چار پائے کلام کرتے ہیں
ابن حبان و ابن عساکر حضرت ابو منظور اور ابو نعیم بروجہ آخر حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی، جب خیبر فتح ہوا رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک دراز گوش سیاہ رنگ دیکھا اس سے کلام فرمایا، وہ جانور بھی تکلم میں آیا، ارشاد ہوا، تیرا کیا نام ہے؟ عرض کی: یزید بیٹا شہاب کا،، اﷲ تعالٰی نے میرے دادا کی نسل سے ساٹھ دراز گوش پیدا کئے
کلھم لا یرکبہ الا نبی
ان سب پر انبیاء سوار ہوا کئے
وقد کنت اتوقعک ان ترکبنی، لم یبق من نسل جدی غیری ولا من الانبیاء غیر
کہ مجھے یقینی توقع تھی کہ حضور مجھے اپنی سواری سے مشرف فرمائیں گے کہ اب اس نسل میں سوا میرے اور انبیاء میں سوا حضور کے کوئی باقی نہیں، میں ایک یہودی کے پاس تھا اسے قصداً گرا دیا کرتا وہ مجھے بھوکا رکھتا اور مارتا، حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس کا نام یعفور رکھا، جسے بلانا چاہتے اسے بھیج دیتے چوکھٹ پر سرمارتا جب صاحب خانہ باہر آتا اسے اشارے سے بتاتا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یاد فرماتے ہیں، جب حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انتقال فرمایا وہ مفارقت کی تاب نہ لایا ابو الہیثم بن التیہان رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے کنویں میں گر کر مرگیا
۱؎
ھذا حدیث ابی منظور ونحوہ عن معاذ باختصار غیر انہ ذکر مکان الاباء ثلثۃ اخوۃ واسمہ مکان یزید عمر وقال کلنا رکبنا الانبیاء انا اصغرھم وکنت لک۲؎، الحدیث .
یہ ابو منظور کی حدیث ہے اور اسی کی مثل حضرت معاذ سے بطریق اختصار مروی ہے مگر انہوں نے آباء کی جگہ تین بھائیوں کا اور یزید کی جگہ نام عمر ذکر کیا اور اس نے کہا ہم سب پر انبیاء علیہم السلام سوا ر ہوئے جبکہ میں سب سے چھوٹا ہوں اور میں آپ کے لئے ہوں، الحدیث۔
(۱؎ المواھب اللدنیۃ بحوالہ ابن عساکر عن ابی منظور، مقصد رابع، فصل اول، المکتب الاسلامی بیروت ۲/ ۵۵۴)(۲ ؎ دلائل النبوۃ لابی نعیم، الفصل الثانی والعشرون، عالم الکتب،بیروت، ص ۱۳۸)
قلت ولا علیک من دندنۃ العلامۃ ابن الجوزی کعادتہ علیہ ولا من تحامل ابن دحیۃ علٰی حدیث الضب المارسابقا فلیس فیھما ما ینکر شرعا ولا فی سندھما کذاب ولا وضاع ولا متھم بہ فانی یاتھما الوضع وھذا امام الشان العسقلانی قد اقتصرفی حدیث ابی منظور علی تضعیفہ ولہ شاھد من حدیث معاذکما تری لا جرم ان قال الزرقانی نہایتہ الضعف لا الوضع ۱؎، وقال ھو والقسطلانی فی حدیث الضب(معجزاتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فیھا ما ھو ابلغ من ھذا ولیس فیہ ما ینکر شر عا خصوصا و قدرواہ الائمۃ) الحافظ الکبار کابن عدی وتلمیذہ الحاکم و تلمیذہ البیھقی وھو لا یروی موضوعا والدارقطنی وناھیک بہ (فنھا یتہ الضعف لاالوضع) کما زعم کیف ولحدیث ابن عمر طریق اٰخر لیس فیہ السلمی رواہ ابو نعیم وورد مثلہ من حدیث عائشۃ وابی ھریرۃ عند غیر ھما۲؎ ۱ھ
قلت(میں کہتا ہوں) علامہ ابن جوزی کا اعتراض جیسا کہ اس کی عادت ہے تجھے مضر نہیں، اور نہ ہی ابن دحیہ کی سو سمار سے متعلق گزشتہ حدیث پر جسارت تجھے مضر ہے، ان دونوں حدیثوں میں شرعی طور پر کوئی قابل انکار چیز نہیں اور نہ ہی ان کی سندوں میں کوئی کذاب اور وضاع اور متہم راوی ہے تو ان حدیثوں کا موضوع ہونا کہاں سے ہوا جبکہ امام عسقلانی نے ابو منظور کی حدیث کو ضعیف کہنے پر اقتصار کیا حالانکہ اس حدیث کا شاہد حضرت معاذ کی حدیث ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے اسی بنا پر علامہ زرقانی نے فرمایا زیادہ سے زیادہ یہ ضعیف ہے موضوع نہیں ہے، اور انہوں نے اور امام قسطلانی نے بھی سو سمار والی حدیث کے متعلق فرمایا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معجزات میں تو اس سے بڑھ کر واقعات ہیں جبکہ اس حدیث میں شرعی طور پر قابل انکا ر چیز بھی نہیں، خصوصاً جبکہ اس کو بڑے ائمہ حفاظ جیسے ابن عدی، ان کے شاگرد امام حاکم اور ان کے شاگرد امام بیہقی نے روایت کیا ہو، امام بیہقی تو موضوع روایت ذکر نہیں کرتے، اس کو دارقطنی نے روایت کیا ان کی سند تو تجھے کافی ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ حدیث ضعیف ہوسکتی ہے موضوع نہیں ہے جیسا کہ بعض نے خیال کیا، موضوع کیسے کہا جائے جبکہ ابن عمر کی حدیث دوسرے طریقہ سے بھی مروی ہے جس میں سلمٰی مذکور نہیں اس طریق کو ابو نعیم نے روایت کیا اور حضرت عائشہ صدیقہ اور ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے اس کی مثل دونوں کے غیر سے وارد ہے ۱ھ
(۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ مقصد رابع، فصل اول، حدیث الضب، دارالمعرفۃ بیروت، ۵/ ۱۴۸)(۲؎ المواہب اللدنیہ مقصد رابع، فصل اول، حدیث الضب،المکتب الاسلامی، بیروت، ۲/ ۵۵۵)(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ مقصد رابع، فصل اول، حدیث الضب،دارالمعرفۃ بیروت، ۵/ ۵۰۔۱۴۹)
قلت وقد اوردکلا الحدیثین الامام خاتم الحفاظ فی الخصائص الکبری وقد قال فی خطبتہا نزھتہ عن الاخبار الموضوعۃ وما یرد ۱ھ ۳؎ ، قلت وعزو الزرقانی حدیث الضب لا بن عمر تبع فیہ الماتن اعنی الامام القسطلانی صاحب المواھب وسبقھما الد میری فی حٰیوۃ الحیوان الکبری لکن الذی رأیت فی الخصائص الکبرٰی والجامع الکبیر للامام الجلیل الجلال السیوطی ھو عزوہ لامیرالمؤمنین عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کما قدمت وقد اوردہ فی الجامع فی مسند عمر فزیادۃ لفظ الابن اما وقع سھوا اویکون الحدیث من طریق ابن عمر عن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنھما فیصح العزو الی کل وان کان الاولی ذکرا لمنتھی ویحتمل علی بُعد عن کل منھما فاذن یکون مرویا عن ستۃ من الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی عنھم، واﷲ تعالٰی اعلم۔
قلت( میں کہتا ہوں) ان دونوں حدیثوں کو امام جلا ل الدین سیوطی نے خصائص الکبرٰی میں ذکر فرمایا حالانکہ انہوں نے اس کتاب کے خطبہ میں فرمایا ہے میں نے اس کتاب کو موضوع اور مردودروایات سے دور رکھا ہے۱ھ قلت( میں کہتا ہوں) زرقانی کا سو سمار والی حدیث کو ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما کی طرف منسوب کرنا ماتن یعنی مصنف مواہب امام قسطلانی کی پیروی ہے جبکہ ان دونوں سے قبل علامہ دمیری نے حٰیوۃ الحیوان میں اس کو ذکر کیا لیکنمیں نے امام جلا ل الدین سیوطی کی خصائص الکبرٰی اور جامع کبیر میں دیکھا انہوں نے اس کو امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی طرف منسوب کیا ہے جیسا کہ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں، انہوں نے اسے اپنی جامع میں حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے مسند میں ذکر فرمایا، تو ''ابن'' کا لفظ سہواً لکھا گیا ہے یا پھر ابن عمر کے ذریعے حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے مروی ہے لہٰذا دونوں حضرات کی طرف نسبت درست ہے، اگر چہ منتہی راوی یعنی عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی طرف منسوب کرنا اولٰی ہے اور بعید احتمال کے طور پر دونوں حضرات سے مستقل روایت بھی ہوسکتی ہے تو یوں چھ صحابہ سے یہ حدیث مروی ہوگی۔ (واﷲ تعالٰی اعلم )۔
(۳؎ الخصائص الکبرٰی، مقدمۃ المؤلف، دارالکتب الحدیثیہ، بیروت، ۱/ ۸)
میرے بعد کوئی نبی نہیں
سعید بن ابی منصور و امام احمد وابن مردویہ حضرت ابوالطفیل رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لا نبوۃ بعدی الا المبشرات الرؤیا الصالحۃ۱؎
میرے بعد نبوت نہیں مگر بشارتیں ہیں اچھے خواب۔
(۱؎ مسند امام احمد بن حنبل، حدیث َابی الطفیل رضی اﷲ تعالٰی عنہ، دارالفکر بیروت، ۵/ ۴۵۴)(مجمع الزوائد، کتاب التعبیر، دارالکتاب،بیروت، ۷/ ۱۷۳)
احمد وخطیب اور بیہقی شعب الایمان میں اس کے قریب ام المؤمنین صدیقہ رضی اﷲتعالٰی عنہا سے راوی رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں
: لا یبقی بعدی من النبوۃ شیئ الاالمبشرات الرؤیا الصالحۃ یراھا العبد اوتری لہ۱؎
میرے بعد نبوت سے کچھ باقی نہ رہے گا مگر بشارتیں، اچھا خواب کہ بندہ آپ دیکھے یا اس کے لئے دوسرے کو دکھایا جائے۔
(۱؎ مسند امام احمد بن حنبل، حدیث سیدہ عائشہ صدیقہ رضی ا ﷲتعالٰی عنہا، دارالفکر بیروت، ۶/ ۱۲۹)(تاریخ بغداد للخطیب، ترجمہ ۵۸۳۶، عبدالغالب بن جعفر، دارالکتاب، العربی، بیروت، ۱۱/ ۱۴۰)
تیس (۳۰) کذّاب
ابو بکر ابن ابی شیبہ مصنف میں عبید بن عمر ولیثی اور طبرانی کبیرمیں نعیم بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی، رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں
:لا تقوم الساعۃ حتی یخرج ثلٰثون کذّابا کلھم یزعم انہ نبی زاد۲؎عبید قبل یوم القٰیمۃ۔
قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ اس سے پہلے تیس کذاب نکلیں ہر ایک اپنے آپ کو نبی کہتا ہو۔ عبید نے اس پر ''قبل یوم القٰیمۃ''کو زائد کیا۔
(۲ ؎ مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفتن حدیث ۱۹۴۱۱، ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ،کراچی ۱۵/ ۱۷۰)
اقول وانما اخرنا ھما الی التذییل بخلاف عین اللفظ المتقدم فی الحدیث الثانی والستین لان فی تتمتہ ان من قال فافعلوا بہ کذاوکذا وھٰذا العموم انما تم لا جل ختم النبوۃ اذلوجاز ان یکون بعدہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نبی صادق لما ساع الامر المذکور بالعموم وان کان یاتی ایضا ثلٰثون او الوف من الکذابین بل کان یجب اقسامۃ امارۃ تمیز الصادق من الکاذب والامر بالایقاع بمن ھو کاذب منھم لا غیر کما لا یخفی والی اﷲ المشتکٰی من ضعفنا فی ھٰذہ الزمان الکثیر فجارہ القلیل انصارہ الغالب کفارہ البین عوارہ وقد ظھر الاٰن بعض ھٰؤلاء الدجالین الکذابین فلواراداﷲ باحدھم شیئًا یطیروا بالمسلم والمسلم انما حدّث فانّا ﷲ واناّ الیہ رٰجعون لکن الاحتراس کان اسلم للمسلم وانفی للفساد فاحببنا الاقتصار علی القدر المراد واﷲ المستعان وعلیہ التکلان ولا حول ولا قوۃ الاّ باﷲ العلی العظیم۔
اقول(میں کہتا ہوں) ان دونوں حدیثوں کو ہم نے تذییل کے آخر میں ذکر کیا برخلاف اس کے جو باسٹھویں حدیث میں پہلے گزرا عین لفظ اس کے کیونکہ اس کے آخر میں یوں ہے کہ جو بھی نبوت کا دعوٰی کرے اسے یہ یہ کرو۔ اور جو بھی ایسا دعوٰی کرے اس سے یوں کرو''یہ عموم ختم نبوت کے لئے ہی تام ہوسکتا ہے کیونکہ اگر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا آنا جائز ہوتا تو پھر یہ عام حکم ایسے لوگ تیس ہوں یا ہزاروں ہوں سب کو شامل نہ ہوتا بلکہ پھر سچے اور جھوٹے نبی کی تمیز میں کوئی امتیازی علامت بیان کر کے''یہ یہ کرنے'' کا حکم ان میں سے صرف کاذبین کے لئے ہوتا ہر ایک کے لئے نہ ہوتا، جیسا کہ ظاہر ہے، اور اﷲ تعالٰی سے ہی اس زمانہ میں ہمیں اپنے کمزور ہونے کی شکایت ہے یہ زمانہ جس میں فجار کی کثرت، مددگاروں کی قلت، کافروں کا غلبہ اور کج روی عام ہے جبکہ اب بعض ایسے کذاب دجّال لوگ ظاہر ہوئے ہیں، اگر ایسے دجالوں کو اﷲ تعالٰی کے ارادہ سے کچھ ہوگیا تو اس کو مسلمانوں کی طرف منسوب کیا جائے گا کہ انہوں نے ایسی حدیث بیان کی جس پریہ کچھ ہوا ہم اﷲ تعالٰی کی ملک ہیں اور اس کی طرف ہمارا لوٹنا ہے تاہم مسلمانوں کو اپنی حفاظت مناسب ہے اور فساد کو دفع کرنا زیادہ بہتر ہے تو اس لئے صرف مراد کو بیان کرنا ہی پسند کیا ہے، اور اﷲ تعالٰی ہی سے مدد اور اسی پر توکل ہے لاحو ل ولا قوۃ الاّ باﷲ العلی العظیم۔
علی بمنزلہ ہارون ہیں
خطیب حضرت امیر المؤمنین عمر فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا
: انما علی مِنّی بمنزلۃ ھارون من موسٰی الا انہ لا نبی بعدی ۱؎
علی مجھ سے ایسا ہے جیسا موسٰی سے ہارون( کہ بھائی بھی اور نائب بھی) مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں
(۱؎ تاریخ بغداد للخطیب، ترجمہ ۴۰۲۳، الحسن بن یزید، دارالکتاب العربی، بیروت، ۷/ ۴۵۳)
امام احمد مناقب امیر المؤمنین علی میں مختصراً، اور بغوی وطبرانی اپنی معاجیم، باوردی معرفت، ابن عدی کامل، ابو احمد حاکم کنٰی میں بطریق امام بخاری، ابن عساکر تاریخ میں سب زید بن ابی اوفٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے حدیث طویل میں راوی وھذا حدیث احمد ( یہ حدیث احمد ہے۔ت) جب حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے باہم صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم میں بھائی چارہ کیا امیر المؤمنین مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ نے عرض کی: میری جان نکل گئی اور پیٹھ ٹوٹ گئی، یہ دیکھ کر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کے ساتھ کیا جو میرے ساتھ نہ کیا یہ اگر مجھ سے کسی ناراضی کے سبب ہے تو حضور ہی کے لئے منانا اور عزت ہے۔
رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
والذی بعثنی بالحق ما اخرتک الا لنفسی وانت منّی بمنزلۃ ھارون من موسٰی غیر انہ لا نبی بعدی۲؎
قسم اس کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا میں نے تمہیں خاص اپنے لئے رکھ چھوڑا ہے تم مجھ سے ایسے ہو جیسے ہارون موسٰی سے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں تم میرے بھائی اور وارث ہو۔
(۲؎ تاریخ دمشق لابن عسا کر،ذکر من اسمہ سلمان، ترجمہ سلمان بن الاسلام الفارسی، داراحیاء التراث، العربی بیروت،۶/ ۲۰۳)(فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبل، حدیث ۱۰۸۵، موسسۃ الرسالہ، بیروت، ۲/ ۳۹۔۶۳۸)
امیر المؤمنین نے عرض کی: مجھے حضور سے کیا میراث ملے گی؟فرمایا: جو اگلے انبیاء کو ملی۔ عرض کی: انہیں کیا ملی تھی؟فرمایا: خدا کی کتاب اور نبی کی سنت، اور تم میرے ساتھ جنت میں میری صاحبزادی کے ساتھ میرے محل میں ہوگے اور تم میرے بھائی اور رفیق ہو۔
ابن عساکر
(عہ)بطریق عبداﷲ بن محمد بن عقیل عن ابیہ عن جدہٖ عقیل بن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنہ راوی، حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت عقیل رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے فرمایا: خدا کی قسم میں تمہیں دو جہت سے دوست رکھتا ہوں، ایک تو قرابت، دوسرے یہ کہ ابوطالب کو تم سے محبت تھی، اے جعفر! تمہارے اخلاق میرے اخلاق کریمہ سے مشابہ ہیں
: واما انت یا علی فانت منی بمنزلۃ ھارون من موسٰی غیر انہ لانبی بعدی ۱؎
تم اے علی! مجھ سے ایسے ہو جیسے موسٰی سے ہارون مگر یہ کہ میرے بعد نبی نہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔
(۱؎ کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن عبداﷲ بن عقیل حدیث ۳۳۶۱۶،موسسۃ الرسالۃ،بیروت، ۱۱/ ۷۳۹)
فی نسخۃ کنزالعمال المطبوعۃ عن عبداﷲ بن عقیل عن ابیہ عن جدہ عقیل وھو خطاء وصوابہ عبداﷲ بن محمد بن عقیل، عبداﷲ تابعی صدوق من رجال الاربعۃ ما خلا النسائی قال الذھبی حدیثہ فی مرتبۃ الحسن وابوہ تابعی مقبول رجال ابن ماجۃ۱۲ منہ (م)
کنزالعمال کے مطبوعہ نسخہ میں عبداﷲ بن عقیل اپنے والد ماجد اور ان کے دادا عقیل سے راوی جبکہ یہ خطا ہے اور صحیح یہ ہے عبداﷲ بن محمد بن عقیل، یہ عبداﷲ تابعی ہیں نہایت صادق، نسائی کے ماسوا سنن صحاح کے راویوں میں شمار ہیں، امام ذہبی نے فرمایا ان کی روایت حسن کے مرتبہ میں ہے اور ان کے والد بھی تابعی اور مقبول، ابن ماجہ کے راویوں میں شمار ہیں۔
الحمدﷲ تین چہل حدیث کا عدد تو کامل ہواجن میں چوراسی ۸۴ حدیثیں مرفوع تھیں اور سترہ۱۷ تذییلات علاوہ، پہلے گزری تھیں سات
(عہ) اس تکمیل میں بڑھیں، ان سترہ میں بھی پانچ مرفوع تھیں تو جملہ مرفوعات یعنی وہ حدیثیں جو خود حضور پر نور خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے مروی حضور کے ارشاد و تقریر کی طرف منتہٰی ہیں نواسی ۸۹ ہوئیں لہٰذا چاہا کہ ایک حدیث مرفوع اور شامل ہو کہ نوّے ۹۰ احادیث مرفوعہ کا عدد کامل ہو نیز ان اﷲ وتر یحب الوتر(اﷲ واحد ہے اور واحد کو پسند کرتا ہے۔ت) کا فضل حاصل ہو۔
بعد حدیث ۱۱۰ تذییل اول دو حدیث عبادہ بن صامت وہشام بن عاص، وتذییل دوم دو حدیث حاطب وشیوخ واقدی، وتذییل سوم حدیث ابن سلام وبعد حدیث ۱۱۷ دو حدیث عبید و نعیم رضی اﷲ تعالٰی عنہم ۱۲ منہ (م)
میں آخری نبی اور میری امت آخری امت ہے
بیہقی سنن میں حضر ت ابن زمل جُہنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے حدیث طویل رؤیا میں راوی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بعد نماز صبح پاؤں بدلنے سے پہلے ستر بار سبحان اﷲ وبحمدہٖ واستغفراﷲ ان اﷲ کان توّابا پڑھتے پھر فرماتے یہ ستر ۷۰ سات سو ۷۰۰ کے برابر ہیں نرا بے خیر ہے جو ایک دن میں سات سو ۷۰۰ سے زیادہ گناہ کرے (یعنی ہر نیکی کم از کم دس ہے من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا، تو یہ ستر کلمے سات سو نیکیاں ہوئے اور ہر نیکی کم از کم ایک بد ی کو محو کرتی ہے۔
ان الحسنات یذھبن السیاٰت
، تو اس کے پڑھنے والے کے لئے نیکیاں ہی غالب رہیں گی مگر وہ کہ دن میں سات سو گناہ سے زیادہ کرے اور ایسا سخت ہی بے خیر ہوگا وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل۔
پھر لوگوں کی طرف منہ کر کے تشریف رکھتے اور اچھا خواب حضور کو خوش آتا دریافت فرماتے: کسی نے کچھ دیکھا ہے؟ ابن زمل نے عرض کی: یارسول اﷲ ! میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔فرمایا: بھلائی پاؤ اور برائی سے بچو ہمیں اچھا اور ہمارے دشمنوں پر بُرا، رب العالمین کے لئے ساری خوبیاں ہیں خواب بیان کرو۔انہوں نے عرض کی: میں نے دیکھا کہ سب لوگ ایک وسیع نرم بے نہایت راستے پر بیچ شارع عام میں چل رہے ہیں ناگہاں اس راہ کے لبوں پر خوبصورت سبزہ زار نظر آیا کہ ایسا کبھی نہ دیکھا تھا اس کا لہلہاتا سبزہ چمک رہا ہے، شادابی کا پانی ٹپک رہا ہے، اس میں ہر قسم کی گھاس ہے،پہلا ہجو م آیا، جب اس سبزہ زار پر پہنچے تکبیر کہی اور سواریاں سیدھے راستے پر ڈالے چلے گئے ادھر ادھر اصلاً نہ پھرے، پھر اس مرغزار کی طرف کچھ التفات نہ کیا، پھر دوسرا ہلّہ آیا کہ پہلوں سے کئی گنا زائد تھا، سبزہ زار پرپہنچے تکبیر کہی راہ پر چلے مگر کوئی کوئی اس چراگاہ میں چرانے بھی لگا اور کسی نے چلتے میں ایک مُٹھّا لے لیا، پھر روانہ ہوئے، پھر عام اژدھام آیا، جب یہ سبزہ زار پر پہنچے تکبیر کہی اور بولے یہ منزل سب سے اچھی ہے یہ ادھر ادھر پڑگئے میں ماجرا دیکھ کر سیدھا راہ راہ پڑلیا، جب سبزہ زار سے گزر گیا تو دیکھا کہ سات زینے کا ایک منبر ہے اور حضور اس کے سب سے اونچے درجے پر جلوہ فرما ہیں، حضور کے آگے ایک سال خوردلاغر ناقہ ہے حضور اس کے پیچھے تشریف لے جاتے ہیں سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا وہ راہ نرم و وسیع وہ ہدایت ہے جس پر میں تمہیں لایا اور تم اس پر قائم ہو اور وہ سبزہ زار دنیا اور اس کے عیش کی تازگی ہے میں اور میرے صحابہ تو چلے گئے کہ دنیا سے اصلاً علاقہ نہ رکھا نہ اسے ہم سے تعلق ہوا نہ ہم نے اسے چاہا نہ اس نے ہمیں چاہا پھر دوسرا ہجوم ہمارے بعد آیا وہ ہم سے کئی گنا زیادہ ہے، ان میں سے کسی نے چرایا کسی نے گھاس کا مُٹّھا لیا اور نجات پا گئے، پھربڑا ہجوم آیا وہ سبزہ زار میں دہنے بائیں پڑگئے تو انّا ﷲ وانّا الیہ رٰجعونoاور اے ابن زمل!تم اچھی راہ پر چلتے رہو گے یہاں تک کہ مجھ سے ملو اور وہ سات زینے کا منبر جس کے درجہ اعلٰی پر مجھے دیکھا یہ جہان ہے اس کی عمر سات ہزار برس کی ہے اور میں اخیر ہزار میں ہوں
وامّا ناقۃ التی رأیت ورأیتنی اتبعھا فھی الساعۃ علینا تقوم لا نبی بعدی ولا اُمۃ بعد اُمتی
اور وہ ناقہ جس کے پیچھے مجھے جاتا دیکھا قیامت ہے ہمارے ہی زمانے میں آئے گی، نہ میرے بعد کوئی نبی نہ میری امت کے بعد کوئی امت
۱؎،
صلی اﷲ تعالٰی علیک وعلٰی امتک اجمعین وبارک وسلم واٰخردعوٰنا ان الحمدﷲ رب العٰلمین
۔
(۱؎کنزالعمال بحوالہ البیہقی،حدیث ۴۲۰۱۸، موسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۵/ ۵۱۸تا ۵۲۱)(المعجم الکبیر حدیث ۸۱۴۶، عن ابن زمل الجہنی، المکتبۃ الفیصلیۃ،بیروت،۸/ ۳۶۲و۳۶۷)
تسجیل جمیل
گیارہ تابعی صحابہ وتابعین جن میں صرف گیارہ تابعی:
۱۔ امام اجل محمد باقر ۲۔سعد بن ثابت
۳۔ابن شہاب زہری ۴۔عامر شعبی
۵۔عبداﷲ بن ابی الہذیل ۶۔علاء بن زیاد
۷۔ابو قلابہ ۸۔کعب احبار
۹۔مجاھد مکی ۱۰۔محمد بن کعب قرظی
۱۱۔وہب بن منبہ
اکاون صحابہ:باقی ساٹھ صحابی ازاں جملہ اکاون صحابہ خاص اصول مرویات میں:
۱۲۔ابی بن کعب ۱۳۔ابوامامہ باہلی
۱۴۔انس بن مالک ۱۵۔اسماء بنت عمیس
۱۶۔براء بن عازب ۱۷۔بلال مؤذن
۱۸۔ثوبان مولٰی رسول اﷲؐ ۱۹۔جابر بن سمرہ
۲۰۔جابر بن عبداﷲ ۲۱۔جبیر بن مطعم
۲۲۔حبیش بن جنادہ ۲۳۔حذیفہ بن اسید
۲۴۔حذیفہ بن الیمان ۲۵۔حسان بن ثابت
۲۶۔حویصہ بن مسعود ۲۷۔ابوذر
۲۸۔ابن زمل ۲۹۔زیاد بن لبید
۳۰۔زیدبن ارقم ۳۱۔زیدبن ابی اوفٰی
۳۲۔سعد بن ابی وقاص ۳۳۔سعید بن زید
۳۴۔ابو سعید خدری ۳۵۔سلمان فارسی
۳۶۔سہل بن سعد ۳۷۔ام المؤمنین ام سلمہ
۳۸۔ابو الطفیل عامر بن ربیعہ ۳۹۔عامر بن ربیعہ
۴۰۔عبداﷲ بن عباس ۴۱۔عبداﷲ بن عمر
۴۲۔عبدالرحمن بن غنم ۴۳۔عدی بن ربیعہ
۴۴۔عرباض بن ساریہ ۴۵۔عصمہ بن مالک
۴۶۔عقبہ بن عامر ۴۷۔عقیل بن ابی طالب
۴۸۔امیر المؤمنین علی ۴۹۔امیر المؤمنین عمر
۵۰۔عوف بن مالک اشجعی ۵۱۔ام المؤمنین صدیقہ
۵۲۔ام کرز ۵۳۔مالک بن حویرث
۵۴۔مالک بن سنان والد ابی سعید خدری ۵۵۔محمد بن عدی بن ربیعہ
۵۶۔معاذ بن جبل ۵۷۔امیر معاویہ
۵۸۔مغیرہ بن شعبہ ۵۹۔ابن ام مکتوم
۶۰۔ابو منظور ۶۱۔ابو موسٰی اشعری
۶۲۔ابوہریرہ
اور نو صحابی تذییلات میں
۶۳۔حاطب بن ابی بلتعہ ۶۴۔عبداﷲ ابن ابی اوفٰی
۶۵۔عبداﷲ بن زبیر ۶۶۔عبداﷲ بن سلام
۶۷۔عبداﷲبن عمرو بن عاص ۶۸۔عبادہ بن صامت
۶۹۔عبید بن عمرو لیثی ۷۰۔نعیم بن مسعود
۷۱۔ہشام بن عاص رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔
ختم نبوت پر دیوبندی عقیدہ
ان احادیث کثیرہ وافرہ شہیرہ متواترہ میں صرف گیارہ حدیثیں وہ ہیں جن میں فقط نبوت کا انہیں الفاظ موجودہ قرآن عظیم سے ذکر ہے جن میں آج کل کے بعض ضُلّال قاسمانِ کفر و ضلال نے تحریف معنوی کی اور معاذاﷲ حضور کے بعد اور نبوتوں کی نیو جمانے کو خاتمیت بمعنی نبوت بالذّات لی یعنی معنی خاتم النبیین صرف اس قدر ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نبی بالذّات ہیں اور انبیاء نبی بالعرض، باقی زمانے میں تمام انبیاء کے بعد ہونا حضور کے بعد اور کسی کو نبوت ملنی ممتنع ہونا یہ معنی ختم نبوت نہیں اور صاف لکھ دیا کہ حضور کے بعد بھی کسی کو نبوت مل جائے تو ختم نبوت کے اصلاً منافی نہیں اس کے رسالہ ضلالت مقالہ کا خلاصہ عبارت یہ ہے:
قاسم نانوتوی کا عقیدہ
عوام کے خیال میں تو رسول اﷲ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن کہ تقدّم یا تاخّر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھرمقام مدح میں ولٰکن رسول اﷲ و خاتم النبیین فرمانا کیونکر صحیح ہوسکتا بلکہ موصوف بالعرض کا قصّہ موصوف بالذات پر ختم ہوجاتا ہے اسی طور پر رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خاتمیت کو تصور فرمائیے آپ موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور نبی موصوف بالعرض ایں معنی جو میں نے عرض کیا آپ کا خاتم ہونا انبیائے گزشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا بلکہ بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہوتو خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا چہ جائیکہ آپ کے معاصر کسی اور زمین میں یا اسی زمین میں کوئی اور نبی تجویز کیا جائے۱؎ھ ملتقطاً(۱؎ تحذیر الناس، مطبوعہ دارالاشاعت کراچی۔ ص۱۸و۲۴)
مسلمانو! دیکھا اس ملعون ناپاک شیطانی قول نے ختم نبوت کی کیسی جڑ کاٹ دی، خاتمیت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیۃ کہ وہ تاویل گھڑی کہ خاتمیت خود ہی ختم کردی صاف لکھ دیا کہ اگر حضور خاتم الانبیاء علیہ وعلیہم افضل الصلوٰۃ والثنا کے زمانے میں بلکہ حضور کے بعد بھی کوئی نبی پیدا ہوتو ختم نبوت کے کچھ منافی نہیں اﷲ اﷲ جس کفر ملعون کے موجد کو خود قرآن عظیم کا وخاتم النبیین فرمانا نافع نہ ہوا کما قال تعالٰی (جیسا کہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا۔: وننزّل من القراٰن ما ھو شفاء ورحمۃ للمؤمنین ولا یزید الظّٰلمین الاّ خساراo۲ اتارتے ہیں ہم اس قرآن سے وہ چیز کہ مسلمانوں کیلئے شفاء ورحمت ہے اور ظالموں کو اس سے کچھ نہیں بڑھتا سوا زیاں کے۔(۲القرآن الکریم ۱۷/ ۸۲)
اسے احادیث میں خاتم النبیین فرمانا کیا کام دے سکتا ہے فبای حدیث بعدہ یومنون۳
قرآن کے بعد اور کون سی حدیث پر ایمان لائیں گے۔ (القرآن الکریم ۷/ ۱۸۵)
صحابہ کرام اور ختم نبوت
فقیر غفرلہ المولی القدیر نے ان احادیث کثیرہ میں صرف گیارہ حدیثیں ایسی لکھیں جن میں تنہا ختم نبوت کا ذکر ہے باقی نوے ۹۰ احادیث اور اکثر تذییلات، ان پر علاوہ سو ۱۰۰ سے زائد حدیثیں وہی جمع کیں کہ بالتصریح حضور کا اسی معنی پر خاتم ہونا بتارہی ہیں جسے وہ گمراہ ضال عوام کا خیال جانتا ہے اور اس میں نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لئے کوئی تعریف نہیں مانتا، صحابہ کرام وتابعین عظّام کے ارشادات کہ تذییلوں میں گزرے،مثلاً:
۱۔امیر المؤمنین عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے عرض کی کہ اﷲ تعالٰی نے حضور کو سب انبیاء کے بعد بھیجا۔
۲۔انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا قول تمہارے نبی آخر الانبیاء ہیں۔
۳۔عبداﷲ بن ابی اوفٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا ارشاد کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔
۴۔امام باقر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا قول کہ وہ سب انبیاء کے بعد بھیجے گئے۔
انہیں تو یہ گمراہ کب سنے گا کہ وہ اسی وسوسۃ الخناس میں صاف یہ خود بھی بتایا گیا ہے کہ وہ سلف صالح کے خلاف چلا ہے اور اسکا عذر یوں پیش کیا کہ:
اگر بوجہ کم التفاتی بڑوں کا فہم کسی مضمون تک نہ پہنچا تو ان کی شان میں کیا نقصان آگیا اور کسی طفل ناداں نے کوئی ٹھکانے کی بات کہہ دی تو کیا وہ عظیم الشان ہوگیا''۔
مگر آنکھیں کھول کر خود محمد رسول اﷲ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی متواتر حدیثیں دیکھئے کہ:
۱۔میں عاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔
۲۔میں سب انبیاء میں آخر نبی ہوں۔
۳۔میں تمام انبیاء کے بعد آیا۔
۴۔ہمیں پچھلے ہیں۔
۵۔میں سب پیغمبروں کے بعد بھیجا گیا۔
۶۔قصر نبوت میں جو ایک اینٹ کی جگہ تھی مجھ سے کامل کی گئی۔
۷۔میں آخر الانبیاء ہوں۔
۸۔میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
۹۔رسالت و نبوت منقطع ہوگئی اب نہ کوئی رسول ہوگا نہ نبی۔
۱۰۔نبوت میں سے اب کچھ نہ رہا سوا اچھے خواب کے۔
۱۱۔ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔
۱۲۔میرے بعد دجّال کذّاب ادعائے نبوت کریں گے۔
۱۳۔میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
۱۴۔نہ میری امت کے بعد کوئی امت۔
ادھر علمائے کتبِ سابقہ(عہ) اﷲ و رسل جل جلالہ و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ارشادات سن سن کر شہادات ادا کریں گے کہ:
۱۔احمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم خاتم النبیین ہوں گے ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔
۲۔انکے سوا کوئی نبی باقی نہیں۔
۳۔وہ آخر الانبیاء ہیں۔
عہ: نیز تذییلات میں مقوقس کی دو حدیثیں گزریں کہ ایک نبی باقی تھے وہ عرب میں ظاہر ہوئے، ہرقل کی دو حدیثیں کہ یہ خانہ آخر البیوت تھا، عبداﷲ بن سلام کی حدیث کہ وہ قیامت کے ساتھ مبعوث ہوئے، ایک حبر کا قول کہ وہ امت آخرہ کے نبی ہیں بلکہ جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عرض کہ حضور سب پیغمبروں سے زمانے میں متاخر ہیں۔(م)
ادھر ملائکہ و انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی صدائیں آرہی ہیں کہ:
۴۔وہ پسین پیغمبراں ہیں۔
۵۔وہ آخر مرسلان ہیں۔
خود حضرت عزت عزت عزتہ سے ارشادات جانفزا و دلنواز آرہے ہیں کہ:
۶۔محمد ہی اوّل و آخر ہے۔
۷۔اس کی امت مرتبے میں سب سے اگلی اور زمانے میں سب سے پچھلی۔
۸۔وہ سب انبیاء کے پیچھے آیا۔
۹۔اے محبوب! میں نے تجھے آخر النبیین کیا۔
۱۰۔اے محبوب! میں نے تجھے سب انبیاء سے پہلے بنایا اور سب کے بعد بھیجا۔
۱۱۔محمد آخر الانبیاء ہے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔
مگر یہ ضال مضل محرف قرآن مغیر ایمان ہے کہ نہ ملائکہ کی سنے نہ انبیاء کی نہ مصطفٰی کی مانے نہ ان کے خدا کی۔ سب کی طرف سے ایک کان گونگا ایک بہرا، ایک دیدہ اندھا ایک پھوٹا، اپنی ہی ہانک لگائے جاتا ہے کہ یہ سب نافہمی کے اوہام، خیالاتِ عوام ہیں، آخر الانبیاء ہونے میں فضیلت ہی کیا ہے
انّا ﷲ وانّا الیہ رٰجعونo کذٰلک یطبع اﷲ علٰی کل قلب متکبر جبارo۱ ربّنا لا تزغ قلوبنا بعد اذھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمۃ انّک انت الوھابo۲
اﷲ یونہی مہر کر دیتا ہے متکبر سر کش کے دل پر۔ اے ہمارے رب ! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر بعد اس کے کہ تونے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا کر بیشک توہی بڑا دینے والا۔
(۱القرآن الکریم ۴۰/ ۳۵)(۲القرآن الکریم ۳/ ۸)
ہاں ان نوے ۹۰ حدیثوں میں تین حدیثیں صرف بلفظ خاتمیت بھی ہیں، دو حدیث سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کہ اے چچا! جس طرح اﷲ تعالٰی نے مجھ پر نبوت ختم کی تم پر ہجرت کو ختم فرمائے گا، جیسے میں خاتم النبیین ہوں تم خاتم المہاجرین ہوگے۔ شاید وہ گمراہ یہاں بھی کہہ دے کہ تمام مہاجرین کرام مہاجر بالعرض تھے حضرت عباس مہاجر بالذات ہوئے۔
ایک اور حدیث الٰہی جل وعلا کہ میں ان کی کتاب پر کتابوں کو ختم کرو نگا اور ان کے دین وشریعت پر ادیان شرائع کو۔
اوگمراہ! اب یہاں بھی کہہ دے کہ اور دین دین بالعرض تھے یہ دین دین بالذات ہے توریت و انجیل و زبور اﷲ تعالٰی کے کلام بالعرض تھے قرآن کلام بالذات ہے مگر ہے یہ کہ:
من لم یجعل اﷲ لہ نورا فما لہ من نورo۳ نسأل اﷲ العفووالعافیۃ ونعوذ بہ من الحور بعد الکور والکفر بعد الایمان والضلال بعد الھدی ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم وصلی اﷲ تعالٰی علی سیدنا ومولانا محمد اٰخر المرسلین و خاتم النبیین واٰلہ و صحبہ اجمعین، والحمد ﷲ رب العٰلمین۔
جس کے لئے اﷲ تعالٰی نور نہ بنائے تو اس کے لئے کوئی نور نہیں، ہم اﷲ تعالٰی سے معافی اور عافیت کے طلبگار ہیں، اور ہم سنور نے کے بعد بگڑنے اور ایمان کے بعد کفر اور ہدایت کے بعد گمراہی سے اس کی پناہ کے طالب ہیں، حرکت اور طاقت نہیں مگر صرف اﷲ تعالٰی سے جو بلند و عظیم ہے، اﷲ تعالٰی کی صلواتیں ہمارے آقا و مولٰی محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر جو رسولوں کے آخری اور نبیوں کے آخری ہیں اور آپ کی سب آل و اصحاب پر، والحمد ﷲ رب العالمین
(۳القرآن الکریم ۲۴/ ۴۰)
دیوبندی اور شیعہ عقائد میں مماثلت
الحمدﷲ کہ بیان اپنے منتہٰی کو پہنچا اور حق کا وضوح ذروہ اعلٰی کو۔ احادیث متواترہ سے اصل مقصد یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا خاتم النبیین اور اہلبیت کرام کا نبوت و رسالت سے بے علاقہ ہونا تو بروجہ تواتر قطعی خود ہی روشن و آشکار ا ہوا اور اس کے ساتھ طائفہ تالفہ وہابیہ قاسمیہ کو خاتم النبیین کو بہ معنی آخر النبیین نہ ماننا، اور حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد اور نبی ہونے سے ختم نبوت میں نقصان نہ جاننا اس کے کفر خفی ونفاق جلی کا بھی بفضلہٖ تعالٰی خوب اظہار ہوا اور ساتھ لگے رافضیوں کے چھوٹے بھائی حضرات تفضیلیہ کی بھی شامت آئی، اسد الغالب کی بارگاہ سے اسی ۸۰ کوڑوں کی سزا پائی، ان چھوٹے مبتدعوں کا رد یہاں محض تبعاًواستطراداً مذکور ورنہ ان کے ابطال مشرب ضلال سے قرآن عظیم واحادیث مرفوعہ واقوال اہلبیت وصحابہ وارشاداتِ امیر المؤمنین علی مرتضٰی واولیائے کرام وعلمائے اعلام و دلائل شرعیہ اصلیہ و فرعیہ کے دفتر معمور جس کی تفصیل جلیل وتحقیق جزیل فقیر غفراﷲ تعالٰی لہ کی کتاب مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین ۱۲۹۷ھ میں مسطور ہے۔