ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
معنے ہیں اِنْفَرَدَبِہٖ وَلَمْ یَخْلُطْ بِہٖ غَیْرَہُ۔ کسی چیز کو الگ رکھا اور اس کے ساتھ کسی اور چیز کو نہ ملایا خَلَابِفُلَانٍ وَمَعَہٗ وَاِلَیْہِ: سَاَلَہٗ اَنْ یَجْتَمِعَ بِہٖ فِیْ خِلْوَۃٍ فَفَعَلَ کسی سے علیٰحدہ ملنے کی خواہش کی اور دوسرے نے یہ بات مان لی۔ وَقِیْلَ اِنَّ اِلیٰ ھٰمُنَا بِمَعْنی مَعَ کَمَا فِیْ قَوْلِہٖ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وَ اِذَا خَلَوْا اِلیٰ شَیٰطِیْہِمْ میں اِلیٰ کے معنے مَعَ کے ہیں۔ یعنی جب وہ اپنے شیطانوں کے ساتھ علیٰحدہ ہوتے ہیں۔ جیسے کہ آیت مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ میں اِلیٰ کے معنے مَعَ کے ہیں اور خَلَاکَ ذَمٌّ کے معنے ہیں تجھ سے مذمت دور ہو جائے۔ (اقرب)
شَیٰطِیْنِھِمْ:۔ شَیْطَانٌ کی جمع ہے۔ اور یہ لفظ دو مختلف مادوں سے بن سکتا ہے (۱) شَطَنَ (۲) شَاطَ۔ اگر اسے شَطَنَ کے مادہ سے بنا ہوا قرار دیا جائے تو یہ فَیْعَالٌ کے وزن پر ہے۔ اور شَطَنَ عَنْہُ کے معنے ہیں اَبْعَدَ دور ہو گیا۔ شَطَنَ الدَّارُ کے معنے ہیں گھر دور ہو گیا (اقرب) اور اَلشَّطَنُ کے معنے ہیں اَلْحَبْلُ الطَّوِْیِّل لمبارسہ۔ اور شَطَنَ صَاحِبَہٗ کے معنے ہیں خَالَفَہٗ عَنْ نِیَّتِہٖ وَ وَجْھِہٖ اپنے ساتھی کی مخالفت کی۔ اس کو اس نے ارادہ اور مقصد سے پھرا دیا (اقرب) پس اس مادہ کے لحاظ سے اس کے معنے ہونگے کہ وہ ہستی جو حق سے خود بھی دور ہے اور دوسروں کو بھی دور کرنے والی ہے۔ اور وہ ہستی جسے ہر وقت شرارتیں ہی سوجھتی ہیں اور اس نے حق کی مخالفت کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ اور اگر شَاطَ اس کا مادہ مانا جائے تو اس کے معنے ہوں گے کہ وہ ہستی جو حد اور تعصب کی وجہ سے جل جائے یا ہلاک ہو جائے۔ کیونکہ شَاطَ الشَّیْ ئُ کے معنے ہیں اِخْتَرَقَ کوئی چیز جل گئی۔ اور اِسْتَشَاطَ غَضبًا کے معنے ہیں اِذَا احْتَدَّ فِیْ غَضْبِہٖ وَالْتَھَبَ کہ غصہ سے آگ بگولا ہو گیا۔ شَاطَ فُلَانٌ کے معنے ہیں ھَلَکَ ہلاک ہو گیا۔ شَیْطَان اس سے فَعْلَان کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اگر تو فَیْعَال کے وزن پر ہو تو یہ منصرف ہو گا وگرنہ غیر منصرف۔ ان معنوں کے علاوہ شیطان کے معنے لغت میں مندرجہ ذیل لکھے ہیں:۔
رُوْحٌ شَرِیْرٌ۔ بدروح۔ کُلُّ عَاتٍ مُتَمَرِّدٍ۔ ہر سرکش اور حد سے بڑہنے والا۔ اَلْحَیَّۃُ سانپ (سانپ کو اس لئے شیطان کہتے ہیں کہ یہ بھی لوگوں کو ہلاک کرتا ہے۔ مگر شیطان اسی سانپ کو کہتے ہیں جو چھوٹا ہو)۔ جو ہلاک ہونے والا ہو اس کو بھی شیطان کہتے ہیں۔ جو ہلاک ہونے والا ہو اس کو بھی شیطان کہتے ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ اکیلا سفر کرنے والا یا دو سفر کرنے والے شیطان ہیں۔ ہاں تین اشخاص جا سکتے ہیں۔ یعنی چونکہ اس وقت ڈاکے پڑتے تھے اور ہلاک ہونے کا خطرہ تھا۔ اس لئے فرمایا کہ دو شخصوں کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہیں۔ ہاں تین ہوں تو سلامت آ جانے کی امید ہو سکتی ہے۔ قاموس میں لکھا ہے:۔ وَ الشَّیْطَانُ مَعْرُوْفٌ وَ کُلُّ عَاتٍ مُتَمَرِّدٍ مِنْ اِنْسٍ اَوْجِنٍّ اَوْ دَآبَّۃٍ۔ یعنی ایک شیطان تو مشہور ہے ہی نیز ہر ایک حد سے بڑہنے والے سرکش کو بھی شیطان کہتے ہیں خواہ انسان ہو یا جن یا چارپایہ۔
مُسْتَھْرِئُ وْنَ: اِسْتَھْزَأَ سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اور اِسْتَھْزَأَ کے وہی معنے ہیں جو مجرد ھَزَأَ کے ہیں۔ کہتے ہیں ھَزَئَ بِہٖ وَمِنْہُ اَیْ سَخِرَینْہُ اس سے ہنسی ٹھٹھا کیا (اقرب) اور اَھْزَاَہُ الَْبَرَدُ کے معنے ہیں قَتَلَہٗ سردی نے اسے ہلاک کر دیا (لسان) پس مُسْتَھْزِیٌٔ کے معنے ہوں گے ہنسی کرنے والا اور مُسْتَھْزِئُ وْنَ کے معنے ہونگے ہنسی کرنے والے۔
لکھے جا چکے ہیں۔ ہر شخص جو حق سے دُور ہو یا بغض و کینہ سے جل رہا ہو یا سرکش اور باغی ہو شیطان کہلاتا ہے اس آیت کے مضمون سے ظاہر ہے کہ شیطان کا لفظ قرآن کریم میں یقینی طو رپر انسان کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔
اس آیت میں شیطاطین سے مراد کفار اور منافقین کے سردار ہیں جو کبر اور نخوت کے باعث خدا تعالیٰ کے دین سے دور اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے سے نفور رہتے تھے اور دوسرے زیر اثر لوگوں کو بھی صراط مستقیم کی طرف نہیں آنے دیتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کہیں گے۔ رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَا دَتَنَا وَکُبَرَآ ئَ نَا فَاَ ضَلُّوْنَا الصَّبِیْلَاo (احزاب ع ۸) کہ اے ہمارے رب ہم اپنے سرداروں اور بڑوں کے کہنے پر چلے جہنوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔ یہی وہ لوگ تھے جو منافقوں کو اکسانے والے تھے اور مسلمانوں کی ترقیوں کو دیکھ کر جلتے اور حق سے دور تھے۔ مسلمانوں سے جھگڑتے رہتے اور ان کاموں میں مشغول تھے جو ان کی ہلاکت کا باعث تھے۔ شیطان سے یہاں ابلیس مراد لینا صحیح نہیں اور نہ اس لفظ کے استعمال سے یہود اور مسیحیوں کے رئوساء کو گالی دی گئی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں اَلرَّا کِبُ شَیْطَانٌ وَالرَّاکِبَانِ شَیْطَانَانِ وَالثَّلٰثَۃُ رَکْبٌ یعنی سفر کی مصیبتو ںکی صورت میں اکیلا سفر کرنے والا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والا ہیں۔ دو کا بھی یہی حال ہیں تین ہوں تو مشکلات سے بچ سکتے ہیں۔ مسیمی معترضین مرقس باب ۸ آیت ۳۳ ملاخطہ کریں۔ ’’پر اس نے پھر کے اور اپنے شاگردوں پر نگاہ کر کے پھرس پر جھنجہلایا اور کہا اے شیطان میرے سامنے سے دور ہو۔‘‘ اسی طرح متی باب ۳۳ ملاخطہ ہو جہاں مسیح نے اپنی مخالف فقیہوں اور فریسیوں کو کہا ہیں ’’اے سانپو اور اے سانپ کے بچو تم جہنم کے عذاب سے کیونکر بھاگو گے۔‘‘ نیز متی باب ۳ آیت ۷ بھی ملاخطہ ہو جہاں لکھا ہیں۔ ’’پر جب اس نے دیکھا کہ بہت سے فریسی اور صدوقی بتپسمہ پانے کو اُس پاس آئے ہیں اور تو انہیں کہا کہ اے سانپو کے بچو تمہیں آنے والے غضب سے بھاگنا کس نے سکھلایا۔‘‘ انجیل میں ان حوالوں کی موجودگی کے باوجود مسیحیوں کا شیطان کے لفظ پر اعتراض کرنا جو گالی کے طور پر نہیں بلکہ محض ایک حقیقت کے اظہار کے لئے عربی محاورہ کے مطابق استعمال ہؤا ہے سخت تعجب انگیز ہے۔
شیطان کے جو معنے میں نے کئے ہیں وہ صحابہؓ اور اکابر علماء سے بھی ثابت ہیں۔ ابن جریر حضرت ابن عباسؓ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ مِنَ الْیَھُوْدِ الَّذِیْنَ یَاْ مُرُوْنَہُمْ بِالنَّکْذِیْبِ یعنی شیاطین سے منافقوں کے دوست یہودی مراد ہیں جو انہیں تکذیب اسلام کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ اسی طرح ابن جریر قتادہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اِذَا خَلَوْا اِلیٰ شَیٰطِیْنِھِمْ کے معنے ہیں اِخْوَانُھُمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ یعنی ان کے مشرک بھائی۔ اِسی طرح ابن جریر مجاہد کا قول نقل کرتے ہیں۔ اَصْحَابُھُمْ مِنَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُشْرِکِیْن یعنی ان کے منافق اور مشرک دوست۔ اسی طرح ابنِ جریر نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول نقل کیا ہے کہ شیاطین سے مراد رُئُ وْسُھُمْ فِی الْکُفِرْ یعنی ان کے کافر سردار مراد ہیں۔
مُسْتَھْزِئُ وْنَ بصیغہ اسم فاعل جو دوام اور ہمیشگی کا فائدہ دیتا ہے۔ منافق یہ ظاہر کرنا چاہتے
تھے کہ ہم مسلمانوں سے جب بھی ملتے ہیں استہزاء کے طو رپر ہی ملتے ہیں۔
۱۶؎ حل لغات
یَمُدُّھُمْ:۔ یَمُدُّ مَدَّسے مضارع واحد مذکر غائب کا علیغہ ہے۔ اور مَدَّہٗ فِیْ غَیِّہٖ کے معنے ہیں اَمْھَلَہٗ وَطَوَّلَ لَہٗ اس کو کسی بات میں مہلت دی اور اس کی میعاد کو لمبا کیا۔ (اقرب) تاج میں ہے مَدَّہٗ فِی الْغِیِّ وَالضَّلَالِ: اَمَّلیٰ لَہٗ وَ تَرَکَہٗ اس کو گمراہی میں پڑا رہنے دیا اور اس میں چھوڑ دیا۔ پس یَمُدُّ ھُمْ کے معنے ہونگے وہ انہیں چھوڑ دے گا۔ ان کو رہنے دے گا۔
طُغْیَانھمْ:۔ طُغْیَان مصدر ہے طَغِیَ یَطْغیٰ یا طَغیٰ یَطْغِی کی۔ اور اس کے علاوہ طَغًی اور طُغْیَانًا کی صورت پر بھی اس کی مصدر آتی ہے۔ طَغیٰ کے معنے ہیں جَاوَزَ الْقَدْرَ وَالْحَدَّ اندازہ اور حد سے بڑھ گیا۔ طَغَی الْکَافِرُ: غَلَا فِی لْکُفْرِ کفر میں زیادہ بڑھ گیا۔ طَغیٰ فُلَانٌ: اَسْرَفَ فِی الْمَعَاصِیْ وَالظُّلْمِ گناہ اور ظلم میں حد سے بڑھ گیا۔ طَغَی الْمَائُ : اِرْتَفَعَ پانی اونچا ہو گیا۔ طغیانی اور سیلاب آ گیا۔ (اقرب)
یَعْمَھُوْنَ: عَمَہ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ کہتے ہیں عَمَہ الرَّجُلُ جس کے معنے ہیں تَرَدَّدَ فِی الضَّلَالِ وَتَحَیَّرَ فِیْ مُنَازَعَۃٍ اَوْ طَرِیْقٍ وہ شخص گمراہی کی حالت میں حیران پھرتا رہا یا جھگڑے یا راستہ میں حیران رہ گیا کہ اصل حقیقت یا اصل راستہ کونسا ہے اور یہ بھی محاورہ ہے کہ جب کسی کو کوئی دلیل نہ سوجھے یا بات نہ آئے تو اسحالت کو بھی عَمَہٌ کہتے ہیں۔ جیسا کہ لکھا ہے اَلْعَمَدُ اَنْ لَایَعْرِفُ الْحُجَّۃَ یعنی عَمَہَ کے یہ معنے ہیں کہ انسان کو دلیل نظر نہ آئے۔ اس کا اسم فاعل عَامِہٌ ہے۔ اور اس کی جمع عُمَّہٌ اور ضیغہ مبالغہ عَمِہٌ ہے۔ جس کی جمع عَمِھُوْنَ آتی ہے۔ عَمِیَ کا لفظ جو قرآن کریم میں آتا ہے اور جس سے اَعْمٰی کا لفظ بنا ہے اس کے معنے بھی اندھے پن کے ہیں مگر زمخشری کا قول ہے کہ وہ عَمَہٌ سے عام ہے۔ اَعْمٰی اس شخص کو کہتے ہیں جو آنکھ یا عقل کا اندھا ہو مگر عَامِدٌ صرف اس کو کہتے ہیں جو عقل کا اندھا ہو۔ آنکھ کے اندھے کو عَامِہٌ نہیں کہتے۔ (اقرب) پس معنے یہ ہوئے کہ اپنی ظالمانہ زیادتیوں میں سرگردان پھرتے ہیں اور پھرتے رہیں گے۔ اور ان کی عقلیں ماری ہوئی ہیں اور ماری رہنے گی۔
تفسیر۔ اللہ تعالیٰ ان سے استہزاد کرے گا کے یہ معنے نہیں جیسا کہ بعض معترضین قرآن کریم نے سمجھا ہے کہ نعوذ باللہ مسلمانوں کا خدا استہزاء کرتا ہے۔ بلکہ اس جگہ جزائے جرم کے لئے جرم کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو عربی زبان کا عام قاعدہ ہے اور قرآن کریم میں مستعمل ہے اور مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے استہزاء کی انہیں سزا دے گا۔ (اس کی تفصیل کے لئے دیکھو نوٹ نمبر ۴ اور نمبر ۱۰)
قرآن کریم کی تعلیم اس بارہ میں صاف ہے کہ اللہ تعالیٰ استہزاء سے کام نہیں لیتا۔ چنانچہ اسی سورۃ میں (ع ۸)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے شرک کی عادات کو چھڑانے کے لئے ایک خاص گائے قربان کرنے کے لئے کہا تو انہوں نے جواب دیا اَتَّتَّخِذُنَا ھُزُوًا کیا آپ ہم سے ٹھٹھا کرتے ہیں۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ جواب نقل کیا گیا ہے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ جاہلوں میں شامل ہو جائوں یعنی استہزاء کرنا تو جاہلوں کا کام ہے اور میں تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہوں کہ جاہل نہ بنوں میں کس طرح استہزاء کر سکتا ہوں۔ پس جس پاک ہستی کی مدد سے بندے استہزاء سے بچتے ہیں اس کی طرف استہزاء کی نسبت قرآنی تعلیم کے مطابق کس طرح جائز ہو سکتی ہے۔
علاوہ ازیں استہزاء جھوٹ کو کہتے ہیں یعنی کہا کچھ جائے اور عدل میں کچھ اور مراد ہو۔ اور اس سے مخاطب کی تذلیل مراد ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلاًo(نساء ع ۱۸) یعنی اللہ تعالیٰ سے سچا اور کون ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہنسی مذاق کرنے والا شخص لغو گو ہوتا ہیں اور اللہ تعالیٰ کا نام قرآن کریم حکیم رکھتا ہیں یعنی جس کی ہر بات میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔پس اللہ تعالیٰ کی نسبت استہزاء کا لفظ محض ان معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ وہ منافقوں کو ان کے استہزاء کی سزا دے گا۔
ان معنوں کے علاوہ یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت جو لفظ استعمال ہو وہ ان معانی سے جدا ہو جاتا ہے جو بندہ کی نسبت استعمال ہونے کی صورت میں اس میں پائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نسبت بولنے کا لفظ بولا جائے تو یہ معنی نہیں کہ اس کی زبان اور ہونٹ ہیں جن کو اس نے ہلایا۔ بلکہ صرف یہ معنے ہیں کہ بولنے کا جو نتیجہ ہوتا ہے یعنی الفاظ کا پیدا ہونا وہ اس نے اپنی قدرت سے پیدا کر دیا۔ اللہ کی نسبت آتا ہے۔ لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْ ئٌ (شوری ع ۲) پس اس تاویل کے رو سے اللہ تعالیٰ کے استہزاء کرنے کے یہ معنے ہونگے کہ استہزاء کا نتیجہ اس نے ان کے حق میں پیدا کر دیا یعنی انہیں ذلیل کر دیا اور لوگوں کی نظروں میں قابل مضحکہ بنا دیا۔
یہ لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مومنوں کے سامنے منافقوں نے یہ کہا کہ ہم ہنسی کرنے والے ہیں۔ یہ ان کی فطرت کی شہادت ہے کہ مومن کیسے ہیں اور کافر کیسے ہیں۔ مومنوں کی نسبت وہ جانتے تھے کہ کافروں سے ہنسی کرنے کا عذر بھی قبول نہ کرینگے اور اسے بھی بُرا منائیں گے۔ اس لئے ان کے سامنے اصلاح کا عذر پیش کیا۔ مگر کافروں کی نسبت سمجھتے تھے کہ ان میں تقویٰ نہیں ہمارے استہزاء کے عذر پر بُرا نہ منائیں گے بلکہ بوجہ عداوت خود بھی اسے پسند کریں گے اور خوب خوش ہونگے کہ ہمارے ساتھیوں نے مسلمانوں کو بیوقوف بنایا۔ منافقوں کی یہ بے ساختہ شہادت مسلمانوں کے اعلیٰ اخلاق اور کفار کی تقویٰ سے دُوری کی عجیب مؤثر شہادت ہے۔
وَیَمُدُّ ھُمْ فِیْ طُغْیَا نِھِمْ: یَمُدُّ مَدٌّ سے نکلا ہے جس کے معنے مہلت دینے کے ہیں (تاج العروس) جلد ثانی و قاموس جلد اول) صاحب تفسیر روح المعانی زجاج اور ابن کیسان نے بھی یہی معنے کئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی یہی مروی ہے۔ سورۃ انعام ع ۱۳ میں فرمایا نَذَرُ ھُمْ فِیْ طُغْیَا نِہِمْ یَعُمَھُوْنَ جس سے مہلت دینے کے معنوی کی تائید ہوتی ہے۔ پس اس آیت کے یہ معنے ہوئے کہ باوجود ان کی شرارتوں کے خدا تعالیٰ ان کو مہلت دیتا ہے کہ وہ سنبھل جائیں مگر وہ طغیان میں بڑھتے جاتے ہیں۔
یہ معنے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کفار کو طغیان میں زیادہ
کرتا ہے۔ اس بات کو سورۃ فاطر ع ۴ میں خوب حل کر دیا ہے کہ مہلت گمراہ کرنے کے لئے نہیں دی جاتی بلکہ اس لئے کہ جو چاہیں اس عرصہ میں توبہ کر لیں۔ جیسا کہ فرمایا اَوَ لَمْ نُعَمِّرْ کُمْ مَّا یَتَذَ کَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَآئَ کُمْ النَّذِیْرُ یعنی کیا ہم نے تم کو اس قدر عمر نہ دی تھی کہ جس میں نصیحت پکڑنے والا نصیحت پکڑ لیتا ہے۔ اور تمہارے پاس ڈرانے والے بھی آئے۔ مگر تم نے نہ ڈھیل سے فائدہ اٹھایا نہ نذیر سے۔ اس سے ثابت ہوا کہ مہلت جو کفار کو ملتی ہے وہ گمراہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ ہدایت پانے کے لئے ملتی ہے۔
یَعْمَھُوْنَ۔ عَمَہُ سے نکلا ہے جو رستہ میں علامات اور نشانات نہ ہونے کو کہتے ہیں۔ اور اس کے تین معنے مستعمل ہیں۔ (۱) متحیر‘ حیران ہونا۔ (۲) رشد سے اندھا ہونا۔ (۳) سر نیچے کر لینا اور جو آگے سے آ رہا ہے اُسے نہ دیکھنا۔ یہاں یہ مراد ہے کہ منافقین جن شرارتوں میں پڑے ہوئے ہیں بلا سوچے سمجھے انہی میں بڑہتے جاتے ہیں۔
۱۷؎ حل لغات
اِشْتَرَوْا:۔ اِشْتَریٰ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اِشْتَرٰمہُ کے معنے ہیں مَلَکَہٗ بِالُبَیْعِ کسی چیز کا خرید کے ذریعہ سے مالک ہو گیا۔ بَاعَہٗ نیز اس کے معنے ہیں اس کو بیچا یعنی یہ لفظ اضداد میں سے ہے۔ اور متضاد معنے دیتا ہے خریدنے کے بھی اور بچنے کے بھی۔ وَکُلُّ مَنْ تَرَکَ شَیْئًا وَ تَمَسَّکَ بِغَیْرِہٖ فَقَدِ اشْتَرٰلہُ۔ ہر وہ شخص جو ایک چیز کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کو اس کی بجائے اختیار کر لے اس پر اِشْتَرٰی کا لفظ بولیں گے۔ گویا اس نے ایک چیز دے کر دوسری لے لی۔ (اقرب) عام طور پر شَرَا کسی چیز کو خرید نے اور لفظ بَیْع کسی چیز کے بیچنے کے معنوی میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جب سامان کو سامان کے بدلہ میںتبادلہ کیا جائے تو دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال کر لیا کرتے ہیں۔ لیکن لفظ شَرَا اور اِشْتَرٰی کا استعمال اس طرح بھی جائز ہے کہ جو شخص ایک چیز کو ترک کر دے اور دوسری کو اختیار کرے تو اس کی نسبت کہیں گے کہ شَوٰلہُ یا اِشْتَرٰلہُ (مضردات)
اَلضَّلٰلَۃُ : ضَلَّ یَضِلُّ کے معنے ہیںضِدُّ اِھْتَدٰی یعنی ہدایت کے خلاف حالت پر ہو گیا اور دین اور حق نہ پایا۔ ضَلَّ عَنْہُ یَضِلُّ : لَمْ یَھْتَدِ اِلَیْہِ اس طرف راہ نہ پائی۔ ضَلَّ یَضَلُّ (ضاد کی زبر سے) فُلَانٌ اَلطَّرِیْقَ وَعَنِ الطَّرِیْقِ : لَمْ یَھْتَدِ اِلَیْہِ راستہ نہ پایا۔ جب دار یا منزل یا ہر اپنی جگہ پر قائم رہنے والی چیز کا اس کے بعد ذکر ہو تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں۔ ضَلَّ الرَّجُلُ فِی الدِّیْنِ ضَلَا لًا وَضَلَالَۃَّ : ضِدُّ اِھْتَدٰی۔ اس شخص نے دین کے معاملہ میں درست راہ نہ پائی۔ ضَلَّ فُلَانُ اِلْفَرسَ فلاں شخص نے اپنا گھوڑا گم کر دیا۔ ضَلَّ عَنِّیْ کَذَا : ضَاعَ مجھ سے فلاں چیز ضائع ہو گئی۔ ضَلَّ الْمَائُ فِی اللَّبَنِ۔
خَفیِّ وَغَابَ پانی دودھ میں مل گیا اور غائب ہو گیا۔ ضَلَّ فُلَانٌ فُلَانًا: نَسِیَہٗ اس شخص کو بھول گیا۔ ضَلَّ النَّاسِیْ : غَابَعَنْہُ حِفْظُ الشَّیْئِ۔ بھول گیا۔ اس کے ذہن سے بات نکل گئی۔ ضَلَّ سَعْیُہٗ : عَمِلَ عَمَلًا لَمْ یَعُدْ عَلَیْہِ نَفْعُہٗ ایسا کام کیا کہ جس کا اسے کوئی نفع نہ ہوا۔ (اقرب) مزید تشریح کے لئے دیکھو سورۃ فاتحل حل لغات ۸؎
اَلْھُدٰی کے لئے دیکھو سورہ بقرہ حل لغات ۳؎ و سورۃ فاتحہ حل لغات ۷؎
رَبِحَتْ تِّجَارَتُہٗ کے معنے ہیں رَبِحَ فِیْھا کہ تاجر نے اپنی تجارت میں نفع اٹھایا (اقرب)
مُھْتَدِیْنَ : اِھْتَدٰی سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے۔ اور اِھْتَدٰی کے دہی معنے ہیں جو ھَدٰی کے ہیں۔ ھَدٰی کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ فاتحہ ۷؎
تفسیر۔ (۱) اِشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بالْھُدٰی کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ ان لوگوں نے ہدایت دے کر گمراہی کو خرید لیا ہے۔ دوسرے معنے یہ ہیں کہ ان لوگوں کے سامنے ہدایت اور ضلالت دونوں پیش کی گئی تھیں انہو ںنے ضلالت اختیار کر لی اور ہدایت ترک کر دی۔
پہلے معنوں کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک انسان کو فطرت صحیحہ عطا کی ہے ۔ اور اسے بہترین قویٰ دئے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔ فِطْرَت اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا (روم ع ۴) اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اور دوسری جگہ فرماتا ہے۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (تین) کہ ہم نے انسان کو بہترین طاقتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اسے اعلیٰ قویٰ دئے ہیں۔ پھر اس کے بعد وہ اپنی یا اپنے والدین کی خرابیوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے فطرت صحیحہ اور پاک قویٰ سے محروم ہو جاتا ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مَا مِنْ مَوْ لُوْدٍ اِلاَّ یُوْلَدُ عَلَے الْفِطْرَۃِ فَاَبَوٰلہُ یُھَوِّدَ انِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ اَوْیُنَصِّرَانِہٖ (مسلم جلد ۴ کتاب القدر) کہ بچہ تو فطرہِ صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اس کے بچپن سے فائدہ اٹھا کر اسے اپنے دین پر کر لیتے ہیں اور اسے یہودی یا مجوسی یا عیسائی بنا لیتے ہیں گویا وہ ان کی فطرتی ہدایت کو قربان کر دیتے ہیں اور اس کے بدلہ میں اسے گمراہی خرید دیتے ہیں۔ یا پھر وہ بڑا ہو کر خود اپنی اچھی طاقتوں کو بُرے طریق پر استعمال کر کے خراب کر لیتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے اسے جرأت عطا کی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ اس سے کسی کی مدد کرے وہ ظلم کرنے لگ جاتا ہے۔ اسی طرح اور اچھے جوہر جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کئے ہیں بُرے استعمال کی وجہ سے ضائع کر دیتا ہے۔ پس اس جگہ ہدایت سے وہ فطرتی نیک طاقتیں مراد ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہیں۔ اور اِشْتَرٰی کا مطلب یہ ہے کہ شر کہ لوگ ان پاک قویٰ کو جو ان کی ترقی کے لئے ان کو دئے گئے تھے بُرے مواقع پر استعمال کر کے ان سے گمراہی اور ضلالت خرید لیتے ہیں اور دینی اور دنیوی دونوں فائدوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
دوسرے معنوں کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور بدی کے امتیاز کی مقدرت اور اختیار دیا ہے۔ دوسری طرف نبیوں کے ذریعہ اس کے پاس نیکی کی تعلیم اور ہدایت بھیجدیتا ہے مگر ساتھ ہی شیطان اپنی بُری تعلیم اس کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جو لوگ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی عقل سے کام نہیں لیتے وہ خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت کو چھوڑ دیتے ہیں اور شیطان یا اس کے چیلوں کی پیش کی ہوئی
گمراہی کی باتوں کو قبول کر لیتے ہیں اور اس طرح ہدایت کو رد کر کے ضلالت کو اختیار کرنے والے ہو جاتے ہیں۔
(ب) فَمَارَ بِحَتْ تِّجَارَ تُھُمْ۔ چونکہ کفار نے ایک چیز چھوڑ دی اور دوسری اس کے بدلہ میں لے لی اس لئے اس کا نام تجارت رکھا گیا ہے۔ فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنے خیال میں ایک مفید تجارت کی ہے کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نیک فطرت کو ترک کر کے بُری باتوں کو اختیار کر لیا ہے۔ یا خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم کو چھوڑ کر شیطانی باتوں کو اختیار کر لیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ بہت فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن انہیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا بلکہ وہ نقصان اٹھائیں گے اور یہ سودا انہیں بہت مہنگا پڑے گا۔
(ج) وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَo یہ نتیجہ پہلے نتیجہ کے علاوہ ہے۔ اس میں بتایا ہے کہ ان کو صرف یہی نقصان نہیں ہو گا کہ وہ دنیا میں ذلیل ہوں گے اور نقصان اٹھائیں گے۔ بلکہ اس کا نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ وہ ہدایت سے محروم رہیں گے اور ان کی عاقبت بھی خراب ہو گی۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر فعل کے دو نتیجے نکلتے ہیں۔ ایک نتیجہ تو اس فعل کے ساتھ ہی نکلتا ہے اور دوسرا اس کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک انسان چوری کرتا ہے تو اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ وہ ذلیل ہو جاتا ہے اور پکڑا جاتا ہے اور قید ہوتا ہے یا اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے یا اور کوئی سزا پاتا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہدایت کے قبول کرنے کی قابلیت اس میں سے جاتی رہتی ہے اور وہ ہدایت سے دور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہر نیکی کا نتیجہ اس کے ساتھ ہی نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ مثلاً اس نیکی کی وجہ سے اس کے اس کے اپنے دل میں خوشی پیدا ہوتی ہے اور لوگوں میں اس کی عزت قائم ہو جاتی ہے اور وہ اسے اچھا خیال کرنے لگ جاتے ہیں۔ دوسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر ہدایت قبول کرنے کی قابلیت بڑہتی جاتی ہے اور وہ ہدایت میں ترقی کرتا جاتا ہے۔ وَمَاکَانُوْا مُھْتَدِیْنَ میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دوسرا نقصان انہیں یہ پہنچا کہ وہ ہدایت سے دور ہی دور ہوتے چلے گئے ہیں۔
۱۸؎ حل لغات
مَثَلُھُمْ:۔ اَلْمَثَلُ کے معنے ہیں اَلشِّبْہُ وَالنَّظِیْرُ۔ مشابہ اور نظیر۔ اَلصِّفَۃُ حالت۔ بیان۔ اَلْحُجَّۃً۔ دلیل۔ ثبوت۔ یُقَالُ اَقَامَ لَہٗ مَثَلاً اَیْ حُجَّۃً۔ اَقَامَلَہٗ مَثَلاً کہ کر مثل سے مراد دلیل لیتے ہیں۔ اَلْحَدِیْثَ بات۔ اَلْقَوْلُ السَّائِرُ۔ ضرب المثل اَلْعِبْرَۃُ۔ عبرت۔ اَلْاٰیَۃُ نشان (اقرب) مضردات میں ہے اَلْمَثَلُ عِبَادَۃٌ عَنْ قَوْلٍ فِیْ شَیْئٍ یُشْبِہُ قَوْلًا فِیْ شَیْئٍ اٰخَمَ بَیْنَھُمَا مُشَابَھَۃٌ لِیُبَیِّنَ اَحَدُ ھُمَا الْاٰخَرَ وَیُصَوِّرہٗ یعنی کسی چیز کے متعلق کسی دوسری چیز سے جو اس سے مشابہ ہو ملتا جلتا بیان کرنا تاکہ ان میں سے ایک کا ذکر دوسرے کی حقیقت کو واضح کر دے مثل کہلاتا ہے۔
اِسْتَوْقَدَ: اِسْتَوْقَدَ النَّارَ اِسْتِیْقَادًا کے معنے ہیں اَشْعَلَھَا آگ کو روشن کیا (اقرب)۔
اَضَآئَ ْت : اَضَآئَ سے واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے جو ضَائَ سے باب افعال ہے۔ اَضَآئَ لازم اور متعدی ہر دو طرح استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ یوں بھی کہتے ہیں اَضَآئَ تِ النَّارُ اَیْ اِسْتَنَارَتْ
کہ آگ روشن ہو گئی (لازم) اور یوں بھی کہتے ہیں کہ اَضَآء ھَا یعنی آگ کو کسی نے روشن کیا (متعدی) (مضردات)۔ اس آیت میں اَضَائَ متعدی استعمال ہوا ہے۔ اور فَلَمَّا اَضَآ ئَ تَ کے معنے ہیں کہ جب اس آگ نے روشن کر دیا۔
حَوْلَہٗ : کہتے ہیں قَعَدَ حَوْلَہٗ اَیْ فِی الْجِھَاتِ الْمُحِیْطَۃِ بِہٖ اس کے ارد گرد بیٹھا (اقرب)
ظُلُمٰتٌ : اَلظُّلُمَاتُ۔ اَلظُّلْمَۃُ کی جمع ہے اور اَلظُّلْمَۃُ کے معنے ہیں ذَھَابُ النُّوْرِ روشنی کا نہ ہونا یعنی اندھیرا۔ وَقِیْلَ ھِیَ عَدْمُ الضَّوْئِ عَمَّا مِنْ شَانِہٖ اَنْ یَکُوْنَ مُضِیْئًا اور بعض نے یہ معنے کئے ہیں کہ جس چیز کے لئے روشنی ضروری تھی اس سے اگر روشنی علیحدہ ہو جائے تو اس پر ظلمت کا لفظ بولتے ہیں وَرُبَّمَا کُنِیَ بِالظُّلْمَۃِ مَنِ الضَّلٰلَۃِ کَمَا یُکْنیٰ بِالنُّوْرِ عَنِ الْھُدٰی جس طرح نور کا لفظ بول کر ہدایت مراد لیتے ہیں۔ اسی طرح کبھی ظلمت کا لفظ بول کر اس سے ضلالت مراد لیتے ہیں۔ (اقرب) وَیُعَبَّرُبِھَا عَنِ الْجَھْلِ وَ الشِّرْکِ وَ الْفِسْقِ اور جہل اور شرک اور فسق کو بھی ظلمت کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (مفردات)
اندھیروں کا لفظ اس امر کے اظہار کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ صرف ظاہری تاریکی ہی نہیں بلکہ وہ جگہ بھی پر خطر ہے اور ظاہری اندھیرے کے ساتھ اور کئی قسم کے خطرات اور ظاہری اندھیر کے ساتھ اور کئی قسم کے کے خطرات بھی لاحق ہو گئے ہیں۔ اردو میں چونکہ اندھیرے کا لفظ اس موقعہ پر جمع کے صیغہ میں استعمال نہیں ہوتا۔ اور اگر استعمال بھی کر لیں تو وہ معنے نہیں دیتا جو عربی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لئے ’’قسما قسم‘‘ کے الفاظ خطوط میں بڑھا دئے گئے ہیں تا اصل مفہوم پڑھنے والے پر ظاہر ہو جائے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ہمیشہ جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ لیکن جب بھی استعمال ہوا ہے اخلاقی یا روحانی امر کی تمثیل بیان کرنے کے لئے ہوا ہے۔ کیونکہ گناہ اور بد اخلاقیاں اکیلی نہیں رہتیں۔ بلکہ ایک گناہ دوسرے گناہ کو اور ایک مصیبت دوسری مصیبت کو کھینچتی ہے۔
لَایُبْصِرُوْنَ: لَایُبْصِرُوْنَ اَبْصَرَ سے مضارع منفی جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اور اَبْصَرَہٗ کے معنے ہیں رَاٰہُ اس کو دیکھا۔ وَاَخْبَرَہٗ بِمَا وَقَعَتْ عَیْنُدٗ عَلَیْہِ اور جس پر اس کی نگاہ پڑی اس کے متعلق خبر دی۔ اَبْصَرَ فُلَانًا : جَعَلَہٗ بَصِیْرًا کسی کو دیکھنے والا بنا دیا۔ اَبْصَرَ الطَّرِیْقَ۔ اِسْتَبَانَ وَ وَضَحَ راستہ واضح ہو گیا (اقرب)
تفسیر۔ اس آیت میں اعتقادی منافقوں کی جو دل سے کافر تھے مگر بظاہر مسلمانوں سے ملے ہوئے تھے۔ ایک مثال دی ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اس مثال سے ملتے ہوئے بعض الفاظ بیان فرمائے ہیں جن سے بعض لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ وہ اِس آیت کی تشریح میں ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ درست نہیں۔ وہ حدیث جسے اِس آیت کی تشریح سمجھا گیا ہے یوں ہے۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اِنَّمَا مَثَلِیْ وَ مَثَلُ اُمَّتِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اِسْتَوْقَدَ نَارًا فَجَعَلَتِ الدَّ وَآبُّ وَالْفَرَاشُ یَقَعْنَ فِیْہِ (فِیْھَا) فَاَنَا اٰخِذٌ بِحَجزِ کُمْ وَ اَنْتُمْ تَقَعُوْنَ فِیْہِ (مسلم جلد چہارم۔ کتاب الفضائل باب شفقتہ علیٰ آمتہ) یعنی حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میری حالت اور میری امت کی حالت اس شخص کی طرح ہے جس نے
آگ جلائی۔ جب آگ جل اٹھی تو کیڑے مکوڑے آگ میں گرنے لگے۔ پس میں تو تمہاری کمروں کو پکڑتا ہوں کہ آگ میں نہ گر جائو اور تم اس میں بے تحاشا گر رہے ہو۔
اس حدیث میں بے شک ایک تمثیل بھی بیان کی گئی ہے۔ نیز اس میں آگ جلانے والے ایک شخص کا بھی ذکر ہے۔ مگر ساتھ ہی اس میں یہ لفظ بھی ہیں کہ یہ میری اور میری امت کی مثال ہے۔ لیکن جن کفار کا آیت زیر تفسیر میں ذکر ہے وہ تو اعتقادی کافر ہیں۔ یعنی دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ من ذالک جھوٹا سمجھتے ہیں اور ان کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا ھُمْ بِمُؤْ مِنِیْنَ۔ وہ ہر گز مومن نہیں۔ ایسے لوگوں کو امت رسول اللہؐ کس طرح کہا جا سکتا ہے۔ پس اِس حدیث میں اس آیت سے ملتے جلتے ہوئے الفاظ بے شک ہیں لیکن اس میں ان منافقوں کا ذکر نہیں بلکہ امت کپے بعض گنہگاروں کا ذکر ہے جو عقیدہً تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں لیکن پورا تقویٰ نصیب نہ ہونے کی وجہ سے اعمال میں کمزور ہوتے ہیں۔
میرے نزدیک اِس آیت میں منافقوں کی حالت بیان کی گئی ہے کہ پہلے تو انہوں نے خود آگ جلائی مگر جب اس آگ کا نور پھیل گیا تو بینائی سے محروم ہو گئے اور اس سے فائدہ نہ حاصل کر سکے۔ آگ جلانے سے یہاں مراد اسلام کو مدینہ میں بلوانا ہے۔ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں آنے کی دعوت دی گئی تو اس میں سب ہی اہل مدینہ شامل تھے اور یہ منافق بھی سب کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے مگر جب اسلام کی روشنی پھیل گئی تو ان کے دلوں کے بغضوں اور کینوں نے انہیں حسد پر مجبور کر دیا اور آخر بینائی بھی کھو بیٹھے۔ یہ ایک روحانی حقیقت ہیں کہ جب انسان راستہ کو قبول کر کے پیچھے ہٹتا ہے تو جو نیکی کا مقام اسے پہلے حاصل تھا اسے بھی کھو بیٹھتا ہے۔
آگ سے الٰہی تعلیم اور آسمانی نشانات کا مراد لینا قرآن کریم کی دوسری آیات سے ثابت ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب وہ مدین سے واپس آ رہے تھے تو انہوں نے الٰہی تجلی کو آگ کی شکل میں دیکھا۔ چنانچہ فرماتا ہے اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا (قصص ع ۴) انہو ںنے طو رکی جانب ایک آگ دیکھی۔ پھر آگے ذکر ہے کہ جب وہ اس آگ کے پاس آئے۔ تو انہیں آواز آئی کہ یٰمُوْسٰٓی اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ اے موسیٰ میں یقینا اللہ سب جہانوں کا رب ہوں۔ پس آگ کا لفظ تجلی الٰہی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور یہاں بھی یہی مراد ہو سکتا ہے اور مطلب یہ ہے کہ پہلے تو ان لوگوں نے آگ جلائی یعنی اللہ تعالیٰ کی تجلی کو یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں بلوایا مگر بعد میں حسد کرنے لگ گئے۔ اور آپ کے ساتھ وابستگی کے فوائد سے محروم رہ گئے۔
قرآن کریم میں ایک اور جگہ بھی الٰہی کلام کے نزول کو نار سے تشبیہ دی گئی ہے اور وہ یہ ہے:۔ یَکَارُ زَیْتُھَا یُضِیْٓ ئُ وُلَوُ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ (نور ع ۸) یعنی فطرۃ صحیحہ کا تیل ایسی اعلیٰ طاقت رکھتا ہے کہ الہام کی آگے سے روشن ہونے کے بغیر بھی جلنے کے قریب ہوتا ہے۔ یعنی گو جلتا تو الہام کی آگ سے ہی ہے مگر استعداد کے لحاظ سے وہ بھڑکنے کے قریب ہوتا ہے۔
غرض قرآنی محاورہ کے مطابق آگ کا لفظ الٰہی جلوہ یا الٰہی کلام پر بھی دلالت کرتا ہے۔ اور اس
محاورہ کے مطابق اس آیت کا یہی مفہوم ہے کہ منافقوں نے خدا کے کلام کی آگ کو اپنے گھروں میں روشن کیا مگر بعد میں اس کے فوائد سے محروم ہو گئے۔
آگ کے لفظ کا الٰہی جلوہ یا کلام الٰہی کے لئے استعمال کرناکوئی معیوب امر نہیں۔ کیونکہ آگ بے شک جلانے والی چیز ہے۔ لیکن محبت کے لئے بھی آگ کا لفظ مستعمل ہے کیونکہ وہ ایک نہ مٹنے والی خواہش کو پیدا کر دیتی ہے۔ اسی طرح جو چیز گندے خیالات اور گناہ کی خواہش کو مٹا دے اور بھسم کر دے۔ اسے آگ سے تشبیہ دینا بالکل درست اور ایک لطیف تشبیہ ہو گی۔ اور جلوہ الٰہی اور کلام الٰہی کا یہی کام ہے۔ پس ان کی اس تاثیر کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو آگ سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ جس طرح بعض تاثیرات کے لحاظ سے انہیں پانی سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اور قرآن کریم نے دی ہے۔
آگ عربی کی محاورہ میں جنگ کو بھی کہتے ہیں اس محاورہ کے رو سے اس آیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ منافقوں نے کفار سے منصوبے کر کے جنگ کی آگ بھڑکائی۔ اور خیال کیا کہ اس طرح محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو نقصان پہنچا سکیں گے۔ لیکن نتیجہ الٹا نکلا۔ ان جنگوں سے اسلام کو اور بھی تقویت پہنچی اور اسلام کی شان اور بھی بڑھ گئی۔ اور یہ بجائے فائدہ اٹھانے کے اپنی بینائی کھو بیٹھے یعنی حیران رہ گئے کہ اب کیا کریں کہ نتیجہ تو ہماری توقع کے خلاف نکلا۔
آگ کا لفظ ان معنوں میں عرب میں عام طور پر مستعمل ہے۔ کہتے ہیں۔ خَمَدَتْ نَارُہٗ اس کی آگ بجھ گئی یعنی لڑائی میں اس کا جتھا شکست کھا گیا۔ عربو ںمیں آگ کا جنگ سے اس قدر تعلق سمجھا جاتا تھا کہ اگر لڑائی کے میدان میں کسی لشکر کی آگ بجھ جاتی تو وہ اسے اپنی شکست کا شگون سمجھتا تھا۔ چنانچہ غزوۂ احزاب کے موقعہ پر ابو سفیان اس لئے میدان سے بھاگ کھڑا ہوا تھا کہ اس کی آگ بجھ گئی تھی۔ قرآن کریم نے بھی اس محاورہ کو استعمال فرمایا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ کُلَّمَآ اَوْ قَدُ وْانَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْغَاَھَا اللّٰہُ (مائدہ ع ۹) یعنی جب بھی وہ لڑائی کی آگ جلاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے۔ یعنی ان کی شکست اور ذلت کے سامان پیدا کر دیتا ہے۔ پس اس محاورہ کی روشنی میں اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ منافقوں نے لڑائی کی آگ تو اس لئے جلائی تھی کہ اسلام تباہ ہو۔ اُلٹے خود تباہ ہو گئے۔
ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِ ھِمْ کے ایک معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جنگوں کی وجہ سے اسلام کا نورانی جبہ جو منافقوں نے پہن رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اتار لیا یعنی کفار کو فتح تو ملی نہیں الٹا ان کا نفاق ظاہر ہو گیا۔ کیونکہ جب وہ مسلمانوں کی امداد سے دستکش ہو گئے۔ اور لڑائیوں میں شامل نہ ہوئے تو ان کے اسلام کے دعوویٰ کی قلعی کھل گئی۔ اور جو مسلمان غلطی سے ان پر حسن ظنی رکھتے تھے ان پر کھل گیا کہ یہ لوگ منافق ہیں اور اسلام سے ان کو کوئی لگائو نہیں۔ دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ اسلام کی ترقی نپے منافقوں کی حقیقت کو آشکار کر دیا۔ کیونکہ جوں جوں دین کامل ہوتا جاتا ہے اور نورِ الٰہی ترقی کرتا جاتا ہے۔ شریعت کے احکام بڑھتے جاتے ہیں اور منافقوں کے لئے اس پر عمل کرنا زیادہ سے زیادہ دو بھر ہوتا جاتا ہے۔ اور ان کی منافقت کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ اور نور کا لباس ان سے چھن جاتا ہیں۔
تَرَکَھُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّایُبْصِرُوْنَ سے