ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ۔ پہلی آیت کو شامل کر کے پانچویں اور اس آیت میں بیان کردہ دوسری علامت متقیوں کی یہ بتائی کہ وہ ان وحیو ںپر بھی ایمان لاتے ہیں جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل ہو چکی ہیں۔ اللہ اکبر! یہ قرآن کریم کا کیسا شاندار معجزہ ہے کہ ایک امی جو اپنی زبان میں بھی پڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا او رپھر عرب قوم کا فرد جو تعصبِ قومی میں ساری دنیا سے بڑھی ہوئی تھی قرآن کریم سے حکم پا کر اعلان کرتا ہے کہ اسی کلام پر ایمان لانے سے نجات نہ حاصل ہو گی جو مجھ پر نازل ہوا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مستحق بننا چاہتے ہو تو جود حیاں مجھ سے پہلے نازل ہو چکی ہیں اُن پر بھی ایمان لائو۔ اسی کی تشریح دوسری جگہ یوں فرماتا ہے اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّاخَلَا فِیْھَا نَذِیْر (فاطر ع ۳) کوئی قوم ایسی نہیںگزری جس میں خدا تعالیٰ کا مامور نہ آیا ہو اور فرماتا ہے وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (رعد ع ۱) ہر قوم میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہادی گزرا ہے گویا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم مجمع البحرین ہی نہیں مجمع البحار ہیں جو آپؐ پر ایمان لائے اس کے لئے ضروری ہے کہ ابتدائی عراقی نبیوں آدم۔ نوح اور ابراہیم علیہم السلام پر بھی ایمان لائے اور جو آپؐ پر ایمان لائے وہ یہودی نبیوں موسیٰ، دائود، ادریس، الیاس، ذکریا اور یحییٰ پر بھی ایمان لائے اور جو آپؐ پر ایمان لائے وہ مسیحیت کے بانی عیسیٰ علیہ السلام پر بھی ایمان لائے اور جو آپؐ پر ایمان لائے وہ ہندوستان کے نبیوں کرشن اور رامچندر پر بھی ایمان لائے اور جو آپؐ پر ایمان لائے وہ ایرانی نبی زردشت پر بھی ایمان لائے۔ اس سے زیادہ روا داری اور اس سے زیادہ صداقت طلبی کا کیا ثبوت ہے۔ کوئی قومی تعصب نہیں، کوئی نسلی امتیاز نہیں صرف اور صرف صداقت اور راستی کی طلب ہے جہاں بھی ملے اس کا اقرر، جہاں بھی پوشیدہ ہو اس کا اظہار۔ آہ! دنیا یہ کس قدر قدر ناشناسی ہے کہ اسیکتاب سے سب سے زیادہ بغض اور کینہ کا اظہار کیا جاتا ہے۔ کاش دنیا میں انصاف کا مادہ ہوتا کاش لوگ قرآن کریم کے پہلے ہی رکوع کے مطالب پر غور کر کے اس کی نسبت اپنا فیصلہ صادر کرتے۔
مسیحی مصنف جن کی نطر حسن کی جگہ قبح پر پڑنے کی عادی ہو چکی ہے اس آیت کی مذکور بالا خوبی پر نظر ڈالنے اور اس کی عظمت اور خوبی تسلیم کرنے کی بجائے الٹا یہ ناجائزہ فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن کریم نے بائبل کی تصدیق کی ہے اور چنوکہ بائبل کے مضامین قرآن کریم کے خاف ہیں اس لئے قرآن کریم جھوٹا ہے نعوذ باللہ من ذالک۔ کیسے شاندار مضمون کے موقعہ پر کیسی بھونڈی بات سوجھی ہے وہ یہ نہیں سمجھتے کہ قرآن بائبل کے کسی حصہ کی تصدیق کرتا ہے۔ عہد نامہ قدیم کی کہ جس میں شریعت کو روحانیت کے لئے ضروری قرار دیا ہے یا اناجیل کے ان قصوں کی کہ جن میں یہ لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام روزے رکھا کرتے تھے (متی باب ۴ آیت او ۲) او رلکھا ہے کہ خاص قسم کے جن بغیر روزوں کے نہیں نکلتے (مرقس باب ۹ آیت ۲۹) یا حواریوں کے اقوال کی جن میں یہ لکھا ہے کہ شریعت ایک *** ہے۔ ان دو متضاد اقوال میں سے وہ کس کی تصدیق کرتا ہے؟ کاش وہ سمجھتے کہ ایک مصلح کو پہلے ادیان کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں اُسے تو صرف منبع کے بارہ میں اپنے خیال کا اظہار کر دینا کافی ہے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ143

کیا دنیا میں صلح کے قائم کرنے اور سچائی جہاں بھی ملے اس کا اقرار کرنے کے لئے یہ اصل کم قیمتی ہے کہ اس امر کا قرار کیا جائے کہ خدائے قیوم سب اہل زمین کا خدا ہے اور اس کا کلام ہر قوم پر نازل ہوتا رہا ہے اور ایک مومن صادق کو اجمالاً اس پر ایمان رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو بھی اپنی ہدایت سے محروم نہیں رکھا۔ اگر تفصیلی مصتقدات مختلف اقوام کے تسلیم کرنے صلح کے لئے ضروری ہوں تو یہ اتحاد تو خود مسیحیوں میں بھی پیدا نہیں بیسیوں فرقے ہیں جو ایک دوسرے کے عقیدے کو غلط کہتے ہیں رومن کیتھولکس کے نزدیک اناجیل کچھ کہتی ہیں اور پرائسٹنٹ کے نزدیک کچھ۔ اور اگر تصدیق کے وہی معنے ہیں جو قرآن کریم کے سر مسیحی مصنف مڑھنا چاہتے ہیں تو مسلمان کون سے عقائد کی تصدیق کرے پرائسٹنٹ عقیدہ کی یا رومن کیتھولک عقیدہ کی یا یونی ٹیرین عقیدہ کی یا گریک چرچ کی یا شامی گرجا کی؟
مسیحی مصنفوں کا استدلال اس سے باطل ہوتا ہے کہ (۱) قرآن کریم میں پہلے کلاموں پر ایمان کو بعد میں رکھا گیا ہے اگر تفصیلی ایمان مراد ہوتا توپہلے پہلی وحی کا ذکر ہوتا بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کا۔ پہلی وحی کا بعد میں ذکر کرنا بتاتا ہے کہ اس پر ایمان قرآن کریم کے توسط سے ہے یعنی اس کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق۔
(۲) وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ میں کسی قوم یا مذہب کا مخصوص ذکر نہیں بلکہ ہر قوم و ملت کے الہام کی تصدیق کی ہے اگر مسیحی اس سے بائبل کی تصدیق نکالیں تو ہندو اپنے ویدوں کی تفصیلی تصدیق نکالنے میں حق بجانب ہوں گے اور زردشتی اپنی الہامی کتب کی۔ ان سب کتب میں مسیحی اتحاد کیونکر پیدا کریں گے آخر بائبل کو دوسری کتب پر فضیلت کیوں؟
(۳) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ مِنْھُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُضَ عَلَیْکَ (مومن ع ۸) ہم نے تجھ سے پہلے جو رسول بھیجے تھے ان میں سے بعض کا ذکر ہم نے تیرے الہام میں کیا ہے اور بعض کا ذکر تک نہیں کیا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ کئی نبیاء کا ذکر تک نہیں اُن کے کلام پر مسلمان کس طرح ایمان لائیں؟ پس ظاہر ہے کہ اس جگہ اجمالی ایمان مراد ہے نہ ی تفصیلی۔
(۴) قرآن کریم میں آتا ہے فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃ (البینہ ع ۱) قرآن کریم میں تمام سابق صحیح اور غیر منسوخ تعلیم میں جمع کر دی گئی ہیں پھر فرماتا ہے وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتَابِ بِالْحَقِّ مُصَدِّ قًا لِّمَا بَیْنَ یَہَ یْہِ مِنَ الْکِتَابَ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (مائدہ ع ۷) اور ہم نے تجھ پر ایسی کتاب اتاری ہے جو تمام سچائیوں پر مشتمل ہے اور کتاب الٰہی میں سے جو کچھ بھی اس کے وقت میں موجود ہے اس کی تصدیق کرتی ہے اور اس کے مضامین کی حفاظت کرتی ہے۔ ان آیات سے ظاہر ہے کہ تصیلی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ سب پہلی غیر منسوخ اور زمانہ حال کے لئے قابل عمل تعلیمات قرآن کریم میں شامل کر دی گئی ہیں۔ پس جب سب پہلی قابل عمل تعلیمات قرآن کریم کے دعویٰ کے مطابق اس شامل ہو چکی ہیں تو پہلی کتب کی تصدیق سے مراد صرف اجمالی تصدیق ہے نہ کہ کچھ اور یہ تصدیق ویسی ہی ہے جیسے کہ مسیحی ابراہیم اور موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ نبی تھے لیکن ان کی تعلیم پر تو عمل نہیں کرتے بلکہ وہ تو اُسے * کہتے ہیں۔ قرآن کریم بھی اسی اجمالی رنگ میں اُن کی بھی اور اُن کے علاوہ دوسری اقوام کے انبیاء کی بھی تصدیق کرتا ہے مگر وُہ ان کی شریعتوں کو * قرار نہیں دیتا بلکہ وُہ ان سب راستبازوں کو اپنے اپنے وقت کے لئے رحمت الٰہی قرار دیتا ہے۔
مسیحی مصنفوں کی سمجھ میں قرآن کریم کا یہ بے نظیر نکتہ اس لئے نہیں آتا کہ وہ نبی مان کر بھی ایک شخص کو مجرم اور گنہگار قرار دینے میں دریع نہیں کرتے پس ان کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ نہ قرآن کریم کی اس تعلیم سے کہ ہر قوم کے نبیوں اور ان کے الہام کے سچا ہونے کا اقرار کرو دنیا کو یا اس کے امن کو کیا فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ وہ تو جن کو نبی سمجھتے ہیں ان پر بھی خلاف اخلاق الزام لگانے سے باز نہیں رہتے اور صرف مسیح علیہ السلام کو پاک قرار
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ144

دیتے ہیں لیکن قرآن کریم کا مسلک اور ہے وہ سب نبیوں کو پاک اور راستباز قرار دیتا ہے اس لئے جب وہ ہر قوم کے نبیوں کے الہام کو اجمالی طور پر سچا ماننے کا حکم دیتا ہے وُہ اپنے عقیدہ کے رُو سے دنیا میں امن کے قیام کا راستہ کھول دیتا ہے کیونکہ جب ایک مسلمان یہ تسلیم کر لے گا کہ خدا تعالیٰ نے کرشن اور رام چندر اور زردشت پر اپنا کلام نازل کیا تھا تو وہ قرآنی عقیدہ کے رُو سے اُن کی زندگیوں کو پاک سمجھے گا۔ اور اُن پر لگائے گئے سب الزاموں کو خواہ ماننے والو ںکی طرف سے ہوں خواہ مخالفوں کی طرف سے غلط اور بے بنیاد قرار دے گا اور ان کا احترام کرے گا اور اس طرح دنیا میں امن قائم ہو گا۔
اس اجمالی ایمان کا ایک اور بھی فائدہ ہے کہ اس طرح مسلمانو ںکے دل میں خدا تعالیٰ کی حقیقی محبت قائم کی گئی ہے کیونکہ تعصب کی وجہ سے خواہ کوئی قوم کتنا ہی یقین کرے کہ صرف ہماری ہی کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے لیکن ان خشیت اللہ کے اوقات میں جو ہر انسان پر آتے ہی رہتے ہیں اس کے دل میں ضرور یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ رب العالمین کس طرح ہو گیا جبکہ اس نے کسی ایک قوم کو اپنے الہام کے لئے چن لیا اور باقی سب اقوام کو چھوڑ دیا ہے۔ اس قرآنی عقیدہ کی بناء پر ایک مسلمان کا عقیدہ ربوبیت عالمین کے متعلق اور بھی پختہ ہو جاتا ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ خدا تعالیٰ واقعہ میں کسی ایک قوم کا خدا نہیں بلکہ سب دنیا کا حدا ہے۔
وَبِا لْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْن۔ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ اَلْاٰخِرَۃ کے معنے بعد میں آنے والی چیز کے ہوتے ہیں اسی وجہ سے بعد الموت زندگی کو حیاتِ آخرت اور قیامت کے دن کو یوم الآخرۃ کہتے ہیں اور اسی وجہ سے انجام کو بھی آخرت کہتے ہیں کیونکہ بعد میں ظاہر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں انجام کے معنو ںمیں یہ لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوّلیٰ (الضحیٰ) یعنی تُو جو کام بھی شروع کرتا ہے اس کام انجام ابتداء کی نسبت اچھا ہوتا ہے اور یہ ہر کام میں تیری کامیابی اس امر کی شہادت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضاء تیرے ساتھ ہے پس لفظی معنے وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنْوُن کے یہ ہیں کہ بعد میں آنے والی شئے پر وہ یقین رکھتے ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ بعد میں آنے والی کیا شئے ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تو اس امر کو دیکھا جائے کہ قرآن کریم میں آخرۃ کا لفظ زیادہ تر کن معنوں میں استعمال ہوا ہے تو اس کے معنے قیامت یا مابعدالموت زندگی کے ہوتے ہیں۔ مثلاً فرماتا ہے مَالَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاق (بقرہ ع ۱۲) ایسے شخص کا حصہ بعدالموت زندگی میں کوئی نہ ہو گا۔ یا فرماتا ہے بَلِ الدَّارَکَ عِلْیُمْھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ (نمل ع ۵) بعد الموت زندگی کے بارہ میں ان کا علم بعد مشاہدہ کے کامل ہو گیا۔ اسی طرح اور متعدد مقامات پر ان معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ پس اگر قرآن کریم میں اس لفظ کے استعمال کی کثرت کو دیکھا جائے تو اس جملہ کے یہ معنے ہوں گے کہ یوم آخرۃ پر ایمان لاتے ہیں (مگر بالعموم ایسے موقعہ پر خالی آخرۃ کی جگہ یوم الآخرۃ کے الفاظ آتے ہیں) لیکن اگر اس آیت کے مضمون اور اُس کے مطالب کو دیکھا جائے تو چونکہ اس جگہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانے کا ذکر ہے پھر آپ سے پہلے جو وحی نازل ہوتی رہی اس پر ایمان لانے کا ذکر ہے اس کے بعد آخرۃ پر یقین رکھنے کا ذکر ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آخرۃ سے مراد اس جگہ بعد میں آنے والی وحی ہے اور اس آیت میں تینوں وجہوں پر ایمان لانا متقی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ اس وحی پر بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل ہو چکی تھی اور اس پر بھی جو آپؐ کے بعد نازل ہو گی۔ سباق آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ معنے زیادہ چسپاں ہوتے ہیں۔
بعض مسلمان اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کا نزول کس طرح ہو سکتا ہے لیکن یہ وہم اُن کا قرآنی تعلیم کے خلاف ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طو رپر مسلمانو ںکی نسبت فرماتا ہے اِنَّ الّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلآَیِکَۃُ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ145

اِلَّا تَخَا فُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْ ابِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo(حٰم سجدہ ع ۴) یعنی جو مسلمان یہ اعلان کر کے کہ اللہ ہمارا رب ہے تمام مصائب کو برداشت کریں گے اور استقامت دکھائیں گے خدا تعالیٰ کے فرشتے ان پر یہ کہتے ہوئے نازل ہوں گے کہ نہ آئندہ کا خوف کرو اور نہ سابق پر غم کرو اور اس جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے۔ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولِٰٓکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِنَ النَّبیِّنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ والشُّھَدَآئِ والصَّالحِیْنَ وَحَسُنَ اُولِٰٓکَ رَفِیْقًاo(نساء ع ۹) یعنی جو لوگ اللہ اور رسول (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کریں گے وہ اس گروہ میں شامل ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں صدیقوں شہداء اور صالحین کے گروہ میں اور یہ گروہ ساتھیوں کے لحاظ سے سب سے بہتر گروہ ہے پس جبکہ اس اممت سے یہ وعدہ ہے کہ وہ نبیو ںاور صدیقوں اور شہداء والے انعام پائے گئی تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس امت میں وحی الٰہی کا دروازہ بند ہو اصل انعام جو نبیوں اور صدیقوں اور شہداء کو ملتا ہے وہ تو خدا تعالیٰ کی وجی ہی ہے۔
اس آیت میں اس پیشگوئی کی طرف بھی اشارہ ہے جو سورۂ جمعہ میں کی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُ مِّیّنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَ کِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمo(ع ۱) یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے اُمّیوں میں انہی کو قوم کا ایک رسول بھیجا جو اُنہیں اس کی آیات پڑھ کر سُناتا ہے اور اُنہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گو پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے اور اسی طرح وہ ان کے سوا ایک اور قوم کو سکھائے گا جو اب تک انہیں تک انہیں نہیں ملے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو احادیث میں آتا ہے کہ صحابہ نے پوچھا وہ کون لوگ ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے جو ہم سے نہیں ملے اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا لَوْکَانَ الدِّیْنُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَذَھَبَ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ اَوْ اَبْنَائِ فَارِسَ حَتٰی یَتَنَا وَلَہٗ (مسند احمد بن حنبل جلد دوم صفحہ ۳۰۹) کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چڑھ جائے تو فارس سے ایک شخص یا فرمایا ابناء فارس میں سے ایک شخص آسمان پر جا کر دین کو واپس لے آئے گا۔ اس روایت سے اور بعض اور روایا تسے کہ جن میں رَجُلٌ کی جگہ رِجَالٌ کا لفظ ہے (بخاری جلد سوم کتاب التفسیر) معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ میں ایمان دُنیا سے اُٹھ جائے گا اور ایک شخص بنو فارس سے جس کے ساتھ اور بھی بعض ابناء فارس بطور مدگار ہوں گے ایمان کو واپس لائے گا اور اس کی معرفت اللہ تعالیٰ پھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی کام کرنے کا موقع دے گا کہ جو صحابہؓ کے زمانہ میں آپؐ نے کیا یعنی وہ آپؐ کا بروز ہونے کی حیثیت سے خدا تعالیٰ کی وحی سے اصلاحِ امت کرے گا۔
غرض اس آیت کے سباق کو مدنظر رکھتے ہوئے وَبِالْاٰ خِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ کے معنے یہ ہیں کہ جس طرح متقی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان رکھتا ہے اور آپ سے پہلی وحی پر ایمان رکھتا ہے اسی طرح وہ بعد میں آنے والی وحی پر بھی یقین رکھتا ہے۔
شاید کسی کو یہ شبہ گزرے کہ پہلی دونوں وحیوں کی نسبت تو ایمان کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن آخرۃ کی نسبت یقین کا لفظ استعمال ہوا ہے پس کیوں نہ سمجھا جائے کہ اس جگہ وحی کی بجائے کسی اور چیز کا ذکر ہے ورنہ اس کے لئے بھی ایمان کا لفظ استعمال ہوتا اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ ایمان کا لفظ عام طو رپر اس شے کے متعلق استعمال ہوتا ہے جس کا وجود معرض وجود میں آ چکا ہو۔ جس کا وجود معرضِ وجود میں نہ آیا ہو بلکہ آئندہ آنے والا ہو اس کی نسبت یقین کا لفظ ہی زیادہ مناسب ہوتا
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ146

ہے۔ اگر کہا جائے کہ حیٰوۃ بعد الموت کے متعلق بھی تو ایمان کا لفظ آتا ہے حالانکہ وہ بعد میں آنے والی شے ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حیٰوۃ بعد الموت بیشک ایک زندہ شخص کے لئے تو بعد میں آنے والی شے ہے مگر اس کا وجود اس وقت بھی موجود ہے اور جو لوگ مر چکے ہیں وہ معاً ایک قسم کی زندگی پا رہے ہیں پس یہ خدائی فعل پہلے بھی ظاہر ہوتا رہا ہے اب بھی ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا پس حیٰوۃ بعد الموت در حقیقت ایک اسی چیز ہے جو ہر وقت ہو رہی ہے اس لئے اس کی نسبت ایمان کا لفظ ہی زیادہ مناسب ہے مگر جو وحی آئندہ نازل ہونے والی ہو اس کی نسبت یقین کا لفظ زیادہ مناسب ہے۔
اگر پہلی وحیوں کی نسبت سے وحی کا ذکر نہ کیا جائے بلکہ صرف یہ کہا جائے کہ مومن اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ وحی خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہے تو اس موقعہ پر چونکہ مخصوص طو رپر آئندہ وحی کا ذکر نہ ہو گا اس کے لئے ایمان کا لفظ زیادہ مناسب ہو گا۔
اصل بات یہ ہے کہ وحی الٰہی ہر شخص پر نہیں اُترتی بلکہ بعض ترقی یافتہ اور مقرب وجودوں پر اُترتی ہے اور قومی لحاظ سے متقیوں کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اس امر پر یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ان کو بھلائے گا نہیں بلکہ ان میں سے کامل وجودوں پر وحی نازل ہوتی رہے گی اور اس طرح ہر مسلمان کے دل میں یہ خواہش پیدا کی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسا اعلیٰ درجہ کا متقی بنائے کہ اس پر خدا تعالیٰ کی وحی نازل ہو اور اس طرح اعلیٰ امید پیدا کر کے اور اعلیٰ مقصد کو سامنے لا کر مسلمانوں کا ملح نظر اونچا کر دیا گیا ہے۔
افسوس کہ مسلمانوں نے اس عظیم الشان احسان کو نہ سمجھااور خود اپنے مستقبل کو تاریک بنا لیا آج کیوں مسلمان اسلام سے دُور جا رہے ہیں اور کیوں گزشتہ صدی میں ان میں حسن بصری۔ سید عبدالقادر جیلانی۔ جنید بغدادی۔ معین الدین چشتی۔ شہاب الدین سہروردی۔ محی الدین ابن عربی۔ سید احمد سرہندی اور شاہ ولی اللہ رحم اللہ علیہم جیسے لوگ پیدا نہیں ہوئے؟ اسی وجہ سے کہ اعلیٰ روحانی مقامات کے حصول کے لئے جس امید اور یقین کی ضرورت ہے وہ ان میں نہیں رہی خدا تعالیٰ نے اس ولولہ اور جوش کے پیدا کرنے کے لئے ان سے اعلیٰ روحانی انعامات کا وعدہ کیا تھا اور اس پر یقین رکھنے کے لئے قرآن کریم کے شروع میں ہی انہیں حکم دیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس کی قدر نہ کی اور ان کی اہمیں پست ہو گئیں اور کوششیں سست ہو گئیں آج مسلمان تعلیم حاصل کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ایم اے بی ایے ہو کر انہیں نوکریاں مل جائینگی۔ تجارت کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اس سے مال ملے گا۔ زراعت کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اس غلہ اور پھل حاصل ہو گا۔ لیکن نماز اور روزہ اور حج میں وہ جوش نہیں جو اُمید سے پُر دل کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان امور کا بجالانا صرف فرض کی ادائیگی ہے اس کے رُوحانی نتائج کوئی پیدا نہ ہونگے۔
کس قدر حسرت کا مقام ہے کہ مسلمانو ںمیں سے جس نے اس دروازہ کو کھلا بتایا۔ مسلمانوں نے اس پر کفر کا فتویٰ لگا یا انہوں نے کہا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہے کیونکہ وہ آپؐ کے بعد وحی کا دروازہ کھلا بتاتا ہے اور یہ نہ سمجھا کہ وحی کیا ہے؟ وحی کے معنے ہیں خدا تعالیٰ کے تازہ کلام کا سننا اور جو شخص خدا تعالیٰ کے تازہ کلام کو سنے گا ظاہر ہے کہ اس کا دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ترقی کرے گا اور آپؐ پر اس کا ایمان بڑھے گا نہ یہ کہ اس کے برعکس ہو گا۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور چلا جائے نعوذ باللہ من ذالک۔
خلاصہ کلام یہ کہ آخرۃ پر یقین کی تعلیم مسلمانوں کے حوصلے بڑھانے اور روحانی میدان میں ان کی کوششوں کو تیز کرنے کے لئے تھی اور جو مسلمان بھی آخرۃ پر یقین رکھے گا وہ اس کے حصول کے لئے اسی طرح کوشش کرے گا جس طرح صحابہ کرام نے کی اور سید عبدالقادر جیلانی ؒ اور محی الدین ابن عربی وغیر ہم نے کی۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ147

بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وحی مذکر ہے اور آخرۃ مؤنث کا صیغہ ہے پھر اس سے وحی کی طرف کس طرح اشارہ ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہاس جگہ وحی کا لفظ نہیں مَا اُنْزِلَ کے الفاظ ہیں اور ان کی تغیر کسی ہم معنے لفظ سے کی جا سکتی ہے قرآن کریم میں مَا اُنْزِلَ کے لفظ سے بھی۔ چنانچہ سورۂ احزاب میں ہے اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسَالٰتِ اللّٰہِ وَیَخْشَوْنَہٗ وَلَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہ (ع ۵) یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی وحی لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے غرض رسالت کا لفظ بھی وحی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور یہ لفظ مونث ہے پس آخرت کے معنے الرِّسَالَۃُ الْاٰخِرۃُ کے ہیں اور رسالۃ کے لفظ کی رعایت سے اخرۃ کا لفظ مونث آیا ہے یاد رہے کہ *** میں بھی وحی کے معنے رسالت کے آتے ہیں۔ (تاج العروس)
اس جگہ یہ امر بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اوپر کی دونو آیتو ںکی ابتدا یُؤْمِنُوْنَ کے الفاظ سے ہوئی ہے اور بعد میں دو امور دونوں آیتوں میں بیان ہوئے ہیں اس سے استدلال ہوتا ہے کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے تابع اقامۃ الصَّلٰوۃ اور انفاق مارَزَقَ اللہ ہیں اور یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلیٰ مُحمدٍؐ کے تابع بِمَا اُنْزِلَ مِنْ قِبْلِہٖ پر ایمان اور اخرۃ پر یقین ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانہ میں قرآن کریم ہی کے ذریعہ سے اس سے پہلے کی وحیوں پر ایمان اور آحرۃ پر یقین پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے انبیاء کے حالات ایسے مشتبہ کر دئے گئی ہیں کہ قرآن کریم کی روشنی میں ہی ان کی قدر اور صداقت معلوم ہو سکتی ہے اور آئندہ وحی کے نزول کے متعلق بھی قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہی یقین ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے سوالوں قدرادیان ہیں سب نے وحی کا دروازہ بند کر رکھا ہے اور کوئی مذہب اس امر کا معی نہیں کہ اسے مانکر خدا تعالیٰ کی وحی اب بھی بندہ پر نازل ہو سکتی ہے۔

۶؎ حل لغات

عَلیٰ۔ علیٰ حرف جر ہے اور اس کے نو معنے ہیں جن میں سے ایک معنے استعلاء کے ہیں یعنی غالب ہونے یا اوپر آ جانے کے (مغنی)
ھُدًی۔ کے لئے دیکھو سورۃ فاتحہ حل لغات ۷؎ و سورۂ بقرہ حل لغات ۳؎
رَبّھمْ:۔ رَبّ کے معنوں کے لئے دیکھو سورۃ فاتحہ حل لغات ۳؎
اَلْمُفْلِحُوْنَ:۔ اَفْلَحْ سے اسم فاعل مُفْلِحٌ آتا ہے اور مُفْلِحُوْنَ اس سے جمع کا صیغہ ہے اَفْلَحَ الرَّجُلُ کے معنی ہیں فَارَوَظَفِرَ بِمَا طَلَبَ یعنی اپنے اردادے میں کامیاب ہو گیا اور مقصود کو پا لیا۔ اَفْلَحَ زَیْدٌ۔ نَجَعَ فِی سَعْیِہٖ وَاَصَابَ فِیْ عَمَلِہِ۔ زید نے اپنی کوشش کے پھل کو پا لیا اور اس کی محنت بار آور ہوئی۔ (اقرب) اَلْفَلَاحُ اَلظَّفَرُ وَاِدْرَاکُ بُغْیَۃٍ۔ فلاع کے معنے کسی کام میں کامیابی اور مقصود کو پالینے کے ہیں (مفردات) تاج العروس میں ہے یُقَالُ لِکُلِّ مَنْ اَصَابَ خَیْرًا۔ مُفْلِحٌ۔ ہر اس شخص جو کسی دنیوی یا دینی بھلائی کو حاصل کر مُفْلح کہتے ہیں اور فلاں ایسی کامیابی کو کہتے ہیں جس پر دوسرے رشک کریں۔ اَئمہ عرب کا اس پر اتفاق ہے کہ عربی زبان میں فلاح کے لفظ سے بڑھ کر دینی اور دنیوی دونوں بھلائیوں کو شامل رکھنے والا لفظ اور کوئی نہیں۔ پس مُفْلِحُوْنَ کے معنے ہونگے اپنے مطالب میں کامیاب ہونے اور اپنے مقصود کو حاصل کر لینے والے۔
تفسیر۔ اس آیت میں اس قسم کے متقی کا انمام بتایا ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے پہلے تو یہ بتایا تھا کہ قرآن کریم اس قسم کے متقی کو ہدایت کے اعلیٰ مقامات تک پہنچاتا ہے اس
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ148

آیت میں اس ہدایت کی نوعیت کو ظاہر کے لئے فرماتا ہے کہ اوپر کے بیان کردہ شرائط کے ماتحت جو متقی ہوں ’’وہ اپنے رب کی ہدایت پر ہوتے ہیں۔‘‘
تفصیل اس مضمون کی یہ ہے کہ ایک تو اس آیت میں مِنْ رَّبِّھِمْ کے الفاظ استعمال کر کے یہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ چونکہ رب ہے اور رب اسے کہتے ہیں جو بتدریج ترقی کی طرف لے جائے اس لئے جو شخص خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے اس کا قدم بتدریج آگے کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے دوسرے رب کو ھُمْ کی طرف مضاف کر کے یہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ چونکہ ان کا رب ہے اس لئے اصل منشاء اس کا یہ ہے کہ لوگ ہدایت پائیں نہ یہ کہ گمراہ ہوں پس جو شخص ہدایت کی طرف توجہ کرے اسے ضرور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی طرف توجہ کرے اسے ضرور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے سامان میس رہوتے ہیں۔ تیسرے عَلیٰ ھُدًی کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ گویا ایسے متقیوں کے لئے ہدایت ایک سواری کی طرح ہو جاتی ہے جس کی پیٹھ پر وہ سوار ہوتے ہیں اور یہ سواری ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اور جب کسی کی طرف سے سواری آئے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس شخص کو ملاقات کے لئے بلایا گیا ہے۔ پس اس عبادت سے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ہدایت انہیں اللہ تعالیٰ سے مل جاتے ہیں۔
ہدایت کے لئے سواری کا محاورہ کوئی ذوقی لطیفہ نہیں بلکہ عربی میں اس قسم کا محاورہ عام مستعمل ہے چنانچہ عرب لوگ کہتے ہیں جَعَلَ الْغَوَایَۃَ مَرْکَبًا فلا ںشخص نے تو گمراہی کو اپنی سواری بنا لیا ہے یعنی وہ جس طرف رُخ کرتا ہے گمراہی کی راہ سے کرتا ہے اسی طرح کہتے اِمْتَطَی الْجَھْلَ فلاں شخص جہالت پر سوار ہو گیا ہے اسی محاوہر کے مقابل پر قرآن کہتا ہے کہ اوپر کی صفات والے متقیوں کی سواری ہدایت ہو جاتی ہے یعنی وہ ہر کام خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت کرتے ہیں جہالت اور گمراہی سے ان کے افعال پاک ہو جاتے ہیں او رایسا شخص جو ہر وقت ہدایت پر رہے وہی ہو سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی اور الہام سے ہدایت ملتی رہے ورنہ جو شخص محفل عقل سے کام لیتا ہے وہ بسا اوقات غلطی میں پڑ جاتا ہے۔ عَلیٰ ھُدًی فرما کر اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف جانے کا عمل ان کے لئے آسان ہو جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت سواری کی طرح ان کے سفر کو ہلکا کر دیتی ہے۔
عَلیٰ ھُدًی میں جو ھُدًی پر تنوین ہے یہ تعظیم کے لئے ہے یعنی یہ ہدایت بہت بڑا مرتبہ رکھتی ہے۔
وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ مُفْلِحُون کے معنے حل لغات میں بتائے جا چکے ہیں کہ اپنی مُراد کو پالینے کے ہوتے ہیں پس اس جملہ کے یہ معنے ہوئے کہ یہ لوگ اپنی مراد کو پا لیتے ہیں اور مومن کی مراد اپنے رب کا قرب اور اس سے وصال ہوتا ہے پس اس جملہ میں پہلے جملہ کے مضمون کا انجام بتایا ہے کہ ایسے متیقی ہدایت کی سواری پر چڑھ کر آخر خدا تعالیٰ تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی مراد کو پا لیتے ہیں۔
بعض لوگ اس جگہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ کئی خدا تعالیٰ کے مقرب اور اس زندگی میں تکلیفیں اٹھاتے ہیں اور بعض مارے جاتے ہیں تو پھر کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ لوگ ضرور کامیاب ہوتے اس کا جواب یہ ہے کہ مُفْلِح کے معنے اپنی مراد پا لینے کے ہیں نہ کہ دنیوی ترقیات یا جسمانی راحت کے۔ اس میں شک نہیں کہ بالعموم خدا تعالیٰ کے مقربوں کو دنیوی کامیابی بھی ہوتی ہے۔ مگر وہ ایک ضمنی شے ہے مقصود نہیں ہے خدا رسیدہ لوگوں کی مُراد تو خدا تعالیٰ کا قُرب اور اس کی بھیجی ہوئی سچائی کی اشاعت ہے۔ سو اس میں کبھی کوئی خدا رسیدہ ناکام نہیں ہوا۔ مسیح علیہ السلام کو یہود نے پھانسی پر تو لٹکا دیا مگر کیا وہ مسیح کے مشن کو ناکام کر سکے؟ اپنے مقصد میں تو مسیح علیہ السلام ہی کامیاب ہوئے۔ حضرت امام حسین یزید کے مقابلہ پر شہید ہوئے مگر کیا یزید کا نام بھی اب کوئی لیتا ہے۔ جس مقصد کے لئے امام حسین کھڑے ہوئے آخر وہی کامیاب ہوا اور دنیا
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ149

نے اسلامی نظام کی اسی تشریح کو قبول کیا جس کے لئے حضرت امام حسینؓ کھڑے ہوئے تھے۔ یزید کے مقصد کی تو آج ایک مسلمان بھی تائید نہیں کرتا۔ مُفْلِحْ کے لفظ سے مراد کو پا لینے کا وعدہ ہے نہ یہ کہ وہ اپنے دشمن کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہو سکتے عاجل طور پر وہ ہلاک بھی ہو جائیں تب بھی فتح آخر انہی کے مقصد کو حاصل ہوتی ہے اگر حضرت امام حسینؓ کربلا کے میدان میں جان نہ دیتے تو مسلمانوں کو شاید اسلامی نظام کی اہمیت کا اس قدر احساس نہ ہوتا جس قدر کہ اُن کی شہادت کی وجہ سے ہوا۔ اس شہادت نے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی تعلیم کے احیاء کے لئے گویا ایک آگ لگا دی اور اسلام کے علماء نے اس تعلیم کو ہمیشہ کیلئے روشن کر دیا۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں جو دعا بندہ سے منگوائی گئی تھی وہ قرآن کریم کی مدد سے پوری ہو جاتی ہے او راس کے بتائے ہوئے تقویٰ کے طریق پر چل کر انسان خدا تعالیٰ کو حقیقتاً پا لیتا ہے صرف دعا تک ہی اس کی کوشش ختم نہیں ہو جاتی۔

۷؎ حل لغات۔

کَفَرُوْا:۔ کَفَرَ سے جمع کا صیغہ ہے۔ اور کَفَرَ الرَّجُلُ (یَکْفُرُ کُفْرًا) کے معنے ہیں ضِدُّ اٰمَنَ کسی چیز کا انکار کیا۔ کَفَرَ نِعْمَۃَ اللّٰہِ وَبِنِعْمَتِہ جَحَدَھَا و سَتَرَھَا۔ اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا اور نا شکری کی (اقرب) اَلْکُفْرُ فِی اللُّغَۃِ سَتْرُا لشَّیْیِٔ۔ کفر کے لغوی معنے کسی چیر کو ڈھانپنے کے ہیں۔ وَکُفْرٌ بِنِعْمَۃٍ وَکُفْرَا نُھَا سَتْرُ ھَا بِتَرْکَ اَدَائِ الشُّکْرِ۔ او رکفر ان نعمت کے معنے ہیں نعمت کا شکر ادا نہ کیا۔ وَلَمَّا کَانَ الْکُفْرُاَنْ یَقْتَضِییَ حُجَوْدَ النِّعْمَۃِ مَارَیُسْتَعْمَلُ فِی الْجُحُوْدِ۔ اور کفر انِ نعمت میں نعمت کا شکریہ ادا نہ کرنا ایک طر پر اس نعمت کا انکار تھا اس لئے کفر کا لفظ صرف انکار کے معنے میں مستعمل ہونے لگا وَالْکَافِرْ عَلَی الِاْ طْلَاقِ مُتَعارِفٌ فِیْمَنْ یَجْحَدُ الْوَاحْدَ نِیَّۃَ اَوِ النُّبُوُّۃَ اَوِ الشَّرِیْعَۃَ اَوْ ثَلَاثَھَا اور کافر لفظ جب اکیلا استعمال ہو تو اس کے معروف معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا آنحضرتؐ کی نبوۃ اور شریعت یا ان تینوں کا منکر ہو (مفردات) پس کَفَرُوْا کے معنے ہونگے جنہوں نے انکار کیا۔ کفر کیا۔ حق پوشی کی۔ یا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا یا آنحضرت صلعم کی نبوت کا یا شریعت کا یا ان تینوں کا انکار کیا۔
ئَ اَنْذَرْتَھُمْ۔ أ ھمزہ ہے جو استفہام کے معنے بھی دیتا ہے یعنی سوال کے۔ اور کبھی ان معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے کہ فعل پر آ کر اُسے مصدر کے معنے دیدیتا ہے اس وقت اس کے معنو ں میں استفہام کا مفہوم باقی نہیں رہتا۔
اَنْذَرْتَھُمْ: اَنْذَرْتَ۔ اَنْذَرَ سے مفرد مخاطب کا صیغہ ہے اور اس کا مصدر انذار ہے۔ کہتے ہیں اَنْذَرَہٗ بِالْاَمْرِ: اَعْلَمَہٗ وَحَذَّرَہٗ مِنْ عَوَاقِبِہٖ قَبْلَ حَلُولِہٖ یعنی کسی امر کی حقیقت سے اُسے آگاہ کیا۔ اور اس امرکے نتائج ظاہر ہونے سے پہلے اُسے ہوشیار کر دیا۔ نیز کہتے ہیں۔ اَنْذَرَہٗ: خَوَّفَہٗ فِیْ اِبْلَاغِہِ یُقَالُ اَنْذَرْتَ الْقَوْمَ سَیْرَ العَدُوِّ اِلَیْھِمْ فَنَذَرُوْا یعنی اَنْذَرَہٗ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خبر پہنچاتے ہوئے خوب ہوشیار کیا۔ چنانچہ جب کہتے ہیں اَنْذَرْتَ الْقَوْمَ سَیْرَ الْعَدُدِّ تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ میں نے قوم کو دشمن کی پیش قدمی سے خوب ہوشیار کیا
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ150

اس کا فعل لازم یا مطادع نَذَرَ ہے۔ جس کے معنے ہیں وُہ ہوشیار ہو گیا (اقرب)
یُؤْمِنُوْنَ: کے لئے دیکھو حل لعات ۴؎
تفسیر۔ پہلی آیات میں ان لوگوں کا حال بتایا تھا۔ جو قرآن کریم پر عمل کریں گے۔ اور بتایا تھا کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر لیں گے اور ادنیٰ ہدایت سے اعلیٰ ہدایت کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے حتٰی کہ ان کا تعلق ہدایت سے دائمی ہو جائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص روشنی حال کر کے اپنے روحانی سفر کو کامیابی کے طرف سے خاص روشنی حاصل کر کے اپنے روحانی سفر کو کامیابی کے ساتھ طے کر لیں گے اس کے بعد اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر فرماتا ہے جو قرآن کریم کی تعلیم سنکر اس سے اعراض کرتے ہیں اور اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے بلکہ اس کے انکار پر باوجود ہر قسم کے دلائل مہیا ہونے کے مصر ہوتے ہیں۔ ان کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو باوجود دلائل کے مہیا ہو جانے کے صداقت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہوتا کیونکہ ایمان اُسی کو نصیب ہو سکتا ہے کہ جو دلائل و براہین سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے (دیکھو یونس ع آیت ۳۳۔ الاعراف ع ۳ آیت ۳۰ النحل ع ۵ آیت ۳۷۔ یٰس عٰ آیت ۸ تا ۱۱۔ ان آیات میں بھی اسی آیت کے مضمون کی تشریح ہے)
اس آیت سے یہ مراد نہیں کہ کفار میں سے آئندہ کوئی ایمان نہ لائے گا کیونکہ واقعات اس امر پر شاہد ہیں کہ اس آیت کے بعد کثرت سے کفار ایمان لائے بلکہ اس آیت کے بعد سورۂ نصر نازل ہوئی جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَا جًا یعنی جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نصرت اور فتح آئے گی اور تو دیکھے گا کہ لوگ دین الٰہی میں فوج در فوج داخل ہوں گے۔ پس جبکہ سورۂ بقرہ کی اس آیت کے نزول کے کئی سال بعد قرآن کریم میں فوج در فوج لوگوں کے اسلام میں داخل ہونے کی خبر دی گئی ہے تو اس آیت کے یہ معنے کسی طرح درست نہیں ہو سکتے کہ اس میں کفار کے مسلمان نہ ہونے کی خبر دی گئی ہے۔
یہ شبہ کہ شاید اس آیت میں اس امر کا ذکر ہے کہ آئندہ کوئی کافر ایمان نہ لائے گا اس آیت کے معنوں پر غور نہ کرنے سے پیدا ہوا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت سے کھینچ تان کر بھی یہ معنے نہیں نکالے جا سکتے کہ کافر ایمان نہیں لاتے۔ اس آیت میں تو یہ ذکر ہے کہ جن کفار کے لئے ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہو وہ ایمان نہیں لاتے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ نہ رہر کافر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے لئے ڈرانا یا نہ ڈرانا برارب ہو اور نہ ہر کافر ہدایت سے محروم ہوتاہے۔
کافر منکر کا نام ہے اور جب ایسے لوگوں کے سامنے صداقت آئے گی جو اس سے واقف نہیں اور اس کے دلائل ابھی ان کے ذہن نشین نہیں ہوئے تو وہ اس وقت تک اس کا انکار کرنے پر مجبور ہوں گے۔ لیکن ان میں سے ہر شخص وہ نہ ہو گا جو باوجود صداقت کے روشن ہو جانے کے اس منکر ہو گا اور نہ ہر شخص ایسا ہو گا جس کی دماعی قابلیت کے لحاظ سے پہلے ہی دن اس پر صداقت روشن ہو سکے گی۔ پس ہر ایسا شخص اس آیت کے مصداقوں میں سے نہ ہو گا۔ اس کا مصداق وہی ہو گا جو باوجود صداقت کھل جانے کے اس کا انکار کرے گا یا اس کوشش میں لگا رہے گا کہ مجھ پر صداقت کھلے ہی نہ۔ اور ظاہر ہے کہ ان دونوں صفات والا شخص جب تک اپنی اس حالت کو نہ بدلے ایمان نہیں لا سکتا۔
اصل بات یہ ہے کہ اس آیت میں یہ ذکر نہیں کہ کفار ہدایت نہیں پائیں گے بلکہ یہ ذکر ہے کہ یہ قرآن کافروں کو ہدایت دے گا سوائے اُن کے جو صداقت کے کھل جانے کے باوجود اس کا انکار کریں یا صداقت کے کھلنے کے راستوں کو اپنے اوپر بند کرنے کی کوشش میں لگے رہیں۔
یہ شبہ جو اوپر بیان ہوا اس بات سے پیدا ہوا ہے کہ سَوَٓائٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرَ تَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْ ھُمْ کو ماضی میں سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ اس کے معنے ماضی کے ہو ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ اگر ان الفاظ کے معنے ماضی کے کئے جائیں تو ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کے لئے برابر ہے کیا تو نے انہیں ڈرایا یا نہ ڈرایا۔ ایک ادنیٰ تاتل سے یہ امر سمجھ میں آ سکتا ہے کہ یہ فقرہ
 
Top