• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حیات عیسیّ کا ثبوت مجددین،مفسرین امت جن کو قادیانی حضرات بھی صحیح مانتے ہیں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت ( امام بیہقیؒ کا عقیدہ)

عظمت شان :
قادیانیوں کے نزدیک امام بیہقی بھی چوتھی صدی کے مجدد زمان تھے۔

(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۳،۱۶۵)
امام موصوف فرماتے ہیں۔
۱… ’’ قال رسول اﷲﷺ یلبث فیکم ماشاء اﷲ ثم ینزل عیسیٰ ابن مریم مصدقاً بمحمد علیٰ ملتہ فیقتل الدجال، رواہ البیہقی فی شعب الایمان ‘‘

(کنزالعمال ج۱۴ ص۳۲۱، حدیث نمبر۳۸۸۰۸)
’’فرمایا رسول اﷲﷺ نے کہ رہے گا دجال تمہارے درمیان جس قدر چاہے گا اﷲتعالیٰ پھر اترے گا عیسیٰ ابن مریم تصدیق کرتا ہوا محمد ﷺ کی اور اس کے دین کی۔‘‘
۲… امام موصوف نے رسول کریمﷺ کی ایک حدیث روایت کی ہے۔ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حیات جسمانی صاف صاف الفاظ میں مذکور ہے۔ پہلے بیان ہوچکی ہیں۔ دیکھئے!
۳… ایک اور حدیث میں امام موصوف نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کا اعلان کر کے قادیانیوں کی تمام تاویلات کو بیکار کر دیا ہے۔ مفصل بیان ہوچکی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام حاکم نیشاپوریؒ کا عقیدہ)

عظمت شان:
قادیانیوں نے امام حاکمؒ کو بھی چوتھی صدی کا مجدد زمان تسلیم کر لیا ہے۔

(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۳،۱۶۵)
امام حاکم کی روایات دربارۂ حیات عیسیٰ علیہ السلام
۱… دیکھو حاکم کی تین روایات جو پہلے بیان ہوچکی ہیں۔

پہلی روایت
دوسری روایت
تیسری روایت
۲… حافظ نعیم کی دوسری روایت، یہ روایت حاکم میں بھی موجود ہے۔
۳… دیکھو امام موصوف کی بیان کردہ ایک حدیث پہلے درج ہے۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات جسمانی روز روشن کی طرح بیان کی جارہی ہے۔
۴… امام موصوف کی روایت کردہ ایک حدیث درج ہے۔ جو حیات عیسیٰ علیہ السلام کا اعلان کر رہی ہے۔
۵… ’’ عن ابن عباسؓ قال قال رسول اﷲﷺ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ قال خروج عیسیٰ علیہ السلام ‘‘

(رواہ الحاکم فی المستدرک ج۳ ص۳۳، حدیث نمبر۳۲۶۰)
’’ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول کریمﷺ نے اور نہیں ہوگا کوئی اہل کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی موت سے پہلے فرمایا ابن عباسؓ نے کہ مراد اس سے عیسیٰ علیہ السلام کا آنا ہے۔‘‘
۶… ’’ عن انس قال قال رسول اﷲﷺ من ادرک منکم عیسیٰ ابن مریم فلیقراء منی السلام ‘‘

(رواہ الحاکم ج۵ ص۷۵۵، حدیث نمبر۸۶۷۹، صححہ)
’’حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول اﷲﷺ نے جو شخص تم میں سے پائے حضرت ابن مریم علیہ السلام کو پس ضرور انہیں میرا سلام پہنچائے۔‘‘ پس ان روایات سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام غزالیؒ کاعقیدہ)

عظمت شان:
قادیانیوں کے نزدیک یہ بزرگ امام، صدی پنجم کے مجدد امام الزمان تھے۔

(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۴)
ناظرین! میں کوہاٹ جیسے دور افتادہ شہر میں پڑا ہوا ہوں۔ جس قدر کتابیں ان کی میرے پاس ہیں۔ ان میں امام موصوف نے وفات مسیح علیہ السلام کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ علماء اسلام کے دعویٰ حیات عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے ان کا اس طرح خاموش ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کے قائل تھے۔ اگر قادیانی موصوف کی کسی کتاب سے حیات عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف ایک فقرہ بھی دکھائیں تو منہ مانگا انعام لیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام فخرالدین رازیؒ کا عقیدہ)

عظمت شان
امام موصوف قادیانیوں کے نزدیک چھٹی صدی کے مجدد تھے۔

(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۴)
امام موصوف کے اقوال دربارہ ثبوت حیات عیسیٰ علیہ السلام
ناظرین! مجددین امت مسلمہ قادیانی جماعت میں سے امام موصوف وہ بزرگ ہیں۔ جنہوں نے حیات عیسیٰ علیہ السلام پر غالباً سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ مفصل دیکھنا ہو تو وہ ملاحظہ کریں جو تفسیری حوالہ تفسیر کبیر سے پہلے نقل ہوچکے ہیں۔
۲… امام موصوف نے ’’انی متوفیک‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے توفی کے معنی اور تفسیر کر کے آٹھ سو سال بعد آنے والے قادیانی فتنہ کا ناطقہ بند کر دیا ہے۔ ’’ فجزاہ اﷲ احسن الجزاء ‘‘ وہ مضمون قابل دید ہے۔
۳… امام موصوف کی ایک عبارت پہلے درج ہے۔ جس میں انہوں نے توفی کے معنی ’’موت دینے‘‘ کے سمجھ کر بھی عجیب پیرایہ سے حیات عیسیٰ علیہ السلام پر استدلال کیا ہے۔
۴… امام موصوف اپنی (تفسیر کبیر ج۱۱ ص۱۰۳) میں زیر آیت ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ فرماتے ہیں۔
’’ رفع عیسیٰ الی السماء ثابت بہذہ الآیۃ ‘‘
یعنی عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر اٹھایا جانا اس آیت سے بھی ثابت ہے۔
۵… امام موصوف کا پہلے قول درج ہے۔ جس میں آپ ’’وکان اﷲ عزیزاً حکیما‘‘ کی فصاحت وبلاغت بیان کرتے ہوئے حیات عیسیٰ علیہ السلام علی السماء کا ثبوت دے رہے ہیں۔ (ایضاً)
۶… پہلے ہم نے امام موصوف کی تفسیر سے ایک قول نقل کیا ہے۔ جہاں وہ عجیب پیرایہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت کرنے میں فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے نازل ہوں گے۔ گویا ان کا نازل ہونا قیامت کے قرب کی نشانی ہوگی۔
۷… ایک دوسری عبارت اسی مضمون کی ملاحظہ فرمائیں۔
۸… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔
۹… پر بھی ان کا ایک مضمون قابل دید ہے۔
۱۰… ’’ روی انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام لما اظہر ہذہ المعجزات العجیبۃ قصد الیہود قتلہ فخلصہ اﷲ منہم حیث رفعہ الیٰ السماء ‘‘

(تفسیر کبیر)
روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب عجیب وغریب معجزات دکھائے تو یہود نے ان کے قتل کا ارادہ کیا۔ پس اﷲتعالیٰ نے ان کو یہود سے خلاصی دی اس طرح کہ انہیں آسمان پر اٹھا لیا۔
۱۱… امام صاحب ’’ ولٰکن شبہ ‘‘ کی بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ان یسند الیٰ ضمیر المقتول لانہ قولہ وما قتلوہ وما صلبوہ یدل علیٰ انہ وقع القتل علیٰ غیرہ فصار ذالک الغیر مذکورا بہذا الطریق فحسن اسناد شبہ الیہ‘‘

(تفسیر کبیر ج۱۱ ص۹۹)
یعنی یہ فعل شبہ مسند ہے طرف ضمیر کی جو مقتول کی طرف پھرتی ہے۔ کیونکہ قول ’’وما قتلوہ وما صلبوہ‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کسی اور شخص پر قتل واقع ہوا۔ پس اس طریق سے وہ مقتول مذکور ہوا اور شبہ کی اسناد اس کی طرف صحیح ہوگئی۔
۲… ’’ کان (جبرائیل) یسیر معہ حیث سار وکان معہ حین صعد الی السماء ‘‘

(تفسیر کبر زیر آیت وایدناہ)
اور جبرائیل علیہ السلام جاتا تھا۔ جہاں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جاتے تھے اور جبرائیل ان کے ہمراہ تھا۔ جب کہ وہ آسمان پر چڑھ گئے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام حافظ ابن کثیرؒ کا عقیدہ)

عظمت شان:
۱…قادیانی جماعت کے نزدیک حافظ موصوف بھی چھٹی صدی میں اصلاح خلق کے لئے مجدد وامام الزمان کی حیثیت سے مبعوث ہوئے تھے۔
(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۴)
۲… حافظ ابن کثیر ان اکابر ومحققین میں سے ہیں۔ جن کی آنکھوں کو خداتعالیٰ نے نور معرفت عطا کیا تھا۔
(آئینہ کمالات اسلام طبع لاہور ص۱۵۸)
۱… ہم نے تفسیر ابن کثیر ج۳ کی عبارت نقل کی ہے۔ جو حیات عیسیٰ علیہ السلام کے ثبوت میں فیصلہ کن ہے۔
۲… ہم نے ایک عبارت امام موصوف کی تفسیر سے نقل کی ہے۔ جس میں دلائل سے حیات عیسیٰ علیہ السلام ثابت کرنے کے بعد آپ نے حیات عیسیٰ علیہ السلام پر صحابہ کرامؓ اور باقی امت کا اجماع ثابت کیا ہے۔ ذرا اس مضمون کو دوبارہ مطالعہ کر کے مجدد صدی ششم کے دلائل حیات عیسیٰ علیہ السلام کا لطف اٹھائیے۔
۳… ہم نے ایک اور عبارت حافظ ابن کثیر کی نقل کی ہے۔ جس میں آپ آیت کریمہ ’’ واذ کففت بنی اسرائیل عنک ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے حیات عیسیٰ علیہ السلام ورفع جسمانی کا بڑے زور دار الفاظ میں اعلان کر رہے ہیں۔
۴… ’’انہ لعلم للساعۃ‘‘ کا امام موصوف کا اعلان قابل دید ہے۔
۵… امام ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر میں ایک صحیح حدیث روایت کی ہے۔ جس سے بڑھ کر کوئی دلیل زیادہ وزنی متصور نہیں۔ حدیث یہ ہے۔
’’ عن الحسن البصری قال قال رسول اﷲﷺ للیہود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ ‘‘
(ابن کثیر ج۱ ص۳۶۶)
امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا یہود کو کہ تحقیق عیسیٰ علیہ السلام ہرگز نہیں مرے اور یقینا وہ قیامت سے پہلے تمہاری طرف واپس آئیں گے۔
نوٹ: اس حدیث کی مفصل بحث پہلے گزر چکی ملاحظہ کریں۔
۶… اس قسم کی ایک اور حدیث جو حیات عیسیٰ علیہ السلام کا اعلان کر رہی ہے اور جس کو امام ابن کثیرؒ نے روایت کیا ہے احادیث کی بحث میں ملاحظہ کریں۔
۷… امام ابن کثیر مجدد صدی ششم قادیانیوں کے محدث ومفسر اعظم ابن جریر
(آئینہ کمالات اسلام طبع لاہور ص۱۵۸، چشمہ معرفت ص۲۵۰، خزائن ج۲۳ ص۲۶۱ حاشیہ) کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ ثم قال ابن جریر واولیٰ ہذہ الاقوال بالصحۃ القول الاول وھو انہ لا یبقیٰ احد من اہل الکتاب بعد نزول عیسیٰ علیہ السلام الا اٰمن بہ قبل موتہ ای قبل موت عیسیٰ علیہ السلام ولاشک ان ہذا الذی قالہ ابن جریر ہو الصحیح لانہ المقصود من سیاق الایۃ فی تقریر بطلان ماادعت الیہود من قتل عیسیٰ اوصلبہ وتسلیم من سلم الیہم من النصاری الجہلۃ ذالک فاخبر اﷲ انہ لم یکن الامر کذالک وانما شبہ لہم فقتلوا الشبہ وہم لا یتبینون ذالک ثم انہ رفعہ الیہ وانہ باق حی وانہ سینزل قبل یوم القیامۃ کمادلت علیہ الاحادیث المتواترہ التی سنوردھا ان شاء اﷲ قریباً فیقتل مسیح الضلالۃ… ولہذا قال وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ای قبل موت عیسیٰ الذی زعم الیہود ومن وافقہم من النصاریٰ انہ قتل وصلب ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا ای باعمالہم التی شاہدہا منہم قبل رفعہ الی السماء وبعد نزولہ الیٰ الارض ‘‘
(تفسیر ابن کثیر ج۱ ص۵۷۷)
’’ابن جریر کہتا ہے کہ صحت کے لحاظ سے ان سب اقوال سے اوّل درجہ یہ قول ہے کہ اہل کتاب میں سے عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد کوئی ایسا نہیں ہوگا۔ جو کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لے آئے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ابن جریر کا یہ قول بالکل صحیح ہے… تحقیق ان کے لئے عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ بنادی گئی اور انہوں نے اس شبیہ کو قتل کیا… پھر اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا اور بیشک وہ ابھی تک زندہ ہے اور قیامت سے پہلے نازل ہوگا۔ جیسا کہ احادیث متواترہ اس پر دلالت کرتی ہیں… اور قیامت کے دن وہ شہادت دیں گے۔ ان کے ان اعمال کی جن کو عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان پر چڑھ جانے سے پہلے اور زمین پر اترنے کے بعد دیکھا۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام عبدالرحمن ابن جوزیؒ کا عقیدہ)

عظمت شان
قادیانیوں کے نزدیک امام ابن جوزی بھی چھٹی صدی ہجری میں اصلاح عقائد وتجدید دین کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔

(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۴)
امام ابن جوزی نے قادیانیوں کے عقیدہ کا ستیاناس کردیا ہے۔ آپ نے ایک حدیث نبوی بیان کی ہے جو درج ذیل ہے۔
’’عن عبداﷲ بن عمرؓ قال قال رسول اﷲﷺ ینزل عیسیٰ ابن مریم الیٰ الارض فیتزوج ویولد لہ ویملک خمساً واربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری فاقوم انا وعیسیٰ ابن مریم فی قبر واحد بین ابوبکرؓ وعمرؓ‘‘

(رواہ ابن جوزی فی کتاب الوفاء مشکوٰۃ ص۴۸۰، باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
عظمت حدیث:

۱…مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی مندرجہ ذیل کتب میں اس حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔

(ضمیمہ آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷، کشتی نوح ص۱۵، خزائن ج۱۹ ص۱۶، نزول المسیح ص۴۷، خزائن ج۱۸ ص۴۲۵، حقیقت الوحی ص۳۰۷، خزائن ج۲۲ ص۳۲۰، ضمیمہ حقیقت الوحی حاشیہ ص۵۱، خزائن ج۲۲ ص۶۷۴، نزول المسیح ص۳، خزائن ج۱۸ ص۳۸۱)
۲… مرزامحمود خلیفہ قادیانی نے بھی اس کی صحت کو تسلیم کر لیا ہے۔
(انوار خلافت ص۵۰)
۳… مرزاخدابخش مرزائی نے قادیانیوں کی شہرہ آفاق کتاب عسل مصفی میں نہ صرف اس کی صحت کو ہی تسلیم کیا ہے۔ بلکہ اس حدیث کو مرزاقادیانی پر چسپاں کرنے کی سعی کی ہے۔ یعنی محمدی بیگم کے نکاح پر لگایا ہے۔ لیکن خدا نے انہیں اس میں بھی ناکام رکھا۔ محمدی بیگم نکاح میں نہ آئی۔ ہم اس حدیث کا ترجمہ قادیانی کے اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
ترجمہ حدیث ’’یعنی ابن جوزی نے عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ عیسیٰ ابن مریم ایک خاص زمین میں نازل ہوں گے۔ پھر وہ نکاح بھی کریں گے اور ان کے لڑکے بالے بھی ہوں گے اور ۴۵برس تک ٹھہریں گے۔ (یملک کا یہ ترجمہ قادیانی ایجاد ہے۔ یملک کے معنی ہیں بادشاہی کریں گے) پھر فوت ہوں گے اور پھر میری قبر میں دفن ہوں گے۔ پھر میں اور عیسیٰ ابن مریم ایک ہی قبر سے ؓ اور عمرؓ کے درمیان ہے کھڑے ہوں گے۔‘‘

(عسل مصفی ج۲ ص۴۴۰،۴۴۱)
میں نے چھٹی صدی ہجری کے مجدد وامام کی روایت سے قادیانیوں کے اپنے الفاظ میں حدیث نبوی پیش کر دی ہے۔ اگر نجات مطلوب ہو تو ضرور تسلیم کر لیں گے۔
نوٹ: تفصیل اس حدیث کی گزر چکی ملاحظ فرمائیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا عقیدہ)

عظمت شان
قادیانیوں نے آپ کو بھی چھٹی صدی ہجری کا مجدد تسلیم کر لیا ہے۔
۱… دیکھو (عسل مصفیٰ ج۱ ص۱۶۴)
۲… دیکھو (براہین احمدیہ حاشیہ نمبر۴ ص۵۴۶، خزائن ج۱ ص۶۵۲)
۳… دیکھو (کتاب البریہ ص۷۳، خزائن ج۱۳ ص۹۱)
۴… دیکھو (حقیقت النبوۃ ص۲۰۱)
حضرت شیخ قدس سرہ العزیز اپنی مشہور کتاب (غنیۃ الطالبین ج۲ ص۵۵) میں فرماتے ہیں۔
’’والتاسع رفعہ اﷲ عزوجل عیسیٰ ابن مریم الیٰ السماء‘‘
(بحوالہ استدلال الصحیح فی حیات المسیح ص۷۲)
’’اور نویں بات، یہ کہ اٹھالیا اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو آسمان کی طرف۔‘‘
ناظرین! کروڑہا مسلمانان عالم کے پیرو مرشد اور قادیانیوں کے تسلیم کردہ امام الزمان حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ کیسے صاف صاف الفاظ میں بیان فرمارہے ہیں۔ اب بھی کوئی نہ سمجھے تو ان سے خدا سمجھے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام ابن جریرؒ کا عقیدہ)

عظمت شان
۱… ’’ابن جریر رئیس المفسرین ہیں۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام ص۱۶۸، خزائن ج۵ ص ایضاً)
۲… ’’ابن جریر نہایت معتبر اور آئمہ حدیث میں سے ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۲۵۰، خزائن ج۲۳ ص۲۶۱ حاشیہ)
۳… امام جلال الدین سیوطیؒ قادیانی جماعت کے مسلم امام ومجدد امام جریرؒ کی شان میں فرماتے ہیں:
’’اجمع العلماء المعتبرون علیٰ انہ لم یؤلف فی التفسیر مثلہ‘‘

(اتقان ج۲ ص۳۲۵، مؤلفہ سیوطیؒ)
قارئین! ہم آپ کے سامنے اس شان کے امام ومحدث ومفسر کی کلام پیش کرتے ہیں۔
۱… ہم امام ابن جریر کی روایت سے حدیث معراج درج کر آئے ہیں۔ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے زمین پر اتر کر دجال کو قتل کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
۲… ہم قادیانیوں کے امام ومجدد صدی ہشتم حافظ ابن حجر عسقلانی کے حوالہ سے ابن جریر کی روایت درج کر آئے ہیں۔ جس میں انہوں نے حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کا عقیدہ حیات عیسیٰ علیہ السلام بیان کیا ہے۔
۳… ہم امام جریر کی ایک روایت سے ایک حدیث درج کر آئے ہیں۔ جس میں رسول کریمﷺ یہود کو فرماتے ہیں:
’’ ان عیسیٰ لم یمت ‘‘
یعنی عیسیٰ علیہ السلام بے شک فوت نہیں ہوئے۔
’’ وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ ‘‘
اور تحقیق وہ ضرور تمہاری طرف قیامت سے پہلے پہلے واپس آئیں گے۔ مفصل بحث اس حدیث کی حدیث کی بحث میں دیکھیں۔
۴… ہم بحوالہ درمنثور مصنفہ امام جلال الدین سیوطیؒ امام ابن جریر کی روایت سے ایک حدیث درج کر آئے ہیں۔ جس میں رسول کریمﷺ نصاریٰ کو فرماتے ہیں۔
’’ الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت ‘‘
یعنی کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے وہ نہیں مرے گا۔
’’ وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء ‘‘
اور تحقیق عیسیٰ علیہ السلام ضرور فوت ہوں گے۔ نصاریٰ نے تصدیق کی اور کہا ’’بلیٰ‘‘ یعنی کیوں نہیں۔
۵… ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن ‘‘ کی بحث میں امام موصوف فرماتے ہیں۔
’’ اما الذی قال لیؤمنن بمحمد قبل موت الکتابی ممالا وجہ لہ لانہ اشد فسادا مماقیل لیؤمنن قبل موت الکتابی لانہ خلاف السیاق والحدیث فلا یقوم حجۃ بمحض الخیال فالمعنی لیؤمنن بعیسیٰ قبل موت عیسیٰ ‘‘

(ابن جریر ج۶ ص۲۳ ملخص)
’’اور جو کہتا کہ ’’ لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘کے معنی ’’اہل الکتاب‘‘ اپنی موت سے پہلے محمدﷺ پر ایمان لے آتا ہے ۔ یہ بالکل بلادلیل ہے۔ کیونکہ ’’کتابی کی موت سے پہلے‘‘ معنی کرنے سے سخت فساد لازم آتا ہے۔ کیونکہ یہ معنی کلام اﷲ اور حدیث نبوی کے خلاف ہیں۔ پس محض خیالی باتوں سے دلیل قائم نہیں ہوا کرتی۔ معنی ’’لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ کے یہ ہیں کہ اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے پہلے ضرور ان کی رسالت کو قبول کر لیں گے۔‘‘
ناظرین فرمائیے! اس سے بڑھ کر دلیل آپ کے سامنے اور کیا بیان کروں کہ قادیانیوں کی تصدیق درتصدیق ثم درتصدیق سے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا ثبوت دیتا جارہا ہوں۔ ’’فالحمد ﷲ رب العالمین‘‘
۶… امام ابن کثیرؒ مجدد صدی ششم کی تفسیر سے امام ابن جریر کا ایک قول نقل کر آئے ہیں۔ جس میں دونوں امام پر زور الفاظ اور دلائل سے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا ثبوت دے رہے ہیں۔ قابل دید ہے۔
۷… امام ابن جریر اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’ واولی ہذا الا قوال بالصحۃ عندنا قول من قال معنی ذالک انی قابضک من الارض ورافعک الیّ لتواتر الاخبار عن رسول اﷲﷺ ‘‘

(تفسیر طبری ج۳ ص۲۹۱)
’’(انی متوفیک الخ کے متعلق) اقوال مفسرین میں سے ہمارے نزدیک یہ سب سے اچھا ہے کہ اس (متوفیک) کے معنی یہ ہیں۔‘‘ میں (اے عیسیٰ علیہ السلام) تجھے زمین سے اپنے قبضہ میں لینے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والاہوں۔ کیونکہ اس بارہ میں رسول کریمﷺ کی احادیث تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے۔ ۴۰،۴۵سال تک دنیا میں رہ کر فوت ہوں گے۔
۸… امام ابن جریر اپنی تفسیر میں ’’انی متوفیک‘‘ کی بحث میں حضرت ابن جریج رومیؒ کا قول اپنی تصدیق میں اس طرح پیش کرتے ہیں۔
’’ عن ابن جریج قولہ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا قال فرفعہ ایاہ الیہ توفیہ ایاہ وتطہیرہ من الذین کفروا ‘‘

(تفسیر طبری ج۳ ص۲۹۰)
’’حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی سے مراد ان کا رفع جسمانی اور کفار سے علیحدگی ہے۔‘‘
۹… پھر امام موصوف اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں اور حضرت ابن عباسؓ کا عقیدہ حیات مسیح دلائل سے ثابت کرتے ہوئے ایک روایت درج کرتے ہیں۔ وہ روایت ذیل میں درج ہے۔
’’ عن سعید ابن جبیر عن ابن عباسؓ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ قال قبل موت عیسیٰ ‘‘

(تفسیر طبری ج۶ ص۱۸)
’’حضرت سعید ابن جبیر تابعی حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا آپ نے ’’ وان من اہل الکتاب ‘‘ کے معنی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔‘‘
۱۰… حضرت امام ابن جریرؒ نے حضرت کعبؓ سے یہ روایت نقل کی ہے۔
’’ عن کعب قال لما رای عیسیٰ قلۃ من اتبعہ وکثرۃ من کذبہ شکیٰ الیٰ اﷲ فاوحی اﷲ الیہ انی متوفیک رافعک الیّ وانی سابعثک علی الاعور الدجال فتقتلہ ‘‘

(رواہ ابن جریر تفسیر طبری ج۳ ص۲۹۰)
’’حضرت کعبؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت کی قلت اور منکرین کی کثرت کو دیکھا تو اﷲتعالیٰ کے دربار میں شکایت کی۔ اﷲتعالیٰ نے ان کی طرف یہ وحی کی کہ اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھے اپنے قبضہ میں لینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور یقینا تجھے دجال کانے کے خلاف بھیجوں گا اور تو اسے قتل کرے گا۔‘‘ تلک عشرۃ کاملۃ!
حضرات! ہم بخوف طوالت امام موصوف کی صرف دس روایات پر ہی اکتفار کرتے ہیں۔ ورنہ آپ کی تفسیر میں بے شمار اقوال حیات عیسیٰ علیہ السلام کے ثبوت میں درج ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت ( حضرت امام ابن تیمیہ حنبلیؒ کا عقیدہ)

عظمت شان :
۱…حضرت امام ابن تیمیہؒ کو قادیانی جماعت نے ساتویں صدی ہجری کا مجدد وامام تسلیم کر لیا ہے۔

(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۴)
۲… مرزاغلام احمد قادیانی خود حضرت امام ابن تیمیہؒ کے علو مرتبت کے قائل تھے۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’فاضل ومحدث ومفسر ابن تیمیہ… جو اپنے وقت کے امام ہیں۔‘‘
(کتاب البریہ حاشیہ ص۲۰۳، خزائن ج۱۳ ص۲۲۱)
حضرات! مرزاقادیانی کی تحریرات سب کی سب کذب وافتراء سے بھری پڑی ہیں۔ چنانچہ میں نے ’’کذبات مرزا‘‘ کے نام سے ایک الگ رسالہ انعامی تین ہزار روپیہ تالیف کیا ہے۔ جس کا پہلا حصہ شائع ہوچکا ہے۔ اس میں مرزاقادیانی کی دو سوصریح کذب بیانیاں جمع کی گئی ہیں۔ آج حیات عیسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں مرزاقادیانی کا ایک ایسا جھوٹ درج کرتا ہوں کہ صرف یہی جھوٹ مرزاقادیانی کا غیرمتعصب قادیانی کی توبہ کے لئے کافی محرک ثابت ہوگا۔ مرزاقادیانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں۔
(کتاب البریہ ص۲۰۳ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۲۲۱)
اب میں ناظرین کے سامنے امام موصوف کی کلام پیش کرتا ہوں تاکہ مرزاقادیانی کے کذب ودجل کی قلعی خود بخود کھل جائے۔
۱… ’’ وکان الروم والیونان وغیرہم مشرکین یعبدون اہیاکل العلویۃ والاصنام الارضیۃ فبعث المسیح رسلہ یدعونہم الی دین اﷲ تعالیٰ فذہب بعضہم فی حیاتہ فی الارض وبعضہم بعد رفعہ الی السماء فدعو ہم الی دین اﷲ ‘‘

(الجواب الصحیح ج۱ ص۱۱۵،۱۱۶)
’’روم اور یونان وغیرہ میں اشکال علویہ وبتان ارضیہ کو پوجتے تھے۔ پس مسیح علیہ السلام نے اپنے نائب بھیجے جو ان کو دین الٰہی کی طرف دعوت دیتے تھے۔ پس بعض تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زمینی زندگی میں گئے اور بعض حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد گئے۔ پس انہوں نے لوگوں کو خدا کے دین کی طرف دعوت دی۔‘‘
۲… ’’ وثبت ایضاً فی الصحیح عن النبیﷺ انہ قال ینزل عیسیٰ ابن مریم من السماء علی المنارۃ البیضاہ شرقی دمشق ‘‘

(الجواب الصحیح ج۱ ص۱۷۷)
’’اور صحیح میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے شرقی سفید منارہ پر اتریں گے۔‘‘
۳… ’’ والمسلمون واہل الکتاب متفقون علی اثبات مسیحین مسیح ہدی من ولد داؤد ومسیح ضلال یقول اہل الکتاب انہ من ولد یوسف ومتفقون علی ان مسیح الہدیٰ سوف یأتی کما یأتی مسیح الضلالۃ لکن المسلمون والنصاری یقولون مسیح الہدیٰ ہو عیسیٰ ابن مریم وان اﷲ ارسلہ ثم یأتی مرۃ ثانیۃ لکن المسلمون یقولون انہ ینزل قبل یوم القیامۃ فیقتل مسیح الضلالۃ ویکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ولا یبقی دینا الا دین الاسلام ویؤمن بہ اہل الکتاب الیہود والنصاریٰ کما قال تعالیٰ (وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ والقول الصحیح الذی علیہ الجمہور قبل موت المسیح وقال تعالیٰ انہ لعلم للساعۃ) ‘‘

(جواب الصحیح ج۱ ص۳۲۹)
’’مسلمان اور اہل کتاب یہود ونصاریٰ دو مسیحوں کے وجود پر متفق ہیں۔ مسیح ہدایت داؤد کی اولاد میں سے ہے اور اہل کتاب کے نزدیک مسیح الضلالت یوسف کی اولاد میں سے ہے اور اس بات پر بھی متفق ہیں کہ مسیح ہدایت عنقریب آئے گا۔ جبکہ آئے گا مسیح الدجال، لیکن مسلمان اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح ہدایت حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہیں کہ خدا نے ان کو رسول بنایا اور پھر دوبارہ وہی آئیں گے لیکن مسلمان یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ قیامت سے پہلے اتریں گے اور مسیح الدجال کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے اور خزیر کو قتل کریں گے اور کوئی دین باقی نہ رہے گا۔ مگر دین اسلام، یہود اور نصاریٰ ان کی رسالت پر ایمان لائیں گے۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ یعنی تمام اہل کتاب حصرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے اور قول صحیح جس پر جمہور امت کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ ’’موتہ‘‘ کی ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے۔ اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے۔ ’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ یعنی عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہے۔‘‘
۴… ’’ اذا نزل المسیح ابن مریم فی امتہ لم یحکم فیہم الا بشرع محمدﷺ ‘‘

(الجواب والصحیح ج۱ ص۳۴۹)
’’جب مسیح ابن مریم علیہ السلام آنحضرتﷺ کی امت میں نازل ہوں گے تو شرح محمدی کے مطابق حکم کریں گے۔‘‘
۵… ’’ وان اﷲ اظہر علی یدیہ الایات وانہ صعد الی السماء کما اخبر اﷲ بذالک فی کتابہ کما تقدم ذکرہ ‘‘

(کتاب بالا ج۲ ص۱۸۶)
’’اور اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر معجزات ظاہر کئے اور تحقیق وہ آسمان کی طرف چڑھ گئے۔ جیسے کہ اﷲتعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں خبر دی ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔‘‘
۶… ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ وہذا عند اکثر العلماء معناہ قبل موت عیسیٰ وقد قیل قبل موت الیہودی وہو ضعیف کما قیل انہ قبل موت محمدﷺ وہو اضعف فانہ لواٰمن بہ قبل الموت لنفع ایمانہ بہ فان اﷲ یقبل التوبۃ العبد مالم یغرغر لم یکن فی ہذا فائدۃ فان کل احد بعد موتہ یؤمن بالغیب الذی کان یجحدہ فلا اختصاص للمسیح بہ ولانہ قال قبل موتہ ولم یقل بعد موتہ ولا نہ لا فرق بین ایمانہ بالمسیح وبمحمد صلوات اﷲ علیہما وسلامہ والیہود الذی یموت علی الیہودیۃ فیموت کافرا بمحمد والمیسح علیہما الصلوٰۃ والسلام ولا نہ قال وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ وقولہ لیؤمنن بہ فعل مقسم علیہ وہذا انما یکون فی المستقبل فدل ذالک علی ان ہذا الایمان بعد اخبار اﷲ بہذا ولو ارید قبل موت الکتابی لقال وان من اہل الکتاب الا من یؤمن بہ لم یقل لیؤمنن بہ وایضاً فانہ قال وان من اہل الکتاب وہذا یعم الیہود والنصاریٰ فدل ذالک علی ان جمیع اہل الکتاب الیہود والنصاریٰ یؤمنون بالمسیح قبل موت المسیح وذالک اذا نزل اٰمنت الیہود والنصاریٰ بانہ رسول اﷲ لیس کاذباً کما یقول الیہودی ولا ہو اﷲ کما تقولہ النصاریٰ ‘‘

(الجواب الصحیح ج۲ ص۲۸۳،۲۸۴)
’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ! اس کی تفسیر اکثر علماء نے یہ کی ہے کہ مراد ’’قبل موتہ‘‘ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے اور یہودی کی موت سے پہلے بھی کسی نے معنی کئے ہیں اور یہ ضعیف ہے جیسا کہ کسی نے محمدﷺ کی موت سے پہلے بھی معنی کئے ہیں اور یہ اس سے بھی زیادہ ضعیف ہے۔ کیونکہ اگر ایمان موت سے پہلے لایا جائے تو نفع دے سکتا ہے۔ اس لئے کہ اﷲتعالیٰ توبہ قبول کرتا ہے۔ جب تک کہ بندہ غرغرہ تک نہ پہنچا ہو اور اگر یہ کہا جائے کہ ایمان سے مراد ایمان بعد الغرغرہ ہے تو اس میں کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ غرغرہ کے وقت وہ ہر ایک امر پر جس کا کہ وہ منکر ہے۔ ایمان لاتا ہے۔ پس مسیح علیہ السلام کی کوئی خصوصیت نہ رہی اور ایمان سے مراد ایمان نافع ہے (کیونکہ تمام قرآن شریف میں ایمان انہیں معنوں میں استعمال ہوا ہے کہیں ایمان سے مراد ایمان غیر نافع نہیں لیاگیا۔ پس مطابق اصول قادیانی کے امر متنازعہ فیہ میں کسی لفظ کے معنی وہی صحیح ہوں گے جو معنی تمام قران میں لئے گئے ہوں گے۔ ایمان سے مراد ایمان نافع ماننا ضروری ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بے شمار یہودی وعیسائی کفر پر مر رہے ہیں۔ ابوعبیدہ) اس لئے کہ اﷲتعالیٰ نے ’’قبل موتہ‘‘ فرمایا ہے۔ نہ بعد موتہ اگر ایمان بعد غرغرہ مراد ہوتا تو بعد موتہ فرماتا۔ کیونکہ بعد موت کے ایمان بالمسیح یا بمحمد ﷺ میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہودی یہودیت پر مرتا ہے۔ اس لئے وہ کافر مرتا ہے۔ مسیح علیہ السلام اور محمدﷺ سے منکر ہوتا ہے اور اس آیت میں ’’لیؤمنن بہ‘‘ مقسم علیہ ہے۔ یعنی قسمیہ خبر دی گئی ہے اور یہ مستقبل ہی میں ہوسکتا ہے۔ (نیز جس خبر پر قسم کھائی جائے وہ مضمون بلاتاویل قابل قبول ہوتا ہے۔ اس میں تاویل کرنا حرام ہوتا ہے۔ جیسا کہ خود قادیانی اپنی کتاب (حمامتہ البشریٰ ص۱۴، خزائن ج۷ ص۱۹۲ حاشیہ) پر لکھتا ہے۔ ابوعبیدہ) پس ثابت ہوا۔ یہ ایمان اس خبر کے بعد ہوگا اور اگر موت کتابی کی مراد ہوتی تو اﷲتعالیٰ یوں فرماتے۔ ’’ وان من اہل الکتاب الا من یؤمن بہ ‘‘ اور ’’ لیؤمنن بہ ‘‘ نہ فرماتے اور نیز ’’ وان من اہل الکتاب ‘‘ یہ لفظ عام ہے۔ ہر ایک یہودی ونصرانی کو شامل ہے۔ پس ثابت ہوا کہ تمام اہل کتاب یہود ونصاریٰ مسیح علیہ السلام کی موت سے پہلے مسیح علیہ السلام پر ایمان لائیں گے اور یہ اس وقت ہوگا جب مسیح علیہ السلام اتریں گے تمام یہود ونصاریٰ ایمان لائیں گے کہ مسیح ابن مریم اﷲ کا رسول کذاب نہیں۔ جیسے یہودی کہتے ہیں اور وہ خدا نہیں جیسا کہ نصاریٰ کہتے ہیں۔‘‘
عبارت بالا کے آگے یہ عبارت ہے۔
’’ والمحافظۃ علی ہذا العموم اولی من ان یدعی ان کل کتابی لیؤمنن بہ قبل ان یموت الکتاب فان ہذا یستلزم ایمان کل یہودی ونصرانی وہذا خلاف الواقع وھو لما قال وان من ہم الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ودل علیٰ ان المراد بایمانہم قبل ان یموت ہو علم انہ ارید بالعموم عمومہ من کان موجوداً حین نزولہ ای لا یختلف منہم احد عن الایمان بہ لا ایمان من کان منہم میتا وہذا کما یقال انہ لا یبقی بلد الا دخلہ الدجال الامکۃ والمدینۃ ای فی المدائن الموجودۃ حینئذاٍ وسبب ایمان اہل الکتاب بہ حینئذاٍ ظاہر فانہ یظہر لکل احد انہ رسول یؤید لیس بکذاب ولا ہو رب العالمین فاﷲ تعالیٰ ذکر ایمانہم بہ اذا نزل الیٰ الارض فانہ تعالیٰ لما ذکر رفعہ الی اﷲ بقولہ تعالیٰ ان متوفیک ورافعک الیّٰ وھو ینزل الی الارض قبل یوم القیامۃ ویموت حینئذا خبر بایمانہم بہ قبل موتہ ‘‘

(الجوب الصحیح ج۲ ص۲۸۴)
’’اس عموم کا لحاظ زیادہ مناسب ہے۔ اس دعویٰ سے کہ موتہ سے مراد موت کتابی ہے۔ کیونکہ یہ دعویٰ ہر ایک کتابی، یہودی ونصرانی کے ایمان کو مستلزم ہے اور یہ خلاف واقع ہے۔ اس لئے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ تمام اہل کتاب ایمان لائیں گے تو ثابت ہوا کہ اس عموم سے مراد عموم ان لوگوں کا ہے۔ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کے وقت موجود ہوں گے۔ کوئی بھی ایمان لانے سے اختلاف نہ کرے گا۔ اس عموم سے مراد وہ اہل کتاب جو فوت ہوچکے ہیں نہیں ہوسکتے۔ یہ عموم ایسا ہے جیسا یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی شہر ایسا نہیں ہوگا مگر یہ کہ دجال اس میں ضرور داخل ہوگا۔ سوائے مکہ اور مدینہ شریف کے۔ پس شہروں سے مراد یہاں صرف وہی شہر ہیں جو دجال کے وقت موجود ہوں گے۔ (جو اس سے پہلے صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہوں گے وہ مراد نہیں ہوسکتے) اور اس وقت ہر ایک یہودی ونصرانی کے ایمان کا سبب ظاہر ہے۔ وہ یہ کہ ہر ایک کو معلوم ہو جائے گا کہ مسیح علیہ السلام رسول اﷲ مؤید بتائید اﷲ ہے۔ نہ وہ کذاب ہے نہ وہ خدا ہے۔ پس اﷲتعالیٰ نے اس ایمان کا ذکر فرمایا ہے۔ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے نازل ہونے کے وقت ہوگا۔ سب اہل کتاب مسیح علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان لائیں گے۔‘‘
۸… ناظرین! عربی عبارتیں کہاں تک نقل کرتا جاؤں۔ اب میں صرف اردو ترجمہ پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ جس کو عربی عبارتوں کا شوق ہو۔ وہ ’’ الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح ‘‘ منگوا کر ملاحظہ فرمالیں۔
عبارت بالا کے بعد یہ عبارت ہے۔
’’صحیحین میں وارد ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ ابن مریم اترین گے۔ حاکم، عادل، پیشوا، انصاف کرنے والا۔ صلیب کو توڑیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے۔ جزیہ موقوف کریں گے (اور آیت قرآنی ’’وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالہم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزاً حکیما‘‘) اس آیت میںبیان ہے کہ اﷲتعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھالیا اور قتل سے بچا لیا اور بیان فرمایا کہ مسیح علیہ السلام کی موت سے پہلے پہلے اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے… اور لفظ ’’توفی‘‘ لغت عرب میں اس کے معنی ’’پورا لینا‘‘ اور ’’قبضہ میں لینا‘‘ ہے اور یہ تین طرح ہوسکتا ہے۔ (۱)قبض فی النوم (سلانا)۔ (۲)قبض فی الموت (مارنا) اور (۳)قبض الروح معہ البدن (بمعہ جسم اوپر اٹھا لینا) پس مسیح علیہ السلام کی توفی تیسری قسم کی ہے۔ یعنی روح اور جسم دونوں کے ساتھ اٹھائے گئے۔ ان کا حال اہل زمین کی طرح نہیں۔ زمین کے بسنے والے کھانے، پینے، پیشاب پاخانہ کی طرف محتاج ہیں اور مسیح علیہ السلام کو اﷲتعالیٰ نے قبضہ میں لے لیا اور وہ دوسرے آسمان پر رہیں گے۔ اس وقت تک کہ نازل ہوں گے زمین کی طرف۔ ان کا حال کھانے، پینے، پہننے اور سونے اور بول وبراز میں زمین پر بسنے والوں کی طرح نہیں ہے۔‘‘
۹… ’’قلت وصعود الآدمی ببدنہ الیٰ السماء قد ثبت فی امر المسیح عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فانہ صعد الی السماء وسوف ینزل الی الارض ہذا مما یوافق النصاریٰ علیہ المسلمین فانہم یقولون ان المسیح صعد الی السماء ببدنہ وروحہ کما یقول المسلمون ویقولون انہ سوف ینزل الی الارض ایضاً کما یقول المسلمون وکما اخبر بہ النبیﷺ فی الاحادیث الصحیحۃ… وان نزولہ من اشراط الساعۃ کما دل علی ذالک الکتاب والسنۃ‘‘ (الجواب الصحیح ج۴ ص۱۶۹،۱۷۰)
’’میں (امام ابن تیمیہؒ) کہتا ہوں کہ آدمی کا جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ جانا یقینا مسیح کے بارہ میں پایۂ ثبوت کو پہنچ چکا ہے۔ پس وہ آسمان پر چڑھ گئے اور عنقریب زمین پر اتریں گے اور نصاریٰ بھی اس بیان میں مسلمانوں سے موافق ہیں۔ وہ بھی مسلمانوں کی طرح یہی کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام جسم کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے اور عنقریب زمین پر اتریں گے۔‘‘
۱۰… ’’وعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اذا نزل من السماء انما یحکم فیہم بکتاب ربہم وسنۃ نبیہم‘‘ (زیارت القبور ص۷۵) ’’اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام جب آسمان پر سے نازل ہوں گے تو وہ قرآن کریم اور سنت نبویﷺ کے مطابق حکم دیں گے۔‘‘
۱۱… ’’والنبیﷺ قد اخبرہم ینزل عیسیٰ من السماء‘‘ (زیارت القبور ص۷۵)
’’اور نبیﷺ نے مسلمانوں کو خبر دی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے۔‘‘ (نہ کہ ماں کے پیٹ سے نکلیں گے) یہ مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ ہیں۔ ابوعبیدہ!
حضرات! میرے اقتباسات کے مطالعہ سے شاید آپ تھک گئے ہوں گے۔ مرزاقادیانی کے دجل وفریب کی وسعت اور گہرائیوں کا بھی اندازہ لگائیں کہ باوجود ابن تیمیہ کی ان تصریحات کے بھی ہانکے جاتا ہے کہ ’’ایسا ہی فاضل ومحدث ومفسر امام ابن تیمیہؒ وابن قیم جو اپنے اپنے وقت کے امام ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں۔‘‘
(کتاب البریہ حاشیہ ص۲۰۳، خزائن ج۱۳ ص۲۲۱)
کیا اب مجھے اجازت ہے کہ مرزاقادیانی کا صریح جھوٹ وافتراء ثابت ہو جانے کے بعد مرزاقادیانی کا اپنا فتویٰ ان کی شان میں لکھ دوں۔
۱… ’’دروغ گوئی کی زندگی جیسی کوئی لعنتی زندگی نہیں۔‘‘ (نزول المسیح ص۲، خزائن ج۱۸ ص۳۸۰)
۲… ’’ظاہر ہے کہ جو ایک بات میں جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۲۳۱)
۳… ’’جھوٹ ام الخبائث ہے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۲۸، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۱)
۴… ’’جھوٹ بولنے سے مرنا بہتر ہے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۳۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۴)
۵… ’’جھوٹے پر خدا کی لعنت۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵)
۶… ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۳ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۵۶)
۷… ’’اے بیباک لوگو جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۰۶، خزائن ج۲۲ ص۲۱۵)
۸… ’’جھوٹ بولنے سے بدتر دنیا میں اور کوئی کام نہیں۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۲۶، خزائن ج۲۲ ص۴۵۹)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام ابن قیمؒ کا عقیدہ)

عظمت شان
۱… امام ابن قیم ساتویں صدی کے مجدد تھے۔

(قادیانی کتاب عسل مصفی ج۱ ص۱۲۴)
۲… قول مرزا: ’’فاضل ومحدث ومفسر ابن قیم جو اپنے وقت کے امام تھے۔‘‘
(کتاب البریہ حاشیہ ص۲۰۳، خزائن ج۱۳ ص۲۲۱)
ناظرین! امام ابن قیمؒ امام ابن تیمیہؓ کے شاگرد تھے۔ استاد کا عقیدہ آپ نے ملاحظہ فرمالیا۔ قدرتی بات ہے کہ امام ابن قیم اس قدر ضروری عقیدہ میں یقینا اپنے استاد کے مخالف نہیں ہوسکتے۔ مگر ہم ذیل میں ان کی اپنی تصنیفات سے چند حوالے درج کرتے ہیں تاکہ قادیانی جماعت کی صداقت کی حقیقت معلوم ہوسکے۔
۱… ’’ وہذا المسیح ابن مریم حی لم یمت وغذأہ من جنس غذاء الملئکۃ ‘‘
مسیح ابن مریم علیہ السلام زندہ ہیں فوت نہیں ہوئے اور ان کی غذا وہی ہے جو فرشتوں کی ہے۔

(کتاب التبیان مصنفہ ابن قیمؒ)
۲… ’’ ومسیح المسلمین الذی ینتظرو نہ ہو عبداﷲ ورسولہ وروحہ وکلمتہ القاہا الی مریم العذراء البتول عیسیٰ ابن مریم اخو عبداﷲ ورسولہ محمد بن عبداﷲ فیظہر دین اﷲ وتوحیدہ ویقتل اعداء الدین اتخذوہ وامہ الٰہین من دون اﷲ واعداء لا الیہود الذین رموہ وامہ بالعظائم فہذا ہو الذی ینتظرہ المسلمون وہو نازل علی المنارۃ الشرقیہ بدمشق واضعاً یدیہ علی منکبی ملکین یراہ الناس عیاناً بابصارہم نازلاً من السماء فیحکم بکتاب اﷲ وسنۃ رسولہ ‘‘
(ہدایہ الجباری مصنفہ امام ابن قیمؒ)
’’وہ مسیح جس کی انتظار مسلمان کر رہے ہیں۔ وہ عبداﷲ ہے۔ اﷲ کا رسول ہے۔ روح الٰہی ہے اور اس کا وہ کلمہ ہے جو اس نے حضرت مریم علیہ السلام بتول کی طرف نازل کیا۔ یعنی عیسیٰ ابن مریم اﷲ کے بندے اور اس کے رسول محمدﷺ ابن عبداﷲ کا بھائی ہے۔ وہ اﷲتعالیٰ کے دین اور اس کی توحید کو غالب بنائے گا اور اپنے ان دشمنوں کو قتل کرے گا۔ جنہوں نے اﷲ کو چھوڑ کر خود اس کو اور اس کی ماں کو معبود بنالیا اور اپنے ان یہودی دشمنوں کو قتل کرے گا۔ جنہوں نے اس پر اور اس کی ماں پر اتہام باندھے بس یہی وہ مسیح ہے۔ جس کی انتظار مسلمان کر رہے ہیں اور دمشق میں شرقی منارہ پر اس حالت میں نازل ہونے والے ہیں کہ اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے کندھوں پر رکھے ہوں گے۔ لوگ آپ کو اپنی آنکھوں سے آسمان سے اترتے ہوئے دیکھیں گے۔ آپ اﷲ کی کتاب (قرآن شریف) اور اس کے رسول کی سنت کے مطابق حکم چلائیں گے۔‘‘
۳… ’’ ومحمدﷺ مبعوث الی جمیع الثقلین فرسالتہ عامۃ لجمیع الجن والانس فی کل زمان ولو کان موسیٰ وعیسیٰ حیین لکانا من اتباعہ واذا نزل عیسیٰ ابن مریم فانما یحکم بشریعۃ محمدﷺ ‘‘

(مدارج السالکین ج۲ ص۲۴۳،۳۱۳)
’’آنحضرتﷺ کی نبوت تمام جنوں اور انسانوں کے لئے اور ہر زمانے کے لئے ہے۔ بالفرض اگر موسیٰ وعیسیٰ علیہم السلام (آج زمین پر) زندہ ہوں تو ضرور آنحضرتﷺ کا اتباع کریں اور جب عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے تو وہ شریعت محمدیﷺ پر ہی عمل کریں گے۔ اس کے آگے فرماتے ہیں۔‘‘
’’ فمن ادعی انہ مع محمد کالخضر مع موسیٰ اوجوز ذالک لاحد من الامۃ فلیجد اسلامہ ویشہد انہ مفارق لدین الاسلام بالکلیۃ فضلاً ان یکون من خاصۃ اولیاء اﷲ وانما ہو من اولیاء الشیطان ‘‘
تو جو کوئی اس بات کا دعویٰ کرے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام حضرت محمدﷺ کے ساتھ اس طرح ہوں گے جس طرح کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ خضر یا اگر کوئی شخص امت محمدی میں سے کسی شخص کے لئے ایسا تعلق جائز قرار دے (نوٹ: مرزائی مرزاقادیانی کو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ ابوعبیدہ) تو ضرور ہے کہ ایسا شخص اپنے اسلام کی تجدید کرے اور اسے اپنے ہی خلاف اس امر کی شہادت دینی پڑے گی۔
(مرزائی جماعت مجدد وقت امام ابن قیم کی تنبیہ کا خیال کرے) کہ وہ دین اسلام سے باالکلیہ علیحدہ ہونے والا ہے۔ چہ جائیکہ وہ خاص اولیاء اﷲ میں سے ہو سکے۔ نہیں بلکہ ایسا شخص شیطانی ولی ہے۔
ناظرین! غور کریں کہ کس طرح امام ابن قیم آج سے چھ سات سو سال پہلے مرزاغلام احمد قادیانی کا ناطقہ بندکر رہے ہیں۔ کیسے صاف الفاظ میں اعلان فرمارہے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ امت محمد میں سے کوئی شخص ترقی کر کے مسیح ابن مریم والی پیش گوئی کا مصداق ہوسکتا ہے تو ایسا خیال کرنے والا بھی اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ چہ جائیکہ خود مدعی کا اسلام قبول کیا جاسکے۔
قادیانی اعتراض اور اس کی حقیقت
مدارج السالکین میں ابن قیم نے لکھا ہے:
’’ لوکان موسیٰ وعیسیٰ حیین لکانا من اتباعہ ‘‘
یعنی اگر موسیٰ وعیسیٰ زندہ ہوتے تو ضرور آنحضرتﷺ کے متبعین میں سے ہوتے۔
الجواب
۱… ہم نے ترجمہ کرتے وقت ’’آج زمین پر‘‘ کے الفاظ کا اضافہ کر دیا ہے اور یہ ہم نے اپنے پاس سے نہیں کیا بلکہ صحیح مراد ہے امام کی۔ صرف کند ذہن آدمی کے لئے اس کی ضرورت ہے۔ ورنہ خود کلام امام سے یہ بات ظاہر وباہر ہے۔ اگر اس کے معنی مطلق زندہ کے لئے جائیں تو پھر آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موت بھی قادیانیوں کو ماننی پڑے گی۔ حالانکہ مرزاقادیانی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے قائل ہیں۔ پس یقینا مراد اس حی سے ارضی حیات ہے۔
۲… اتباع شریعت محمدی کے مکلف صرف اہل زمین ہیں۔ ’’ اہل سمٰوات ‘‘ اس کے مکلف نہیں۔ ورنہ اتباع شریعت محمدی کی شرط ’’ نزول من السماء ‘‘ کے ساتھ وابستہ نہ ہوتی۔ پس چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر ہونے کے سبب اتباع شریعت محمدیﷺ سے دیگر اہل سموات کی طرح مستثنیٰ ہیں۔ اس واسطے یقینا یہاں حی سے مراد ارضی حیات ہی ہوسکتے ہیں۔ کیا فرماتے ہیں۔ قادیانی حضرات اس بارہ میں اگر عیسیٰ علیہ السلام ان کے عقیدہ میں بھی زندہ بجسدہ العنصری موجود ہوتے تو کیا پھر وہ ضرور آنحضرتﷺ کی شریعت کا اتباع کرتے۔ کیا اب وہ رسول کریمﷺ کی اطاعت سے اس لئے مستثنیٰ ہیں کہ ان کا جسم عنصری نہیں بلکہ نورانی ہے۔ کیا اطاعت کے لئے صرف جسم عنصری ہی کو حکم ہے۔ نورانی جسم والے انسان آنحضرتﷺ کا حکم ماننے پر مجبور و مکلف نہیں ہیں۔ نہیں ایسا نہیں بلکہ صرف اہل زمین ہی پر اتباع نبویﷺ واجب ہے۔ حج، زکوٰۃ، نماز، روزہ صرف اہل زمین ہی کے لئے فرض ہوتے ہیں۔ پس اتباع محمدی کے لئے زمینی زندگی کی ضرورت ہے۔ اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام دونوں محروم ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو بوجہ وفات اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بوجہ رفع جسمانی الیٰ السماء لہٰذا حیین کے معنی یقینا زمینی زندگی لینے پڑیں گے۔ ورنہ امام کی کلام بالکل بے معنی ٹھہرے گی۔ جیسا کہ ناظرین پر ظاہر کیاجاچکا ہے۔ کیونکہ امام ابن قیم نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کو اتباع محمدی کا مکلف نزول کے بعد ٹھہرایا ہے۔
۳… چونکہ امام نے اتباع کو حیی کے ساتھ مشروط ٹھہرایا ہے اور پھر خود ہی فرماتے ہیں کہ نازل ہوکر اتباع محمدی کریں گے تو ماننا پڑے گا کہ نزول سے پہلے وہ مردہ تھے۔ نزول کے وقت وہ زندہ ہو جائیں گے۔ ہم تو اس کو بھی قدرت باری کا ایک ادنیٰ کرشمہ سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ بات قادیانی خود قبول نہیں کریں گے۔ دوسرے خود امام کی اپنی مراد کے خلاف ہے۔ کیونکہ خود اسی عبارت میں اور دیگر جگہوں میں وہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ فرض قرار دے رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم نقل کر چکے ہیں۔ پس کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم امام کی کلام کا مفہوم خود ان کے اپنے بیان کردہ عقیدہ کے خلاف لے لیں۔
۴… اگر مرزائی حضرات حیی کے معنی زندہ لینے میں اس بات پر اصرار کریں گے کہ اس سے مراد ہر جگہ کی زندگی ہے تو اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیاء علیہم السلام کا آسمان پر مردہ ہونا ماننا پڑے گا۔ کیونکہ جس دلیل سے مرزائی حضرات عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا انکار کریں گے۔ اسی سے دیگر حضرات کی آسمانی زندگی کا انکار لازم آئے گا۔
۵… مرزاقادیانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’معراج کی رات میں آنحضرتﷺ نے تمام نبیوں کو برابر زندہ پایا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام (قیامت کی نشانی) ص۶۱۱، خزائن ج۵ ص۶۱۱)
کیا ہم قادیانی طرز استدلال کو اختیار کر کے تمام انبیاء علیہم السلام کے حیی (زندہ) ہونے پر اس عبارت کو بطور دلیل پیش نہیں کر سکتے۔ جب اس عبارت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت ہوچکی تو اب امام ابن قیمؒ کے قول کو پڑھئے: ’’لوکان موسیٰ وعیسیٰ حیین‘‘ اگر موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے۔ ’’ لکانا من اتباعہ ‘‘ تو وہ ضرور آپ کے تابعداروں میں سے ہوتے۔ پس ہم کہتے ہیں کہ چونکہ امام موصوف نے اتباع شرح محمدی کی جو شرط حضرت موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام کے لئے لگائی ہے۔ وہ ان میں بدرجہ اتم پائی گئی ہے۔ لہٰذا وہ ضرور آسمان پر حضرت رسول کریمﷺ کا ممکن اتباع کر رہے ہیں۔
۶… مرزاقادیانی نے جو قول نقل کیا ہے۔ اس کے معنی تو زیادہ سے زیادہ یہی ہیں کہ:
’’اگر موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام دونوں زندہ ہوتے تو آج رسول کریمﷺ کا اتباع کرتے۔‘‘
اس سے مرزائی صاحبان نتیجہ نکالتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرچکے ہیں۔ حالانکہ یہ نتیجہ ضرور نہیں ہے بلکہ اس میں رسول کریمﷺ کے اتباع کو حضرت موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام کے لئے واجب قرار دیا جارہا ہے۔ ہاں اس وجوب کو ان دونوں کی حیات کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔ چونکہ قادیانیوں کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اور ہمارے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں۔ پس اگر اس قول سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا ثبوت ملتا ہے تو یقینا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موت بھی ماننی پڑے گی اور اس کے بعد مرزاقادیانی ان کی حیات کو اپنا ضروری عقیدہ قرار نہیں دے سکتے۔ جیسا کہ لکھتے ہیں: ’’یہ وہی مرد خدا ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے اور ہم پر فرض ہوگیا کہ ہم اس بات پر ایمان لائیں کہ وہ آسمان میں زندہ موجود ہے۔ ’’ ولم یمت ولیس من المیتین ‘‘ وہ مردوں میں سے نہیں۔‘‘

(نور الحق حصہ اوّل ص۵۰، خزائن ج۸ ص۶۹)
جو جواب قادیانی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موت کے خلاف دیں گے وہی ہماری طرف سے سمجھ لیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top