ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
پہلے تو رسماً ایمان لے آئے تھے بعد میں پھر کفر میں چلے گئے اگر ہم تم میں سے بعض کو اپنی خاص مصالح کے ماتحت معاف کرتے رہیں گے تو بعض کو حسب موقعہ سزا بھی دیتے رہیں گے کیونکہ وُہ مجرم ہیں۔ منافق مرد بھی اور منافق عورتیں بھی آپس میں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا شغل یہ ہے کہ جن امور سے اسلام روکتا ہے وہ ان کے کرنے کی ایک دوسرے کو تلقین کرتے ہیں اور جن باتوں کی اسلام تحریک کرتا ہے وہ ان کے نہ کرنے کی ایک دوسرے کو ہدایت کرتے رہتے ہیں اور اسلام کی مدد سے ہاتھ کھینچے رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو انہو ںنے چھوڑ دیا ہے پس خدا تعالیٰ نے ان کو چھوڑ دیا ہے یقینا منافق ہی اطاعت سے باہر نکلنے والے ہیں (ورنہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو آپ نہیں چھوڑتا)
ان آیات سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ پہلے تو اسلام میں داخل ہو گئے تھے پھر بعد میں اُن کے دلوں سے اسلام نکل گیا۔ اس گروہ میں کچھ مرد بھی شامل تھے اور کچھ عورتیں بھی۔ یہ لوگ اسلام پر اعتراض کرتے رہتے تھے لیکن کھلی کھلی مخالفت کی جرأت بھی نہ رکھتے تھے پوشیدہ مخالفت کرتے تھے۔ جب اسلام کی مدد کا وقت اتا پیچھے ہٹ جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اُن کے دل میں نہ تھی دنیا کی محبت میں مبتلا تھے اس لئے خدا تعالیٰ کی نصرت بھی جاتی رہی تھی۔
اصل بات یہ ہے کہ جب مدینہ والوں کو اسلام کی خبر ہوئی اور ایک حج کے موقعہ پر کچھ اہل مدینہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ کی صداقت کے قائل ہو گئے تو انہوں نے واپس جا کر اپنی قوم سے ذکر کیا کہ جس رسول کی آمد کا مدینہ میں رہنے والے یہودی ذکر کیا کرتے تھے وہ مکہ میں پیدا ہو گیا ہے اس پر اُن کے دلوں میں رسول کریمؐ کی طرف رغبت پیدا ہو گئی اور انہوں نے دوسرے حج پر ایک وفد بنا کر آپ کی طرف بھجوایا۔ اس وفد نے جب آپ سے تبادلہ خیالات کیا تو آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کی بیعت کر لی۔ چونکہ اس وقت مکہ میں آپؐ کی شدید مخالفت تھی یہ ملاقات ایک وادی میں مکہ والوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوئی اور وہیں بیعت بھی ہوئی۔ اس لئے اس بیعت عقبہ کہتے ہیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو مدینہ کے مومنوں کی تنظیم کے لئے افسر مقرر کیا اور اسلام کی اشاعت کی تاکید کی اور ان کی امداد کے لئے اپنے ایک نوجوان صحابی مصعب ابن عمیر کو بجھجویا تاکہ وہ وہاں کے مسلمانوں کو دین سکھائیں (سیرت ابن ہشام جلد اول) یہ لوگ جاتے ہوئے آنحضرت صلعم کو یہ دعوت بھی دے گئے کہ کہ اگر مکہ چھوڑنا پڑے تو آپ مدینہ تشریف لے چلیں جب یہ لوگ واپس گئے تو تھوڑے ہی عرصہ میں مدینے کے لوگوں میں اسلام پھیل گیا اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے کچھ اور صحابہ کو مدینہ بھجوا دیا جن میں حضرت عمرؓ بھی تھے (سیرت ابن ہشام جلد دوم) اس کے بع دہجرت کا حکم ملنے پر آپ خود وہاں تشریف لے گئے اور آپؐ کے جاتے ہی بہت تھوڑے عرصہ میں وہ سب اہل مدینہ جو مشرک تھے مسلمان ہو گئے۔
اسلام کے مدینہ میں پھیلنے سے پہلے مدینہ کی یہ حالت تھی کہ اس میں دو عرب قبیلے بستے تھے جن کا نام اوس اور خزرج تھا اور تین یہودی قبیلے بستے تھے جن کا نام بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع تھا۔ یہودی گو مالدار تھے اور علوم دنیوی سے آراستہ لیکن تھے اقلیت میں۔ اور ارد گرد کی عرب آبادی کو ملا کر اور بھی کمزور ہو جاتے تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے مدینہ میں دنیوی سیاست کا جال پھیلا رکھا تھا اور ’’اختلاف پیدا کر اور حکومت کر‘‘ کی سیاسی چال پر عمل پیرا تھے۔ آئے دن لوس اور خزرج میں لڑائیاں کرواتے رہتے تھے او رمدینہ کے امن کو خراب کرتے رہتے تھے۔ اسلام کے مدینہ میں آنے کے قریب زمانہ میں مدینہ کے لوگو ںکو اس حالت کا احساس پیدا ہوا اور انہو ںنے اپنی حالت پر غور کرنا شروع کیا۔ آخر بعض لوگوں نے یہ تجویز کی کہ اس فتنہ کے سدِّباب کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ مدینہ میں ایک منظم حکومت قائم کی جائے اور اپنے میں سے کسی شخص کو بادشاہ تجویز کر لیا جائے۔ یہ خیال زور پکڑ گیا اور مدینہ کے مشرک لوگ ایک بادشاہ کے انتخاب پر متفق ہو گئے آخر ایک
شخص عبداللہ ابن ابی ابن سلول پر جو خزرج قبیلہ کا ایک ریئس تھا سب کا اتفاق ہوا۔ عام رواج کے مطابق اس کے لئے ایک تاج بنوانے کا بھی فیصلہ ہوا۔ مگر ابھی تاج بنوانے کی تیاری ہو رہی تھی کہ ان تک اسلام کی آواز پہنچ گئی اور انہوں نے محسوس کیا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے آخر کار مسلمان ہو گئے۔ قوم کا شدید اخلاص اسلام کی طرف دیکھ کر عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکے اور اس وقت یہ خیال نہیں آیا کہ اسلام کی حکومت کے قیام سے ان کی حکومت بالکل جاتی رہے گی۔ لیکن جب اسلامی نظام قائم ہوا تو ان لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ اب کسی خاص دنیوی وقار کی تمنا ایک خواب پریشان ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس احساس کے بعد جو خفیف سا لگائو بھی اسلام سے تھا جاتا رہااور اسلام کی مخالفت دل میں پیدا ہو گئی۔ مگر ادھر قوم کی بڑی اکثریت اسلام کی شیدا ہو چکی تھی اس وجہ سے ظاہر میں یہ لوگ اسلام سے باہر بھی نہ نکل سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ظاہر میں تو یہ لوگ مسلمان بنے رہے مگر اندر ہی اندر ریشہ دوانیاں شروع کیں۔ ابتداء میں تو سابق عادت کے مطابق یہود سے مخفی دوستی گانٹھ کر اسلام کو نقصان پہنچانے کی تجویزوں میں مشغول ہوئے اور کفار مکہ سے تعلق پیدا نہ کیا کیونکہ قومی تعصبات کی وجہ سے وہ ان سے تعلق پیدا کرنے کو پسند نہ کرتے تھے حتٰی کہ اُحد کی جنگ کے موقعہ پر منافقین کفار مکہ کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلمانوں کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئے تھے لیکن رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعض احکام سے ناراض ہو کر راستہ میں سے واپس لوٹ آئے (سیرت ابن ہشام جلد دوم) اس کے بعد یہود کی انگیحت کی وجہ سے اور مسلمانو ںکی بڑھتی ہوئی طاقت سے متاثر ہو کر انہو ںنے اپنے پرانی قومی تعصب کو بھی بھلا دیا اور کفار مکہ سے بھی ساز باز شروع کر دی مگر پھر بھی ظاہری تعلقات کو قائم رکھنے کے لئے ان کے سردار مختلف جنگوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاتے رہتے تھے گو ہمیشہ مسلمانوںکوباہم لڑوانے کے منصوبے کرتے رہتے تھے۔
قرآن کریم کے متعدد مقامات پر ان منافقوں کا ذکر آتا ہے۔ ان کی آخری شرارت وہ تھی جو انہوں نے فتح مکہ کے بعد کفار مکہ کی طاقت سے مایوس ہو کر قیصر کی حکومت کے ساز باز کر کے کرنی چاہی اسی کے نتیجہ میں غزوہ تبوک کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جانا پڑا۔ آخر اس میں بھی ان کو مایوسی ہوئی اور شاید اسی صدمہ سے عبداللہ بن ابی بن سلول تبوک کے واقعہ کے دو ماہ بعد مر گیا اور اس پارٹی کا شیرازہ بکھر گیا اور کچھ لوگ تو سچے دل سے مسلمانوں میں شامل ہو گئے اور باقی گمنامی میں ہلاک ہو گئے۔
۱۱؎ حل لغات۔
قُلُوْ بھمُ:۔ قلوب قلب کی جمع ہے اس کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۸؎
مَرَضٌ:۔ اَلْمَرَضُ کُلُّ مَاخَرَجَ بِالْاِنسانِ عَنْ حَدِّ الصِّحَۃِ مِنْ عِلَّۃٍ وَّنِفَاقٍ وَّشَکٍّ وَّظُلْمَۃٍ وَّنُقْصَانٍ وَّتَقْصِیْرٍ فِیْ اَمرٍ۔ یعنی ہر وہ امر جو انسان کو دِّ صحت سے نکالدے خواہ وُہ بیماری ہو یا نفاق یا شک یا فساد یا ظلمت یا کسی چیز میں کمی اور کوتاہی ہو۔ وُہ مرض کہلاتا ہے (اقرب) مفردات میں مرض کے معنے یہ کئے گئے ہیں کہ ہر وہ چیز جو انسان کو صحت کی حد سے باہر نکال دے۔ اور اس کی دو اقسام ہیں۔
اول جسمانی مرض۔ دوسرے جملہ بری عادات جیسے جہالت۔ بزدلی بخل۔ نفاق وغیرہ اور نفاق او کفر اور ایسی ہی اور بُری باتوں کو مرض کے ساتھ او واسطے تشبیہہ دی جاتی ہے (۱) کہ جس طرح ظاہری مرض بدن کو پوری طرح سے کام کرنے سے روک دیتے ہیں (۲) یا اس لئے کہ جو ایسی باتوں کا شکار ہو اُسے اخروی زندگی حاصل نہیں ہو سکتی (۳) یا جس طرح مریض آدمی کا بدن مضر اشیاء کی طرف مائل ہوتا ہے اسی طرح ایسی باتوں میں پھنسے ہوئے انسان کا میلان اعتقادات رویہ کی طرف ہوتا ہے اور یہ سب اشیاء مرض کی صورت میں شمار کی جاتی ہیں۔ تو گویا اس شخص کو جو ان باتوں میں گرفتار ہو مریض قرار دیا گیا ہے۔ (مفردات)
عَذَاب:۔ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۸؎
اَلِیْمُ:۔ کے معنے ہیں اَلْمُوْجِعُ: دکھ دینے والا (اقرب) عَذَابٌ اَلِیْمٌ اَیْ مُؤْلِمٌ۔ یعنی تکلیف وہ عذاب (مفردات)
یَکْذِبُوْنَ:۔ کَذَبَ سے مضارع جمع غائب کا صیغہ ہے اور ککَذَبَ کے معنے ہیں اَخْبَرَ عَنِ الشَّیْئِ بِخَلَاِف مَا ھُوْمَعَ الْعِلْمِ بِہٖ ضِدُّ صَدَقَ۔ کسی چیز کے متعلق اپنے علم کے خلاف خبر دینا کذب کہلاتا ہے اور یہ لفظ صدقی کے مقابل پر بولا جاتا ہے۔ وَسَوَائٌ فِیْہِ الْعَمَدُ وَالْخَطَائُ خواہ جان بوجھ کر جھوٹ بولا گیا ہو یا نادانستہ غلط بات بیان کر دی ہو۔ دونوں کے لئے کذب کا لفظ بولیں گے (اقرب)
تفسیر۔ اس آیت میں بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ کا ترجمہ اُن کے جھوٹ بولنے کے سبب سے کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مَا مصدریہ ہے اور اپنے بعد کے فعل کے معنٰی کو مصدری معنٰی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ان کا فطرت صحیحہ کے مطابق کام نہ کرنا بتاتا ہے کہ ان کے دل مریض ہیں کیونکہ اگر دل میں مرض نہ ہوتا تو کم سے کم یہ ان باتو ںکو تو محسوس کرتے جو فطرت صحیحہ سے پیدا ہوتی ہیں جس طرح صفراء کی زیادتی سے زبان کا مزہ خراب ہو جاتا ہے اور میٹھا بھی کڑوا معلوم دیتا ہے اسی طرح جن کے دل مریض ہوں وہ اپنی فطرت کی آواز کو صحیح طور پر نہیں سن سکتے۔
اس آیت میں بیماری سے مراد نفاق کی بیماری ہے پہلے رکوع کے شروع میں روحانی طور پر تندرست لوگوں کا ذکر تھا پھر کفر کے بیمارو ںکا ذکر ہوا اب اس آیت میں نفاق کی بیماری کا ذکر کیا گیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاق کی بیماری کی مندرجہ ذیل علامات بتائی ہیں اِذَا حَدَّثَ کَذِبَ وَ اِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَ اِذَا اُؤْتُمِنَ خَانَ وَ اِذَا عَاھَدَ غَدَرَ وَ اِذَا خَاصَمَ فَجَرَ (بخاری کتاب المظالم و کتاب الشہادات) یعنی جب منافق بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے او رجب وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرات اور جب اس کے پاس کئی امانت رکھائیں تو وُہ خیانت کرتا ہے اور جب معاہدہ کرے تو اُسے توڑ دیتا ہے اور جب جھگڑا ہو تو گالیوں پر اُتر آتا ہے۔
یہ علامات منافقت کا لازمہ ہیں کیونکہ منافق چونکہ اپنے نفاق کو چھپانا چاہتا ہے اس کا ذریعہ وہ یہی سمجھتا ہے کہ اگر اس پر کوئی الزام لگائے اور اس کے عیب کو ظاہر کرے تو وُہ جھوٹ بولے اور اس سے لڑ پڑے اور گالیوں پر اُتر آئے تاکہ لوگوں کی توجہ دوسری طرف پھر جائے۔ اسی طرح اُسے جھوٹ بولنے کی بھی ضرورت تہی ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے اندر رونہ کو چھپا نہیں سکتا۔ وعدہ خلافی اور عہد کو توڑنا بھی اس کے خواص میں ہونا لازمی ہے کیونکہ منافق وہی ہوتا ہے جو ایک قوم سے بظاہر تعلق رکھ کر دراصل اس سے بگاڑ رکھے۔ امانت میں خیانت بھی اس کا ضروری خاصہ ہوتا ہے کیونکہ اپنے قومی راز غیروں کو بتائے بغیر وہ ان میں مقبول نہیں ہو سکتا۔
اس آیت میں بیماری کا بڑھانا اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے منسوب کیا گیا ہے کہ یہ ایسی کے احکام اور قوانین کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے اور لوگوں کے اعمال پر نیک و بد نتائج بھی وہی مرتب فرماتا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو کسی کی بیماری کے بڑھانے کے لئے نازل نہیں فرمایا بلکہ لوگوں کی بیماری کے دور کرنے کیلئے بھیجا ہے چنانچہ فرماتا ہے یَا اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَائَ تْکُمْ
مَوْ عِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ (یونس ع ۶) یعنی اے لوگو تمہارے پاس ایک ایسی کتاب آئی ہے جو دل پر اثر کرنے والی نصائح پر مشتمل ہے اور سینہ کی سب بیماریوں کیلئے شفاء ہے۔
یہ مرض جس کا اس آیت میں ذکر ہے قوت فیصلہ کا نہ ہونا بزدلی اور نفاق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَاَعْقَبَھُمْ نِفَا قًا فِیْ قُلُوْ بِھِمْ اِلیٰ یَوْمِ یَلْقَوْنَہُ بِمَٓا اَخْلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوْہُ وَ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ (توبہ ع ۱۰) یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی وعدہ خلافی اور جھوٹ کا یہ انجام دکھایا کہ اُن کے دلوں میں نفاق پیدا ہو گیا۔
(۲) اللہ تعالیٰ کے مرض بڑھا دینے سے ایک یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ جوں جو ںمسلمانوں کو ترقی دیتا اور اُن کی طاقت بڑھاتا گیا منافقو ںکو اپنے دلی عقیدے کے خلاف ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کی وجہ سے اور زیادہ نفاق سے کام لینا پڑا۔ حالانکہ دراصل اسلام کی شوکت اُن کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اِنْ تَمْسَکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْ ھُمْ (آل عمران ع ۱۲) اگر تمہیں کوئی آرام پہنچتا ہے تو ان (منافقوں) کو تکلیف ہوتی ہے۔ دوسرے شریعت اسلامی آہستہ آہستہ نازل ہوئی پس جوں جوں احکام اور مسائل بڑھتے گئے منافقوں کا نفاق بھی بڑھتا جاتا تھا اور ان کی جان اور گھبراہٹ اور بزدلی میں اضافہ ہوتا جاتا تھااللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِ ذَا اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ مُّحْکَمَۃٌ وَ ذُکِرَ فِیْھَا الْقِتَالُ رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْ بِھِمْ مَرَضٌ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِییِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَاَ وْلیٰ لَھُمْ (سورۃ محمدؐ ع ۳) یعنی جب کوئی محکم آیات نازل ہوتی ہیں اور ان میں لڑائی کا ذکر ہوتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کہ کسی پر موت کی غشی طاری ہو۔
پہلی آیات میں کفار کی نسبت فرمایا تھا وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْم ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔اس آیت میں منافقوں کی نسبت فرمایا ہے کہ وَلَھَمْ عَذَابٌ اَلِیْم یعنی اُن کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ کافر کو خواہ کس قدر عذاب ملتا ہو وہ مقابلہ کر کے اپنے دل کا بخار نکال لیتا ہے اور اس طرح بدلہ لینے سے جو انسان کو تسلی ہوتی ہے وہ اسے حاصل ہو جاتی ہے۔ مگر منافق بدبخت چونکہ اپنے اندر و نہ کو چھپاتا ہے اندر ہی اندر کڑھ کڑھ کر مرتا ہے۔ اس لئے منافق کی اس حالت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے عَذَابٌ اَلِیْمٌ کے الفاظ استعمال کئے گئے کہ اُسے دُکھ کے ساتھ جلن کا مزہ بھی چکھنا پڑتا ہے
۱۲؎ حل لغات۔
لَاتُفْسِدُوْا:۔ نہی جمع مخاطب ہے اور الفساد کے معنے ہیں خُرُوْجُ الَّشْیِٔ عَنِ الْاِعْتِدَالِ قَلِیْلًاکَانَ الْخُرُوْجُ مِنْہُ اَوْ کَثِیْراً وَیْضَادُّہٗ الصَّلَاحُ ۔کسی چیز کا حد اعتدال سے نکل جانا فساد کہلاتا ہے خواہ وہ خروج کم ہو یا زیادہ۔ اور اس کے بالمقابل ’’صلاح‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ (مضردات)
اَلْاَرْضُ:۔ اَلْاَرْضُ کے مصدری معنے اَلنَّفَضَدُّ وَالرِّعْدَۃُ کے ہیں یعنی کانپنا (تاج) اقرب میں ہے اَلْاَرْضُ ، کرہ زمین کُلُّ مَاسَفلَ۔ ہر نیچے کی چیز۔
مُصْلِحُوْنَ:۔ اَصْلَحَ سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اَصْلَحَ بَیْن الْقَوْمِ کے معنے ہیں۔ وَفَّقَ ، قوم کے درمیان صلح کرائی اور اَصْلَحَہٗ۔ کے معنے ہیں اقامہ بعد فسادہ کسی چیز کے خراب ہو جانے کے بعد اسے اس کی اصل حالت پر لے آیا (اقرب) پس مُصْلِحُوْنَ کے معنے ہوئے اصلاح کرنے والے۔
تفسیر۔ ارض کے معنے عربی زبان اور محاورہ کے مطابق ساری زمین کے ہیں اور اس حصہ زمین کو بھی کہتے ہیں
جو کسی چیز کے نیچے آئے جیسے کہتے ہیں اَرْضُ النَّعْلِ جوتی کے نیچے آنے والا حصہ زمین۔ اور ہر نیچے کی چیز یا دبے ہوئے وجود کو بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ عربی کا محاورہ ہے اِنْ ضُرِبَ فَاَرْضٌ (اقرب) یعنی اگر اُسے مارا جائے تو وہ ارض ہو جاتا ہے یعنی بالکل دب جاتا ہے۔ محاورۂ زبان میں ارض کے معنے ملک یا زمین کے ٹکڑہ کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں اَرْضُ شَامِ اَرْضُ مِصْرَ یعنی شام کا ملک‘ مصر کا ملک۔ ہمارے ملک میں بھی زمیندار کی زمین کو اراضی کہتے ہیں۔ اس آیت میں ارض سے مراد ملک یا علاقہ کے ہیں کیونکہ جن منافقوں کا ذکر ہے ان کے اعمال ساری دنیا پر حاوی نہ تھے بلکہ ملک عرب یا اس کی سرحدوں تک محدود تھے۔
منافقوں کا فساد کئی رنگ میں ظاہر ہوتاہے تھا (۱) وہ مہاجرین اور انصار میں فساد ڈلوانے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور قومی سوال کو اپنے بد اغراض کو پورا کرنے کے لئے آڑ بناتے رہتے تھے چنانچہ غزوہ بنی المصطلق کے موقعہ پر جب ایک معمولی سی بات پر مہاجرین اور انصار میں کچھ اختلاف پیدا ہو گیا تو عبداللہ بن ابی بن سلول نے جو اس وقت ساتھ تھا اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شور مچا دیا کہ یہ مہاجر باہر سے آ کر ہم پر حکومت کرنا چاہتے ہیں تم لوگوں نے ان کو سر پر چڑھا رکھا ہے اگر ان کی مدد نہ کرو تو وہ خود ہی تتر بتر ہو جائیں گے (سیرت ابن ہشام جلد سوم) چنانچہ اس قول کا ذکر قرآن کریم میں یوں ہے ھُمْ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَاتُنْفِقُوْا عَلیٰ مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا (منافقوں ع ۱) یہ منافق ہی ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ لوگ جو محمد رسول اللہ کے ساتھ جمع ہیں ان پر اپنے روپے نہ خرچ کیا کرو تاکہ یہ تتر بتر ہو جائیں۔ اور جب عبداللہ بن ابی بن سلول نے دیکھا کہ انصار جوش میں آ گئے ہیں تو جڑ پر تبر چلانا چاہا۔ یعنی خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی اور کہدیا لَئِنْ رَّجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْخنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ (منافقون ع ۱) یعنی ہمیں مدینے پہنچ لینے دو ہاں مدینہ کا سب سے بڑا آدمی (یعنی خود عبداللہ بن ابی) اس کے سب سے ذلیل آدمی کو (یعنی نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فداہ نفسی و روحی کو) وہاں سے نکال دے گا۔
کبھی یہ لوگ قومی گہنگاروں کی پیٹھ ٹھونکتے تھے کہ تا وہ جوش میں آ کر اسلام سے برگشتہ ہو جائیں کبھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے اعمال پر معترض ہوتے تاکہ لوگوں میں بد دلی پھیلائیں جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے وَمِنْھُمْ سمَنْ یَلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ (توبہ ع ۷) یعنی ان منافقوں میں سے وہ بھی ہیں جو تیری صدقات کی تقسیم پر معترض ہوتے ہیں۔ اس سے ان کی غرض یہ ہوتی تھی کہ جن کو صدقہ میں سے مال نہ ملا ہو ان میں بد دلی پیدا ہو۔ اسی طرح آپ کے متعلق اعتراض کرتے کہ ھُوَ اُذُنٌ (توبہ ع ۸) وہ تو کان ہی کان ہے یعنی اس نے تو چاروں طرف جاسوس چھوڑ رکھے ہوئے ہیں کوئی آدمی آزادی سے اپنے خیالات ظاہر نہیں کر سکتا۔ کبھی مشکلات کے وقت مسلمانوں میں بد دلی پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔ وَاِنْ تُصِبْکَ مُصِیبَۃٌ یَّقُوْ لُوْا قَدْ اَخَذْنَٓا اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ (توبہ ع ۷) یعنی اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مخلصین صحابہ کو کوئی نقصان جنگ میں پہنچتا تو کہتے کہ دیکھا یہ ہمارے مشورہ پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے ہم نے پہلے ہی صورتِ حالات کو بھانپ لیا تھا اور اس جنگ میں میں شامل نہ ہوئے تھے۔ کبھی کفار کو مسلمانوں کے خلاف جوش دلاتے جیسا کہ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نَافَقُوْ ایَقُوْ لُوْنَ لِاِ خْوَانِھِمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ امِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ لَئِنْ اُخْرِ جْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَلَا نُطِیْعُ فِیْکُمْ اَحَدًا اَبَدًا وَّاِنْ قُوْ تِلْتُمْ لَنَنْصُرَ نَّکُمْ وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّھُمْ لَکَا ذِبُوْن (حشر ع ۲) یعنی کیا تجھے ان منافقوں کا حال معلوم ہے کہ وہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں کو جاکر اُکساتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ چھوڑ جائیں گے اور تمہارے معاملہ میں ہم کسی کی بات نہ سنیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم
تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑیں گے لیکن اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں۔ چنانچہ ایسا ی ہوا کہ جب اہکتاب کو جلا وطن کیا گیا تو وہ لوگ ساتھ نہ نکلے۔ اورجب ان سے لڑائی ہوئی تو انہوں نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ کیونکہ ان کی اصل غرض تو مسلمانوں کے خلاف فساد پھیلانا تھی۔
اسی طرح ایک فساد کا طریق یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کرتے تھے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ اِذَا جَٓائَ ھُمْ اَمْرٌمِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَا عُوْابِہٖ (نساء ع ۱۱)جب کوئی امن یا خوف کی بات ان کو معلوم ہو جائے تو اسے خوب پھیلاتے ہیں تاکہ مسلمانوں میں فساد پیدا ہو جائے۔ خوف کی بات تو اس لئے کہ مسلمان ڈریں اور امن کی بات اس موقعہ پر کہ جب دیکھیں کہ بعض مسلمان اس صلح پر خوش نہیں تو ایسے موقعہ پر وہ مسلمانوں کو جوش دلانے کی کوشش کرتے اور کہتے کہ اس طرح صلح کر کے ہم کو ذلیل کیا جا رہا ہے۔
غرض منافق طرح طرح سے ملک میں فساد پیدا کرتے تھے اور اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب ان سے کہا جاتا کہ اس طرح فساد پیدا کرنے سے کیا فائدہ ایسا نہ کرو۔ تو وہ یہ جواب دیتے کہ ہم تو صرف اسلاح کے خاطر یہ سب کام کرتے ہیں۔ یہ بھی منافقوں کی ایک علامت ہے کہ اپنے گندے اعمال کو چھپانے کے لئے ہمیشہ اپنے اعمال کے لئے کوئی نہ کوئی ایسا بہانہ بنا لیتے ہیں کہ جس سے ان کے اعمال بظاہر نیک نظر آئیں۔ کسی موقعہ پر غریبوں کی امداد کا بہانہ کسی موقعہ پر مسلمانوں کو تباہی سے بچانے کا بہانہ۔ غرض اپنی بدنیتی کو نیک نیتی کے پردہ میں چھپانے کی کوشش ہمیشہ ان کی طرف سے ہوتی رہتی ہے۔ اور اگر وہ یہ نہ کریں تو اپنی نفاق کو چھپائیںکس طرح۔ ہر قوم اور ہر ملک کے منافق اسی طرح کرتے ہیں۔ اور جن قوموں کی تباہی کے دن آ جاتے ہیں وہ ان کے دھوکے میں آ کر سچے خیر خواہوںکو چھوڑ دیتی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو ان کے دھوکے سے بچایا اور ان کی شرارتیں انہی کے سروںپر الٹ پڑیں۔
منظم جماعتوں میں منافقوں کا گروہ ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ جب تنظیم نہ ہو تو منافقت کرنے کی ضرورت کم ہی ہوتی ہیں لیکن جب ایک جماعت منظم ہو۔ تو اسے چھوڑنا کمزور دل لوگوں کے لئے مشکل ہو جاتا ہے اس لئے وہ ایک طرف تو اپنی جماعت سے بھی تعلق بنائے رکھتے ہیں اور دوسری طرف خفیہ خفیہ اس کے مخالفوں سے بھی ساز باز شروع کر دیتے ہیں۔ جماعت احمدؐ یہ چونکہ ایک منظم جماعت ہے اسے اس خطرہ کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیئے۔ منافقوں کا وجود اس میں پایا جانا اس کی کمزوری کی علامت نہیں بلکہ اس کی تنظیم کا ثبوت ہے۔ ہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ منافقوں کی چالوں کو جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں سمجھے اور انہیں مدنظر رکھ کر منافقوں کو پہچانے اور ان سے وہی معاملہ کرے جو قرآن کریم نے تجویز کیا اور ان کے ہتھکنڈوںمیں نہ آئے کہ وہ شیطان کی طرح خیر خواہ بن کر ہی حملے کیا کرتے ہیں۔
۱۳؎ حل لغات۔
اَلَا کے معنے چوکس اور ہوشیار کرنے کے ہوتے ہیں نہ کہ دھمکی دینے کے پس خبردار کی بجائے ’’سنو‘‘ کا لفظ رکھا گیا ہے۔ جو ہوشیار کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہیں۔
وَلٰکِنْ:۔عربی میں وائو اور لٰکِنْ دو لفظ عطف کئے ہیں۔ اور ایک دوسرے کی تاکید کرتا ہے۔ اردو میں اس کی جگہ ’’ہاں مگر‘‘ یا ’’مگر‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
یَشْعُرُوْنً کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ ہذا ۱؎
تفسیر۔ منافقوں کے سا قول سے کہ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ اِس طرف اشارہ تھا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں مگر وہ لوگ جن کو سچا مسلمان کہا جاتا ہے فساد کرتے ہیں کیونکہ
اِنَّمَا حصر کے لئے آتا ہے۔ اور جب کوئی شخص کہے کہ میں ہی ایسا ہوں تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ میرے سوا دوسرے لوگ ایسے نہیں ہیں۔ ایسے ان کے جواب میں قرآن کریم میں ایسا ہی فقرہ استعمال فرمایا کہ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ یعنی سننے والے سن چھوڑیں کہ منافق ہی تو فساد کرنے والے ہیں اور الزام دوسرو دیتے ہیں۔
پہلے ثابت کیا جا چکا ہے کہ منافق قسم قسم کے فساد کرتے تھے مگر اپنے مفسدانہ اعمال کی کوئی نہ کوئی نیک توجیہہ پیش کر دیا کرتے تھے لیکن نیک توجیہہ بُرے کام کو اچھا نہیں بنا دیتی۔ اگر کوئی شخص کسی جماعت کے نظام یا عقیدہ سے خوش نہ ہو تو اس کا فرض ہوتا ہے کہ اس سے جدا ہو جائے نہ کہ اس میں رہ کر اس میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
اس آیت کے آخر میں منافقوں کے اندر شعور کی کمی بتائی ہے کیونکہ نفاق دل سے تعلق رکھتا ہے اور قوتِ شعور ہی سے اس کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ اگر منافق ظاہری تو جیہوں کی بجائے اپنے دلون کو پڑھنے کی کوشش کریں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ ان کے اعمال اصلاح کے خیال سے نہیں بلکہ بزدلی اور جماعت سے اختلاف رکھنے کے باعث ہیں اور اس طرح ان کو اپنی بیماری کا علم ہو جائے۔ مگر وہ اپنے دل کے خیالات کو بھی صحیح پر پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے اور اس طرح دوسروں کو دھوکہ دینے کی بجائے اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔
۱۴؎ حل لغات۔
اٰمِنُوْا: اٰمَنَ سے جمع مرکب کا صیغہ ہے۔ اوراٰمَنَ کے لئے دیکھیں حل لغات سورۃ ہذا ۹؎
اَلسُّفَھَآئُ:۔ سَفِیْہٌ کی جمع ہے جو سَفِہَ سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے اور سَفِہَ عَلَیْنَا کے معنے ہیں جَھِلَ و ہ جہالت سے پیش آیا۔ سَفِھَتِ الطَّعْنَہُ : اَسْرَعَ مِنْھَا الدَّمُ وَخَفَّ۔ خون نیزہ کے زخم سے تیزی سے نکل کر ہلکے طور پر بہا۔ سَفِہَ نَصِیْبَہٗ : نَسِیَہٗ اپنے حصہ کو بھول گیا۔ اَلسَّفَہُ کے معنے ہیں۔ خِفَّۃُ الْعِلْمِ اَوْنَقِیْضُہٗ بیوقوفی۔ کم عقلی۔ برداشت کا کم ہونا۔ اَوِ الْجَھْلُ۔ جہالت۔ وَ اَصْلُہُ الْخِفَّۃُ وَالْحَرَکَۃُ وَالْاِ ضْطِرَابُ اس کے اصل معنے ہلکاپن۔ حرکت اور اضطراب کے ہیں۔ اور اَلسَّفِیْہُ کے معنے ہیں ذُوالسَّفَہِ ایسا شخص جس میں عقل۔ صبر اور برداشت کم ہوں۔ (اقرب) مضردات میں ہے اَلسَّفَہُ : اَلْخِفَّۃُ فِی الْبَدَنِ وَ مِنْہُ قِیْلَ زَمَامٌ سَفِیْہٌ کَثِیُر الْا ضِطِرَابِ وَ ثَوْبٌ سَفِیْہٌ: رَدِیُّ النَّسْج۔ اَلسَّفَہُ کے معنے اونٹ کی ایسی مہار کو جو ہلکا ہونے کی وجہ سے بہت حرکت کرے زَمَامٌ سَفِیْہُ کہتے ہیں۔ بدن میں ہلکا پن کا پایا جانا۔ اس واسطے اونٹ کی ایسی مہار کو جو ہلکا ہونے کی وجہ سے بہت حرکت کرے زَمَامرٌ سَفِیْہُ کہتے ہیں۔ اور ایسا کپڑا جو ناقص طور پر بنا ہوا ہو اور وہ بہت کم قیمت سمجھا جائے اسے ثَوْبٌ سَفِیْہٌ کہتے ہیں۔ وَاسْتُعْمِلَ فِیْ خِفَّۃِ النَّفْسِ وَ
نُقْصَانِ الْعَقْلِ وَفِی الْاُ مُوْرِ الدُّنْیَوِیَّۃِ وَالْاُ خْرَوِیَّۃِ۔ اور دینی یا دنیوی امور میں سمجھ اور عقل نہ ہونے کی وجہ سے جو نفس میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے۔ اس پر بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے (مضردات) لسانی العرب میں ہے کہ جب سَافَھْتُ الشَّرَابَ کا فقرہ بولیں تو معنے یہ ہوں گے۔ اِذَا اَسْوَفْتُ فِیْہِ کہ میں نے شراب کے خرچ کرنے میں اسراف سے کام لیا۔ پس سَفِیْہٌ کے معنے ہوں گے (۱) خضیف العقل (۲) جاہل (۳) جس کی رائے میں اضطراب ہو۔ استقامت نہ ہو (۴) ایسا شخص جو دینی و دنیوی عقل عمدہ نہ رکھتا ہو (۵) جس کی رائے کی کچھ قیمت نہ ہو (۶) جو شخص اپنی قیمتی اشیاء کو بے سوچے خرچ کر دے۔
لَایَعْلَمُوْنَ: عَلِمَ سے مضارع منفی جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اور عَلِمَہٗ (یَعْلَمُہٗ) کے معنے تَیَقَّنَہٗ وَعَرَفَہٗ کسی چیز کا یقین کر لیا اور اس کو جان لیا۔ جب سمجھنے کے معنوں میں استعمال ہو تو اس وقت اس کے دو مفعول آئیں گے اور اگر معرفت کے معنوں میں استعمال ہو تو ایک عَلِمَ الْاَمْرَ کے معنے ہیں اَتْقَنَہٗ کسی کام کو مضبوط کیا۔ عَلِمَ الشَّیْ ئَ وَ بِالشَّیْئِ: شَعَرَبِہٖ وَاَحَاطَہٗ وَاَدْرَکَہٗ کسی چیز کی پوری واقفیت حاصل کر لی۔ اس کی حقیقت کا احاطہ کر لیا۔ اس کا پورا علم حاصل کر لیا۔ اور اَلْعِلْمُ کے معنے ہیں اِدْرَاکُ الشَّیْئِ بِحَقِیْقَتِہٖ کسی چیز حقیقت کو معلوم کر لینا (اقرب) پس لَایَعْلَمُوْنَ کے معنے ہوں گے۔ وہ حقیقت کو نہیں جانتے۔
تفسیر۔ گو اس آیت میں صیغہ مجہول کا استعمال کیا گیا ہے مگر گذشتہ آیات کو دیکھتے ہوئے کہنے والے مسلمان ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب مسلمان ان منافقوں سے کہتے ہیں کہ جس طرح دوسرے شریف آدمی ایمان لائے ہیں او راپنے عہد کے پکے ہیں تم بھی اسی طرح ایمان لائو۔ یہ کیا کہ کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر۔ دل مںی کچھ اور زبان پر کچھ۔ تو منافق اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ جن لوگوں کی طرح ایمان لانے کا تم ہم کو مشورہ دیتے ہوں وہ تم کو عقل ہیں اور اپنی جانوں اور مالوں کو بے دریغ لٹا رہے ہیں۔ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم بھی ان کی طرح بے عقل ہو جائیں۔ ایک مٹی بھر آدمی ہیں اور ساری دنیا سے مقابلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان کو چاہیئے تھا کہ سمجھ سے کام لیتے اور سب سے تعلقات بنا کر رکھتے جس طرح ہم سب سے تعلق بنا کر رکھتے ہیں۔
حل لغات میں بتایا جا چکا ہے کہ سَفِیْہٌ جس کی جمع سُفَھَائُ سے سَفَہَ سے نکلا اور اس کے معنے قلب عقل کے بھی ہوتے ہیں۔ اور بے دریغ اپنے اموال کو لٹانے کے بھی ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ آتا ہے وَلَا تُؤْ تُوا الشُّفَھَآئَ اَمْوَ الَکُمُ (نساء ع ۱) اپنے مال ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہ دو جو ان کو خرچ کرنا نہ جانتے ہوں اور ان کو ضائع کر دیں۔ منافقوں کا مسلمانوں کو سُفَھَاء کہنا انہی معنوں میں ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ لوگ نہ اپنی جانوں کی حفاظت کر سکتے ہیں نہ اپنے مالوں کی اور یونہی بے سوچے سمجھے اپنی جانیں ضائع کر رہے ہیں اور مال لٹا رہے ہیں۔ لیکن ہم ہوشیار ہیں۔ ہم مسلمانوں کے ساتھ بھی بنا کر رکھتے ہیں اور کفار سے بھی اس طرح ہم دونوں طرف کے خطروں سے محفوظ ہیں۔
منافقوں کا یہ اعتراض قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر بھی وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ چنانچہ آتا ہے کہ منافق اپنے ہموطنوں سے کہتے تھے لَاتُنِفْقُوْا عَلیٰ مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا (المنافقون ع ۱) یہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہیں اور ان پر خواہ مخواہ اپنے مال نہ خرچ کرو تاکہ یہ پراگندہ ہو جائیں اور تم اس وبال سے محفوظ ہو جائو۔ اسی طرح آتا ہے اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَالَّذِیْنَ لَایَجِدُوْنَ اِلَّا جُہْدَ ھُمْ فَیَسْحَرُوْنَ مِنْھُمْ (توبہ ع ۱۰) یعنی منافق لوگ ان پر بھی ہنسی اڑاتے ہیں جو صاحب توفیق ہو کر بڑھ بڑھ کر چندے دیتے ہیں اور ان پر بھی جو صاحبِ توفیق
نہیں۔ اور جو کچھ تھوڑا سامال ان کے پاس ہوتا ہے۔ حاضر کر دیتے ہیں۔ گویا ان کو دونو ںپر اعتراض تھا۔ جو صاحبِ استطاعت تھے انہیں کہتے تھے کہ دیکھو کیسے ریا کار ہیں اپنے مال شہرت کی خاطر لٹاتے ہیں۔ جو غریب تھے ان پر ہنستے تھے کہ کیسے بیوقوف ہیں کھانے کو ملتا نہیں اور چندے دئے جاتے ہیں۔ جانوں کے اسراف کے بارہ میں بھی ان کا اعتراض تھا۔ چنانچہ جنگ کا ذکر اور دشمنوں کے غلبہ اور کثرت کا ذکر کر کے فرماتا ہے کہ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ غَرَّا مٰٓؤُلَآئِ دِیْنُھُمْ (انفال ع ۷) یعنی منافق اور جن کے دلوں میں مرض ہے کہتے ہیں کہ ان مسلمانوں کو تو ان کے دین نے مفرور کر دیا ہے۔ یعنی دین میں جو وعدے ترقی کے مذکور ہیں ان سے دھوکہ کھا کر اپنی جانوں کی پروا نہیں کرتے اور جانیں قربان کرتے چلے جاتے ہیں اور انجام کو نہیں دیکھتے۔
غرض سَفِیْہٌ سے مراد منافقوں کی یہ ہے کہ مسلمان اپنی جانوں اور مالوں کو بے سوچے سمجھے برباد کر رہے ہیں اور ہم اپنی جانوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے مالوں کو بچا رہے ہیں۔ یہ اعتراض ہمیشہ بڑھنے والی قوموں پر ہوتا ہے۔ جب بھی خدا تعالیٰ کسی قوم کو بڑھانا چاہتا ہے ایسے ہی حالات میں بڑھاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ جو قوم کمزور اور بے سامان ہوتی ہے اور وہ اسے بے دریغ قربانی کا حکم دیتا ہے جو منافقوں اور دشمنوں کی نظر میں ایک لغو فعل نظر آتا ہے۔ کیونکہ وہ قربانی کی قیمت نہیں جانتے۔ ہاں جب کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو ان کی اولاد کہتی ہے کہ یہ کامیابی غیر معمولی نہیں اس کا سبب یہ تھا کہ مومن قربانی کرتے تھے اور ان کے مخالفت غافل تھے گویا پہلے ان کے آباء اور رنگ کا اعتراض کرتے ہیں اور اولاد بالکل الٹ قسم کے اعتراض شروع کر دیتی ہے۔ چنانچہ اسلام کی ابتداء میں تو یہ اعتراض کیا گیا کہ مسلمان تو بے وقوف ہیں۔ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو ضائع کر رہے ہیں۔ اور ایسے طور پر خرچ کر رہے ہیں کہ نتیجہ کچھ نہ نکلے گا یونہی اپنے مذہب کے جھوٹے وعدوں کے دھوکے میں آ گئے ہیں مگر جب اسلام کو غلبہ مل گیا تو اب ان کی اولاد یا ان کے اظلال یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کی ترقی کوئی معجزانہ ترقی نہ تھی۔ عربوں اور ایرانیوں اور رومیوں کے اخلاق تباہ ہو گئے تھے اور ان میں قوم کی خاطر قربانی کرنے کا جذبہ نہ رہا تھا اس لئے مسلمان غالب آ گئے۔ سچ ہے جب انسان سچائی کو چھوڑتا ہے تو کسی ایک مقام پر کھڑا نہیں ہو سکتا اسے بار بار اپنی جگہ بدلنی پڑتی ہیں۔ بھلا کوئی سوچے کہ اگر مسلمانوں کے اندر ایسی ہی کوئی غیر معمولی طاقت موجود تھی اور ان کے مدمقابل ایسے ہی کمز ور تھے تو اندرونی منافق اور بیرونی دشمن ان کی قربانیوں کو اسراف اور ان کے ارادوں کو جنون کیوں قرار دے رہے تھے۔
باقی رہا یہ کہ بعض اسباب ان کی تائید میں پیدا ہو گئے تو یہ معجزانہ غلبہ کے خلاف نہیں۔ اللہ تعالیٰ جب کوئی خبر دیتا ہے تواس کی تائید میں سامان بھی پیدا کر دیتا ہے۔ مگر وہ سامان مومنوں کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ آخر عربوں، ایرانیوں اور رومیوں کو سچی قربانیوں سے مسلمانوں نے تو محروم نہ کیا تھا۔ پھر یہ بھی تو دیکھنا چاہیئے کہ دونوں فریق کی طاقت کی باہمی نسبت کیا تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عربوں رومیوں اور ایرانیوں سے سچی قربانی کی روح چھین لی۔ مگر جس حد تک انہو ںنے طاقت خرچ کی مسلمانوں میں تو اس کے مقابلہ کی بھی ظاہر حالات میں طاقت نہ تھی پھر وہ کیونکر غالب آئے۔
منافقوں کی اس حالت کا کہ وہ کفار کے مقابلہ کو نادانی سمجھتے تھے ایک اور آیت میں بھی بیان کیا گیا ہے
فرماتا ہے۔ تَرَی الَّذِیْنَ فِی قُلُوْبِھِمْ مَّرَضَّ یُسٰرِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ فَعَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْ لِّیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍمِّنْ عِنْدِہٖ فَیُصْبِحُوْا عَلیٰ مَٓا اَسَرُّوْا فِٓیْ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِیْنَo ( مائدہ ع ۸) یعنی ان منافقو ںکا حال جن کے دلوں میں بیماری ہے تم دیکھتے ہیں کہ ہم تو اس سے اسلام میں بھاگ کر گھستے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اس سے ڈرتے ہیں کہ مسلمانوں کو شکست ہوئی تو انجام کیسا بُرا ہو گا۔ پس قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ فتح کے سامان پیدا کر دے یا اور کوئی ایسا امر ظاہر کر دے کہ یہ منافق ان خدشات کی وجہ سے جو ان کے دلوں میں پیدا ہو رہے ہیں شرمندہ ہو جائیں۔
اصل بات یہ ہے کہ فتح تو بہادروں اور قربانی کرنے والوں کا حق ہوتا ہے۔ اور مومن دنیا میں سب سے بہادر ہوتا ہے کیونکہ اس کی نظر آسمان کی طرف ہوتی ہے نہ کہ زمین پر۔ جو قوم بھی سچی قربانی سے ڈرتی ہے تباہ ہوتی ہے۔ جو اپنے مالوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں وہی انہیں ضائع کرتے ہیں جو انہیں صحیح طور پر خرچ کرتے ہیں ان کے مال ہزاروں گنے بڑھ کر واپس آتے ہیں۔
آخر آیت میں فرمایا کہ اصل میں یہی لوگ اپنے اموال اور جانوں کا نقصان کر رہے ہیں۔ کیونکہ نہ کفار نے فتح پانی ہے کہ ان کے ساتھ تعلق ان کے لئے مفید ثابت ہو اور نہ مسلمانوں نے ہارنا ہے کہ ان سے بگاڑا نہیں فائدہ پہنچا سکے۔ لیکن چونکہ یہ آئندہ کی بات ہے یہ جانتے نہیں۔ اور خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں کہ اس کی پیشگوئیوں کے ذریعہ سے اس حقیقت کو سمجھ سکیں۔ حالانکہ اگر جانتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ اس طریق عمل سے اپنے مالوں اور جانوں کو خطرہ میں ڈال رہے ہیں۔ ایک دوسری آیت میں اس کی تشریح اس طرح فرمائی ہے۔ فرماتا ہے وَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَا لُھُمْ وَاَوْلَا دُ ھُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّعَذِّ بَھُمْ بِھَا فِی الدُّنْیَا وَتَّزْھَقَ اَنْفُسُھُمْ وَھُمْ کٰفِرُوْنَ۔ (توبہ ع ۱۱) یعنی منافق لوگ اپنے مالوں اور اپنی اولادوں پر ناز کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ان کے مال بھی محفوظ ہیں اور جانیں بھی۔ کیونکہ وہ اپنی اولادوں کو جہاد پر جانے نہیں دیتے۔ لیکن مسلمان ان کے اس فخر سے دھوکہ نہ کھائیں۔ کیونکہ گو بظاہر وہ مالدار ہیں۔ اور بظاہر ان کی اولادیں گھروں میں آرام سے بسر کر رہی ہیں لیکن خدا تعالیٰ انہیں ان کے مالوں اور ان کی اولادوں کی ذریعہ سے اسی دنیا میں عذاب دے گا اور دنیا میں ذلیل ہو جانے کے بعد ایک دن کفر کی حالت میں یہ اس دنیا سے چل بسیں گے۔
یہ آیت منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی بن سلول پر خوب صادق آئی۔ وہ اپنی سب کوششوں کو نامراد ہوتے دیکھ کر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی دیکھ کر آپ کی زندگی میں ہی وفات پا گیا اور اس کا بیٹا نہایت مخلص ثابت ہؤا جو اس کے لئے مزید ذلت اور دکھ کا موجب تھا۔
۱۵؎ حل لغات
خَلَوْا:۔ خَلٰیکسے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اور خَلَا بِالشَّیْئِ کے