ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اس کی تفسیر کی ہے مجملاً کی ہے الگ الگ حصو ںکا کلی تطابق نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے اس کی اس طرح وضاحت کر دی ہے کہ اس کے ہر حصہ کا الگ الگ بھی اور دوسرے حصوں کے ساتھ مل کر بھی مضمون ہو جتا ہے اور کوئی اغلاق نظر نہیں آتا۔
بعض لوگ شبہ کرتے ہیں کہ عملی منافق کوا وجود قرآن کریم سے ثابت نہیں اور یہ کہ دوسری مثال بھی اعتقادی منافقوں کے متعلق ہے چنانچہ مجھے یاد ہے کہ جب ہم حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے قرآن کریم پڑھا کرتے تھے تو حافظ روشن علی صاحب مرحوم جو ہماری جماعت کے بڑے پایہ کے عالم تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو قرآن کریم کے مضامین کے اخذ کرنے کا خاص ملکہ دیا تھا (اللہ تعالیٰ ان پر اپنی برکات نازل فرمائے اور ان کی رُوح کو اپے قرب میں جگہ دے) اکثر حضرت خلیفتہ المسیحؓ سے بحث کیا کرتے تھے کہ عملی منافق کا وجود عقلاً محال ہے منافق اسی کو کہتے ہیں کہ جس کا عقیدہ خراب ہو مگر علاوہ اس کے کہ ان آیات میں ایک حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی مل گئی ہے جس میں عملی منافقوں کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ حدیث یہ ہے عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْقُلُوْبُ اَرْبَعَۃٌ قَلَبٌ اَجْوَدُفِیْہِ مِثْلُ السِرَاجِ یَزْھَرُ وَ قَلْبٌ اَغْلَفُ مَرْبُوْطٌ عَلیٰ اَغْلَافِہٖ وَ قَلْبٌ مَنْکُوْسٌ وَقَلْبٌ مُصَفَّحٌ فَاَمَّا الْقَلْبُ الاَجْرَدُ فَقَلْبُ الْمُؤْمِنِ سِرَاجُہٗ فِیْہِ نُوْرُہٗ وَ اَمَّا الْقَلْبُ الْاَ غْلَفُ فَقَلْبُ الْکَافِرِ وَ اَمَّا الْقَلْبُ الْمَنْکُوْسُ فَقَلْبُ الْمُنَافِقِ عَرَفَ ثُمَّ اَنْکَرَ وَ اَمَّا الْقَلْبُ الْمُصَفَّحُ فَقَلْبٌ فِیْہِ اِیْمَانٌ وَنِفَاقٌ فَمَثَلُ الْاِیْمَانِ فِیْہ کَمَثَلِ الْبَقْلَۃِ یَمُدُّھَا اثمَائُ الطَّیِّبُ وَمَثَلُ النِّفَاقِ فِیْہِ کَمَثَلِ الْقَرْعَۃِ یَمُدُّ الْقَیْحُ وَ الدّمُ فَاَییّ المَدَّتَینِ غَلَبَتْ عَلیٰ الْاُخْرٰی غَلَبَتْ عَلَیْہِ (مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۱۷) یعنی انسانی دل چار قسم کے ہوتے ہیں ایک مصفے شفاف تلوار کی طرح ستا ہوا خدمت دین کے لئے تیار اور دوسرا وہ دل ہوتا ہے کہ اس پر غلاف چڑھاہوا ہوتا ہے اور غلاف بھی وہ جو خوب بندھا ہوا ہو اور تیسرا وہ دل جو اوندھا رکھا ہوا ہو اور چوتھا وہ دل جو ٹیڑھا رکھا ہوا ہو یا پتھروں کے نیچے دبا ہوا ہو۔ وہ جو پہلا دل ہے یعنی صاف وہ تو مومن کا دل ہے اس کا دیا وہ نور ہے جو اس کے دل میں پیدا ہے۔ اور وہ دل جو غلافوں میں بند ہے کافر کا دل ہے (کہ صداقت اس کے اندر نہیں جاتی اور کفر باہر نہیں نکلتا) اور اوندھا رکھا ہوا دل منافق کا دل ہے جو پہلے صداقت کو مان لیتا ہے پھر اس کا ایمان ضائع ہو جاتا ہے اور وہ دل جو ٹیڑھا رکھا ہوا ہے یا پتھروں میں دبا ہوا ہے وہ اس شخص کا دل ہے جس میں ایمان اور نفاق دونو ںپائے جاتے ہیں اس کے ایمان کی حالت تو اچھی سبزی کے مشابہ ہے جسے پاک پانی مل رہا ہو اور اس کے نفاق کی حالت ایک زخم کی سی ہے جسے پیپ اور خون خراب کر رہا ہو پھر ان دونوں سے جو حالت غالب آ جائے وہ اسی گروہ میں شامل ہو جاتا ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہے کہ ایک منافق وہ ہوتا ہے جو ایمان کے لحاظ تو مسلمانوں میں شامل ہوتا ہے مگر عملی لحاط سے اس میں کمزوریاں ہوتی ہیں اگر اس کی ایمانی حالت غالب آ جائے تو وہ مومن ہو جاتا ہے اور نفاق کی حالت غالب آ جائے تو پورا منافق ہو جاتا ہے یعنی ایمان ضائع ہو جاتا ہے یہ مضمون آیات مذکورہ بالا کی تشریح ہے کیونکہ ان آیات میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ایسے شخص کی روحانی شنوائی اور بینائی باطل نہیں ہوئی لیکن اگر یہ حالت دیر پا رہی تو ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔
ان آیات نے مومن کو بہت ہوشیار کیا ہے ان میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جب بھی کوئی ہدایت آتی ہے اس کے ساتھ شروع میں بہت سی مشکلات اور مصیبتیں
لپٹی ہوئی ہوتی ہیں دین کا راستہ پھولوں کی سیج نہیں ہوتا بلکہ خار دار جنگلوں میں سے گزر کر انسان گوہر مراد کو پاتا ہے پس اگر ایمان چاہو تو ان مصائب کو برداشت کرنا پڑے گا اور وہ قربانیاں ضروری دینی پڑے گی جو اس مُراد کے حصول کے لئے مقرر کی گئی ہیں جو شخص ایمان لینا چاہے لیکن قربانیاں پیش نہ کرنا چاہے وہ بیوقوف ہے اور نفقا کی راہ سے خدا تعالیٰ کو پانا چاہتا ہے وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اگر صداقت کے متلاشی اس گر کو سمجھ لیں تو ان کی کامیابی یقینی ہے ورنہ وہ خیالی پلائو پکانے والے ثابت ہونگے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کی بجائے اس کے غضب کو اپنے پر وارد کر لیں گے۔ العیاذ باللہ۔
اِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِ شَیْئٍ قَدِیْر اس میں یہ بتایا کہ کمزور ایمان والو ںکا ڈر اللہ تعالیٰ پرکامل ایمان نہ ہونے اور اس کی صفات کو پوری طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتا ہے آخر وہ قربانیوں سے کیوں ڈرتے ہیں؟ اسی وجہ سے نہ کہ ایسا نہ ہو کہ کفار کے ہاتھوں ہم دکھ اُٹھائیں حالانکہ اگر انہیں اللہ تعالیٰ کی صافت پر پورا یقین ہو تو وہ کبھی اس شبہ میں مبتلا نہ ہوں۔ اگر ان کو یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ ہر امر جس کا فیصلہ کرے اس پر قادر ہے تو کفار کی طرف سے کسی خطرہ سے وہ کیوں ڈریں ان کو جاننا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ جس امر کا ارادہ کر لے اس پر پورا قادر ہوتا ہے اور اس کے ارادہ کو پورا ہونے سے کوئی شخص روک نہیں سکتا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اسلام کو ترقی دے اور غلبہ عطا کرے تو اس کے اس ارادہ کو کفار خواہ بظاہر کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہو ںاور ان کے پاس کتنے ہی سامان کیوں نہ ہوں کس طرح پورا ہونے سے روک سکتے ہیں پس چاہیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کریں او ران پر اپنے ایمان کو مضبوط کریں پھر ان کا ڈر آپ ہی آپ دور ہو جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام کمزوریاں اور گناہ صفات الٰہیہ کے نہ سمجھنے اور ان پر کامل ایمان نہ ہونے سے پیدا ہوتے ہیں پس جس شخص کے دل میں ماسوی اللہ کا ڈر پیدا ہو اسے سمجھ لینا چاہیئے کہ اس ڈر کی نسبت کے مطابق اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق ایمان میں کمی ہے ورنہ وہ ڈر پیدا ہی نہ ہو سکتا۔
اِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِ شَیْئٍ قَدِیْر پر بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ مرنے پر بھی قادر ہے یا کیا خدا تعالیٰ جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے یہ اعتراض بالکل بے سوچے سمجھے کیا گیا ہے کیونکہ قدیر کا لفظ تو قدرت اور طاقت کے کمال پر دلالت کرتا ہے پھر کیا مرنا اور جھوٹ بولنا قدرت اور طاقت کی علامتیں ہیں کہ اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ خدا تعالیٰ مرنے پر اور جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے یہ تو ایسا ہی اعتراض ہے جیسے کوئی کہے کہ فلاں شخص بڑا بہادر ہے تو دوسرا اعتراض کرے کہ کیا وہ ایسا بہادر ہے کہ چور سے ڈر کر بھاگ بھی سکتا ہے ایسے معترض کو کونسا شخص عقلمندوں میں شمار کرے گا دوسرے یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعلیٰ نے ایسے معترضین کو خامو ش کرنے کے لئے عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور شَیْ کے معنی چاہی ہوئی چیز کے ہوتے ہیں پس اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہر اس چیز پر قادر ہے جس کا وہ ارادہ کر لے ان الفاظ سے وہ اعتراض کلی طو رپر باطل ہو جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ موت اور جھوٹ کا ارادہ نہیں کرتا کیونکہ یہ قدرت نہیں بلکہ ضعف کی علامت ہے۔
۲۲؎ حل لغات
اُعْبُدُوْا:۔ امر مخاطب جمع کا صیغہ ہے۔ اَلْعَبادَۃُ۔ کے معنے ہیں عَابَۃُ التُّدْلّلِّ ۔ کامل تذلل (مفردات) مزید تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ فاتحہ ۶؎
رَبُّکُمْ:۔ رَبّکے معنی کے لئے دیکھو حل لغات فاتحہ ۳؎
خَلَقَّکُمْ:۔ خَلَقَ (یَخْلُقُ) اَلْاَدِیْمَ کے معنے ہیں قَدَّرَہٗ قَبْلَ اَنْ یَقْطَعَہٗ۔۔کھال کو کاٹنے سے پہلے اُسے جانچا کہ زیادہ سے زیادہ مفید کٹائی کس طرح ہو سکتی ہے اور جب خَلَقَ الشَیْئَ کہیں تو معنے ہوں گے۔ اَوْجَدَہٗ وَ اَبْدَعَہٗ عَلیٰ غَیْرِ مِثَالٍ سَبَقَ یعنی کسی چیز کو پیدا کیا عدم سے وجود بخشا نیست سے ہست کیا۔ اختراع کیا۔ (اقرب) پس خَلْقٌ کے دو معنے ہوئے (۱) اندازہ کرنا (۲) کسی چیز کا اختراع کرنا۔
لَعَلَّکُمْ:۔ لَعَلَّ حروف مشبہ بالفعل میں سے ہے اس کے ساتھ یاء متکلم کے درمیان نون زائد کیا جاتا ہے جسے نونِ وقا یہ کہتے ہیں جیسے لَعَلَّنِیْ۔ نون کے بغیر استعمال زیادہ ہے یہ اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتا ہے جیسے لَعَلَّ زیْدًا قَائمٌ۔ لیکن فراء اور بعض دیگر نحویوں کے نزدیک اسم اور خبر دونوں کو نصب دیتا ہے جیسے لَعَلَّ زیْدًا قَائماً لَعَلَّ کے کئی معنے ہیں (۱) پسندیدہ شے کی توقع اور ناپسندیدہ شے سے خوف ان معنوں میں یہ ایسے امر کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کا حصول ممکن ہو گو مشکل ہو۔ قرآن کریم میں جو فرعون کاق ول نقل ہے۔ لَعَلِّیْ اَبْلُغَ الْاَسْبَابَ اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ (مومن ع ۴ آیت ۳۶) اس کے متعلق مفسرین کہتے ہیں یہ اس کی جہالت پر دلالت کرتا ہے وہ اپنی نادانی سے یہی سمجھتا ہو گا کہ میں اونچے مکان پر سے خدا تک پہنچنے کا راستہ پا لوں گا مگر میرے نزدیک یہ درست نہیں۔ میرے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ یا تو وہ یہ کہتا ہے کہ علم ہیئت کے ذریعہ سے موسیٰ کے مستقبل کو معلوم کر کے اس کا مقابلہ کروں گا اور یہ عقدہ گو باطل ہے مگر کثرت سے رائج ہے۔ یا پھر اس کا قول بطور تمسخر ہے۔ چونکہ موسیٰ ؑ بار بار خدا کو آسمان پر بتاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ خدا اور فرشتے مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔ اس پر وہ تمسخر سے کہتا ہے کہ لائو ایک مکان بنائو شائد اس طرح ہم موسیٰ کے خدا کو پہنچ جائیں اور ہم بھی اس سے باتیں کر کے دیکھیں۔ مطلب یہ کہ ایک طرف خدا کو آسمان پر ماننا اور دوسری طرف اس سے باتیں کرنے کا دعویٰ یہ خلافِ عقل ہے الٰہی علوم سے ناواقف انسانوں کے لئے اس مسئلہ کو نہ سمجھ سکنا قابلِ تعجب نہیں (۲) اس کے معنے محض تعلیل کے بھی ہوتے ہیں جیسے قُوٰلَا لَہٰ قَوْلًا لَیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرَاَوْ یَخْشٰی یہی معنے ترجمہ میں استعمال کئے گئے ہیں (۳) کوفیوں کے نزدیک کبھی اس کے معنو ںمیں استفہام کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے کلیات ابی الیقاء میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں ایک جگہ یعنی لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ کے سوا (شعرار۔ ۱۳۰) جہاں کہیں بھی لَعَلَّ استعمال ہوا ہے توقع کے معنوں میں نہیں بلکہ تعلیل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی ’’تاکہ‘‘ یا ’’تا‘‘ کے معنوں میں (۴) کلام ملوک کے طو ر پر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی بادشاہ کے لئے کوئی اور یا بادشاہ اپنی نست خود امید اور توقع کے الفاظ استعمال کرتا ہے لیکن مراد اس سے یقینی بات یا حکم کے ہوتے ہیں۔
تَتَّقُوْنَ:۔ اِتَّقٰی سے مضارع مخاطب کا صیغہ ہے اس کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورہ بقرہ ۳؎
تفسیر۔ قرآن کریم کی ابتادء اس دعویٰ سے کی گئی ہے کہ بہترین نسخہ وہی ہو سکتا ہے جو علم کامل رکھنے والی ہستی کی طرف سے تجویز ہو اور وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور اس نے دنیا کی روحانی تکمیل کے لئے قرآن کریم کا نسخہ تجویز کیا ہے جو (۱) تمام کمالات کا جامع ہے (۲) تمام سم کے ریبوں سے یعنے عیوب سے پاک ہے (۳) کمال کے کسی ایک مقام پر نہیں ٹھہرتا بلکہ جس مقام کا بھی کوئی متقی ہو اسے اس کے اوپر کے درجہ تک پہنچاتا ہے اور غیر متناہی ترقیات کے راستے کھولتا ہے۔ اس کے بعد متقیوںکے لئے جو قرآن کریم کیپ زمانہ کے لوگوں کے لئے شرائط مقرر کی گئی تھیں وہ بتائیں اور پھر بتایا کہ اس کلام کا انکار کرنے والوں کا کیا حال ہو گا اس کے بعد ان لوگوں کا حال بتایا کہ جو قرآن کریم کو ظاہر میں مانتے ہیں مگر دل سے نہیں مانتے یا دل سے مانتے
تو ہیں لیکن اس کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں اور ان کی نسبت بیان کیا کہ یہ دونوں قسم کے لوگ قرآن کریم سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے کیونکہ قرآن کریم کوئی نیا جتھا بنانے کے لئے نہیں آیا کہ صرف نام اختیار کرنے پر خوش ہو جائے وہ تو دنیا کی زندگی میں تغیر پیدا کرنے کے لئے آیا ہے پس جب تک اس کو مانکر اس پر عمل کرنے کی کوشش نہ کی جائے اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا اور نہ ایسے لوگوں کو قرآن کریم کے ماننے والوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
اس اجمالی نقشہ کے بعد تیسرے رکوع میں بنی نوع انسان کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ چونکہ قرآن کریم متقیوں کو اعلیٰ مقامات پر پہنچاتا ہے اس لئے تم کو متقی بننا چاہئے تاکہ تم اس کے ساتھ جو فوائد وابستہ ہیں ان سے متمتع ہو سکو اور اس کا طریقہ یہ بتایا کہ اپنے رب کی عبادت کرو اس سے تم متقی بن جائو گے۔
عبادت کے معنے حل لغات میں بتائے جا چکے ہیں کہ کامل تذلل اور اتباع کے ہیں جب تک پوری اتباع نہ ہو اور انسان اپنے نفس کو الٰہی تاثرات کے قبول کرنے کے قابل نہ بنائے اس کی عبادت عبادت نہیں کہلا سکتی۔ جو شخص صرف ظاہری شکل عبادت عبادت نہیں کہلا سکتی جو شخص صرف ظاہری شکل عباد ت کی پوری کرتا ہے وہ عابد نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس نے تذلل اور اتباع کا نقشہ نہیں پیش کیا۔
اس آیت میں عبادت کے بارہ میں ایک لطیف اور مکمل تعلیم دی گئی ہے اور عباد ت کی تکمیل کے لئے جن امور کی ضرورت ہے وہ سب بیان کئے گئے ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ عبادت میں فائدہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کامل عبادت کامل تعلق کو چاہتی ہے اور کامل تعلق کامل احسان سے پیدا ہوتا ہے اور کامل احسان وہ ہوتا ہے جو اس انسان پر بھی ہو جو عبادت کرتا ہے اور اس کے بزرگوں پر بھی ہو کیونکہ دنیا میں لوگ مخلصانہ تعلق دو ہی وجہ سے رکھتے ہیں یا تو اس لئے کہ ان پر احسان کیا جائے یا اس لئے کہ ان کے بررگوں پر احسان کیا گیا ہو چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں قربانیاں اس لئے پیش کی گئی ہیں کہ قربانی کرنے والوں کے ماں باپ پر کسی شخص کا احسان تھا گو خود ان سے کوئی خاص سلوک نہ تھا۔ ہزاروں جانیں ظالم بادشاہوں اور امراء کی خدمت میں سا لئے قربان کی جاتی رہی ہیں کہ ان ظالم بادشاہوں کے آباء نے ان قربانی کرنے والوں کے آباء سے حسن سلوک کیا تھا پس اولاد نے احسان کے بدلہ کے طو رپر باوجود خود مظلوم ہونے کے اپنی جانیں قربان کر دیں تا اس احسان کے ناقردان نہ قرار دیئے جائیں لیکن اگر دونوں قسم کے احسان جمع ہو جائیں تو پھر تو محبت کا جذبہ نہایت شدت سے ابھر آتا ہے چنانچہ اس فطرتی جذبہ کو اپیل کرنے کے لئے اس آیت میں کہا گیا ہے کہ اے لوگو اس ہستی کی عبادت کروجو تمہاری بھی خالق ہے اور تمہارے آباء کی بھی۔ جب عارضی تعلقات کی بناء پر تم اخلاص کا معامل کرتے ہو تو کیوں اس ہستی سے اخلاص کا تعلق پیدا نہیں کرتے جو تمہاری بھی محسن ہے اور تمہارے آباد کی بھی محسن رہی ہے۔
اس آیت میں عبادت کی تحریک بھی نہایت عجیب اسلوب سے کی گئی ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ضرورت خوب واضح ہو جاتی ہے اس جگہ عبادت کی تحریک ان الفاظ میں کئی گئی ہے کہ اے لوگو اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو بھی اور تمہارے بڑوں کو بھی پیدا کیا ہے اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو کسی وجود کو پیدا کرنے والا ہو وہی اس کی صحیح طاقتوں کو سمجھتا ہے۔ ایک مکان بنانے والا انجینیر جانتا ہے کہ اس کی تعمیر کردہ عمارت کس حد تک بوجھ برداشت کر سکتی ہے اسی طرح حقیقی اصلاح خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے جو نے انسان کو اور اس کے آباء کو پیدا کیا ہے اور وہی اس کی قوتوں کی حد بندی کو اچھی طرح جانتا ہے۔ کسی اور ہستی کی عبادت کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اپنے آپ کو ایسے ناواقف کے سپرد کر کے تباہ کروایا جائے
جو انسان کی قابلیتوں اور اس کی حد بندیوں کو نہیں جانتا پس اصل عبادت جو صرف ظاہری رسوم کا نام نہیں بلکہ روحانی راستہ پر چلنے کا نام ہے خدا تعالیٰ کی ہی مناسب ہے کیونکہ وہی جانتا ہے کہ انسان کی قوتیں کیا ہیں اور انہیں کن ذرائع سے بڑھایا اور مکمل کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد عبادت کی وجہ بھی بتا دی کہ عبادت کی غرض صرف اقرار عبودیت نہیں اگر صرف اقرار عبودیت کسی عبادت کا مقصد ہوتا تب بھی خدا تعالیٰ کے سوا دوسرے کسی کی عبادت کرنا گو ظلم ہوتا مگر اس قدر مضر نہ ہوتا مگر عبادت تو حصولِ تقویٰ کے لئے کی جاتی ہے یعنی تکمیل روحانیت کے لئے اور تکمیل روحانتی وہ ہستیاں کس طرح کر سکتی ہیں جو انسان کی خالق نہیں اور اس کی مخفی طاقتوںاور حد بندیوں سے واقف نہیں۔ وہ تو اسے مکمل کرنے کی بجائے توڑ کر رکھ دیں گی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی انسان نے اپنی باگ ڈور غیر اللہ کے سپرد کی ہے نقصان اُٹھایا ہے کسی راہنما نے کھلی آزادی دے کر رُوحانی تکمیل کی راہوں سے بالکل دُور پھینک دیا اور کسی راہنما نے انسانی قوتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسا بوجھ لادو یا کہ انسان اس بوجھ تلے دب کر رہ گیا کسی نے رہبائنیت کے اختیار اور طیبات سے اجتناب کرنے کی تعلیم دی تو کسی نے مضر اور مفید میں فرق نہ کرتے ہوئے شریعت کو *** قرار دے کر انسان کو تباہی کے گڑھے میں گرا دیا۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ایسی تعلیم دی کہ جس کی مدد سے نہ تو وہ اپنی ذمہ داریوں کو بھلا دے اور نہ ایسے بوجھوں تلے دب جائے جو اس کی فطرت کو کچل کر رکھ دیں۔ غرض لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کہہ کر اس طرف توجہ دلائی کی عبادت کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان فطرتِ صحیحہ کی راہنمائی میں ترقی کر سکے اور ظاہر ہے کہ فطرت کے مطابق صحیح راہنمائی وہی کر سکتا ہے جو فطرت انسانی کی تمام جزئیات سے واقف ہے اور وہ خالق ہی کی ہستی ہو سکتی ہے نہ کہ کسی اور کی۔
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ سے اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ عبادت کا حکم کسی ایسی غرض کے لئے نہیں جس میں خدا تعالیٰ کا فائدہ ہو بلکہ عبادت کا حکم خود انسان کے فائدہ کے لئے دیا گیا ہے اور اس کی غرض صرف یہ ہے کہ فطرت کے تقاضوں کو صحیح طور پر پورا کر کے انسان کو مکمل بنایا جائے۔ اس مضمون سے ان لوگوں کے شبہات کا بھی ازالہ ہو جاتا ہے جو شریعت کو * قرار دے کر اسے ترک کر چکے ہیں۔ انہوں نے شریعت کو * اسی لئے قرار دیا کہ اس کے احکام کو لغو اور بلا حکمت کے سمجھا اور خیال کیا کہ ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ صرف بندوںپر حکومت جتانا چاہتا ہے مگر قرآن کریم میں لکھا ہے کہ ہمارے بتائے ہوئے احکام لغو اور بلا حکمت نہیں بلکہ انسان کو صحیح راستہ پر چلانے کے لئے ہیں اور اسے افراط و تفریط کی راہوں سے ہٹا کر ان اعمال کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہیں جن سے اس کی مخفی قوتیں نشوونما پاتی ہیں اور اس قسم کی تعلیم کو * قرار دینے والا عقلمند نہیں کہلا سکتا۔ ایک اندھے کو راسہت کے گڑھے سے ہوشیار کرنے والا کیا * کی تعلیم دیتا ہے؟ کیا کوئی اس اندھے کو کہہ سکتا ہے کہ میاں اسطرح ہوشیار کرنے والے تم کو * کا طوق پہناتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر جو مریض کو صحیح پرہیز بتاتا ہے * کا کام نہیں کرتا بلکہ رحمت کا کام کرتا ہے پس شریعت کو *** قرار دینے والوں کے دعویٰ کی بنیاد صرف اس پر ہے کہ وہ شریعت کے احکام کے بے حکمت سمجھتے ہیں ممکن ہے ان کے دین کی یہی حالت ہو مگر قرآنی تعلیم کی یہ حالت نہیں وہ تو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی غرض تمہیں نفع پہنچانا اور تباہی کے راستوں سے بچانا ہے۔
اِتَّقٰی کا لفظ اِوْتَقٰی سے بنا ہے اور وضع *** کے لحاط سے اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی کو اپنی ڈھال بنا لیا۔ اپنے بچائو کا ذریعہ بنا لیا۔ پس تَتَّقُوْنَ کے معنے یہ ہوئے کہ تاتم خدا تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لو یعنی خدا تعالیٰ کی مدد سے تباہیوں سے بچ جائو اور وہ تمہارا ذمہ دار ہو جائے جس طرح دنیوی راہنما
انسان کو جنگل یا نادیدہ راستوں سے صحیح او ربے تکلیف نکال کر لے جاتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ تم کو زندگی کی الجھنوں اور پریشانیوں سے صحیح سلامت بچا کر لے جائے۔
ایک اور لطیف بات بھی اس آیت کے متعلق یاد رکھنے کے قابل ہے اور یہ کہ اس میں اُعبُدُوْا رَبَّکُمْ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور رب کے معنے جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اس ہستی کے ہوتے ہیں جو پیدا کر کے بتدریج ترقی کی طرف لے جائے۔ اس صفت کے انتخاب سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ہر انسان کی پیدائش میں اس کی آیندہ ترقی کے لئے مقصود ہے کہ ہر انسان کی پیدائش میں اس کی آیندہ ترقی کے لئے ایک بنیاد رکھی گئی ہے تاکہ وہ اس پر چل کر کمال تک پہنچے۔ پس جب تک عبادت رَبْ کی نہ ہو جو اسے ان مخفی طاقتوں کے مطابق کمال تک پہنچائے مفید نہیں ہو سکتی بیشک انسانوں میں مابہ الاشتراک بھی ہے اور سب انسان اپنے اندر مشابہ طاقتیں بھی رکھتے ہیں لیکن باوجود اس کے ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے باپ کا مزاج اور بیٹے کا اور بھائی کا اور۔ کوئی ایک تعلیم سب کے لئے یکساں مفید نہیں ہو سکتی اصول تعلیم ایک ہونگے لیکن جزئیات الگ الگ ہنگی پس ایسے راہنما کی ضرورت ہے جسے ان جزئیات کا علم ہو اور ان کے مطابق ترقی دے کر بلند مراتب تک لے جا سکے پس یہ کام رب ہی کر سکتا ہے جو پیدائش سے جوانی تک ایک خاص طرز پر اس فرد کو بڑھاتا لایا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زید یا بکر کے مزاج کی افتاد کس طرح پڑ چکی ہے اور اس کے مزاج کا اس کے باپ یا بھائیوں کے مزاج سے کیا اختلاف ہے پس خالی شریعت پر عمل کافی نہیں بلکہ اپنے رب سے اخلاص اور محبت کا تعلق بھی ضروری ہے تاکہ وہ خاص راہنمائی کے ذریعہ اسے شریعت کی ان جزئیات کی طرف راہنمائی کرے جو اس کی ذات کے لئے زیادہ مفید ہیں بیشک شریعت کہتی ہے نماز پڑھو زکوٰۃ و مگر وہ نہیں بتا سکتی کہ اقل ترین نماز اقل ترین صدقہ کے بعد کونسا عمل ایک شخص کی روحانی ترقی کے لئے زیادہ ضروری ہے یہ ہدایت توہر شخص کو الگ الگ ہی مل سکتی ہے اور رب کی طرف سے ہی مل سکتی ہے۔
غرض ہدایت عامہ یعنی شریعت کے مل جانے کے بعد بھی انسان محفوظ نہیں ہوتا کیونکہ اسے اعلیٰ ترقیات کے لئے ہدایت خاصہ کی ضرورت ہے جو بطور القاء کے رب کی طرف ہی یعنی اس ہستی کی طرف سے ہی جس نے اسے پیدا کر کے اعلیٰ مدارج تک پہنچانے کا ذمہ لیا ہے آ سکتی ہے پس اس ہستی سے محبت اور عبادت کا تعلق بہرحال ضروری ہے تا ہدایت خاص سے بھی انسان فائدہ اٹھا سکے۔
تَتَّقُوْنَ میں جہاں ایسے امور سے بچنے کے معنے نکلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور بندے کے تعلق کو بگاڑ دیتے ہیں وہاں اس سے ان امور سے بچنے کا بھی اشارہ پایا جاتا ہے۔ جو بندوں کے باہمی تعلقات سے تعلق رکھتے ہیں عبادت الٰہی ایسے امور میں غلطی کرنے سے بھی انسان کو بچاتی ہے جو شخص خدا تعالیٰ کو اپنا رب سمجھنے لگے ضرور ہے کہ وہ اس کے بندوں سے بھی اچھا تعلق پیدا کرے گا اور پھر یہ بھی لازم ہے کہ وہ بندوں پر ظلم نہیں کرے گا کیونکہ جو شخص اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا بندہ بنا لے گا اس کی نظر اپنی سب ضرورتوں کے لئے خدا تعالیٰ پر ی پڑے گی خصوصاً جبکہ وہ اس کے رب ہونے پر ایمان رکھتا ہو گا۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو اپنی سب ضرورتوں کا کفیل سمجھے گا وہ بندوں کے اموال پر نظر نہیں رکھ سکتا اور نہ اپنی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لئے ان کے مالوں میں خیانت کر سکتا ہے نہ ان پر ظلم کر سکتاہے۔ پس تَتَّقُوْنَ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ اگر تم رب کی عبادت اخلاص اور یقین کے ساتھ کرو گے تو آپس کے ظلموں سے بھی بچ جاوو گے اور دنیا میں بھی امن قائم ہو گا صحابہ کرام اپنے رب کے بندے بن گئے تھے۔ دیکھو ان کی حکومت میں دنیا کو کس قدر امن ملا حتیٰ کہ دشمن تک ان کے نیک سلوک کے معترف ہوئے اور آج تک ابوبکرؓ اور عمرؓ کی حکومت کی یاد لوگوں کے دلوں میں تازہ ہے حضرت عثمان اور حضرت علیؓ کی حکومت بھی ایسی ہی تھی مگر چونکہ ان کے بارہ میں اختلاف ہوا ہے میں نے ان کا
ذکر نہیں کیا۔ سچ بات یہی ہے کہ دنیا میں امن رب کا بندہ بن جانے کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اگر یورپ خدا کا بندہ بن جاتا تو آج یہ جوع الارض کی بیماری اسے لاحق نہ ہوتی۔
بعض لوگ خلق کے لفظ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم بھی اس امر کا قائل ہے کہ اس دُنیا کی پیدائش ایک ایسے مادہ سے ہوئی ہے کہ جو پہلے سے موجود تھا پس قرآن کریم بھی مادہ کے انادی یا ازلی ہونے کا قائل ہے۔ یہ استنباط ایک وسوسہ ہے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ گو خلق کے معنے ایک موجود شے کے اندازہ کرنے کے بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے معنے جیسا کہ حل لغات میں لکھا جا چکا ہے کسی چیز کو بغیر اصل اور نمونہ پیدا کرنے کے بھی ہوتے ہیں پس ایک خاص موقعہ کے استعمال سے یہ استدلال کرنا کہ سب جگہ وہی معنے ہیں درست نہیں قرآن کریم میں خَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ (انعام ع ۱۳) بھی تو آتا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ خلق کا لفظ ہی قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا بلکہ بَدِیع اور فاطر کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور بدیع کے معنے ہیں جو شروع کرے اور فاطر کے معنے ہیں جو کسی پہلے سے موجودہ وجود کے بغیر نیا وجد پیدا کرے۔ اس میں شک نہیں کہ قرآن کریم میں فَطَرَ لِیْ (ہود ع ۵) اور فَطَرَنَا (طہٰ ع ۳) کے الفاظ آتے ہیں مگر اس سے ابتدائے پیدائش کی طرف اشارہ کیا گیا ہے نہ کہ قریب کی پیدائش کی طرف۔
یہ آیت اس لحاظ سے نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ ترتیب مستقل کے لحاظ سے اس میں قرآن کریم کا سب سے پہلا حکم بیان ہوا ہے اس سے پہلے یہ کہا گیا تھا کہ متقی ایسا ایسا کرتے ہیں مگر حکم کے طور پر بنی نوع انسان کو نہ کہا گیا تھا کہ تم ایسا کرو حکم سب سے پہلے اسی آیت میں دیا گیا ہے اور سب سے پہلا حکم توحید کا دیا گیا ہے اور ایسے لطیف اور مکمل طو رپر دیا گیا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی مثلاً اوّل تو عبادت کرو کا حکم الناس کو دیا گیا ہے یعنی سب دنیا کو مخاطب کیا گیا ہے نہ کہ صرف عربوں کو جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اسلام شروع سے ہی سب دنیاکو دین توحید پر جمع کرنے کا مدعی ہے اور قومی عبادتوں کو مٹا کر ایک جامع حلقہ جس میں سب انسان آ جائیں بنانا چاہتا ہے پھر عبادت کس کی کرو۔ اس کے لئے اللہ کا لفظ نہیں استعمال کیا بلکہ رب کا لفظ چنا ہے جس سے بہت سے معبود اِن باطلہ کا رد ہو گیا کیونکہ دُنیا میں بہت لوگ شرک پتھروں سے کرتے ہیں رب کے لفظ سے ایسے تمام وجودوں کو عبادت کو حد سے نکال دیا۔ پھر لوگ دریائوں پہاموں ستاروں کی پرستش کرتے ہیں اَلَّذِیْ خَلَقَکُمْ کہہ کر ان کو خارج کر دیا۔ پھر کچھ لوگ اپنے بزرگوں کی پوجا کرتے وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کہہ ان کو بھی عبادت سے خارج کر دیا۔ غرض ایسی جاع عبارت بیان کی ہے چند لفظوں میں خالص توحید کی تعلیم دے دی ہے۔ اسی طرح تعلق کی مضبوطی کے لئے فطرت کے عین مطابق طریق استعمال کیا۔ دنیا میں تعلیم کے دو ہی طریق ہیں یا محبت یا خوف مختلف اقوام میں عبادت انہی دو اسباب کی وجہ سے کی جاتی ہے جیسا کہ کمپیریٹو ریلیجنز (Comparative Religions) والوں نے تفصیل سے اس پر بحث کی ہے اس آیت میں دونوں باتو ںکی طرف اشارہ کیا ہے پہلا محبت کے لئے اور لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ خوف کے مضمون کو سامنے لانے کے لئے محبت آگے دو طرح پیدا ہوتی ہے یا حسن سے یا احسان سے اس مختصر آیت میں ان دونوں باتو ںکو خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کے لئے پیش کیا گیا ہے۔ وہ حسین ہے کیونکہ رب ہے کیسا اعلیٰ درجہ کا صناع ہے کہ ایک چیز کو نہایت ادنیٰ حالت میں پیدا کرتا ہے پھر درجہ بدرجہ ترقی دی کر کمال تک پہنچا دیتا ہے ۔ پھر احسان کو کس لطیف طو رپر پیش کیا کہ وہ تمہارا بھی حسن ہے اور تمہارے ماں باپ کا بھی۔ پھر جہاں
لَعَلَکُمْ تَتَّقُوْنَ میں خوف کی طرف اشارہ کیا مستقبل کے احسان کی طرف بھی توجہ دلائی اس قدر چھوٹی سی آیت میں اس قدر وسیع مطالب کا بیان کرنا کیسا معجزانہ کلام ہے فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔
(لَعَلَکُمْ تَتَّقُوْنَ میں لَعَلَّ کے لئے دیکھو حل لغات)
عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح ناصری سے سوال کیا گیا کہ سب سے بڑا حکم شریعت میں کونسا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ خداوند کو جو تیرا خدا ہے اپنے سارے دل اور اپنی ساری سمجھ سے پیار کر پہلا اور بڑا حکم یہی ہے اور دوسرا اس کی مانند ہے کہ تو اپنے پڑوسی کو ایسا پیار کر جیسا آپ کو‘‘ (متی باب ۲۲ آیت ۳۷ تا ۳۹) لیکن انجیل کو پڑھ کر دیکھ لو اس میں پہلے اور باتیں بیان کی گئی ہیں اس حکم کا نام و نشان نہیں بلکہ جو سب سے بڑا اور پہلا حکم تھا مسیح ناصری نے بیان ہی نہیں کیا جب تک لوگوں نے سوال نہیں کیا حالانکہ اہمیت کے لحاط سے پہلے اس حکم کو بیان کرنا چاہیئے تھا جو سب سے بڑا ہے پُرانے عہد نامہ کو دیکھو تو اس میں بھی اس حکم کو کہیں بعد میں جا کر بیان کیا گیا ہے پہلے اِدھر اُدھر کی باتیں لکھی گئی ہیں یہی حال دوسری کتب کا ہے کوئی ایک مذہبی کتاب نہیں جس میں اس حکم کو جو نہ صرف مسیح علیہ السلام کے قول کے مطابق بلکہ عقل کے مطابق بھی سب سے بڑا اور سب سے پہلا ہے پہلے جگہ نہیں دی گئی۔ یہ فضیلت صرف قرآن کریم کو حاصل ہے کہ اس نے سب سے پہلا حکم جو قرآن کریم میں بیان کیا ہے یہی ہے کہ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کیا یہ قرآن کریم کی فضیلت نہیں کہ اس نے پہلے حکم کو پہلی جگہ دی ہے جبکہ دوسری تمام کتب نے اس پہلے حکم کو پیچھے ڈال دیا ہے اگر حکم کے لفظ پر زور نہ دیا جائے تو اس سے بھی پہلے جہاں متقیوں کے عمل کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے وہاں یُؤْمِنُوْنِ بِالْغَیْبِ وَ یُقِّیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ فرمایا ہے جس کے معنے یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان لائو اور اسکی عبادت کرو اور اس کے بعد اس حکم کو جسے مسیح علیہ السلام نے دوسرے درجہ پر رکھا ہے بیان کیا ہے کہ وَمِمَّا رَزَ قْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ اس بارہ میں بھی قرآن کریم کی تعلیم فائق ہے کیونکہ مسیح نے تو صرف دل کی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے اور قرآن کریم نے جامع الفاظ رکھے ہیں اور وَمِمَّا رَزَ قْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ کہہ کر فرمایا ہے کہ اپنی دلی محبت بھی اپنے ہمسائیوں کو دے اور اپنا علم بھی اور اپنا مال بھی اور اپنی جان بھی۔ غرض ان دونوں احکام کو اسلام نے ان کے مناسب حال جگہ دی ہے اور مسیح کے الفاظ سے زیادہ شاندار الفاظ میں۔ اگر کوئی کہے کہ مسیح نے تو سارے دل اور اور ساری جان اور ساری سمجھ کے الفاظ استعمال کئے ہیں جو زیادہ شاندار ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے وہی مضمون ایک لفظ میں ادا کر دیا ہے جو مسیحؑ نے ایک فقرہ میں بیان کیا ہے کیونکہ قرآن کریم کہتا اُعْبُدُوْ! عبادت کرو اور عبادت کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بیان کیا گیاہے غَایَۃُ التُّذَلُّلِ کے ہیں یعنی اپنی سب طاقتوں کو انتہائی درجہ پر خرچ کرنا۔ پس عبادت میں سارا دل بھی اور ساری جان بھی اور ساری سمجھ بھی اور اس کے سوا ساری قوت بھی اور سارے اسباب بھی شامل ہیں اور اس ایک لفظ سے قرآن کریم نے وہ سب کچھ بیان کر دیا ہے۔ جو حضرت مسیح ناصری بیان کرنا چاہتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
(ذات باری کے متعلق ایک نوٹ اگلی آیت کے بعد دیکھو)
اَلْاَرْضُ:۔ کرۂ زمین کُلُّ مَاسَفَلَ۔ ہر نیچے کی چیز (اقرب)
فِرَاشًا:۔ فَرَشَ الشَیْئَ (یَفْرُشُ) فَرْشًا وَّفِرَاشًا کے معنے ہیں۔ بَسَطَہُ کسی چیز کو پھیلایا۔ کہتے ہیں فَرَشَ فُلَانٌ بِسَاطًا:۔ بَسَطَہٗ لَہٗ اس کے لئے غالیچہ بچھایا۔ اور اَلْفِرَاشُ کے معنے ہیں مَا یُفْرَشُ وَ یُنَامُ عَلَیْہِ جو بچھایاجائے اور اس پر سویا جائے (اقرب)
اَلْفرْشُ کے معنے ہیں بَسْطُ الثِّیَابِ کپڑوں کا پھیلانا وَیُقَالُ لِلْمَفْرُوْشِ فَرْشٌ وَفِرَاشٌ اور بچھائی ہوئی چیز کے لئے فَرْشٌ اور فَرْاشٌ کا لفظ بولتے ہیں قَالَ ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ الْاَرْضَ فِرَاشًا اَیْ ذَلَلَھَا وَلَمْ یَجْعَلْہَا نَائِیَۃً لَایُمْکِنُ الْاِسْتِقْرَارُ عَلَیْہَا اور آیت ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ الْاَرْضَ فِرَاشًا میں زمین کو فراش بنانے کے یہ معنی ہیں۔ کہ اس کو ایسا بنایا ہے کہ وہ ہموار اور درست ہے اور اس طو رپر اُٹھا ہوا نہیں بنایا کہ اس پر آرام حاصل نہ ہو سکے (مفردات) وَالْفَرْشُ مَایُفْرَشُ مِنَ الْاَنْعَامِ ای یُرْکَبُ اورفرش ایسے چار پائیوں کو بھی کہتے ہیں۔ جن پر سواری کی جاتی ہے (مفردات)
بِنَائٌ: اَلْبِنَائُ بَنَی (یَبْنِیْ) کا مصدر ہے اور اس کی جمع اَبْنِیَۃٌ آتی ہے۔ کہتے ہیں۔ بَنَاہٗ یَبْنِیْہِ (بَنْیًا وَبِنَائً) نَقِیْضُ ھَدَمَہٗ یعنی کسی مکان کو بنایا اور جب بَنَی الْاَرْضَ کہیں تو معنے ہونگے بَنَی فِیْہَا دَارًا اَوْ نَحْوَھَا کہ کسی رقبہ زمین میں کوئی مکان بنایا (اقرب) اَلْبِنَائُ اِسْمٌ لِمَا یُبْنَی بِنَائً لفظ بناء ہر اس چیز کے لئے بولا جائے گا جو بنائی جاوے (مفردات)
وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ:۔ السَّمَائُ کے معنی یہاں بادل کے ہیں۔ یعنی بادلوں سے پانی اُتارا۔ مزید تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۂ بقرہ ۲۰؎
اَخْرَجَ:۔ نکالا۔ پیدا کیا (مفردات)
الثَّمَرَات:۔ الثَّمَرَۃُ کی جمع ہے اور الثَّمَرَۃُ کے معنے ہیں حِمْلُ الشَجَدِ یعنی درخت کا پھل (اقرب) الثَّمَرُ اِسْمٌ لِکُلِّ مَایُتَطَعَّمُ مِنْ اَحْمَالِ الشَّجَرِ کہ درختوں کے ان پھلوں کو جن کو کھانے کے کام میں لایا جاتا ہے۔ ثَمَرٌ کہتے ہیں۔
رِزْقًا:۔ کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ بقرہ ۲؎
اَنْدَ ادَّا:۔ نِدٌّ کی جمع ہے اور اَلنِدُّ کے معنے ہیں اَلمِثْلُ۔ مثل ہمرتبہ وَلَایَکُوْنُ اِلّا مُخَالِفًا لفظ نِدٌّ کا استعمال صرف اس نظیر اور مشابہ کے لئے ہوتا ہے۔ جو مخالف ہو اور مَالَہٗ نِدٌّ کے معنے ہیں مَالَہٗ نظِیْرٌ کہ اس کا کوئی مثل او رہمرتبہ نہیں (اقرب) نِدٌّ الشَّیْئِ
مُشَارِکُہُ فِی الجَوْھَرِ وَمِثْلُہٗ مُشَارِکُہٗ فِی أَیِّ شَیئٍ کَانَ کسی چیز کا ند وہ ہوتا ہے جو اس کے جوہر میں شریک ہو اور مثل اس پر بولتے ہیں جو اپنے ممثل کی کسی بات میں شریک ہو یعنی ند خاص ہے اور ممثل کی کسی بات میں شیرک ہو یعنی ند خاص ہے اور مثل عام ہے۔ اور ان دونوں میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے۔ نیز نِدُّ الشَّیِْ کے معنے ہیں مَایَسُدُّ مَسَدَّہٗ جو کسی چیز کے قائم مقام ہو سکے قَالَ ابْنُ الْاَ ثِیْرِ ھُوَ مِثْلُ الشَّیْئِ الَّذِیْ یُضَادُّہٗ فِیْ اُمُوْدِہٖ وَیُنَادُّہٗ اَیْ یُخَالِفُہٗ ابن اثیرفرماتے ہیں کہ ند کسی چیز کے اس مثیل پر بولیں گے جو اس کے جملہ امور کے مخالف ہو (تاج العروس)
تفسیر۔ اس آیت میں پہلی آیت کے مضمون کو مکمل کیا ہے پہلی آیت میں تو یہ بتایا تھا کہ عبادت صرف رَبّ کی اور اس رب کی جس نے تم کو پیدا کیا ہو اور تمہارے آباء کو بھی پیدا کیا ہو صحیح ہو سکتی ہے کیونکہ وہی تمہاری قوتوں کی صحیح ہو سکتی ہے کیونکہ وہی تمہاری قوتوں کی صحیح راہنمائی کر سکتا ہے اب اس آیت میں بتاتا ہے کہ آسمان و زمین بھی حدا تعالیٰ نے بناوے ہیں اور ظاہر ہے کہ انسانی اعمال کا وجود ان اشیاء سے پیدا ہوتا ہے جو اس کے گر دو پیش ہیں آخر انسانی عمل کس چیز کا نام ہے؟ اس کی تجارت اس کی زراعت اس کی صنعت و حرفت اس کی سیر و سیاحت یہی اعمال ہیں جو انسان بجا لاتا ہے او ریہ سب امور زمین و آسمان اور ان کی تاثیرات سے پیدا ہوتے ہیں۔ پس وہی ہستی انسان کے اعمال کو صحیح راستہ پر چلا سکتی ہے جو زمین و آسمان او ران کی تاثیرات کو پیدا کرنے والی ہے دوسری کوئی ہستی اس بارہ میں کامل ہدایت نہیں دے سکتی کیونکہ وہ بوجہ ان اشیاء کی خالق نہ ہونے کے ان کی تاثیرات اور قوتوں کی پوری طرح واقف نہیں ہو سکتی۔ نہ وہ ان اشیاء کو انسان کی مدد پر لگا سکتی ہے کیونکہ اسے ان پر کوئی اختیار حاصل نہیں۔ پس فرمایا کہ اس خدا کی عبادت کرو جس نے زمین کو تمہارے لئے فراش کے طور پر بنایا ہے یعنی ایسا بنایا ہے کہ اس سے تم فائدہ اُٹھا سکتے ہو اور اس میں آرام کر سکتے ہو۔
جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے فراش سے مراد اس طرح پھیلانے کے ہیں کہ اس پر آرام کیا جا سکے پس زمین کو فراش کی طرح بنانے کے یہ معنے ہیں کہ اس میں انسان کے آرام کے سامان پیدا کئے گئے ہیں لیکن یہ ظاہر ہے کہ زمین پر ہر قسم کا تصرف انسان کے آرام کا موجب نہیں ہوتا یہی زمین انسان کی ہلاکت کا موجب بھی ہو جاتی ہے پس زمین کی طاقتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے بھی کسی قاعدہ اور دستور کی ضرورت ہے اور وہی قاعدہ اور دستور سب سے زیادہ مناسب ہو سکتا ہے جو زمین کی پیداکرنے والے کی طرف سے مقرر کیا جائے اسی طرح آسمان کوبطور چھت کے بنایا گیا ہے یعنی حفاظت کا ذریعہ سورج اور چاند اور ستاروں کی روشنیاں کس طرح ہزاروں فائدے انسان کو پہنچا رہی ہیں مگر ان کی محالف تاثیرات بھی ہیں جو انسان کے اخلاق و عادات پر اثر ڈالتی ہیں ہزاروں بیماریاں اور حادثات اجرام فلکی کے دوروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسدان تسلیم کریں یا نہ کریں دُنیا پر بعض ایسے حوادث آتے ہیں جو زمینی تغیرات کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے۔ مثلاً میں نے دیکھا ہے کہ بعض ایام میں عورتیں کثرت سے اسقاط کی مرض میں مبتلا ہوتی ہیں بعض ایام میں لڑکیوں کی پیدائش کی کثرت ہوتی ہے اور بعض میں لڑکوں کی بعض ایام میں تکلیف دہ زچگی کی شکایات بڑھ جاتی ہیں بعض ایام میں دیکھا گیا ہے کہ ہڈی ٹوٹنے کے حادثات کثرت سے ہوتے ہیں بعض ایام میں ریلیں کثرت سے ٹکراتی ہیں ان تغیرات کو محض حادثہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیونکہ آخر اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیئے کہ کیوں بعض ایام میں گر کر سر کو چوٹ آنے کے حادثات زیادہ ہوتے ہیں اور بعض ایام میں گر کر لاتوں کو زیادہ ضربیں آتی ہیں۔ میں نے اپنے ہسپتال کے ڈاکٹر صاحب سے اس کا ذکر کیا اور انہو ںنے اس کا خیال رکھا تو بعد میں کئی دفعہ اس کی رپورٹ کی آج فلاں حادثہ کے مریض کثرت سے آ رہے ہیں حالانکہ وہ تکلیفیں بیماریوں کا