ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
بے معنے ہے۔ اس صورت میں تو استفہام کی کوئی ضرورت نہ تھی یہ کہنا چاہیئے تھا کہ اُن کے لئے یہ امر یکساں رہا ہے کہ تو نے انہیں ڈرایا یا انہیں نہ ڈرایا۔ استفہام کا طریق اختیار کرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہاںکسی واقعہ کا ذکر مراد نہیں بلکہ بعض کفار کی حالت کا اظہار مراد ہے۔ علاوہ ازیں جیسا کہ بتایا جا چکا ہے یہ معنے قرآن کریم کی دوسری آیات کے بھی خلاف ہیں۔
ان غلط معنوں کے کرنے والوں کو یہ بات معلوم نہ تھی کہ عربی زبان میں ایسے موقعہ پر ہمزہ استفہام کے لئے نہیں بلکہ مصدر کے مشابہ معنے دینے کے لئے آتا ہے اور سَوَٓائٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْ تَھُمْ اَمْر لَمْ تُنْذِرْ ھُمْ کے معنے یہ ہیں کہ تیرا ان کو ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر رہا ہے۔ پس یہ جملہ معترضہ ہے اور تاکید کے لئے یا پہلے مضمون سے جو غلطی لگتی ہو اُسے دُور کرنے کے لئے آتا ہے اور حال اور صفت کے معنوں کے مشابہ معنے دیتا ہے۔ اور مراد یہ ہے کہ وہ کافر جن کا حال یہ ہے یا جن کی یہ صفت ہے کہ تیرا اُن کو ڈرانا یا نہ ڈرانا اُنکے لوے برابر ہے وہ ایمان نہ لائیں گے۔ یعنی جو کافر دلائل پر کان ہی نہیں دھرتے وہ ہدایت نہیں پا سکیں گے۔ چنانچہ امام سیبویہ جونحو کے سب سے بڑے عالم ہیں لکھتے ہیں کہ اس مقام پر استفہام یعنی سوال کے معنے بالکل نظر اندار کر دئے جاتے ہیں۔ (کشاف زیر آیت اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُ وْاسَوَٓائٌ عَلَیْہِمْ) اقرب الموار و جو لغت کی مشہو رکتاب ہے اس میں لکھا ہے وَتَخْرُجُ الْھَمْزَۃُ عَنْ حَقیْقَۃِ الْاِ سْتَفْھَامِ فَتَرِدُ لِثَمَانِیۃِ مَعَانٍ یعنی کبھی ہمزہ استفہام کے معنوں سے بالکل خالی ہوتا ہے اور اس صورت میں اس کے آٹھ معنے عربی زبان میں ہوتے ہیں۔ پھر لکھا ہے اَلاَوَّلَ التَّسْوِیَۃُ نَحوَمَا اُبَالِی اَقْمْتَ اَمرْ قَعَدْتَ وَضَابِطَتُہَا اَنَّھَا تَّدْخُلُ عَلیٰ جُمْلَۃٍ یَصِحُ اِسْتِبْدَ الُھَا بِالْمَصْدَ رِوَ ھِیَ تَقَعُ بَعْدَ سَوَائٍ وَمَا اُبَالیِ وَلَیْتَ شِعْرِی وَمَا شَا کَلَھُنَّ۔ یعنی پہلے معنے اس کے برابر ہونے کے ہوتے ہیں جیسے کہ یہ فقرہ کہ مجھے تیرے کھڑے رہنے یا بیٹھ جانے کی پرواہ نہیں۔ او راس کا قاعدہ یہ ہے کہ یہ ہے کہ یہ ایسے جملہ پر داخل ہوتا ہے جس کی جگہ مصدر کا رکھناجائز ہوتا ہے اور اس موقعہ پر یہ سواء کے لفظ کے بعد استعمال ہوتا ہے یا مَا اُبالی یا لَیْتَ شعری یا ان کے ہم معنی دوسرے الفاظ کے بعد استعمال ہوتا ہے۔ اس آیت میں بھی یہ سواء کے بعد استعمال ہوا ہے۔ پس اس کے معنے مصدر کے معنوں سے صحیح طو رپر ادا ہوتے ہیں اور سوال کے معنے اس میں ہر گر جائز نہیں بلکہ صرف یہ معنے ہیں کہ سَوَائٌ اِنْذَارُکَ لَھُمْ وَعَدَمُ اِنْذَارُکَ لَھُم یعنی جن کافروں کے لئے تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے وہ ایمان نہ لائیں گے۔
جو معنے میں نے اوپر بیان کئے ہیں ان کے رُو سے لَایُؤْمِنُوْنَ اِنَّ کی خبر ہے یعنی ایسے کافر ایمان نہیں لائیں گے۔ لیکن بعض مفسرین نے سَوَائٌ صَلَیْھِمْ کو پہلی خبر اور لَایُؤْمِنُوْنَ کو دوسری خبر بتایا ہے مگر میرے نزدیک گونحواً یہ درست ہے لیکن معناً درست نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں معنے یہ ہوتے ہیں کہ کافروں پر تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے اور وہ ایمان نہ لائیں گے۔ اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ معنے سورہ نعرے مضمون کے خلاف ہیں جس میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ کفار … کے ساتھ ایمان لائیں گے۔
مذکورہ بالا تشریح کے مطابق اس آیت کے معنے مندرجہ ذیل طریقوں میں سے کسی ایک طریق پر کئے جا سکتے ہیں (۱) کافر در آنحالیکہ تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا ان کے لئے برابر ہے ایمان نہیں لائیں گے یعنی جب تک یہ اپنے اس عناد ک دُور نہ کریں وہ ہدایت نہیں پا سکتے (۲) وہ کافر جن کے لئے تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے ایمان نہیں لائیں گے یعنی ایسے لو جو انذار کا محل نہیں ہیں انہیں خدا تعالیٰ کا خوف دلانے کا فائدہ نہیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ یعنی کافر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو کوئی نہ کوئی مذہب رکھتے ہیں خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں‘ حشر و نشر کو مانتے ہیں اُن کے سامنے جب صداقت پیش کی جائے اور خشیت اللہ کی طرف توجہ دلائی جائے تو ان کے دلوں میں ایک قسم کا تقویٰ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ غور کی طرف مائل ہو جاتے ہیں
اور اگر صداقت کھل جائے تو اُسے مان بھی لیتے ہیں لیکن ایسے کافر نہ خدا کو مانیں اور نہ حشر و نشر کو انہیں خشیت اللہ کی طرف توجہ دلانے کا فائدہ نہیں۔ وہ تو خدا تعالیٰ کے نام پر بھی ہنسی اڑاتے ہیں۔ اُن کے لئے تو پہلے خدا پر ایمان اور حشر و نشر پر۔ ایمان لانے کے دلائل بیان کرنے چاہئیں تب جا کر وہ نبی کی لائی ہوئی صداقت کی طرف توجہ کرینگے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کے بعد ہی خشیت پیدا ہوتی ہے اور تبھی خشیت اللہ کی طرف توجہ دلانا ایمان کا موجب ہو سکتا ہے (۳) تیسرے معنے اس آیت کے یہ ہو سکتے ہیں کہ وہ کافر جن کیلئے تیرا ڈرنا یا نہ ڈرانا برابر ہے یعنی وہ سننا ہی نہیں چاہتے تو انہیں وعظ کرے یا نہ کرے اُن کے لئے یکساں ہے کیونکہ انہوں نے تو اسے سننا ہی نہیں ایسے لوگ بھی ایمان نہیں لا سکتے اور ایمان نہیں لائیں گے۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے کم سے کم یہ تو معلوم ہوا کہ ایک طبقہ انسانوں کا ایسا ہے جو ایمان سے محروم ہے لیکن یہ اعتراض غلط فہمی پر مبنی ہے کیونکہ کسی حالت کا نتیجہ بتانے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ حالت بھی نہیں بدل سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس شخص کے لئے ڈرانا یا نہ ڈرانا برارب ہو وہ ایمان نہیں لا سکتا لیکن اس حالت کا ہمیشہ رہنا تو ضروری نہیں۔ بڑے بڑے ضدی شخص کبھی اپنی ضد کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس وقت اُن کے لئے ہدایت کا رستہ کھل جاتا ہے۔ خود حضرت عمرؓ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرے خلیفہ ہوئے اُن کے متعلق تاریخو ںمیں آتا ہے کہ قرآن کا خود سننا تو الگ رہا وہ دوسروں کو بھی سننے نہ دیتے تھے۔ لیکن ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ قرآن کریم سننے پر اپنے بہنوئی کو مارنے لگے او ربہن درمیان میں آ گئی اور اُسے چوٹ آ گئی چونکہ شریف آدمی تھے عور ت کو زخمی دیکھ کر مذامت پیدا ہوئی اور اس ندامت کی وجہ سے کہا کہ اچھا مجھے دکھائو تم کیا پڑھ رہے تھے۔ اس کے بعد قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھا اور فوراً ایمان لے آئے (سیرت ابن ہشام) پس یہ حالت ایمان سے بے شک محروم کر دیتی ہے مگر یہ حالت بدل بھی جاتی ہے اور اس وقت انسان کے لئے ایمان نصیب ہونے کا راستہ کھل جاتا ہے
۸؎ حل لغات۔
خَتَمَ:۔خَتَمَ خَتْماً وَخِتَامًا کے معنے ہیں طَبَعَہٗ وَوَضَعَ عَلَیْہِ الْخَاتَمَ مہر لگائی۔ خَتَمَ الصَکَّ وَغَیْرَہٗ: وَضَعَ عَلَیْہِ نَقْشَ خَاتَمِہٖ حَتّٰی لَایَجْرِیَ عَلَیْہِ التَّزْوِیْرُ۔ کسی تحریر مہر لگا دی تاکہ جعلی ہونے کا امکان باقی نہ رہے (اقرب) کلیات ابی البقاء میں ہے خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قَلْبِہِ: جَعَلَہٗ حَیْثُ لَایَفْھَم شَیئًا وَّلَا یَخْرُجُ عَنْہُ شَیْئًا یعنی خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قَلْبِہٰ جب بولا جائے ت واس کے یہ معنے ہوں گے کہے اس کے دل کو ایسا بنا دیا کہ وہ کوئی بات نہیں سمجھ سکتا اور نہ اپنی بات سمجھا سکتا ہے۔ مفردات میں ہے اَلْخَتْمُ وَالطَّبْعُ عَلیٰ وَجْھَیْنِ مَصْدَرُ خَتَمْتُ وَطَبَعْتُ رَھُوَتَاثیْرُ الشَّیْ کَنَقْشِ الْخَاتَمِ والطَّابَعِ۔ کہ لفظ ختم اور طبع دو طرح استعمال ہوتا ہے (۱) مصدر معنوں میں یعنی کسی چیز پر کس چیز کا مہر کی طرح کا نقش کر دینا۔ وَالثَّانِی الْاَثَرُ الْحَاصِلُ عَن النَّقْشِ۔ (۲) اس نقش سے جو اثر حاصل ہوتا ہے یعنی جو مہر لگتی ہے اُس پر
بھی ختم کا لفظ اطلاق پاتا ہے۔ وَیُتَجَوَّزُ بِذَ الِکَ تَارَۃً فِی الْاِ سْتِّیْثَاقِ مِنَ الشَّیْ ئِ وَالْمَنْعِ مِنْہُ اِعْتبَارًا بِمَایِحَصُلُ مِنَ الْمَنْعِ بِالْخَتْم عَلی الْکُتُبِ وَالْاَ تَوابِ او رکبھی کبھی کسی امر سے رُکنے کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ معنے اس بات پر اعتبار کرتے ہوئے کئے گئے ہیں کہ جب کتابوں کو یا ابواب کو لکھنے کے بعد ان پر مہر کر دیتے ہیں تو گویا اب اُن کی تصنیف کو ختم کر دیا اور اس کے لکھنے سے رُک گئے (گویا کسی چیز کو ختم کرنے کے معنے مجازی ہیں) وَقَوْلُہٗ خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوْ بِھِمْ اِشَارَۃٌ اِلیٰ مَا اَجْرَی اللّٰہُ بِہِ الْعَادَۃَ اَنَّ الْالْسَانَ اِذَا تَنَاھٰی فِیْ اِعْتِقَادٍ بِاطِلٍ اَوِارْ تِکَابِ مَحْظُوْرٍ وَلَا یَکُوْنُ مِنْہُ تَلَفُّتٌ بِوَجْہٍ اِلَی الْحَقِّ یُوْرِثُہٗ ذَالِکَ ھَیْئَۃً تُمَرِّنُہُ عَلیٰ اسْتِحْسَانِ الْمَعَاصِیْ وَکَانَّمَا یُخْتَم بِذَالِکَ عَلیٰ قَلْبِہٖ۔ اور آیت خَتَمَ اللّٰہ عَلیٰ قُلُو بِھِم میں سے ختم کا لفظ بولنے سے اللہ تعالیٰ کے اس قانون کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان اعتقاد باطل یا ممنوع باتوں کے ارتکاب میں حد سے بڑھ جاات ہے او رحق کی طرف کی طرح بھی توجہ نہیں کرتا تو اس کا یہ طرز عمل اس کے اندر ایک ایسی حالت پیدا کر دیتا ہے جو گناہوں کے ارتکاب کو عمدہ سمجھتی ہے گویا اس کے دل پر اب مہر لگ گئی کہ نہ اُس پرحق کا اثر ہوتا ہے اور نہ اس کا دل حق کی طرف رجوع کرتا ہے (مفردات) نیز لکھا ہے اَلْخَتْمُ والطَّبْعُ وَاحِدٌ فِی اللُّغَتِوَ ھُوَ التَّغْطِیَۃُ عَلَی الشَّیْ ئِ وَالْاِ شْتِیْثَاقُ مِنْ اَنْ لَایَدْ خُلَہٗ شَیْئٌ۔ کہ لفظ ختم اور طبع لُغت میں دونوں ہم معنے ہیں اور اُن کے معنے یہ ہیں کہ کسی چیز پر پردہ ڈال دینا۔ اور اس کے اور دوسری اشیاء کے درمیان روک بنا دینا۔ اس طور پر کہ کوئی چیز اس تک نہ پہنچ جائے (تاج)
قُلُوْب: قلب کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں اَلْفُؤَادُ۔ دل۔ وَقَدْ یُطْلَقُ عَلَی الْعَقْلِ اور کبھی قلب کا لفظ عقل پر بھی بولا جاتا ہے (اقرب) وَیُعَبَّرُ بِالْقَلْبِ عَلَی الْمَعَانِی الَّتِیْ تَخْتَصُّ بِہٖ مِنَ الرُّوْحِ وَالْعِلْمِ وَالشُّجَاعَۃِ۔ اور لفظ قلب کے ذریعہ ان کیفیات کو بیان کیا جاتا ہے جو روح۔ علم اور شجاعت وغیرہ اقسام کی اس کے ساتھ مخصوص ہیں۔ وَجَائِزٌ فِی الْعَرَبِیَّۃِ اَنْ تَقُوْلَ مَالَکَ قَلْبٌ وَمَا قَلْبُکَٔ مَعَکَٔ تَقُوْلُ مَا عَقْلُکَٔ مَعَکَ۔ اور عربی زبان میں یہ جائز ہے کہ مَالَکَ قَلْبٌ اور مَا قَلْیُکَ مَعَکَ بول کر قلب سے مراد عقل لی جائے یعنی تجھے عقل نہیں نیز کہتے ہیں اَیْنَ ذَھَبَ قَلْبُکَ۔ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ تیری عقل کہاں گئی اور مَنْ کَان لَہٗ قَلْبٌ کے تحت میں لکھا ہے اَیْ تَفَھُمٌ وَتَدَبُّرٌ یعنی قلب کے معنے سوچنے اور تدبر کے ہیں (لسان) پس خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوْ بِھِمْ کے معنے ہوں گے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلو ںپر مہر لگا دی ہے یعنی ایسا بنا دیا ہے کہ نہ اُن کے دل کوئی بات سمجھتے ہیں نہ ان کی عقل میں سوچنے اور تدبر کا مادہ باقی رہا ہے۔
السَّمْعُ:۔ یہ سَمِعَ (یَسْمَعُ) کا مصدر ہے اور سَمِعَ الصَّوْتَ یَسْمَعُ سَمْعًا کے معنے ہیں اَدْرَکَہٗ بِحَاسَّۃِ الْاُذُنِ۔ آواز کو کان کس حس کے ساتھ معلوم کیا نیز السَّمْعُ کے معنے ہیں حِسُّ الْاُذُنِ۔ سنوانی۔ وَالْاُذُنُ۔ کان۔ وَمَا وَلَجَ فِیْھَا مِنْ شَیْ ئٍ تَسْمَعُہٗ اور جو آواز کان میں پڑے اس پر بھی سمع کا لفظ بولتے ہیں۔ الذِّکْرُ الْمَسْمُوْعُ سنی ہوئی بات۔ لفظ سمع واحد اور جمع دونوں طرح استعمال ہوتا ہے کیونکہ یہ دراصل مصدر ہے جو قلت اور کثرت کا احتمال رکھتا ہے اس کی جمع اَسْمَاع آتی ہے (اقرب) مفردات میں ہے السَّمْعُ قُوَّۃٌ فِی الْاُذُنِ بِہٖ یُدْرَکُ الْاَصْوَاتُ یعنی سمع کان کی ایک قوت (شنوائی) کا نام ہے جس کے ذریعہ سے انسان آواز کو معلوم کرتا ہے وَفِعْلُہٗ یُقَالُ لَہٗ السَّمعُ اَیْضًا۔ اور سننے کے فعل کا نام بھی سمع رکھا جاتا ہے وَبْعَبَّرُ تَارَۃً بِالسَّمْعِ عَنِ الْاُذُنِ اور کبھی لفظ سمع بول کر کان مراد ہوتا ہے وَتَارَۃً عَنْ فِعْلِہٖ کَاَ سْمَاعٍ اور کبھی لفظ سمع سے اس کا
فعل مراد لیا جاتا ہے۔ جیسے اِنُّھُمْ عَنِ السَّمْعِ لِمَعْزُوْلُوْنَ کہ ان کو سننے کے فعل سے روک دیا گیا ہے وَتَارَۃً عَنِ الْفَہْمِ اور کبھی لفظ سمع سے مراد بات کا سمجھنا ہوتا ہے جیسے کہتے ہیں لَمْ تَسْمِعْ مَا قُلْتُ۔ کہ جو میں کہا تو نے نہیں سمجھا وَتَارَۃً عَنِ الطَّاعَۃِ۔ اور کبھی اس سے مراد اطاعت ہوتی ہے۔
اَلْاَبْصَارُ:۔ اَلبَصَرُ کی جمع ہے۔ اس کے معنے ہیں حَاسَّۃُ الرُّوْیَۃِ دیکھنے کی حس۔ اَلْعَیْنُ آنکھ اَلْعِلْم۔ علم (اقرب)
غِشَاوَۃٌ:۔ اَلْغِشَاوَۃُ کے معنے ہیں اَلْعِظَائُ : پردہ (اقرب) تاج میں ہے اَلْغِشَاوَۃُ مَایُغْشیٰ بِہِ الشَّیْئُ۔ کہ
اَلْعَذَابُ:۔ اَلْعَذَابُ کُلُّ مَاشَقَّ عَلَی الْاِنْسَانِ وَمَتَعَہٗ عَنْ مُرَادِہٖ۔ عذاب کے معنے ہیں ہر وہ چیز جو انسان پر شاق گذرے اور حصول مراد سے اُسے روک دے۔ وَفِی الْکُلِّیَاتِ کُلُّ عَذَابٍ فِی الْقُرْآنِ فَھُوَ التَّعْدِیْبُ اِلَّاوَ لْیَشْھَدْ عَذَالَھُمَا طَائِفَۃٌ فَاِنَّ الْمُرَادَ الضَّرْبُ : اور کلیات میں لکھا ہے کہ عذاب سے مراد قرآن مجید میں عذاب دینا ہوتا ہے سوائے وَ لْیَشْھَدْ عَذَالَھُمَا کی آیت کے۔ وہاں ظاہری سزا مدا ہے (اقرب) اَلْعَذَابُ ھُوَ الْاِیجاعُ الشَّدِیْدُ۔ عذاب کے معنے ہیں سخت تکلیف دینا۔ فَالتَّعْذِیْبُ فِی الْاَصْلِ ھُوَ حَمْلُ الْاِنْسَانِ اَنْ یَعْذبَ اَیْ یَجُوْعَ وَیَسْھَرَ۔ اگر مادہ کے لحاظ سے اُسے دیکھا جائے تو اس کے معنے ہیں کہ کسی کو بھکا اور بیدار رہنے پر آمادہ کرنا۔ کیونکہ عَذَبُ الَّرجُلُ کے معنے ہیں۔ اس نے کھانا پینا ترک کر دیا۔ وَقِیْلَ اَصْلُہٗ مِنَ الْعَذْبِ۔ فَعَدّبْتُہٗ اَیْ اَزَلْتُ عَذْبَ حَیٰوتہٖ۔ بعض نے کہا ہے کہ عذاب عَذْبٌ سے نکلا ہے۔ جس کے معنے میٹھے پانی کے ہیں۔ تَعْذِیب کے معنے اور عَذَّبَ کے معنے ہیں کہ اُسے زندگی کی حلاوت سے محروم کر دیا (مفردات) پس عَذَابَکے معنے ہوئے (۱) تکلیف (۲) ایسی چیز جو زندگی کی حلاوت سے محروم کر دے (۳) مقصود حیات سے محروم کر دے۔
تفسیر۔ اس آیت میں ان کفار کا انجام بتایا ہے کہ جن میں مذکورہ بالا آیات والی صفت پائی جاتی ہے نہ کہ ہر کافر کا۔
یہ طبعی قاعدہ ہے کہ جو عضو انسان استعمال نہیں کرتا وہ بے کار ہو جاتا ہے۔ بعض ہندو سادھو اپنا ہاتھ کھڑا رکھ کر سکھا دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر آنکھ سے کام نہ لیا جائے تو بالآخر اس کی بینائی جاتی رہتی ہے۔ اور اگر کانوں سے کام نہ لیا جائے تو شنوائی مفقود ہو جاتی ہے۔ اور اگر زبان کو بند رکھا جائے تو گویائی جاتی رہتی ہے۔ یہی حال باطنی حسوں کا ہے ان سے بھی اگر کام نہ لیا جائے تو وہ بھی کچھ عرصہ کے بعد معطل ہو جاتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ یہ کفار قلوب کی نظر سے کام نہیں لیتے رہے اس لئے ان کے قلوب کی بینائی جاتی رہی ہے اور وہ مردہ دل ہو گئے ہیں۔ اور چونکہ باوجود کان رکھنے کے وہ ہماری باتیں نہیں سنتے رہے اور باوجود آنکھیں رکھنے کے نشانات اور واقعات نہیں دیکھتے رہے اس لئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین کی طرف سے ان کی یہ حسیں بیکار ہو گئی ہیں۔ اگر وہ اپنی آنکھو ںسے کام لیتے اور جن کی باتیں سنتے اور ان کو سمجھتے تو اس عذاب میں مبتلا نہ ہوتے۔ چنانچہ دوزخیوں کی نسبت آتا ہے کہ وہ عذاب میں مبتلا ہو کر کہیں گے کہ لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْنَعْقِلُ مَا کُنَّا فِٓیْ اَصْحٰبِ السَّعِیْر (الملک ع ۱) اگر ہم ان کی باتیں سنتے یا خود سمجھنے کی کوشش کرتے تو آج دوزخ والوں میں شامل نہ ہوتے۔
غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین لطیف باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور توجہ دلائی ہے کہ اگر غور کرو تو عنادی کا فرد ہی ہوتے ہیں جو دل، کان اور آنکھوں سے کام لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور ہدایت کے یہی تین بڑے ذریعے ہیں اور ہر ایک بات پر غور انہی تین طریق سے ہو سکتا ہے۔ اول دل ہے۔ سب پہلا ہدایت کا ذریعہ یہی ہے جو شخص سوچنے کا عادی ہوتا ہے وہ بیسیوں صداقتوں کو پا لیتا ہے دوم کان ہیں اگر کسی میں زیادہ عقل اور سمجھ نہیں ہوتی کہ غور کر کے خود فیصلہ کر لے وہ کسی سے سن کر بات مان لیتا ہے۔ تیسرے آنکھیں
ہیں۔ اگر کانوں سے سن کر ہدایت نہ پائے تو کم سے کم آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ جو باتیں مجھ سے کہی جاتی ہیں اُن کا نتیجہ دنیا میں کیا پیدا ہو رہا ہے۔ اگر نتیجہ اچھا نکل رہا ہو تو وہ معلوم کر سکتا ہے کہ گو کانوں سے سن کر وہ باتیں بھلی معلوم نہیں ہوتیں مگر مشاہدہ نے ان کی تصدیق کر دی ہے لیکن جو بدبخت ان تینوں باتوں سے عاری ہو۔ وہ کبھی کوئی بات نہیں مان سکتا وہ ہمیشہ دکھ اٹھاتا ہے ۔ پس وہ انسان جو دنیا کی اشیاء پر غور کر کے خود صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا وہ اگر نبیاء کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں سنے تو اسے ہدایت مل سکتی ہے۔ اگر ان کو سن کر اس کا دل فیصلہ نہ کر سکے تو وہ خدا تعالیٰ کی قدرت کے جلوے اور نظارے دیکھ کر مان سکتا ہے کہ وہ کس کی تائید میں ہیں اور اگر وہ نہ خود سوچے اور نہ علم کی باتوں کو سنے اور نہ خدا تعالیٰ کے نشانات کو دیکھے تو اس کا انجام اس کے سوا کیا ہو گا کہ وہ دکھوں میں پڑ جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ان لوگوں کو ان تینوں باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم نے انہیں ایسے دل دئے تھے جو حق و باطل میں تمیز کر سکتے تھے۔ اگر یہ قوت فکریہ سے کام لیتے تو اسلامی صداقتوں کا چشمہ ان کے دلوں سے ہی پھوٹ پڑتا اور یہ اسلام کی دعوت کو سننے ہی اسے مان لیتے۔ اگر دلوں سے انہوں نے فاودہ نہ اٹھایا تھا۔ تو ان دلائل کو سنتے جو اسلام نے پیش کئے ہیں۔ اس طرح بھی ان کو ہدایت مل سکتی تھی۔ اگر کانو ںسے سن کر اسلام کی صداقت کا فیصلہ نہ کر سکے تھے تو یہ خدا تعالیٰ کے فعل کو ہی دیکھتے کہ خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے کیا معاملہ کر رہا ہے۔ مگر انہوں نے یہ بھی نہ کیا۔ پس جب سب دروازے انہوں نے اپنے لئے خود بند کر لئے تو اب انہیں ہدایت نصیب ہو تو کیسے ہو۔ ان تینوں طاقتو ں کو استعمال نہ کرنے کی وجہ سے اب تو ان کی وہ قوتیں ہی ضائع ہو گئی ہیں۔
اس آیت کا یہ مطلب نہیں جیسا کہ مخالفین اسلام نے اس سے نتیجہ نکلا ہے کہ خدا تعالیٰ جبراً کفار کے دلو ںپر اور کانوں پر اور کانوں پر مہر لگا دیتا ہے او ران کی آنکھو ںپر پردے ڈال دیتا ہے یہ تو ظلم ہے اور قرآن کریم خدا تعالیٰ سے ظلم کی نفی فرماتا ہے جیسے کہ فرمایا اِنَّ اللّٰہَ لَایَظْلِمُ مِثقَالَ ذَرَّۃٍ (نساء ع ۶) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ایک ذرّہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اور فرمایا اِنَّ اللّٰہَ لَایَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّلٰکِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ (یونس ع ۵) یعنی اللہ تعالیٰ کی شان تو ایسی ہے کہ وہ لوگو ںپر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا۔ ہاں لوگ اپنی جانوں پر آپ ہی ظلم کرتے ہیں۔
دوسرے اگر ان معنوں کو تسلیم کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ خود بعض بندوں کے لئے کفر کو پسند کرتا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں ہے وَلَایَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ (زمرع۱) کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے کفر کو ناپسند کرتا ہے۔ اور فرمایا وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ (حجرات ع ۱) یعنے کفر اور خود سری اور نافرمانی سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نفرت دلا دی ہے۔
تیسرے ان معنوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ جبر سے بعض لوگوں سے کفر کرواتا ہے۔ لیکن قرآن کریم اس مضمون کو بھی رد کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے فَمَنْ شَٓائَ فَلْیُؤْ مِنْ وَّمَنْ شَٓائَ فَلْیَکْفُرْ (کہف ع ۴) یعنی جو چاہے اللہ کی طرف سے نازل شدہ کلام پر ایمان لے آئے اور جو چاہے اس کا انکار کر دے۔ بلکہ قرآن کریم نے جبر کی نفی کرتے ہوئے بیسویں جگہ بتایا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے جبر ہوتا تو ایمان پرہوتا نہ کہ کفر پر۔ جیسے کہ فرمایا فَلَوْ شَآئَ لَھَدٰ کُمْ اَجْمَعِیْنَ (انعام ع ۱۸)
کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو دین حق کی طرف ہدایت کرتا۔ قرآن کریم سے تو وضاحت سے یہ مراد ثابت ہے کہ ایمان لانا اور کفر اختیار کرنا بندو ںکا فعل ہے او ریہی وجہ ہے کہ کوئی مومن ہے تو کوئی کافر۔ جیسے کہ فرمایا فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْھُمْ مَّنْ کَفَر (بقرہ ع ۳۳) یعنی لوگوں میں سے بعض تو ایسے تھے جو ایمان لے آئے اور بعض ایسے تھے جنہوں نے انکار کر دیا۔ اور فرمایا مَنْ کَفَرَ فَعَلَیْہِ کُفْرُہٗ (روم ع ۵) جو کفر کرتا ہے۔ تو اُسی پر اس کے کفر کا وبال پڑے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔ یہ مہر اور پردہ انسان کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔ جیسے فرمایا طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْھَا بِکُفْرِ ھِمْ (نساء ع ۲۲) کہ اللہ نے اُن کے کفر کی وجہ سے اُن کے دلوں پر مہر کر دی ہے۔ پھر فرمایا اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُیِعَ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ (المنافقون ع ۱) یعنی اصل بات یہ ہے کہ اُن کے دلوں پر اُن ہی کے اعمال بد کے زنگ بیٹھ گئے ہیں۔
اگر کہا جائے کہ پھر کیا وجہ کہ اس آیت میں مہر لگانے کی نسبت خدا تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ انسان کے اعمال کا یہ نتیجہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے اس لئے اِن آیات میں خَتم اور طَبع کی نسبت جناب الہٰی کی طرف کی گئی ہے۔ ورنہ ایک دوسری آیت میں اس مہر کو خود کفار کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے اَفَلَایَتَدَ بَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلیٰ قُلُوْبٍ اَقْفَا لُھَا (محمدؐ ع ۳) یعنی کیا کفار قرآن کریم کے مضمون پر غور نہیں کرتے یا یہ بات ہے کہ ان کے دلوں پر اُنہی کے دلوں سے پیدا شدہ قفل لگ ہوئے ہیں۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ نہ ماننے کے دو ہی سبب ہوتے ہیں۔ یا تو غور نہ کرنا یا غور نہ کرنے کی عادت یا لمبے عناد اور تعصب کی وجہ سے دلوں میں ایسا مادہ پیدا ہو جانا جو سمجھنے کی طاقت کو ضائع کر دیتا ہے۔ اور استعارۃً اس کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ دلوں میں قفل پیدا ہو کر دلوں کی کھڑکیوں میں لگ گئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا مہر لگانا انہی معنوں میں ہے کہ دوسری قسم کے لوگوں نے چونکہ خود اپنے اوپر ہدایت کے دروازے بند کر دئے تھے اور اپنے دلوں کو اور کانوں کو اور آنکھوں کو معطل کر دیا تھا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کے فعل کا مناسب نتیجہ پیدا کر دیا ہے۔ اس مفہوم کے مطابق قرآن کریم میں ایک اور مثال بھی پائی جاتی ہے۔ حضرت آدمؑ کے جنت سے نکلنے کے متعلق ایک جگہ فرماتا ہے کہ ہم نے آدم کو کہا کہ اِھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا (بقرہ ع ۴) یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم سے کہا کہ تم سب نکل جائو۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ جنت سے آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے نکالا۔ مگر دوسری جگہ فرماتا ہے یَا بَنِیْ اٰدَمَ لَایَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِنَ الْجَنَّۃِ (اعراف ع ۳) یعنی اے بنی آدم شیطان تم کو دُکھ میں مبتلا نہ کر دے جس طرح اس نے تمہارے ابتدائی ماں باپ کو جنت سے نکال دیا تھا۔ اس بارہ میں ایک دفعہ نکالنے کو اپنی طرف منسوب کرنا اور ایک دفعہ شیطان کی طرف سے اسی حکمت سے ہے۔ شیطان کی طرف نکالنے کو اس لئے منسوب کیا کہ اس کے فعل کے سبب سے وہ جنت سے نکلنے کے مستحق ہوئے اور خدا تعالیٰ کی طرف اس لئے کہ اس فعل کا آخری اور لازمی نتیجہ خدا تعالیٰ
نے نکالا۔ بعینہٖ اسی طرح مہر لگانے والی بات بھی ہے۔ مہر لگتی ہے عناد اور جحد سے یعنی جان بوجھ کر صداقت کے انکار سے۔ لیکن آخری نتیجہ اللہ تعالیٰ نکالتا ہے جس طرح ہر دوسرے فعل کا نتیجہ وہی نکالتا ہے۔ یہ معنے جو میں نے کئے ہیں ان کی تصدیق رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے کلام سے بھی ہوتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں ۔ اِنَّ الْمُؤْمِنَ اِذَا اَذْنَبَ دَنْبًا کَانَ نُکْتَۃً سَوْدَائَ فِیْ قَلْبِہٖ فَاِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِّلَ قَلْبُہٗ فَاِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی یُغلَفَ قَلْبُہٗ فَذَا لِکَ الرَّانُ الَّذِیْ قَالَ اللّٰہُ جَلَّ ثَنَائُ ہٗ کَلَّابَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْ بِھِمْ مَا کَانُوْیَکْسِبُوْنَ (ابن جریر) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی مومن گناہ کرے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ پڑ جاتا ہے پھر اگر توبہ کرے اور گناہ ترک کر دے اور استغفار کرے تو اس کے دل کو صاف کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر گناہ میں بڑھتا جائے تو یہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے حتٰی کہ اس کے دل پر غلاف چڑھ جاتے ہیں۔ اور یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خبردار بات یہ ہے کہ خود ان کے اعمال نے اُن کے دلو ںپر زنگ لگا دیا ہے۔ اس کی ابن جریر یہ تشریح بیان کرتے ہیں کہ فَاَخْبَرَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ الذُّتُوْبَ اِذَا تَنَا بَعَتْ عَلَی القُلُوْبِ اَغْلَفَتْھَا وَ اِذَا اَغْلَفَتْہَا اَتَاھَا حِیْنَئَذٍ الْخَتْمُ مِنْ قِبَلِ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فَلَا یَکُوْنُ لِلْاِ یْمَانِ اِلَیْھَا مَسْلَکٌ وَلَا للِّکُفْرِ مِنْھَا مَخْلَصٌ فَذَالِکَ ھُوَ الطَّبْعُ وَ الْخَتْم یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ خبر دی ہے کہ گناہ جب متواتر صادر ہوں تو وہ دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور جب وہ دلوں پر پردہ ڈال دیں تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہر آ جاتی ہے۔ پس اس صورت میںدل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا نہ اس میں سے کفر باہر نکل سکتا ہے۔ اور اسی کا نام قرآن کریم میں طَبع اور خَتم آتا ہے۔ اسی مضمون کی ایک حدیث مسلم میں حذیفہؓ سے بھی روایت کی گئی ہے۔
اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ مہر اور پردہ کوئی جسمانی چیز نہیں ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کفار کی زبانی بیان فرماتا ہے قَالُوْا قُلُوْ بْنَا فِیْ اَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْہِ وَ فِیْٓ اٰذَا نِنَا وَ قْرٌ وَ مِنْ بَیْنِنَا وَبَیْنِکَ حِجَابٌ (حٰم سجدہ ع ۱) کہ کفار آنحضرت کو یوں کہتے ہیں کہ جس بات کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہمارے دل اس کے پردے میں ہیں اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے جس کی وجہ سے تمہاری بات سنائی نہیں دیتی اور تمہارے او رہمارے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس کی وجہ سے تم ہم پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پردہ اور ختم وغیرہ کے الفاظ بطور استعارہ ہیں۔ اور ان کی تشریح وہی ہے جو مندرجہ ذیل آیات میں کی گئی ہے۔ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّایَفْقَہُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اَعْیُنٌ لَّایُبْصِرُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّایَسْمَعُوْنَ بِھَا (اعراف ع ۲۲) یعنی اُن کے دل تو ہیں لیکن وہ ان سے سمجھنے کا کام نہیں لیتے اور ان کی آنکھیں بھی ہیں مگر وہ ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے اور این کے کان بھی ہیں مگر وہ ان سے سننے کام نہیں لیتے۔ اسی مضمون کی تشریح ایک اور آیت میں بھی ہے جو یہ ہے اَفْلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَعْقِلُوْنَ بِھَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَ بْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ (الحج ع ۶) یعنی؛ کیا یہ لوگ ملک میں چلتے پھرتے نہیں۔ کہ اُن کے دل ایسے ہوتے کہ ان کے ذریعے نصیحت کی باتوں کو سنتے۔ اصل بات یہ ہے۔ کہ اصل نابینائی آنکھو ںکی نہیں بلکہ اصل نابینائی ان کے دلوں کی ہے جو سینو ںمیں ہیں۔
اوپر جو شبہ بیان ہوا ہے اور جس کا جواب دیا گیا ہے وہ در حقیقت اس سے پیدا ہوتا ہے کہ یہ غو رنہیں کیا گیا کہ یہ آیت پہلی آیت کا تتمہ ہے اور اس میں ان کفار
کا ذکر ہے جو صداقت کو سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے اور نہ خدا تعالیٰ کے فعل کو دیکھنے کے لئے تیار ہوتے ہیں پس ان لوگوں کی مہر تو ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اس سے خدا تعالیٰ پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْم میں جس بڑے عذاب کی خبر دی گئی ہے اس سے صرف بعد الموت کی جہنم کی سزا ہی مراد نہیں بلکہ سب سے زیادہ اس میں خدا تعالیٰ کی دوری کا ذکر ہے۔ عذاب کے معنے حل نعات میں بتائے جا چکے ہیں۔ کہ روکنے کے بھی ہوتے ہیں۔ پس عذاب سے مراد اس جگہ یہ ہے کہ مومن تو خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت پر سوار ہو کر اس تک پہنچ جائیں گے مگر یہ لوگ خدا تعالیٰ کے دیدار سے روک دئے جائینگے اور اس سے بڑا عذاب اور کیا ہو سکتا ہے؟ اس کے علاوہ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جو لوگ دل۔ کان اور آنکھوں کے استعمال کو ترک کر دیتے ہیں وہ دنیا کے ہر کام میں بھی ذلت اور دکھ پاتے ہیں اور عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔
اس آیت کے متعلق یہ لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس میں دل کے بعد کان کا ذکر ہے اور اس کے بعد آنکھ کا۔ اور قرآن کریم میں جہاں بھی اس قسم کا ذکر آیا ہے کان کو آنکھ پر مقدم کیا گیا ہے۔ اس کی ایک حکمت تو پہلے بیان ہو چکی ہے دوسری حکمت یہ ہے کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان پہلے کام کرنے لگتے ہیں اور آنکھیں بعد میں۔ چنانچہ بعض جانوروں میں تو آنکھیں کئی دن تک بند رہتی ہیں اور شروع میں کان ہی سے وہ کام لیتے ہیں۔
اس آیت کے بارہ میں ایک سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دل اور آنکھوں کو تو جمع بیان کیا اور کانو ںکے لئے مفرد کا لفظ رکھا ہے اس میں کیا حکمت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دلوں اور آنکھوں کا فعل ہر شخص کا جداگانہ ہوتا ہے۔ دلوں کی طاقتوں کا اس قدر فرق ہوتا ہے کہ کوئی تحت الثریٰ میں ہوتا ہے او رکوـئی افلاک پر اسی طرح آنکھوں کے فعل سے اس جگہ معجزات اور نشانوں کو دیکھنا مراد ہے اس کا اندازہ بھی ہر شخص الگ الگ لگاتا ہے۔ اور اس طرح گویا مختلف آنکھوں سے ان کو دیکھا جاتا ہے مگر سنی جلنے والی شئے ایک معین چیز ہے یعنی قرآن کریم۔ وہ معین الفاظ میں سب کے سامنے پڑھا جاتا تھا۔ پس سوچنے میں گو سب مختلف تھے اور معجزات کا نظارہ کرنے میں بھی مختلف تھے مگر سننے میں مختلف نہ تھے کیونکر ایک ہی کلام سنتے تھے پس سننے کے لئے مفرد کا لفظ استعمال کیا کہ گویا سب ایک ہی کان سے سنتے تھے۔
ایک سوال اس آیت کے بارہ میں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ دلوں اور کان کیلئے تو مہر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو زیادہ سخت ہے لیکن آنکھوں کیلئے پردہ کا لفظ استعمال کیا ہے جو ہٹ بھی سکتا ہے لیکن سورۃ نحل ع ۱۴ میں فرماتا ہے طَبَعَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوْ بِھِمْ وَ سَمْعِہِمْ وَ اَبْصَار ھِمْ وَاُولٰٓئِکَٔ ھُمُ الْغَافِلُوْن۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے دلو ںان کے کان اور ان کی آنکھوں پر مہر لگا دی ہے۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پہلے انسان اپنے دل میں غور کرتا ہے پھر بات سن کر ہدایت پاتا ہے اور جب یہ بھی نہ ہو تو معجزات کو دیکھتا ہے۔ معجزات کلام کے بعد آہستہ آہستہ ظاہر ہوتے ہیں اس لئے آنکھوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیر میں مہر لگائی جاتی ہے کیونکہ اس راستہ کے ذریعہ حجت دیر سے قائم ہوتی ہے پہلے پردے پڑتے ہیں پھر مہر لگتی ہے پس سورۂ بقرہ میں اس حالت کا ذکر ہے کہ جب ابھی مہر کا وقت نہ آیا تھا اور سوۃ نحل میں اس حالت کا ذکر ہے جبکہ معجزات کو دیکھ کر بھی ایک لمبے عرصہ تک انسان ایمان نہ لائے۔
اس جگہ یہ لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قلوب اور کانو ںپر مہر لگانے کو تو اپنی طرف منسوب کیا ہے لیکن آنکھو ںکے پردوں کو اپنی طرف منسوب نہیں کیا۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کفاریہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں سمجھ نہیں دی کہ ہم اس کی باریک حکمتوں کو سمجھ سکیں اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں سننے کا موقعہ نہیں ملا۔ گو حق یہ ہے کہ انہوں نے خود ہی نہیں سنا۔ لیکن وہ اس بات کا کیا جواب دینگے کہ خدا تعالیٰ کی تائیدات اور نصرتیں ان کے دائیں اور بائیں اور سامنے ظاہر ہو رہی ہیں انہیں انہوں نے کیوں نہیں دیکھا پس اس مضمون کو واضح کر دیا ہے کہ ختم کا خدا تعالیٰ
کی طرف منسوب کیا جانا صرف نتیجہ فعل کے طور پر ہے ورنہ یہ دونوں نتائج بھی خود کفار کے اعمال کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں جس طرح ان کا نشانات کو نہ دیکھنا ان کا اپنا فعل ہے۔
۹؎ حل لغات۔
اٰمَنَّا:۔ اٰمَنَ سے متکلم مع الغیر کا صیغہ ہے اور مَوْمِنُوْن وَ مَوْمِنِیْن، مُوْمِنٌ کی جمع ہے جو اسم فاعل کا صیغہ ہے قبل ازیں حل لغات ۴؎ سورۃ ہذا میں ایمان کے تین معنے لکھے جا چکے ہیں (۱) اعتراف (۲) تصدیق یعنی سچائی کا اقرار کرنا (۳) کسی چیز کے اوپر پختہ ہو جانا۔ امام راغب ایمان کی تشریح کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں کہ:۔ ’’اَلْاِیْمانُ یُسْتَعْمَلُ تَارَۃً اِسْمًا لِّلشَّرِیْعَۃِ الَّتِیْ جَائَ بِھَا مَحَّمد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ وَ یُوْصَفُ بِہٖ کُلُّ مَنْ دَخَلَ فِیْ شَرِیَعتِہٖ مُقِرًّا بِاللّٰہِ وَبِنُبُّوَتِہٖ‘‘ یعنی ایمان کبھیاس شریعت کے لئے بطور نام استعمال کیا جاتا ہے جو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور ایسے شخص کو جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور آنحضرت صلعم کی نبوت کا اقرار کرتے ہوئے شریعت محمدیہ میں داخل ہو ایمان کے ساتھ موصوف کرتے ہوئے مومن کہتے ہیں (یعنی لفظ مومن بولنے سے فوراً ذہن میں اس شخص کا تصور آتا ہے جو آنحضرتؐ پر ایمان رکھنے والا ہو) ’’وَتَارَۃً یُسْتَعْمَلُ عَلیٰ سَبِیْلِ الْمَدْحِ وَیُرَادُبِہٖ اِذْعَانُ النَّفْسِ لِلْحَقِّ عَلیٰ سَبِیْدِ التَّصْدِیْقِ وَ ذَالِکَ بِاجِمَاعِ ثَلٰثَۃِ اَشْیَائَ تَحْقِیْقٌ بَالْقَلْبِ وَاِقْراَرْٔ بِاللِّسَانِ وَعَمَلَ وَبِحَسْبِ ذٰلِکَ بِالْجَوَارِحِ۔‘‘ نیز کبھی لفظِ ایمان بطور مدح استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ تصدیق کے ساتھ ساتھ نفس نے حق کی پوری اطاعت بھی کر لی ہے اور حق کے پوری طرح تابع ہو جانیکا اظہار تین چیزوں کے جمع ہونے سے ہوتا ہے (۱) دل سے صداقت کو حق قرا ردینا (۲) زبان سے اس کا اقرار کرنا (۳) اعضاء سے اس کے مطابق عمل کر کے پوری طرح صداقت کے تابع ہو جانیکا اظہار کرنا۔ گویا امام راغب نے اسی شخص کو حقیقی مومن قرار دیا ہے جس کے اندر تینوں مذکورہ بالا باتیں پائیں جائیں۔ اگر کسی میں ان میں سے کوئی ایک بات پائی جائے تو وہ مومن کہلانے کا حقدار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ تصریح فرما دی ہے کہ محض زبان سے اقرار یا صرف دل سے یقین کر لینا اور زبان سے اقرار نہ کرنا کوئی معنے نہیں رکھتا جب تک کہ یہ اکٹھے نہ ہو ںچنانچہ فرمایا قَالَتِ اِلْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ تُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْ بِکُمْ (حجرات) یعنی اعراب نے مومن ہونے کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ یہ درست نہیں۔ کیونکہ انہو ںنے زبان سے تو کہہ دیا کہ وہ اسلام میں داخل ہو گئے لیکن ان کے قلوب میں ایمان داخل نہیں ہوا اور چونکہ ایسے لوگ مومن نہیں ہوئے اس لئے ان کے ایمان لانے کا دعویٰ غلط ہے۔ ایک اور جگہ آل فرعون کی نسبت فرمایا حَحَدُ وْ ابِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھَٓا اَنْفُسُہُمْ (نمل) کہ انہوں نے ظاہر میں اور عمل سے اللہ تعالیٰ کے نشانات کا انکار کر دیا۔ حالانکہ ان کے دل ان نشانوں کے سچے ہونے کا اقرار کر چکے تھے۔ الغرض ایمان صرف منہ سے کسی بات کے اقرار کر لینے یا دل سے کسی کے سچا ہونے کا یقین کر لینے کا نام نہیں بلکہ جب تک (۱) دل سے صداقت کو حق قرار نہ دیا جائے (۲) اور پھر زبان سے اس کا اقرار کرتے ہوئے (۳) اعضاء سے اس کے مطابق عمل کا اظہار نہ کیا جائے اس وقت تک مومن کہلانا درست نہیں۔
تفسیر۔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ سے ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ تک اس گروہ کا ذکر کیا جو ایمان پر مستقل طور پر قائم ہے اور اس کے ایمان سے جو فوائد وابستہ ہیں ان سے پوری طرح فائدہ اٹھاتا ہے پھر اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سے اس گروہ کا ذکر کیا جو کفر و عصیان سے متقل طو رپر وابستہ ہے اور اس کے بد نتائج کا مستحق ہو چکا ہے۔ انہی کے ذکر میں ضمناً ان کفار کا بھی ذکر آ گیا جو گو عقیدۃً کافر ہیں لیکن ان کے دلوں میں تعصب نہیں وہ صداقت کے سمجھ آ جانے پر اسے قبول کرنے کیلئے بھی تیار ہیں اور اس کے سمجھنے کیلئے بھی کوش کرتے ہیں کیونکہ جب یہ فرمایا کہ وہ کافر ایمان نہیں لائینگے جنھو ںنے سنا ان سنا کر چھوڑا ہے اور جو اس حد تک متعصب ہیں کہ سچائی کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو اس سے ضمناً یہ نتیجہ بھی نکل آیا کہ جو کافر سنتے ہیں اور سچائی کو اگر سمجھ میں آ جائے ماننے پر آمادہ ہیں وہ جیسے جیسے انکشاف تام ان پر ہوتا جائے گا ایمان لاتے چلے جائیں گے۔
اب اس آیت سے قرآن کریم سے تعلق رکھنے والے ایک اور گروہ کا ذکر کرتا ہے جو منافقوں کا گروہ کہلاتا ہے۔ مومنوں کی جماعت کو مدنظر رکھتے ہوئے منافق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو صرف ظاہر میں مومنوں سے ملے ہوئے ہوتے ہیں لیکن دل میں منکر ہوتے ہیں اور ان کی ظاہری شمولیت محض دنیوی فوائد یا قومی جتھا بندی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اور ایک وہ منافق جو عقلی دلائل سے تو ایمان کے اصول کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اُن کے اندر ایسی مضبوطی نہیں ہوتی کہ اس کے لئے پوری طرح قربانیاں کر سکیں پس ایسے لوگ اپنی عملی کمزوری کی وجہ سے نہ کہ عقیدہ کے اختلاف کی وجہ سے عمل میں سستی دکھاتے ہیں اور کبھی کفار کا زیادہ دبائو پڑے تو انکی ہاں میں ہاں بھی ملا دیتے ہیں اور اُن سے تعلق و محبت بھی جتا دیتے ہیں اور دل میں خیال کرتے ہیں کہ جب صداقت کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ دینا ہی ہے تو کیا حرج ہے کہ مداہنت کر کے ہم اپنے آپ کو نقصان سے بچا لیں۔ اور یہ نہیں سمجھتے کہ اگر سب لوگ ہی اس طریق کو اختیار کر لیں تو صداقت کی تائید کون کرے۔ اور یہ خیال بھی نہیں کرتے کہ صداقت کو تو بے شک اللہ تعالیٰ نے فتح دینی ہی ہے لیکن اُنہیں اپنے انجام کا بھی تو خیال کرنا چاہیئے اگر صداقت کامیاب ہو گئی مگر وہ صداقت کے منکروں میں شامل ہو گئے تو ان کو اس سے کیا فائدہ۔
آیت زیر تفسیر میں اس تیسرے گروہ کے پہلے حصہ کا یعنی جو دل سے قرآن کریم کے منکر تھے لیکن ظاہر میں مسلمانوں میں شامل تھے ذکر کیا گیا ہے فرماتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ظاہر میں تو وہ مسلمانوں میں شامل ہیں لیکن اُن کے دل میں اسلام کی صداقتوں پر پورا یقین نہیں وہ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخر کو مانتے ہیں لیکن اُن کے دلوں میں اللہ اور یوم آخر پر کوئی ایمان نہیں۔
اس آیت میں صرف اللہ اور یوم آخر پر ایمان کا ذکر ہے کلام الٰہی یا انبیاء وغیرہ کا ذکر نہیں۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ ایمانیات کے سلسلہ کی پہلی کڑی خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے اور آخری کڑی یومِ آخر پر ایمان لانا۔ پس اختصار کے لئے صرف پہلی اور آخری کڑی کا ذکر کر دیا گیا اور درمیانی امو رکو چھوڑ دیا گیا کیونکہ ابتداء اور انتہاء کے ذکر سے درمیانی اُمور خود ہی سمجھ آ جاتے ہیں۔ پس گو کفار کا قول اختصاراً یہی نقل کیا ہے کہ ہم اللہ اور یوم آخر پر ایمان لاتے ہیں لیکن مراد یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ سے لے کر یوم آخر تک سب امور ایمانیہ کو مانتے ہیں جیسے کہ ہماری زبان میں بھی کہہ دیتے ہیں کہ الف سے یاء تک سب بات سمجھ لی ہے۔
قرآن کریم میں یہ طریق کلام عام طور پر مستعمل ہے کیونکہ وہ سب علوم کی جامع کتاب ہے اس نے روحانی مسائل بھی اور جسمانی مسائل بھی اور الٰہیات بھی اور فلکیات بھی اور مادی ضرورتوں کے مسائل بھی بیان کرتے تھے۔ اُس نے اقتصادی امور، اجتماعی امور، مدنی احکام، اخلایقی احکام، عبادات کے ساتھ تعلق رکھنے والے احکام، بندوں سے تعلق رکھنے والے احکام، حاکموں سے متعلق احکام، رعایا سے متعلق احکام، مالداروں سے متعلق احکام، مزدوں سے متعلق احکام، خاندان سے متعلق احکام اور میاں بیوی سے متعلق احکام، جنگ، صلح، قضاء، اکل و شرب کے متعلق احکام غرض بیسیوں اور سینکڑوں اقسام کے احکام بھی اس نے بیان کرنے تھے، اُن کے علل و اسباب بھی بیان کرتے تھے، اور خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات بھی بیان کرتے تھے۔ سابق انبیاء کے کام اور خدا تعالیٰ کے ان سے معاملات بھی اس نے بیان کرنے تھے اور آئندہ زمانو ںکے متعلق اخبار غییہ بھی بتانی تھیں تا ہر زمانہ کے مسلمانوں کے ایمانوں میں زیادتی ہو اور غیر مومنوں کے لئے موجباتِ ہدایت پیدا ہوں۔ ایسی کتاب اس چھوٹے سے حجم میں آ ہی کس طرح سکتی تھی اگر اس میں لطیف اختصار سے کام نہ لیا جاتا۔ عہد نامہ جدید میں ایک دو مضامین کے سوا اور ہے کیا؟ مگر اس کا حجم قرآن کریم سے بڑا ہے۔ اسی طرح عہد نامہ قدیم بھی قرآن کریم سے بڑا ہے اسی طرح وید بھی قرآن کریم سے بڑے ہیں۔ مگر وہ مضامین جن پر قرآن کریم نے بحث کی ہے کوئی ان کی صداقت کاق تائل ہو نہ ہو اُسے یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ اس کے مطالب کی فہرست دوسری کتب میں مذکور شدہ مطالب سے بہت ہی زیادہ