جزاء اﷲ عدُوّہ بابائہٖ ختم النبوّۃ
دشمنِ خدا کے ختم نبوت کا انکار کرنے پر خدائی جزاء
مسئلہ۸۱: از شیخ خدا بخش اہلسنّت والجماعت محلہ سوئی گری کی پول، ۱۹، رجب ۱۳۱۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ولید ساکن مشہد کہ اپنے آپ کو سید کہلواتا، اپنا عقیدہ بایں طور پر رکھتا ہے کہ حضرت علی و فاطمہ و حسنین رضی اﷲ تعالٰی عنہم کو انبیاء و رسول کہنا ثابت ہے اور اپنے زعم میں اس کا ثبوت حدیثوں سے بتاتا ہے، ایسا عقیدہ رکھنے والا مسلمان سنت و جماعت اولیائے کاملین سے ہے یا غالی رافضی کافر اولیائے شیاطین سے ؟ اور جو شخص عقیدہ کفریہ رکھے وہ سید ہوسکتا ہے، یا نہیں؟' اور اسے سید کہنا روا ہے یا نہیں؟ بَینوْا تُؤْجَرُوْا (بیان کیجئے اجر حاصل کیجئے۔)
الجواب
الحمد ﷲ رب العٰلمین وسلام علی المرسلین، ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اﷲ و خاتم النبیین وکان اﷲ بکلّ شیئ علیما، یا من یصلی علیہ ھو وملٰئکتہ صل علیہ وعلٰی الہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما اٰمین، ربّ انّی اعوذبک من ھمزات الشیطٰین واعوذبک ربّ ان یحضرون وصلی اﷲ تعالٰی علٰی خاتم المرسلین اول الانبیاء خلقًا واٰخرھم بعثًا واٰلہ وصحبہ والتابعین ولعن وقتل واخزی وخذل مردۃ الجن وشٰیطین الانس واعاذنا ابدا من شرھم اجمعین اٰمین۔
تمام خوبیاں اﷲ تعالٰی رب العالمین کو اور سلام تمام رسولوں پر، محمدصلی اللہ تعالی علیہ وسلم تم میں سے کسی ایک مرد کے باپ نہیں لیکن اﷲ کے رسول اور نبیوں کے پچھلے، اور اﷲ تعالٰی ہر شئے کا عالم ہے اے وہ ذات جس پر اﷲ تعالٰی اور اس کے فرشتوں کے درود اور اس کے آل واصحاب پر اور سلام کامل۔ آمین۔ اے میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں شیاطین کے وسوسوں سے، اور اے میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں، اور صلوٰۃ اﷲ خاتم المرسلین پر جو تمام انبیاء سے پیدائش میں اول اور بعثت میں ان سے آخر اور اس کی آل واصحاب اور تابعین پر، اور لعنت اور ہلاکت، رسوائی اور ذلت ہو اﷲ تعالٰی کی طرف سے سرکش جنّوں اور انسانی شیطانوں پر، اور ان سب کے شر سے ہمیشہ ہمیں پناہ دے،آمین۔ت)
اﷲ عزوجل سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس طرح لا الٰہ الا اﷲ ماننا اﷲ سبحٰنہ وتعالٰی کو احد صمد لا شریک لہ جاننا فرضِ اوّل ومناط ایمان ہے یونہی محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو خاتم النبیین ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کی بعثت کو یقینا محال وباطل جاننا فرض اجل وجزء ایقان ہے۔
ولٰکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (القرآن الکریم ۳۳/ ۴۰)
ہاں اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔
نص قطعی قرآن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا نہ شاک کہ ادنٰی ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا قطعاً اجماعاً کافر ملعون مخلد فی النیران ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تردّد کو راہ دے وہ بھی کافر بین الکافر جلی الکفران ہے، ولید پلید جس کا قول نجس تراز بول، سوال میں مذکور، ضرور ولی ہے بیشک ضرور مگر حاشانہ ولی الرحمٰن بلکہ عدو الرحمن ولی الشیطان ہے، یہ جو میں کہہ رہا ہوں میرا فتوٰی نہیں اﷲ واحد قہار کا فتوٰی ہے، خاتم الانبیاء الاخیار کا فتوٰی ہے، علی مرتضٰی وبتول زہرا وحسن مجتبٰی وشہید کربلا تمام ائمہ اطہار کا فتوٰی ہے صلی اﷲ تعالٰی علٰی سید ھم ومولاھم وعلیھم وسلّم۔
شفاء شریف واعلام بقواطع الاسلام میں ہے:
یکفر ایضا من کذب بشیئ مما صرح فی القراٰن من حکم او خبر، او اثبت ما نفاہ او نفی ما اثبتہ علٰی علم منہ بذٰلک، اوشک فی شیئ من ذٰلک
( اعلام بقواطع الاسلام مع سبل النجاۃ، فصل آخر فی الخطاء مکتبۃ الحقیقیۃ استنبول، ص ۳۸۱)
نیز تکفیر کی جائیگی جس نے قرآن کے صریح حکم یا خبر کی تکذیب کی، یا جس نے علم کے باوجود اس کی نفی کردہ کا اثبات کیا یا اس کے ثابت کردہ کی نفی کی، یا جس نے اس میں شک کیا۔۔
فتاوٰی حدیثیہ امام ابن حجر مکی میں ہے:
الترددفی المعلوم من الدین بالضرورۃ کالا نکار۔
(فتاوٰی حدیثیہ، باب اصول الدین، مطبعہ جمالیہ مصر، ص ۱۴۶)
بدیہی ضروری دینی معلوم چیز میں تردد کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کا انکار کرنا ہے۔
شفاء میں ہے:
وقع الاجماع علٰی تکفیر کل من دافع نص الکتاب او خص حدیثا مجمعا علٰی نقلہ مقطوعا بہ مجمعا علی حملہ علی ظاھرہ ولھذا نکفر من لم یکفر من دان بغیر ملۃ الاسلام اوو قف فیھم اوشک (فی کفرھم) اوصحح مذھبھم، وان اظھر الاسلام واعتقدہ واعتقد ابطال کل مذھب سواہ فھو کافر باظہار ما اظھر من خلاف ذٰلک۱ھ (الشفاء للقاضی عیاض فصل فی بیان ما ھو من المقالات ، مطبعۃ شرکۃ صحافیۃ فی البلاد العثمانیۃ ۲ /۲۷۱)(نسیم الریاض شرح الشفاء فصل فی بیان ما ھو من المقالات ، دارالفکر بیروت، ۴/ ۱۰۔۵۰۹)
مختصرا مزیدا من نسیم الریاض ما بین الھلا لین۔
ایسے شخص کے کفر پر امت مسلمہ کا اجماع ہے جو کتاب اﷲ کی نص کا انکار کرے یا ایسی حدیث جس کے نقل پر یقین ہے اس کی تخصیص کرے حالانکہ اجماع کے مطابق اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے۔ اسی لئے ہم ایسے شخص کی تکفیر کرتے ہیں جو اسلام کے غیر کسی دین والے کی تکفیر نہ کرے یا توقف یا شک کرے (ان کے کفر میں ) یا ان کے مذہب کو صحیح سمجھے، اگر چہ ایسا شخص اسلام کا اظہار کرے اور عقیدہ رکھے اور اسلام کے سوا ہر مذہب کے بطلان کا عقیدہ رکھے اس سبب سے کہ وہ اپنے ظاہر کئے کا خلاف ظاہر کرتا ہے لٰہذا وہ کافر ہے ۱ھ مختصراً، ہلالین کے درمیان نسیم الریاض کی طرف سے زائد ہے ۔
اسی میں ہے:
اجمـاع علٰی کفــر من لم یکفـر کل من فارق دین المسلمین اووقف فی تکفیر ھم اوشک ( الشفاء للقاضی فصل فی تحقیق القول فی اکفار المتا ؤلین ،مطبعۃ شرکۃ صحافیۃ فی البلاد العثمانیۃ ۲ /۲۶۷)
مختصرًا۔ اسلام سے علیحدگی اختیار کرنے والے کی تکفیر نہ کرنے والے یا ان کی تکفیر میں توقف یا شک کرنے والے کی تکفیر نہ کرنے والے کے کفر پر اجماع ہے، مختصراً ۔
بزازیہ و درمختار وغیر ہما میں ہے:
من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر ( درمختار، باب المرتد، مطبع مجتبائی دہلی، ۱/ ۳۵۶)
جس نے اس کے کفر اور عذاب میں شک کیا وہ کافر ہے
بلکہ شخص مذکور پر لازم و ضرور ہے کہ اپنے آپ ہی اپنے کفر و الحاد و زندقہ و ارتداد کا فتوٰی لکھے، آخر یہ تو بداہۃً ضرورۃً موافقین ومخالفین حتی کہ کفار و مشرکین سب کو معلوم و مسلم کہ حضرات حسنین اور ان کے والدین کریمین رضی اﷲ تعالٰی عنہم مسلمان تھے، قرآن عظیم پر ایمان رکھتے اور بلاشبہ اسے کلام اﷲ جانتے، اس کے ایک ایک حرف کو حق مانتے، اور اسی قرآن کا ارشاد ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں تو قطعاً وہ بھی حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو خاتم النبیین اعتقاد کرتے تو قطعاً یقینا اپنے آپ کو نبی ورسول نہ جانتے اور اس ادعائے ملعون کو باطل وملعون ہی مانتے کہ قول بالمتنافیین کسی عاقل سے معقول نہیں، اب یہ شخص کہ انہیں نبی ورسول مانتا ہے خود اپنے ہی ساختہ رسولوں کو کاذب و مبطل جانتا ہے اور رسولوں کی تکذیب کفرِ ظاہر ہے تو خود ہی اپنے عقیدے کی رو سے کافر ہے، غرض انہیں رسول کہہ کر اعتقاد ختم نبوت میں سچا جانا تو اس ایمانی عقیدے کا منکر ہو کر کافر ہوا، اور جھوٹا مانا تو اپنے ہی رسولوں کی آپ تکذیب کر کے کافر ہوا مفر کدھر، ولا حول ولا قوّۃ الاّ باﷲ العزیز الاکبر۔
ف:اہل بیت کرام خواہ کسی امتی کو نبی ماننے والا خود اپنے اقرار سے بھی کافر ہے۔
ولید کے مقابل ذکرِ احادیث ونصوص علمائے قدیم وحدیث کا کیا موقع کہ جو نص قطعی قرآن کو نہ مانے حدیث و علماء کی کیا قدر جانے، مگر بحمد اﷲ تعالٰی مسلمانوں کے لئے متعدد منافع ظاہر و بین ہیں، قرآن وحدیث دونوں ایمانِ مومن ہیں، احادیث کا بار بار تکرار اظہار دلوں میں ایمان کی جڑ جمائے گا، آیہ کریمہ میں وساوسِ ملعونہ بعض شیاطین نجدیہ کا استیصال فرمائے گا، ختم نبوت و خاتم النّبیین کے صحیح و نجیح معنی بتائے گا، بعض قاسمان کفرو مجون کے اختراع جنون کو مردود وملعون بنائے گا۔
ولید پلید کے ادعائے خبیث ثبوت بالحدیث کا بطلان دکھائے گا، نصوصِ ائمہ سے اہلِ ایمان کو صحت فتوٰی پر زیادہ تر اعتبار واعتماد آئے گا معہذا ذکر محبوب راحتِ قلوب ہے، ان کی یاد سے مسلمانوں کا دل چین پائے گا۔