• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حیات عیسیّ کا ثبوت مجددین،مفسرین امت جن کو قادیانی حضرات بھی صحیح مانتے ہیں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام ابن حزمؒ کا عقیدہ)

عظمت شان
۱… مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب میں رئیس المکاشفین حضرت محی الدین ابن عربیؒ کی ایک عبارت نقل کی ہے اور خود ہی اس کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ بنظر اختصار ہم مرزاقادیانی کا کیا ہوا ترجمہ یہاں لفظ بلفظ نقل کرتے ہیں۔
’’نہایت درجہ کا اتصال یہ ہے کہ ایک چیز بعینہ وہ چیز ہو جائے۔ جس میں وہ ظاہر ہو اور خود نظر نہ آئے۔ جیسا کہ میں نے خواب میں آنحضرتﷺ کو دیکھا کہ آپ نے ابو محمد ابن حزمؒ محدث سے معانقہ کیا۔ پس ایک دوسرے میں غائب ہوگیا۔ بجز رسول اﷲﷺ کے نظر نہ آیا۔‘‘
(فتوحات مکیہ باب۱۲۳، بحوالہ ازالہ اوہام ص۲۶۲، خزائن ج۳ ص۲۳۲)
۲… مرزاقادیانی ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’امام ابن حزمؒ اور امام مالکؒ بھی موت عیسیٰ علیہ السلام کے قائل ہیں اور ان کا قائل ہونا گویا امت کے تمام اکابر کا قائل ہونا ہے۔ کیونکہ اس زمانہ کے اکابر امت سے مخالفت منقول نہیں۔‘‘
(ایام الصلح ص۳۹، خزائن ج۱۴ ص۲۶۹)
معزز ناظرین! امام مالکؒ کے متعلق تو میں پیچھے ثابت کر آیا ہوں کہ وہ بھی حیات عیسیٰ علیہ السلام کے قائل ہیں اور اسی عیسیٰ ابن مریم بنی اسرائیل نبی کے دوبارہ آنے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ امام ابن حزمؒ کے متعلق مرزاقادیانی نے جو جھوٹ سے کام لیا ہے۔ اس کی حقیقت ابھی آپ کے سامنے آجاتی ہے۔ مگر بہرحال مرزاقادیانی کے بیانات سے اتنا تو ثابت ہوگیا کہ امام ابن حزمؒ کا مرتبہ اس قدر بلند ہے کہ رسول کریمﷺ کے ساتھ اتحاد کلی کے سبب ان کی اپنی علیحدہ ہستی نہ رہی تھی اور ہر مسئلہ میں ان کا قول قول فیصل کا حکم رکھتا ہے۔ اب حیات مسیح علیہ السلام کے متعلق ان کے اقوال ملاحظہ کیجئے۔
امام ابن حزمؒ کے اقوال

۱… ’’ وقولہ تعالیٰ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم انما ہو اخبار عن الذین یقولون تقلیداً لا سلافہم من النصاریٰ والیہود انہ علیہ السلام قتل وصلب فہؤلا شبہ لہم القول ای ادخلوا فی شبہۃ منہ وکان المشبہون لہم شیوخ السوء فی ذالک الوقت وشرطہم المدعون انہم قتلوہ وما صلبوہ وہم یعلمون انہ لم یکن ذالک وانما اخذوا من امکنہم وقتلوہ وصلبوہ فی استتار ومنع من حضور الناس ثم انزلوہ ودفنوہ تمویہا علی العامۃ التی شبہ الخبرلہا ‘‘
ترجمہ کا ملخص یہ کہ کوئی دوسرا شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جگہ قتل کیاگیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل اور صلیب سے بالکل بچا لئے گئے۔
(الملل والنحل لا بن حزم ج۱ ص۷۷)
۲… ’’ انہ (ای نبیﷺ) اخبر انہ لا نبی بعدہ الا ماجاء ت الاخبار الصحاح من نزول عیسیٰ علیہ السلام الذی بعث الی بنی اسرائیل وادعی الیہود قتلہ وصلبہ فوجب الا قرار بہذا الجملۃ ‘‘
(کتاب الفصل فی الملل والنحل ج۱ ص۹۵)
’’آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی بھی نہیں ہوگا۔ بجز اس ہستی کے جس کا آنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے اور یہود نے ان کے قتل اور سولی پر چڑھانے کا دعویٰ کیا۔ پس اس حدیث کا اعتراف بھی ضروری ہے۔‘‘
۳… ’’ واما من قال ان اﷲ عزوجل ہو فلان انسان بعینہ او ان اﷲ تعالیٰ یحل فی جسم من اجسام خلقہ او ان بعد محمدﷺ نبینا غیر عیسیٰ ابن مریم فانہ لا یختلف اثنن فی تکفیرہ لصحۃ قیام الحجۃ ‘‘
(الملل والنحل لابن حزمؒ ج۲ ص۲۶۹)
’’اور جس شخص نے کہا کہ اﷲتعالیٰ فلاں انسان ہے یا یہ کہا کہ اﷲتعالیٰ اپنی مخلوق کے جسم میں حلول کر جاتا ہے یا یہ کہا آنحضرتﷺ کے بعد عیسیٰ ابن مریم کے سوا اور نبی ہوگا۔ تواس اس کے کافر ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں۔‘‘ ناظرین! امام ابن حزمؒ کے مرتبہ وعظمت کا خیال کریں اور پھر ان اقوال سے حیات عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کا ثبوت ملاحظہ کریں۔ اس کے بعد مرزاقادیانی نے جو امام موصوف پر افتراء باندھا اس کی حقیقت کا خود اندازہ لگائیں۔ کیا اس کے بعد مرزاقادیانی پر ہم ایک معمولی انسان جیسا بھی اعتماد کر سکتے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام عبدالوہاب شعرانیؒ کا عقیدہ)

عظمت شان
۱… ’’مرزاقادیانی نے امام عبدالوہاب شعرانیؒ کو ان لوگوں میں شمار کیا ہے۔ جو محدث اور صوفی ہونے کے علاوہ معرفت کامل اور تفقہہ تام کے رنگ سے رنگین تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۴۹، خزائن ج۳ ص۱۷۶)
۲… مرزاقادیانی امام شعرانیؒ کے مرتبہ کے اس قدر قائل تھے کہ انہیں صرف امام صاحب کے نام سے یاد فرماتے تھے۔
(ازالہ اوہام ص۱۵۰،۱۵۱، خزائن ج۳ ص۱۷۶)
اب ہم اس مرتبہ کے بزرگ کی کلام حیات عیسیٰ علیہ السلام کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔ عبارت چونکہ بہت طویل ہے۔ ہم صرف اس کے اردو ترجمہ پر اکتفاء کرتے ہیں۔ شائقین حضرات عربی عبارت کے لئے اصل کی طرف رجوع کریں۔ امام موصوف فرماتے ہیں۔
’’اگر تو سوال کرے کہ جب عیسیٰ علیہ السلام آئے گا تو وہ کب مرے گا؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ جب دجال کو قتل کر چکیں گے تب فوت ہوں گے۔ اسی طرح شیخ اکبر نے فتوحات کے باب ۳۶۹ میں لکھا ہے۔ اگر تو سوال کرے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پر کیا دلیل ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ ان کے نزول پر دلیل اﷲ تعالیٰ کا یہ قول ہے۔ ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘ یعنی جس وقت نازل ہوگا اور لوگ اس پر اکٹھے ہوں گے اور معتزلہ اور فلاسفر اور یہود اور نصاریٰ جو عیسیٰ علیہ السلام کے جسم کے ساتھ آسمان پر جانے کے منکر ہیں۔ اس وقت یہ سب لوگ ایمان لائیں گے اور اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا۔ ’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ (اور عیسیٰ علیہ السلام البتہ قیامت کی نشانی ہے) اور قرآن کے لفظ علم کو عین اور لام کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور ’’ انہ ‘‘ میں جو ضمیر ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے۔ چونکہ اﷲتعالیٰ کا قول ہے۔ ’’ولما ضرب بن مریم مثلاً‘‘ اور اس کے معنی یہ ہیں کہ تحقیق مسیح علیہ السلام کا نازل ہونا قیامت کی نشانی ہے اور حدیث میں آیا ہے کہ لوگ نماز میں ہوں گے کہ ناگہاں اﷲتعالیٰ بھیجے گا۔ حضرت مسیح ابن مریم کو وہ اتریں گے دمشق کی مشرقی طرف سفید منارہ کے پاس حضرت مسیح علیہ السلام نے زرد رنگ کی دو چادریں پہنی ہوں گی۔ دو فرشتوں کے بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوں گے۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کا نازل ہونا کتاب وسنت کے ساتھ ثابت ہوگیا۔ حق یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنے جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ایمان لانا واجب ہے۔ اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ’’ بل رفعہ اﷲ الیہ ‘‘ (بلکہ اﷲ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا) حضرت ابوطاہر قزوینیؒ نے کہا جان کہ عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان میں جانے کی کیفیت اور اس کے اترنے اور آسمان میں ٹھہرنے کی کیفیت اور کھانے پینے کے سوا اس قدر عرصہ تک ٹھہرنا، یہ اس قبیل سے ہے کہ عقل اس کے جاننے سے قاصر ہے اور ہمارے لئے اس میں بجز اس کے کوئی راستہ نہیں کہ ہم اس کے ساتھ ایمان لائیں اور اﷲ کی اس قدرت کو تسلیم کریں۔ پس اگر کوئی سوال کرے کہ اس قدر عرصہ تک کھانے پینے سے بے پرواہ ہوکر رہنا یہ کس طرح ہوسکتا ہے۔ حالانکہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ وما جعلنا ہم جسد الا یاکلون الطعام ‘‘ یعنی ہم نے نبیوں کا ایسا جسم نہیں بنایا جو کھانے پینے سے مستغنی ہو۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ طعام کھانا اس شخص کے لئے ضروری ہے جو زمین میں ہے۔ کیونکہ اس پر گرم وسرد ہوا غالب ہے۔ اس لئے اس کا کھاناپینا تحلیل ہو جاتا ہے۔ جب پہلی غذا ہضم ہو جاتی ہے تو اﷲتعالیٰ اس کو اور غذا اس کے بدلے میں عنایت کرتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا غبار آلود میں اﷲ کی یہی عادت ہے۔ لیکن جس شخص کو اﷲ آسمان کی طرف اٹھا لے۔ اﷲ اس کے جسم کو اپنی قدرت سے لطیف اور نازل کر دیتا ہے اور اس کو کھانے اور پینے سے ایسا بے پرواہ کر دیتا ہے۔ جیسا کہ اس نے فرشتوں کو ان سے بے پرواہ کردیا ہے۔ پس اس وقت اس کا کھانا تسبیح ہوگا اور اس کا پینا تہلیل ہوگا۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ نے اس سوال کے جواب میں فرمایا۔ جب کہ آپ سے
پوچھا گیا کہ کیوں یا رسول اﷲﷺ آپ کھانے پینے کے بغیر پے در پے روزے رکھتے ہیں اور ہم لوگوں کو اجازت نہیں دیتے تو آپؐ نے فرمایا کہ میں اپنے رب کے پاس رات گزارتا ہوں۔ میرا رب مجھ کو کھانا دیتا ہے اور پانی پلاتا ہے اور مرفوع حدیث میں ہے کہ دجال کے پہلے تین سال قحط کے ہوں گے۔ پہلے سال میں آسمان تیسرا حصہ بارش کم کر دے گا اور زمین تیسرا حصہ زراعت کا کم کر دے گی اور دوسرے سال میں دو حصے بارش کے کم ہو جائیں گے اور دو حصے زراعت کے کم ہو جائیں گے اور تیسرے سال میں بارش بالکل بند ہو جائے گی۔ پس اسماء بنت زیدؓ نے عرض کی یار سول اﷲﷺ اب تو ہم آٹا گوندھنے سے پکنے تک صبر نہیں کر سکتے۔ اس دن کیا کریں گے۔ فرمایا جو چیز اہل آسمان کو کفایت کرتی ہے یعنی اﷲ کی تسبیح اور تقدیس کرنا، وہی چیز اہل ایمان کو کافی ہوگی۔ شیخ ابوطاہرؒ نے فرمایا ہے۔ ایک شخص نامی خلیفہ فراط کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ شہر الیہر میں (جو مشرقی بلاد سے ہے) مقیم تھا۔ اس نے ۲۳سال تک کچھ نہیں کھایا اور دن رات اﷲ کی عبادت میں مشغول رہا تھا اور اس سے اس میں کچھ ضعف نہیں آیا تھا۔ پس جب یہ بات ممکن ہے تو عیسیٰ علیہ السلام کے لئے آسمانوں میں تسبیح وتہلیل کی غذا ہو تو کیا بعید ہے اور ان باتوں کا اﷲ ہی اعلم ہے۔‘‘
مندرجہ بالا عبارت سے یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ حضرت امام عبدالوہاب شعرانیؒ وفات مسیح کے قائل نہ تھے۔ بلکہ برعکس حیات مسیح کے قائل تھے۔ چنانچہ ان کے یہ الفاظ قابل غور ہیں۔
’’حق یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنے جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ایمان لانا واجب ہے۔‘‘
(الیواقیت والجواہر مصنفہ امام شعرانی ج۲ ص۱۴۶، بحث۶۵)
معزز قارئین! غور فرمائیں کس طرح مرزائیوں کے مسلم امام فقیہ، محدث اور صوفی مرزائی جماعت کے دلائل وفات مسیح کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ مرزائیوں کے تمام دلائل وفات مسیح علیہ السلام اور حیات مسیح علیہ السلام پر ان کے اعتراضات ایک طرف رکھے جائیں تو بھی امام شعرانی کی کلام ان سب کی تردید کے لئے کافی ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (حضرت شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ العزیز کا عقیدہ)

عظمت شان
مرزاقادیانی نے شیخ ابن عربی کی اپنی عبارت کا ترجمہ ازالہ اوہام میں درج کیا ہے۔
۱… ’’جب اہل ولایت کو کسی واقعہ میں حدیث کی حاجت پڑتی ہے تو وہ آنحضرتﷺ کی زیارت سے مشرف ہوجاتا ہے۔ پھر جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتے ہیں اور آنحضرت جبرائیل علیہ السلام سے وہ مسئلہ جس کی دل کو حاجت ہوتی ہے۔ پوچھ کر اس ولی کو بتادیتے ہیں۔ یعنی ظلی طور پر وہ مسئلہ نزول جبرائیلی علیہ السلام منکشف ہو جاتا ہے۔ پھر شیخ ابن عربی نے فرمایا ہے کہ ہم اس طریق سے آنحضرتﷺ سے احادیث کی تصحیح کرالیتے ہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۱۵۱،۱۵۲، خزائن ج۳ ص۱۷۷)
۲… ’’شیخ ابن عربی صاحب فتوحات مکیہ بڑے محقق اور فاضل ہونے کے علاوہ اہل زبان بھی تھے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۱۶۷، خزائن ج۵ ص ایضاً)
اس مرتبہ والے شیخ قدس سرہ کے اقوال ہم ناظرین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
۱… ’’ فاستفتح جبرائیل السماء الثانیۃ کما فعل فی الاولیٰ فلما دخل اذا بعیسیٰ علیہ السلام بجسدہ عینہ فانہ لم یمت الی الاٰن بل رفعہ اﷲ الی ہذہ السماء واسکنہ بہا ‘‘

(فتوحات مکیہ ج۳ ص۳۴۱، باب ۳۶۷)
’’پس کھولا جبرائیل علیہ السلام نے دوسرا آسمان جس طرح کھولا تھا پہلا۔ پس جب رسول کریمﷺ (دوسرے آسمان میں) داخل ہوئے تو اچانک حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کو پایا کہ اپنے جسم عنصری کے ساتھ موجود تھے۔ عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک فوت نہیں ہوئے۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو اس آسمان پر اٹھا لیا اور ان کو وہیں رکھا ہوا ہے۔‘‘
۲… ’’ انہ لا خلاف انہ ینزل فی آخر الزمان ‘‘

(فتوحات مکیہ ج۲ ص۳، باب ۷۳)
’’اس بارہ میں کسی کا اختلاف نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت میں نازل ہوں گے۔‘‘
نوٹ: اس عبارت سے پہلے شیخ قدس سرہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ہی کا ذکر کر رہے ہیں۔ ابوعبیدہ!
۳… ’’ ثم ان عیسیٰ اذا نزل الی الارض فی آخر الزمان ‘‘

(فتوحات مکیہ ج۳ ص۵۱۴، باب ۳۸۲)
پھر آخری زمانہ میں عیسیٰ علیہ السلام زمین پر نزول فرمائیں گے۔
۴… ’’ لابد ان ینزل فی ہذہ الامۃ فی آخرالزمان ویحکم بسنۃ محمدﷺ مثل ما حکم الخلافا المہدییون الراشدون فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویدخل بدخولہ من اہل الکتاب فی الاسلام خلقا کثیر ‘‘

(فتوحات مکیہ ج۲ ص۱۲۵، باب ۷۳، سوال۱۴۵)
’’پکی بات ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آخر زمانہ میں امت محمدیہ ﷺ میں نازل ہوں گے۔ حضورﷺ کی شریعت کے مطابق حکم کریں گے۔ جیسے ہدایت یافتہ راشدین خلفاء کرتے رہے۔ عیسیٰ علیہ السلام صلیب کو توڑنے خنزیر کو قتل کرنے کا حکم فرمائیں گے اور اہل کتاب کی خلق کثیر اسلام میں داخل ہوجائے گی۔‘‘
۵… ناظرین! کتاب ہذا کے گذشتہ صفحات کا دوبارہ مطالعہ کریں اور شیخ قدس سرہ کی روایت کردہ صحیح حدیث سے حیات عیسیٰ علیہ السلام پر صحابہ کرامؓ کے اجماع کا فیصلہ کن ثبوت ملاحظہ کریں۔

پہلی حدیث
دوسری حدیث
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کا عقیدہ)

عظمت شان
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ آٹھویں صدی ہجری کے مجدد اعظم تھے۔ قادیانیوں نے ان کے مجدد ہونے پر اپنی کتاب (عسل مصفی ج۱ ص۱۶۴) پر مہر تصدیق ثبت کی۔
حیات عیسیٰ علیہ السلام کے ثبوت میں ابن حجر عسقلانیؒ کے اقوال

۱… ہم حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کے الفاظ میں بخاری شریف کی ایک حدیث کی شرح درج کر آئے ہیں۔ جس میں حیات عیسیٰ علیہ السلام کا ثبوت ابن حجر عسقلانیؒ نے جرالامت حضرت ابن عباسؓ اور دیگر صحابہ کرام سے دے کر اہل سنت والجماعت کے عقیدہ پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
۲… ہم ایک اور حدیث درج کر آئے ہیں جو حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ ضروری قرار دیتی ہے اور جس کی صحت پر ان حجر نے فتح الباری میں مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
۳… ’’ واما رفع عیسیٰ علیہ السلام فاتفق اصحاب الاخبار والتفسیر علی انہ رفع ببدنہ حیا وانما اختلفوا ہل مات قبل ان یرفع اونام فرفع ‘‘
(تلخیص الحبیر ج۳ ص۴۶۲، کتاب الطلاق)
’’عیسیٰ علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے بارہ میں محدثین اور مفسرین امت کا اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ جسم عنصری کے ساتھ اٹھائے گئے تھے۔ اگر کسی نے اختلاف کیا ہے تو اس بارہ میں کہ وہ رفع جسمانی سے پہلے فوت ہوئے تھے یا سوگئے تھے۔‘‘
۴… ’’ ان عیسیٰ ایضاً قد رفع وھو حیی علی الصحیح ‘‘
(فتح الباری ج۶ ص۲۶۷، باب ذکر ادریس علیہ السلام)
’’بے شک عیسیٰ علیہ السلام بھی حضرت ادریس علیہ السلام کی طرح اٹھائے گئے اور صحیح یہی ہے کہ وہ زندہ ہیں۔‘‘
۵… ’’ کیف انتم اذ نزل ابن مریم وامامکم منکم۰ وعند مسلم فیقال لہم (ای للعیسیٰ) صل لنا فیقول لا ان بعضکم علیٰ بعض امراء تکرمۃ لہذہ الامۃ ‘‘
(فتح الباری ج۶ ص۳۵۸)
نیز اسی صفحہ پر ہے کہ:
’’ بان المہدی بہذہ لامۃ وان عیسیٰ یصلی خلفہ ‘‘
(فتح الباری ج۶ ص۳۵۸)
حدیث بخاری شریف ’’ کیف انتم اذا نزل ابن مریم وامامکم منکم ‘‘ کی اسلامی تشریح پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام مہدی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہیں گے کہ ہمیں نماز پڑھائیے اور وہ عذر کریں گے… مسیح علیہ السلام مہدی کے پیچھے اقتداء کریں گے۔
۶… ’’ ینزل عیسیٰ ابن مریم مصدقاً بمحمدﷺ علی ملتہ ‘‘
(فتح الباری ج۶ ص۳۵۶)
’’عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم نازل ہوں گے درآنحالیکہ وہ تصدیق کرنے والے ہوں گے۔ رسول کریمﷺ کی اور آنحضرتﷺ کی ملت پر ہوں گے۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام جلال الدین سیوطیؒ کا عقیدہ)

عظمت شان:
۱…قادیانی امت نے امام موصوف کو نویں صدی ہجری کا امام الزمان اور مجدد تسلیم کر لیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے۔

(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۴)
۲… امام جلال الدین سیوطیؒ کے متعلق ہم مرزاقادیانی کا عقیدہ ازالہ اوہام سے درج کرتے ہیں۔ ’’پھر امام شعرانی صاحب نے ان لوگوں کے نام لئے ہیں۔ جن میں سے ایک امام محدث جلال الدین سیوطی بھی ہیں… (امام جلال الدین صاحب فرماتے ہیں) کہ میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں تصحیح احادیث کے لئے جن کو محدثین ضعیف کہتے ہیں۔ حاضر ہوا ہوں۔ چنانچہ اس وقت تک ۷۵دفعہ حالت بیداری میں حاضر خدمت ہوچکا ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۱، خزائن ج۳ ص۱۷۷)
اس قدر بلند مرتبہ رکھنے والے مجدد کے اقوال کا اعتماد واعتبار تو یقینا قادیانی جماعت کے نزدیک مسلم ہے۔ پس ہم ان کی کتابوں سے حیات مسیح علیہ السلام پر مہر تصدیق ثبت کراتے ہیں۔
۱… ہم امام موصوف کی تفسیر دربارہ آیت ’’ ومکروا ومکراﷲ ‘‘ درج کر آئے ہیں۔ جس میں امام موصوف فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک دشمن کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ دی گئی اور وہی قتل ہوا۔
۲… ہم امام صاحب کی تفسیر دربارہ ’’ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ درج کر آئے ہیں۔ جس میں امام صاحب ’’ متوفیک ‘‘ کے معنی ’’میں تجھ پر قبضہ کرنے والا ہوں‘‘ کرتے ہیں اور ’’ رافعک الیّٰ ‘‘ کے معنی کرتے ہیں۔ ’’دنیا سے بغیر موت کے اٹھانے والا ہوں۔‘‘ اور ’’مطہرک‘‘ کے معنی کرتے ہیں: ’’الگ کرنے والا ہوں کفار ویہود سے۔‘‘
۳… ہم آیت کریمہ ’’ وما قتلوہ وما صلبوہ ‘‘ کی تفسیر از امام جلال الدین درج کر آئے ہیں۔ جس میں امام صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شبیہ اس کافر یہودی پر ڈال دی گئی جو انہیں گرفتار کرانے گیا تھا۔ یہودیوں نے اسی کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر قتل کر دیا اور پھانسی پر لٹکا دیا۔ عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے آسمان پراٹھا لیا۔
۴… حدیث معراج مذکور ہے۔ اس کی صحت ماننے والوں میں سے امام صاحب بھی ہیں۔ اس حدیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں نازل ہوکر دجال کے قتل کا وعدہ کر رہے ہیں۔
۵… ہم نے آیت ’’ اذ… تکلم الناس فی المہد وکھلا ‘‘ درج کی ہے۔ اس کی تفسیر میں کہلا کے متعلق امام صاحب فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت میں نازل ہوکر پھر ’’کھل‘‘ ہوں گے اور ہزارہا سال کے بعد کہولت کی حالت میں کلام کریں گے۔
امام موصوف کے اقوال دربارہ حیات مسیح علیہ السلام بے شمار ہیں۔ جس قدر مجھے مل سکے ہیں کچھ اوپر بیان کر چکا ہوں اور بقیہ آپ مندرجہ ذیل ملاحظہ فرمائیں۔
امام جلال الدین سیوطیؒ اپنی تفسیر میں حضرت امام محمد بن علیؓ بن بابی طالب کا قول نقل کرتے ہیں۔
’’ ان عیسیٰ لم یمت وانہ رفع الی السماء وھو نازل قبل ان تقوم الساعۃ ‘‘

(تفسیر درمنثور ج۲ ص۳۶)
’’بالتحقیق عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے اور تحقیق وہ اٹھائے گئے طرف آسمان کی اور نازل ہوںگے قیامت سے پہلے۔‘‘
امام صاحب اپنی کتاب کتاب الاعلام میں فرماتے ہیں:
’’ انہ یحکم بشرع نبینا لا بشرعہ کما نص علی ذالک العلماء ووردت بہ الاحادیث وانعقد علیہ الاجماع ‘‘

(الحاوی للفتاویٰ ج۲ ص۱۵۵)
’’عیسیٰ علیہ السلام ہمارے نبیﷺ کی شرع کے مطابق حکم کریں گے نہ کہ اپنی شرع سے جیسا کہ نص کیا اس پر علماء امت نے اور اس کی تاکید میں حدیثیں وارد ہوئی ہیں اور اس پر امت محمدی کا اجماع بھی قائم ہوچکا ہے۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت ( حضرت ملا علی قاریؒ حنفی کا عقیدہ)

عظمت شان
قادیانیوں کے نزدیک ملا علی قاریؒ دسویں صدی ہجری میں مجدد کی حیثیت سے مبعوث ہوئے تھے۔

(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۵)
اقوال ملا علی قاریؒ دربارہ حیات عیسیٰ علیہ السلام

۱… ’’ انہ یذوب کالملح فی الماء عند نزول عیسیٰ من السماء ‘‘

(شرح فقہ اکبر ص۱۳۶)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان سے نازل ہوں گے تو اس وقت (ان کو دیکھ کر) دجال اس طرح پگھلے گا جس طرح پانی میں نمک پگھلتا ہے۔‘‘
۲… ’’ ان عیسیٰ نبی قبلہ وینزل بعدہ ویحکم بشریعتہ ‘‘

(شرح شفاء استنبول ج۲ ص۵۱۹)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام آنحضرتﷺ سے پہلے کے نبی ہیں اور آپ کے بعد نازل ہوں گے اور شریعت محمدی پر عمل کریں گے۔‘‘
۳… ’’ نزول عیسیٰ من السماء ‘‘

(شرح فقہ اکبر ص۱۳۶)
’’پس نازل ہوں گے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے۔‘‘
۴… ’’ ان عیسیٰ یدفن بجنب نبیناﷺ بینہ وبین الشیخین ‘‘

(جمع الوسائل مصری ص۵۶۳)
’’بالتحقیق حضرت عیسیٰ علیہ السلام آنحضرتﷺ کے پہلو میں آپ کے اور ابوبکرؓ وعمرؓ کے درمیان دفن ہوں گے۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت ( شیخ محمد طاہر محی السنۃ گجراتیؒ کا عقیدہ)

عظمت شان
قادیانی جماعت نے شیخ محمد طاہر گجراتیؒ محی السنۃ کو مجدد صدی دہم تسلیم کر لیا ہے۔

(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۵)
۱… ’’ وقال مالک مات عیسی لعلہ اراد رفعہ علی السماء… یجیٔ آخر الزمان لتواتر خبر النزول ‘‘
(مجمع البحار ج۱ ص۵۳۴، بلفظ حکم)
’’اور امام مالک نے فرمایا کہ سوگئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس واسطے کہ اﷲتعالیٰ ان کو آسمان پر اٹھانے کا ارادہ فرمایا… اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں آئیں گے۔ کیونکہ احادیث ان کے نزول کے بارہ میں متواتر ہیں۔‘‘
نوٹ: مات بمعنی نام (یعنی سوگیا) بھی ہے۔

(قاموس بحوالہ ازالہ اوہام ص۶۴۰، خزائن ج۳ ص۴۴۵)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت ( امام ربانی مجدد الف ثانیؒ کا عقیدہ)

عظمت شان
۱… از مرزاقادیانی: ’’مجدد الف ثانی کامل ولی اور صاحب خوارق کرامات بزرگ تھے۔‘‘

(کتاب البریہ ص۷۴، خزائن ج۱۳ ص۹۲)
۲… ازمرزاقادیانی: ’’حضرت مجدد الف ثانی اولیاء کبار میں سے ہیں۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام (قیامت کی نشانی) ، خزائن ج۵ ص۶۰۷)
۳… امام ربانی گیا ہویں صدی کے مجدد تھے۔ دیکھو نمبر۲ میں مرزاقادیانی کا قول جس میں امام ربانی شیخ احمد سرہندی کو اصلی نام سے ذکر کرنے کی بجائے مرزاقادیانی نے صرف مجدد الف ثانی یعنی گیارھویں صدی کا مجدد ہی لکھنا مناسب سمجھا۔
(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۵)
۴… قادیانی مذہب کی کتاب (عسل مصفی ج۱ ص۱۷۲) سے ہم مجدد الف ثانی کا مرتبہ بیان کرتے ہیں۔
’’اور معلوم رہے کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد ہوتا رہا ہے۔ لیکن صدی کا مجدد اور ہے اور الف (ہزار) کا اور۔ یعنی جس طرح سو اور ہزار میں فرق ہے۔ اسی طرح ان کے مجددوں میں فرق ہے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ۔‘‘
اب ہم ایسے بلند مرتبہ امام ومجدد کے اقوال کی ناظرین کو سیر کراتے ہیں۔
۱… ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرما کر آنحضرتﷺ کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے اور آپ کے امتی ہوکر رہیں گے۔‘‘

(مکتوبات مترجم دفتر۲، مکتوب ۶۷)
۲… ’’قیامت کی علامتیں جن کی نسبت مخبر صادق نے خبر دی ہے۔ سب حق ہیں۔ ان میں کسی قسم کا خلاف نہیں۔ یعنی آفتاب عادت کے خلاف مغرب کی طرف سے طلوع کرے گا۔ حضرت مہدی علیہ الرضوان ظاہر ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے۔‘‘
(مکتوبات مترجم دفتر۲، مکتوب۶۷)
۳… ’’حدیث میں آیا ہے کہ اصحاب کہف حضرت امام مہدی کے مددگار ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے زمانہ میں نزول فرمائیں گے اور دجال کو قتل کرنے میں ان کے ساتھ موافقت کریں گے۔‘‘
(حوالہ بالا)
۴… ’’انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا کلمہ متفق ہے کہ ان کے دین کے اصول واحد ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان سے نزول فرمائیں گے تو حضرت خاتم الرسلﷺ کی شریعت کی متابعت کریں گے۔‘‘
(ایضاً)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت ( حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلویؒ کا عقیدہ)

عظمت شان
۱… از مرزاقادیانی: ’’رئیس المحدثین تھے۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۱۵۳)
۲… از مرزاقادیانی: ’’شاہ ولی اﷲ رئیس المحدثین تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۵، خزائن ج۳ ص۱۷۹)
۳… از مرزاقادیانی: ’’شاہ ولی اﷲ کامل ولی صاحب خوارق وکرامات بزرگ تھے۔‘‘
(کتاب البریہ ص۷۴، خزائن ج۱۳ ص۷۲)
۴… ازمولوی نورالدین قادیانی خلیفہ اوّل: ’’میرے پیارے ولی اﷲ محدث دہلویؒ۔‘‘
(ازالہ اوہام ص، خزائن ج۳ ص۶۲۷)
۵… ’’حضرت احمد شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ بارھویں صدی میں مجدد وامام الزمان گزرے ہیں۔‘‘
(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۵)
اب ہم قادیانیوں کے نزدیک رئیس المحدثین، کامل ولی، صاحب خوارق وکرامات بزرگ اور قادیانیوں کے پیارے ولی اﷲ محدث دہلویؒ کے اقوال دربارہ حیات عیسیٰ علیہ السلام پیش کرتے ہیں۔
۱… ’’ ونیز از ضلالت ایشان یکے آنست کہ جزم مے کنند کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مقتول شدہ است، وفی الواقع درحق عیسیٰ علیہ السلام اشتبا ہے واقع شدہ بود رفع بر آسمان را قتل گمان کردند۔ ‘‘

(فوز الکبیر ص۱۰، مصنفہ شاہ ولی اﷲ صاحب)
’’ان کی گمراہی ایک یہ تھی کہ انہوں نے یقین کر لیا کہ عیسیٰ علیہ السلام قتل کئے گئے ہیں۔ حالانکہ فی الواقع حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں انہیں اشتباہ واقع ہوا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھائے جانے کو انہوں نے قتل خیال کر لیا۔‘‘
نوٹ: دیکھئے یہاں شاہ صاحب قتل کے مقابلہ پر رفع آسمانی کا استعمال کر کے اعلان کر رہے ہیں کہ جیسا قتل کا فعل یہود اور نصاریٰ کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم عنصری پر ہوا تھا۔ فی الواقع اسی جسم عنصری پر رفع کا فعل وارد ہوا۔ ورنہ دونوں میں ضد کیسے ہوسکتی ہے؟ ابوعبیدہ!
۲… تین ہزار سے زائد صحابہ کا اجماع حیات عیسیٰ علیہ السلام پر ہم ایک صحیح حدیث سے بیان کر آئے ہیں۔ اس حدیث کو رئیس المحدثین شاہ ولی اﷲ صاحب نے صحیح تسلیم کیا ہے۔

(ازالۃ الخفاء باب ذکر حضرت عمرؓ)
۳… ہم حضرت شاہ ولی اﷲ صاحبؒ کی کتاب ’’ تاویل الاحادیث ‘‘ سے نقل کر آئے ہیں۔ اس کا ملاحظہ کیا جائے۔ وہ عبارت اس مبحث میں فیصلہ کن ہے۔
۴… ہم شاہ صاحب کی ایک عبارت درج کر آئے ہیں۔
جو انہوں نے ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘ کی تفسیر میں فرمائی ہے۔ وہ بھی قابل دید ہے۔ ناظرین کے استفادہ کے لئے دوبارہ درج کرتے ہیں۔
’’ونباشد ہیچ کس از اہل کتاب البتہ ایمان آورد بہ عیسیٰ علیہ السلام پیش از مردن عیسیٰ علیہ السلام وروز قیامت باشد عیسیٰ علیہ السلام گواہ برایشان۔‘‘

(فتح الرحمن مصنفہ شاہ صاحب)
۵… شاہ صاحب قدس سرہ کا مرتبہ آپ ملاحظہ کر ہی چکے ہیں۔ آپ صریح الفاظ میں حیات عیسیٰ علیہ السلام کا اعلان فرمارہے ہیں۔ فرماتے ہیں تمام اہل کتاب (یہودی ونصاریٰ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے پہلے ایمان لے آئیں گے۔ پس جب تک ایک یہودی یا عیسائی بھی دنیا میں اپنے مذہب پر قائم رہے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت نہیں آئے گی۔ کیونکہ اس سے پہلے موت عیسیٰ علیہ السلام کا واقع ہونا باری تعالیٰ کے وعدہ کی خلاف ورزی ہے۔
۶… قادیانی جماعت کے مسلم مجدد ورئیس المحدثین ’’ انی متوفیک ورافعک الیّ ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’ من برگرندہ توام یعنی ازیں جہاں وبردارندۂ توام بسوئے خود وپاک سازندہ توام از صحبت کسانیکہ کافر شدند۔ ‘‘

(تفسیر فتح الرحمن مؤلفہ شاہ صاحب قدس سرہ العزیز)
’’(اے عیسیٰ علیہ السلام) میں تجھے اپنے قبضہ میں لینے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھے ان کافروں کی صحبت سے پاک کرنے والا ہوں۔‘‘
۷… حضرت شاہ صاحب اپنی تفسیر فتح الرحمن میں زیر آیت ’’ وما قتلوہ وما صلبوہ ‘‘ فرماتے ہیں۔
’’ ونہ کشتہ اند اورا وبردار نہ کردہ انداورا… وبیقین نکشتہ اند اورا بلکہ برداشت اورا خدا تعالیٰ بسوئے خود۔ ‘‘
’’یہودیوں نے نہ تو قتل کیا عیسیٰ علیہ السلام کو اور نہ سولی پر ہی چڑھایا ان کو… یقینی بات ہے کہ نہیں قتل کر سکے یہود ان کو بلکہ اٹھا لیا ان کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی طرف۔‘‘
حاشیہ پر شاہ صاحب قدس سرہ فرماتے ہیں: ’’مترجم گوید یہودی کہ حاضر شوند نزول عیسیٰ علیہ السلام البتہ ایمان آرند۔‘‘
’’میں (حضرت شاہ صاحب) کہتا ہوں۔ اہل کتاب سے مراد وہ یہودی ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے زمانہ میں ہوں گے۔‘‘
۸… حضرت رئیس المحدثین آیت’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ کے متعلق فرماتے ہیں:
’’ وہر آئینہ عیسیٰ علیہ السلام نشان ہست قیامت را۔ ‘‘
’’بے شک عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہے۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
عقیدہ حیات عیسیؑ اور مجددین امت (امام شوکانیؒ کا عقیدہ)

عظمت شان:

قادیانی جماعت نے امام شوکانی صاحب کو بارھویں صدی کا امام اور مجدد تسلیم کر لیا ہے۔
(عسل مصفی ج۱ ص۱۶۵)
مجدد کی شان اور عظمت ہم قادیانی اصول سے اس باب کے شروع میں ظاہر کر چکے ہیں۔
اقوال امام شوکانیؒ

۱… ’’ تواترت الاحادیث بنزول عیسیٰ حیا جسماً ‘‘
(تفسیر فتح البیان ج۱)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم عنصری کے ساتھ نازل ہونے کے بارہ میں حدیثیں متواتر ہیں۔‘‘
۲… ’’ الاحادیث الواردۃ فی نزولہ متواترۃ ‘‘
(کتاب الاذاعۃ للشوکانیؒ)
’’یعنی وہ احادیث نبوی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بارہ میں آئی ہیں وہ متواتر ہیں۔‘‘
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top